the reliability of the four gospels - muhammad, islam ... · web viewدونوں مصنف اس...

253
Reliability of the Four Gospels Vol.2 By The Ven’ble Archdeacon Barakat Ullah. M.A ِ ل ی ج ا انِ ت ی ل ص وا ت م دا قِ ل ی ج ا انِ ت ی ل ص وا ت م دا ق ہ ع ب ار ہ ع ب ار دوم لد ج1959 Urdu March.2.2005 www.muhammadanism.org The Ven’ble Archdeacon Barakat Ullah. M.A لہ ال ت کر ب لامہ ع لہ ال ت کر ب لامہ ع

Upload: lydung

Post on 25-May-2018

237 views

Category:

Documents


13 download

TRANSCRIPT

Page 1: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

Reliability of the

Four Gospels Vol.2

By The Ven’ble Archdeacon Barakat Ullah. M.A

ل� اربعہ ل اناجی ل� اربعہقدام واصلی ل اناجی قدام واصلیجلد دوم

1959Urdu

March.2.2005www.muhammadanism.org

The Ven’ble Archdeacon Barakat Ullah. M.A علامہ برک اللہعلامہ برک اللہ

Page 2: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

ل� حق کے نام ل� حق کے نامتمام طالبا تمام طالباجوجو

ل* حق میں سرگرداں ہیں ل* حق میں سرگرداں ہیںتلا تلا" راہ ،حق اور زندگی میں ہوں"۔ )قول المسیح(" راہ ،حق اور زندگی میں ہوں"۔ )قول المسیح(

"بطلبید کہ خواہید یاف ۔ زیرا کسیکہ طلبد می بابد'۔"بطلبید کہ خواہید یاف ۔ زیرا کسیکہ طلبد می بابد'۔ل� متی (۷/۷)انجی

جلد دومجلد دومل مضامین فہرس

ل� یوحنا حصہ چہارمحصہ چہارم ل� یوحنا انجی ۱۵۸۱۵۸تا تا ۵۵انجی

وول وولباب ا ۵۵انجی� کا پس منظرانجی� کا پس منظرباب ا

ل� یوحنا کے ماخذباب دومباب دوم ل� یوحنا کے ماخذانجی ۱۴۱۴انجی

ل� چہارم اوراناجی� متفقہباب سومباب سوم ل� چہارم اوراناجی� متفقہانجی ۳۶۳۶انجی

ل� چہارم کی خصوصیاتباب چہارمباب چہارم ل� چہارم کی خصوصیاتانجی ۵۵۵۵انجی

وول: کلمتہ اللہ کے سوانح حیات اور تعلیم کی تاوی� وول: کلمتہ اللہ کے سوانح حیات اور تعلیم کی تاوی� فص� ا ۵۵۵۵فص� ا

۶۶۶۶فص� دوم: انجی� چہارم کی تعلیمات اوراصطلاحاتفص� دوم: انجی� چہارم کی تعلیمات اوراصطلاحات

ل� چہارم کی تاریخی صح اورپایہ اعتبارباب پنجمباب پنجم ل� چہارم کی تاریخی صح اورپایہ اعتبارانجی ۷۵۷۵انجی

ل� یوحناباب ششمباب ششم ل\ تصنیف انجی ل� یوحناتاری ل\ تصنیف انجی ۹۳۹۳تاری

ل� چہارم کا مصنف۔ مقدس یوحناباب ہفتمباب ہفتم ل� چہارم کا مصنف۔ مقدس یوحناانجی ۱۱۸۱۱۸انجی

وول: انجی� چہارم کی اندرونی شہادت وول: انجی� چہارم کی اندرونی شہادتفص� ا ۱۱۸۱۱۸فص� ا

۱۲۸۱۲۸فص� دوم: کلیسیائی روایات کی تنقیح وتنقیدفص� دوم: کلیسیائی روایات کی تنقیح وتنقید

فص� سوم: مقدس یوحنا کے حالات اورانجی� چہارم کا پایہفص� سوم: مقدس یوحنا کے حالات اورانجی� چہارم کا پایہاعتباراعتبار

۱۳۹۱۳۹

۱۴۳۱۴۳اناجی� اربعہ کے پایہ اعتبار پر اجمالی نظراناجی� اربعہ کے پایہ اعتبار پر اجمالی نظرباب ہشتمباب ہشتم

ل� اربعہ کی اص� زبا� ل� اربعہ کی اص� زبا� حصہ پنجم۔ اناجی ۱۵۹۱۵۹حصہ پنجم۔ اناجی

وول وولباب ا ۱۶۰۱۶۰حضرت کلمتہ اللہ کی زبا� حضرت کلمتہ اللہ کی زبا� باب ا

لم بلاغ نظامباب دومباب دوم لم بلاغ نظامحضرت کلمتہ اللہ کا کلا ۱۷۱۱۷۱حضرت کلمتہ اللہ کا کلا

ل� اربعہ کے ماخذوں کی زبا�باب سومباب سوم ل� اربعہ کے ماخذوں کی زبا�اناجی ۱۹۲۱۹۲اناجی

وول: رسالہ کلمات کی زبا� وول: رسالہ کلمات کی زبا�فص� ا ۱۹۷۱۹۷فص� ا

ل� اربعہ کے دیگر ماخذوں کی زبا� ل� اربعہ کے دیگر ماخذوں کی زبا�فص� دوم۔ اناجی ۲۰۲۲۰۲فص� دوم۔ اناجی

۲۱۵۲۱۵اناجی� اربعہ کی یونانی زبا� کی خصوصیاتاناجی� اربعہ کی یونانی زبا� کی خصوصیاتباب چہارمباب چہارم

ل� اربعہ کی اص� زبا� باب پنجمباب پنجم ل� اربعہ کی اص� زبا� اناجی ۲۳۱۲۳۱اناجی

وول: مقدس مرقس کی انجی� کی اص� زبا� وول: مقدس مرقس کی انجی� کی اص� زبا�فص� ا ۲۴۳۲۴۳فص� ا

ل� متی کی اص� زبا� ل� متی کی اص� زبا� فص� دوم: انجی ۲۵۱۲۵۱فص� دوم: انجی

ل� لوقا کی اص� زبا� ل� لوقا کی اص� زبا�فص� سوم: انجی ۲۶۲۲۶۲فص� سوم: انجی

ل� یوحنا کی اص� زبا� ل� یوحنا کی اص� زبا�فص� چہارم: انجی ۲۶۶۲۶۶فص� چہارم: انجی

Page 3: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

۲۷۸۲۷۸فص� پنجم: ارامی اناجی� کی گمشدگی کے اسبابفص� پنجم: ارامی اناجی� کی گمشدگی کے اسباب

۲۸۵۲۸۵یونانی اناجی� کا زمانہ یونانی اناجی� کا زمانہ باب ششمباب ششم

آاغاز اور قیام وول: غیر یہود کلیسیاؤں کا آاغاز اور قیامفص� ا وول: غیر یہود کلیسیاؤں کا ۲۸۵۲۸۵فص� ا

ل� یہود کے معتقدات اور غير یہود کلیسیاؤں کے ل� یہود کے معتقدات اور غير یہود کلیسیاؤں کےفص� دوم: اہ فص� دوم: اہتصوراتتصورات

۲۹۰۲۹۰

ل� کے یونانی تراجم کی تاری\ ل� کے یونانی تراجم کی تاری\فص� سوم: اناجی ۲۹۲۲۹۲فص� سوم: اناجی

Page 4: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

حصہ چہارمحصہ چہارمل� یوحنا ل� یوحناانجی انجیوول وولباب ا باب ا

لس منظر لس منظرانجی� کا پ انجی� کا پل� چہارم کا مطالعہ یہ ظاہر کردیتاہے کہ اس کا پس منظiر وہی ہے جس کiا ذکiiر ہم انجیلس منظiiر کiا نقشiہ وولین سiے متعلiق ہے۔ اس پ لر ا وول کے شiروع میں کiiرچکے ہیں اورجiو دو حصہ ا

میں " یونiiانی مائ۱�ii: ۶باب میں پایا جاتiiا ہے۔ چنiiانچہ اعمiiال ۱۲رسولوں کے اعمال کے پہلے یہiiودی" کiا ذکiiر ہے جiو تعiiداد میں " بہ " تھے ۔ منجiiئی عiالمین کے مصiiلوب ہiiونے کے تین چار سiال کے انiدر ا�" یونiانی مائ�i یہودیiوں" کی تعiiداد جiو مسiیحی کے حلقہ بگiو* ہوگiئے

۔" خiدا کiا کلام پھیلتiiا1تھے اس قدر بڑھ گiئی تھی کہ وہ کلیسiیا کے غiiالب جiزوبن گiئے تھے گیا۔ اور یروشلیم میں شاگردوں کا شمار بہ ہی بڑھ گیا"۔ خداوند کی نجiiات کiiا پیغiiام ہiiر طبقہ

(۔ یہiiودی قiiوم۷: ۶میں پھی� گیا اور " اورکاہنوں کی بڑی گiiروہ اس دین کے تح میں ہوگiiئی ") کے سرداروں میں سے بھی ایک بڑی تعداد جوپہلے خفیہ شاگرد تھے اب علانیہ خداوند پر ایمiiا�

آائے )یوحنiiا (۔ ا� یہiiiودی ایمiiا� داروں میں " یونiiانی مائ�ii" یہiiود ی بھی تھے جiiو۴۲: ۱۲لے وغیرہ(۔ کلیسiیا کے پہلے ڈیکن اسiی گiروہ سiے۱: ۶۔ ۱۰: ۲مشرف بہ مسیحی ہوگئے تھے۔)

لد اعظم مقدس استیفنس اسی گروہ کا لیڈر تھا) (۔۶۰: ۷تعلق رکھتے تھے اورکلیسیا کا پہلا شہی حضرت کلمتہ اللہ کے زمانہ میں " یونانی مائ� یہودی " کا بہ چرچا تھا۔ اوریہودیiوںل} مقدس کے اندر اورباہر یونiiانی اوریونiiانی فلسiiفہ کے خیiiالات میں رنگی کی ایک کثیر گروہ ار ہوئی تھی جس طرح اس بیسویں صدی کے اوائ�ii میں ہندوسiiتانیوں کی ایiiک کثiiیر تعiiداد مغiiربی

اورمغربی فلسفہ کے خیالات میں رنگی ہوئی تھی۔

1 C.H.Dodd, The Interpretation of the Fourth Gospel p.6(Note)

ل� یہود کا مشہور فلاسفر فائلو)تاری\ پیدائش سن بیس قب� مسیح( یونانی پسiiند یہiiود اہتتب مقiiدس ، افلاطiiو� کiiا فلسiiفہ اور سiiتویقئی کا نمائندہ تھا۔اس کiiا فلسiفہ درحقیق عiiبرانی کل� مرکب ہے۔اس کی متعدد تصنیفات میں عiiبرانی مiiذہب اور یونiiانی فلسiiفہ کiiو خیالات کا معجولد عiiتیق کiiو مسiتند اورالہiiامی کتiiابیں مانتiiا ہے اور چiiونکہ وہ iiتتب عہ باہم پیوس کیا گیا ہے۔ وہ کتتب کی تعبiiیر یونانی فلسiiفہ میں ڈوبiiا ہiiوا ہے ، وہ قiiدرتی طiiورپر اس فلسiiفہ کی روشiiنی میں ا� ک

کرتاہے۔ مقiiدس یوحنiiا کے خیiiالات اور تصiiورات یہiiودی فلاسiiفر فiiائلو کے سiiے ہیں۔ چنiiانچہیی" میں مفص� بحث لوگوس )کلام( کا تصوراس کا شاہد ہے۔ اس نکتہ پرہم اپنی کتاب" نورالہد

آائے ہیں۔ اورناظرین کی توجہ اس رسالہ کی جانب منعطف کرتے ہیں۔ کر فائلو کی طرح یہ انجی� نویس بھی بعض واقعات کو مجازی طورپر بیا� کرتاہے ۔ دونiiوں

۔ جس میں وہ اشiiیاء اور تصiiورات2 کiiا اسiiتعمال کiiرتے ہیں(Symbolism)مصiiنف علاماا توپ میں پیش کرنے کی بجائے اشارات ، کنایات اورنشانات سے کام لیiiتے ہیں ۔ مثل کو اصلی ر دونوں نور کو خدا کی علام سiiمجھتے ہیں اور اس تصiiور سiiے خiدا اوردنیiiا کے بiاہمی تعلقiiات

وغiiيرہ(۔ دونiiوں خiiدا کiو پiiانی کی زنiiدگی بخش۱۴تiا ۱۲: ۸، ۹: ۱کiو سiمجھاتے ہیں )یوحنiiا وغيرہ(۔ دونوں گڈرئیے کی علام کا اسiiتعمال۱۴تا ۱۰: ۴ندیوں کا سرچشمہ تصور کرتے ہیں )

بiiاب( ۔ لیکن یہ امiiر ہم کiiو ہرگiiز فرامiiو* نہیں کرنiiا چiiاہیے کہ یہ سiiب مجiiازی۱۰کiiرتے ہیں )لد عiiتیق سiiے ہی اخiiذ کی ہیں۔ دونiiوں مصiiنف اس بiiات کiiو ہمیشiiہ کی iiوں نے عہiiات دونiiعلام زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خiدا کiو جiانیں۔ اس علم میں ایمiا� اورمحب کے عناصiر موجiiود

ہیں۔ " )پس انجی�ii چہiiارم کiiا پس منظiiر وہ تمiiام تصiiورات ہیں جiiو" یونiiانی مائ�ii یہiiودی

Hellenistic Judaism)میں موجود تھے اورجن کا ذکر فائلو کی کتب میں پایا جاتاہے۔ لیکن مقدس یوحنا ا� تصورات کو اپنے خصوصی طرز کے مطابق استعمال کرتا ہے جو فائلو سiiے2 Ibid.pp.45ff

Page 5: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

اا یہ انجی� نویس بتلاتاہے کہ کلام مجسم ہوا اور اس نے اس دنیiا میں زنiدگی بالک� الگ ہیں۔ مثلتمردوں میں سiiے جی اٹھiiا۔ لیکن فiiائلو کے بسiiر کی اورپھiiر دیگiiر انسiiانوں کی طiiرح مرگیiiا ۔ پiiر مطابق کلام کiiوئی " شiiخص" نہیں ہے۔ پiiر انجی�ii میں اس کiiو " شخصiiی " حاص�ii ہے۔ کلام خدا اور انسا� دونوں کے ساتھ تعلق رکھتاہے ۔ بیرونی خiiارجی دنیiiا کی تiiاری\ میں اس کiiو دیگiiر انسانوں کی طرح جگہ حاص�ii ہے۔ فiiائلو کے مطiiابق کلام ، ایمiiا� اورمحب کiiا مرکiiز نہیں ہےتاس ل� حقیقی بھی ہے۔ لب صاد� ہے اور معشiو لیکن انجی� چہارم کا مجسم کلام، مجسم محیی عرفا� ہے جس کا دوسرا نام ابدی زنiiدگی پر ایما� رکھنا اوراس سے محب کرنا ہی حقیقی الہ

آائے ہیں ۔ یی" میں مفص� بحث کر تامور پر اپنے رسالہ " نور الہد ہے۔ ہم ا� وولین میں کلیسiiیائی حلقiiوں میں " یونiiانی مائ�ii یہiiودی " کiiا اس قiiدرچرچا تھiiاکہ لر ا دولک مغرب کے علمiاء گذشiتہ صiدی کے اواخiر اوراس صiiدی کے اوائ�ii میں یہ خیiiال کiiرتے ممالل� چہiiارم کiiو سiiمجھنے کے لiiئے ہمیں یونiiانی فلسiiفہ کی جiiانب رجiiوع کرنiiا چiiاہیے تھے کہ انجی اورکہ انجی� کے عبرانی اوریہودی عناصر محض ایک پردہ ہیں۔ لیکن موجودہ زمانہ میں یہ خیiiالات

یی میں بتلاچکے ہیں متروک اورمردود ہیں۔ اس کے دو سبب ہیں: جیساہم نوری الہدل� چہارم کے یہiiودی عناصiiر اور حصiiص کiiا خiiاص۱) ۔( گذشتہ چالیس سال میں انجی

طiiورپر مطiiالعہ کیiiا گیiiاہے۔ اس انجی�ii کی یونiiانی زبiiا� کی تنقیح وتنقیiiد کی گiiئی ہے ۔ اس کی�iپہلے پہ �iجانچ پڑتال کا نتیجہ یہ ہے کہ اب تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ اگر یہ انجی ارامی زبiiiا� میں نہیں لکھی گiiiئی تھی تiiiو کم از کم اس کی زبiiiا� میں سiiiامی عناصiiiر موجiiiود

۔ اس موضوع پر ہم حصہ پنجم میں مفص� بحث کریں گے ۔ اس تحقیق کiiا نiiتیجہ صiiاف1ہیں ہے کہ انجی� چہارم یونانی فلسفہ کی مرہو� من نہیں بلکہ انجی� میں سامی زبiا� اور محiiاورات

ل� دیگر مطلب یہ ہے کہ اس انجی� کا ماحول یہودی ہے۔ بکثرت موجود ہیں جس کا بالفا ۔( دوسری وجہ یہ ہے کہ ا� گذشتہ پچاس سالوں میں یہودی کا زیادہ گہرا مطiiالعہ۲)

تتب سے لد جدید کی ک کیا گیا ہے اوراس سوال کی خاص تحقیق کی گئی ہے کہ یہودی کا عہ1 Burney, Aramaic Origin of the Fourth Gospel and Black,Aramaic Approach

کیا تعلiق ہے؟ اس مطiالعہ نے یہ ثiاب کردیiا ہے کہ انجی�i چہiiارم کے تصiورات یونiانی معتقiداتلد عتیق کے ساتھ ہے۔ لب عہ سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ ا� کا تعلق کت

تا� یہودیوں کے لiiئے پس انجی� کا مطالعہ ثاب کردیتا ہے کہ مقدس یوحنا نے یہ انجی� لکھی تھی جiiو یونiiانی مائ�ii تھے۔ مصiiنف نے یونiiانی خیiiالات سiiے کiiام لے کiiر اس گiiروہ کےل� حiiق کے لiiئے خداونiiد کے ایما� داروں کی استقام ایما� کے لiiئے اور غiiیر مسiiیحی متلاشiiیا کلام اور سوانح حیات کی تعبیر کی تاکہ وہ ایما� لائیں کہ" یسiوع ہی خiiدا کiا بیٹiا مسiiیح ہے

(۔ اس سiiے ظiiاہر ہے کہ یہ انجی�ii بھی۳۱: ۲۰اور ایمiiا� لاکiiر اس کے نiiام سiiے زنiiدگی پiiائیں") دیگر اناجی� کی طرح ابتدائی کلیسیائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے لکھی گiiئی تھی ۔ مقدس یوحنا نے اس میں مسیحی ایما� اوراس ایمiiا� کے بiiانی کی زنiiدگی کی تاوی�ii کی ہے۔ہمآاگے چ�ii کiiر مفص�ii بحث کiiرینگے۔ یہiiاں یہ بتلادینiiا کiiافی ہے کہ اس انجی�ii کiiا اس نکتہ پiiر مطالعہ یہ ظاہر کردیتا ہے کہ یہ انجی� قدیم ترین زمانہ کے پہلے ایما� داروں کے لئے لکھی گiiئیآازاد ہiiوچکی تھی ۔ مصiنف تiواریخی سiیدنا تھی جن کی جماع ، یہودی رسوم وتصورات سے یی کی زندگی کے واقعات کی ایسی تاوی� کرتاہے جس سے ا� ایما� داروں کiiا بiاطنی تجiiربہ عیس

تا� کو مسیح میں حاص� تھا منور ہوجاتاہے۔ جو

(۲)ل� یہود کے ساتھ بحث کا طرز اختیار کیا گیا ہےوہ ثاب کرتiiاہے کہ2اس انجی� میں اہ

تا� دنiiوں میں اہ�ii یہiiود مسiiیحی " طریiiق" پiiر سiiخ جس زمiiانہ میں یہ انجی�ii لکھی گiiئی تھی حملے کرتے تھے اور سیدنا مسیح کے دعوؤں کو بڑے زوروشور سiiے رد کiiرتے تھے۔ یہی وجہ ہےل " یہود" منجiiئی جہiiا� کی سiiخ مخiiالف ہے۔" یہiiود" کہiiتے تھے کہ اس انجی� میں جماعیی ناصiری iیدنا عیسiذا سiکہ پلاطوس نے سیدنا مسیح کو صلیب دی جو مجرموں کی سزا ہے لہ

میں ہے۔" میں اس۴: ۱۹مسیح موعود نہیں ہوسکتا بلکہ و ہ ایک مجرم تھا۔ اس الزام کا جواب

2 Macgregor, Gospel of St.John

Page 6: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

ترم نہیں پاتا"۔ آاپ۱۸: ۱۰کا کچھ ج میں مصنف بتلاتاہے کہ سیدنا مسiیح کی صiلیبی مiوت آاپ کی زنiiدگی کiiا جلال تھی) (۔ "۲۸: ۱۲کی رضiiا ورغب کے مطiiابق تھی۔ اور کہ یہ مiiوت

آاپ کiو خiدا کے برابiر بنایiا۔ کیiا وہ ابراہiام سiے آانخداوند نے اپiنے یہود" اعترا} کرتے تھے کہ اور خiiو� کےiiبھی بڑا ہے؟ بالخصوص یہود عشائے ربانی کی رسم میں سیدنامسیح کے گوش کھانے اورپینے پر اعترا} کرتے تھے۔ ا� اور دیگر یہودی اعتراضات کا جواب مقدس یوحنiiا نے

وغيرہ(۔۵۹تا ۳۲: ۶اپنے خصوصی طرز کے مطابق انجی� میں دیا ہے۔) انجی� چہارم میں بظاہر" یہودی" خداونiiد کے" طریiiق" کے سiiخ مخiiالف ہیں لیکن جب ہم اس انجی� کا غور سے مطالعہ کرتے ہیں تiiو ہم پiiر یہ واضiiح ہوجاتiiاہے کہ یہ مخاصiiم

۔ انجی� سے ظاہر ہے کہ اہ� یہود کا خدا ہی سیدنا مسiiیح کiiا " عiiادل بiiاپ"1صرف سحطی ہے (۔ یروشلیم کی ہیک�" میرے باپ کا گھر " ہے۔ " نجات یہودیوں میں سے ہے " ۔۲۵: ۱۷ہے۔)

اور سiiامریوں کے مقiiابلہ میں ا� کی عبiiادت زیiiادہ پiiاکیزہ ہے۔ حiiق تiiویہ ہے کہ اس انجی�ii میںلب بس وکشاد ہیں۔ اس انجی� تدشمن یہودی نہیں ہے بلکہ عبادتخانوں کے اربا مسیحی کی میں مقدس پولوس کی تحریرات کی مانند مسیحی کلیسیا ہی حقیقی اسرائي� ہے۔ الفا�" سiiچا

(۔ تعریiiف کے الفiiا� ہیں اور ثiiاب کiiرتے ہیں کہ حقیقی۴۷: ۱اسiiرائیلی جس میں مکiiر نہیں") میں ہے۔ " شiiریع ۱۷: ۱یہودی مسیحی کی دشمن نہیں ہے۔ مقد س یوحنا کا اص� نظiiریہ

یی کی معiiرف دی گiiئی لیکن فض�ii اور سiiچائی سiiیدنا مسiiیح کی معiiرف پہنچی ۔ جس iiموس تاسی طرح اس انجی�ii میں بھی نبiوتیں لد عتیق کی نبوتوں کا اقتباس ہے طرح دیگر اناجی� میں عہیی سیدنا مسیح کiiا پیش رو ہے موجود ہیں۔ اس کا ذکر ہم اگلے باب میں کرینگے ۔ حضرت موس اوریسiiعیاہ اورابراہiiام نے نبiiوت کی رویiiا میں سiiیدنا مسiiیح کے جلال کiiو دیکھiiا۔ لیکن بiiایں ہمہتپرانی موسiiوی شiiریع پiiر مقiiدس پولiiوس کے خطiiوط سiiے بھی زیiiادہ واضiiح مصiiنف انجی�ii نے ل� تنسiiی\ پھیردیiiاہے۔ تمiiام یہiiودی روایiiات اور بیانiiات کiiو ایiiک ایiiک کiiرکے روحiiانی iiورپر خiiط

1W.R. Inge, The Theology of the Fourth Gospel in Cambridge Biblical Essays pp.262-263

