significance of education of urdu language in alleviating contemporary economic and social standards
TRANSCRIPT
معاشی اور –دور حاضر میں اردو زبان و ادب
معاشرتی پس منظر میںمسعود رضوی: پیشکش
[email protected] :ایمیل
NATIONAL SEMINAR ON ROLE OF URDU
LANGUAGE AND LITERATURE IN
FOSTERING TOLERANCE AMONGST
YOUNG INDIA AND SIGNIFICANCE OF
EDUCATION OF URDU LANGUAGE IN
ALLEVIATING CONTEMPORARY
ECONOMIC AND SOCIAL STANDARDS
April 3, 2017 @ A K Singh College,
Japla, Palamu, Jharkhand, India
مقدمہ
!حاظرین آداب
ل سب سے پہلے میں متشکر ہوں اے کے سنگھ کالج کی انتظامیہ، پرنسپ
صاحب، اردو ڈپارٹمنٹ اور سیمینار سکریٹری ڈاکٹر فرحت نادر
رضوی صاحبہ کا کہ آپ نے مجھے یہاں مدعو کر کے عزت و توقیر
بخشی۔
بعدہ میں یہ واضح کرنا چاہوں گا کا میرے یہ چند بے ترتیب الفاظ اور
پراگندہ خیاالت کا محور آپ کے سیمینار کے عنوان کے دوسرے
حصے کے اردگرد ہوگا، اور وہ ہے
Significance of Education of Urdu Language in
Alleviating Contemporary Economic and Social
Standards
مقدمہ
ظاہر ہے اردو زبان کی تعلیم و تدریس کی افادیت و معنویت سے متعلق گفتگو ال محالہ پہلے خود اردو زبان کی افادیت اور معنویت سے شروع ہوگی۔ کہ آیا اپنی ارتقا کے
پر کوئی اثر ڈاال بھی ہے؟معاشی اور معاشرتی معیار دوران اردو زبان و ادب نے
موجودہ معاشی اور معاشرتی معیار پھر ہمیں اپنے ذہن میں یہ تصویر بنانی پڑے گی کہ ہیں کیا اور انکا پیمانہ کیا ہے؟
اجازت چاہوں گا کہ پہلے معاشی اور معاشرتی معیار کے پیمانوں پر دو لفظ کہہ دوں۔ آج معاشی معیار کا پیمانہ کسی ملک کی پیداوار جسے جی ڈی پی میں ناپتے ہیں، کے
ذریعہ متعین کیا جاتا ہے اور بے انتہا پر مسرت ہے یہ امر کہ ہمارے وطن عزیز میں جی ڈی پی کی شرح نمو قابل رشک حد تک بڑھی ہے۔
مگر معاشرتی معیار کا پیمانہ ہے اس پیداوار کی بندگان خدا کے بیچ عادالنہ تقسیم۔ کہاگر یہ نہ ہو میزان عدل بری طرح غیر متوازن ہے اور خوش حالی کے اعداد شمار
اتنے خوش کن نہیں جتنے وہ بظاہر دکھائی دے رہے ہیں۔
اردو زبان کے معاشی اور معاشرتی اثرات کا
جائزہ
چند گذارشا ت
اردو زبان کے معاشی اور معاشرتی اثرات کا جائزہ
یوں تو ہر زبان اور اسکا ادبی سرمایہ اپنے ماحول کے معاشی اور معاشرتی ماحول سے متاثر ہوا ہے اور اسے متاثر کرتا رہتا ہے مگر اس میدان میں
اردو زبان و ادب کا ا یک منفرد مقام ہے۔
اردو زبان بعض دوسری زبانون کی طرح خواص یا ایلیٹ طبقہ کی زبان نہ ہو کر عوام الناس کی زبان رہی ہے لٰہذا وہ عوام کے طرز زندگی، انکی معاشی
جدو جہد، انکے درمیان معاشرتی اور تمدنی جدال سے لے کر انکے لطیف جذبات کی بھرپور عکاسی بھی کرتی رہی ہےاور انہیں متاثر بھی کرتی رہی
