بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

96
ی ھ ٹ ر می ان ی ب اور ات ی ح ۔ ت ی ص خ ش ن ی دو ت رف ش ن ی الدؔ ل ح سا

Upload: aijazubaid9462

Post on 27-Jul-2015

121 views

Category:

Documents


4 download

DESCRIPTION

http://kitaben.urdulibrary.org/AllBooks.html.

TRANSCRIPT

Page 1: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

۔ حیات اور شخصیتبیان میرٹھیتدوین

ل� الدین شرف ساح

Page 2: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

انتساب

غالبیات رر ماہ

جناب کالی داس گپتا رضا

اور

مخلص ادیب

جناب شانتی رنجن بھٹاچاریہ

کی نذر

جنہوں نے میری ہمیشہ ہمت افزائی کی۔

Page 3: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

سچائی کا اعتراف

تحقیق کے کی ادبی ، علمی و ثقافتی تاریخ کی ترتیب و تالیف کے شوق میں جب میں نے ناگپور ء۔۱۸۵۰شماروں میں بیان میرٹھی ) میدان میں قدم رکھا تو مجھ کو ماہنامہ جلوۂ یار میرٹھ کے مختلف

آایا۔ یہ اتنا۱۹۰۰مارچ ۱۳ مؤثر اور جامع تھا کہ میں اس شاعر کی تلاش میں بھی ء (کا کلام نظر کے بعد کافی مواد حاصل کیا۔ ا اور کوششوںہو گیمصروف

ء میں شائع ہوئی۔ یہ ادبی دنیا۱۹۸۰میرٹھی، حیات و شاعری بیان میرٹھی پر میری پہلی کتاب: بیان بیان ش اردو اکادیمی نے انعام سے نوازا۔ دوسری کتاباتر پردیاس کو مہاراشٹر اور میں مقبول ہوئی۔ آاراستہ ہوئی۔ اسے بھی ادبیزیورء میں ۱۹۹۸میرٹھی اور غالب حلقے میں پسند کیا گیا۔ اس طبع سے

سرفراز کیا۔ مہاراشٹر اردو اکادیمی نے اس کی پچاس کو بھی اتر پردیش اردو اکادیمی نے انعام سے ء میں چھپی۔ اسے۲۰۰۰کیں۔ تیسری کتاب بیان میرٹھی کی جدید نظمیں ں خرید کر تقسیمجلدیا اور مدحیہ نظموں قبولیت کی سند ملی۔ یہ کتاب بیان کی نیچرل، قومی، اخلاقی، عشقیہ، رثائیہ بھی

میرٹھ کے متعلق نظموں پر مشتمل ہے۔نو چندیکے علاوہ قصائد، مثنویات، تضمینات، رہا ہوں۔ اس میں بیان کی غزلیں، اب میں بیان میرٹھی کا دیوان شائع کر

کی جدید نظموں کی طرح انھیں بھی میں نے رباعیات، قطعات، نوحے اور سہرے وغیرہ ہیں۔ بیان جلوۂ یار میرٹھ اور بیان میرٹھی کے شاگرد خان بہادر شیخ بشیر ماہنامہ لسان الملک میرٹھ، ماہنامہ

غیر میرٹھی کے صاحبزادے بھیا غیاث الدین مرحوم کے کتب خانے میں موجود بیان کے الدین تسخیر

Page 4: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

ہے وہ قلمی مسودے مطبوعہ کلام کی روشنی میں ترتیب دیا ہے۔ جس کلام کے نیچے حوالہ نہیں سے لیا گیا ہے۔

لل۱۸۸۵مختلف اوقات میں عطر مجموعہ نعت ) بیان کی نعتیہ شاعری کے دو مجموعے ء( اور قندی شائع ہوئے۔ اول الذکر کے مرتب بیان اور ثانی الذکر کے مرتب ڈاکٹر سید ء( کے نام سے۱۹۷۴حرم )

سلام اور ہیں۔ لیکن ان دونوں مجموعوں میں صرف نام کا فرق ہے۔ اسی طرح بیان کے حسینصفدر لv شہادت بیان کے ایک شاگرد سید محمود علی کے گرامی نے مرتب کر مرثیے کا مجموعہ: رن

نو ترتیب دے کر سر ء میں از۱۹۷۴ نے حسینء میں چھپوایا تھا۔ اسی کو ڈاکٹر سید صفدر ۱۹۱۹ کا کوئی کلام دیوان میں شامل نہیں کیا ہے۔ یہ دونوں شائع کروایا اس لیے میں نے ان دونوں مجموعوں

نے بیان کی غزلوں کا ایک مختصر مجموعہ حسینہیں۔ ڈاکٹر سید صفدر مجموعے میرے پاس موجودلش لس خمسہ بھی بھی نق ہے۔ لیکن بیان کے نام سے شائع کروایا ہے۔ اس میں ان کی ایک مثنوی حوا

لش بیان کا نسخہ مجھ کو نہ مل سکا۔ اس کا مجھ کو بے حد افسوس کافی کوششوں کے باوجود نقہے۔

مرتب کیا تھا۔ وہ برسوں سے اشاعت کا منتظر رہا۔ اب میں نے اپنی کوششوں سے بیان کا جو دیوانلف بینائی آایا کہ کیوں نہ اسے شائع کر جبکہ میں ضع عام پرل کے منظر کا بری طرح شکار ہوں۔ خیال ہہذا لادوں تاکہ یہ محفوظ ہو لل ادب بھی اس سے استفادہ کر سکیں ل رہا ہوں۔ اسے چھپوا جائے اور اہ

غلطیاں بھی ہوں لیکن اب میں اس میں اضافے کی بہت گنجائش ہے۔ ممکن ہے اس میں بے شمار ہوں۔ انھوںنڈاکٹر مدحت الاختر کا بے انتہا ممنو برادرم مزید تلاش و تحقیق کرنے سے مجبور ہوں۔

م محمد رفیع الدین اور عزیزم ثاقب انجم کا بھینور چشقبول کی۔ نے پروف ریڈنv کی ذمے داریان دونوں نے اس کی کمپوزنv اور تزئین و اشاعت میں میری مدد فرمائی۔ مشکور ہوں۔

ناچیز شرف الدین ساحل

Page 5: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

ء۲۰۰۵اگست ۲ناگپور

Page 6: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

بیان میرٹھی

ے انشاءپرداز تھے۔ میںاور اچھشاعر، بہترین صحافی ایک استادےبیان میرٹھی انیسویں صدی ک ہوں۔ میری کتاب:بیان میرٹھی حیات و رہا سال سے تحقیق کر۳۶ گزشتہ شاعری پر ان کی زندگی و

ء اور بیان۱۹۹۷غالب کتابیں:بیان میرٹھی اور اور میں شائع ہوئی۔اس کے بعد دو ء۱۹۸۰ شاعری شرف حاصل ہو دیوان شائع کرنے کا آائیں۔ اب ان کا عام پرل ء منظر ۲۰۰۰ نظمیں میرٹھی کی جدید

معلومات حاصل ہوئی ہیں ان رہا ہے۔اس طویل عرصے میں مجھ کو بیان کی زندگی کے متعلق جو نئیلر کو بیان کے ان حالات میں شامل کر میری کتاب بیان میرٹھی ہے جو گیا کیا تیار مضمون نظر کے زی

ہے۔اس اضافے سے بیان کی زندگی اور ان کی شخصیت شاعری میں باب اول کے تحت حیات وہوتے ہیں۔ کے کئی نئے گوشے نمایاں

خاندانآابا شہر کے رہنے والے تھے۔ایسا کہا جارچہ، ضلع بلند اجداد، سادات کی قدیم بستی و بیان کے

ء( نے بیان کے مورث اعلا سید۱۲۸۷شہنشاہ غیاث الدین بلبن )وفات: جاتا ہے کہ اس علاقے کو(۱تھا۔ ) کیاا عط پر کے طور جاگیر محمود کو

تھے۔ ان کے صاحب کے نام سے مشہور لوگوں میں میر جو نام سید گوہر علی تھا، بیان کے والد کا(۲تھا: ) تھا۔ بیان نے اپنے والد کے نام کا سجع کہا کرامت علی نام سید والد کا

لر کرامت کا علی گوہر بح

Page 7: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

مکا الزا سات انگریزوں کے قتل گوہر علی کے خاندان پر کے انقلاب کے زمانے میں سید ء۱۸۵۷آابائی وطن کو میرٹھ میں سکونت کر چھوڑ تھا۔چنانچہ اس مصیبت سے بچنے کے لیے انھوں نے اپنے

سید نتھن کی مسجد کے قریب تھا۔ ڈاکٹر مکان محلہ کرم علی میں شاہ لی تھی۔ ان کا کر اختیار(۳روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ) نے مذکورہ واقعہ پر تفصیل سے حسین صفدر

خطہ تھا جہاں رضوی سادات مردم خیز قصبہ خاصا ایک شہر کے ضلع میں جارچہ نام کا بلند’’آازادی کے دوران، وہاں کے سادات پر۱۸۵۷ تھے۔ لیکن متمول اور ذی اقتدار vسات ء کی جن

لی گئی تھیں۔ اس الزام تھا۔ اس لیے ان کی املاک بحق سرکار ضبط کر کا انگریزوں کے قتل کرنے اور جائیداد کا کچھ حصہ، باغپت، ضلع میرٹھ کے ایک رئیس راؤ خورشید علی خان نے ضبط شدہ

لل ملکیت کے لیا حصہ دلی کے ایک جوہری سلطان سنگھ نے خریدباقی نتیجے میں وہاں تھا۔ تبدیلت کا کے سادات کے پاس سوائے کاشتکاری کے کوئی اور وسیلہ معاش نہ تھا۔ اس لیے انھوں نے عز

آابائی وطن کو کر ر کے شہروں میں سکونت اختیارو جواکہہ کر قرب خیرباد نفس کے خیال سے اپنے گوہر علی رضوی کا بھی تھا، جس کے خانوادوں میں ایک گھرانا سید لی تھی۔ ہجرت کرنے والے ان

‘‘گئے تھے۔ میں اقامت گزیں ہو شہر افراد میرٹھ رئیس سید عمر دراز علی )ڈپٹی کلکٹر( کی صاحبزادی موضع الدن، ضلع میرٹھ کے سید گوہر علی کا

ادبی خاندان سے تھا۔اس خاندان میں کئی اور علمی و تعلق شرفا کا جن تھا سے عقد ہوا جہاں بانوآاگرہ ، کالپی اور جھانسی میں اعلا اور وابستۂ سرکار تھے۔سید عمر اصحاب رئیس منصب دراز علی

بھی اعلا تعلیم یافتہ ء میں رحلت فرمائی۔ان کے بیٹے سید مہدی علی۱۸۶۰فائز رہے۔ انھوں نے پر کے مرتبے تک پذیر رہے۔ ڈپٹی کلکٹر تھے۔ وہ بسلسلۂ ملازمت یوپی مختلف شہروں میں سکونت

ء میں گورکھپور میں انتقال ہوا۔ان کی تصنیف۱۹۰۵ پہنچ کر ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ان کا(۴ے۔)چلتا ہہ کا پتمرتبے شہاب ثاقب سے ان کے علمی

Page 8: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

راشد تخلص اور ے۔ وہ تنہاشاعر تھاچھے سید عمر دراز علی کے بھائی سید کفایت علی ایک پنجاب کے کو رہے۔ بعدمیر منشیمحافظ دفتر و کے ڈکیتیکرتے تھے۔ محکمہ انسداد ٹھگی و

و سپرنٹنڈنٹ کمشنری رہے۔ انھوں نےمیر منشی میں و دہلی رشتہ دار اور پھر پنجاب ضلع کے سر سال کی عمر میں ۵۵ء کو ۱۸۶۹ء میں پنشن پائی۔ یکم اکتوبر ۱۸۶۸بعد سال کی ملازمت کے ۳۳

لت فرقانی کے ساتھ شائع اور میرٹھ میں دفن ہوئے۔ان کا وفات پائی لن اردو، کلیا (۵ہے۔) چکا ہو دیوا ء(۱۸۳۶فرقانی میرٹھی )پیدائش : سید احمد حسن پایہ شاعر بلند م اور جید عالاردواور فارسی کے

و میں خط اور فرقانیمجلس تھے۔ غالب ر و ہمہم عصانھی کے بیٹے تھے۔ فرقانی غالب کے ۱۴سال کی عمر میں ۴۷نام ملتے ہیں۔انھوں نے ط ان کےدو خطوت بھی تھی۔ غالب کے کتابآابائی قبرستان میں سپرد خاک کئے گئے۔منشی سجاد اور ء کو وفات پائی۱۸۸۳ستمبر میرٹھ میں اپنے ھ(۱۲۸۱روحانی )پیدائش: حسینھ( اور منشی کرار ۱۳۰۰ھ۔۔ وفات:۱۲۶۸ریحانی )پیدائش حسین

(۶دونوں فرقانی ہی کے بیٹے تھے۔) ر رکھتے تھے۔ انھیںپر عبوم متداولہ اور علوعلمی صلاحیت کے مالک تھے علی خاصی سید گوہر

ان سے بڑی محبت تھی۔ ایک مرتبہ جب ہ مزاولت تھی۔حضرت فرقانی کوحد درجسے بھی شاعریآابائی وطن جارچہ تشریف لے گئے ا، جس میںلکھا تھ نے انھیں ایک خطتو فرقانیوہ میرٹھ سے اپنے

:کے متعلق یہ قطعہ بھی تھا تھا۔ اسی خط میں ان کیا اظہار اپنے تاثرات کا ان کی جدائی پربخشد صدف را ابرنیسانی ازاں روزیکہ در

لر سیادت چوں تو نیامد در لف بح یک گوہر کل� چہ پرسی ماجرائے من کہ از لق تو رن فرا

سوراخ است چوں رشتہ تنم لاغر لولو دلم چو فرقانی کو تضمینشعر اور ے کہ گوہر علی نے کچھ ہوتا ہفرقانی کے ایک خط سے یہ معلوم انشائے

(۷تھا۔) دیا کر کے واپس اصلاح کی غرض سے بھیجی تھی، جسے انھوں نے درست کر

Page 9: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

بیان نے یہ کر ء کو میرٹھ میں ہوا۔والد کی موت سے متاثر ہو۱۸۹۳مارچ ۸ل کا انتقاعلی سید گوہر(۹اشعار کہے ہیں: )

لج جہاں خالی ہوا گوہر شہوار سے برآاسماں خالی ہوا لج شرف سے لر او یی ن

آاتا ہے ویرانے کی طرح لم خاکی نظر عالکیا کہوں کیسے مکیں سے یہ مکاں خالی ہوا

کیوں نہ ہو تاریک عالم، دیدۂ مشتاق میںلع دودماں سے دودماں خالی ہوا لر شم نولر لشکر سے ہوا لشکر تباہ لت سالا رحلرہنمائے کارواں سے کارواں خالی ہوا

لر زینت ہم لن جنت ہوا، معمو صفیر گلشلل دستار سے ہر بوستاں خالی ہوا اس گ

ھھپتےاس کے لہ عزاچ لہ شعباں ہوا ما ہی ممومنیں کو عید کا چاند اے بیاں خالی ہوا

آاٹھ بیٹے تھے: ) سید گوہر ہی بیان یزدانی، ) ( سید محمد۲، ) حسین( سید اصغر۱علی کے (۳مرتض ( سید۷( سید محمد، )۶( سید ابوالحسن، )۵( سید سلطان الحق، )۴یعسوب الدین، ) سید

آاغا( ۸حسین شرف ) آاغا۔ سید علی تھا۔ بیان یزدانی، سید گیا انتقال عین جوانی میں والد کی زندگی ہی میں ہو کا ان میں سید محمد

آاغا آاغا کو ابوالحسن اور سید عہدوں تک پہنچے۔ سید اصغر کر باقی تمام بھائی معزز چھوڑ علی عدالت میرٹھ میں ہیڈ کلرک رہے۔ سید یعسوب الدین ضلع جالون میں امین کونچ کے عہدےحسین

Page 10: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

میں سپرنٹنڈنٹ ہوئے۔اپنے ماموں سید مہدی ز ہوئے۔ سید سلطان الحق دفتر کلکٹری گورکھپورپر فائ(۱۰علی کے داماد تھے۔ سید حسین شرف علی گڑھ میں نائب تحصیلدار تھے۔ )

ے لکھے تھے۔ عربیوالد پڑھ نانا اور ل تھا۔ مالا مان علمی اور ادبی لحاظ سے کا خانداغرض بیان لب فضل انھیں پوری طرح دسترس حاصل تھی۔ ماموں تعلیم یافتہ اور اور فارسی پر ل تھے۔و کماصاح

آاغا ق تھا۔کا شوبھی شاعری سید حسین شرف کوآاغا اور علی تمام بھائی پڑھے لکھے تھے۔سید ے۔ سید محمد عربی اور فارسی کے عالم تھے۔بیانہوا ہلسان الملک میں ان کا کچھ کلام شائع