تا� کiو ہمہ گiیر بنiا کiر بے کiار اور منسiوخ کردیiاہے۔ چنiانچہ توں iر اوریiا کiاس پہنiا لبiمطالب ک اصلی ہیک� مسیح کا بد� ہے۔ اس انجی� میں سب کے تصور میں ایسا انقلاب پیدا کردیiا ہےآارام کiiو بھی" کلام" بتلایiiا گیiiا یی کہ خدا کے سiiب کے کہ اس کی ہیئ ہی بدل گئی ہے حت

(۔ اوریوں یہودی سب کے تصور کا قلع قمع کردیاگیا ہے۔ ابراہام کی نس� سے ہونiا۱۷: ۵ہے) ( کیiiونکہ اصiiلی پیiiدائش صiiرف۳۹: ۸یعنی جسiمانی پیiiدائش بے معiiنی بiات کiردی گiiئی ہے )

(۔ سچ تو یہ ہے کہ اس انجی� میں یروشلیم کے تمام حقو� ورسiiوم۳: ۳روحانی پیدائش ہی ہے)(۔۲۴تا ۲۱: ۴کے خاتمہ کا اعلا� کردیا گیا ہے )

(۳)لر بالاسے ظاہر ہوگیا ہوگا کہ مقدس یوحنا کی انجی�ii کے خیiiالات بجنسiiہ وہی ہیں سطو جو مقدس پولوس کی تحریرات میں پائے جاتے ہیں۔ یہ انجی�i اورخطiiوط ایiک دوسiرے سiے اتiنے ملتے جلتے ہیں کہ ایک وق تھا جب نقاد یہ کہتے تھے کہ یہ انجی�ii نiiویس مقiiدس پولiiوس کiiا سب سے بڑا شاگرد ہے اوراس کی انج�" ثانوی پولوسی انجی�" کہا جاتا تھا۔ لیکن حق تو یہ ہے

غلطی iڑی زبردسiا بiاگرد بتلانiا شiول کiدس2کہ اس انجی� کے مصنف کو پولوس رسiہے ۔ مق پولوس رسول نے اور یروشلیم کی کونس� نے شریع کے مقام کا فیصلہ کرکے غیر یہود اقوام کی کلیسیاؤں کے لئے ہمیشہ کےلئے راہ صiاف کردیiا تھiا اورمسiیحی کے تصiورات کی اپiنے زمiانہتا� کiiو معiiنی خiiیز بنادیiiا تھiiا۔ مقiiدس پولiiوس کے سiiے کے خیiiالات کے مطiiابق تشiiریح کiiرکے فلسفیانہ خیالات نے اس انجی� کے مصنف پر ضرور اثر ڈالا تھا اورا سکی دینیات کی طiiرح کے تصورات مصنف کے لئے چراغ راہ بنے تھے لیکن ہم کو یہ حقیق کبھی فرامو* نہیں کiiرنی کiiوئی تعلiiق نہیں۔ اسiiراہ راسiiالات میں بiiورات اورخیiiفیانہ تصiiوں کے فلسiiدون �اہیے کہ اiiچ لت تخلیiiق رکھiiنے والے اورنiiرالے ہیں اورا� کے ماخiiذوں کiiا تعلiiق انجی� کے خیالات انوکھے، قiiوتا� سiiے بے نیiاز ہیں اور خiود اپiنی مقدس پولiوس کے فسiلفیانہ تصiورات سiے نہیں ہے بلکہ وہ انفرادی حیثی رکھتے ہیں ۔ مقدس رسول کے خطوط کا اورانجی� کا مطالعہ یہ ظiiاہر کردیتiاہے2 Dodd, Interpretation of the Fourth Gospel pp.5-6

Page 7: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

اا ایمiا� ، گنiاہ ، نجiiات کiا وسiیلہ وغiیرہ۔ کہ دونوں کی زبiا� اوراصiطلاحات الiگ الiگ ہیں۔ مثل لیکن دونiوں کiا نظiiریہ زنiiدگی یکسiا ں ہے۔ دونiوں کے نزدیiک جلالی مسiیح درحقیق پرسiتش کے لائق ہے۔ دونiiوں کے نزدیiک ایمiiا� اوراعمiiال کiiا بiiاہمی تعلiق ایiک ہی قسiم کiiا ہے۔ دونiiوں

آاخر(۔ دونiوں کے نزدیiک۱۶: ۱، کلسiیوں ۳: ۱سیدنا مسیح کiو خلق کiا وسiیلہ مiانتے ہیں) تiاآازاد ہیں) ل موسوی کی قیود سiے آاخiر ، گلiتیوں ۳۱: ۱۸ایما� دارشریع آاخiر(۔ دونiiوں۲۱: ۴تiا تiا

آاخر(۔ دونiiوں۱۱: ۲، افسiiیوں ۲۴تiiا ۲۱: ۴کے نزدیک یہود اور غير یہود مسiiیح میں ایiiک ہیں ) تiiاتانہوں نے یہودی ربیوں کے قدموں میں تعلیم حاص�ii کی ہے۔1کی تصنیفات سے ثاب ہے کہ

ل� یہiiود کے ربیiiوں سiiے ہی مخصiiوص iiو اہiiرتے ہیں جiiاویلیں کiiیریں اورتiiی تفسiiوں ایسiiونکہ دونiiکی تھیں۔ لیکن ہم یہ نہیں کہہ سiکتے کہ مقiiدس یوحنiiا مقiiدس پولiiوس کiا گویiا شiاگرد تھiiا کیiiونکہلد زمiiانہ تھے جن کے خیiiالات ، تصiiورات اور فلسiiفیانہ نکiiات متiiوازی ہیں اورایiiک تاسiiتا دونiiوں

ل� من نہیں ہیں۔ دوسرے کے مرہووولین میں مقiiدس یوحنiiا اور مقiiدس پولiiوس لر ا حiiق تiiو یہ ہے کہ مسiiیحی کلیسiiیا کے دواا عبرانیوں کے خ� کے مصنف اوراپلوس وغیرہ سمی ابتiiدائی کلیسiiیا کے دیگر چند ہستیوں مثلوول کے بiiاب سiiوم تاسiiتادوں نے جیسiiا ہم حصiiہ ا " استادوں" کے گiiروہ کے ممتiiاز افiiراد تھے۔ ا�

۔۱۔ ۱۱: ۴میں بتلاچکے ہیں مختلiiف طریقiiiوں سiiے اپiiiنی اپiiiنی لیiiiاق کے مطiiiابق )افسiiیوں وغیرہ( مسیحی ایما� داروں کے ایما� کو مضبوط اورمسiiتحکم۱: ۱۳۔ اعمال۲۸: ۱۲کرنتھیوں

تا� ہزارہiا لوگiiوں کiو جiو کیا اوراپنے اپiنے خیiiالات کے مطiiابق مسiiیحی ایمiا� کی تشiریح کiرکے کلیسیا کے باہر تھے منجئی عالمین کا حلقہ بگو* کردیا۔

(۴)تاس " منiiادی" کی روشiiنی میں جب ہم اس انجی�ii کے الفiiا� اوربیانiiات رسiiولوں کی آائے ہیں تiiوہم پرظiiاہر ہوجاتiiاہے وول کے باب سiiوم میں کiiر مطالعہ کرتے ہیں جس کا ذکر ہم حصہ ا

1Dodd , Apostolic Preaching & Its Development ,Lecture I & Interpretation of the Fourth Gospel pp.6-7

آاتiiاہے، اسiiی لس مضiiمو� صiiاف طiiورپر نظiiر کہ جس طرح انجی� مرقس میں " اس منادی" کiiا نف ۔ چنiiانچہ اس میں نہ صiiرف2طرح انجی� چہارم میں بھی" منادی" کے تمiiام موضiiوع موجiiود ہیں

کلیسیا اوراس کے نظام کی ابتدائی منازل، بارہ رسولوں کiiا بپتسiiمہ ، اور عشiiائے ربiiانی کے رواجلس مضمو� بھی موجود ہےجو اعمiiال اور۱۰کا ذکر پایا جاتاہے بلکہ رسولوں کی " منادی" کا نف

باب میں پایاجاتاہے۔ اس کو مصنف نے وسع دے کر لکھiiاہے ۔ چنiiانچہ سiیدنا مسiیح کiا۱۳آانا پہلے باب کا موضوع ہے"۔ وق کے پiiورا ہiiونے " کiiا ذکiiر ہے) :۵۔ ۲۳تiiا ۲۱: ۴اس دنیا میں

وغیرہ(۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے کی منادی، سیدنا مسیح کا بپتسمہ سے ممسiiوع ہونiiا،۲۸تا ۲۵یی کا مسiیح موعiiود ہنiiا، سiیدنا مسiiیح کiiا گلی میں اور بعiiد ازاں یروشiلیم میں پرچiiار سیدنا عیسآانخداوند کے معجزات اورا� کے حقیقی مفہوم ومطالب کو سمجھانا، عدال کا ذکر، کرنا ،

آاپ کا جلال پانiiا)۳۱: ۱۲) آاخری خطبات اورمکالمات آاپ کی۱۲(۔ سیدنا مسیح کے بiiاب(، لد iآام آاپ کی آامiد کiا ذکiر، آاسiمانی اورروح القiدس کی صلیبی موت اور ظفریاب قیiام اور صعود

(Perspective)ثانی کے اص� مفہوم کا سمجھانا جس میں اس انجی� نویس نے تناظر

کو بدل کر اس موضوع پر نئی روشنی ڈالی ہے وغیرہ وغیرہ، سب کی سiiب بiiاتیں رسiiولوں کی " منادی" کا جزوتھیں۔

تاس وق اس نکتہ سے ایک ہم بات یہ ثاب ہوتی ہے کہ جب یہ انجی� لکھی گiئی تiو بلاواسiiطہiiلہ راس لس مضiiمو� سiiے بiiرا وہ زمانہ تھا جب اس کا مصنف رسولوں کی منادی کے نف خود واقف تھا اورامر اس انجی� کی قدام اورپایہ اعتبار کا جیتا جاگتiiا زنiiدہ ثبiiوت ہے۔ ہم انشiiاءل\ تصiنیف کے تح مزیiد بحث کiریں آاگے چ� کiر اس مضiiمو� پiراس کی انجی�i کی تiاری اللہ

گے۔

2 Hoskyns, The Fourth Gospel Vol.1.p.XX11

Page 8: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

باب دومباب دومل� یوحنا کے ماخذ ل� یوحنا کے ماخذانجی انجی

مقدس یوحنا کی انجی� کا سرسری مطiiالعہ بھی یہ صiiاف طiiورپر ظiiاہر کردیتiiاہے کہ اس کا مصنف خودایک چشم دید گوہ ہے۔ چنانچہ اس انجی� میں مختلف رسولوں کے خصiiائ� کiiاتاتiiار کiiر اس طورپر نقشہ کھینچا گیا ہے کہ ایسا معلiiوم ہوتiiاہے کہ گویiiا مصiiنف نے ا� کی تصiiویر ہمiiارے سiiامنے رکھ دی ہے۔سiiچ پوچھiiو تiiو صiiرف اسiiی انجی�ii کی بiiدول ہم بiiارہ رسiiولوں کیاا اگریہ انجی� نہ ہوتی تو ہندوستا� کے رسول مقiiدس تومiiا کiiا خصوصی عادات سے واقف ہیں۔ مثلتا� لوگiiوں کiiا بھی کiiیر کiiٹر واضiiح کردیiiاہے جن کiiو ہمیں محض نiiام ہی معلiiوم ہوتiiا۔مصiiنف نے

اا مارتھiiا اورمiiریم کiiا بیiiا�) بiiاب(۔ اورمiiادر زاد۱۱آانخداوند کی صحب کا فیض حاص�ii تھiiا۔ مثلآانکھوں کے سiiامنے لا کھiiڑا کرتiiاہے اور ثiiاب کرتiiاہے کہ۹اندھے کا بیا� تو) باب( اس کو ہماری

،۵۲، ۴۰۔ ۶: ۴۔ ۲۰: ۲انجی� نویس ایک چشم دید واقعہ کا بیا� کررہاہے۔ تاریخی تفصiiیلات)لر عiiدال اورپلاطiiوس کے۱: ۱۲۔ ۳۹: ۱۱ وغیرہ(۔ سیدنا مسiiیح کی گرفتiiاری کiiا واقعہ ، صiiد

( صiاف طiورپر ایiک چشiم دیiد گiواہ کiا پتہ دیiتے ہیں۔ دو۱۳سiامنے پیشiی کے بیانiات )بiاب شاگردوں کا قبر کی طرف دوڑ کر جانے کا بیا� سiiیدنا مسiiیح کiiا مiiریم اورشiiاگردوں کiiو دکھiiائ

وغiiيرہ( سiiب اس کے۲۱، ۲۰دینے کے بیانات اورا� کے ساتھ ہمکلام ہونے کی تفصیلات)بiiاب شاہد ہیں کہ ا� بیانات کو لکھنے والا ایک چشم دید گواہ ہے۔

آاپ کے رسولوں کی نسب ایسی باتیں بتلاتا ہے علاوہ ازیں یہ مصنف سیدنا مسیح اوراا وہ رسiiولوں کے ایسiiے جو کوئی ایسا شخص نہیں جا� سکتا تھا جو اس حلقہ سے بiiاہر ہiiو۔ مثل

وغiiیرہ( وہ بتلاتiiاہے۱۲: ۲۰۔۲۷: ۴خیالات کا ذکر کرتاہے جو وہ زبiiا� پiiر بھی نہیں لائے تھے۔)آانخداوند کی باتوں کو نہیں سمجھتے تھے ) آاخiiر(اور کہ۲۷: ۱۳، ۱۱: ۱۱۔ ۳۲: ۴کہ رسول تiiا

آاپ کے اقوال کو مابعiiد کے واقعiiات کی روشiiنی میں سiiمجھے) (۔ یہ۱۶: ۱۲۔ ۲۲تiiا ۲۱: ۲وہ

آاپ نے خلiوت میں شiاگردوں سiے مصنف سیدنا مسiیح کے ایسiے کلمiات کiا ذکiر کرتiاہے جiو آاپ مخاطب ہوئے اور رسولوں کے اقوال کو بھی تا� رسولوں کا نام بتلاتاہے جن سے فرمائے تھے اور

(۔۲۱، ۲۰، ۱۴ ، ۱۳ اورابواب ۲۲: ۱۲۔ ۱۶تا ۷: ۱۱۔ ۷۱ تا ۶۷، ۸، ۵: ۶لکھتاہے )اا ہیک� کے واقعہ ) ( سے بھی ظاہر ہے کہ مصiiنف اس واقعہ کiiا۲۲: ۲دیگر بیانات مثل

آای آاپ بیiتی واقعہ بتلا رہiiا ہے۔ واقعہ کی۱۶: ۱۲عینی گواہ ہے کہ وہ اپنا اوراپiنے سiاتھیوں کiا اا آایات مثل آای اوردیگر وغیرہ صاف ثاب کرتی ہیں کہ انجی�ii کiiا لکھiiنے۳۹: ۷یاددہانی ہے۔ یہ

میں گتسiiمنی بiiاغ کiiا ذکiiر ہے اوریہ بتلایiا گیiiا ہے۲تا ۱: ۱۸والا خود ایک چشم دید گواہ ہے۔ کہ " یسوع اکثر اپنے شاگردوں کے ساتھ وہاں جایا کرتا تھا "۔یہ الفا� نہای وضاح کے ساتھآارام گاہوں سiے خiود واقiف تھiا۔ آانخداوند کی مختلف اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ لکھنے والا

بiاب( کے الفiiا� واضiح طiورپر ایiک چشiم دیiد گiواہ کiا پتہ۱آای )۱۴انجی�i کے دیبiاچہ کی میں مصنف سیدنا مسیح کو شاہد بنا کر کہتiiاہے کہ" وہ جانتiiا ہے کہ۳۵: ۱۹بتلاتے ہیں۔ اور

میں سچ کہتا ہوں" یہاں لفظ " وہ " سے مراد سیدنا مسیح ہے۔ جس طرح پولوس رسول لکھتiiاہےآاقا مسiiیح۳۱تا ۱۱: ۱۱۔ کرنتھیوں۲کہ " خدا جانتا ہے" ) ( اسی طرح یہ مصنف لکھتاہے کہ میرا

آاخری باب کلیسیا میں جانتا ہے کہ جو میں نے لکھا ہے وہ سب سچ اور صحیح ہے۔ انجی� کے آای آای ۲۴دوسرے ممتiiاز شخصiiوں کی مہiiر تصiiدیق ہے ) آای ۲۰(۔ اور ۲۴ سiiے ظiiاہر ہے کہ

کا شاگرد وہی ہے جس سے سیدنا مسیح محب رکھتا ہے اورجو صلیبی واقعہ کا چشم دیiiد گiiواہ(۔۲۶، ۳۵: ۱۹تھا۔)

(۲) انجی� یوحنا کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ جن لوگiوں کے لiئے یہ انجی�i لکھی گiئیآانخداوند کی زندگی کے ایسiے متعiدواقعات اور سiوانح حیiات سiے واقiف تھے جiو ابھی تھی وہ منتشر حال میں لکھے گiئے تھے۔ دیگiiر انجی�ii نویسiوں نے انہی پiiاروں سiiے اپiنے ماخiiذوں کiو

(۔ اور دیگiiر چشiiم دیiiد گواہiiوں کے۲۵: ۲۱(یہ پiiارے تعiiداد میں بہ تھے)۱: ۱جمع کیiiا)لوقiiا

Page 9: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

۔ پس انجی� چہارم کے مصنف نے اس انجی� میں نہ صiiرف اپiiنے1زبانی بیانات بھی موجود تھے ذاتی مشاہدات کا بیا� کیا ہے بلکہ دیگر چشم دید گواہوں کے تحریری اورزبانی بیانات سے بھی اسiiتفادہ حاص�ii کیiiا ہے۔ لیکن یہ ماخiiذ صiiرف متفiiر� اور غiiير مکم�ii پiiارے ہی تھے جن میں�iنی انجیiویس نے اپiن �iسیدنا مسیح کے اقوال اور زندگی کے واقعات درج تھے اور جن کو انجی

2میں درج کرلیا

آامیز* پاکر ایک ہوگیا ہے ۔3اورا� ماخذوں کا مسالہ اس کے تخلیقی دماغ کی کٹھالی میں باہم آانخداونiiد اس بات کا ثبوت کہ مصنف نے تحریiiری ماخiiذ اسiiتعمال کiiئے ہیں یہ ہے کہ

اا تا� کiiو تشiiریح کرتiiاہے۔ مثل آای ۱۹: ۲کے بعض اقiiوال لکھiiنے کے بعiiiد وہ ۲۱ کے بعiiiد وہ آای ۳۷: ۷لکھتiiاہے۔ لکھتiiاہے جس میں وہ سiiیدنا مسiiیح کے اقiiوال کiiا مطلب۳۹ کے بعiiد وہ

آای ۳۲: ۱۲ کے مطiiابق ہے۔ ۳۵، ۲۷: ۶، ۱۴: ۱۴بیiiا� کرتiiاہے جiiو تشiiریح۳۳ کے بعiiد وہ آای کی طرف پھر اشارہ کرتiiاہے ۔ ۳۲: ۱۸کے طورپر لکھتاہے اور کی تشiiریح۱۲: ۱۷ میں اس

۔4 میں کرتاہے۹: ۱۸وہ آانخداونiiد کے سiiامعین ہiiزاروں کی تعiiداد میں وول میں بتلاچکے ہیں کہ جیسا ہم حصہ اآاپ کی زندگی کے واقعiiات کiiو دیکھiiا تھiiا اوراپiiنے کiانوں آانکھوں سے ہوتے تھے جنہوں نے اپنی

آاپ کی جانفزا تعلیم کو سنا تھا۔)یوحنا ( اس کiiا قiiدرتی نiiتیجہ یہ ہiiوا کہ ا� کے بیانiiات۲: ۶سے تا� شمار میں ا� گن تھے ایساکہ " اگر وہ جدا جiدا لکھے جiiاتے تiو جiiو کتiiابیں لکھی جiiاتیں

(۔ ا� تحریiری ماخiذوں سiے جیسiاہم بتلاچکے ہیں۲۵: ۲۱کے لئے دنیا میں گنجiiائش نہ ہiiوتی") اناجی� متفقہ کے لکھنے والوں نے استفادہ حاص�ii کیiiا اور انجی�ii چہiiارم کے مصiiنف نے بھی ا�تاس کے مطلب کے تھے ۔ لیکن اس نے ا� ماخiiiذوں میں سiiiے ایسiiiوں کiiiو اسiiiتعمال کیiiiا جiiiو تاس کے کiام کے نہ تھے۔ چنiانچہ وہ لکھتiاہے " یسiوع نے اوربہ سiے ماخذوں کو چھوڑ دیا جو

1 Hoskyns Fouth Gospel pp.87-882E.F. Scott The Fourth Gospel (2nd Ed) pp31-323 Charnwood, According to St.John .p.894 Dr.H.H.Wendt , The Gospel according to St.John.(1902)pp.66-72

معجزے شاگردوں کے سامنے دکھائے جو اس کتاب میں لکھے نہیں گئے " اور پھر اپنی انجی� کی تالیف کا مقصد ا� الفا� میں بتلاتiiاہے " یہ اس لiiئے لکھے گiiئے کہ تم ایمiiا� لاؤ کہ یسiiوع

تاسکے نام سے زنiiدگی پiiاؤ") ۔۲۷: ۱۱۔ ۳۱تiiا ۳۰: ۲۰ہی خدا کا بیٹا مسیح ہے اور ایما� لا کر وغیرہ(۔۴: ۱یوحنا ۱ ۔ ۱۱: ۱۵

چونکہ انجی� چہارم کی تالیف سے پہلے انجی� مiiرقس کلیسiiیاؤں کے ہiiاتھوں میں تھیآاسiiانی ہوگiiئی۔ کیiiونکہ اس انجی�ii میں اور لہiiذا اس مصiiنف کiiو اپiiنے ماخiiذوں کے انتخiiاب میں آانخداونiiد کے کلمiiات اور سiiوانح حیiiات پہلے ہی سiiے موجiiود تھے جن سiiے رسiiالہ کلمiiات میں ایما� دار واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اگiiر چہ مقiiدس یوحنiiا نے کسiiی تمثی�ii کiiا ذکiiر نہیں کیiiا

آاپ نے تمثیلوں میں کلام کیiiا تھiiا) (۔اگiiرچہ۲۵: ۱۶تاہم اس انجی� کو پڑھنے والے جانتے ہیں کہ تاس کام کا بیiiا� نہیں ہے جiiو صiiوبہ گلی�ii میں کیiiا گیiiا تھiiا تiiاہم اس اس سے سیدنا مسیح کے

(۔ مصiiنف یہ فiiر} کرلیتiiا۱: ۷ ۲تا ۱: ۶۔ ۴۵، ۴۳: ۴کی جانب باربار اشارے کئے جاتے ہیں) تiا۵: ۱۸۔ ۴۶تiا ۴۵: ۱ہے کہ اس کے پڑھنے والےجانتے ہیں کہ سiیدنا مسiیح ناصiرت کے تھے)

آاپ نے کفiiر نحiiوم میں کiiام کیiiا تھiiا)۱۹: ۱۹ ۔ ۷ آاپ کے شiiاگرد گلیلی۱۲: ۱۲( اور کے ( اورآاپ کے بھiiائی پiiر ایمiiا� نہیں لائے تھے۔ )۴۴تا ۴۳: ۱تھے ) (۔ جب یہ انجی۴�iiتiiا ۳: ۷( اورکہ

نویس صلیبی واقعہ کا ذکر کرتiiاہے تiiو وہ یہ فiiر} کرلیتiiاہے کہ اس کے پڑھiiنے والے جiiانتے ہیں کہآاپ اپنی صلیب۲۸تا ۲۴: ۱۸کیفا کے سامنے سیدنا مسیح کی پیشی ہوئی تھی۔ ) (۔ اورکہ جب

آاپ کی صiلیب اٹھiiائی تھی) ، مiرقس۱۷: ۱۹اٹھا کر کلوری کو چلے تھے تو شمعو� کرینی نے آاگے چ� کر اس موضوع پر وضاح سے بحث کریں گے۔۲۱: ۱۵ ( ہم انشاء اللہ

�iiر انجیiiنف نے دیگiiارم کے مصiiچہ �iiا کہ انجیiiا ہوگiiح ہوگیiiر واضiiاظرین پiiال نiiر حiiبہ تا� ماخiiذوں کiiا اسiiتعمال کیiiا جن سiiے اس کی نویسiiوں کی طiiرح تحریiiری ماخiiذوں میں سiiے مطلب براری ہوتی تھی تiاکہ ایمiا� داروں کے ایمiا� کی اسiتقام ہiiو اورسiب منجiiئی جہiiا� کے

آاکر ایما� لائیں۔ قدموں میں

Page 10: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

(۳) اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ مقiiدس یوحنiا کے پiاس کiو� سiے ماخiذ تھے جن سiے اس