ہے۔
یہ وہ خدمت ہے جسمیں تمام محبان اردو نے اپنے اپنے طریقہ سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ میں تو یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ ہم اس زمرے سے
اردو کے شاید کسی بھی شاعر، ادیب اور اہل قلم کو الگ نہیں کر سکتے خواہ وہ امیر خسرو ہوں یا نظیر اکبر آبادی، غالب ہوں یا اقبال، منشی پریم چند ہوں
یا علی سردار جعفری، اجتبٰی رضوی ہوں یا جمیل مظہری۔
اردو زبان کے معاشی اور معاشرتی اثرات کا جائزہ
اردو اپنی ارتقا کے کسی بھی مرحلے میں کسی خاص مذہب، ملت فرقے
ی یا نسل کی جاگیر نہ بن سکی اور اسکی ارتقا کی یہی تاریخ اسے باق
زبانوں سے ممیز بھی کرتی ہے اور اسپر یہ ذمہ داری بھی عاید کرتی
ہے کہ وہ دور حاظر کے معاشی اور معاشرتی منظر نامہ کی درست
اور پر اثر ترجمانی کے فرایض انجام دیتی رہے۔ میں اپنی کم علمی
کے پورے اعتراف کے باوجود یہ بھی کہنے کی جسارت کروں گا کہ
شاید کسی بھی دوسری ہندوستانی زبان نے مختلف مذاہب وملل کے
فکری و جذباتی سرمائے کو کسی ایک جگہہ اس خوبصورتی اور فراخ
دلی سے نہ سمویا ہو جیسے اردو نے سمویا ہے۔
اردو زبان کے معاشی اور معاشرتی اثرات کا جائزہ
میں ذاتی طور پر نہ تو شاعر ہوں نہ افسانہ نگار نہ ہی اردو زبان و ادب سے واقفیت رکھتا ہوں کہ آپ تمام ادبا و شعرا و اہل قلم حضرات کے
سامنے لب کشائی کی جسارت کر سکوں۔
میں تو معاشیات کا ایک ادنٰی طالب علم ہوں اور ایک دیوانہ صحرا نورد۔ میں یہاں صرف اس امید پر چال آیا ہوں کہ آپ ماہرین اردو کے سامنے
ایک فریادی کی حیثیت سے اپنے کچھ مشاہدات اور مکاشفات بیان کروں اور آپ سے یہ دست بستہ گذارش کروں کہ آپ اس سمت متوجہہ
ہوں اور اپنے قلم کے نشتر سے اس معاشرتی سرطان کا عالج کریں اور اس ظلم اور جرم کے خالف سماج کی عدالت میں استغاثہ پیش کریں جسکی طرف میں آپکی توجہہ مبذول کرانے جا رہا ہوں اور
:جلدی کریں
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے؟
آپ کے سامنے خود اپنی وکالت
میں ایک لفظ بھینہ کہتے ہوئے
میں منشی پریم چند جی کے
میں لکھنؤ 1936میں انجمن ترقی
پسند مصنفین کے پہلے اجالس میں
دئے گئے صدارتی خطبے سے ایک اقتباس
پیش کرنے کی جسارت کر رہا
ہوں۔
جائزہ ت کا
ی اثراشرت
ور معای ا
شے معا
ن کو زبا
ارد
دور حاظر کا معاشی اور معاشرتی پس منظر
چند مناظر
اس پس منظر سے ہم سب
واقف ہیں۔
مگر شاید بہتر ہوگا کہ اس
سلسے میں ایسے چند
نقوش پر نظر ڈال لی جائے
جو چیخ چیخ کر اس داغ
داغ اجالے اور شب گزیدہ
سحرکی شکایت کر رہے
ہیں جسے ہم وطن عزیز
کی آزادی کے نام سے
موسوم کرتے ہیں۔
یہ سارے نقوش خود میں
سے اب 2005نے سنہ
تک روشنیوں کے اس
شہرکی تاریک راہوں سے
جمع کئے ہیں جسے لکھنئو
کہتے ہیں.