ہے۔ شاہد زبان میں ان کی لکھی ہوئی تقریظ اس حقیقت پرپر عربیمجموعۂ نعت‘‘ ’’عطر کی کتاب ء( اس خاندان کے۱۹۳۵جنوری ۲۱ء، وفات:۱۸۹۷الاسلام عیاں میرٹھی )پیدائش: سید ضیا

ن کے سگے بھتیجےاور بیاء( کے بیٹے ۱۹۰۷ ہیں۔ یہ سلطان الحق )ف:گزرےآاخری نامور شاعر لم عیاں‘‘ کے نام سے سول اینڈ۱۹۵۶مجموعۂ کلام تھے۔ ان کا ملٹری پریس، راولپنڈی ء میں ’’کلا

ہے۔ چکا )پاکستان( سے شائع ہو ہے جو راولپنڈی )پاکستان( میں چلتا بھی پتا اس خاندان کی ایک نام لیوا رابعہ خاتون نہاں میرٹھی کا

مقیم تھیں۔ یہ صفی صاحب کی بیٹی ہیں۔ صفی رشتے میں بیان یزدانی کے یک جدی بھائی تھے۔ ے خاندان سے تھے۔ اسی لیے بعض تذکروں میںچچا کیعنی وہ کرامت علی )بیان کے دادا( کے

ء تک میرٹھ ہی میں۱۹۴۷بیان کے خاندان کے لوگ ( ۱۱ہے۔) گیا ن کی بھتیجی کہاکو بیانہاں آازادی کے بعد یہ لوگ پاکستان منتقل ہو لی۔ کر ں مستقل سکونت اختیاراور وہیگئے آاباد تھے۔

ولادتہی تھا۔ نام سید محمد پورا بیان کا اااردو میمرتض ں بیان اور فارسی میں یزدانی تخلص کرتے تھے۔مذہب

اا ان کی پیدائش ان کے( ۱۲ے۔)ملتا ہسے اثنا عشری شیعی تھے۔سلسلۂ نسب حضرت امام رض تھی، جواس وقت جھانسی )بندیل کھنڈ( میں ڈپٹی کلکٹرپر ہوئینانا سید عمر دراز علی کے مکان

Page 11: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

ا حصہکا بڑ اور زندگیو نما پائی انھوں نے میرٹھ میں نشو ے۔ لیکن بعد کومامور تھکے عہدے پر (۱۳ں گزارا، اس لیے میرٹھی کہلائے۔)شہر میبھی اسی

لخ ولادت معلوم نہ ہو سکی۔ بعض کتب و رسائل میں صرف باوجود تحقیق بسیار بیان کی صحیح تاریلش نظر لل ولادت کے اشارے ملتے ہیں۔ ان میں بھی کافی اختلافات ہیں۔ہمارے پی ذ ہیں،جو ماخسا

ان کی تفصیل دیکھئے:ء۱۸۴۰ء قاموس المشاہیر ۱۸۴۰ل( جلد او۔ خم خانۂ جاوید )۱ء۱۸۴۶م( جلد دو۔ مراۃ الشعرا )۲آاج کل،نئی دہلی ستمبر ۳ آاج کل،نئی دہلی اگست ۱۸۵۰ ء۱۹۷۰۔ ماہنامہ ء ۱۸۵۰ء ۱۹۹۲ء ماہنامہ

ء۱۸۵۰ حسین سید صفدر ء قندیل حرم مرتبہ ڈاکٹر۱۸۵۰ حسین سید صفدر ڈاکٹر رنv شہادت ازء۱۸۵۶ء ۱۹۵۰ستمبر۴ء روزنامہ امروز، کراچی، ۱۸۵۶ء ۱۹۱۳۔ماہنامہ العصر، لکھنو، اگست ،ستمبر۴لن ولادت قیاس اور پن�ء اول،دوم ۱۸۶۰ء ۱۹۰۴۔ ماہنامہ مخزن، لاہور،مارچ ۵ ہے، ملاحظہپر مبنیم س:ہوء میں بمقام میرٹھ انتقال کیا۔ )خم خانہ جاوید(۱۹۰۰ کر پا ( ساٹھ سال کے قریب عمر۱) ء۱۸۴۶۔ اس لحاظ سے تاریخ ولادت عمر ہوئی برس کی ۵۴ ء میں انتقال فرمایا اور ۱۹۰۰( مارچ ۲)

ہوتی ہے۔)مراۃ الشعرا(اا چالیس سال کے سن میں ۳) چھوڑصدر نشینیو زبان کی شاعری کی کو اردء ۱۹۰۰مارچ ۱۳( تقریب

ہمیشہ کی تنہائی اختیار کی۔ )ماہنامہ مخزن( کر:یہ قیاسات مندرجہ ذیل حقائق کی روشنی میں غلط ثابت ہوتے ہیں

پر سید عمر دراز علی کے مکان ق ہیں کہ بیان کی پیدائش ان کے ناناپر متفاس بات ( سب۱) میرٹھی کے تذکرے میں ے۔ علی جواد زیدی نے فرقانیکلکٹر تھہوئی جواس وقت جھانسی میں ڈپٹی

اا ز علی اور ان کے بھائی کفایت علیعمر درالکھا ہے کہ ء کے مابین بسلسلۂ۱۸۵۰ء سے ۱۸۴۰غالب

Page 12: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

آاگرہ میں مقیم رہے۔ اس آائے اورہو کعلی ٹرانسفر دراز ں عمراثنا می ملازمت آاگرہ سے جھانسی ر (۱۴پور )پنجاب( گئے۔) کفایت علی فیروز

ء میں وفات پائی۔ ان کی وفات کے بعد۱۸۶۰ دراز علی نے ( اس بات پربھی اتفاق ہے کہ سید عمر۲)آائے۔) بیان اپنے خاندان کے افراد کے (۱۵ساتھ جھانسی سے میرٹھ

لل ان حقائق کی روشنی میں بیان کا ر رہ جاتا ہے۔ہو کء غلط ۱۸۶۰ء اور ۱۸۴۶ء، ۱۸۴۰ولادت سا نگار مقالہ نگار پیارے لال شاکر میرٹھی اور روزنامہ امروز،کراچی کے مقالہ ماہنامہ العصر،لکھنو کے

ہوئے ایک واقعے سے ہوتی ے۔ اس کی تردید خود انھیں کے بتائےبتایا ہسال پیدائش بندہ نے جو خدا:ہے۔ دیکھئے

لل ذکر چٹا گورا رنv ( بیان بہت خوبصورت تھے اور ۱) تھا۔ اس کے متعلق ایک دلچسپ واقعہ قابلم طفلی امان کا جنازہ ملک سے اٹھ چکا تھا جب کہ امن و ہے۔ غدر کے زمانے میں سید بیان کو بعال

جماعت سے پڑا۔ اتفاق سے راستے میں باغیوں کی ایک ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانا کہیں روپئے لے یڑھ سوڈاور کر لیا بچہ سمجھ کر گرفتار گئی۔ ان نامرادوں نے انھیں انگریز کا بھیڑ ہو مڈچھوڑا۔)ماہنامہ العصر( کر ء کے۱۸۵۷کا بچہ سمجھ کر نے انھیں انگریزںچٹے تھے۔ ایک مرتبہ تیلنگو ( بیان بہت گورے۲)

اور ڈیڑھ سو روپئے لے کے چھوڑا۔)روزنامہ امروز( لیا ہنگامے کے زمانے میں پکڑ وقت ایک اس مقالہ نگاروں کے بتائے ہوئے سال کے مطابق بیان کی عمر واقعہ درست ہے تو یہ اگر

واقعے سے مخزن کے محال ہے۔ اس لینا انھیں پکڑ کاںمیں تیلنگو گی اور اس عمر سال کی رہی ہو ء کے ہنگامے۱۸۵۷ سے کے اعتبار ہے۔ واقعہ مذکورہ رہ جاتا کر قیاس بھی غلط ہو کا مضمون نگار

لل حرم کے مضمون آاج کل، رنv شہادت اور قندی سال کی ہوتی ہے ۷ کے مطابق بیان کی عمر میں ہہذا یہ ممکن ہے کہ بیان کا انھیں پکڑںمیں تیلنگو اور اس عمر لن قیاس ہے۔ ل ء میں پیدا۱۸۵۰لینا قری

ہوئے ہوں۔

Page 13: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

و تربیت تعلیم کالپی میں نانا اور بچپن جھانسی سے یہ بات لکھی ہے کہ ان کا کے سوانح نگاروں نے عام طور بیان

خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ ےبعد اپنء( کے ۱۸۶۰تھا۔ وہ نانا کے انتقال ) رازکے ہمراہ گآائے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے د ذہانت کی بدولت بہت جلدخدا داوالد سے پائی اور اپنی میرٹھ

علی بیv سے عربی اور فارسی باقر میرٹھ کے ایک شیعی عالم مرزا کو بعد لیا۔ درسی نصاب ختم کرلر غائر مطالعہ ہی کئی زبانوں اور علوم و خود کتابیں پڑھیں۔پھر کی کچھ کیا اور بہت فنون کا بنظ

اقتباسات کے لیے چند لیا۔ اس کے ثبوت وسیع بنا مستحکم اور جلد اپنی علمی استعداد کو:دیکھئے

لیکن گیا اٹھ سایہ کا نانا شفیق میں عمر کی سال چار ہوئے، پیدا میں جھانسی میں ء۱۸۵۶ ( بیان۱) تک انجام ،کماحقہ اسے کر لے میں ہاتھ اپنے انتظام کا تتربی و تعلیم کی ان نے باپ شاندی دور

کہ جیسا اور تھے بزرگ قابل ایک علی گوہر سید کیا۔ نہیں تگذاش فرو دقیقہ کوئی میں پہنچانےلم اور تھے لکھے پڑھے ہو تھا دستور معا کا خاندانوں شریف میں زمانے قدیم اچھی میں مشرق علو

لت بج اور کی خود نے انھوں تعلیم ابتدائی کی بیان سید تھے۔ رکھتے دستگاہ کی ملازمت تعلقا نماز پیش کے شیعہ فرقہ میں میرٹھ جو نے بیv علی باقر مرزا تو ہوئے معذور سے کام اس وہ سے وجہ

ء(۱۹۱۳ اگست،ستمبر لکھنو، العصر کرائی۔)ماہنامہ تکمیل کی تعلیم کی بیان سید تھے، علی بڑے لائق شخص تھے اس لیے بعض ابتدائی درسی کتابیں انھیں سے والد گوہر ( ان کے۲)

لیا۔)روزنامہ امروز کراچی، علی بیv سے درس میرٹھ کے ایک شیعہ عالم مرزا باقر پڑھیں۔ پھر کچھ روز(۷ء،ص:۱۹۵۰ ستمبر ۴ جھانسی اور کالپی وغیرہ میں مقیم رہے اور انتقال ہوا کا کے نانا ء تک جب کہ ان۱۸۶۰( بیان ۳)

اا دس آا سال کی عمر تقریب گئے ہو کر سکونت پذیر میں اپنے خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ میرٹھ

Page 14: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

میرٹھ کے مشہور عالم دین تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی تھی۔ اس کے بعد(حسین تھیں۔)قندیل حرم مرتبہ ڈاکٹرسید صفدر علی بیv سے مروجہ درسی کتب پڑھی مولانا باقر

ہے لوگوں نے بھی بیان کے تذکرے میں دہرایا کے ساتھ کچھ اور الفاظ کے الٹ پھیر اسی بات کو ت کے سلسلے میں یہو تربیخان شیروانی کے مضمون:بیان یزدانی میں ان کی تعلیم لیکن امان اللہ

(۱۶مفید اضافے ملتے ہیں:) ان کے خاندان میں بھی بڑے عالم فاضل موجود تھے۔ ہوئی تھی۔ پر بیان یزدانی کی ابتدائی تعلیم گھر

علی قاری سے حاصل مولوی جعفر اور حسینشمس العلما قاری عباس عربی کی تعلیم انھوں نےذاتی مطالعہ سے بڑھائی۔ اپنی قابلیت زیادہ تر کی۔ بیان نے

سچائیاں ہیں۔ میری تازہ تحقیق کے مطابق بیان اپنے نانا سید عمر دراز علی میرے نزدیک یہ ادھوریآائے۔ اس واقعہ کے دیگر افراد ء( کے بعد۱۸۶۰انتقال ) کے سال بعد دو خاندان کے ساتھ میرٹھ

آائے منتقل ہو حسن فرقانی( پنجاب سے ء میں سید کفایت علی تنہا )والد سید احمد۱۸۶۲ کر دہلی ہے کہ اس زمانے فرقانی سے یہ ظاہر ہوتا منشی رہے۔ انشائے ء تک کمشنر دہلی کے میر۱۸۶۸جہاں وہ

اور تھا لیا بھی اپنے پاس دہلی بلوا عیال کو علی کے اہل و دراز میں سید کفایت علی نے سید عمر حسن فرقانی میرٹھی میں جگہ زیدی کے مضمون :سید احمد تھے۔ علی جواد وہ انھی کے ساتھ رہتے

دراز علی کی دہلی میں ان کے ساتھ رہنے کی شہادتیں ملتی علی ابن سید عمر جگہ سید مہدی تھا۔ میرا نانہال دہلی میں ء تک بیان کا۱۸۶۸ء سے ۱۸۶۲اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہیں۔

عیال کو دہلی بلوایا اہل و دراز علی کے خیال ہے کہ جب سید کفایت علی نے اپنے بھائی سید عمرآائے اس لیے کہ وہ تو وانھی کے ساتھ پلے بڑھے تھے۔ ان کی مزید تعلیم ان کے ساتھ بیان بھی دہلی

حسن فرقانی اور سید مہدی علی کی نگرانی میں دہلی میں سید احمد ت سید کفایت علی،تربی نے میرٹھ متفق ہیں کہ بیان ہوں کہ تمام تذکرہ نگار اس بات پر میں اس بنیاد پر کہہ رہا ہوئی۔ یہ بات

بزرگ ہیں جن سے فرقانی کے باقر علی بیv سے تعلیم پائی تھی۔ یہ وہ کے ایک شیعی عالم مرزا

Page 15: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

لی کر میرٹھ میں سکونت اختیار کو انھوں نے بعد گہرے مراسم تھے اور وہ دہلی کے رہنے والے تھے دہلی کے احباب کا ذکر کرتے ہوئے اپنے مضمون میں ایک جگہ زیدی، فرقانی کے تھی۔ علی جواد

(۱۷لکھتے ہیں:)اا باقر علی بیv بھی تھے۔ ان سے بھی )فرقانی کے( مراسم میں کوئی مولوی مرزا دلی’’ تھے۔ غالب

‘‘لیا تھا۔ کر میں میرٹھ میں ہی قیام اختیار انھوں نے بعد العلما قاری عباس تعلیم شمس فارسی کی اعلا ابتدائی تعلیم کی تحصیل کے بعد بیان نے عربی و اس

امان اللہ خاں شروانی نے اپنے کہ اور مولوی قاری سید جعفر علی سے حاصل کی تھی جیسا حسین رہنے والے تھے۔ان سے بھی فرقانی کے گہرے مضمون میں لکھا ہے۔یہ دونوں بزرگ بھی دہلی کے

کے بارے میں معلومات فراہم نہ ہو سکی۔ حسینقاری عباس بعد بھیتعلقات تھے۔ کافی تلاش کے ھپر کر ء( سے متاثر ہو۱۸۹۶علی کے انتقال ) سید جعفر البتہ مولوی قاری درد طویل مرثیہ بیان نے جو

انسان تھے۔ نیک صفت عالم اور ہے کہ موصوف اپنے وقت کے جید ہے اس سے یہ معلوم ہوتا لکھا(۱۸دیکھئے:) اشعار بند کے چند اس مرثیے کے دو

لت جعفر علی لس مبیں حضر شملت جعفر علی لع یقیں حضر شم

قبلۂ دیں، کعبۂ اسلام کےلت جعفر علی لن رکیں حضر رکلم شریعت میں تھے لن عل انجم

لت جعفر علی صدر نشیں حضرمشرق و مغرب میں اندھیرا ہوالت جعفر علی آاج نہیں حضرلب مہدی نہ رہا خاک پر نائ

Page 16: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

لش افلاک پر خاک پڑی گردآاپ اات و تجوید کے قلزم تھے قر

آاپ دہر میں سیارۂ ہشتم تھے ہموات پر ہلہی کے س لم ا عل

آاپ لہ انجم تھے لر اعظم شہ نیلط دو جہاں علم تھا لر محی بح

آاپ لع تعلیم و تعلم تھے منبہلہی تھے لب لت ا آایا لر ناش

لع لت راف لہ رایا آاپش قم تھے تیرہ جہاں ہے وہ گئے ہات سےکوچ کیا خضر نے ظلمات سے

لب اجید علمتفصیلات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بیان نے دہلی میں اپنے وقت کے ان سے اکتسا ے کہ انھیں مختلف فنون میںملتا ہ تکا ثبوفیض کیا تھا۔ان کے اردو اور فارسی کلام سے اس بات