نے استفادہ حاص� کیا ہے۔ ا� میں سے بعض حسب ذی� تھے:وول۔ انجی�ii مiiرقس۔ اس میں کسiiی شiiک کی گنجiiائش نہیں کہ یہ انجی�ii نiiویس۱) ۔(ا

�iiو بھی نقiا� کiiولی الفiیر معمiiانچہ اس نے اس کے بعض غiiانجی� مرقس کا استعمال کرتاہے۔چن اا :۱۸( ۴۲: ۱۴۔ )مiiرقس ۳۱: ۱۴( ۵تا ۳: ۱۴)مرقس ۵تا ۳: ۱۲(۳۷: ۶)مرقس ۷: ۶کیا ہےمثل

( وغiiیرہ۔ علاوہ ازیں۱۲تا ۱۱: ۲)مرقس ۹تا ۸: ۵( ۹: ۱۵)مرقس ۳۹: ۱۸(۔ ۵۴: ۱۴ )مرقس ۱۸بیانات کی تفصیلات اورالفا� بھی ایک ہی قسم کے ہیں۔

یہاں ہم جملہ معترضہ کے طورپر یہ بتلادینا مناسب خیiiال کiiرتے ہیں کہ اگiiرچہ مقiiدس یوحنا انجی� مرقس کا استعمال کرتاہے وہ دیگر اناجی� اوربالخصوص انجی� متی سے نiiاواقف نظiiر

گiو بعض نقiادوں کiا خیiال ہے کہ وہ انجی�i سiوم سiے واقiف تھiiا لیکن سiب بالااتفiiا� یہ1آاتاہے کہتے ہیں کہ وہ متی کی انجی� سے واقف نہ تھا۔ یہ نکتہ نہای اہم اور قاب� غور ہے کیiiونکہ اس تحقیiiق کی روشiiنی میں ہم اس انجی�ii کی تiiاری\ تصiiنیف کiiا علم حاص�ii کرسiiکتے ہیں۔ اس

آاگے چ� مفص� بحث کریں گے۔ موضوع پر ہم انشاء اللہ انجی�ii چہiiارم کiiا غiiائر مطiiالعہ یہ ظiiاہر کردیتiiا ہے کہ اس کے بیانiiات میں ایسiiے الفiiا�ل� مرقس میں ہیں ۔ سطور بالا میں ہم نے چند حوالے پیش کئے ہیں۔ اورجملے موجود ہیں جو انجی

۔2یہ انجی� نویس چند اہم واقعات کا ذکر کرتے وق انجی� مرقس کے الفا� کو استعمال کرتاہے دونوں انجیلوں میں صرف بعض لفظiوں یiا فقiiروں کے حصiوں اور جملiوں میں ہی مشiابہ نہیں

اا :۶ او مرقس ۲۱تا ۱: ۶پائی جاتی بلکہ دونوں میں بعض اوقات فقر کے فقرے یکسا ہیں۔ مثل ۔۲۸، ۲۷، ۱۸تiiا ۱۵: ۱۱۔ اورمiiرقس ۲۲تiiا ۱۳: ۲۔ ہیک�ii کiiو پiiاک کiiرنے کiiا واقعہ )۵۲تiiا ۳۰

1 Stanton, Gospels as Historical Documents pp.220.Macgregor,The Gospel of St. John, (Moffat’s Comentary)pp.X-X12 Hoskyns Fourth Gospels pp,72-76

( اگiiرچہ عiiورت کiiا پiiاؤں کiiو مسiiح کiiرنے کے بیiiا� میں دونiiوں۹: ۱۱، مiiرقس ۱۳: ۱۲اوریوحنiiا انجیلiiوں میں سiiیا� وسiiبا� کiiا فiiر� ہے لیکن دونiiوں کے الفiiا� ایiiک دوسiiرے کے مشiiابہ ہیں اور

آاخری عید فسح کے کھiiانے کiiا ذکiiر۲۱تا ۳: ۱۴۔ مرقس ۸تا ۱: ۱۲بعص الفظ یکساں ہیں (۔ ( پطiiرس کے انکiiار۲۱، ۱۷، ۱۰: ۱۴ ۔ مiiرقس ۳۰، ۲۱، ۲: ۱۳پس منظiiر مiiرقس کiiا ہی ہے )

، اور۳۸، ۳۷، ۳۰، ۲۱، ۲: ۱۳کی پیشiiین گiوئی میں دونiiوں کےالفiiا� اور فقiiرے یکسiiاں ہیں )تاٹھiiو" یہiiاں سiiے۳۱، ۲۹، ۲۱، ۱۷، ۱۰: ۱۴مرقس آاخری مکالمات کے الفا�" (۔ انجی� کے ( صiiiلیبی واقعہ کی بعض تفاصiiiی� بھی یکسiiiاں۴۲: ۱۴( مiiiرقس ہی کے ہیں )۳۲: ۱۴چلیں)

( دونiiوں انجیلiiوں میں پطiiرس کے۴۷: ۱۴، مiiرقس ۱۰: ۱۸۔ یوحنiiا ۴۳: ۱۴و مiiرقس ۳: ۱۸ہیں) ،۱۵: ۱۸دوانکiiاروں کے درمیiiا� وقفہ ہے جس میں سiiردار کiiاہن کے سiiامنے مقiiدمہ پیش ہوتiiاہے)

( انجی�ii یوحنiiا میں اگiiرچہ کیفiiا کے سiiامنے پیشiiی۷۲ ۶۶، ۵۴، ۵۳: ۱۴، مرقس ۲۷، ۲۵، ۱۸ (۔ دونiiوں۲۸تiiا ۲۴: ۱۸کiiا ذکiiر نہیں ہے لیکن یہ فiiر} کرلیiiا گیiiا ہے کہ یہ پیشiiی ہiiوئی تھی۔)

(۔ پلاطiiوس کے سiiامنے پیشiiی ایiiک ہی۷۲: ۱۴تا مرقس ۲۲: ۱۸پیشیوں کے الفا� یکساں ہیں) :۱۸(۔ اورتمiiام مقiiدمہ کے ایiiک ہی الفiiا� ہیں)۲: ۱۵، مرقس ۳۳: ۱۸سوال سے شروع ہوتی ہے)

( پلاطiوس کiا کiوڑے لگوانiا )۱۴تiا ۱۱: ۱۵، اور مiرقس ۱۵، ۶: ۱۹، یوحنiا ۹: ۱۵، مرقس ۳۹ (۔صiiلیب پiر۲۰تiا ۱۶: ۱۵، ومiرقس ۳، ۲: ۱۹( سپاہیوں کiiا ٹھٹھiiا کرنiiا)۱۵: ۱۵، مرقس ۱: ۱۹

تiا۴۲: ۱۵ ، مرقس ۴۲تا ۳۸: ۱۹(۔ یوسف کا لا* کو مانگنا )۲۵: ۱۵، مرقس ۱۹: ۱۹کتبہ )لس۴۵ (۔ وغiیرہ سiب یکسiاں ہیں۔ یہ بiات بھی یiاد رکھiنے کے قاب�i ہے کہ انجی�ii مiرقس کiا نف

مضمو� یہ ہے کہ سیدنا مسیح بادشاہ ہے اور یہی موضوع پلاطiوس اور سiیدنا مسiیح کی گفتگiو کا موضوع ہے۔ علی ہذا القیاس صلیب کا مقiiام اور صiiلیبی احiiوال میں انجی�ii مiرقس کے الفiiا�

کی۱۸: ۲۲( اوریوحنiiا کی انجی�ii میں زبiiور ۳۷تiiا ۲۲: ۱۵، ومiiرقس ۳۰، ۱۷: ۱۹موجiiود ہیں ) جانب خiiاص اشiiارہ موجiiود ہے۔ سiiیدنا مسiiیح کی ظفریiiاب قیiiام کے بیiiا� میں بھی اشiiخاص

(۔ اس انجی�ii میں یہ فiiر} کرلیiiا گیiiا۴تiiا ۱: ۱۶، مiiرقس ۱: ۲۰اورالفا� ایک ہی قسم کے ہیں )

Page 11: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

ہے کہ اس کے ناظرین کو اس بات کا علم ہے کہ عورتوں کو حکم دیiا گیiiا تھiiاکہ وہ شiاگردوںآائے تھے اور یہ کو جاکر خبر دیں اور کہ سیدنا مسیح جی اٹھiiنے کے بعiiد گلی�ii میں بھی نظiiر

:۱۴، ۸، ۷: ۱۶بiاب ومiرقس ۲۱ اور ۱۸، ۱۷، ۲: ۲۰باتیں مرقس کی انجی� میں موجiiود ہیں )(۔۲۸

آائے ہیں کہ مقiiدس مiتی اور مقiiدس لوقiا دونiوں اپiنی انجیلiوں ہم حصہ دوم یہ ثiاب کiiر �iرتے ہیں۔ جب ہم انجیiائم کiر قiاد پiاکہ کی بنیiکے ڈھانچہ کو مقدس مرقس کی انجی� کے خ چہارم کا بغور مطالعہ کiiرتے ہیں تiiو ہم پiر یہ امiر عیiاں ہوجاتiاہے کہ مقiiدس یوحنiا کiا طiiریقہ کiار

ل� مiiرقس پiiرہی رکھی ہے iiاد انجیiiانچہ کی بنیiiکے ڈھ �iiنی انجیiiتاس نے بھی اپ ۔1بھی یہی تھiiا۔ مقiiدس یوحنiiا یہ فiiر} کرلیتiiاہے کہ اس کے پڑھiiنے والiiوں کiiو سیدنامسiiیح کی زنiiدگی ، مiiوتتا� کو مرقس کی انجی� سے حاص� ہوا تھا اور کہ اورقیام کے واقعات کا علم تھا اور کہ یہ علم تا� وہ سیدنا مسیح کے واقعات اور سوانح حیات سے واقف تھے اور سردار کاہنوں ، فریسiiیوں اور آاپ کے بھiiائيوں کی نسiiب علم رکھiiتے تھے کے سiiرداروں ، سiiیدنا مسiiیح کے شiiاگردوں اور اورجانتے تھے کہ سیدنا مسیح کیفا کی عدال میں پیش ہiiوئے تھے اورکہ مiiریم مگiiدلینی نے قiiبرآاپ کا مبارک لاشہ نہیں پایا تھا اور کہ وہ قیiiام کے بعiiد سiiیدنا مسiiیح کے دکھiiائی دیiiنے میں سiiے واقiiف تھے لیکن یہ مصiiنف ا� واقعiiات کiiا ذکرکiiرنے یiiا ا� کی طiiرف اشiiارہ کiiرنے پiiر ہیتا� واقعات کی تاوی� بھی اپنی انجی� آاگے چ� کر دیکھینگے وہ قناع نہیں کرتا بلکہ جیسا ہم

میں کرتاہے۔ل� یوحنا اورانجی� مرقس کا غائر مطiiالعہ ہم پiiر عیiiاں کردیتiiاہے کہ مقiiدس یوحنiiا کے انجیآاتiiاہے کیiiونکہ بیانات کا انحصار مiiرقس کی انجی�ii پiiرہے۔ بظiiاہر ا� دونiiوں انجیلiiوں میں فiiر� نظر انجی� یوحنا کا بیشتر حصہ مکالمات پر مشتم� ہے اور ہادی النظiiر میں ا� مکالمiiات کiiا دیگiiرتا� سے جiiو انجی�ii مiiرقس میں اناجی� کے کلمات سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا بالخصوص مندرج ہیں لیکن اگر دونوں انجیلوں کا گہرا مطالعہ کیا جiiائے تiiو یہ تعلiiق ظiiاہر ہوجاتiiاہے۔ یہ سiiچ1 Ibid pp.70-82

تا� ل� مiiرقس میں نہیں پiiائے جiiاتے تiiاہم یہ مکالمiiات زيiiادہ تiiر iiمکالمات کے الفا� انجی �ہے کہ ا تا� اقوال کے گرد گھومiiتے ہیں جiو انجی�ii مiرقس میں موجiود ہیں۔ انجی�i یوحنiiا کے پڑھiنے والے اقوال سے بخوبی واقiiف تھے۔ وہ انجی�i کے مصiنف کے دل ودمiاغ میں ایسiا گھiiر کرگiiئے ہiiوئےتانہiiوں نے نہ ہیں کہ وہ بیرونی دائرہ کی حد سے گذر کر مکالمات کے مرکز بن گئے ہiiوئے ہیں۔ صرف مکالموں پر ہی قبضہ کرلیا ہوا ہے بلکہ اس نکتہ نگاہ کو بھی اپiiنے قiiابو میں رکھiiا ہے جسآانخداونiiد کودیکھتiiاہے اوراپiiنے پڑھiiنے والiiوں کے سiiامنے پیش کرتiiاہے۔ مثiiال کے طiiورپر سiiے وہ مرقس کے قول کو لو" جiiو کiوئی اپiنی جiiا� بچانiiا چiiاہے وہ اسiے کھiiوئے گiا اورجiiو کiوئی مiیری

(۔ یہ قiiول اس مکiiالمہ کiiا۳۵: ۸اورانجی�ii کی خiiاطر اپiiنی جiiا� کھiiوئے گiiا وہ اسiiے بچائيگiiا ")آایات ۱۲مرکزی نکتہ ہے جو انجی� یوحنا کے ( اس مقiiام میں یہ قiiول دیگiiر۳۰تiiا ۲۰باب میں ہے)

یی قiiانو� کی صiورت اختیiiار کرلیتiا ہے اورایiک اقوال میں سے ایiک قiiول نہیں رہتiiا بلکہ ایiک الہتاصiiول بن جاتiiاہے جiو سiiب پiiر حiiاوی ہوجاتiiاہے) یی قiiانو� کiiو۲۵: ۱۲ایسا عالمگیر (۔ اسiiی الہ

آانخداونiiد کی آای ل خiiود اختیiiار فرمایiiا اور یiiوں انجی�ii مiiرقس کی یہ آانخداونiiد نے برضiiادرغب زنiدگی او رمiوت کے واقعiات کiو سiمجھنے کے لiئے ایiک بنیiiادی اصiول بن جiاتی ہے۔ منجiئی

آاپ کی مiiوت کے۳۶تiiا ۳۴: ۱۴جہا� نے جو قiiول گتسiiمنی بiiاغ میں فرمایiiا تھiiا)مiiرقس (۔ وہ آاپ اپنی تمام عمر چ� رہے تھے)یوحنiiا ،۲۷: ۱۲اص� مفہوم کو روشن کرتاہے جس کی جانب

( اور اس قول اورمکالمہ دونiوں کی روشiنی میں منجiiئی عiiالمین کی زنiدگی اور مiوت کiا۱۱: ۱۸اص� مفہوم عالم وعالمیا� پر روشن ہوجاتاہے۔

آاپ کے مخiiالفین کiiا ہے۔ " میں اس مرقس کی انجی� میں ایک اور قول پایا جاتاہے جومقدس کو جوہاتھ سے بنا ہےڈھادوں گا اور تین د� میں دوسرا بناؤں گا جiiو ہiiاتھ سiiے نہ بنiiا ہiiو")

۱۴ :۵۸�iiمجھا لیکن انجیiiوں میں سiiل� یہود نے اس بات کو لفظی ، ظاہری اور صوری معن (۔ اہآاپ کی قیiiام کے نویس اورشاگرد اورانجی� کے پڑھiنے والے اس کے لطیiف اوراص�i مفہiiوم کiو

( یہود کے نزدیک یہ ایک الزام تھا جو سiiیدنا مسiiیح۲۲تا ۱۸: ۲واقعہ کی روشنی میں سمجھے )

Page 12: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

پر انہوں نے لگایا تھا لیکن اب یہ قول انجی� یوحنا کا اص�ii موضiiوع بن جاتiiاہے کہ یہiiودی رسiiومختم ہوجائیں گی اورباپ کی پرستش روح اور راستی سے کی جائے گی۔

انجی� یوحنا کے پانچ ابواب میں جہاں سیدنا مسiiیح نے اپiiنے شiiاگردوں کوخiiاص تعلیمتامور کا باربار ذکر کیا گیا آاپ نے ایمانداروں کے حق میں کی ، تین تاس دعا میں جو دی ہے اور ہے یعiiنی فرمiiانبرداری ، دعiiا اور ایiiذاؤں کiiا ہونiiا۔ اوریہی تین بiiاتیں مiiرقس میں سiiیدنا مسiiیح کے کلمات میں پائی جاتی ہیں۔ بعلز بول والی تقریر کے بعد سیدنا مسiiیح فرمiiاتے ہیں کہ جiiو کiiوئی

ل�۳۵: ۳خiدا کی مرضiی پiر چلے وہی مiیرا بھiiائی اورمiیری بہن اورمiیری مiاں ہے، ) i۔ لیکن انجی) یوحنا میں خدا کے تابع فرما� رہنا ایک مرکزی صورت اختیار کرلیتiاہے۔ اور سiiیدنا مسiیح اس قiiولآاپ خود فرمانبرداری کا مجمسiiہ بن جiiاتے ہیں۔ اوردنیiiا کiو آاتے ہیں بلکہ کے کہنے والے ہی نظر ایک بے مث� نمونہ دیتے ہیں ۔ ایسا کہ سیدنا مسیح کی فرمانبرداری کرنا خدا باپ کے تابع فرما�ل� چہiiارم iiتوتابی کرنا خدا سے بغاوت کرنے کے مترادف ہے۔ انجی آاپ سے ر ہونے کے برابر ہے۔ اور

نہیں بلکہ انجی۱۵�iiتiا ۱: ۱۵سیدنا مسiیح کے الفiiا�)iiدائے بازگشiiول کی صiiرقس کے قii۔ م) آاسا� رواہ نہیں ہے بلکہ ایذارسانی اورموت کiiا دشiiوار نویس یہ بتلانا چاہتاہے کہ یہ تابعداری کوئی

(۔ بالفا� دیگر حقیقی فرمانبرداری کا دوسر نام محب ہے اور محب کiiا۱۳: ۱۵گذار راستہ ہے) اص� نام دکھ اورمصیب کو جھیلنا اور ایiذاؤں کiiا پانiiا ہے اوراس فرمiiانبرداری کiiا انجiiام مiiوت ہے۔ پس مرقس کا مندرجہ بالا قول سیدنا مسیح کے دیگiر اقiiوال میں سiے ایiک قiiول نہیں رہتiiا بلکہتاصiول سiے نہ سیدنا مسیح کی زندگی اورمiوت کiiو سiمجھنے کی ایiک کلیiد ہوجاتiاہے اوراسiی

ت� عالم وعالمیا� کی عدال کی جاتی ہے۔ صرف سیدنا مسیح کے سامعین کی بلکہ ک پس موت اور زندگی کے توام موضوع دکھ، مصیب اور ایذا کے موضوع کو اپiiنے انiiدر

ل� یوحنiiا میں اس قiiول کiiا۱۳: ۱۳باب میں ایذا کا قiiول ہے )۱۳شام� کرلیتے ہیں ۔مرقس ii۔ انجی) آاپ کے آاخری فسح کے مکالمہ کا تانiا بانiiا ہے جس میں دنیiا میں سiiیدنا مسiیح کی اور موضوع شiiاگردوں کی مخiiالف ہے اور دنیiiا کiiا سiiردار روح القiiدس کiiا مخiiالف ہے اور دنیiiا اور حiiق میں

آانے لiiگ جاتiاہے) :۱۵تخالف کاذکر پایا جاتاہے۔ اب یہ قول ایک ہمہ گیر سیا� وسبا� میں نظر (۔ اور دکھ اور مصیب اور ایذاوہی سارے کے سارے موضوع۱۳: ۱۶، ۱۸تا ۱۴: ۱۷، ۳۰تا ۲۰

میں موجود ہے جو کسی ایiiک قiiول میں نہیں بلکہ دیگراقiiوال سiiے جiiدا کرنiiا ایiiک نiiاممکن امiر ہے۔ انجی� چہارم میں یہ بات ثاب کردی گئی ہے کہ حق اور باط�ii کی جنiiگ کiiا لازمی نiiتیجہ

( اوریہی وجہ ہے کہ اس کو سیدنا مسیح کی حقیقی شiiاگردی کiiا۱۱تا ۱۰: ۱ایذا اور موت ہے)معیار مقرر کیا گیا ہے۔

ل� مرقس سے اخiiذ کیiiا گیiiا ہے ل� یوحنا میں پانچ ہزار کو کھانا کھلانا کا واقعہ انجی انجی اورطرز بیا� سiiے ظiiاہر ہے کہ مصiنف نے مiiرقس کی انجی�ii کے دو معجiiزوں یعiiنی پiiانچ ہiiزار اور

:۶( سiے اسiتفادہ حاص�i کیiا ہے )۱۰تiا ۱: ۸، ۴۴تiا ۳۰: ۶چiار ہiزار کiو کھلانے کے بیiانوں ) (۔ مرقس میں یہ دونوں معجزات ایک دوسرے سے اور سیدنا مسیح کی زندگی کے دیگر۱۵ت ۱

تجدا کiiئے جاسiiکتے ہیں لیکن انجی�ii یوحنiiا میں یہ بiiات نہیں ہوسiiکتی کیiiونکہ اس واقعات سے انجی� میں اگلے روز ہی کھانے اورپینے کی اص� معانی اورمطالب کوسمجھایا گیا ہے ، جس کiiا تعلق انسانی زندگی اورموت سے ہے۔ انجی� نویس بتلاتiاہے کہ انسiا� کی بھiiوک کی واحiد غiiذا سیدنا مسیح ہے جس پر ایما� لاکiر ہiiر انسiا� ابiدی زنiiدگی حاص�i کرسiکتاہے ۔ پس یہ مکiالمہآاپ کے گوش اورخو� کے کھانے اورپینے کی طiiرف ہمiاری سیدنا مسیح کی موت کی طرف اور

لس منظر عشiائے ربiانی کی رسiم کiا تiرر ہے اورمصiنف ہم کiو تiا۱۳توجہ مبذول کرتاہے جس کا پ باب کے مکالمات میں سے لے کر سیدنا مسیح کی صلیبی مiiوت کiiا نظiiارہ دکھلاتiiاہے جس۱۷

ل� چہiiارم iiیر انجیiiاہے اورجس کے بغiiکی روشنی میں پانچ ہزار کو کھلانے کا واقعہ معنی خیز ہوجات آاسکتا) تادھورا رہ جاتاہے بلکہ سمجھ میں ہی نہیں (۔۷۰تا ۵۲: ۶کے معجزے کا بیا� نہ صرف

ل� iائے کہ انجیiن ہوجiر روشiر یہ امiاظرین پiسے کام لیاہے تاکہ ن ہم نے کسی قدر طوال چہارم کا ایک اہم ماخذ انجی� مرقس ہے اورجس طرح مقدس متی اور مقدس لوقا اس انجی� کiiو

Page 13: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

معتبر اوراہم سمجھ کر استعمال کرتے ہیں، مقدس یوحنiiا بھی اس کiiو ویسiiی ہی اہمی دے کiiراس کے پلا� پر اپنی انجی� کا ڈھانچہ قائم کرتاہے۔

دوم ۔ رسالہ کلمات۔ جس طرح مقدس مرقس مقدس متی اور مقدس لوقا رسالہ کلمiiات کا استعمال کرتے ہیں اسی طرح مقدس یوحنا بھی اس قدیم ترین رسالہ کiiو اپiiنی انجی�ii کiiا ایiiک

اا کفiiر نحiوم میں بادشiاہ کے بیiٹے کے شiفا پiانے )1ماخذ بنا کر اسiتعمال کرتiاہے تiا۴۶: ۴ ۔ مثل :۷، لوقا ۱۳تا ۵: ۸( کا تعلق صوبہ دار کے خادم کے شفا پانے کے واقعہ سے ظاہر ہے )متی ۵۴آای ۱۰تiiا ۱ ل� چہiiارم کی iiوص انجیiiا ۴۷( بالخصiiا� لوقii۲: ۷ کے الف آای کے۵۲ کے ہیں اور

آانخداونiiد کے یہ اقiiوال نہ صiiرف انجی�ii مiiرقس میں ہیں بلکہ رسiiالہ۱۳: ۸الفiiا� مiiتی کے ہیں۔ :۱۲کلمات میں بھی تھے جہاں سے تینوں انجی� نویسوں نے ا� کو نق�ii کیiiا تھiiا۔دیکھiiو)یوحنiiا