ظرس من
ی پشرت
ور معای ا
شظر کا معا
حاور
د
یہ بنو آدم ہی ہیں نا، اور
ہماری ہی طرح ہندوستانی
بھی ۔۔۔۔۔۔۔؟
اس پس منظر سے ہم سب
واقف ہیں۔
مگر شاید بہتر ہوگا کہ اس
سلسے میں ایسے چند
نقوش پر نظر ڈال لی جائے
جو چیخ چیخ کر اس داغ
داغ اجالے اور شب گزیدہ
سحرکی شکایت کر رہے
ہیں جسے ہم وطن عزیز
کی آزادی کے نام سے
موسوم کرتے ہیں۔
یہ سارے نقوش خود میں
سے اب 2005نے سنہ
تک روشنیوں کے اس
شہرکی تاریک راہوں سے
جمع کئے ہیں جسے لکھنئو
کہتے ہیں.
ظرس من
ی پشرت
ور معای ا
شظر کا معا
حاور
د
یہ بنو آدم ہی ہیں نا، اور
ہماری ہی طرح ہندوستانی
بھی ۔۔۔۔۔۔۔؟
ی یہ بیٹیاں کس ک
ہیں؟ خدا نہ کرے
آپ کی تو نہیں نا
۔۔۔۔۔۔۔؟
اس پس منظر سے ہم سب
واقف ہیں۔
مگر شاید بہتر ہوگا کہ اس
سلسے میں ایسے چند
نقوش پر نظر ڈال لی جائے
جو چیخ چیخ کر اس داغ
داغ اجالے اور شب گزیدہ
سحرکی شکایت کر رہے
ہیں جسے ہم وطن عزیز
کی آزادی کے نام سے
موسوم کرتے ہیں۔
یہ سارے نقوش خود میں
سے اب 2005نے سنہ
تک روشنیوں کے اس
شہرکی تاریک راہوں سے
جمع کئے ہیں جسے لکھنئو
کہتے ہیں.
ظرس من
ی پشرت
ور معای ا
شظر کا معا
حاور
د
یہ بنو آدم ہی ہیں نا، اور
ہماری ہی طرح ہندوستانی
بھی ۔۔۔۔۔۔۔؟
ی یہ بیٹیاں کس ک
ہیں؟ خدا نہ کرے
آپ کی تو نہیں
۔۔۔۔۔۔۔؟
آپ کا پھیکا ہوا
کچرا انکا رزق
ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اس پس منظر سے ہم سب
واقف ہیں۔
مگر شاید بہتر ہوگا کہ اس
سلسے میں ایسے چند
نقوش پر نظر ڈال لی جائے
جو چیخ چیخ کر اس داغ
داغ اجالے اور شب گزیدہ
سحرکی شکایت کر رہے
ہیں جسے ہم وطن عزیز
کی آزادی کے نام سے
موسوم کرتے ہیں۔
یہ سارے نقوش خود میں
سے اب 2005نے سنہ
تک روشنیوں کے اس
شہرکی تاریک راہوں سے
جمع کئے ہیں جسے لکھنئو
کہتے ہیں.
ظرس من
ی پشرت
ور معای ا
شظر کا معا
حاور
د
آپ کا پھیکا ہوا
کچرا انکا رزق
ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاوں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
کیا آپ کبھی ایسے آرامدہ بستر پر محو خواب ہوئے ہیں؟ خدا نہ کرے۔۔۔
اس پس منظر سے ہم سب
واقف ہیں۔
مگر شاید بہتر ہوگا کہ اس
سلسے میں ایسے چند
نقوش پر نظر ڈال لی جائے
جو چیخ چیخ کر اس داغ
داغ اجالے اور شب گزیدہ
سحرکی شکایت کر رہے
ہیں جسے ہم وطن عزیز
کی آزادی کے نام سے
موسوم کرتے ہیں۔
یہ سارے نقوش خود میں
سے اب 2005نے سنہ
تک روشنیوں کے اس
شہرکی تاریک راہوں سے
جمع کئے ہیں جسے لکھنئو
کہتے ہیں.