ت اور نجوم سب کائحدیث،فقہ، منطق، فلسفہ، تصوف، ہی ،اور عربیکامل دستگاہ تھی۔ فارسی علم ماہرانہ تھا۔

ابتدا کی شاعریآانکھیں کھولی تھیں، وہ خالص ادبی ،علمی بیان ںفضا می تھا۔اسیاور شعرینے جس خاندان میں

لنکا شوشاعری ہوئی جس کے باعث ان کو نما و ان کی ذہنی نشو گیا میں ہوشعور ہی ق ابتدائے سہہذا ابتدائی کتب درسیہ کی آاگے زانوئے تلمذ تکمیل کے بعد تھا۔ مزاج بھی شاعرانہ تھا، ل کسی کے

لہ راست ع کیا۔دہلی میںکہنا شرور بغیر شعتہہ کیے سید احمد حسن فرقانی میرٹھی سے ان کا برا ع ملا۔اسی ماحولکا موقان میں شریک ہونے ے اور کو دیکھنادبی محفلوں رابطہ قائم ہوا۔ ان کی

Page 17: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

لق شعری کو بے انتہا تقویت پہنچائی۔ بیان صحیح معنوں میں تلمیذ الرحمن نے ان کے اورتھے ذو جوہر، علمی قابلیت ے ذاتیاور اپنلی اس فن میں مہارت حاصل کر ذکی بھی، بہت جلد م وفہیلق سخن سے خود کمال حاصل کر اور شیروانی اپنے مضمون میں صغیر اصغر لیا۔ امان اللہ خان مش

ء( کے حوالے سے بیان۱۹۶۵ماہنامہ ماہ نو کراچی، مطابق کے مضمون:غالب اور جعفر علی )مطبوعہ(۱۹دور کے متعلق یہ واقعہ بھی لکھتے ہیں: ) کی شاعری کے ابتدائی

ے۔وہ بہت جلد مشہور ہو گئے اور صرفشاعر تھفطری نہیں تھے۔ وہ تو کسی کے شاگردبیان’’ بڑے کہ تھا لیا ر حاصل کراتنا عبون اور اردو شاعری میں اردو زباں ہی انھوں نے عمر می سال کی۱۴

لکھی۔ غالب کا غالب کی زمین میں ایک غزل مرزا بھی تعجب ہوتا تھا۔ ایک روز بڑے اساتذہ کو:مطلع ہےسے مت دکھا کہ یوں شگفتہ کو دور غنچۂ نا

بوسہ کو پوچھتا ہوں میں منھ سے مجھے بتا کہ یوں:ر یوں ہیںچند اشعابیان کی غزل کے

آائیگی کوئی نہ کہہ سکا کہ یوں لح قیامت صبآائے وہ در سے ناگہاں کھولے ہوئے قبا کہ یوں

آاسماں سے پوچھ لش لس مہوشاں سے پوچھ ، گرد نرگسرمہ ہوئے وفا سرشت کیا کہوں اے خدا کہ یوں

لک فارسی اس سے نہ ہو سکا بیاں ریختہ رشلس میر میں شعر مرے سنا کہ یوں لل عر محف

پڑھ کر ب کی خدمت میں لے گئے اور اصلاح کی درخواست کی۔ غالب نے غزلمرزا غالغزل وہ یہ‘‘تم نے کہہ دیا۔ ہی میں نے کہا ویسا ح دوں جیساکیا اصلاا:’’میاں میں اور فرمایدی واپس کر

Page 18: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

خاندان کے ایک فرد کی تھی۔ انھوں جس زمانے میں بیان دہلی میں تھے ان کی حیثیت فرقانی کےاا غالب آامد گا ہو دیکھا کو نے انھی ایام میں یقین ۔ بیان نےگھر تھیرفت فرقانی کے و جن کی

اا وہ غزل پیش کی ہو غالب کی خدمت میں ہے۔ گیا کیا گی جس کا ذکر اوپر کسی موقع پر یقینآاباد میں سید کفایت علی ملازمت سے سبکدوش ہوئے تو ء۱۸۶۸جب ہو یہ خاندان میرٹھ میں مستقل

آائے اور اس شہر میں مستقل سکونتگی ۔اس وقت میرٹھاختیار کی ا۔ ان کے ساتھ بیان بھی میرٹھ شاعری کے تذکرے تھے اور و شعر ۔ جگہ جگہمعمور تھیادب کی کیفیتوں سے و کی فضا شعر

اور علمیمیرٹھ کے جس ادبی نما و کی نشو مشاعرے بھی کثرت سے ہوتے تھے۔ بیان کی شاعریلل حرم کے دیباچہ میں سیر حسینسید صفدر رپر ڈاکٹماحول میں ہوئی تھی، اس حاصل نے قندی

(۲۰ہیں:) ے۔ کہتےکیا ہتبصرہ میں بیان کے ادبی مذاق کی فضائیں تھیں جناور ادبی علمی شہر کیگھرکے ماحول کے علاوہ ’’

ع ہے اس لیے یہاں کی ادبیپر واقفاصلے سے دلی محض چالیس میل کے نشوونما ہوئی۔ میرٹھ شہرلن دہلی کے عناصر میرٹھ ہی کی سرزمین سے بہت قوی تھے۔ علاوہ ازیں خود سرگرمیوں میں دبستا

ہوئے تھے جنھوں نے دلی کی علمی، ادبی اور مذہبی م پیداجید عالجیسے مولانا امام بخش صہبائی بیv رحیم بھی ممرزا رحیتھا۔ میرٹھ میں انھیں کے ایک شاگرد لیا کر اپنا نمایاں مقام پیدا ںفضا می

لع برہان‘‘ تصنیف کی تھی۔ق ’’ے، جنھوں نے مرزا غالب کی علمی و ادبی مخالفت میںموجود تھ اطییر مخصوص شاگرد دو اور غالب کے ایک مخلص دوست ممتاز علی خان یعنی محبوب علی خان ن

رہنے والے تھے۔ غالب کے علاوہ حکیم مومن خان مومن کے اور فصیح الدین رن� اسی شہر کےاا نواب ش قلق وغیرہ یہیں کے باشندے تھے۔ پھر بیان بخمصطفی خان شیفتہ اور مولا بعض شاگرد مثل

ہمعیل میرٹھی اور سید سجاد کے مختصرتھے۔ ریحانی حسینمعاصرین میں مولانا شوکت میرٹھی، اسآانکھ کھولی تھی۔شعور نہ کہ بیان کے ادبی ی انھوں نے اپنے ذاتی پھر ے ایسے علمی ماحول میں

عصروں میں وہ لی تھی کہ اپنے ہم کر صحبتوں سے وہ بصیرت حاصلاور اد بیذوق، علمی مطالعے

Page 19: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

اور معاشرت کے ایک مبصر خیال کیے حکمت و تہذیب ادب، سیاست و و ملت، شعر مذہب ولی طبع میں بھی قادرالکلامی، زود گوئی، حاضر جوابی اور جاتے تھے۔ علمی قابلیت، ہمہ دانی، شوخ

‘‘ان کا جواب نہ تھا۔ اپنے معاصرین میں د لکھاکا شاگرنے بیان کو فرقانی میرٹھی نگار ے کہ کسی تذکرہہوتا ہا ضروری معلوم بتا دینیہاں یہ

ے گویا وہ کسی کے شاگردبتایا ہالرحمن انھیں تلمیذ ہے اور ہے تو کسی نے اس کی تردید کی میرٹھی نے اپنے مضمون میں بیان کے چھوٹے بھائی سید میں پیارے لال شاکر نہیں تھے۔ اس سلسلے

(۲۱شرف کا یہ بیان بھی نقل کیا ہے:) حسین حسن فرقانی ان کے ماموں تھے۔ برادر احمد شاگرد نہ تھے۔ میر برادر مرحوم حقیقت میں کسی کے’’

میں تعظیم کرتے تھے اور اس لیے ان کو اپنا استاد بھی لکھ دیتے تھے۔ ورنہ حقیقت مرحوم ان کیلتشعر بھیک کو ایانھوں نے ان لر اصلاح نہیں دکھلایا بلکہ بحیثی شاعرانہ ان میں اکثر مباحثہ بنظ

‘‘ا تھا۔ہو جاتبھی ان کے ادبی ذوق کو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بیان کی تربیت اور د یہباوجولیکن ان سب کے

تھے۔ زبردست حصہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ان کی بے انتہا عزت کرتے میں فرقانی کا پروان چڑھانے انھوں نے فرقانی کی جو ت وہ طویل مرثیہ ہےکا ثبوت تھی۔ اس و محبان سے انھیں دلی عقیدت

(۲۲اشعار دیکھئے:) بچند منتختھا۔ تین بند کے یہ لکھا کر وفات سے متاثر ہولد ہمامی تھے وہ لی نق صیرف

لم نظامی تھے وہ لی نظ صیلقلت ظہوری و پ لہ ظہیرنپش ا

یلائے امامی تھے وہ لخ مص شیلب ہنر میں بلند نام تھا اربالر شیوۂ نامی تھے وہ نامو

Page 20: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

لید نظر تھا قدما کا کلام مکہنہ خیالات کے حامی تھے وہ

لت قرقانی و شاکی دریغ فرقلت فرقانی و شاکی دریغ رحل

نطق میں تھی قند مکرر بھریقند مکرر سے بھی نیکو تریلن نظم میں ل§ زباں تھا چم مر

لن زباں لل بستا ور یآابلبلن عجم زندہ ہوئی مردہ زبا

لب اعجاز میں جادوگری تھی لشعر میں ہر نکتۂ باریک تھا

طرۂ طغرائے سخن پروریلت قرقانی و شاکی دریغ فرق

لت فرقانی و شاکی دریغ رحلہیں ترے ہم چشم کہاں اے بیاںلم جہاں اے بیاں ڈھونڈتی ہے چش

ڈال دیا مرگ نے اردو میں غدرلٹ گئی دلی کی زباں اے بیاں

چھوڑ گیا راکھ کی صورت مجھےقافلۂ راہ رواں اے بیاں

کیجیے کس کس کا بیاں بس خموش

Page 21: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

روئیے کس کس کو یہاں اے بیاںلت رقانی و شاکی دریغففرق

لت فرقانی و شاکی دریغ رحل

طور ادارت جلوۂ کیاا ے کے بعد بیان نے جلوۂ طور کی ادارت سنبھالی۔یہاختیار کرنمیں مستقل سکونت میرٹھ سلسلہ تقریب

ا۔ جمعہہوا تھمیرٹھ سے جاری ء میں محلہ گنیش گن�،۱۸۶۱پانچ چھ سال تک جاری رہا۔جلوۂ طور ناتھ تھے۔ شمبھو پبلشر گنیشی لال اور پرنٹر و ۓک راو مالا۔ اس کے مہتمم ہوتا تھکے روز شائع

تھا۔جلوۂ طور چھپتا روپئے تھا۔ سلطان المطابع میرٹھ میں بڑی تقطیع پر نو سالانہ چندہ ساڑھے اس کا مہتمم لالہ الدین ظہیر بھی رہے۔ اسی طرح بعد میں اس کے ھ عرصہ تک سید ظہیرایڈیٹر کچ کے

ن لکھے تھے وہجو مضامی ں جلوۂ طور کے لیےدور میگئے تھے۔بیان نے اپنے خوشی رام غالب ہو(۲۳بڑے بصیرت افروز ہیں۔)

کوٹھری کال ہوئی جس ے کہ بیان پر وہ مجنونانہ کیفیت طاریہوتا ہمعلوم سے علاحدگی کے بعد ایسا طور جلوۂ

لل ے۔بعض تذکرہ نگار کہتے ہیں کہشکار رہر تا عمش و بیکا وہ کم انھیں ں ان کے والد عمر میاوائہہذا انھوں نے بہانا کیا کہ مجھ سخن میں اوقات گزاری سے منع فرماتے تھے و شعر میںکو روشنیل ے لگے۔پورا کرنہ کر اپنا شوق بند رگھرکے ایک اندھیرے کمرے میں چوند لگتی ہے اور یوں چکا

ہ واقعیاور ور رہا ہو ک آاخر وہیظ زبان سے نکالے تھے، جو الفاہے کہ انھوں نے لکا خیابعض کامحمود خاں ے ہیں۔ حکیمقرار دیتہ کا نتی�گئے۔ بعض اسے وہم ہو چوند کا شکار عارضۂ چکا

میں بیان کے چھوٹے بھائی ہے۔ اس مرض کے سلسلے کرتا ہوا کہ یہ مرض ذہین لوگوں کو ل تھاخیا(۲۴تفصیل بتائی ہے:) شرف نے پیارے لال شاکر میرٹھی کو یہ حسینسید

Page 22: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

رکھتے تھے اور دما§ پر کر گٹھری بنا وزن کی کپڑے کی سیر حالت مرض یہ تھی کہ قریب دو’’ ز رہتے تھے۔ اس کےو روتاریک کمرے میں شب ہے۔ جاتا اس کے اڑا کہتے تھے کہ دما§ بغیر

آا سکے۔ ہانڈی کے پکنے دروازوں پر پنبئی پردے پڑے رہتے ہ کاٹنے کیاور چھالیکہ روشنی مطلق نہ لل برداشت تکلیف دیتی تھی۔ نہایت خفیف شور آاواز بھی ےہو جات سے بھی وہ سخت پریشان ناقاب

تاروں کی روشنی سے ر۔ کہتے تھے کہلگا ک تو چھتریتھے۔ اگر کسی ضرورت سے باہر نکلتے سے ا رہے۔ شورعمر مبتلمیں وہ تمام اذیت پہنچتی ہے اور تارے دما§ میں چبھتے ہیں۔ اس مرض

لن تاریک سے تھی۔ کپڑوں کی گٹھری سرکر دیکی نشست ترک اب مطلق پریشان نہ ہوتے تھے۔ مکاآائی تھی۔ ‘‘کندھوں پر اتر

اٹھاں تو پریانکلیں گے ہ باہراگر وکہ تھا گیا کے متعلق یہ بات بھی مشہور ہے کہ انھیں یہ وہم ہو ان تھا۔ ہمیشہ ایک لحاف اوڑھے رہتے اور ق خیال نہکا مطل( انھیں صفائی ۲۵ر لے جائیں گی۔)ک

خطوط میں بھی ان کی مسلسل بیماری، جسمانی ضعف اور کرتے تھے۔بیان کے لیا پلنv پرہی نہا:ملتے ہیں۔وہ اپنے ماموں سید مہدی علی کو ایک خط میں لکھتے ہیں ذہنی پریشانیوں کے اشارے

لب حسرت نہیں۔ کیوں میں بھائی کی طرف ایک دری کی کوٹھی میں رہتا’’ لد مکانات سب ہوں۔ تعدا:کہ

ل§ بسمل کی تڑپ چال ہے مجھ ناتواں کی مرہر قدم پر ہے گماں یاں رہ گیا، واں رہ گیا

(۵)تیغ ہندی،ص::ک خط میں اپنی کیفیت اس طرح بتاتے ہیںکو ایعلی حیدر میر ہیں، بیزار بھی حال سنیں۔ بیمار ہیں، بیکار ہیں، دنیا سے آاپ اپنے عجیب الخلقت دوست کا اب’’

آازار لت امراض سے ناچار ہمہ تن زار ہیں، بلکہ لت ہیں، زحم ہلہی کے طلب گار ہیں۔ بیٹھتے ہیں، رحم ا

Page 23: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

و عافیت عفو ہیں جنازے کی طرح۔ خدا ہیں گھرکی طرح، اٹھتے ہیں چھپر کی طرح۔ چلتے(۶۱دے۔‘‘)تیغ ہندی،ص:

:ب نہ لکھنے کی شکایت کے جواب میں لکھتے ہیںکا جواط کو خد ظفر احممولوی کوگویا زمین ہ تھا،و لرزکا تپ اور اس بلا ہ میں مبتلا تھاو لرزا، میں تپ آایا تھتمہارا خط جب’’

آایا تھا۔ کئی دن بے ہوش رہا۔ بعض پہنچ ھ کو تو اب بھی ہے۔‘‘)تیغاور م� ت میں تردد رہاکو حیاا (۹۴ہندی،ص::ط میں پھر خط نہ لکھنے کی شکایت کرتے ہوئے لکھتے ہیںاور خکو ایک احمد مولوی ظفر

ہو۔ عزیز ا، تم تو ہنوزہو گیں ذلیل اگر میش نصیب ہو۔تو خوا، تم ہو گینصیب ں بےاگر می’’لب علالت ھ میں علالت سے حالت نہیں، تمہاری حالت کہاں گئی باوجودیکہاگر م�تمیز ہو۔ صاح