،۱۶: ۱۳، )یوحنiiا ۳۳: ۱۷، لوقا ۳۹: ۱۰، متی ۲۴: ۹، لوقا ۲۵: ۱۶، متی ۳۵: ۸، مرقس ۲۵ :۱۰، نiiیزدیکھو لوقiiا ۴۰: ۱۰، مiiتی ۳۷: ۹، مiiرقس ۲۰: ۱۳ ۔ یوحنiiا ۲۴: ۱۰، مiiتی ۲۰: ۱۵ :۱۴( یوحنiا ۳۴: ۲۲۔ لوقiا ۳۴: ۲۶۔ مiتی ۳۰: ۱۴۔ مiرقس ۳۸: ۱۳۔ یوحنiا ۲۰: ۲۵۔ متی ۱۶۔۳۱: ۱۴ اور ۲۰: ۱۵۔ ۲۰تiiا ۱۶: ۱۳۔ ۲۵: ۱۲، یوحنiiا ۴۶: ۲۶، مiiتی ۴۲: ۱۴۔ مiiرقس ۳۱

تiا۵۸: ۲۲ و لوقiا ۷۵تiا ۷۱: ۲۶ مiتی ۷۲تiا ۶۹: ۱۴ مiرقس ۲۶تiا ۲۵: ۱۸پطرس کا انکار یوحنا (۔۶۲

جس طرح مرقس کی انجی� کے اقوال انجی�ii یوحنiiا کے مکالمiات کiiا مرکiiز ہیں۔ اسiیلس منظر ہیں اور ا� مکالمiiات کی روشiiنی میں طرح رسالہ کلمات کے اقوال بھی مکالمات کا پ

اا یوحنiiا ،۱۹: ۱۶ اور مiiتی ۲۳: ۲۰ا� کے مطالب ومعiiانی صiiاف طiiورپر روشiiن ہوجiiاتے ہیں مثلاا یوحنiا ۱۸: ۱۸ و۲۰: ۱ کا مقابلہ کرو۔ بعض الفا� یوحنا اور رسالہ کلمiات میں یکسiاں ہیں مثل (۔ اسiی۱۸: ۱۶، مiتی ۴۲: ۱۔ انجی� چہارم میں روئے سخن پطرس کی جانب ہے )۱۵: ۳لوقا

آانکھوں کی جنبش کو لیا گیiiاہے) اا آانخداوند کی حرکات وسکنات مثل ،۵: ۶رسالہ کلمات سے ( سiiے مiiاخوذ ہے۔ بھiiیڑوں۱۸: ۱۰ رسiiالہ کلمiiات )لوقiiا ۳۱: ۱۲( انجی�ii یوحنiiا کی ۲۰: ۶لوقiiا

1 Ibid.pp.81-85:121-122

بiاب ( وہ بنیiiاد ہے جس پiiر تمiام مکالمiات۲۵اوربکریوں کی تمثی�ii )جiiواس رسiiالہ میں تھی مiتی (۔ اور۲۷، ۲۶، ۴، ۳: ۱۰۔ ۵۲: ۸۔ ۲۹تا ۲۵: ۵قائم ہیں جن کا تعلق عدال کے ساتھ ہے)

ل� یوحنiiا دونiiوں میں عiiدال کiiا لعذر کا زندہ کرنا ا� کا منتہائے کمال ہے۔ رسالہ کلمات اورانجی (۔ اورانجی� کا۴۱تا ۳۹: ۹، ویوحنا ۱۴: ۱۵موضوع فریسیوں کی جماع سے متعلق ہے )متی

میں۱۶: ۱۰ ولوقiا ۴۰: ۱۰معجزہ رسiالہ کلمiات کے قiول کiا ثبiوت ہے۔ رسiالہ کiا قiول جومiتی سiiے متعلiiق۲۰: ۱۳( صاف طiiورپر یوحنiiا ۳۰: ۹مندرج ہے جس کو مرقس نے بھی نق� کیا ہے)

میں یہ موضiوع۲۳: ۱۷ وغiiیرہ(۔ اور ۴۴: ۱۲، ال\ ۲۳: ۵ہے،جس کا بار بار ذکiiر کیiiا گیiiا ہے)انجی� یوحنا میں اپنے اوج کمال پر پہنچتاہے۔

ل� iورپر قابiاص طiاہے خiآات رسالہ کلمات کا ایک قول جiو اناجی�i میں الiگ تھلiگ نظiر ذکر ہے" میرے باپ کی طرف سے سب کچھ مجھے سونپا گیاہے اورکiiوئی بیiiٹے کiiو نہیں جانتiiاتاسiiے ظiiاہر تاس کے جس پiiر بیٹiiا سوائے باپ کے اور کوئی باپ کو نہیں جانتا سوائے بیٹے کے اور

( " بiiاپ" اور " بیiiٹے" کی اصiiطلاح انجی�ii مiiرقس میں۲۲: ۱۰، لوقiiا ۲۷: ۱۱کرنا چاہے")مiiتی ل�۳۲: ۱۳بھی موجود ہے) iiانجی آاتiiاہے درحقی تا� اناجی� میں غیر متعلق سا نظiiر ( اوریہ قول جو

:۱۷۔ ۱۵تiiا ۱۴: ۱۰۔ ۲۹: ۷، ۳۵: ۳چہارم کا تانا بانا ہے اور اس انجی� کiiا اص�ii موضiiوع ہے) وغiiیرہ( رسiiالہ کلمiiات میں تiiو یہ قiiول الiiگ تھلiiگ پiiڑا ہے لیکن اس قiiول کiiو انجی�ii کی۳تiiا ۲

تجدا کرنiiا ایiiک نiiاممکن امiiر ہے ۔ اورنہ یہ قiiول سiiیا� وسiiبا� خوشخبری کے بنیادی موضiiوع سiiے تجدا کیا جاسکتاہے ۔ خدا کے مکاشiiفہ کiا بیiiٹے کے ذریعہ ظiiاہر ہونiiا، اورکلمتہ انجی� چہارم سے لر ایمiiا� آاپ پر ایما� لانے والوں کا خدا کی طiiرف سiiے نiiو لر عدال ہونا"۔ اللہ کے سامعین کا زی پانا، اور خدا سے توفیق حاص� کرکے ایمiا� داروں کiiا بیiiٹے کiو جاننiiا"۔ بiاپ اوربیiiٹے کے بiاہمی تعلق کا وجود"۔ اوربیٹے اورایما� داروں کے باہمی تعلق کا وجود"۔ بیٹے کو جاننا باپ کiiو جiiاننے کے مترادف ہونiا"، اوربiاپ کے علم کiا ابiدی زنiدگی ہونiا، وغiیرہ یہ بiاتیں کسiی ایiک مقiiام یiا مکiiالمہ میں ہی نہیں پiiائی جiiاتیں بلکہ تمiiام کی تمiiام انجی�ii میں میں جiiاری اور سiiاری ہیں۔

Page 14: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

تا� کiا مطiالعہ باربiار رسiالہ کلمiات۱۶تiا ۱۳بالخصوص جو مکالمiات ابiواب میں منiدرج ہیں، :۱۶۔ ۱۵ : ۱۵۔ ۲۴ تا ۲۰۔ ال\ ، ۹، ۷، ۶: ۱۴، ۱۸تا ۳: ۱۳کے اس قول کی یاد دلاتا ہے )

(۔ حق تو یہ ہے کہ انجی� کا ہر مکالمہ اس امر پر زوردیتا ہے کہ بیٹا باپ کا کام�۲۸، ۲۷، ۱۵اوراکم� مظہر ہے اور دونوں کا باہمی تعلق بے مثال، لاثانی اوربے نظیر ہے۔

تا� ل� یوحنا مرقس کے الفا� اوربیانات کiiا اص�ii مفہiiوم بیiiا� کiiرکے پس جس طرح انجیتاسiی طiiرح یہ انجی�i رسiالہ کلمiات کے پریشiا� اوربکھiiرے ہiiوئے کو واضح اور روشن کردیتی ہے تانکے مطالب ومعانی کو نجات کے موضiiوع سiiے متعلiiق کiiرکے اقوال میں جا� ڈال دیتی ہے اور تا� کو باہمد گiر منسiiلک کردیiتی ہے۔ انجی�ii کامصiiنف ا� الiiگ الiiگ اقiiوال کiiو جiiو اس کiiو رسالہ کلمات سے اور دیگر ماخذوں سiے دسiiتیاب ہiiوئے تھے اس طiiورپر اسiتعمال کرتiاہے کہ وہتا� تا� سب کا سرچشمہ اورمنبع ایiiک ہی ہے اورکہ اقوال یہ ظاہر کرنے کا وسیلہ بن جاتے ہیں کہ لل مقصود کی جانب ہے۔ انجی� کا مصiنف ا� تiواریخی اقiiوال وبیانiات میں کا رخ ایک ہی منز خدا کا جلال دیکھتاہے، جس کی روشنی میں وہ منور ہوجاتے ہیں۔ یہی وہ سچائی اور حقیق

۔کرنتھیiiوں۱ہے جو تمام رسولوں نے دیکھی اور سمجھی اور اسی کی وہ سب منiiادی کiiرتے ہیں۔)(۔۱۱: ۱۵

تا� اب ناظرین پرظاہر ہوگیا ہوگا کہ مقiiدس مiرقس کی انجی�ii میں اور رسiالہ کلمiات کے اقiiوال میں جiiو اناجی�ii میں درج ہیں وہی خیiiالات اور تصiiورات موجiiود ہیں جiiو مقiiدس یوحنiiا اور مقiiدس پولiiوس کی تحریiiرات میں پiiائے جiiاتے ہیں اوراب علمiiاء مغiiرب اس حقیق کiiو تسiiلیم

۔1کرتے ہیں سوم۔ مقدس یوحنا کا خاص ماخذ۔ سiطور بiiالا میں ہم نے یہ ثiiاب کiiرنے کی کوشiش کی ہے کہ انجی� دوم اورانجی� چہارم کا باہمی تعلق گہرا ہے اور انجی� چہارم کا خiiاکہ وہی ہے

۔ اس کے علاوہ2جiiو مiiرقس کiiا ہے اوراس کے تiiاریخی بیانiiات کiiا اسiiی خiiاکہ پiiر انحصiiار ہے

1 Ibid.p302 H.H.Wendt, The Gospel According to St.John (1902) p.50

مقدس یوحنا کے پاس بہ سا خصوصی مسiiالہ تھiiا جiiو تحریiiری شiiک� میں تھiiا۔ اس تحریiiریتا� کے مiiوقعہ اورمح�ii کے مطiiالعہ سiے ملتiiاہے۔ ماخذ کا پتہ ہم کو انجی� کے مکالمات سiiے اورل� متفقہ میں iو اناجیiا ہے جiم کiی قسiاس �موiلس مض یہ مطالعہ ہم پر ظiiاہر کردیتiاہے کہ ا� کiا نف

سیدنا مسیح کی منادی کا ہے۔لب ذی� مقامات میں درج ہیں: انجی� یوحنا میں یہ مکالمات حس

۔۳۶تا ۳۱، ۲۱تا ۱: ۳۔( ۱)۔۲۴تا ۱۵: ۷، ۴۷تا ۱۷: ۵۔ ال\ ۲۷: ۶۔(۲)۵۹تا ۲۱، ۲۰تا ۱۲: ۸۔(۳)۔۳۹تا ۳۰، ۲۹تا ۱۹: ۱۰، ۴۱تا ۳۳: ۹۔(۴)۔۵۰تا ۲۳: ۱۲۔(۵)باب ۔۱۴، ۳۸تا ۲۳: ۱۳باب ۱۶باب و۱۵، ۳۲تا ۱۲: ۱۳۔(۶)باب ۔۱۷۔( ۷)

ا� مقامات کا مطالعہ کرنے سے ہم پiiر یہ ظiiاہر ہوجاتiiاہے کہ ا� مکالمiiات کے تصiiوراتاا پiانی کiا بپتسiiمہ لد عiiتیق میں بھی ہیں مثل iiارات عہiiکے اش �اناجی� متفقہ میں پائے جاتے ہیں ا

(۔ بلکہ دیگiر اناجی۳۳�ii: ۱اور روح القدس کiiا بپتسiiمہ نہ صiiرف انجی�ii یوحنiiا میں موجiiود ہے) وغiیرہ(۔ پس ہم بغiیر کسiی۵: ۱۔ اعمiال ۱۶: ۳۔ لوقiا ۱۲تiا ۱۱: ۳میں بھی پایا جاتiاہے )مiتی

ل� معجiiز بیiiا� آانخداوندکی زبا پس وپیش کے بلاتام� یہ کہہ سکتےہیں کہ یہ مکالمات فے الواقعہ سے نکلے تھے۔ یہ بات بھی اس امر کiiا ایiiک مزیiiد ثبiiوت ہے کہ انجی�ii نiiویس کے سiiامنے ایiiک

۔ اس تحریiiiری ماخiiiذ کے علاوہ اس کے اپiiiنے ذاتی مشiiiاہدات اور دیگiiiر3تحریiiiری ماخiiiذ تھا(۔۲۵: ۲۱چشمدید گواہوں کے زبانی اور تحریری بیانات بھی تھے۔)

اب سوال یہ پیiiدا ہوتiاہے کہ اس خصوصiiی ماخiiذ میں سiiے انجی�ii نiiویس نے کiو� سiiے مقامات کو نق� کیا ہے اورا� مقامات کی انجی� چہiiارم کے دیگiiر مقامiiات سiiے کس طiiرح تمiiیز3 Ibid.p.51.54&57

Page 15: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

آانخداوند کے مکالمiiات پiiر مشiiتم� تھiiا۔ پس کی جاسکتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ماخذ یہ ماخذ بعینہ اسی قسم کا ہے جس قسم کا رسالہ کلمات تھا۔ اس ماخذ میں واقعiiات کiiا ذکiiرل� نزول" موجود تھا، یعنی ا� مکالمiiات کے مiiوقعہ اورمح�ii کiiا نہیں تھا۔ لیکن مکالمات کا " شا

اا آاخiiر میں موجiiود ہے۔ اس ماخiiذ میں نیکiiدیمس۱۳: ۲ کا مiiوقعہ اورمح�ii ۱۹: ۲ذکر تھا۔مثل تiiا آاخر(۔ سامری عورت کے سiiاتھ مکiiالمہ کiiا مiiوقعہ اورمح�ii دیiiا ہiiوا۱: ۳کے مکالمہ کا ذکر تھا) تا

آاخر(۔ بی حسدا کے تالاب پiر سiب کے روز شiفا دیiنے کiا مiوقعہ اورمح�i موجiود۴: ۴تھا ) تاتملاقiiات)۱: ۵تھiiا) آاخiiر(۔ جنم کے انiiدھے سiiے آاخر(۔ لعiiزر کی مiiوت کے بعiiد سiiیدنا۱: ۹تiiا تiiا

آانا) آانiiا )۱: ۱۱مسیح کا بی عنیاہ میں آاخر( ۔ یونانیوں کا سیدنا مسیح کے دیدار کےلئے :۱۲تاآاخر( کiiا ذکiiر۱: ۱۳(۔ سیدنا مسیح کا شاگردوں کے پاؤں دھونے کا مiiوقعہ اورمح�ii )۳۲تا ۲۰ تiiا

تھا۔ لیکن انجی�ii نiiویس کiiا مقصiiد محض یہ نہ تھiiا کہ ا� واقعiiات کiو بیiiا� کiiرنے پiiر ہی قنiiاعاا وہ یہ نہیں بتلاتا کرے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یہ نہیں بتلاتا کہ ا� واقعات کے نتائج کیا ہوئے مثلآامiد کiiا نiتیجہ کیiا ہiiوا۔ کہ نیکدیمس کے ساتھ ملاقiiات کiا انجiiام کیiiا ہiiوا یiاکہ یونiانیوں کی مقدس لوقا کا بھی یہی طریقہ کار تھiiا۔ وہ بھی جب رسiiالہ کلمiات کiiا اسiiتعمال کرتiiاہے تiو وہ

تا� کے انجiiام کiا ذکiر نہیں کرتا تiا۵۷: ۹ )لوقiا 1صرف موقعہ اور مح� کiا ہی ذکiر کرتiاہے لیکن وغیرہ(۔۳۴تا ۱۳: ۱۲ اور ۶۲

ایسا معلوم ہوتاہے کہ انجی�ii نiویس کے اس خصوصiی ماخiذ میں یہ مکالمiiات تiاریخی ترتیب سے وق کے مطiiابق یکے بعiiد دیگiرے سلسiلہ وار لکھے گiئے تھے ۔ جiو مکiالمہ پہلےآایiiا وہ پہلے لکھاتھiiا پھiiر اس کے بعiiد دوسiiرا اور تیسiiرا ۔ لیکن انجی�ii نiiویس نے ا� وقiiوع میں آانخداونiد کی سiہ تجدا کiرکے اپiنے مقصiد کے تح تا� کiو تiاریخی تiرتیب سiے مکالمات کو اا ایسiiا معلiiوم سالہ خدم پر تقسیم کرکے ا� مکالمات کiiو مختلiiف مقامiiات میں لکھiiاہے۔ مثل

آاخر کی بحث کiiا تعلiiق ۲۷: ۶۔ بلکہ ۲۴تا ۱۵: ۷ہوتاہ کہ نہ صرف آاخiiر کے سiiاتھ۱: ۵تا تiiا تاسiی مقiiام کے۳۸، ۳۷، اور ۳۴، ۳۳، ۲۹، ۲۸: ۷ہے اور سiiیدنا مسiیح کے کلمiات کiا تعلiق

1 Ibid.pp.166-167

آاخiiر سiiے ہے۔ جiiو بحث ۱۲: ۸ساتھ ہے جس کا تعلق تاس کiiا تعلiق۲۸تiا ۲۴: ۱۰تiا میں ہے۔ سے ہے۔۱۸تا ۱: ۱۰ اور ۴۱تا ۳۹، ۵، ۵، ۴: ۹

آاپ نے بی آانخداونiiد تین دفعہ یروشiiلیم کiiو گiiئے۔ ایiiک دفعہ اس ماخiiذکے مطiiابق آاخر(۔ اس موقعہ کی بحث کا ذکر ۱: ۵حسدا کے تالاب پر شفا بخشی) آاخiiر اور ۱۷: ۵تا :۷تا

لد خیiiام کے مiiوقعہ پiiر گiiئے جس۲۷: ۶ اور ۲۴تا ۱۵ آاپ عی آاخر میں پایا جاتاہے ۔ دوسری دفعہ تا آاخiiiر تiiiک کے مکالمiiiات میں موجiiiود ہے۔ تیسiiiری دفعہ کے۱۰تiiiا بiiiاب ۲۵: ۷کiiiا ذکiiiر کے

آاخری ایام کے ساتھ ہے۔ مکالمات کا تعلق سیدنا مسیح کے علاوہ ازیں جیسا ہم اوپiر ذکiiر کiرچکے ہیں ۔ اس ماخiذ میں سiiامری عiiورت کے سiiاتھ

آاپ کے یروشiiلیم کiiو جiiانے یiiا وہiiاں سiiے۴ملاقiiات کiiرنے کiiا بھی ذکiiر تھiiا ) بiiاب( یہ ملاقiiات مراجع فرمانے کے وق ہوئی تھی۔

مذکورہ بالا واقعات کے علاوہ اس ماخذ میں کسی اوربiiات کiiا ذکiiر نہ تھiiا۔ اس ماخiiذ کو لکھنے والے کا مقصد یہ بتلانا تھا کہ سیدنا مسیح نے باربار یہودی کے اکابر سے یہiiودیتا� کو اپنی مسیحائی اورنجات کی نسب بتلا کiر کے حصین قلعہ، یروشلیم میں گفتگو کرکے آاپ نے آاپ کے جiانی دشiمن ہوگiئے اور تب تا� پر اتمام حج کردی تھی۔ اور کہ وہ کس طرح صلیبی موت سے پہلے اپنے خاص برگزیiiدہ رسiiولوں پiiر دل کھiiول کiiر سiiب بiiاتیں روشiiن کiiردیں

تا� پر کھلے لفظوں میں سب باتیں واضح کردیں ۔2اوراپنی ذات کی نسبآاگے چ�ii کiiر ہم بiiاب ہفتم میں یہ ثiiاب کiiردیں گے کہ یہ ماخiiذ خiiود انشiiاء اللہ مقدس یوحنا نے لکھا تھا۔ اس ماخذ میں تواریخی ترتیب موجود ہے۔ کیونکہ جب کبھی حضiiرت

آاپ کی مصاحب نصیب لیتے تھے ۔ ابن اللہ یروشلیم تشریف لے جاتے اور مقدس یوحنا کو وول ودوم میں بتلاچکے ہیں چہارم ۔ صلیبی بیا� کiiا ماخiiذ۔ ہم اس کتiiاب کے حصiiہ اآانخداوند کے مبارک اقوال کو مختلiiف پiiاروں کہ جس طرح مختلف مقامات کی کلیسیاؤں نے میں جمع کر رکھا تھا اسiiی طiiرح صiiلیبی واقعہ کے مختلiiف بیانiiات بھی مختلiiف کلیسiiیاؤں میں2 Ibid.pp.166-170

Page 16: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

محفو� تھے۔ چنانچہ ہم نے بتلادیا تھا کہ مقدس لوقا کا صلیبی واقعہ کiiا بیiiا� ، مقiiدس مiiرقس کی انجی� کے بیا� سiiے جiiداگانہ ہے اگiiرچہ اس نے مiiرقس کے بیiiا� سiiے کہیں کہیں اسiiتفادہ حاص� کیا ہے اورکہ وہ بیا� ایک الiiگ ماخiذ پiiر مبiiنی ہے۔ اسiiی طiiرح مقiiدس یوحنiiا کے صiiلیبی

۔۱۱تiiا ۲: ۱۳واقعہ کے بیا� سے ظiiاہر ہے کہ اس کiiا ماخiiذ بھی الiiگ ہے۔اس ماخiiذ میں یوحنiiا کiا اہم بیiiا� موجiiود تھے جiiو اس ماخiiذ کے۲۸: ۱۸ کے بیانiiات اور ۳۷تiا ۳۱، ۲۷تiا ۲۵: ۱۹

۔1حصے تھےتاسiiiتادوں نے وولین کے لر ا وول میں بتلاچکے ہیں کہ دو پنجم۔ رسiiiالہ اثبiiiات ۔ ہم حصiiiہ ا اقتضائے وق کودیکھ کر کلیسیا کے ایما� کی استقام اوریہود کو صiiلیبی نجiiات کی بشiارت دینے کی خاطر رسالہ اثبات مرتب کیا تھا جس کiiو پہلی تین انجیلiiوں کے مصiiنفوں نے اسiiتعمالتا� وعدوں کی تکمی� آانخداوند کی موت اور زندگی کیا ہے۔ تاکہ دنیا پر یہ امر روشن ہوجائے کہ ہے جو اسرائی� کے زنiiدہ خiدا نے اپiiنی برگزیiiدہ قiiوم سiے کiئے تھے اور ہiiرکس ونiiاکس پiر ظiiاہر ہوجiiائے کہ اب خداونiiد کی انجی�ii نے موسiiوی شiiرع کی جگہ لے لی ہے۔ انجی�ii چہiiارم کے

۔ چنانچہ وہ اپنے دیباچہ میں لکھتiiاہے کہ2مصنف نے بھی اس رسالہ سے استفادہ حاص� کیا ہے وہ کلام جiiو موسiiوی زمiiانہ میں پتھiiر کی الiiواح پiiر لکھiiا گیiiا تھiiا اب یسiiوع ناصiiری کے خiiو��iiئی تھی لیکن اب فضiiدی گ یی کی معiiرف iiو موسiiت اورگوش میں لکھا گیا ہے اورکہ شiiریعآائی ہے۔ پس چاروں کے چاروں انجی� نویس اس اور سچائی یسوع ناصری کے ذریعہ ظہور میں لد عiتیق کے سiیا� وسiبا� میں iو عہiوت کiرسالہ اثبات کے ذریعہ سیدنا مسیح کی زندگی اور م نہای مضبوطی سے قائم کردیتے ہیں اورہر انجی� نویس یہ بات ثاب کردیتاہے کہ خiiدا کے اس فص� کا جو مسیح یسوع کے ذریعہ ظiiاہر ہiiوا کiiوئی دوسiiرا سiiیا� وسiiبا� ہے ہی نہیں اورنہ ہوسiiکتا

(۔ ہم بتلاچکے ہیں کہ مقدس متی اور مقدس لوقiا یہ ثiاب کiرتے ہیں کہ۱۱: ۳۔کرنتھیوں ۱ہے۔)آاسiiکتی ہے اوریہی لد عiiتیق کی روشiiنی میں ہی سiiمجھ میں iiآانخداوند کی صلیبی موت صرف عہ