ظرس من
ی پشرت
ور معای ا
شظر کا معا
حاور
د
آپ کا پھیکا ہوا
کچرا انکا رزق
ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاوں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
کیا آپ کبھی ایسے آرامدہ بستر پر محو خواب ہوئے ہیں؟ خدا نہ کرے۔۔۔
!غم ہستی کا عالج ۔۔
اس پس منظر سے ہم سب
واقف ہیں۔
مگر شاید بہتر ہوگا کہ اس
سلسے میں ایسے چند
نقوش پر نظر ڈال لی جائے
جو چیخ چیخ کر اس داغ
داغ اجالے اور شب گزیدہ
سحرکی شکایت کر رہے
ہیں جسے ہم وطن عزیز
کی آزادی کے نام سے
موسوم کرتے ہیں۔
یہ سارے نقوش خود میں
سے اب 2005نے سنہ
تک روشنیوں کے اس
شہرکی تاریک راہوں سے
جمع کئے ہیں جسے لکھنئو
کہتے ہیں.
ظرس من
ی پشرت
ور معای ا
شظر کا معا
حاور
د
آپ کا پھیکا ہوا
کچرا انکا رزق
ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاوں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
کیا آپ کبھی ایسے آرامدہ بستر پر محو خواب ہوئے ہیں؟ خدا نہ کرے۔۔۔
جوعمر سے ہم نے
بھر پایا، لو سامنے
الئے دیتے ہیں ۔۔۔۔
عالمی منظر نامہ
آج دنیا کی فیصد 50
دولت پر 1صرف
فیصد آبادی قابض ہے
99اور بقیہ فیصد آبادیکو صرف بچی ہوئی
فیصد 50ثروت پر
قناعت کرنی پڑتی ہے۔
ظرس من
ی پشرت
ور معای ا
شظر کا معا
حاور
د
آپ کا پھیکا ہوا
کچرا انکا رزق
ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاوں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
کیا آپ کبھی ایسے آرامدہ بستر پر محو خواب ہوئے ہیں؟ خدا نہ کرے۔۔۔
جوعمر سے ہم نے
بھر پایا، لو سامنے
الئے دیتے ہیں ۔۔۔۔
اوپر جو شکل نظر آ رہی ہے اسمیں گراف کے ذریعہ عالمی پیمانہ پر
ثروت کی تقسیم کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس گراف میں ال
پر دنیا ( وائ ایکسس)پر عالمی آبادی اور ما محور ( ایکس ایکسس)محور
کی کل ثروت یا مالی وسائل کو دکھایا گایا ہے۔ یہ شکل چونکہ احرام
مصری سے مشابہت رکھتی ہے اس لئے اسے ماہرین معاشیات احرام
کہتے ہیں۔( ویلتھ پرامڈ)ثروت
اس شکل کے دو حصے ہیں پہال نچال احرام نما -بغور مالحظہ فرمائں
فیصد عالمی 99حصہ جسے سبز تیروں سے نشان زد کیا گیا ہے۔ یہ
فیصد ثروت پر جا کر ختم ہو 50آبادی پر محیط ہے اور اسکی بلندی
فیصد وسائل پر قناعت 50فیصدی انسانوں کو صرف 99جاتی ہے یعنی
کرنی ہوتی ہے۔
دوسرا پتال سا منار نما حصہ اس احرام کی چوٹی سے اوپر کی طرف
فیصد عالمی آبادی ہے 1اٹھتا چال گیا ہے جسکی بنیاد کی وسعت صرف
فیصد وسائل پر قبضہ رکھتا ہے۔100فیسد سے 50اور یہ بلندی میں
اتنا ہی نہیں ثروت کے اس ارتکاز میں روزانہ ترقی ہوتی
جا رہی ہے یعنی زیادہ سے زیادہ