یدی ہے، تمہاری نیت میں کیوں بدی ہے۔ ہم بے دست کر چل نہیں ہو پا و نہیں۔ اگر ہمارا حال رآاتے۔‘‘)تیغ ہندی، ص: ے ایسے نکلے کہ ہم تکپیر والسکتے کہ تم تک جاتے، تم ہاتھ (۱۰۳نہیں

:ے ہیںپھر لکھتایک دوسرے خط میں ت دریافت کرنے پرکو کیفیاحمد انھیں مولوی ظفر ہوں۔ غلط کہتا ہوں۔ اب اس قدر جاتا چلا کی۔ بیمار جوں جوں دوا ابڑھتا رہں۔ مرض شفا کہا’’

ں جاتا۔ لیکنچلا نہیضعف ہے کہ ہی جاتا ہوں میں، گو چلا نہیں جاتا چلا

لی منزل لق رسائی و دور غضب ہے شو کبھی بے پڑا، کبھی ہوش ہے، ں۔۔۔ پلنv پراچھا نہیں، اچھا نہیتھا۔ اب بھلا مگر تھا پڑا پہلے

آاسمان (۹۵ش ہوں۔‘‘)تیغ ہندی، ص:اور خاموں دیکھتا ہوہوش ہوں۔ آاخر اس کوٹھری سے باہر نہیں نکلے اور کہ بیان پھر غرض لن شباب سے وہیں گوشہ کعمر تعنفوا

کی خدمت کرتے رہے۔ ادب م واور علنشین رہے۔اس کال کوٹھری میں بیٹھے بیٹھے بیان شاعری ثپر بحشاعری و دی جاتی۔ شعر حپر اصلاع رہتا۔ ان کی غزلوں کا مجمیہیں ہمہ وقت شاگردوں

Page 24: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

ے۔ شاعری کےتحریر ہوتکے جواب ہوتی۔ اخباروں کے لیے مضامین لکھے جاتے۔ مخالفوںآارائش کی جاتی اور اخبار م ہوتا۔ اس میں کوئیکا کان و تدویترتیب رسائل کی وات گلدستوں کی ز جگہ تھی، جس میں ہمیشہزر خیاعتبار سے ایک ایسی شک نہیں کہ یہ اندھیری کوٹھری ادبی

آاج تک حلقۂ ادباور شادابی رنگا رنگیتھے، جو اپنی بو قلمونی، رنv برنv پھول کھلتے رہتے سے بنائے ہوئے ہیں۔ بہار ھپر کو

ے مندرجہ ذیل بیان سے بھی ہوتیلاہور ک ماہنامہ مخزن، القادر ایڈیٹر عبد اس سچائی کی تصدیق سرلددیکھا تھ ہے جنھوں نے بیان کو قریب سے (۲۶رفتگاں میں لکھتے ہیں:) ا۔ وہ اپنے مضمون یا

گ منتشر ہواور لولیا ء( ختم ہو۱۸۹۶ہند محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس، میرٹھ، جب جلسہ )کل’’ میں اپنے خیمے ے تھے۔ اس وقتکر رہاور جو کچھ باقی تھے میرٹھ سے روانگی کی تیاریاں گئے ہولوں کہ اتنے میں میری ہ ان سے رخصتلگا کسید کے خیمہ کی طرف جانے سرنکلا اور سے

ے ہوئے لیٹے ہوئے تھے۔ میںکھا پہن ردارا نvک پالکی پر پڑی جس میں ایک بزرگ روئی نظر ای سال پہلے ایک دفعہ ان حضرت بیان یزدانی ہیں۔ چند ہوں کہ دیکھتا کیا اس پالکی کے پاس پہنچا تو

لب فراش تھے۔ جب میں نے انھیں مرحوم ایک عرصہ سے علیل اور ا۔ہوا تھسے ملاقات کا موقع صاح دیکھا تھا۔ جب بھی ایک چھوٹے سے اندھیرے کمرے میں لیٹے ہوئے تھے۔ مگر یہ پہلی مرتبہ

آائی تھی پر غالمعذوری ان کی طبیعت کی روانی لد ہ اسی حالت میںاور وب نہیں سخنوری دیتے دا‘‘مشاغل میں مصروف رہتے تھے۔ رہے۔ شاگردوں کی غزلوں کی اصلاح کرتے تھے اور دیگر علمی

ہند ری اجرا کا طوط ء کو ایک مطبع حدیقۃ۱۸۸۱اور مسلسل بیماری کے عالم میں بیان نے یکم جنوری اسی ذہنی پریشانی

( انھوں نے۲۷تھے۔) العلوم کے نام سے جاری کیا۔اس کے کاتب شوکت علی اور لوح نویس قائم علی جس نے صحافتی دنیا میں جاری کیا ہفتہ روزہ طوطی ہنداپنا ذاتیء( ۱۸۸۱اسی پریس سے اسی سال )

منظومات بھی شائع مضامین اور اور تنقیدیادبی کافی شہرت حاصل کی۔اس میں خبروں کے علاوہ

Page 25: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

اپنے معاصرین سے بھی الجھتا رہتا تھا۔ جس زمانے میں اس کا اجرا ہوتی تھیں۔طوطی ہند کبھی کبھی بیان نے صحافتی جنv چھڑی ہوئی تھی۔ تند و کے درمیان تیز فتنہ‘‘ اور ’’اخبار اودھ پنچ‘‘ ’’ہوا ہے

ںابتدا میبیان کے تعلقات سلسلہ شروع کیا۔ حالانکہ پہلے ’’اخبار فتنہ‘‘ کے خلاف مضامین کاآابادی )ایڈیٹر (۲۸پوری کے بیان کے مطابق:) نادم سیتا اور فتنہ( سے بہت اچھے تھے ریاض خیر

آازاد )محمد’’ ہی بیان میرٹھی کا محمد اور نذیر( ریاض، لد مرتض لط شعر اتحا و ثلاثہ ایک خاموش بسا زندگی تھا۔ ان تینوں کے درمیان ایک مسلسل روز نامچہ گردش کناں رہتا، جس میں نجی ادب بنا ہوا

یہ روزنامچہ سائز کا کے علاوہ ادبی اور سماجی زندگی کے چٹخارے بھی ہوتے تھے۔ فل ا سکیپ تینوں افراد اضافہ کرتے رہتے تھے۔ خانگی تھا اور اس میں یہ رہتا ر کاٹتاگرد چکبرابر ان تینوں کے

لت حاضرہ مصروفیات اور نجی زندگی کے علاوہ ہپر تبصراس ڈائری میں تازہ افکار بھی ہوتے اور حالا‘‘بھی۔ لی کہ بات کر ایڈیٹر اودھ پنچ سے ٹھن گئی، جس نے اتنی شدت اختیار حسین سجاد منشی کو بعد

ںتحریر می بازی اور گالی گلوج تک پہنچ گئی۔ اودھ پنچ کے ادارۂ پھکڑ کر ضلع جگت سے گزرلی اخبار تھا۔ یہ حضرات بیان کے شاعر ز اور انشاءپرداایک سے بڑھ کر ایک رعایت سےہند کیطوط

ق اڑاتے تھے۔ لیکن بیان تنہا ان سبکا مذا کے ان تلازمہ اور اصطلاحات استعمال کر کا رچڑیا گھلی ہند میں اودھ پنچ سے نظم و کے اعتراضات کا جواب مختلف ناموں نثر میں دیتے۔ انھوں نے طوط

پرچار صفحات ہ کوہر جمعہ کیا۔ یہ کا اضافپنچ کے عنوان سے ضمیمے کے بالمقابل میرٹھہہذاہوتا تھ عشائ لی ہند اور میرٹھ پنچ کے پرچے اب نایاب ہیں، ل آارائی کا ا۔ افسوس کہ طوط معرکہ

نمونہ پیش کرنے سے قاصر ہوں۔لیامداد صابریجناب ہ اپنی کتاب تاریخکاجو نمونہند کے خلاف اودھ پنچ کے مضمون نے طوط

آارائی کے معیار جاتا پیش کیا ہے، اسے یہاں نقل کیا ںاردو میصحافت ہو ہکا اندازہے، تاکہ معرکہ آاغاز ان اشعار سے (۲۹ے:)ہوتا ہجائے۔مضمون کا

Page 26: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

ں دل میں اپنے کیا سمجھتے ہیںبتا دینہ بھونکو، تو لv قصاب کا پلا سمجھتے ہیں تمہیں بھی ہم س

ہی سمجھتے ہیں گدھے میرٹھ کے اپنے خر کو بھی عیسہی سمجھتے ہیں لر معن لہ کشو لہ تاج و گا پنا

لس شاہی ہے قلم ڈنکا سمجھتے ہیں دوات اک کولد حسن لیاقت پر کیا کمگیا جنایہ بھول ذناب!تو اے لغ استعدا آاپ ہی کی مبل تھا۔ غوغا و شور ب۔

بقول شخصے’’ ا!اگرآاباد کی ء میں اپنے حضرت استاد کو کیوں گرد۱۸۸۱ نومبر ۱۲خمسہ مورخہ آاپ کے استاد جی کا وہاگر واقعیخیر، را‘‘ کا مضمون ہے تو خود فراموشی کند نامے نہد استاد

ایسا گانٹھا ں مصرعوں کومانتا ہوباللہ العلی العظیم۔ الا ل ولا قوۃلا حوخمسہ تصنیف شریف ہے تو لدہر مصر جوتا گانٹھتے ہیں۔ چما پھٹا ہے، جیسے دیہاتی لز ع با نہیں۔ شتر، کوئی کل درست ہوائی، گو

لہلا یعنیالفاظ بے معنی، ترکیب لر معنی، کیا خوب، ، پنا لہ کشو ہاے بہ نظر ظرافت لوند تاج و گا معنی خاک نہیں۔ مصرع ثانی کی ترکیب سوا ہ سمجھنا۔ الفاظ کےاور نترکیب دی گئی ہے۔ کچھ

چہارم کے مقابل میں اگر کوئی ہانک بول اٹھا ہے۔ ابے چمار، بھی نئے فیشن کی۔ مصرع ثالث مصرعکی۔ اپنے ہی شعر پر مصرعے لگائے ہوتے۔ ں نہفکر کیوپوری

لی ہند کے متعلق یہ معلومات دی ہیں:)امداد صابریجناب (۳۰ نے اپنی کتاب میں طوطہی صاحب تھا۔ اس کے بانی سید محمد ہوا پذیر ظہور ء کو۱۸۸۱میرٹھ سے ہفتہ وار اخبار یہ’’ مرتض

مالک مطبع حدیقۃ العلوم، ایڈیٹر سید مختار عام بیان و یزدانی اور مہتمم منشی ولایت علی خان جادو‘‘گئے تھے۔ ریحانی ہو حسینکے مالک سید سجاد صاحب روحانی تھے۔ بعد میں اس حسین کرار

(۳۱اسی طرح وہ میرٹھ پنچ کے متعلق یہ اطلاع فراہم کرتے ہیں:)

Page 27: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

ہ کاکا جمع ع ہوا۔ اس کے جاری ہونےکو شائء ۱۸۸۱ ت پرچار صفحاسے یہ ہفتہ وار اخبار میرٹھ’’ہی صاحب بیان و یزدانی، مہتمم دن تھا۔ مالک مولوی سید محمد ولایت علی جادو، ایڈیٹر سید مرتض

‘‘ہ تھا۔کا ضمیمروپیہ تھا۔ یہ طوطی ہند صاحب روحانی تھے۔ سالانہ چندہ ڈیڑھ حسین کرار میرٹھی کے بیٹے:سید سجادپر فرقانیماموں سید مہدی علی کے کہنے بیان نے یہ پرچہ اپنے حقیقی

نام ان کہ سید مہدی علی کے تھا۔ جیسا دیا روحانی کو فروخت کر حسینریحانی/سید کرار حسین:کے خط کے اس اقتباس سے ظاہر ہے

ھ کا ساتھ نہ چھوٹے۔ بذل واور ہاتنیچے رکھئے تاکہ دامن نتو دامآاپ اونچے ہیں حضرت۔ اگر’’آاپ کے کہنے سے ہم نے ’’طوطی ہند‘‘ بیچ دیا ہ نہکا رشتاحتیاج ہو بے پر اور ٹوٹے۔ خاص

آامدنی ہے۔ بعد بیٹھے۔ اب آاپ نے بات بھی نہ پوچھی۔ نا انصافی نہیں مطبع بے کیا اور تو اس کے (۸۰ہے۔‘‘ )تیغ ہندی، ص:

:ک خط میں لکھتے ہیںکو ایالدین عاقل اسی طرح بشیرلی’’ ہوتاپاس جائے۔ میرے ہند، بیچ دیا۔ دریں چہ شک۔ اپنی بلاسے چہ چہ کرے کہ خاموش ہو طوط ےکیا پوچھتں۔ مزاج وفا کہامیں ا، تم سے دور رہا۔ طوطےدور کیپاس رکھتا۔ ہم نے و تمہارات

(۶۰ہو۔‘‘)تیغ ہندی،ص:اا تین سال ان کی ملکیت۱۸۸۳یہ واقعہ ہماری تحقیق کے مطابق ء کے اواخر کا ہے۔ یوں یہ پرچہ تقریب

آارائی کی و ادبیاور علمی میں رہا اور اس تین سال کے عرصے میں اس نے زبردست ادبی معرکہ ل سبب انکا اصدینے کر تکو فروخحلقوں میں کافی دھوم مچائی۔ہمارے خیال سے اس پرچے

رسالہ جاری انھیں ایک نیا کچھ کم ہوا تو اثر کا ہ تھا۔جب اسکا غلبکی نفسیاتی اور ذہنی بیماری ہے۔ اپنے کی اس فکر کو ان کے خطوط میں دیکھا جا سکتا ستانے لگی۔ ان کرنے کی پھر فکر

:ے ہیںکو لکھت شاد سہارنپوری شاگرد

Page 28: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

جائیں گے، حریف اٹھ جائیں گے۔ اے شاد !نقش رہ جائے گا، نقاش مٹ جائیں گے۔ حروف رہ’’ کر سکتے ہو۔‘‘)تیغ ہندی: میں کے پرچوں کی مدد تم سہارن پور تو نکلے نیا بارہ دو اخبار ہمارا اگر

(۸۲ص: تحریرء کے ایک خط میں ۱۸۸۴اکتوبر ۱۱ ے نامجادو کد ولایت علی اور شاگراپنے ایک

:ے ہیںکرت زور لگائیں۔ورنہ خیر۔ مگر تو م دس پرچہ لگوا سکواگر ت کریں۔اخبار جاریے کہ دوبارہ چاہتا ہجی ’’

(۸۲بغیر پیشگی کیوڑہ ندارد۔‘‘)تیغ ہندی:ص: ے اس میں بھی اس حقیقت کالکھا ہبیان نے جی ای وارڈ صاحب کمشنر میرٹھ کے نام جو خط

:اظہار ملتا ہے یہ ہاور وں کرتا ہوایک اور سہل درخواست منظور ہے تو پچھلی درخواست نا یہ ہے کہ اگر گزارش’’

گا۔ اس نامہ‘‘ ہو م ’’وارڈکا ناجس ء سے میں ایک رسالہ شائع کروں گا۱۸۸۵ہے کہ یکم جنوری مضامین بھی نظم میں لکھے سوشل و پولٹیکل میں کل علمی مضامین نظم ہوں گے۔ اخلاقی اور

تکلفات اور مبالغے سے اور جھوٹی باتوں سے جو گی جائیں گے۔ لیکن یہ نظم ایشیائی نمونے پرنہ ہوآاگی۔ انسان کے سچ خیال کی تصویر ہو بالکل بھری ہوتی ہے۔ بلکہ پ اپنے ماتحتوں میں دوسواگر

ہی اشارے سے با گے، جو دو کر رسالے کے، بقیمت پیشگی نشر پرچے اس آاسانی حضور کے ایک ادنآانکھوں میں چمکتی رہے ممکن ہے تو یہ مبارک علمی یادگار دیر گی۔ البتہ کام تک ہندوستان کی

روپئے مرحمت فرمانے ہوں شروع کرنے کے لیے حضور کو جیب خاص سے بطور پرورش فقط پچاس ء سے پہلے مجھ کواس کے بابت۱۸۸۵ یکم جنوری فرماویں تو ر اس تجویز کو منظوراگر حضوگے۔

(۸۷ہندی، ص: اطلاع اور اطمینان ہونا چاہئے۔‘‘)تیغ:اکا اجرلسان الملک

Page 29: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

ہ لسان الملک جاری کیا۔ اس کا شمارکو ماہنامء ۱۸۸۷انھوں نے جون ہوئی اور آارزو پوریبیان کی یہ ۸یہ ماہنامہ صفحات کا ۲۰ا۔ ہوتا تھکے معیاری رسائل میں اس زمانے X سائز پر نہایت ہی ۲۶/۲۰