1 Vincent Taylor Formation of Gospel Tradtion (1933) pp.50-552Hoskyns & Davey,Riddie of N.T.pp.88,97,101,109,143,175,177

لد عiiتیق کے حوالiiوں، اشiiاروں اور کنiiایوں iiو عہiiکی ہے ، ج �iiمقدس مرقس کی انجی خصوصی سے معمور ہے اور جس کے معجزات اس بات کا نشا� دیتے ہیں کہ مسیح موعود، یہiiودی اورآاگیا ہے۔ انجی� یوحنا کا مصiنف اس رسiiالہ اثبiات کiو اسiتعمال کiرکے قوم اسرائی� کے درمیا� آانخداونiiد کی زنiiدگی اور مiiوت ایiiک ایسiiا دیگر اناجی� کے ساتھ اس بات پر اتفiiا� کرتiiاہے کہ تا� کے خدا نے خود اپiنی قiiدرت کiا ملہ سiے ظiاہر یی فض� تھا، جو اہ� یہود کی تاری\ میں الہآاسiکتا ہے ۔ جب انبیiائے سiابقین کے الفiا� کے یی فع�ii صiرف تب ہی کیiiا تطiا۔ اورکہ یہ الہ سیا� وسبا� کو نگاہ میں رکھاجائے۔ پس تمام اناجی�i متفقہ طiiورپر اس فع�ii کiا یہ نiتیجہ بتلاتیآازاد ہiiوکر اوراس سiiے نجiiات حاص�ii کiiرکے خiiدا کی ہیں کہ ایما� دار گناہ اوربدی کی قید سے مرضی کو پورا کرسکتے ہیں۔ رسiiالہ اثبiiات کی طفی�ii چiiاروں اناجی�ii کiiا اس پiiر اتفiiا� ہے کہلد عتیق کے تاروپود اور تانے بانے سiے بiنی ہے۔ اوریہ وحiدت سیدنا مسیح کی زندگی اورموت عہ ثاب کرتی ہے کہ اناجی� تواریخی بنیاد پر قائم ہیں اورایک انجی� کو دوسری کے خلاف سمجھنا

ایک زبردس اورناممکن امر ہے۔تاسiiی نگiiاہ سiiے دیکھiiتے ہیں لد عتیق کو آانخداوند عہ ل� چہارم کے مکالمات میں انجی

۳۵: ۱۰، ۲۲: ۴جiو دیگiر اناجی�i میں ہے اور یہ رسiالہ اثبiات کی وجہ سiے ہے۔ چنiانچہ یوحنiا تتب کی سiiند کiiو تسiiلیم کiiرتےہیں اور آانخداونiiد ا� ک آاخر میں۳۴: ۱۰، ۲۲: ۷، ۴۵: ۶میں تiiا

تتب کiiiو آاپ ا� ک آاپ کی جiiiانب اشiiiارات بھی موجiiiود ہیں۔ لیکن بتلاتے ہیں کہ ا� کتب میں ( اوریہی خصوصiiی مiiرقس کی انجی۲۴�iiتiiا ۲۱: ۴فریسیوں کی سی نگاہ سiiے نہیں دیکھiiتے )

(۔ جس طرح مرقس میں منجئی عالمین کی صلیبی موت کو۲۳تا ۱۵: ۶۔ ۲۸تا ۲۵: ۲کی ہے)آادم کی نجات سے متعلق کہا گیا ہے )مرقس تاسiی طiرح مقiدس۲۴: ۱۴۔ ۴۵: ۱۰بنی وغیرہ(۔

۱۹: ۱۷۔ ۷: ۱۶، ۱۷تiiا ۱۲: ۱۴، ۱۸ تiiا ۱: ۱۰یوحنا دونوں میں باہمی تعلق کا ذکر کرتiiاہے ) بiاب کiو سiiیدنا مسiیح کی صiلیبی مiوت کی نبiiوت۵۳وغیرہ(۔ اورجس طرح مرقس میں یسiعیاہ

تنکتہ کiiو رسiiالہ۲۴: ۱۴، ۴۵: ۱۰تسلیم کیا گیا ہے)مiرقس وغiiیرہ( اسiiی طiiرح مقiiدس یوحنiiا اس

Page 17: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

۔۱(۔ ناظرین کو یاد ہوگا کہ یہی تعلیم مقدس پولiiوس دیiiتے ہیں )۳۶تا ۲۹: ۱اثبات سے لیتا ہے )(۔۳: ۱۵کرنتھیوں

۔(۴)وولین کے " استادوں" اورمسیحی ربیوں کے گiiروہ کے نکتہ لر ا مقدس یوحنا کی انجی� دو نگاہ کو نہای وضاح سے ظاہر کردیتی ہے کیونکہ مصنف خiiود ا� میں سiiے ایiiک تھiiا۔ استستاد مصiiنف کی طiiرح تiiورات سiiے بخiiوبی واقiiف انجی� سے نہ صرف یہ ثiiاب ہوتiiاہے کہ یہ ا تھے بلکہ یہ امر بھی واضiiح ہوجاتiiاہے کہ وہ اس کiiو بے تعلقی کی نگiiاہ سiiے غiiیر جانبiiدار ہiiوکر

(۔ گویiiا کہ وہ خiiود اس نظiiام سiiے الiiگ تھے، جن بiiاتوں کی یہiiودی ربی۱۷: ۸دیکھiiتے تھے)اا سچائی ، فض� ، ابدی زندگی وغیرہ اس انجی� کا مصنف تورات سے منسوب کرتے تھے۔ مثل

آانخداونiiد کی ذات سiiے متعلiiق کرتiiاہے) ( تiiورات کiiا۶۳: ۶، ۳۹: ۵، ۱۷: ۱انہی بiiاتوں کiiو ( تiiiورات کے الفiiiا�۱۰تiiiا ۶: ۲۔ ۱۴تiiiا ۱۲: ۴مجسiiiم کلام کے سiiiاتھ مقiiiابلہ کیiiiا گیiiiا ہے۔ )

یی کے من کiiا iiاتے تھے۔ موسiiئے جiiور کiiمہ تصiiا سرچشiاکیزگی کiiزندگی ، زندگی کا پانی او رپ ( مے کو تورات کا ظاہری نشiiا� سiiمجھا جاتiiا۳۲: ۶حقیقی روٹی کے ساتھ مقابلہ کیا گیا ہے )

یی مے تصiiور کرتiiاہے۔) یی مے اور سiiیدنا مسiiیح کiiو اعل (۱۰: ۲تھا۔ یہ انجی� نویس تورات کو ادن ( عبرانیوں کے خ� کے مصنف کی طiرح )جiو۱: ۱۵کیونکہ مجسم کلمہ ہی حقیقی انگور ہے)

آاسمانی حقiiائق کiiا اس گروہ میں سے تھا(، یہ انجی� نویس بھی یہودی رسوم وغیرہ کو اصلی اور پرتiو اورسiایہ خیiال کرتiاہے۔ تiورات کiو یہiودی ربی تی�i اوردنیiا کiا نiور تصiور کiرتے تھے لیکن یہ انجی� نویس بتلاتاہے کہ صرف کلمہ ہی حقیقی نور ہے ۔ ربیوں کا عقیiiدہ تھiiا کہ تiiورات دنیiiا کیآانے سiiے پیiiدائش سiiے پہلے موجiiود تھی ۔ لیکن انجی�ii نiiویس بتلاتiiاہے کہ عiiالم کے وجiiود میں یی ہiiiذا القیiiiاس جiiiو جوبiiاتیں اس انجی�iii کے دیبiiاچہ میں کلام کی جiiiانب پہلے کلام تھiiiا۔ علاا تا� سب کو یہiiودی ربی تiورات کی جiانب منسiوب کیiا کiرتے تھے مثل منسوب کی گئی ہیں یہ کہ تورات خدا کی گود میں تھی۔ خiدا تiورات سiے خiو* تھiا۔ تiورات خiدا کی بیiٹی تھی۔

تورات کے ذریعہ خلق پیدا ہوئی ۔ تورات زنiiدگی ہے۔ تiiورات نiiور ہے۔ تiورات سiiے انسiا� خiدا کے بیٹے بن جاتے ہیں۔ انجی� نویس کا مقصiiد یہ ہے کہ سiiیدنا مسiiیح میں درحقیق وہ سiiبیی ہی کیiiا لز احسiiن موجiiود ہے جس کiiا تiiورات کی نسiiب محض بے دلی�ii دعiiو کچھ بطiiریی کiiرتے ہیں کہ جاتiiاہے اور کہ منجiiئی جہiiا� وہ سiiب کچھ عطiiا کرتiiاہے جiiو یہiiودی ربی دعiiو تورات دیiiتی ہے لیکن درحقیق دے نہیں سiiکتی۔ صiرف کلمتہ اللہ ہی خiiدا کiiا حقیقی علم

۔1اورمکاشفہ عطا کرتاہےتا� بiiاتوں اس بحث کiiا ماحص�ii یہ ہے کہ مقiiدس یوحنiiا نے اس انجی�ii میں نہ صiiرف آانکھiوں سiےدیکھے اوراپiنے کiانوں سiے سiنے تاس نے خiود اپiنی اورمکالموں کو بیا� کیا ہے جiو

تاس زمiiانہ سiiے بھی پہلے کے رسiiالوں کiiو اپنiiا۱:۱۔یوحنا۱تھے) وولین کے رسiiالوں اور لر ا (۔بلکہ دو ماخذ بنایا ہے جس سے انجی� کی قدام اوراس کا پiایہ اعتبiار ثiاب ہوتiاہے ۔ مصiنف نے رسiالہلت خداوندی کو اسiiتعمال کیiا جiو حضiرت کلمتہ اللہ کی حین حیiiات میں ہی لکھiiا گیiiا کلماتاس نے قدیم ترین انجی� کو اپناماخذ بنایا اور جو سیدنا مسیح کی صiiلیبی مiiوت کے صiiرف تھا۔ تاس سے بھی زیiادہ قiiدیم زمiانہ کے ماخiذ اسiتعمال دس سال بعد لکھی گئی تھی اور جس میں لت مسiiیح موعiiود کiiو اسiiتعمال کیiiا اورا� کے وولین کے رسiiالہ اثبiiا لر ا تاس نے دو کiiئے گiiئے تھے۔ علاوہ اس نے اپiiنے روزنiiامچہ کiiو اپiiنی نگiiاہ میں رکھiiا۔ انشiiاء اللہ ہم بiiاب ہفتم میں بتiiائینگے کہتا� ایiام کے واقعiات اورمکالمiات کوایiک جب حضرت کلمتہ اللہ یروشلیم جاتے تiو مقiiدس یوحنiا

روزنامچہ کی صورت میں قلمبند کرلیتے تھے۔

1 C.H.Dodd,Interpretation of the Fourth Gospel pp.80-86

Page 18: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

باب سومباب سومانجی� چہارم اوراناجی� متفقہانجی� چہارم اوراناجی� متفقہ

ہم نے گذشتہ باب میں ثاب کیا ہے کہ مقدس یوحنiiا نے مiiرقس کی انجی�ii کiiو بطiiورتاس کی انجی� کا ڈھiiانچہ انجی�ii مiiرقس کے خiiاکہ پiiر ایک ماخذ کے استعمال کیا ہے اوربالعموم تاس کے تاسی انجی� کا اتباع کرتاہے اوراس کے واقعiiات میں تفاصiiی� کiiا ایiiزاد کiiرکے قائم ہے۔ وہ

وول1بیانات کو مکم� کرتاہے ل� ا iiا انجیiiدس یوحنiiاہے کہ مقiiکردیت ۔ انجی� کا مطالعہ صiiاف ثiiاباا تمام علماء اس نتیجہ پر متفق ہیں۔ سے واقف نہ تھا اور تقریب

چنiiانچہ سiiٹر یiiٹر کہتiiاہے کہ " جiiو ثبiiوت اس بiiات کے لiiئے پیش کiiئے جiiاتے ہیں کہ مقدس یوحنا متی کی انجی� سے واقiiف تھiiا وہ نہiiای ناکiiافی ہیں"۔ حiiق تiiو یہ ہے کہ یہ دونiiوںاہ مختلiiف ہیں اورا� دونiiوں کے الفiiا� اور تعلیم میں عظیم فiiر� انجیلیں ایiiک دوسiiرے سiiے کلیت

تاس نے اس انجی2�iہے ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ مقدس یوحنا انجی� سiوم سiے واقiف تھiا اور " یہ بiiات اغلب4 ۔ لیکن ہاسکنس کی تحقیق درس ہے جو کہتاہے 3کا استعمال بھی کیا ہے

نہیں ہے کہ انجی�ii یوحنiiا کے مصiiنف کے سiiامنے لکھiiتے وق پہلی تین انجیلیں موجiiود تھیںتا� میں درج تا� اناجی� کے ماخiiذ ہیں اور تا� زبانی اور تحریری بیانات سے واقف تھا جو لیکن وہ 1 A.C.Headlam, The Fourth Gospel as History, See Exp.Times Nov.19482 Journal of Theaological Studies April 19533 J.M.Creed, The Gospel according to St. Luke (1930) pp.318-321 Filson Origin of the Gospels p.1894 Hoskyns Fourth Gospel p.87

تاس کے پڑھiiنے والے بھی ا� بیiiانوں سiiے واقiiف ہیں اورکہ وہ ہیں او روہ یہ بات فر} کرلیتا ہے کہ تا� بیانiات تا� کے دلiiوں میں بھی بسiiتی ہیں پس وہ تا� کے دمiاغوں میں ہیں بلکہ بiاتیں نہ صiiرف تاس کے خیiiالات میں سiiے بعض کiiو اپiiنے مکالمiiات اوربیانiiات کiiا مرکiiز بناتiiاہے جن کے گiiرد تا� بیانات کے الفiiا� وغiiیرہ کی جiiانب اشiiارہ کرتiiاہے، جنہiiوں نے بعiiد گھومتے ہیں اور وہ باربار تاس کے پڑھiiنے میں ا� انجیلیوں میں جگہ حاص� کرلی۔مصنف اس بiiات کiو فiiر} کرلیتiiاہے کہ والے ا� اشاروں کiو سiiمجھ جiائینگے کیiiونکہ وہ بیانiiات قiiدیم تھے جن کiا ایمiا� داروں کiو علم تھا۔ یہ بیانات ابھی منتشر پاروں اورٹکڑوں میں اور زبiiانی بیانiiات میں ہی محفiiو� تھے"۔ یہ نتiiائجل\ تصiiنیف کے سiiاتھ ہے۔ ہم انشiiاء اللہ نہای اہم ہیں کیونکہ ا� کا تعلق انجی� چہiiارم کی تiiاری

آاگے چ� کر اس پر بحث کریں گے۔(۲)

تا� میں ل� متفقہ اورانجی� چہiارم کiو سiطحی طiiورپر پڑھiتے ہیں تiو ہم کiو جب اہم اناجیاا دکھائی دیتا ہے اورایسا معلوم ہوتاہے کہ ہم گویا ایک اور قسم کی فضامیں سiiانس لیiiتے ہیں۔ فور

چنانچہ پہلی تین انجیلوں میں اور انجی� چہارم میں ذی� کے فر� نمایاں ہیں:آاپ نے صiوبہ۱) تاس کiا م کiاذکر ہے جiو ۔( انجی� مرقس میں صرف سیدنا مسیح کے

�iiو " اناجیiiک �طے اiiی واسiiال ہے۔ اسiiا بھی یہی حiiوں کiiوں انجیلیiiاقی دونiiا۔ بiiمیں کی �iiگلی آاخiiری ہفتہ تاس کام اور خiiدم کiiا ) آانخداوند کے متفقہ" کا نام دیا گیا ہے۔ انجی� مرقس میں آاپ نے یروشلیم میں کiiا۔ اگiiر صiiرف یہی انجی�ii ہiiوتی کے سوائے( کوئی ذکر نہیں پایا جاتا جو آانخداونiiد نے آاخiiری ہفتہ سiiے پہلے تiiو ہم کiiو یہ کبھی پتہ نہ لiiگ سiiکتا کہ اپiiنی زنiiدگی کے کبھی یروشلیم کی طرف رخ بھی کیiا تھiا۔بiاقی دونiوں انجی�i نویسiوں کے ماخiذوں سiے جiو وہآاپ کiiئی مiiرتبہ یروشiiلیم گiiئے تھے اوریہ اپiiنی انجیلیiiوں میں اسiiتعمال کiiرتے ہیں یہ پتہ چلتiiاہے کہ آاپ یہودی رسم کے مطابق بiڑی عیiiدوں پiر ضiرور یروشiiلیم گiiئے آاتی ہے کہ بات درس بھی نظر تور افتادہ لوگiوں کiو تiو اپiنی نجiات کiا آاپ نے گلی� کے د ہوں گے۔ یہ بات بھی اغلب نہیں کہ

Page 19: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

مژدہ دیا ہو لیکن یہودی کے مرکز اور قوم کے قائدین او رعلماء کے سامنے اپiiنے مسiiیحائی کےیی کا اعلا� نہ کیا ہو۔ انجی� چہارم کے مطابق ہر تہوار اور عیiiد کے مiiوقعہ پiiر سiiیدنا مسiiیح دعوآاپ کے ل� یہود کو یروشلیم میں اپنے پر ایما� لانے کی دعوت دیتے ہیں اور بiiاوجود اس کے کہ اہآاپ اس کوشش میں یی کہ آاپ اپنے مصمم ارادہ سے نہیں ٹلتے ، حت دعاوی کو رد کیا جاتا ہے اپنی جiا� بھی دے دیiتے ہیں ۔ علاوہ بiریں تiاریخی طiiورپر یہ بiات تسiلیم کiرنے کے قاب�i بھیآاخiiری ایiiام سiiے متعلiiق ہے۔ آاپ کے ہے۔باقی اناجی� صرف ایک یاترا کا حiiال بتلاتے ہیں ، جiiو آاپ کی خiiدم کے دورا� میں فسiiح کی تین عیiiدیں یروشiiلیم لیکن مقiiدس یوحنiiا بتلاتiiاہے کہ توسiری بارخiدم کے دورا� آاپ نے اپنی خiدم شiروع کی۔ د میں واقع ہوئیں۔ پہلی دفعہ جب آاپ یروشiلیم اتمiام حج کی خiاطر گiئے۔ ا� کے علاوہ آاخر میں میں اور تیسری بارخدم کے

آاپ یروشلیم میں گئے تھے)۱: ۵ایک اور عید کا ذکر ہے جس کا نام بتلایا نہیں گیا) :۷( جب لد خیام کا ذکر ہے اور ۱۰، ۲ آاپ۲۲: ۱۰( میں عی لد تجدید کiiا ذکiiر ہے اور دونiiوں دفعہ میں عی

آاپ کا جانفزا پیغام م� جائے۔ ل� یہود کو یروشلیم گئے تھے تاکہ تمام اہآانخداوند نے یروشiiلیم ل� چہارم میں اس خدم اورکام کا ذکر کیا گیا ہے جو پس انجیلد عiiتیق کے iiو عہiiمیں کیا۔ اس انجی� کے مقامات یہودیہ کے صوبہ میں ہیں۔ اس انجی� نویس ک آاتے ہیں جن میں صiیو� میں خiدا کے پیغiام کiا ذکiر ہے انبیاء کی کتابوں کے وہ مقامiات نظiiر

:۴۹، یسiiعیاہ۲: ۴، میکا۳: ۲ ، یسiiعیاہ ۳۰: ۲ مقiiابلہ کرویرمیiiاہ ۱۶: ۳، یوای�ii ۲: ۱)عiiاموس وغiیرہ( ۔ انبیiائے سiلف۱: ۳، ملاکی ۳: ۵۱، ۵: ۳۳، یسiعیاہ ۱۶: ۱۱ مقiiابلہ کiرو رومیiوں ۲۰

تا� جگہوں کا جو اس انجی� میں مذکور ہیں، پس منظiiر ہیں تتب کے یہ مقامات نہ صرف کی کآاتے ہیں آاواز" ، "1بلکہ ا� مقامiiiات کے الفiiiا� تiiiک اس انجی�iii میں باربiiiار اا " کلام' ، ۔ مثل

عدال " ، " ڈھونڈو"۔ تسلی دینے والا"۔ وغیرہ۔ل} مقدس کنعiiا� کے جنiiوبی حصiiہ ل� غور ہے کہ اگرچہ اناجی� متفقہ میں ار یہ امر قابآانخداوند کی زندگی میں ایک نہای حسرتناک پارٹ ادا کیا کا بہ کم ذکر ہے تاہم اس نے 1 Ibid.pp.63-64

آاپ نے بدی کی طiاقتوں کے آاپ کی یوحنا بپتسمہ دینے والے سے ملاقات ہوئی ۔ وہیں ہے۔ وہاں آاپ نے کiiاہنوں، فقیہiiوں اور فریسiiیوں کودیکھiiا جiiو علم کے سردار ابلیس سiiے جنiiگ کی۔ وہiiاں آاپ کے اس آاراستہ تھے لیکن جن کے اعمال نامے سیاہ تھے۔ یروشلیم کے شiiہر نے ذریعہ سے آاپ کو یرمیاہ نiiبی آاپ کے پیغام کو قبول کر لے گی، غل� ثاب کردیا اور لم یہود خیال کو کہ قوآاپ کو یہ احساس ہواکہ مسiiیح کی طرح شریع اورہیک� کی نسب اپنا زاویہ نگاہ بدلنا پڑا۔ اور موعود کے لئے ضرور ہے کہ سب کچھ جو موجودہ دور میں ہے ، ختم کرکے ایک نیiiا دور شiiروعآاپ جلال کےسiiاتھ اس نiiئے آاپ کی جوانا مرگ لازمی بات ہوگی اورپھر کردے۔ جس سے پہلے

۔2دور کی بناء ڈالینگےآاپ نے اس دنیا میں فق� ایک سال کiiا۲) ۔( پہلی تین اناجی� کے حساب کے مطابق

لد فسح کے لئے یروشلیم گئے لیکن انجی� چہiiارم کے حسiiاب آاپ عی آاخر میں کام کیا جس کے آانخداوند کی خiiدم کiiا زمiiانہ کم ازکم دو اور تین سiiال کے درمیiiا� کiiا زمiiانہ ہے ۔ کے مطابق

آایا ہے) لد فسح کے موقعہ پر جانے کا تین بار ذکر ،۴: ۶، ۱۳: ۲کیونکہ اس میں یروشلیم کو عی(۔۱: ۱۳

آاپ۳) آانخداونiiد اپiiنی مسiiیحائی کiiا اعلا� نہیں کiiرتے بلکہ ۔( پہلی تین انجیلیiiوں میں ل� یہiiود iiآاپ اہ آاپ کی صحب سے فیضiیاب ہiiوکر خiود اس نiتیجہ پiر پہنچiiتے ہیں کہ کے شاگرد

( لیکن انجی۲۰�iiتiiا ۱۸: ۹، لوقiiا ۲۹تiiا ۲۷: ۸، مiiرقس ۱۷، ۱۳: ۱۶کے مسیح موعود ہیں)مiiتی وغیرہ(۔۴۵: ۱۔ ۳۷تا ۳۵: ۹۔ ۲۶: ۴یوحنا میں یہ اعلا� ابتدا ہی میں کیا جاتا ہے)

لزانجی�ii چہiiارم۴) ل� متفقہ میں حضرت کلمتہ اللہ کی منادی اور تقریروں کiiا طر ۔( اناجیآاپ ا� اناجی� میں تمثیلوں کے ذریعہ تعلیم دیتے ہیں۔ )مرقس (۔ لیکن۳۴: ۴سے جداگانہ ہے۔

آاپ کی تعلیم کiا پiیرایہ مجiiازی ہے۔ دیگiر انجی� چہارم میں تمثیلوں سے کام نہیں لیiا گیiا بلکہ اناجی�ii میں مختصiiر، سiiادہ، دلکش اورجiiاذب تiiوجہ فقiiرے موجiiود ہیں اور وہ ایسiiے ہیں کہ اگiiر انسا� ا� کو ایک دفعہ سن لے تو وہ ا� تازیس نہیں بھول سکتا۔ بقول جسٹن شہیدا� اناجی�2 Ibid. p.20

Page 20: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

تر مغiiز جملiiوں ، پiiر مشiiتم� ہے iiر اور پiiآاپ کا کلام" مختص آاپ1میں ۔ لیکن انجی�ii چہiiارم میں لت بابرکiiات سiiے ہے اور آاپ کی ذا کے خطبات اورمکالمات طiiولانی قسiم کے ہیں جن کiiا تعلiiق آاپ خiiدا کے مظہiiر ہیں۔ اس نکتہ کiو مثiالیہ اورمجiiازيہ پiiیرایہ میں پیش جو یہ ثاب کرتے ہیں کہ آاپ کے دعiiوے پiائے جiاتے ہیں جن میں بتلایiا گیiا ہے کہ " کیا گیا ہے۔ اس انجی� میں جابجiا زندگی کی روٹی میں ہوں"۔ " دنیا کا نور میں ہوں"۔ بھیڑوں کiiا دروازہ میں"۔ اچھiiا چرواہiiا ہiiوں"،ل� متفقہ میں اس قسiم کے اقiوال نہیں ملiتے ا� iیرہ لیکن اناجیiوں" وغiدگی میں ہiق اور زنiراہ، ح