دولت کم سے کم
لوگوں کے پاس سمٹتی
چلی جا رہی ہے۔
ظرس من
ی پشرت
ور معای ا
شظر کا معا
حاور
د
آپ کا پھیکا ہوا
کچرا انکا رزق
ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاوں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
کیا آپ کبھی ایسے آرامدہ بستر پر محو خواب ہوئے ہیں؟ خدا نہ کرے۔۔۔
جوعمر سے ہم نے
بھر پایا، لو سامنے
الئے دیتے ہیں ۔۔۔۔
اوپر جو شکل نظر آ رہی ہے اسمیں گراف کے ذریعہ عالمی پیمانہ پر
ثروت کی تقسیم کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس گراف میں ال
پر دنیا ( وائ ایکسس)پر عالمی آبادی اور ما محور ( ایکس ایکسس)محور
کی کل ثروت یا مالی وسائل کو دکھایا گایا ہے۔ یہ شکل چونکہ احرام
مصری سے مشابہت رکھتی ہے اس لئے اسے ماہرین معاشیات احرام
کہتے ہیں۔( ویلتھ پرامڈ)ثروت
اس شکل کے دو حصے ہیں پہال نچال احرام نما -بغور مالحظہ فرمائں
فیصد عالمی 99حصہ جسے سبز تیروں سے نشان زد کیا گیا ہے۔ یہ
فیصد ثروت پر جا کر ختم ہو 50آبادی پر محیط ہے اور اسکی بلندی
فیصد وسائل پر قناعت 50فیصدی انسانوں کو صرف 99جاتی ہے یعنی
کرنی ہوتی ہے۔
دوسرا پتال سا منار نما حصہ اس احرام کی چوٹی سے اوپر کی طرف
فیصد عالمی آبادی ہے 1اٹھتا چال گیا ہے جسکی بنیاد کی وسعت صرف
فیصد وسائل پر قبضہ رکھتا ہے۔100فیسد سے 50اور یہ بلندی میں
یہ تب تک چلتا رہے گا جب تک دنیا ملٹن فریڈمین کے
نظریہ ارتکاز ثروت پر چلتی
رہے گی جسمیں وہ فرماتے ہیں
کہ کسی بھی کارپوریٹ
منیجر کا مقصد وحید صاحبان
حصص کی دولت کا زیادہ
سے زیادہ ارتکاز ہے۔
ظرس من
ی پشرت
ور معای ا
شظر کا معا
حاور
د
آپ کا پھیکا ہوا
کچرا انکا رزق
ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاوں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
کیا آپ کبھی ایسے آرامدہ بستر پر محو خواب ہوئے ہیں؟ خدا نہ کرے۔۔۔
جوعمر سے ہم نے
بھر پایا، لو سامنے
الئے دیتے ہیں ۔۔۔۔
اوپر جو شکل نظر آ رہی ہے اسمیں گراف کے ذریعہ عالمی پیمانہ پر
ثروت کی تقسیم کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس گراف میں ال
پر دنیا ( وائ ایکسس)پر عالمی آبادی اور ما محور ( ایکس ایکسس)محور
کی کل ثروت یا مالی وسائل کو دکھایا گایا ہے۔ یہ شکل چونکہ احرام
مصری سے مشابہت رکھتی ہے اس لئے اسے ماہرین معاشیات احرام
کہتے ہیں۔( ویلتھ پرامڈ)ثروت
اس شکل کے دو حصے ہیں پہال نچال احرام نما -بغور مالحظہ فرمائں
فیصد عالمی 99حصہ جسے سبز تیروں سے نشان زد کیا گیا ہے۔ یہ
فیصد ثروت پر جا کر ختم ہو 50آبادی پر محیط ہے اور اسکی بلندی