روپئے تھا۔ اس کے ا۔ سالانہ چندہ دوہوتا تھ العلوم میرٹھ سے شائعۃاہتمام کے ساتھ مطبع حدیق محسن اس کی طباعت بھی عمدہ تھی۔ محمد کی کتابت و مہتمم منشی احمد شفق تھے۔ پرچے

طرحی مصرعے دیے جاتے تھے۔ مصرع برائے دیوان عام اور ہر ماہ دو کتابت کیا کرتے تھے۔ اس میںآازمائی کی درخواست کی جاتی تھی اور دیوان خاص۔ شعرا مصرع برائے سے دونوں طرحوں میں طبع

ااہوتا تھب شائع کا انتخاانھیں دونوں عنوان کے تحت موصولہ غزلوں دیوان خاص کے لیے ا۔ عموم تھے۔ شاید یہ تخصیص اسی لیے تھی۔ ں ارسال کرتےشعرا غزلیاساتذہ اور دیوان عام کے لیے مبتدی

ں کابیشتر شاگردومنظومات کے علاوہ اس میں ان کے راور دیv فارسی غزلوں اردو اور بیان کی ے تھے۔وہلکھا کرتں نثر می اور کبھی نظم خود کبھیبیان اس کا اداریہ کلام بھی شائع ہوتا تھا۔

نمونے لسان بلند پایہ شاعر تھے، وہیں موثر نثرنگار بھی تھے۔ ان کی نثرنگاری کے کامیاب جہاں ایک ء۱۸۹۳دلچسپی تھی۔ جون الملک کے صفحات پر بکھرے ہوئے ہیں۔ انھیں ناول نگاری سے بھی

ہی ع ہونا شروعوار شائبہ گل عباس‘‘ قسط کے شمارے سے ان کا ناول ’’خداپرست کا ناول المسمآاخری شمارے تک اور تھا ہوا مکالمہ لکھ کا شاگرد جاری رہا۔ اس میں انھوں نے استاد و یہ سلسلہ

ل بحثپر مدلرسالت ت واور نبوکی صفات ا ہے، خداخدا کیحقائق یعنی ف کے رموز وکر تصولق عظیم‘‘ بھی اسی پرچے کی ہے۔ بیان میں کے اور دو مختصر ناول ’’صندلینہ کی سیر‘‘ اور ’’عش

شرح بھی قسط وار کے عنوان سے دیوان غالب کی شائع ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں ’’حل المطالب‘‘آاگے نہ ۱۳ اور شروع ہوا ء سے۱۸۹۵چھپتی رہی ہے۔ شرح کلام غالب کا سلسلہ دسمبر غزلوں سے

کے سہ ماہی تحریر، نئی دہلی شرح پہلی بار مرتب کر ا۔ہم نے یہہو گیل کا انتقابڑھ سکا تھا کہ بیان ب میں بھی شامل ہے۔اور غالیہ ہماری مطبوعہ کتاب:بیان میرٹھی دی ہے۔ ( میں چھپوا۴۶)شمارہ:

:طوفان

Page 30: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

رطور پ لسان الملک کے ضمیمہ کے ا، جوکیا تھنے ایک ظریفانہ رسالہ طوفان بھی جاری انھوںلخ اشاعتچار شمارا۔ اس کے ابتدائی ہوتا رہشائع درج نہیں ہے۔ صفحات ے ملے ہیں، جن پر تاری

آاٹھ ۲۸کی مجموعی تعداد آاٹھ آاخیر پر مشتمصفحات ہے۔ ابتدائی تین شمارے ۴ہ کا شمارل ہیں۔ لل صفحات کا ہے۔ اس میں انھوں نے ایڈیٹر ہند کی اچھی درگت بنائی ہے۔ سرورق کے نصف کلا

:ںاشعار ہییہ حصے پربسم اللہ الرحمن الرحیم

یراں پئے دیو رجیم لر ب خنجلس قوم راند لر طوفاں سپ لشکخطبۂ لاعاصمم الیوم خواندآاج ہے جوش پہ طوفاں میرا

دل ہے جو شان و خردشاں میراآانے لگی اے حبیب آاواز پھر

کہ نصر’‘ من اللہ فتح’‘ قریبآاشکار صورتے گردد مجسم فتح گوید

ہی الاعلی لاسیف الا ذوالفقار لافتپڑھ کے بسم اللہ قدم رکھتا ہوں میں گھمسان میں

آاج دیکھوں کون ٹھہرے سامنے میدان میںلل ہند یکمہوتا ہقاتل فجاز‘‘ )پہلادم( کے عنوان سے مضمون شروع ذوالفقار’’ ے، جس میں کلا

چاردرمیان ےنثر کش الفاظ میں تنقید کی ہے۔ اور فحسخت ء کے کسی مضمون پر۱۸۸۸اگست بندچتھاڑ( کے چند ے مسدس کیاخبار کہ نظمیں بھی ہیں۔ مسدس طفل شگاف )کھوسٹ طنزی

:م بند کیے جاتے ہیںقل

Page 31: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

لم ایڈیٹری کھا کھا کے لقمہ ہائے حرالم ایڈیٹری گندہ کیا ہے تو نے مشا

لم ایڈیٹری اللہ مینڈکی کو زکالم ایڈیٹری تہمت ہے اس کلال پہ نالم ایڈیٹری تجھ کو کہاں نصیب مقالم ایڈیٹری بڑھیا کا کوٹ ہے کوئی با

لل شوم کر جا سامنا ہمارا نہ او طفہفتاد پشت کو تری رکھ دیں گے توم کر

نیزے ہزار چھوڑ دیے ہم نے چوم کردنگل میں ہم اٹھائیں گے ہتھیار جھوم کر

لم ایڈیٹری تجھ کو کہاں نصیب مقالم ایڈیٹری بڑھیا کا کوٹ ہے کوئی با

لس فلک میں ہے مرے ڈنکے کا غلغلا کواب تک اودھ میں ہے مری ٹیپوں سے زلزلا

گھٹتا ہے کوئی شیر جوانوں کا ولولارہ جائے گا تو پہلے ہی دھکے سے تلملا

لم ایڈیٹری تجھ کو کہاں نصیب مقالم ایڈیٹری بڑھیا کا کوٹ ہے کوئی با

پڑنے لگیں گے چاند پہ جب ٹھائیں ٹھائیں ٹھائیںکٹنے لگیں گی او کھلیاں دھائیں دھائیں دھائیں

ہائیں ہائیں ہائیںطرفہلڑ مچے گا چاروں

Page 32: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

آائیں بائیں شائیں لونڈے یہ بھول جائیں گے سب لم ایڈیٹری تجھ کو کہاں نصیب مقالم ایڈیٹری بڑھیا کا کوٹ ہے کوئی باہم سے نہ او کلال کبھی رنv لائیومحفل میں اپنی دختر رز کو نچائیواور بن بٹو میں جا کوئی اڈا بنائیو

پہ تو بھاڑ کھائیو دیوث۔۔۔ لم ایڈیٹری تجھ کو کہاں نصیب مقالم ایڈیٹری بڑھیا کا کوٹ ہے کوئی با

دلچسپی سر سے تحریک کی سید

سید احمد تھا۔ سر گیا ہراس چھا ف وپر خو§ و دمامسلمانوں کے دل کے انقلاب کے بعد ء۱۸۵۷لت وقت کی حمایت کے پا خان کی مفکرانہ نگاہیں اس حقیقت کو مسلمانوں کا بغیر گئیں کہ حکوم

ہہذا انھوں ہکو دوباراپنی کھوئی ہوئی عظمت اور چھونا ترقی کی منزل کو حاصل کرنا ناممکن ہے۔ ل کے یورپ کی اور مغربی علوم سے روشناس کرا ہ دیاکا مشور نے مسلمانوں کو انگریزوں پراعتماد کرنے

کرنے کی کوشش کی۔ مدرسۃ العلوم، علی گڑھ اسی سلسلے کی بالمقابل کھڑا ترقی یافتہ قوموں کےلv بنیاد لٹن کے ہاتھوں اس کا ء میں لارڈ۱۸۷۷کڑی تھی۔ جب ایک طرف چاروں گیا تو رکھا سن

موافقت کی۔ ح سےہر طرش حضرات نے اس تحریک کی دور اندیسے مخالفت ہوئی لیکن بعض آاخری گروہ میں بیان کا لل اسی تحریک کے ے۔ذکر ہاسم گرامی بھی قاب

سے دور سید کی یہ اصلاحی اور تعلیمی تحریک اپنے شباب پرتھی، بیان جوانی کے وقت سر جس اور طالب علموں ساتھ دیا۔اپنی نظم اے قوم ح سے اس تحریک کاہر طرے تھے۔ انھوں نے گزر رہ

Page 33: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

ہی سے خطاب میں تعلیم کی اہمیت کو واضح کیا۔محمد بیان کے مطابق جب ایک ےتنہا کیحی ن نےتو بیاہ تشریف لائے اور وگئی خاں کو دعوت دی سید احمد چندی میں سر مرتبہ جلسۂ عام نو

ماکابر قونظم لکھی جو اس جلسہ میں بڑے بڑے شعر کی اردو میں ایک۳۹سید کی شان میں سرلن انگریز کی (۳۲موجودگی میں پڑھ کر سنائی گئی۔ اس نظم کے چند اشعار یہ ) اور بعض صاحبا

لب گراں تا کجا اے دوستو! خواآان پہنچا پیشوائے کارواں

آانکھیں بچھائیں زیر پا چاہیے آاپ اور ہمارے میہماں لن حق شا

آاپ کی تقریر کے اعجاز نےلت مرداں میں جاں ڈال دی ہے ہم

لر گردوں پھر وہ گلشن ہو ہرا زیگئی ہے جس کے گوشوں میں خزاں آا

لر ہند سید کے قدوم افتخالد جہاں پھر بھی دکھلائے خداون

لv چیئرس ھاٹھے مجلس سے گلبان پھر لز بیاں آاوا آائے پھر کاغذ سے

میں اس ء( کے موقع پر لسان الملک۱۸۹۶نے کل ہند محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میرٹھ ) بیانلن کانفرنس کی تعریف میں اور کانفرنس کی موافقت میں مضمون لکھا ک قصیدہکا ایفارسی اکابری

آانی دیکھ کر ترکیبوں کی پختگی کو اور شور و زور بھی شائع کروایا۔ جس کی اٹھان، الفاظ کے قاآات (۳۳دیکھئے:) شعر چند ا ہے۔اس قصیدے کےیاد

آامدہ لن یاراں ساقی بر اور مے زدن کاوا

Page 34: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

آامدہ لر بہاراں وزکہساراں قطرہ زن ابآامد کنوں آامدکنوں، گلشن بہشت اردی بہشت

آامدہ آامد کنوں تاگل در ایوں ازخشت خشت از گل نشاط انگیختن وز باد عنبر بیختن

آامدہ از ابر لولو ریختن وز چاک داماں مر§ ازطرب دستاں زند، گل خنداں چوں مستاں زند

آامدہ لربستاں زند برقے کہ رخشاں چقماں ددرمدح سید محمود

لر حجازی را نگر لن تازی را نگر، پی ترکاآامدہ لیر سلطاں محمود غازی را نگر، با ف

دانش ورش راح� کند، دارائے ہندش ج� کندآامدہ ریرش فراواں عزت کلاہش ک� کند، ف

آاں شیوہ بیاں، لرزد باں ایڈیسن راز درروئے آامدہ لر دنداں پیچیدہ لکنت در دہاں لب زی

گہش بکشادہ لب ادب بکشاہ لب زی در در تاآامدہ اقصائے عرب ہومر ز سحباں ز یوناں بلگرامی حسیندرمدح

آاں مصطفی رانور عین آاں سید جید حسین، آامدہ لر شرف رازیب وزین دربزم اعیاں صد

است بلگرامی گوہر گویندنامی گوہر است اوآامدہ لابل گرامی گوہر است کز لن عدناں عد

Page 35: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

آا ہی اتنا ملاقات سید احمد خاں سے سر کانفرنس کے اختتام پر کر نہیں بلکہ اپنے حجرے سے باہر لن میں فارسی بھی کی اور یہ کانفرنس ایک سنایا، ک قصیدہ پڑھ کرکا ایان کی تحریک کی شا

بلگرامی کی صدارت حسینسید ء میں نواب عمادالملک۱۸۹۶خاص شان امتیازی لیے ہوئے دسمبر فرمائی تھی جن میں نواب محسن الملک ، میں ہوئی تھی۔ اس میں نامی گرامی ہستیوں نے شرکت

آافتاب احمد خان شاہ دین، میاں محمد احمد، میاں محمد سید محمود، ڈپٹی نذیر شفیع، صاحبزادہ تھی کہ انھیں اس کانفرنس میں نظم امید اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔ بیان کو القادر کے عبد اور سر

بعنوان اسلام جوش مسدس جائے گا۔ اس امید کے تحت انھوں نے ایک پر کیا سنانے کے لیے مدعو رکھی سنانے پر پابندی لگا تھا۔ لیکن محسن الملک نے کانفرنس میں نظمیں سرنگوں علم لکھا کا

ر طبیعت نے بغیر دعوت نامےخود دابیان کی ا۔دیا گیتھی اس لیے بیان کو دعوت نامہ تک نہیں اس لیے انھوں نے کانفرنس کے اختتام کے بعد سر سید نہیں کیا گوارا کرنا کے کانفرنس میں شرکت

سلسلے میں ت دیا۔ اسکا ثبوان کی تحریک سے اپنی دلی محبت ملاقات کی اور ان سے اور سےھپرپر انتہائی ۸ص: ہ کے عنوان سےکا خاتمء( میں کانفرنس ۱۸۹۷وہ لسان الملک )جنوری انداز درد

:میں لکھتے ہیں ۲۶ا۔ کر رکھکہ نظم نہ پڑھی جائے گی۔ ہم نے اپنا ارادہ تہہ سنا نامہ وعید نواب محسن الملک کا’’

اوس پر کو بارش ہوئی۔ مصمم قصد ۲۷ہمارا ناظم مکدر۔ مگر ع صاف تھاکو مطلء( ۱۸۹۶دسمبر )لد طبع گرمایا سنائی جا گیا نظمیں دھڑا دھڑ گئی۔ پھر سنا پڑ آاگے لیکن رہی ہیں۔ سمن وقت ہم سے

آائی۔ارادہ چل دیا۔ دوسرے دن کی ٹھہری۔ پھر لل بارش دوڑی بجے کے ابر ۱۲ ا۔ بعدہو گیسیل سیآائے کچھ روا جو ہ گئی دم۔ خیراور ر نکلگیا ہاتھیا۔ خیال ہوا۔ چھوڑ دینے راستہ روی میں ہاتھ

وہ جا۔ دیکھا کہ خس بالکل کم خانہ یعنی پالکی میں بیٹھ کر، یہ جا غنیمت ہے۔ ناچار چلئے۔ بیمارلر ہے۔ فقط لل اخلاص سے توجہ خاص میں پیشمیر صاحخس باقی ہے۔ سید محمد عط ب نے کما

Page 36: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

آاتے سید سے ملاقات کی۔ حضرت کرسی پر ر سراتر کقدمی فرمائی۔ تھے۔ لالہ کوہ شکوہ نظر لن عزت میں جگر کیخونیں ے۔جا جم طرح ہم بھی دام

‘‘بغل تحسیں بکف من جنس دیواں در نقد صد اولد عبدالقادر )ایڈیٹر سچائی کی تصدیق سر اس )مطبوعہ: ادبی دنیا، رفتگاں مخزن،لاہور( کے مضمون یا

ء( سے بھی۱۹۴۲مارچ ۲۴ہ نمبر مورخ گڑھ،سر سید علی اور بیداریء ۱۹۲۲ نمبر لاہور، نو روز تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ان کے بیان کے مطابق سر سید ہوتی ہے۔ سر عبدالقادر نے اس واقعے پر

ء کے۱۸۹۶ا، جب ان کی قائم کی ہوئی تعلیمی کانفرنس دور تھآاخری کا عمر احمد خان مرحوم کی زمانے میں میرٹھ میں منعقد ہوئی۔ اس میں زمانے کی کئی معتبر ہستیاں شریک تھیں۔ اس میں آاخر

لع ج تھا۔لیکن اس کانفرنس میںکا رواکانفرنس میں نظموں کے پڑھنے محسن الملک نے اسے تضی میں کہ کانفرنس ان کے شہر ۔بیان نے یہ سوچ کرلگا دی اوقات سمجھا اور نظمیں پڑھنے پر پابندی

سرنگوں علم کہہ لیا۔ گی ایک مسدس: اسلام کا م کی فرمائش ہوضرور نظ ہے، ان سےہو رہیمنعقد ہہذا انھیں مدعو نہیں کا خیال با کمان جیسے کو بیا لیکن کسی بھی بغیر ا۔ بیان نےکیا گیل نہ رہا۔ل

لک جلسہ ہونا ت کے خلافو مرواخلاق کے خلاف سمجھا، لیکن اسے بھیخود داریبلائے شریآائیں شہر سمجھا کہ سر سید اور سید محمود جیسی عظیم شخصیتیں ان کے ہ ان کیاور ومیں