لب اختیار معلم کے طورپردیتے ہیں۔ میں حضرت کلمتہ اللہ اپنی روحانی تعلیم کو ایک صاحل� متفقہ میں ہiiر جگہ" خiiدا کی بادشiiاہ " کiiا موضiiوع پایiiا جاتiiا ہے لیکن۵) ii۔( اناجی

ل� چہارم میں یہ موضوع نہیں ملتiiا۔ بلکہ لفiiظ" خوشiiخبری" یiiا " انجی�ii" اس میں کہیں وارد انجیآایiiا ہے) تiiا۳: ۳بھی نہیں ہوا۔ بادشاہ کے موضوع کا ذکر صرف ضمنی طiiورپر دو مقامiiات میں

آانخداونiiد کے دعiiوؤں )میں ہiiوں( اور " ابن۳۶: ۱۸، ۵ (۔ اس انجی�ii میں اس موضiiوع کی جگہ اللہ" کے تصiiور نے لے لی ہے۔ اس انجی�ii میں تiiوبہ کiiا موضiiوع بھی نہیں پایiiا جاتiiا ، جس پiiر دوسری انجیلوں میں زوردیا گیا ہے۔ بلکہ اس میں الفا�" توبہ" یا" تiiوبہ کرنiiا" وارد نہیں ہiiوئے۔ اس انجی� میں " جسم اور روح" ، " موت اور زنiiدگی" ،" نiور اورتiاریکی" ،" خداونiد اور دنیiiا" ، " ایما� داروں اوربے ایمانوں" کے تصiiورات موجiiود ہیں۔ اس میں سiiیدنا مسiiیح کiiا " محصiiول لیiiنے والiوں اورگنہگiاروں" کے سiاتھ صiحب رکھiنے کiا ذکiر نہیں ہے۔دول اور غریiبی کiا موضiوع بھی نہیں پایiiا جاتiiا اورنہ سiiیدنا مسiiیح کiiا بچiiوں کiiو پیiiار کiiرنے کiiا ذکiiر ہے۔ اس انجی�ii میں بدروحوں کو نکالنے اورکوڑھیوں کو شفا بخشنے کی قسiiم کے معجiiزات کiiاذکر نہیں ملتiiا۔ استاس طرح بیا� نہیں کئے گiiئے جس طiiرح دیگiiر انجی�ii نویسiiوں میں جن معجزات کا ذکر ہے وہ لت اللہ ہیں جو حiق کiا نشiا� دیiتی ہیں اورانجی�i کے اص�i موضiوع آایا نے بیا� کئے ہیں بلکہ وہ

سے متعلق ہیں۔

1 Justin. Apology.1:14

آانخداونiiد کiو جمعہ کے روز مصiiلوب کیiiا گیiiا۔ لیکن۶) ۔( چاروں انجیلوں کے مطiiابق آاپ کو نیسا� کے روز مصلوب کیا گیا جو عید کے سات دنiiوں۱۵پہلی تین اناجی� کے مطابق

وغiیرہ(۔ لیکن مقiد س یوحنiا۱: ۱۵۔ ۱۲: ۱۴کا پہلا روزہ تھا یعiiنی فسiح کے اگلے د�)مiرقس نیسا� کا تھا جس روز بعد از دوپہiiر فسiiح کiiا بiiرہ ذبح کیiiا جاتiiا۱۴کے بیا� کے مطابق یہ د�

آافتiاب کے بعiد کھایiا جiائے۔) لب ،۳۱، ۱۴: ۱۹۔ ۲۸: ۱۸۔ ۲۹تiا ۱: ۱۳تھا تاکہ اسی شام غرو ( پس ا� اناجی� کے مطابق سیدنا مسiیح نے اپiنے شiاگردوں کے سiاتھ فسiح سiے پہلی شiام۴۲

گھنٹے بعiiد یہiودی عیiد فسiح کiا کھانiا کھiiارہے تھے تب سiیدنا۲۴کھایا تھا اورجب اس کے معلiiوم ہiiوتی ہے ۔iiترس مسiiیح قربiiا� ہiiوچکے تھے۔ اس امiiر میں یوحنiiا کی انجی�ii کی تiiاری\ د کیونکہ سیدنا مسiiیح کی گرفتiiاری کiiا واقعہ، صiiدرعدال کے سiiامنے پیشiiی ، خوشiiبودار اشiiیاءلد فسiiح کی مقiiدس تiiرین iiا واقعہ، عیiiونے کiiلوب ہiiیح کے مصiiیدنا مسiiاور س کی خریiiدوفروخ

۔2ساعتوں میں ناممکن باتیں ہیںآارچ ڈیکن بکلے کے نظiریہ کiiو تسiلیم کiرلیں جس کiiا ذکiر ہم حصiہ دوم لیکن اگر ہم تا� آائے ہیں کہ مقدس مرقس کے بیا� میں دو مختلف ماخذ ہیں اور کہ اگiiر وول میں کر کے باب ا

تاس د� کی شام ہے۱۷: ۱۴کو جدا کیا جائے تو مرقس کے الفا� " جب شام ہوئی " سے مراد لد فطiiیر ہiiونے والی تھی"۔ iد عیiکے بع �اہے کہ" دودiiاں لکھiiمیں ہے، جہ آای جس کا ذکر پہلی

( کے الفiiا�۱۵: ۲۲یوں یہ تاری\ بعینہ وہی ہوجاتی ہے جو مقدس یوحنiiا کی ہے ۔ مقiiدس لوقiiا )آانخداوند کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی تھی۔ اس طرح مقدس یوحنا سے بھی مترشح ہوتاہے کہ

اور مقدس مرقس کے بیانات میں تناقض یا تضاد مٹ جاتاہے۔آاخری فسح کiiا کھانiiا ل� غور ہے کہ مقدس یوحنا کے مطابق اس سلسلہ میں یہ امر قاب

نیسiiا� کے روز عم�i میں ائے جس کiو۱۴اور صلیبی واقعہ اور سیدنا مسیح کiا دفن کیiiا جانiا ، نیسiا� کiو ہiوئے۱۵" فسح کی تیاری کا د�" کہا جاتا تھا۔ مقدس مرقس کے مطابق یہ واقعات

لد فسح کا د� تھا اورجس کو" بے خمیری روٹی کا پہلا د�" کہا جاتiiا تھiiا۔ لیکن یہ بiiات جو عی2Macgregor, St.John pp.X11.X111

Page 21: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

غور طلب ہے کہ دونوں بیانات کا اس امر پر اتفا� ہے کہ یہ د� سiiب سiiے پہلے تھiiا۔ مiiرقس سے ظاہر ہے کہ یہ ماخذ یوحنا کی انجی� کی تاری\ سiiے اتفiiا� کرتiiاہے۔ مقiiدس لوقiiا۲تا ۱: ۱۴

آای ۳۸تا ۱۴: ۲۲کا ماخذ ) آانخداوند فرماتے ہیں۱۵(۔ بھی اس سے اتفا� کرتاہے چنانچہ میں آارزو تھی کہ دکھ سiiہنے سiiے پہلے یہ فسiiح تمہiiارے سiiاتھ کھiiاؤں لیکن )اب( " مجھے بiiڑی آانخداونiiد اسiiے نہ کھاسiiکونگا"۔ یہ الفiiiا� مقiiiدس یوحنiiا کے بیiiا� کی تصiiدیق کiiرتے ہیں کہ

نیسiا� کے روز مصiلوب ہiiوئے تھے جب شiام کے فسiح کے کھiانے کے لiئے بiرے ذبح کiئے۱۴تاسی شام ل� یہiiود د� کiiو سiiورج کے طلiiوع سiiے۱۵جاتے تھے۔ iiونکہ اہiiتاری\ کا شروع ہونا تھا،کی

آاخiری کھانiا۸تا ۵: ۱نہیں بلکہ غروب سے شمار کرتے تھے۔)پیدائش آانخداونiد کiiا وغیرہ(۔ پس نیسiiا�۱۴فسح کا کھانا نہ تھا بلکہ فسح کے کھانے سے ایک شام پہلے کا کھانا تھا۔ یعiiنی وہ

(۔ جب فسiiح کی۱۴: ۱۹کی شiiام کiiا کھانiiا تھiiا۔ وہ " فسiiح کی تیiiاری کiiا د� تھiiا"۔ )یوحنiiا آاخiری۳۸: ۲۲تقiiدیس کی جiاتی تھی۔ علاوہ ازیں لوقiا سiے بھی ظiiاہر ہے کہ سiiیدنا مسiیح کiا

ل� یہود کو تلوار لگانا منع تھا۔ کھانا فسح کے کھانے سے پہلے کا تھا کیونکہ تہواروں کے روز اہل� اربعہ کا غائر مطالعہ ظاہر کردیتا ہے کہ مذکورہ بالا تمام اختلافات سiiطحی ہیں۔ اناجیلد نظر رکھiiتے ہیں کہ مقiiدس یوحنiiا کے سiiامنے صiiرف مقiiدس مiiرقس جب ہم اس حقیق کو متاس کام اور خدم کا ذکر کیا گیا تھا، جو حضiiرت کلمتہ اللہ کی انجی� تھی جس میں صرف تصوبہ میں سر انجام دی تھی اور کہ مقدس یوحنا نے اپنی انجی�ii میں قiiریب قiiریب نے گلی� کے آاپ نے یہiiودی کے گiiڑھ اور مقiiدس شiiہر تاسiiی خiiدم اور کiiام کiiا ذکiiر کیiiا ہے جiiو صiiرف یروشلیم میں کیا تھا تو ہم پر یہ ظاہر ہوجاتاہے کہ انجی� چہارم انجی� دوم کے بیانات کی تکمی�آانخداوند کے تمام ضروری اوراہم سوانح حیات کا تذکرہ کرتی ہے اوریوں دونوں انجیلیں م� کر اا ایک مقام میں ظاہر ہے کہ مقدس یوحنا مقiiدس مiرقس کی کمی کiو پiورا کرتiا کرتی ہیں ۔ مثل ہے۔ چنانچہ مرقس کی انجی� میں ہے " پھر یوحنا )بپتسمہ دیiنے والے( کے پکiڑوائے جiانے کے

آاکر خدا کی خوشخبری کی منادی کی ") یی( نے گلی� میں (۔ اسی کو۱۴: ۱بعد یسوع )عیس

(۔ مقiiدس یوحنiiا بتلاتے ہیں کہ سiiیدنا مسiیح نے۱۷تiا ۱۲: ۴مقدس مiتی نے بھی نق�ii کیiiا ہے )آانخداوند کی زندگی کے اس واقعہ سے بہ پہلے یہودیہ میں منادی کرنی شروع کردی تھی۔ واقعات غیر مکم� تھے۔ اس انجی� کی کمی کو بعد کے زمانہ میں مقدس متی اور مقiiدس لوقiiا نے دیگر ماخذوں کے ذریعہ اپنے اپنے مقصد اورنکتہ نگiiاہ سiiے پiiورا کیiiا لیکن اس پiiر بھی ا� اناجی�ii میں اتiiنے کم واقعiiات درج ہیں کہ وہ صiiرف چiiالیس مختلiiف دنiiوں کے ہی ہیں اور ا�ل� دوم میں iiاا چار سودنوں پر ہی مشتم� ہوتی ہے۔انجی آانخداوند کی خدم فق� قریب کے مطابق تا� واقعات کا ذکر نہیں تھiiا جiو انجی�ii چہiiارم کے مصiنف کiiو معلiوم تھے۔ پس یروشلیم کے

تا� کو مکم� کرنے والے ہیں۔ انجی� چہارم کے بیانات انجی� دوم کے نقیض نہیں ہیں بلکہ اس حقیق کی روشiiنی میں ہم سiiمجھ سiiکتے ہیں کہ مقiiدس مiiرقس نے کیiiوں ا�تا� واقعات کا واقعات کا ذکر نہیں کیا جویروشلیم میں وقوع پذیر ہوئے اورکیوں مقدس یوحنا نے ذکر نہیں کیiا جiو صiوبہ گلی�i میں رونمiا ہiوئے تھے۔ جیسiا ہم حصiہ دوم کے بiاب چہiارم میںآانخداونiiد کی مکم�ii سiiوانح عمiiری بلاچکے ہیں ۔ کسiiی انجی�ii نiiویس کiiا مقصiiد یہ نہ تھiiاکہ تانہiiوں نے بے لکھے۔ پس ہiiر انجی�ii نiویس نے صiiرف چنiiد واقعiiات کiiا ہی ذکiiر کیiiا ہے جن کiiا

۔۳تiiا ۱: ۱شمار تحریری ماخذوں اوربیانوں میں سے اپنے مطلب کے مطiiابق انتخiiاب کیiiا )لوقiiا (اورباقی مسالہ کو نظر انداز کردیا۔۳۵: ۲۱،و یوحنا ۴۰: ۱۰، اعمال ۳۰: ۲۰یوحنا

تر آانخداوند گلی� کے دو اا یہ ایک قدرتی بات ہے کہ پس یہ اختلاف قدرتی ہیں مثلتپرمغز ،د لکش اور سادہ فقiiروں افتادہ صوبہ کے دہقانوں کو تمثیلوں میں تعلیم دیں اورمختصر اور آاپ یروشiiلیم میں یہiiودی ، ربیiiوں اور تا� پر خدا کی ازلی محب منکشف کiiریں لیکن جب میں آاپ سiiیدھے سiادے، جiiاذب تاستادوں اور دینیات کے مiاہروں سiiے بiات کiریں تiو یہودی کے توجہ مختصر جملوں کی بجائے طوی� مکالموں اور دینیiات کی اصiiطلاحوں سiے کiام لیں۔ اس موضوع پرہم انشا ء اللہ اگلے حصہ میں مفص� بحث کرکے بتلائیں گے کہ جب حضiiرت کلمتہتانہی کی سiiی اصiiطلاحات اورمنiiاظرانہ طiiریقے اللہ اہ�ii یہiiود کے ربیiiوں سiiے بحث کiiرتے ہیں تiiو

Page 22: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

استعمال کرتے ہیں۔ گلی� کی طرح یروشلیم میں بھی سیدنا مسیح ہجموں سے گھرے رہiiتے ہیں ، لیکن یہ ہجوم بھی گلی�i کے سiے ہجiوم نہیں بلکہ وہ غiiور وخiو} کiرنے والے ہجiiوم ہیں جiوآائے اس قسم کے سوالات پوچھتے ہیں کہ کیا" یہی تومسiیح موعiود" نہیں ، " کیiا مسiیح جب

تا� سiiے زیiiادہ معجiiزے دکھiiائے گiiا") آانخداونiiد کiiا طiiریقہ۳۱: ۷گiiا تiiو (۔ پس قiiدرتی طiiورپر لز تعلیم مختلف ہے۔ کیiونکہ جیسiا مقiدس مiرقس بتلاتiاہے ، سiیدنا مسiیح کiا یہ خطاب اور طر

تا� سiے کلام " کیiiا کiرتے تھے) آاپ سiiامعین ، کی سiمجھ کے مطiiابق ( ۔۳۳: ۴دستور تھiiاکہ آاپ کو یروشلیم اورجنiiوبی کنعiiا� میں بھی صiiوبہ گلی�ii کی ذہiiنی کے یہی وجہ ہے کہ جب

تا� کو بھی تمثیلوں میں اپنا پیغام دیتے تھے) آاپ (۔ جس۲۵: ۱۶، ۶: ۱۰انسا� ملتے تھے تو آاپ تمiiثیلوں میں تعلیم دیiiتے تھے )مiiرقس ( ۔ بلکہ ا�۴۴تiiا ۴۳: ۴طiiرح گلی�ii کےدہقiiانوں کiiو

متفقہ اناجی� کی تمثیلوں میں بھی فiiر� ہے۔ مiiرقس اورمiiتی کی تمiiثیلیں ایiiک سiiی نہیں ہیں۔ اور ا� اناجی�ii کی تمiiثیلیں لوقiiا کی سiiی نہیں۔ لیکن ہم یہ بھی خیiiال نہیں کiiرتے کہ چiiونکہ مسرف بیٹے کی تمثی� متی اورمرقس کی انجیلوں میں نہیں ہے لہذا وہ سیدنا مسiiیح کے منہ

:۱۴نے فرمiiائی ہے! یہ انجی�ii نiiویس تمiiثیلوں کiiو اسiiتعمال نہ کiiرنے کiiا سiiبب بھی بتلادیتiiا ہے)۲۵�iiرے کی تکمیiiک دوسiiات ایiiل� متفقہ کے بیان iiارم اوراناجیiiچہ �iiاہر ہے کہ انجیii۔ پس ظ)

کرتے ہیں۔ مقدس یوحنا چنiد واقعiiات کiا انتخiiاب کiرکے اپiنے خصوصiی نکتہ نظiiر سiے یہلن خدا ہے جو ازل سے خiiدا کے سiiاتھ ہے اورا ثاب کرنا چاہتاہے کہ یسوع ناصری مسیح موعود اب س کلمہ ہے۔ پس یہ اختلافات قدرتی ہیں اور انجی� نiiویس کے مختلiiف مقاصiiد کی وجہ سiiے

ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے نقیض نہیں ہیں۔(۳)

ل� غور ہے کہ انجی� چہارم کے ا� حصوں میں جiiو بیانiiات پiiر مشiiتم� ہیں وہ یہ امر قابآاتی ہے جو اناجی�ii متفقہ میں ہے۔ یہ اناجی�ii کی صiiح وپiiایہ سیدنا مسیح کی وہی تصویر نظر اعتبار کی زبردس دلی� ہے۔اناجی� اربعہ کا ا� باتوں پر اتفا� ہے کہ سیدنامسیح ایک استاد ہیں

آادمیiiوں آاقا ہیں جن کے گرد حiiوارئین کiiا حلقہ اور آاپ ایک جن سے معجزات صادر ہوتے تھے۔ �iiمجھتے نہیں۔ انجیiiرح سiiو اچھی طiiاتوں کiiآاپ کی ب کiiا جھمگٹiiا لگiiا رہتiiاہے۔ اوریہ حiiوارئین آامiiد چہارم میں بھی حضر ت کلمتہ اللہ کی خدم سiiے پہلے یوحنiiا بپتسiiمہ دیiiنے والے کی کا ذکر ہے اور پہلا معجiزہ گلی�i میں ہوتiاہے۔ گiو اس معجiزے کiا ذکiر اناجی�i متفقہ میں نہیںل� یہiiود کے iiد میں اور اہiiآانخداون ہے۔ پھiiر بحث ومبiiاحثہ کiiا زمiiانہ دکھلایiiا گیiiا ہے،جس سiiے

( قیصiiریہ۶۹: ۶تاستادوں میں اختلافات کی خلیج وسیع ہوتی جاتی ہے۔ مقدس پطرس کiiا اقiiرار ) فلپی کے اقرار کی جگہ لے لیتا ہے جو نقطہ انقلاب ہے۔ ا� دونوں مقامات سiiے سiiیدنا مسiiیح کی زندگی میں ایک نیا دور شروع ہوجاتiiاہے اس کے بعiiد انجی�ii مiiرقس کی تiiرتیب کے ڈھiiانچہ

۔1میں مقدس یوحنا تفاصی� سے کام لے کر اپنے خاص مسالہ کا استعمال کرتاہے چاروں انجیلوں کے بیانات سے ظاہر ہے کہ چاروں کی چاروں انجیلوں میں اندھے کiiو�iiا، جھیiiبینائی دینا، ہیک� کی صفائی ، سردار کے بیٹے کو شفا دینا، پانچ ہزار کو کھانا کھلان آاپ کے پاؤں کا مسح ہونا ، یروشلیم میں داخلہ، مصiiلوب ہiiونے کی کیفی کiiا بیiiا� اور پرچلنا۔ سiiیدنا مسiiیح کی فتحیiiاب قیiiام کے تiiذکرے موجiiود ہیں لیکن مقiiدس یوحنiiا نے نہ صiiرف ا� بیانات کو اپنے طرز خاص میں لکھا ہے بلکہ ا� واقعات کی خاص اندازے سے تاوی�ii بھی کی

آائندہ باب میں ذکر کرینگے۔ ہے جس کا ہم تا� واقعiiات کی علاوہ ازیں جیسا ہم گذشتہ باب میں ذکر کiiرچکے انجی�ii چہiiارم میں جانب اشارے موجود ہیں جو انجی� مرقس میں ہیں اورانجی� مرقس سiے دیگiر انجی�i نویسiوں نے

اا ۴: ۴، ۷تiiا ۱: ۷نق� کئے ہیں) آاخر وغiiیرہ(۔ مثل میں گتسiiمنی بiiاغ میں اذی ۲۸، ۲۷: ۱۲ تiiاآازمائش اور ۳۵تا ۳۰: ۶کا اشارہ موجود ہے۔ آانخداوند کی پہلی آازمائش۴: ۷ میں میں دوسری

آازمائش کی جانب اشارے ہیں ۔ لیکن ا� واقعات کا ذکر نہیں کیا گیا۔۱۵: ۶اور میں تیسری اا مقiiدس یوحنiiا جرمن عالم ذاہن نے اس نکتہ کiو نہiiای تفصiiی� کے سiاتھ بیiiا� کیiا ہے ۔ مثل

تاس وق تiiک قیiiد میں نہ ڈالاگیiiا تھiiا") ( لیکن وہ اس کے قیiiد ہiiونے۲۳: ۳لکھتاہے کہ " یوحنا 1 E.F.Soctt, The Fourth Gospel(1908) pp.33-34

Page 23: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

کے واقعہ کا کہیں ذکر نہیں کرتا۔ وہ کہتاہے کہ" یہودیوں نے یروشلیم سے کاہن اورلاوی یوحنiا ( لیکن وہ اس مقام میں یہ نہیں بتلاتاکہ یوحنا بپتسمہ دیiiنے والا کہiiاں۱۶: ۱کے پاس بھیجے ")

تھا اوراس مقام میں کیا کرتا تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ انجی� چہارم کا مصنف اس قسم کی باتیں تب ہی لکھ سکتا تھا اگراس کی انجی� کے پڑھنے والے ا� باتوں سiے پہلے ہی واقiف تھے۔ موجiودہ زمانہ کے انجی� خوانوں کو ا� باتوں سiiے عجiiوبہ نہیں ہوتiiا کیiiونکہ وہ پہلے ہی دیگiر اناجی�ii کiiو�iiانجی �iiخص پہلے پہiiاواقف شiiوئی نiiر کiiوتے ہیں۔ لیکن اگiiف ہiiے واقiiات سiiواقع �ر اiiڑھ کiiپ چہiارم کiوپڑھے تiiو اسiکے لiiئے یہ مقامiات اچنبھiiا ہiiوں گے۔ ایiiک اور مقiiام میں مقiiدس یوحنiا

" ا� بiiاتوں کے بعiiد یسiiوع گلی�ii کی جھی�ii یعiiنی۱۲: ۲بتلاتiiاہے کہ" وہ کفiiر نحiiوم کiiو گiiئے"ل} مقiiدس کے جغiiرافیہ سiiے نiiاواقف۱: ۶طبریاس کی جھی� کے پار گیا) ( لیکن جiiو شiiخص ار

تا� مقامiiات کے بiiارے میں نہیں سiiمجھ سiiکتا ۔ سiiامریہ اور سiiامریوں کiiا ذکiiر ) (۴: ۴ہiiو وہ وول وسiوم میں بھی ضiمنی طiiورپر ہی پایiا جاتiاہے لیکن انجی�i میں موجiود ہے اوریہ ذکiر انجی�i اتا� لوگوں کےلئے لکھ رہا ہے جو انجیلی تاری\ سے واقiiف تھے۔ پس جس طiiرح یوسiiی مصنف بئیس کہتاہے اس انجی� کی تصنیف سے پہلے متعدد انجیلی تذکرے لکھے جاچکے تھے جو

مختلف مقامات میں موجود تھے اورانجی� مرقس لکھی جاچکی تھی۔ل� ذکiiر ہے کہ دیگiiر اناجی�ii میں ایسiiے واقعiiات کی جiiانب اشiiارے iiات بھی قابiiیہ ب اا سiiب کے روز شiiفا بخشiiنے پiiر موجiiود ہیں جiiو انجی�ii چہiiارم میں بالتفصiiی� لکھے ہیں مثل

آاپ کiiو ہلاک کiiرنے کiiا منصiiوبہ بانiiدھنا)مiiرقس (۱۹: ۷، ۱۸: ۵( ، یوحنiiا ۶: ۳دشiiمنوں کiiا آاخر ویوحنا ۱۱: ۸معجزے کا طلب کرنا )مرقس نیز دیکھiiو مiiرقس۱۹تا ۱۹: ۲، ۳۳تا ۳۰: ۶تا