فیصد وسائل پر قناعت 50فیصدی انسانوں کو صرف 99جاتی ہے یعنی
کرنی ہوتی ہے۔
دوسرا پتال سا منار نما حصہ اس احرام کی چوٹی سے اوپر کی طرف
فیصد عالمی آبادی ہے 1اٹھتا چال گیا ہے جسکی بنیاد کی وسعت صرف
فیصد وسائل پر قبضہ رکھتا ہے۔100فیسد سے 50اور یہ بلندی میں
دوسری طرف پائے کے
سائنسداں مثاال پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ یہ مانتے
ہیں کہ اگر جوہری جنگ نہ
بھی ہوئی تو بھی وسائل کے
بے تحاشہ استحصال کے نتیجے میں کرہ
سال 200ارض کے اندر سانس لینے کے قابل
نہیں رہ جائےگا۔
ظرس من
ی پشرت
ور معای ا
شظر کا معا
حاور
د
آپ کا پھیکا ہوا
کچرا انکا رزق
ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاوں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
کیا آپ کبھی ایسے آرامدہ بستر پر محو خواب ہوئے ہیں؟ خدا نہ کرے۔۔۔
جوعمر سے ہم نے
بھر پایا، لو سامنے
الئے دیتے ہیں ۔۔۔۔
اوپر جو شکل نظر آ رہی ہے اسمیں گراف کے ذریعہ عالمی پیمانہ پر
ثروت کی تقسیم کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس گراف میں ال
پر دنیا ( وائ ایکسس)پر عالمی آبادی اور ما محور ( ایکس ایکسس)محور
کی کل ثروت یا مالی وسائل کو دکھایا گایا ہے۔ یہ شکل چونکہ احرام
مصری سے مشابہت رکھتی ہے اس لئے اسے ماہرین معاشیات احرام
کہتے ہیں۔( ویلتھ پرامڈ)ثروت
اس شکل کے دو حصے ہیں پہال نچال احرام نما -بغور مالحظہ فرمائں
فیصد عالمی 99حصہ جسے سبز تیروں سے نشان زد کیا گیا ہے۔ یہ
فیصد ثروت پر جا کر ختم ہو 50آبادی پر محیط ہے اور اسکی بلندی
فیصد وسائل پر قناعت 50فیصدی انسانوں کو صرف 99جاتی ہے یعنی
کرنی ہوتی ہے۔
دوسرا پتال سا منار نما حصہ اس احرام کی چوٹی سے اوپر کی طرف
فیصد عالمی آبادی ہے 1اٹھتا چال گیا ہے جسکی بنیاد کی وسعت صرف
فیصد وسائل پر قبضہ رکھتا ہے۔100فیسد سے 50اور یہ بلندی میں
لٰہذا موصوف نسل انسانی کی بقا اس
بات پر منحصر
مانتے ہیں کہجلد از جلد کوئی اور
قابل رہائش سیارہ خالئے
بسیط مین تالش کر کے
آباد کر لیا جائے۔
ظرس من
ی پشرت
ور معای ا
شظر کا معا
حاور
د
آپ کا پھیکا ہوا
کچرا انکا رزق
ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاوں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
کیا آپ کبھی ایسے آرامدہ بستر پر محو خواب ہوئے ہیں؟ خدا نہ کرے۔۔۔
جوعمر سے ہم نے
بھر پایا، لو سامنے
الئے دیتے ہیں ۔۔۔۔
اوپر جو شکل نظر آ رہی ہے اسمیں گراف کے ذریعہ عالمی پیمانہ پر
ثروت کی تقسیم کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس گراف میں ال
پر دنیا ( وائ ایکسس)پر عالمی آبادی اور ما محور ( ایکس ایکسس)محور