آائے۔کر خیمپالکی میں بیٹھ م جلسہ ایکبعد اختتاخدمت میں حاضر نہ ہوں۔اس لئے ہ گاہوں تک اا انھیں لے کر سر سید کے خیمے تک گئے۔اس اور خود لیا نے( دیکھ القادر عبد انھوں نے )سر اتفاق:القادر کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے عبد سر ے واقعاتبعد ککے

سے نکالا۔ سر سید نے اٹھ کر ان سے معانقہکر پالکیدے سہارا کو میں نے بیان یزدانی صاحب’’آاپ سے قریب کرسی پر کیا۔ وہ ان کے آاتاے نہ تو ملنمتمکن ہوئے۔ کہنے لگے حضرت میں

آاپکیونک آا نے اپنی کانفرنس کے جلسے میں مجھے میرے شہر ہ میں مگر بھی یاد نہ فرمایا۔ کر میں آا آاپ کی ملاقات کوآایا ہوپ کے فرزند سید محمود سے ملنے تو محمود مگر تھا چاہتا بھی جی ں۔

Page 37: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

اپنے ملازم سے کہا۔ جاؤ اور کیا ادا سے ملنے کا زیادہ اشتیاق تھا۔ سید صاحب نے بہت شکریہآادمی پاس کے خیمے الملک بہادر کو نواب محسن اور سلام دو سید محمود صاحب کو بھی۔ وہ

اسے سا پرزہ کاغذ کا اپنی جیب سے نکال کر ایک چھوٹا یزدانی صاحب نے تو کی طرف جانے لگا ںدیر میسید صاحب کودے دینا۔‘‘ وہ کارڈ لے گیا۔تھوڑی وزینٹنv کارڈ میرا بھئی ’’لو اور کہا دیا

آائے اور بڑے تپاک سے یزدانی صاحب سے ملے اور سید صاحب سے کہا سید محمود دوڑتے ہوئے آاپ نے دیکھا آاپ خود ہی پڑھ ر صاحب سےاور میلکھا ہے؟‘‘ کیا پر ب نے کارڈمیر صاح’’ کہا’’

:اکر پڑھب نے یہ شعر گرج میر صاحسنائیے۔‘‘ کرآامدم فار§ زاند وہ وپل و اندیشۂ زود آامدم لم محمود لی دہرستم و دربز فردوس

لب ملاقات کاکہا کحاضرین نے سب محسن اچھا راستہ نکالا ہے۔ اتنے میں نواب کیسا ہ تقریآا صاحب نے نواب گئے اور وہ بھی حضرت یزدانی سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ سید الملک بھی

آاپ کی مجوزہ اصلاح مگرہی سلام ہے سے دور ب تھی کہ نظموں کوتو خوصاحب سے کہا۔ آاپ بھی مجھ بھول گئے کہ میر یزدانی بیان ں بھی اپنے کاموں میں یہاور میے بے حد افسوس ہے کہ

خود انہیں دعوت دینی لازم ہے۔ میں تو میں رہتے ہیں اور جواس زمانہ کے مغتنم لوگوں میں ہیں میرٹھ ساتھ لاتا۔ انھوں نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے کہ وہ ہمارے چلنے سے پہلے کو ان کے پاس جاتا اور ان

آا گئے ہیں۔ اس پر ہم کہ آایا کہ مجھے یہ خیال لے میر صاحب نے سید صاحب سے کہا سے ملنے آائے گا موقعہ مجھے پھر ایسا آاپ کے غائبانہ کب ہاتھ آاپ سے ملوں۔ میں مداحوں میں ہوں۔ اس کہ

آاپ کی شان میں موزوں ہو گئے تھے وہ لئے چند ہوں۔ یہ کہہ کر انھوں نے فارسی کے سناتا اشعار :رہ گئے ہیں مجھے یاد اشعار کچھ اشعار پڑھے۔ جن میں سے دو

درنگر باچشم دل کایں قوم چوں پیکر بودسید احمد خاں بہادر پیکرش را سر بود

Page 38: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

لف قوم پیکر را جدا دارد ز سر اختلاندارد در جہاں ابتر بود پیکرے کو سر

آاپ چاہیں تومیں وہ کہا ککے بعد انھوں نے اس آاپ کو سناؤں اردو نظہ اب اگر نے ںجھومیم آاکانفرنس کے لیے لکھی تھی اور سننے کی خواہش پ مجھے بلاتے تو وہاں پڑھی جاتی۔سب نےاگر

سنائی۔ مجھے اس تھی پڑھ کر نظم لکھی سرنگوں علم کے عنوان سے جو انھوں نے اسلام کا کی تو کی گئی۔نواب محسن الملک سب سے زیادہ پسند یہ یاد ہے کہ وہ بہت کے اشعار یاد نہیں ہے۔ مگر

‘‘کرتے تھے کہ یہ جلسہ میں کیوں نہ پڑھی گئی۔ افسوس بار داد دیتے تھے۔ اور بار ان کے دوسرے رفقا کی تو سے انتقال کیا خان نے اس دنیا سر سید احمد کو ء۱۸۹۸مارچ ۲۷جب

ن کااحمد خاہ رہ سکے۔ انھوں نے سر سید بغیر نہوئے بھی اس عظیم حادثے سے متاثر طرح بیانآاٹھ ے۔اس مرثیے کےکرتا ہغم کی صحیح ترجمانی ے وہ ان کے رن� وکہا ہجو مرثیہ علاوہ بیان نے

(۳۴ے:)کاشعر ہاس میں تاریخ ہے۔ مشتمل فارسی زبان میں ایک تاریخی قطعہ بھی کہا پر اشعارچوں دوئی رفت ازمیاں، شد سال او

‘‘سید احمد خاں فنا فی القوم کشت’’ء۱۸۹۸

اپنے حجرے سے ر دیکھئے۔ لسان الملک سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بیانچند اشعامرثیے کے اب جوش انداز میں یہ مرثیہ پر نکل کر سر سید کے تعزیتی جلسے میں شریک ہوئے تھے اور اس میں

(۳۵سنایا تھا۔ )قہر ہے سر سید احمد خاں بہادر کی وفات

آاسماں سے اٹھ گیا لر وہ زمیں کا فخر جورب یہ کیا اندھیر ہے ہے اندھیرا چار سو یا

آاج نجم الہند کیا ہندوستاں سے اٹھ گیا

Page 39: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

راج تیرا لٹ گیا اے قوم اے حرماں نصیبلت عز و شاں سے اٹھ گیا تیرے سر کا تاج تخ

بیکسی چھائی ہوئی ہے کیا در و دیوار پرآاج اس مکاں سے اٹھ گیا لن علوم لر ساما می

ل§ قوم کے انوار دھندلانے لگے پھر چرالق زماں سے اٹھ گیا آافا لب علم ماہتا

گا سلطاں کو رعیت کی زباںئے کون سمجھالت حکمراں سے اٹھ گیا لن قوم تخ ترجما

المملکت تھا، وہ ستون سلطنت وہ عمادلر ہندوستاں سے اٹھ گیا ہائے قیصر، قیص

لح پیری تو دن ہمارا کر نے شام دیا اے صبلر لل کون و مکاں سے اٹھ گیا مہ انور، منز

بنتے بنتے علم کا پتلا ادھورا رہ گیاچاند بڑھتا تھا کہ وہ سورج یہاں سے اٹھ گیا

ہائے جس نے ڈال دی تھی قوم کے مردہ میں جانلگ ناگہاں سے اٹھ گیا لت مر وہ مسیحا دس

اے علیگڑھ تیرے ویرانوں کو اب دیکھے گا کونآارائے ترقی خان ماں سے اٹھ گیا خانہ

کیوں نہ کال� میں اڑائے خاک کال� کی بہارلن بوستاں سے اٹھ گیا لن علم، صح باغبا

جب دیا کاندھا جنازے کو ہوئی بیتاب قوم

Page 40: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

دھڑ تڑپتا رہ گیا اور سر جہاں سے اٹھ گیاشعر کیسے، نظم کس کے، نالہ کیا، فریاد کون

لم بیاں سے اٹھ گیا لل گر آاتش د شعلۂ

وفاتآانء کے موسم سرما میں ۱۸۹۹ کو بیان ےبخار نسلسلہ شروع ہوا۔ کھانسی کا ے لگا۔ پھربخار

ہی اور مضمحل ہواختیار کیآاگے چل کر شدت پرہی بیٹھے چار پائیگئے۔ ہمیشہ ، جس کے باعث قواا ایک دن ہاتھ معمولکا یہیبیٹھے ورزش کرنے کے عادی تھے۔ اس عالم میں بھی ان رہا۔ اتفاق

آائی جس سےآا رہچھوٹ گیا اور وہ نیچے مارچ ۱۳نہ ہو سکے۔ یہ حادثہ جانبر ے۔ شدید چوٹ خواب ابدی حسن فرقانی کے قبرستان میں محو احمد ء کا ہے۔ دلی دروازہ )میرٹھ( کے باہر۱۹۰۰

۱۴انیس ہند میرٹھ ) نہیں ہے۔ بیان کی وفات کے دوسرے دن اخبار کوئی کتبہ یا نشان پر ہیں۔ قبرلج عقیدت پیش ایڈیٹر ن ء( کے۱۹۰۰مارچ :اکیا تھے انھیں اس طرح خرا

سے اپنے معاصرین میں ممتاز خیال کیے شاعرانہ فضل و کمال کے اعتبار حضرت بیان نہ صرف’’ شعرا کی مبالغہ ہندوستان کے نامی بلکہ کئی ایک مجموعی باتوں کے لحاظ سے وہ بلا جاتے تھے

کہ عرصے میں یہ تھا ل انبڑا کمار جگہ پانے کے مستحق تھے۔ سب سے نمبر پ اولفہرست میں آانے جانےبلا کہیے اور مبتلا ہونسے وہ اعصابی مرض میں ہی کہ نشست و برخاست تک سے ں حت

آاگاہ تھے۔ ان کو شاعری کے لوازمات سے کما معذور ہونے کے باوجود زمانے کی ضروریات اور ینغی میں مراقبہ گزیں رہنے پربھی وہ لاثانی کمال حاصل ہوا کہچہار دیواری مدت العمر گھر کی محدود

الرحمن تلامیذ محال ہے۔ یوں تو الشعراء ہونا بھی میسر ے بھرکی خاک چھان کرکو زمان دوسروں کسی کے میں تھی کہ وہ بلا ب مرحوم ہیمیر صاحیہ ہے کہ یہ بات امرمگر واقعیمشہور بات ہے

لف ہ ریختہ کے رنvاگر ور تھے۔ پر قادسخن سامنے عرصے تک زانوئے ادب تہہ کرنے کے تمام اصنا ظہوری کہلاتے تھے اور فارسی میں اپنے عصر کے نظیری و تو میں اپنے زمانے کے میر و مرزا تھے

Page 41: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

آاپ تھا قصائد میں تو یہ حال لک انوری و خاقانی عام طور سے آاپہو گیب مشہور کا لقکہ رش ا تھا۔ آاپ کی اکثر تصانیف اس انداز کو میں موجود نیچرل شاعری کے اندر بھی دستگاہ تھی، چنانچہ

لد سخن کا آام لر طبیعت اور تھے اپنے دما§ سے کام لے کہ جس وقت چاہتے یہ حال تھا ہیں۔۔۔ زو رپہنچا اون کے پاس والا اکوئی لکھنے ے سے معذور تھے، مگر جہاںخود لکھنسکتے تھے۔ وہ

‘‘ے۔شاعر تھجامع الصفات شخص اور ہمہ داں دیا۔ وہ ع کرلکھانا شروانھوں نے بے تکان مینائی نے مصرعۂ ذیل سے ے مرثیے اور تاریخی قطعات کہے۔ امیرشعرا نبیان کے انتقال پر متعدد

لخ وفات نکالی :تاری‘‘یزداں بخشد جناب یزدانی را’’

۱۳۱۷ (۳۶یہ ہیں:) علی رعب انصاری نے تین تاریخیں کہی ہیں۔ ان میں سے دو محمد

لع تاریخ ہاں بگو رعب! مصر‘‘حشر زا دست و مردہ یزدانی’’

۱۳۱۷ تاریخ یہ رعب! لکھ مسیحی

آاہ’’ ‘‘میرٹھ کا بجھا چرا§ اب ۱۳۱۷ اور مرثیے شائع بے شمار تاریخی قطعات ہند، میرٹھ کے مختلف شماروں میں بیان کے انتقال پر انیس

لکھنوی، منشی متصدی لال طرب، دیال عاشق ں ادیب میرٹھی، منشی پربھوشیر خاہوئے ہیں۔ برکت آابادی، منشی مکھن لال جگدمبا پرشاد ہنر منگل سین بے دل جھنجھانوی، رائے شوق، بابو جہاں

(۳۷تاریخی مادے دیکھئے:) میکو لال عشرت، رئیس لکھنو کےحق مغفرت کرے مرے استاد کی ادیب

Page 42: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

آاج اس مبتلائے غم کی یہ دل سے دعا ہے لل ہمدرد نے کہا تاریخ کے لیے د

آاجہ کہ لہ سخن مرگیا ہے دو کہ بادشا( ۴ )ہمدرد۔

(۱۳۱۳/ ۱۳۱۷)لل زار نے کہا یوں دل شکستہ ہو کے د

(۱)زار۔الفلر بے ثبات سے ہے ہے بیاں گیا ‘‘اس ’’دہ

ھ(۱۳۱۸/۱۳۱۷)ہے طرب کے لب سے یہ مصرع بلند

(۹)طرب۔طلن سخن’’ ‘‘اب گئی میرٹھ سے بس شاء(۱۸۰۰)

لز زماں تھے وہ ہنر آامو ادب لگ ادیب لم مر ‘‘لکھ دے تاریخ ’’غ

۱۳۱۷شوق لکھ تاریخ از روئے الم

(۱)الم۔الفل§ سخن’’ لل با ‘‘بے صدا ہے بلب

۱۹۰۰لت دل گفت بیدل از روئے حسر

Page 43: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

(۸)حسرت۔حسمت ایزد گرفتہ یزدانی’’

۱۳۱۷لل فوتش بگو عشرت مسیحی سا

‘‘ےئے ہائبلیغ الملک رفت اے ہا’’۱۹۰۰

آابادی اور منشی مراثی میں منشی رگھبیر ل خان افضل کے مرثیے بہتمحمد افضسہائے بریاں جہاں (۳۸ھپر درد ہیں۔ افضل کا مرثیہ دیکھئے:)

ربد کردانہاد و موت اے بدہنجار سزا، نابکار، نا نا

آازار بے وفا، حیلہ ساز، دل تیرے ہاتھوں سے ہیں سبھی ناچار

سفاک نے چن چن کے دیکھ او تولہ خاک اچھے اچھوں کو کر دیا ت

میں بھی مدت سے تیرا مہماں ہوںگو سکوں ہے مگر پریشاں ہوں

لط غم سے نالاں ہوں ہر گھڑی فرلوگ ہنستے ہیں اور میں گریاں ہوں

لل محزوں تھا پہلے ہی ناشاد دستم ایجاد نے اور اس پہ او تو

تازہ اک اور دا§ دکھلایا

Page 44: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

آایا حرکتوں سے نہ اپنی باز بے حیا کچھ نہ دل میں شرمایا

نے کیا پایا کے تو ہاں مجھے کھوآاگ لگے تیرے عیش و طرب کو آاگ لگے تیرے قہر و غضب کو