( ثiiاب ۳۸: ۱۰( انجی�ii سiiوم میں مiiریم اورمارتھiiا کiiا ذکiiر )۵تiiا ۳: ۸ اوریوحنiiا ۳۵، ۳۱، ۲۰: ۳آانخداوند یروشلیم گئے تھے جس کiiا ذکiiر مقiiدس یوحنiiا کرتiiاہے) بiiاب(۔ اگiiر سiiیدنا۱۱کرتاہے کہ

آاپ کی آاخری ہفتہ میں ہی یروشلیم گئے تھے تو اس خاندا� سiiے مسیح صرف اپنی زندگی کے :۲۳واقفی کیسے ہiiوئی اورایiک ہی ملاقiات میں محب کiا رشiتہ کس طiiرح اسiتوار ہوگیiا؟)مiتی

آانخداوند کی نہ صرف یہ تمنا تھی کہ یروشiiلیم۳۴، ۳۰، ۲۲: ۱۳اور لوقا ۳۷ سے معلوم ہوتاہے کہ آاپ پر ایما� لائیں بلکہ یہ بھی ظاہر ہے کہ باربار کی کوشش کے باوجود ل� دین کے رؤسا اورہادیا

آاخiiری تصiiدیق یوحنiiا ۲۶: ۲۲یہ تمنا پوری نہ ہiiوئی ۔لوقا ۔ میں۱۱تiiا ۹: ۱۹، ۳۸، ۱۷، ۱: ۱۳تiiا آاسمانی کے بعد رسولوں کا صدر مقiام یروشiلیم تھiا لد بالتفصی� موجود ہے۔ سیدنا مسیح کے صعو اوریہ تب ہی ہوسکتا ہے کہ اگر سیدنا مسیح کئی بار یروشلیم گئے ہiiوں۔ یہ بiiاتیں ثiiاب کiiرتی ہیں�iiرے کی تکمیiiک دوسiiاقض نہیں ہے بلکہ وہ ایiiاد وتنiiاہم تضiiرف بiiاربعہ میں نہ ص �iiکہ اناجی

وتصدیق کرتی ہیں۔تتب لد عتیق کی ک ،۱ تواری\ کی مانند ہیں جiiو ۲، ۱اس نکتہ نظر سے اناجی� اربعہ عہ

سلاطین کے بعض واقعات کا ذکر نہیں کرتیں اور بعض ایسے واقعiiات کiiا ذکiiر کiiرتی ہیں جiiو۲تتب لد عiiتیق کی کتب میں تiiواری\ کی ک iiاں عہiiر� یہ ہے کہ جہiiود نہیں۔ فiiلاطین میں موجiiس ترکیiiف کتiiاب آاخiiر تiiک ایiک نہiiای پ تروکھی پھیکی اوربے مزہ ہیں وہاں انجی� چہارم شروع سے

۔1ہےل� اربعہ میں نہ صرف واقعات کی یکسانی پائی جاتی ہے بلکہ چاروں کی چiiاروں اناجی اناجی� میں سیدنا مسیح کی تعلیم میں بھی یکسانی موجود ہے۔ یہ امر خاص طورپر نوٹ کرنے کے قاب� ہے کیونکہ بالعموم یہ کہا جاتاہے کہ انجی� چہارم میں ایسی تعلیم پائی جاتی ہے جiiول� اربعہ کiiا مطiiالعہ اس خیiiا کی خiiامی کiiو ثiiاب کردیتiiا iiل� متفقہ میں نہیں ہے۔ لیکن اناجی iiاناجی تر مغiiز اقiiوال پہلی تین انجیلiiوں میں ہے ۔ یہاں تک کہ جس طرح کے چھوٹے، سادہ مختصر اور پل� چہارم میں بھی جا بجاپائے جاتے ہیں ۔ چنانچہ ڈرمنڈ نے تاسی طرح کے اقوال انجی ملتے ہیں

اا 2ا� کو اپنی کتاب میں ایک جگہ جمع کرکے یہ حقیق ثiiاب کiiردی ہے میں۵۸: ۸ ۔ مثلآاپ نے سiتر شiاگردوں کiو جiو سiیدنا مسiیح اناجی�i متفقہ کے سiے الفiiا� اسiتعمال کiرتے ہیں ۔

آاپ نے مقiiدس۳۰: ۱۴ یا ۳۲تا ۳۱: ۱۲( ا� کا مقابلہ یوحنا ۱۸: ۱۰فرمایا تھا)لوقا سے کریں۔

1 E.A.Abbot The Fourfold Gospel(See1.Introduction (1913) pp.58-592 J.Drummond, The Character & Authorship of the Fourth Gospel(1903) p.16

Page 24: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

تا� کا مقابلہ کریں)لوقiiا آاگاہی فرمائی تھی :۱۲، یوحنiiا ۳۴تiiا ۳۱: ۲۲پطرس کو جن الفا� میں ل� یوحنا میں الفا�" میں تم سے سچ سچ کہتا ہiiوں" وارد ہiiوئے ہیں )۳۸تا ۳۶ ،۴۷، ۳۲: ۶( انجیآانخداوند کی مبارک زبا� پر پائے جاتے ہیں۔۵۳ وغيرہ( جو اناجی� متفقہ میں

تاس پڑھiiنے والے توپiiر بتلاچکے ہیں کہ اس انجی�ii کiiا مصiiنف فiiر} کرلیتiiا ہے کہ ہم ا حضرت کلمتہ اللہ کی تعلیمات سے واقiiف ہیں جن کiiو بعiiد کے زمiiانہ میں دیگiر انجی�ii نویسiوں

آاخر ، ۳۲: ۱نے مختلف ماخذوں سے جمع کیا ) وغiيرہ(۔ جہiiاں تiک تعلیم کiا۷: ۶، ۲۴: ۳تا تعلق ہے علماء اس حقیق کو تسلیم کiiرتے ہیں کہ انجی�ii چہiiارم میں وہی خیiiالات موجiiود ہیںتا� انجیلiiوں میں ل� متفقہ میں ہیں۔ اوراس کے مقامiiات میں وہی تعلیم دی گiiئی ہے جiiو iiو اناجیiiج تاس تعلیم کiiا جiiو اس انجی�ii میں موجود ہے، جس سے ثاب کرتاہے کہ حضiiرت کلمتہ اللہ کی

تا� مقامiات کiو احiاطہ1درج ہے ۔ صح اورپایہ اعتبiiار نہiiای بلنiد ہے ۔ اور اگiر مقiiدس یوحنiا ۔ مثiiال2تحریر میں نہ لاتے تو حضiiرت کلمتہ اللہ کی تعلیم کے بعض اہم حصiiے ضiiائع ہوجiiاتے

آایiiات ۱۲کے طiiورپر یوحنiiا :۱۰ کے مقiiام کی روشiiنی اورتاوی�ii کے بغiiير مiiتی ۳۵تiiا ۲۰بiiاب کی تادھوری رہ جاتی۔۳۳تا ۲۵: ۱۴ اورلوقا ۳۹تا ۳۲ وغيرہ جیسے بلند پایہ مقامات کی تعلیم

آاخری مکالمات )باب ( میں وہی تعلیم پائی جiiاتی ہے۱۷: ۱۳حضرت کلمتہ اللہ کے تاسiiی قسiiم کے آاخری احکام اور تسلی کے کلمiiات آاپ کے جو دوسری انجیلوں میں موجود ہے۔

اا محب کا حکم ، خدم کiiا حکم )یوحنا تا� میں پائے جاتے ہیں ۔ مثل ،۱۷، ۱۲: ۱۳ہیں جو ( حضر ت کلمتہ اللہ اپiiنے۴۵تا ۴۲: ۱۰۔ ۳۷تا ۳۳: ۹۔ مرقس۴۸تا ۳۸: ۵۔ متی ۱۷: ۱۵۔ ۳۴

تاصول کو واضح کرتے ہیں)مرقس (۔ پھiiر یوحنiiا۱۷تiiا ۱: ۱۳۔ یوحنا ۲۵: ۹نمونہ سے محب کے تا� لوگوں کی نجات کا ذکر پایا جاتاہے جو محب سiiے خiiدم ۴۵: ۱۰ اورمرقس ۱۳: ۱۵ میں

تاصiiول ہے )مiiتی تاس۳۴: ۱۳، یوحنiiا ۴۳: ۵کiiرتے ہیں۔ محب کiiا حکم ایiiک نیiiا (۔ اور صiiرف ل� ستائش بتلایا گیا ہےجس کا سر چشiiمہ محب ہے)یوحنiiا ، مiiرقس۲۰: ۱۳خدم کو ہی قاب

1 Manson, Mission & Message of Jesus p.6702 Burkitt, Two Lectures on the Gospels.p.71

تدعا جو ایما� کے سiاتھ کی جiاتی ہے سiنی جiاتی ہے )مiتی ۳۷: ۹ ،۹: ۱۸۔ ۱۱تiا ۷: ۷(۔ وہ تا� انجیلiiوں میں۸تiiا ۲: ۱۸، ۵: ۱۷۔ لوقiiا ۲۲: ۱۱۔ ۲۲: ۹مiiرقس آاسiiمانی مقiiاموں کiiا ذکiiر (۔

ل�۳۴: ۲۵، متی ۲۰: ۱۰۔ لوقا ۲۰: ۱۴بھی ہے )یوحنا ii۔ انجی� چہارم کے مکالمات میں اناجی) اا نیکiiدیمس کiiiو نiiئی پیiiiدائش کی تعلیم نہiiiای موجiiiود ہے۔ مثلiiiدائے بازگشiiiمتفقہ کی ص

باب(۔ یہی تعلیم اختصiار کے سiاتھ دیگiر اناجی�i میں۳وضاح اور تفصی� سے دی گئی ہے )آاسiiما� کی بادشiiاہی میں ہiiر گiiز اا " اگر تم نہ پھرو اوربچوں کی مانند نہ بنو تو بھی موجود ہے مثل

وغیرہ(۔ پس چاروں انجیلوں میں نئی۱۷: ۱۸۔ لوقا ۱۵: ۱۰۔ مرقس ۳: ۱۸داخ� نہ ہوگے")متی ،۱۳تiا ۹: ۱۳پیiiدائش پiر زور موجiود ہے۔ ایذارسiiانیوں کiا بیiiا� بھی ایiک ہی قسiم کiا ہے)مiرقس

( ایما� داروں کو روح القدس عطا ہونے کا۲۰تا ۱۸: ۱۵، یوحنا ۴۲: ۱۰۔ متی ۴تا ۱: ۱۴یوحنا :۶۔ لوقiا ۱۱: ۱۳۔ مiرقس ۱۱تiا ۸: ۱۶ ۔ ۲۶: ۱۵وعدہ بھی دیگر اناجی� میں پایا جاتاہے)یوحنا

(۔۳۱(۵)

آانخداوند اپiiنی ذات کی نسiiب ایسiiی بعض اوقات یہ کہا جاتاہے کہ انجی� چہارم میں تدور ہے ۔3تعلیم دیتے ہیں جو دیگر اناجی� میں نہیں پائی جاتی لیکن خیال حقیق سے کوسiiوں

کے مقامات جو رسالہ کلمiiات سiiے لiiئے۲۲تا ۲۱: ۱۰اور لوقا ۲۸تا ۲۵: ۱۱مثال کے طورپر متی آانخداونiد کiو دیگiر اناجی�i میں تاسiی قسiم کے ہیں جiو انجی�i چہiارم میں ہیں۔ گئے ہیں بعینہ

(۔۱۳: ۱۲تiiiا ۲۷: ۱۱(۔ انجی�iii مiiiرقس میں )۱۱: ۱بھی اپiiiنی ابiiiنی کiiiا احسiiiاس ہے)مiiiرقس ل� یہود کے رؤسiiا کے سiiامنے علانیہ کiiرتے یی اہ آا ہونے کا دعو آانخداوند انگورستا� کے مالک کا بیٹ ہیں بiiاپ اوربیiiٹے کے بiiاہمی تعلقiiات کی جiiو جھلiiک انجی�ii چہiiارم میں پiiائی جiiاتی ہے وہیل� متفقہ میں بھی پائی جاتی ہے۔ باوجود عالی مرتب ذات کے بیٹا تمام باتوں میں باپ کا اناجی

ل نگiiiiر ہے) iiiiیرہ(۔ اوریہی۳۴: ۳۔ ۳۷: ۶۔ ۲۲: ۵۔ ۱۶: ۷۔ ۲۸: ۷۔ ۱۶: ۸۔ ۱۹: ۵دسiiiiوغ تا� کی یی موجiiود ہیں دیگر اناجی� کی تعلیم ہے جس سے ظاہر ہے کہ انجی� چہارم میں جو دعو3 H.H.Wendt, The Gospel According to St. John.

Page 25: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

بناء تواری\ کی چٹا� پر ہے اورا� کا پایہ اعتبار نہای بلند ہے۔ سیدنا مسیح کے دعوے " دنیا کiiاتاس نے باپ کو دیکھiiا" نور میں ہوں"۔ " راہ، حق اور زندگی میں ہوں"۔ جس نے مجھے دیکھا �iiر مفصiiا ذکiiک �تا ل� چہiiارم میں وغيرہ اناجی� متفقہ کا مقطر ہیں۔ فرقص صرف یہ ہے کہ انجی طورپر کیا گیا ہے لیکن دیگiر اناجی�i میں وہ مجم�i طiورپر پiائے جiاتے ہیں۔ چiونکہ یروشiلیم میںتا� کے سامنے سیدنا مسیح کا ا� دعوؤں کiiو مفص�ii طiiورپر یہود کے ربی اورعالم رہتے تھے لہذا آاپ کiiو لف توقع بات نہیں ہے۔ تا� کے متعلق بحث کرنا کوئی خلا ذکر کرنا اوریہودی ربیوں سے

آاپ دیگiiر یہiiودی ربیiiوں کی طiiرح ایiiک ربی نہیں ہیں) (۔ بلکہ ابiiدی۲: ۳یہ احسiiاس تھiiاکہ وغiiیرہ(۔ اور یہ۴۰تiiا ۳۵: ۶۔ ۲۱: ۵۔ ۱۶: ۳زنiiدگی بخشiiنے والے اورنجiiات دیiiنے والے ہیں)

تا� پiiر ظiiاہر کرسiiکتے تھے) آاپ دعiiوؤں کے ذریعہ ہی آاپ کی۲: ۱۷۔ ۵۰: ۱۲حقیق وغiiیرہ(۔ تروح اور زندگی تھے) :۴( اوریہی زوایہ نگiاہ اناجی�i میں پایiا جاتiا ہے )مiرقس ۶۳: ۶تعلیم الفا�

آاپ کی صلیبی موت بiiنی نiiوع انسiiا� کی نجiiات کiiا بiiاعث ہے۱۳ وغيرہ( دیگر اناجی� میں بھی تا� مقامiات۲۴: ۱۴۔ ۴۵: ۱۰)مرقس آادم کiا خطiاب دیگiر اناجی�i میں لن وغiیرہ(۔ جس طiiرح اب

آاپ کے عiiدال کiiرنے کے سے مخصوص ہے جن کا تعلق سیدنا مسiiیح کی صiiلیبی مiiوت اور ساتھ ہے، اسی طرح انجی� چہارم میں بھی یہ خطاب بالک� ایسے ہی مقامات میں استعمال کیالم جا� اور قلبی اطمینا� عطiا کiرنے کiا وعiدہ بھی آارا گیا ہے اور حضرت ابن اللہ کا گنہگاروں کو

(۔۲۸: ۱۱۔ متی ۲۷: ۱۴چاروں انجیلوں میں پایا جاتاہے)یوحنا (۶)

ل� iiا کہ انجیiiا ہوگiiاہر کردیiiر ظiiاظرین پiiالعہ نے نiiاب کے مطiiق یقین ہے کہ اس بiiہمیں واث ل� iiاد نہیں ہے۔ انجیiiاقض وتضiiات میں تنiiورات اور دینیiiات، تصiiکے بیان �iiر اناجیiiارم اور دیگiiچہ چہارم کے خطبات اور اقوال ، اناجی� متفقہ سے مختلiiف قسiiم کے ہیں لیکن کiiوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ انجی� نویس کے اپنے دماغ کی اختراع ہیں۔ یہ بات انجی� نiiویس کے اص�ii مقصiiد

(۔ مرحiiوم یہiiودی عiiالم ڈاکiiٹر ابراہiiام کہتiiاہے" عiiام طiiورپر مiیرا یہ۳۱: ۲۰کے سراسiiر منiiافی ہے)

خیال ہے کہ یوحنا کی انجی� میں یسوع کی تعلیم کا ایک خiiاص پہلiiو اپiiنی اصiiلی حiiال میں ۔1موجود ہے جو اناجی� متفقہ میں نہیں پایا جاتا "

ل� چہارم اور دیگiر اناجی�i میں اختلاف ضiرور ہے لیکن اختلاف کiا ہونiا ایiک پس انجیلم منطق میں تضiاد وتنiاقض کی جiو شiرائ� ہیں وہ یہ امر ہے۔ عل بات ہے اور تضاد بالک� علیحدتامiور میں واحiد ہونiا آاٹھ یہاں سرے سے مفقود ہیں۔ تنiiاقض کےلiئے دونiiوں قسiم کے بیiiانوں کiا

شرط ہے۔ چنانچہ شرح تہذیب میں ہے۔لت موضوع ومحمول ومکاںدرتناقض ہش وحدت شرطواں وحد

لت شرط واضاف جزوک� آاخرزماںوحد قوت وفع� اس در

ل� نظر رکھ کر کوئی سلیم العق�ii انسiا� یہ نہیں کہہ سiکتا کہ اب ا� شرائ� کو ملحو مقدس یوحنا کی انجی� کے بیانات، تصورات اور دینیات وغیرہ میں اور دیگر اناجی�ii کے بیانiiات،ل} مقiiدس کے جنiiوب یعiiنی یروشiiلیم تصiiورات اور دینیiiات میں تنiiاقض وتضiiاد ہے۔ ایiiک میں ارل} مقiدس کے شiمال کے واقعiiات تاس کے مضافات کے واقعات کا بیiiا� ہے، دوسiروں میں ار اورل� علم وفض�ii تھے۔ شiiمالی کنعiiا� کے لiiوگ تہiiذیب iiامعین اہiiکے س �اiiہے۔ جنوبی کنع �کابیا تورافتادہ دہقا� تھے۔ پس دونوں قسم کے سامعین کiiو حضiiرت کلمتہ اللہ نے قiiدرتی طiiورپر سے د ایک ہی تعلیم مختلف طریقوں سے دی ۔ انجی� چہiiارم کے مiiاحول ایiiک قسiiم کے ہیں اوردیگiiراہ مختلف قسم کے ہیں ۔ پس بیانات میں اختلاف کا ہونا اناجی� کے گردوپیش کے حالات کلیت اور موضوع کا مختلف ہونiiا قiiدرتی امiiر ہے۔ جب ہم اس حقیق کiiو مiiدنظر رکھiiتے ہیں کہ ا�آانخداونiiد کی ایiiک اختلافات کے بiiاوجود )جیسiiا ہم بتلاچکے ہیں( چiiاروں کی چiiاروں انجیلیں تا� باتوں کا اا ہی تصویر پیش کرتی ہیں اورایک انجی� وضاح کے ساتھ وہامور بالتفصی� صراحتاہ ذکر ہوا ہے۔ اورانجی�ii چہiiارم کiiا مصiiنف دیگiiر بیا� کرتی ہیں جن کا انجی� چہارم میں کنایت اناجی� کے بیانات کو)جوانجی�ii مiiرقس پiر مبiiنی ہیں( اپiiنے بیiiانوں میں فiiر} کرلیتiiاہے تiوہم پiر یہ عیاں ہوجاتاہے کہ اناجی� اربعہ ایک دوسرے کے بیانات اور تعلیمات کی صiiح اورپiiایہ اعتبiiار

1 Israel Abraham, Studies in Pharisaism & the Gospels (1917) (1st Series)12

Page 26: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

کے بلنiiiد ہiiiونے کی گiiiواہ ہیں۔ اس کی بجiiiائے کہ اختلافiiiات نقص کiiiا بiiiاعث ہiiiوتے ، یہیتا� کے مصiiنف صiiاد� اور ثقہ گiiواہ ہیں جن کی شiiہادت اختلافiiات الٹiiا ثiiاب کiiرتے ہیں کہ

سچی اور تواريخی حقیق پر مبنی ہے۔

Page 27: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

باب چہارمباب چہارمل� چہارم کی خصوصیات ل� چہارم کی خصوصیاتانجی انجی

وول وولفص� ا فص� الح حیات اورتعلیم کی تاوی� لح حیات اورتعلیم کی تاوی�کلمتہ اللہ کے سوان کلمتہ اللہ کے سوان

تاس کی زندگی کو لکھنے والے اپنے ہر انسا� کی زندگی کے مختلف پہلو ہوتے ہیں اور اپنے نکتہ خیال سے اس کی زندگی کے واقعات کiو تiرتیب دے کiر تحریiر کiرتے ہیں۔اس تiرتیب

کا تعلق صرف کسی ایک خاص پہلو ہی سے ہوتاہے۔ انجی� نویسوں نے بھی ایسا ہی کیاہے۔ ہم حصiiiہ دوم میں بتلاچکے ہیں کہ انجی�iii نویسiiiوں کiiiا مقصiiiد یہ نہیں تھiiiا کہ وہ�iiانجی "�iiر انجیiiویس تھے اور ہiiن �iiتمری لکھیں۔ وہ انجی حضiiرت کلمتہ اللہ کی مکم�ii سiiوانح عتا� یی نہیں کiرتیں کہ یعنی خوشخبری کی خبردینے کے لئے لکھی گئی تھی۔ اناجی� اربعہ یہ دعiiو

(۔ بلکہ ا� کiiا۵: ۲۱، ۲۰: ۲، یوحنiiا ۴تiا ۱: ۱میں سیدنا مسیح کا مکم� زندگی نامہ ہے)لوقiiا آاقا کی مکم� تiiواریخی تصiiویر موجiiود ہے۔ ہiiر انجی�ii نiiویس اپiiنے تا� کے تا� میں یی ہے کہ یہ دعولح حیات میں سے بعض کا ذکiiر کرتiiاہے اور دیگiiر خاص مقصد کے مطابق سیدنا مسیح کے سوان واقعات کو نظر انداز کردیتiا ہے ، تiاکہ تمiام انسiا� کiویہ علم ہوجiائے کہ سiیدنا مسiیح کiو� اوآاپ کے شiاگرد کہلائے جiiانے کی رکیا تھے اورایما� دار اپiiنی زنiiدگی اس طiiرح بس کiریں کہ وہ

(۔پس ہiiر انجی�ii نجiiات۳۱تiiا ۳۰: ۲۰۔ یوحنiiا ۴: ۱۔ لوقiiا ۱: ۱۔ متی ۱:۱لائق ثاب ہوں)مرقس �iiآاپ کا مکم کی خوشی کی خبر ہے جس میں منجئی عالمین کا پیغام تمام وکمال موجود ہےگو

زندگی نامہ موجود نہیں ہے۔آاپ کی زنiiدگی کے گواناجی� سiiیدنا مسiiیح کی زنiiدگی کی تiiاری\ نہیں ہیں لیکن وہ تاریخی واقعات کا ذکر کرتی ہیں اورہر انجی�ii )جیسiiا ہم بتلاچکے ہیں(۔ایiک خiiاص نکتہ نظiiر سiiے لکھی گiiئی ہے، جس کے مطiiابق کلمتہ اللہ کے سiiوانح حیiiات کی تاوی�ii کی گiiئی ہے۔

اورجس سے ا� واقعات کے اصلی مطالب ومعانی کا ہم کو علم ہوجاتاہے۔ یہ علم ایسا کام� ہےآاپ کے تمiام کلمiات ، خطبiiات اورمکالمiات کiا کہ اگر موجودہ زمانہ کا کوئی اخباری نمائنiدہ لح حیiات کiو جمiع کرلیتiا پھiر آاپ کے سiوان گراموفو� ریکارڈلے لیتا اورمتحرک تصiاویر کے ذریعہ تا� کے اص�iii مطiiiالب ومعiiiانی میں کiiiوئی اضiiiافہ نہ ہوتiiiا اورہم موجiiiودہ زمiiiانہ میں بھی بھی سیدنامسiiiیح کے کلمiiiات اور سiiiوانح حیiiiات کی تاوی�iii ا� انجی�iii نویسiiiوں سiiiے بہiiiتر طiiiورپر نہ