کی کل ثروت یا مالی وسائل کو دکھایا گایا ہے۔ یہ شکل چونکہ احرام
مصری سے مشابہت رکھتی ہے اس لئے اسے ماہرین معاشیات احرام
کہتے ہیں۔( ویلتھ پرامڈ)ثروت
اس شکل کے دو حصے ہیں پہال نچال احرام نما -بغور مالحظہ فرمائں
فیصد عالمی 99حصہ جسے سبز تیروں سے نشان زد کیا گیا ہے۔ یہ
فیصد ثروت پر جا کر ختم ہو 50آبادی پر محیط ہے اور اسکی بلندی
فیصد وسائل پر قناعت 50فیصدی انسانوں کو صرف 99جاتی ہے یعنی
کرنی ہوتی ہے۔
دوسرا پتال سا منار نما حصہ اس احرام کی چوٹی سے اوپر کی طرف
فیصد عالمی آبادی ہے 1اٹھتا چال گیا ہے جسکی بنیاد کی وسعت صرف
فیصد وسائل پر قبضہ رکھتا ہے۔100فیسد سے 50اور یہ بلندی میں
اب آپ سمجھے
خالئی تحقیقات پر
اس قدر سرمایہ
کیوں صرف کیا جا رہا
ہے؟
کتنا رومان پرور تصور ہے ایک نئی
دنیا ایک !عالم جدید۔۔۔
ظرس من
ی پشرت
ور معای ا
شظر کا معا
حاور
د
آپ کا پھیکا ہوا
کچرا انکا رزق
ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاوں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
کیا آپ کبھی ایسے آرامدہ بستر پر محو خواب ہوئے ہیں؟ خدا نہ کرے۔۔۔
جوعمر سے ہم نے
بھر پایا، لو سامنے
الئے دیتے ہیں ۔۔۔۔
اوپر جو شکل نظر آ رہی ہے اسمیں گراف کے ذریعہ عالمی پیمانہ پر
ثروت کی تقسیم کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس گراف میں ال
پر دنیا ( وائ ایکسس)پر عالمی آبادی اور ما محور ( ایکس ایکسس)محور
کی کل ثروت یا مالی وسائل کو دکھایا گایا ہے۔ یہ شکل چونکہ احرام
مصری سے مشابہت رکھتی ہے اس لئے اسے ماہرین معاشیات احرام
کہتے ہیں۔( ویلتھ پرامڈ)ثروت
اس شکل کے دو حصے ہیں پہال نچال احرام نما -بغور مالحظہ فرمائں
فیصد عالمی 99حصہ جسے سبز تیروں سے نشان زد کیا گیا ہے۔ یہ
فیصد ثروت پر جا کر ختم ہو 50آبادی پر محیط ہے اور اسکی بلندی
فیصد وسائل پر قناعت 50فیصدی انسانوں کو صرف 99جاتی ہے یعنی
کرنی ہوتی ہے۔
دوسرا پتال سا منار نما حصہ اس احرام کی چوٹی سے اوپر کی طرف
فیصد عالمی آبادی ہے 1اٹھتا چال گیا ہے جسکی بنیاد کی وسعت صرف
فیصد وسائل پر قبضہ رکھتا ہے۔100فیسد سے 50اور یہ بلندی میں
پر جب اور اگر وہ دن آئے گا تو
اس غرق ہوتی کشتی سے اس
اجڑتی دنیا سے عالم نجات تک
رسائی پانے والوں میں کیا ہم
اور آپ شامل ہوں گے یا اس
گراف کے باالئی منارے
فیصد یا 1والے انمیں سے چند
افراد ۔۔۔۔؟
ظرس من
ی پشرت
ور معای ا
شظر کا معا
حاور
د
آپ کا پھیکا ہوا
کچرا انکا رزق
ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاوں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