یعنی وہ میرے مہرباں استادداں استاد مہرباں اور قدر

یز لل میرٹھ کی ع شاں استاد و اہکہتے تھے سب جنہیں بیاں استاد

مارچ تیرہ کو وہ جواں اقبالپنجۂ مرگ سے ہوا پامال

لل فن کی بہار لم اہ ہائے وہ بزلن سخن کی بہار ہائے وہ گلش

لد چمن کی بہار ہائے وہ شاہل§ پنجتن کی بہار ہائے وہ با

لر بلائے جاں ہو لف نذ جائے صرجائے ہی روز میں خزاں ہو چار

لر سخنوری ہیہات وہ سپہلر شاعری ہیہات یخا لر ذ بح

رر جامی و انوری ہیہات فخلک عرفی و عنصری ہیہات رش

Page 45: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

یز و اعتلا افسوس نیر علج خاکی میں چھپ گیا افسوس بر

لن سخن دانی لی گلش طوطھگل افشانی لن لل گلش بلب

لر غزل خوانی لو کشو خسرلر ہمہ دانی لر افس گوہ

لت انوری و خاقانی غیرلک غالب، بیان و یزدانی رش

لب لرآافتا جاہ و جلالسپہلر فضل و کمال لہ دیا بادشاناثر و ناظم و بلند خیال

لر بے عدیل، بے تمثال شاعآافاق چشمۂ فیض، شہرۂ

لن اخلاق لن حلم و مخز معدلر لن علوم اخت آاسما لد سع

لن علوم لر کا آابدا لر گوہلل لن علومخوش رنگ گ، گلستا

لن علوم روشنی بخش خانمالی بے نظیر و لاثانی منشلم فرقانی عزت افزاے نا

لر سخن کا تھا وہ مرد کارزا

Page 46: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

فرد میں لائقوں کے تھا بس فردگرم مضمون وہ کہ دل ہو سرد

لv رخ ہو زرد سن کے حاسد کا رنلن بندش جو دیکھ پائے وہ حس

ساری ترکیب بھول جائے وہہو رقم غم کی داستاں کیونکرشق ہوا جاتا ہے قلم کا جگر

کانپتا انگلیوں میں ہے تھر تھرہاں اسی پر اب اکتفا ہے مگر

کر دعا ہاتھ اٹھا کے اے افضللب عزبخش د و جل ے ان کو ر

شخصیت میں ل تھے۔ اسی لیے لوگ ان کے بچپنو جمی حسینسے بہت ت کے اعتبارو صورشکل بیان

شادی بھر تھی، چنانچہ عمر کی مطلق پرواہ نہدنیا داریے تھے۔ انھیں کر پکارتانھیں ’’لالہ‘‘ کہہ آازادی پسند اا آارائش نوش میں و تھے۔ لباس اور خورد نہ کی۔طبع ںپابند نہیف کے یا تکلتصنع،

ن کا نصب العین تھا۔ ان کے مزاجکرنا اخدمت ادب کی اور علم و تھے۔ بے فکری سے زندگی بسر امدادا۔ وہ بڑے صلح کل، پاک باطن اور ظریف الطبع تھے۔ جناب موجود تھ میں استقلال بدرجہ اتم

ے۔ وہکیا ہک لطیفہ نقل کا ای، میں بیان ۸۲اپنی تصنیف دہلی کی یادگار ہستیاں: نےصابریآافتاب گیے۔جب مکان پر ساکن پتن کھیڑا )بجنور( ان سے ملنے حسینلکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ سید

آاواپہنچے آافتاب‘‘۔ بیان نے صاحب نے کہا’’ ز دی۔ بیان نے پوچھا کون ہے؟ جواب میں مولویتو آافتاکہا مغرب کے ہی کے واسطے مراجعت کر ب کیسا؟ مولوی صاحب نےبعد ‘‘رہا ہوں۔ فرمایا:’’مرتض

Page 47: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

ہ تھی جس کا ثبوت ان کے غیر مسلمکا خاصاور بے تعصبی ان کے فطرت خلوص، تواضع، ہمدردی ےبعد لکھنفکر کے و غور ے۔ سنجیدہ مسائل پرہوتا ہد سے فراہم کثیر تعداتلامذہ کی احباب و

وہ گل افشانیاں کسی کے دوست نہیں تھے، وہ وہ پھر تو کے عادی تھے لیکن اگر کوئی انھیں چھیڑتا سیاسی اور ملکی معاملات سے ا۔ ایڈیٹر اور صحافی کی حیثیت سےبوکھلا جاتکرتے کہ حریف

اورشعر گوئیے اور انھیں شاعر تھر وہ ادیب اور طور پ بھی باخبر رہتے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ بنیادی ں تھا۔ ان کی اندھیری کوٹھری ہی ان کیلگاؤ نہیچیز سے ذہنی نثرنگاری کے علاوہ اور کسی

تھے۔ ان کی ادبی تخلیقات کرتے کہا لعل‘‘ کادڑ لیے بعض احباب انھیں ’’گو کائنات تھی۔ اسی صاحبان ان مدیر ت کی نگاہ سے دیکھی جاتیں اور اس وقت کے موقر جرائد ورسائل کےو عز وقعت

ہمدانی،سید الشعرا، طوطی ہند، بلیغ کی تحریروں کے ساتھ، ان کے نام سے پہلے صباح الملکلک انوری ہ کرتےکا اضافالہند، سحبان العجم جیسے گرانقدر القاب ، حسانو خاقانیالملک، رش

جوش، ز پرکا انداے بھی تھے۔ ان کے پڑھنے اچھا پڑھتے تھے اتناہی اچھا کہت تھے۔ بیان جتناآاغا اور پر موثر لت شعر اشہر کیف تھا۔ لکھتے ہیں: اظہار‘‘ میں کا لکھنوی اپنے ایک مضمون:’’جذبا

(۳۹) کےشعر خوانیمیں نے ان کی طرز سےبلند شہریصمیم ایک مرتبہ مرحوم )بیان( کے نامی شاگرد’’

آاواز میں بھیکر پڑھتے زور دالفاظ پر ہ استاد مرحومکہا کانھوں نے متعلق پوچھا، تو ے تھے اور ہوتی تھی۔ اس کے بعد صمیم مرحوم نے اس رنv میں ایک شعر ایک خاص جذب کی کیفیت پیدا

لز پڑھ کر سنایا، ‘‘تھی۔ ادا واقعی جوشیلی طر

تصانیف ا کلام طوطی ہند، لسان الملک،کا خاصے تھے۔ ان شعر کہتزبانوں میں بیان اردو اور فارسی دونوں

انھوں نے اپنی ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ غیر مطبوعہ رہ گیا۔ چکا اور جلوۂ یار میں شائع ہو طوفان کتابچوں کے نام مختلف کتابچے طبع کروائے تھے، جن میں سے سات زندگی ہی میں کئی مختصر

Page 48: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

لخ ہند )بجواب شکوۂ۱ذرائع سے معلوم ہوئے ہیں: آافتاب )مثنوی(، ۲ہند حالی( ، ۔پاس ۔۳۔جرمانۂ لت۴ت )نعتیہ کلام(،عطر نعمجموعہ ۔۶۔پنجۂ فولاد، ۵عروس )ایشیائی شاعری کی الوداع(۔ ۔رخص

لس خمسہ، پتا چلتا ہے۔ حل ف کاچار تصانیں بیان کی نثر مییزدانی )فارسی کلام(۔ ۔یادگار۷حوا میں ل(۔ یہ دونوں کتابیں لسان الملککا ناو )شرح دیوان غالب( اور گل عباس )خداپرست المطالب

رہیں۔ غیر مطبوعہ ے کے باعث نامکملہو جانل کا انتقا تھیں لیکن بیان ہو رہیقسط وار شائع سینا اور تیغ ہندی )خطوط کا مجموعہ( بو علیتصانیف میں غیر مطبوعہ کلام کے علاوہ شرح قانون

لر دیمکنسخہ کا ہے۔ اول الذکر نسخہ اچھی حالت میں ہے اورکا قلمیہے۔ ثانی الذکر چکا ہو نذ احمد، حسینل ہے۔ اس میں سید مہدی علی، مولوی پر مشتمصفحات ۱۱۸ فل ا سکیپ سائز کے

مرزا الحامد، الدین عاقل، منشی عبد الدین، سید سلطان الحق،ولایت علی جادو، بشیر سید یعسوب داروں کے نام بیان کے ریحانی اور دیگر تلامذہ، احباب اور رشتے حسینعنایت علی اثر، سجاد

خطوط ہیں۔ ے کہہوتا ہے، اس کی روشنی میں یہ معلوم لکھا ہ طجو خکے نام حسین حامد بیان نے محمد

ہوتاا۔ اس خط سے یہ بھی ظاہر کروایا تھایک منظوم رسالہ بھی شائع انھوں نے جرعۂ جام کے نام سے(۴۰تھے۔ لکھتے ہیں:) دفکر مناپنے کلام کی اشاعت کے لیے بہت ے کہ وہہ

لر حواس خمسہ’’ لض محبت اور جرعۂ جام، یہ دونوں رسالے میرے دو کا اول کے کارنامے تھے۔ بلکہ مرلس خمسہ دوستوں اور خریداروں کےھاڑا گیگ یار لوہذیان تھا۔ جرعہ گئے۔ ہاتھوں پریشان ہو ے، حوا

لف ثانی سے خالی ہے۔بازار ا ہہوا کش معلوم بعد تلاخاص میرے پاس بھی نہیں ہے اور ب اس یوساا بھی� دوں گا۔ تو لیکن اگر مل گیا آاپ کے کس طرح ہیں۔ افسوس ہے کہ ہنر بے دولت ترقی فور والد لل ہنر آافتاب توحید نہیں کرتا۔ اہ لل دولت بے ہنر۔ فی الحال ایک مثنوی جرمانۂ کے بے دولت ہیں اور اہ

لت ضروری سے نہ چھپنا محال ہے۔ روپیہ کہاں آائے۔ بارے میں لکھی ہے۔ مگر اخراجا ‘‘سے

Page 49: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

ہ تیغ ہندی کے اسکا انداز د تھے اسفکر منبیان اپنے کلام کے اشاعت کے سلسلے میں کس قدر آاداے جو صرف القاب ہوتا ہآاخری خط سے بھی (۴۱ے۔ دیکھئے:)ہوتا ہشروع ب سےو

ہ اسلام واسلامیاں دامت برکاتہمو پناپشت ’’لم بے اختیاری سے خشک ہو افسوس لن جگر، غ ہی ور نہ یہ عریضہ میں اپنے خون جگر سے گیا خو

لج ہمت اور اس کا آاپ کا عرو آاپ کے دل لکھتا۔ آاپ آاوازۂ بلند میں سن چکا ہوں۔ میں ہمدردی ہے۔ آاپ کے دست بوسی آانکھوں میں مروت گوشہ گیر ہے۔ فیاضی شرف سمجھے ہوئے ہے۔۔۔ اپنا کو کی

آاپ مجھے کسی نہ کسی تقریبکیا ع� سے جانتے ہوں گے۔ میں ایک سوگ نشیں ہوں کہ ب ہے کہ ں کہ کوئیدیکھتا ہوف چار طرں اور نگاہ مایوس سے اڑاتا ہوخاک اپنے معنوی بیٹوں کے ماتم میں

ں جوگود میآائے اور میری مرد، جس کے دل میں روح القدس نے دم پھونکا ہو علوئے ہمت، جواں کہ یہ ںجانتا ہوبچوں کی لاشیں دھری ہیں ، ان میں ایک جنبش لب سے جان ڈال دے۔ میں میرے

لجلانے والے کا کر متین زندہ ہو آاپ اپنے نادیدہ، خاک راہ: سید کا قیامت تک دم بھرتے رہیں گے۔ ہی بیان و محمد ‘‘میرٹھ۔ یزدانی ، مالک مطبع حدیقۃ العلوم مرتض

پروفیسر سید مسودہ ان کے شاگرد کا ہ کلامغیر مطبوعبیان کے انتقال کے وقت ان کے مطبوعہ اور اس کی تدوین میں مصروف رہے لیکن کامیاب محمود علی گرامی کے قبضے میں تھا۔ وہ عرصے تک

ہ نعت)نعتیہ کلامعطر مجموعسے انھوں نے تین کتابیں، نہ ہو سکے۔ البتہ اصناف سخن کے لحاظ ہ(کا مجموعکا مجموعہ(، رنv شہادت )مراثی اور سلام کا مجموعہ( اور جواہر لاثانی )نیچرل نظموں

مجموعہ نے بھی پاکستان سے بیان کے تین حسین کروائی تھیں۔اسی طرح ڈاکٹر سید صفدر شائع ہ( اور نقش بیانکا مجموع کلام: قندیل حرم )نعتیہ کلام کا مجموعہ(، رنv شہادت )مراثی اور سلام

قو تحقینے جب بیان کے متعلق تلاش )غزلوں کا مجموعہ مع حواس خمسہ( شائع کروائے ہیں۔میں جرعۂ جام، پنجۂ فولاد، حواس خمسہ، جواہر لاثانی اور نقش ھ کتابیں: یادگار یزدانی،تو چشروع کی

ے۔ انہی کیگیا ہہ کلام مختلف ذرائع سے مل غیر مطبوعہ اور کا مطبوعبیان بیان کے علاوہ مجھے

Page 50: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

لن بیانجدید نظمی ، بیان، غالب اور بیان کیو شاعریسے میں بیان میرٹھی حیات مدد ں اور دیواے منظر عام پرلا سکا یوں۔کروا کمیرٹھی شائع

تلامذہ ان کا ل ہے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہلگانا مشکہ کا اندازکے تلامذہ کی صحیح تعداد بیان

ہہذا شاعر تھفطری حلقۂ تلامذہ بہت وسیع تھا۔ بیان مسلم الثبوت استاد، پختہ مشق اور نوے۔ ل د خوشاکثر شاگرلیے بھیجتے تھے۔ ان کے م اصلاح کےاپنا کلاہ تر انھیں کے پاس شعرا زیادق مش

:ہے چلتا پتا اور مختلف ذرائع سے ان کے مندرجہ شاگردوں کا گو، خوش فہم ہوئے ہیں۔ لسان الملک جہاں سہائے سرور الحسن ناطق گلاؤٹھوی، منشی درگا سید ابو میرٹھی، مولانا وارثی اکبر مولانا

آازاد آابادی، آابادی، حافظ کریم بخش علی حسن میرٹھی، منشی شیخ منشی رگھبیرسہائے بریاں جہاں بہادر بشیرالدین علی گرامی، منشی بال سروپ شکن، خان صمیم بلند شہری، مولوی سید محمود

سید سراج احمد سراج مولانا خیرنگری، الحسن یاس، اختر ن تبسم، نوراحمد جاتسخیر میرٹھی، ں ادیب، منشی اصغرشیر خامنشی برکت ن ناچیز، منشی مومن لال خمار،بہادر خا،منشی ینالد

خفی امروہی، منشی حسین الدین جوہر، منشی حیدر شرر، منشی بدیع حسین قمر، سید زوار حسین ت علی جادو، منشی رام پرشاد شادمحمد ولایافضل، منشی الحکیم محشر، افضل خان عبد

میرٹھی، شمس الدین شمس تعلی، نور حسینمیرٹھی، منشی طفیل زار میرٹھی، سہارنپوری، انورآابادی، منشی پربھو اللہ خاں سالم، جگدمبا پرشاد ہنر میرٹھی، سلامت دیال عاشق لکھنوی، جہاں

ہہ بخش قابل، منشی ریاض الحس طلعت، محمد خان بسمل، علاء الدین جلالی، علی احسن حافظ ال حسن قلاش و مشیت خاں مشیت، میر سید علی شیدا، شیخ نجات علی تاثیر،شیخ علی

الحق قمر۔ مفلس،سلامت اللہ خان سالم،عبد

Page 51: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

شاعریآامیزش تھی۔و جدی کے اس دور سے تعلق رکھتے ہیں، جس میں قدیم اردو شاعری بیان ایک د کی

نقوش بنانے ر اپنی شہرت کے دائمیو دبیتھا، انیس چکا گ عام ہوکا رنطرف ناسخ کی شاعری لم عمل تھے، ذوق، غالب اور مومن آاخریمیں سرگر لن شاعری میں اپنے امیر اور دا§ و زمانہ تھاکا میدا

ہمعیل میرٹھی رہے تھے۔ دوسری بجا ڈنکا اپنے کمالات کا آازاد، حالی اور اس کیجدید شاعریطرف اور سماجیمگر شعوری تھی، گو مشرقیتھے۔ بیان کی تربیت اور تعلیم ت میں مصروفو اشاعتروی�

زمانے کی بدلتی قدروں سے متاثر تھے۔ اسی لیے انھوں نے اپنی شاعری کی اساس، اعتبار سے وہ سنگم بن حسینخیالات کا جدید رکھی، جس سے ان کی شاعری قدیم و ت پرو جدیدیروایت گئی۔

قصائد، سہرے، قطعات اور لحاظ رکھتے ہوئے غزلیں، نعت، مراثی، پورا پورا بیان نے روایت کا قسم کی نظمیں بھی لکھی کر جدید اپنا کو رباعیات کہی ہیں اور شاعری کے بدلتے ہوئے رجحانات

آاتش، غالب، مومن، امیر ہیں۔ ان کی غزلوں میں ان کے معاصرین گکا رنمینائی اور دا§ ناسخ، دبیر کا۔ نیچرل شاعری ے اور سلام و مراثی میں انیس وکیا ہسودا کا تتبع جھلکتا ہے۔ قصائد میں

ہمعیل میرٹھی کے دوش بدوش میں وہ آاتآازاد، حالی اور اس اور تہواروں سے ے ہیں۔ روزمرہ زندگینظر آائینہ لت مشاہدہ کی نادر اور شاعرانہ مصوری کی داردیں متعلق نظمیں ان کے تجربات حیات اور قو

میں ہیں۔ ل۔ یہ نظمیں بے حد سادہ اور سلیس زبانمثا ایک وہبی اور وجدانی ا۔ وہلگاؤ تھشاعری سے فطری و شعر اس میں کوئی شک نہیں کہ بیان کو

یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں صداقت، ل عبور حاصل تھا۔پر کامن و بیاشاعر تھے اور انھیں زبان ہے۔ لالہ سری رام ان کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں:) تاثر اور جذبات کی گہرائی پائی جاتی

۴۲)

Page 52: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

لدشعر امیر قابل نامور اوکے بیان میرٹھ’’ لن سخن میں ں تھے۔ استعدا علمی بہت معقول اور فآازاد اور بے باکانہ پایا تھا۔ نظم فیاضااتھے۔ مبد قادر پر نثر و دستگاہ کامل حاصل تھی۔ مزاج بہت

آاپ کو ت شستہ اور صحیحکا نہایسے شعر گوئی اور سخن فہمی تھا۔فارسی کلام سے ملا مذاق لد ر اس سے نہایت قابلیت کےتھا اوبہت ذوق تھے۔ قادر سخنوری دی ہے۔ جملہ اصناف پر ساتھ دا

لر سخن کرتے گیر طبیعت میں یہ تھا ایک عجیب کمال ان کی ہمہ کہ جس رنv میں چاہتے تھے، فکلر طبیعت سے اور پھر یہ وہ وہ نہیں کہ قافیہ پیمائی ہو، بلکہ فی الحقیقت اس رنv میں اپنے زو

اا ااختراعیں کرتے کہ سننے والے حیران رہ جاتے۔ ب کے رنv میں ایسےمرزا غال ن کے بعض شعرمثل‘‘۔تھا ا ہو جاتدھوکا کا ب ہوتے تھے کہ اجنبی کو مرزا غالب کے کلاملا جوا

(۴۳خیال کرتے ہیں:)ل میرٹھی یوں اظہار پیارے لال شاکرہی ہے اور وہ اپنے فضائل و ہ بہت ارفع وکا پایبیان کی شاعری حضرت’’ کے محاسن کمال اعل

۔ادھر ہےبھی سے نظرۓوسیلہ سے اس درجہ تک پہنچ گئے تھے جو معمولی شاعروں کے منتہا نیرنگی، یہی باتیں ہوتی ہیں کی بلندی، خیالات کی علمیت، دماغی قابلیت، طبع کی جولانی، فکر

ہیں اور انھیں اوصاف کی بدولت بیان نے بھی بنا دیتیاور قابل قدر کے کلام کو مستندجو شاعر نظر ڈالنے سے اندازہ ہو غائر ہے۔۔۔ بیان کے کلام پر لیا کر عظمت کا سامان مہیالا فانیاپنی

آافرینی پر گوئیمیدان کے مرد تھے۔ سکتا ہے کہ وہ ہر اا کا پہلو کے ساتھ مضامین ہو نظر انداز عموم بیان کے ایک ۔۔۔ کہا ہے بہت زیادہ جو کچھ کہا ہےہے لیکن بیان نے سب کچھ کہا ہے اور جاتا

ہے کہ وہ جس رنv میں و سکتیہ کی اس سے زیادہ قوی دلیل اور کیا گو ہونےسخن پختہ کار کےگویا انتھا۔ وزن دار اور موزوں الفاظ چاہتے تھے بے تکلف کہتے تھے۔ زبان پر انھیں خاصہ قابو

تھے۔ خیالات کی گوناگوں کیفیات کبھی میر کے رنv میں ہاتھ باندھے کھڑے ہوتےہر وقتسامنے ‘‘ا۔ گ حاصل ہوکا لطفگی کبھی غالب کے۔ کہیں ذوق کی شوخی بیاں ں آائی نظر

(۴۴ے:)کیا ہہ نے بیان کی شاعری پراس طرح تبصرہ خدا بندامروز کے مقالہ نگار

Page 53: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

ہے۔ پڑا اثر اور لکھنو دونوں کے اساتذۂ فن کایدلی ں تھے، البتہ ان پرشاگرد نہیکسی کے بیان’’ کی موشگافیاں ہیں، ہے۔ یعنی اسی قسم گ جھلکتاکا رنان کی غزلوں سے ناسخ کہیں کہیں تو

انھوں نے بڑے سیدھے سادے اور پر مقامات یہ حال نہیں۔ اکثر وہی خارجیت۔ لیکن سارے کلام کا پتا آارائیاں ہیں اور نہ کہیں لکھنوی تکلف اور تصنع کا صاف شعر بھی کہے ہیں، جن میں نہ الفاظ

انھوں نے اگرچہ شاعری میں ناسخ اور وزیر وغیرہ سے بہت متاثر معلوم ہوتے ہیں اور چلتا ہے۔۔۔ بیان تھا پڑا اثر بڑا تحریک کا تضمین بھی کی ہے تاہم ان پر علی گڑھ کی علمیاشعار کیے شعرا کان

آازاد تھے۔ علم بردار ے۔ جس کے سب سے بڑےمتاثر تھاور وہ جدید شاعری سے بہت حالی اور نظمیں کہی ہیں۔ حالی کے تتبع میں قومی غزلیں بھی چنانچہ انھوں نے امید، سردی وغیرہ پربھی

‘‘شاعری کی الوداع‘‘ کے عنوان سے ایک نظم بھی لکھی ہے۔ لکھی ہیں۔ ’’ایشیائی(۴۵ان کی شاعری پراس طرح روشنی ڈالتے ہیں:) حسینمدثر

آاپ شعر گوئیمیرٹھی تمام عمر بیان’’ دستیاب ہو جو م نایاب ہے۔ چند غزلیں،کا کلا کرتے رہے لیکن آازاد اور ے۔ بیانہوتا ہسکی ہیں، ان سے بیان کی شاعرانہ عظمت کا اندازہ میرٹھی نے حالی، ہمعیل میرٹھی کی طرح غزل، نظم، مثنوی، مسدس، لف سخن میں طبع مرثیہ اور رباعی وغیرہ ہر اس صن

لر قلم کی جولانیاں دکھائی ہیں۔ آازمائی کی۔ انھوں نے نہ صرف اردو میں بلکہ فارسی میں بھی اپنے رہواے۔تحریر ہمیں یزدانی تخلص کرتے تھے، چنانچہ بعض جگہ ان کا نام بیان یزدانی وہ فارسی

نبض شناس ساتھ دیا۔ وہ اپنے عہد کے زبردست سخن کی بدلتی ہوئی ہواؤں کا و یزدانی نے شعر بیانلف اول کے شعرا میں شمار کیے جاتے تھے۔ حالی سے معاصرانہ تھے۔ اپنے معاصرین میں وہ ص

ون جو زباشخص میں ہو سکتی تھی، چشمک اور اودھ پنچ سے جھڑیوں کی ہمت کسی ایسے ہیہی پائےبیا لت کاملہ رکھتا ہو، اعل ر صحافی بھی۔ بیان یزدانیہو اور ہو، زبردست ادیب کا شاع ن پر قدر

لف سخن میں طبع حیثیت سے انھوں نے ہرشاعر کی تھیں۔ ہو گئیمجتمع میں یہ تینوں صفات صن‘‘آازمائی کی۔ ان کا کلام اس وقت کے معیاری رسائل میں شائع ہوتا تھا۔

Page 54: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

ہے کہ اس میں وہ تمامہو جاتیے سے یہ حقیقت واضح نظر ڈالنبالاستعیاب کلام پر بیان کےلت فن لت شاعری اور لوازما یا بقائے کسی بڑے اور کامیاب شاعر کی شہرت ں جوموجود ہیخصوصیا

آافرینی،کا باعدوام لت ث ہوتے ہیں۔ نازک خیالی، تناسب لفظی، معنی لل پرواز، ندر لت اسلوب، تخی بداعلش جذبات، شاعرانہ مصوری ے جو ان کے کلام میںکیا ہت، صنائع بدائع، غرض و محاکا خیال، جو

آافتاب و ماہتاب ں!ان کےموجود نہی ہمعصروں میں بلاشبہ بڑے بڑے نام ہیں اور تاریخ ادب میں وہ لل فراموش حقیقت ہے کہ بیان کاجگمگا رہکی طرح درجہ بھی کسی ے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک ناقاب

آابادی نےکا ہےب کیا خوسے کم نہ تھا۔ : سرور جہاں میر و مرزا سے زیادہ ترا رتبہ نہ سہی

یلہ یہ کہیں ہم کیوں کر ان سے کم تھا ترا پلت کلام چوم لیتی تھی فصاحت ترا منہ وقلز بیانی تجھ پر اے بیاں ختم تھی، اعجا

حواشی

آاج کل ) نئی دہلی(، اگست ۔۱ (ن اللہ خان شیروانیاز اما )بیان یزدانی ۳۶ء، ص:۱۹۹۲ماہنامہ خدابندہ( یزدانی مرحوم از )بیان و۷ء، ص:۱۹۵۰ستمبر ۴روزنامہ امروز )کراچی(، ۔۲لل حرم مرتبہ ڈاکٹر ۔۳ :ء(، ص۱۹۷۴مطبوعہ سنv میل پبلی کیشنز، لاہور ) حسینسید صفدر قندی مراۃ الشعرا د مشتاق شارق(از محم )بیان میرٹھی ۳۵ء، ص:۱۹۷۷ماہنامہ تحریک ) دہلی(، جولائی ۵ ہی م( کے مصنف محمدجلد دو) ن محلہ چار دروازہ )میرٹھ(کا مکاے کہ بیان لکھا ہے تنہا نیحی

میں تھا۔ ء( مضمون:غالب کا ایک ہم۱۹۷۵ مطبوعہ مکتبہ جامعہ دہلی )جواد زیدی از علیاض یر و فکر ۔۴

۲۱۶ تا ۱۶۳ (، ص:ازو شاکیحسن فرقانی عصر )سید احمد

Page 55: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

جواد زیدی از علیاض فکر و ری ۔۵ خم خانۂ جاوید ۴۶۵: (، ص۲ماہنامہ نقوش، مکاتیب نمبر ) جواد زیدی از علیاض فکر و ری ۔۶

آاج کل )نئی دہلی(، فروری ۶۰۲: ہ سری رام، صاز لال)جلدسوم( ء )کچھ غالب کے۱۹۵۹ماہنامہ ۳۷ :بارے میں از فرخ جلالی( ص

۱۸۰: ، صجواد زیدی از علیاض فکر و ری ۔۷ ا۔ اس میں نئی معلومات کیہوا تھخان زبیری )مرحوم( سے فراہم احمد یہ شجرہ جناب امداد ۔۸

روشنی میں چند اضافے کئے گئے ہیں۔ محمد ں ، مرتبہ ڈاکٹرجدید نظمیبیان میرٹھی کی ء۱۸۹۳ماہنامہ لسان الملک، میرٹھ، مارچ اپریل ۔۹

۱۹۲ :ء( ص۲۰۰۰شرف الدین ساحل، مطبوعہ علیم پرنٹرس ، مومن پورہ، ناگپور )ء۱۸۹۳ماہنامہ لسان الملک، میرٹھ، مئی ۔۱۰۲۳۷ :ق بریلوی، صاز شفیتذکرۂ شاعرات ۔۱۱ہی بیان ء سید محمد۱۹۱۳ ماہنامہ العصر )لکھنو(، اگست ستمبر ۔۱۲ ےاز پیار میرٹھی و یزدانیمرتض

آاج کل )نئی دہلی( ستمبر ۷:ء ، ص۱۹۵۰ ستمبر ۴روزنامہ امروز )کراچی(، لال شاکر میرٹھی( ماہنامہ مدثر حسین( )بیان میرٹھی از۲۳ء، ص:۱۹۷۰

آاج ء۱۹۵۰ستمبر ۴ء، روزنامہ امروز )کراچی( ۱۹۱۳ماہنامہ العصر )لکھنو( اگست ستمبر ۔۱۳ ماہنامہ لل حرم مرتبہ ڈاکٹر ء۱۹۷۷ء، ماہنامہ تحریک )نئی دہلی( جولائی ۱۹۷۰کل )نئی دہلی( ستمبر سید قندی

لv شہادت مرتبہ ڈاکٹر سید صفدر حسین صفدر حسین، رن۱۶۷ ،۱۶۵، ص:جواد زیدی از علیاض فکر و ری ۔۱۴لل حرم مرتبہ سید صفدر حسین، ص۱۹۱۳ ماہنامہ العصر )لکھنو( اگست ستمبر ۔۱۵ ۵ :ء، قندیآاج کل )نئی دہلی( اگست ۔۱۶ ۳۷ :ء، ص۱۹۹۲ماہنامہ ۱۹۷ :، صجواد زیدی از علیاض فکر و ری ۔۱۷

Page 56: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

ں مرتبہ ڈاکٹرجدید نظمیبیان میرٹھی کی ء۱۸۹۸ماہنامہ لسان الملک )میرٹھ(مارچ تا اگست ۔۱۸۱۸۰ : الدین ساحل، ص شرف محمد

آاج کل )نئی دہلی(،اگست ۔۱۹ ۳۷ :ء، ص۱۹۹۲ماہنامہ لل حرم مرتبہ ڈاکٹر ۔۲۰ ۶ :سید صفدر حسین، ص قندیء۱۹۱۳ ماہنامہ العصر )لکھنو( اگست ستمبر ۔۲۱۱۷۴ :شرف الدین ساحل، ص محمد ں مرتبہ ڈاکٹرجدید نظمیبیان میرٹھی کی ۔۲۲لخ صحافت اردو ) ۔۲۳ لل حرم مرتبہ ڈاکٹر ۱۵۳:د صابری، صاز امدام( جلد دوتاری سید صفدر قندی

ء۱۹۷۷ماہنامہ تحریک )نئی دہلی( جون حسینء۱۹۱۳ ماہنامہ العصر )لکھنو( اگست ستمبر ۔۲۴ ۶۲۴:ل( از لالہ سری رام، صجلد اوخم خانۂ جاوید ) ء۱۹۵۰ ستمبر ۴روزنامہ امروز )کراچی( ۔۲۵

ء۱۹۷۷ماہنامہ تحریک )نئی دہلی( جولائی :ء، ص۱۹۴۲مارچ ۲۴بیداری، علی گڑھ )سر سید نمبر( ء۱۹۲۲نمبر( ادبی دنیا، لاہور )نوروز ۔۲۶۱۹۳۷۶ :ء( ص۱۹۹۰، لکھنو )اردو اکادمیپردیش علی خان،مطبوعہ اتر نادر ہندوستانی پریس از ۔۲۷۱۴، ۱۳انتخاب فتنہ مرتبہ نادم سیتاپوری، ص: ۔۲۸۱۱۷ :گ پریس، دہلی، صحیدر پرنٹنسوم( از امداد صابری، تاریخ صحافت اردو )جلد ۔۲۹۲۰۷ :سوم( از امداد صابری، ص تاریخ صحافت اردو )جلد ۔۳۰۲۰۶ :سوم( از امداد صابری، ص تاریخ صحافت اردو )جلد ۔۳۱۱۴۳، ۱۴۲ہ تنہا، ص:محمد یحییم( مولفہ جلد دومراۃ الشعرا ) ۔۳۲ء۱۹۱۳ ماہنامہ العصر )لکھنو( اگست ستمبر ۔۳۳ء۱۹۶۵مارچ ۸ہماری زبان )نئی دہلی( ۔۳۴

Page 57: بیان میرٹھی۔ حیات اور شخصیت۔ شرف الدین ساحل

ء۱۸۹۸ماہنامہ لسان الملک )میرٹھ( مارچ اپریل ۔۳۵لت رعب مطبوعہ نول کشور پریس لکھنو ) ۔۳۶ ۲۵۰ :ء( ص۱۹۲۲کلیاء۱۹۰۰اپریل ۱۴ء،۱۹۰۰مارچ ۲۱انیس ہند )میرٹھ( ۔۳۷۱۰ :ء،ص۱۹۰۰مارچ ۲۸انیس ہند )میرٹھ( ۔۳۸ء۱۹۲۶ ماہنامہ مرقع )لکھنو( دسمبر ۔۳۹لغ ہندی )قلمی( از بیان میرٹھی، ص ۔۴۰ ۱۱۱ :تیلغ ہندی، ص ۔۴۱ ۱۱۸ :تی۶۲۴ :ل( صجلد اوخم خانۂ جاوید ) ۔۴۲ء۱۹۱۳ ماہنامہ العصر )لکھنو( اگست ستمبر ۔۴۳۷ :ء، ص۱۹۵۰ ستمبر۴روزنامہ امروز )کراچی( ۔۴۴آاج کل )نئی دہلی( ستمبر ۔۴۵ ۲۳ء، ص:۱۹۷۰ماہنامہ

***

سے اجازت کی مصنفعبید تشکیل: اعجاز کی کتاب برقی اور تدوین، تبدیلی، سے پی� ان

کی کام ڈاٹ فری250 ڈاٹ کتب اور کام ڈاٹ نیٹ فاسٹ آائی ڈاٹ کتابیں آارگ، ڈاٹ لائبریری اردوپیشکش مشترکہ

http://urdulibrary.org, http://kitaben.ifastnet.com, http://kutub.250free.com