کیا آپ کبھی ایسے آرامدہ بستر پر محو خواب ہوئے ہیں؟ خدا نہ کرے۔۔۔
جوعمر سے ہم نے
بھر پایا، لو سامنے
الئے دیتے ہیں ۔۔۔۔
اوپر جو شکل نظر آ رہی ہے اسمیں گراف کے ذریعہ عالمی پیمانہ پر
ثروت کی تقسیم کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس گراف میں ال
پر دنیا ( وائ ایکسس)پر عالمی آبادی اور ما محور ( ایکس ایکسس)محور
کی کل ثروت یا مالی وسائل کو دکھایا گایا ہے۔ یہ شکل چونکہ احرام
مصری سے مشابہت رکھتی ہے اس لئے اسے ماہرین معاشیات احرام
کہتے ہیں۔( ویلتھ پرامڈ)ثروت
اس شکل کے دو حصے ہیں پہال نچال احرام نما -بغور مالحظہ فرمائں
فیصد عالمی 99حصہ جسے سبز تیروں سے نشان زد کیا گیا ہے۔ یہ
فیصد ثروت پر جا کر ختم ہو 50آبادی پر محیط ہے اور اسکی بلندی
فیصد وسائل پر قناعت 50فیصدی انسانوں کو صرف 99جاتی ہے یعنی
کرنی ہوتی ہے۔
دوسرا پتال سا منار نما حصہ اس احرام کی چوٹی سے اوپر کی طرف
فیصد عالمی آبادی ہے 1اٹھتا چال گیا ہے جسکی بنیاد کی وسعت صرف
فیصد وسائل پر قبضہ رکھتا ہے۔100فیسد سے 50اور یہ بلندی میں
میں نے اپنی کتاب
ٹائٹننگ ‘نوز آف میں ’ پاورٹی
انکے لئے خوابناک
اور ہمارے لئے ہولناک
اس منظر کی تصویر
کشی اسطرح کی
ہے ۔۔۔۔
ظرس من
ی پشرت
ور معای ا
شظر کا معا
حاور
د
آپ کا پھیکا ہوا
کچرا انکا رزق
ہے ۔۔۔۔۔۔۔
عالج؟
عالج کیا ہے؟
عالج ہے اس خطرے سے ہر خاص و عام کو روشناس کرا دینا۔
قبل اسکے کہ بہت دیر ہو چکی ہو۔
اور یہ آپ تمام اہل زبان، اہل دانش، اہل
قلم اہل سخن حضرات کی فوری ذمہ داری ہے۔۔۔ سو تمام ارباب
حل و عقد کی ذمہ اردو داری ہے کہ
زبان کی زیادہ سے تعلیم و تدریس کا
انتظام کر کے اس زبان کے بہترین قلمکار پیدا کریں
بو اد
ن و زبا
ں اردضر می
حاور
د
آپ کا پھیکا ہوا
کچرا انکا رزق
ہے ۔۔۔۔۔۔۔
کوئے ستم کی خامشی آباد کچھ تو ہو
کچھ تو کہو ستم کشو، فریاد کچھ تو ہو
بیداد گر سے شکوہء بیداد کچھ تو ہو
بولو، کہ شوِر حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
مرنے چلے تو سطوِت قاتل کا خوف کیا
اتنا تو ہو کہ باندھنے پائے نہ دست و پا
مقتل میں کچھ تو رنگ جمے جشِن رقص کا
رنگیں لہو سے پنجۂ صیاد کچھ تو ہو
د کچھ تو ہو خوں پر گواہ دامِن جالا
جب خوں بہا طلب کریں ، بنیاد کچھ تو ہو
گرتن نہیں ، زباں سہی، آزاد کچھ تو ہو
دشنام، نالہ، ہاؤ ہو، فریاد کچھ تو ہو
چیخے ہے درد، اے دِل برباد کچھ تو ہو
بولو کہ شوِر حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
بولو کہ روِز عدل کی بنیاد کچھ تو ہو
شکریہ
بو اد
ن و زبا
ں اردضر می
حاور
د
آپ کا پھیکا ہوا
کچرا انکا رزق
ہے ۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