۔1کرسکتےآاپ کiiا کلام اناجی�ii اربعہ میں موجiiود ہے۔ حضرت کلمتہ اللہ کی زندگی کےواقعات اور اگرہم ا� کو مکم� طورپر دیکھنا چiiاہتے ہیں تiو لازم ہے کہ ہم چiiاروں انجیلiiوں کے واقعiiات کی تواریخی صح کو تسلیم کریں۔ ہم اس موضوع پر اگلے باب میں بحث کرینگے لیکن بظiiاہر ہےآاپ کی زنiiدگی اور تعلیم سiiب کی سiiب پہلی تین انجیلiiوں میں مکم�ii طiiورپر جمiiع کہ اگiiر آاتی۔ اوراگرانجی�i چہiiارم کے مصiiنف کی ہiiوتی تiو انجی�ii چہiارم کiو لکھiiنے کی نiوب ہی نہ آاتiا تiو اس کiو اپiنی انجی�i لکھiiنے کی ضiرورت ہے �iے نکiوں سiام پہلی تین انجیلiتاوی� کا ک لت طیبات کو لح حیات اورکلما لاحق نہ ہوتی۔ یہ ہم کو بتلاتاہے کہ اس کو سیدنا مسیح کے سوان

تاس کو یہ خیال اپنی انجی۳۰�ii: ۲۰تمام وکمال جمع کرنے کا کوئی خاص شو� نہیں ہے) (بلکہ تا� واقعات اورمکالمات کے اصلی مطالب ومعانی ہرکس ونiiاکس پiiر ظiiاہر لکھنے پر مجبور کرتاہے

تاس کو کسی خiiاص واقعہ کے لکھiiنے سiiے مطلب نہیں، بلکہ اس واقعہ۳۱: ۲۰ہوجائیں) (۔ پس کے اصلی معنی سے مطلب ہے۔جن لوگوں میں یہ مصنف رہتا ہے وہ عالم تھے۔ پس ضرورت اسلح حیiات تا� ربیوں اورعالموں کے لئے حضiرت کلمتہ اللہ کی تعلیم اور سiوان بات کی تھی کہ وہ کی ایسی تاوی� کiرے جس سiے وہ " ایمiا� لائیں کہ یسiوع ہی خiدا کiا بیٹiا مسiیح ہے اورایمiا�

تاس کے نام سے زندگی پائیں") (۔۳۱: ۲۰لاکر پس مقiiدس یوحنiiا سiiیدنا مسiiیح کی زنiiدگی کے محض بiiیرونی واقعiiات کiiو ہی نہیں

(۔۶۳: ۶بتلاتiiابلکہ اس زنiiدگی کے واقعiiات کے بiiاطنی اور روحiiانی معiiارف ومعiiانی بتلاتiiاہے )1 A.E.Brooke The Historical Value of the Fourth Gospel in Cambridge Biblical Essays pp. 291 ff

Page 28: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

اس نے1یہی وجہ ہے کہ سiiکندریہ کiiاکلیمنٹ اس انجی�ii کiiو" روحiiانی انجی�ii" کiiا نiiام دیتiiا ہےتا� واقعات کی ہڈیوں میں روح اور زندگی کا دم پھونiiک تواریخی واقعات کی صحیح تاوی� کرکے

دیاہے۔(۲)

حiiق تiiو یہ ہے کہ ہiiر انسiiا� کی زنiiدگی کiiا ہiiر واقعہ کiiوئی نہ کiiوئی معiiنی رکھتiiاہے اورانسانی زنiiدگی بے معiiنی واقعiiات کے سلسiiلہ کiiا نiام نہیں۔ہم کسiiی انسiiا� کی زنiدگی کے کسی تواریخی واقعہ کا حقیقی اور صحیح علم حاص�ii نہیں کرسiiکتے اورنہ کسiiی حقیق کی تہ تک پہنچ سکتے ہیں تاوقتیکہ ہم اس واقعہ کی صحیح تاوی� نہ کریں۔ اسی طرح کسی ملiک کی دنیاوی تاری\ محض واقعات کے مسلس� تاریخی بیا� پر ہی مشتم� نہیں ہوتی، بلکہ ہر مورخ تاریخی و واقعات کی تاوی� اپنے قیاسات کے ذریعہ کرتاہے اورقیاسات کی صح قیiiاس کرنے والے مiiورخ کے ذہن رسiiا پiiر منحصiiر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہiiر مiiورخ کےلiiئے لازم ہے کہ تاس کو علم التواری\ کے قوانین سے واقفی تامہ حاص� ہو۔ کسی محقق کے لئے خالی الiiذہن ہونا ممکن نہیں کیونکہ اس کو اپنے خاص نظریہ کے زاویہ نگاہ سے واقعات کو دیکھنا ہوتiiاہے۔ کوئی مستند مورخ صرف یہ بتلانے پر ہی اکتفا نہیں کرتiiا کہ فلاں ملiiک میں پہلے یہ واقعہ ہiiوا اور اس کے بعد فلا ں فلاں واقعہ سالوں کی ترتیب کے مطابق ہوا۔ بلکہ ہر مورخ ا� واقعات کے سلسلہ کو کسی خاص نکتہ نظر سے دیکھتiiاہے اورا� واقعiiات کی اس مقصiiد کے تح بیiiا�آازاد نے میسiiور میں انiiڈین ہسiiٹاریک� ریکiiارڈ کرکے تاوی� کرتاہے۔ چنانچہ مرحوم مولانiiا ابiiوالکلام

ء کے روزبنiiد و� کiiا پہلا فiiائر کیiiا۱۸۵۷ مiiئی ۱۰ ۔ " 2کمیشن کے خطبہ صدارت میں فرمایا گیا۔۔۔۔ انگریiiز مiiورخین نے اس جنiiگ کی تiاری\ کiiو صiiرف انگریiزي حکiوم کے نکتہ نگiiاہتا� کتiiابوں میں یہی بتلایiiا گیiiا ہے کہ یہ جنiiگ دراص�ii ہندوسiiتانی افiiواج کی سiiے لکھiiا ہے۔ لظ عiiامہ اورقiiانو� کے دور کiiو دوبiiارہ iiر حفiiک �iiنے کچ بغاوت تھی جس کو برطانوی حکوم

1 Eusebius, Hist Eccles VI.142 The Daily Tribune Ambala Jan.26th 1955

بحال کیiا۔ ا� متعiiدد مصiنفوں میں سiے کسiی نے بھی کسiی اورنکتہ نگiاہ سiے اس واقعہ کیتا� مظiالم کiا تفصiیلی ذکiر کیiiا تاوی� نہیں کی ہے۔ یہ بات قاب� ذکiر ہے کہ ا� مصiنفوں نے تا� میں سiiے کسiiی ہے ۔ جو ہندوستانیوں نے یورپین مردوں، عورتوں اوربچوں پر کiiئے تھے لیکن تا� مظالم کو ذکر نہیں کیا جو برطانوی لوگوں نے ہندوستانیوں پر ڈھائے تھے"۔ ایک نے بھی

لر قوم پنڈت جواہرلال نہرو نے انڈین ہسiiٹاریک� ریکiiارڈ کمیشiiن کی جiiوبلی ہمارے فخ ۔ مiورخین کiو چiiاہیے کہ وہ تiورايخی کتب کiiو صiرف خiiواص کے3کے موقعہ پiiر دہلی میں فرمایا

لئے ہی نہیں بلکہ عiiوام النiiاس کے لiiئے بھی لکھیں تiiاکہ عiiوام بھی ملiiک کی تiiاری\ سiiے دانشتردہ ہiiڈیوں iiتوکھی پھیکی، م مندانہ طورپر شعور سے واقiiف ہوسiiکیں۔ بiiالعموم تiiواریخی کتiiابیں رتا� کی زنiiدگی کے دیگiiر شiiعبوں کے سiiاتھ ہiiو۔ کیiiونکہ کے ڈھiiانچے ہiiوتی ہیں۔ جن کiiاتعلق تواری\ درحقیق انسانی ذہن اور انسiiانی روح کے کسiiی خiiاص مiنزل پiiر پہنچiiنے اورمiنزل بمiiنزل ترقی کرنے کا نام ہے اور وہ زندگی کے ا� مسائ� کے سiiاتھ وابسiiتہ ہے جن کiiا تعلiiق افiiراد کے سiiاتھ یiiا سiiماج کے سiiاتھ ہوتiiا ہے۔ اس کiiا یہ مطلب نہیں کہ مiiورخ کسiiی ایسiiے نکتہ نظiiر پiiر تا� کے اپنے ذہن نےہی اختراع کیا ہو، اور جس کiiا تعلiق اص�i حقیق زوردیں ، جس کو صرف کے ساتھ نہ رہو۔ مورخوں پر لازم ہے کہ وہ سچائی اور حقیق کiiو مiiدنظر رکھ کiiر واقعiiات کiiو بالک� ٹھیک طورپر صحیح نکتہ نظiiر سiے پیش کiریں۔ واجب ہے کہ واقعiiات کی خشiک ہiiڈیوںتتب کو لکھنے کا صiiرف میں روح پھونکی جائے۔تاریخی واقعات کوسمجھنے کا یا تواریخی ک ایک ہی گر ہے کہ مورخ اپنے ذہن کے سامنے لگا تار ایک چلتی پھiiرتی زنiiدہ سiiماج کی تصiویر کوقائم رکھے۔ اس مقصدکو حاص� کرنے کے لiiئے بiiیرونی واقعiiات کی تفاص�ii کiiا بہم پہنچنiiا طiiورپرiiتدرس اشد ضiiروری ہے۔ پس کمیشiن کiiوا� تفاصiی� کiiو بہم پہنچانiiا ہوگiiا اورپھiiر ایiiک پیش کرنا ہوگا تاکہ ا� میں زندگی نمودار ہوجائے۔ اس کے ساتھ ہی مورخ کےلiiئے لازم ہے کہ وہ تفصیلات میں گم نہ ہوجائے تاکہ وہ اص� مقصد کو ہاتھ سiiے نہ کھiiو بیٹھے۔ مiورخ کiiو چiiاہیے

3 The Statesman, Delhi Dec.25, 1948

Page 29: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

لر حاضرہ کے واقعات کی تاوی� کرے اوراس کی مiiدد سiiے لد ماضی کی روشنی میں دو کہ وہ عہزمانہ مستقب� میں بھی جھانکے"۔

(۳)ل� اربعہ iiiونکہ اناجیiiiا ہے کیiiiہ دیiiiخلاص �iiiا ذرا طویiiiر کiiiڈت جی کی تقریiiiہم نے پن آاتiiا ہے ۔ اناجی�ii کے مصiiنفوں نے ل� چہارم پر اس کiiا ایiiک ایiiک لفiiظ صiiاد� اوربالخصوص انجی صiiرف خشiiک واقعiiات کiiو جمiiع کiiرکے پڑھiiنے والiiوں کے لiiئے نہیں لکھiiا بلکہ ا� واقعiiات کiiو انسانی زندگی سے متعلق کiiرکے افiiراد اورسiiماج کے مسiiائ� کiiا ح�i بتلایiا ہے۔ انہiiوں نے ا� واقعات کی کوئی من گھڑت تاوی� نہیں کی، اورنہ وہ تفصیلات میں گم ہوگiiئے ہیں بلکہ اپiiنےآانخداونiد کی لد نظiر رکھ کiiر انہiiوں نے زمiiانہ ماضiی کے واقعiات کی iو مiد کiiاپنے اص� مقص زندگی کی روشنی میں ایسی تاوی�ii کی ہے جس سiiے بiiنی نiiوع انسiiا� کiiا مسiiتقب� روشiiن ہوگیiiال� چہiiارم کiiا مصiiنف صiiرف اسiiی بiiات پiiر ہی اکتفiiا نہیں کرتiiا کہ " جوبiiاتیں iiانچہ انجیiiہے ۔ چن تا� واقعiات کی تاوی�i بھی کرتiاہے تا� کiو تiرتیب وار بیiا� " کiرے۔ وہ ہمارے درمیا� واقع ہiiوئیں آاڑ میں اورتاوی�ii کiiرتے وق وہ واقعiiات کiiو اپiiنے دمiiاغ سiiے نہیں گھڑتiiا اورنہ وہ واقعiiات کی توسiiرے پنہiiانی مطلب آالہ بنا کر کسiiی د کسی مناسب کی بناء پر کسی واقعہ کو محض ایک کو ظاہر کرتاہے وہ ذہن کiو نشiا� کے طiiوپر اس واقعہ کی جiانب منتق�ii نہیں کرتiا ہے۔ وہ اس قسم کی محض اشارتی تاویلوں میں سے ہر جگہ پرہیز کرتiiا ہے کیiiونکہ وہ کسiiی خیiiالی ہسiiتیآاقiiا اور مiولا کی زنiدگی اورمiوت کے حقیقی واقعiات کiا ذکiر کا ذکر نہیں کرتا ہے بلکہ اپiنے آانخداونiد کے کرتاہے ۔ وہ بالک� وہی بات کرتاہے جو کسiی اچھے مiورخ کiو کرنiا چiاہیے ۔ وہ تاس مفہiiوم کiiو واضiiح کرتiiاہے جiiوا� واقعiiات آاپ کی زنiiدگی اور مiiوت کے کلمات ، واقعiiات ، تاس کی مiiوت میں دنیiiا میں موجود ہے یعنی یسiiوع ناصiiری کی زنiiدگی میں الiiوہی کiiا ظہiiور اورتتب کے لد جدیiiد کی ک iiوس !! اورعہiiدس پولiiمق �iiکی نجات مضمر ہے۔یہی تاوی� اورباقی اناجی آاپ کی تعلیمiiات دیگiر مصiiنفوں میں پiiائی جiiاتی ہے ۔ سiiیدنا مسiیح کی زنiدگی کے واقعiiات ،

لر حاضiiرہ اور زمiiانہ مسiiتقب� لد ماضی، دو اورموت وقیام کا تعلق تمام زمانوں کے ساتھ ہے اورعہ ۔1پر حاوی ہے

آاقiا یسiوع ناصiری کی زنiدگی کے واقعiiات کiا ذکiر ل� چہارم کا مصiنف اپiنے پس انجیتا� کو گن کر بتلائے بلکہ اس کا اصiiلی مقصiiد یہ محض اس مقصد کے لئے نہیں کرتا کہ وہ تا� واقعiiات کے حقیقی مفہiiوم اور مطiiالب کiiو اپiiنے نiiاظرین پiiر ظiiاہر کiiرے۔ پس یہ ہے کہ وہ انجی�ii محض گذشiiتہ واقعiiات کی یاددہiiانی کے لiiئے نہیں لکھی گiiئی تھی ، کیiiونکہ جستا� واقعiiات کے چشiiم دیiiد زمانہ میں یہ کتاب لکھی گئی تھی ایسے لوگ موجود تھے جو خود تا� کے کانوں نے حضiiرت کلمتہ اللہ کے کلمiiات کiiو سiiنا تھiiا تiiاہم وہ خiiود گواہ تھے۔ لیکن گو آانخداونiiد کے معجiiزات آانکھiiوں نے تا� کی لت بابرکiiات سiiے نiiاواقف تھے۔گiiو آانخداوند کی ذاتا� معجiزات کے پہنiانی مطiالب کiو تا� کلمiات کے صiحیح مفہiوم اور کiو دیکھiiا تھiا لیکن وہ تا� بیانات کا "جiiو کلیسiiیا ؤں میں نہیں جانتے تھے۔ پس یہ انجی� نویس اپنے ناظرین کے لئے مروج تھے اص� مفہوم بتلاتاہے اوریوں وہ ا� بیانات کے مضامین کی اصلی اور صiiداق پiiر اپنی مہر تصدیق بھی ثب کرتاہے ۔ بعض اوقات )جیسا ہم بتلاچکے ہیں( وہ اس مسالہ کو جو اب دوسری انجیلوں میں پایا جاتiiاہے ، اپiiنے مقصiiد کے تح اسiiتعمال کرتiiاہے اورکسiiی ایiiکآاپ کے کسی خاص کلمہ کے اندرونی مطلب کو لے کر ناظرین کو واقعہ کا خاص مفہوم یا بتلاتاہے کہ اس کا اطلا� تمiiام زمiiانوں پiiر ہے۔ لیکن انجی�ii کے کسiiی مقiiام میں بھی وہ کسiiی

۔ مثiال کے طiورپر سiب کے روز شiفا بخشiنے کے معجiزے کiو لیں2واقعہ کو اختراع نہیں کرتاآانخداوند نے سب کے روز بہتوں کو شiiفا۱۸ تا ۱: ۵)یوحنا (۔ اناجی� متفقہ سے ظاہر ہے کہ

بخشی لیکن انجی� چہارم میں اس طiiرز عم�ii کiiا اصiiلی سiiبب بتلا کiر ا� تiiاریخی واقعiiات کی (۔ یہ تاوی� سیدنا مسیح نے اپiiنی زبiiا� سiiے فرمiiائی تھی۴۷تا ۱۷: ۵صحیح تاوی� کی گئی ہے )

کیونکہ یہ انجی� نویس کے اپنے دماغ کی اس بنiiاء پiiر اخiiتراع نہیں ہوسiiکتی کہ وہ یہiiودی تھiiا

1 Hoskyns The Fourth Gospel (pp.XXX1-1V).2 Ibid.XXXIV-XXXV1.

Page 30: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

آای ۳تا ۲: ۲اور تاوی� پیدائش یی ہذا لقیiاس یوحنiا ۱۷ کے خلاف تھ) :۲، ۳۶تiا ۳۳: ۱۰(۔ عللد۲۳: ۴۔ ۱۹ iiا۔ عہiiکتا تھiiآاس وغیرہ کا اختراع کرنا کسی یہودی کے خواب وخیال میں بھی نہ

تتب کiiا مصiiنف بھی سiiلاطین کiiو تتب میں اپنے انبیائے سiiابقین اور تiiواری\ کی ک عتیق کی کتتب کے واقعات کا پنہانی اوراندرونی مطلب بیا� کرتاہے۔ ک

پس ہمیں یہ کبھی فرامو* نہیں کرنا چاہیے کہ انجی� چہiiارم کی بنiiاوٹ میں حضiiرتتا� کی تاوی� گویا تانiا بانiا ہیں، جن کiو ایiک دوسiرے کلمتہ اللہ کے کلمات اور سوانح حیات اورتجدا کiiرکے یہ نہیں کہہ سiiکتا تجدا نہیں کیا جاسکتا۔ پس کوئی شخص دونوں عناصر کو سے کہ انجی�ii کے فلاں فلاں مقiiام میں صiiرف تiiاریخی واقعہ ہی درج ہے اور فلاں فلاں مقiiام میں صرف تاوی�i ہی پiائی جiاتی ہے ۔ اگiر ہم کسiی ایiک مقiام میں بھی دونiوں عناصiر کiو جiبر یہتاس پر ظلم کiرینگے کیiونکہ واقعہ اپiنی تاوی�i کے بغiير ناکiا رہ ہے۔ تجدا کریں گے توہم طورپر

۔ چنiiانچہ ڈاکiiٹر ڈی ۔1رینiiا� نے اس طiiرح کی کوشiiش کی ہے لیکن وہ رائگiiاں ثiiاب ہiiوئی آانخداونiiد کے " کiiرتہ ایف ۔ سٹراس تک کہتاہے کہ انجی� چہارم ایک ایسiiی تصiiنیف ہے جiو کی طرح ہے جو " بن سلااور سراسر بناہوا" تھا۔ جس پر قرعہ پڑسiiکتا ہے لیکن الiiگ الiiگ جiiدا

تاسی خداوند کے2نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ اس انجی� کا مرکزی نکتہ ہی یہ ہے کہ اس میں کلمات اور واقعات مندرج ہیں، جس کا ہر ایما� دار کو تجربہ حاص�ii ہے۔ اس کiiا تمiiام زور ہیتر از معنی ہیں اورا� مطiiالب کی روشiنی میں لح حیات پ اس بات پر ہے کہ سیدنا مسیح کے سوانتپراز معiiنی ہوسiiکتا ہے اور یہ مطلب ومiiانی تiiاری\ سiiے پiرے اور اور ہی کiiوئی خiiاص تiاریخی واقعہ آاپ کی زنiiدگی کے واقعiiا اور صiiلیبی مiiوت اور ظفرمنiiد قیiiام کiiو روشiiن ورے کے ہیں جiiو

کردیتے ہیں۔ انہی مطالب ومعانی کو واضح کرنے کی خاطر یہ انجی� لکھی گئی ہے۔�iiو تاویiiنف جiiا مصiiک �iiاہتے ہیں ۔ اس انجیiiا چiiح کردینiiات واضiiک اوربiiاں ہم ایiiیہ کرتiiاہے وہ اس کی اپiiنی من گھiiڑت تاوی�ii نہیں ہے۔ اور نہ وہ اس کے ذہن رسiiا کی اخiiتراع ہے

1 Renan, Life of Jesus 13th ed.appendix.2 Quoted by Wendt p.54

تاس نے بلکہ اس نے اس تاوی� کو خود سیدنا مسیح سے حاص� کیiiا تھiiا۔بالفiiا� دیگiر چiiونکہ اس تاوی� کو حضرت کلمتہ اللہ کے مکتب میں سیکھا تھا یہ تاوی� بھی خودایک تiiاریخی واقعہ

لز احسن سمجھنے کی کلید ہے ۔3ہے جو چاروں کی چاروں اناجی� کو بطر(۴)

آانخداونiد کے واقعiiات وتعلیمiات کی تاوی�i کiرکے کiوئی انiوکھی بiات مقدس یوحنا نے نہیں کی تھی کیiiونکہ دیگiiر اناجی�ii میں بھی سiiیدنا مسiiیح کے سiiوانح حیiiات وغiiیرہ کiiو محضل� میں بھی تاوی�ii سiiے کiiام iiاناجی �کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا۔ ا �مسلس� اور ترتیب وار بیا

لیا گیا ہے۔ ہم اس حقیق کiiو ہiiر انجی�ii کی خصوصiiیات کےعنiiوا� کےتح واضiiح کiiرچکے�iiر انجیiا کہ ہiپر یہ روشن ہوجائيگ �ابواب کا مطالعہ کریں تو ا �ہیں۔ اگر ناظرین حصہ دوم میں ا آانخداونiiد کے سiiوانح حیiiات کiiو اس طiiرح مiiرتب کiiرکے پیش کرتiiاہے جس سiiے اس کiiا نiiویس خصوصی نکتہ نگاہ واضح ہوجاتاہے ۔ انجی� نویس محض خiارجی واقعiiات کiا ذکiiر کiرنے پiرتا� کو محض واقعات کو ہی لکھنiiا ہوتiا تiiو وہ مثiiال کے طiiورپر سiiیدنا ہی اکتفا نہیں کرتے۔ اگرآائی " کہ تiiو مiiیرا پیiiارا آاواز آاسiiما� سiiے " مسیح کے بپتسمہ پانے کے بیا� میں یہ نہ لکھتے کہ" تا� کے مصiiنفوں کiiا بھی یہ مقصiiد تھiiا کہ وہ بتلائیں کہ بیٹiiا ہے جس سiiے میں خiiو* ہiiوں"۔ یی ہiiذا آانخداونiiد درحقیق ابن اللہ تھے۔ اگiiر چہ اہ�ii یہiiود اس حقیق کے منکiiر تھے ۔ علآانخداوند کی صورت کے تبiدی� ہiiونے کiiا واقعہ لکھiiتے ہیں تiو وہ محض واقعہ القیاس جب وہ تاسی بیا� میں ساتھ ہی تاوی� کرکے باپ اوربیٹے کے باہمی نگاری پرہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ تعلقات کا ذکر کرتے ہیں جو عینی مشاہدہ اوربیرونی تجربہ سے پرے اور ورے ہے لیکن سیدنا مسیح کی زندگی کے خفیف سے خفیف واقعہ میں بھی پایiiا جاتiاہے۔ چنiiانچہ مقiiدس پطiiرستاس وق عiiزت اورجلال پایiا جب اس افض�i جلال میں سiے تاس نے خدا باپ سiے کہتاہے" تاس کے سiiاتھ آائی کہ یہ مiiیرا پیiiارا بیٹiiا ہے جس سiiے میں خiiو* ہiiوں اور جب ہم آاواز اسiiے یہ 3 Scott Holland in Hoskyns Fourth Gospel p..39-40

Page 31: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

آاتی سنی تھی" ) آاواز آاسما� سے یہی (۔ پہلے تینiiوں۱۸تا ۱۷: ۱پطرس ۲مقدس پہاڑ پر تھے تو انجی� نویس اس حقیق کو سiiب کے ذہن نشiین کرنiiا چiاہتے ہیں کہ سiiیدنا مسiیح ابن اللہ

تھے کیونکہ خدا نے خود یہ اعلا� فرمایا تھا۔تا� کی صداق کiiا " سiiچ پوچھiiو تiiو محض ل� اربعہ میں محفو� ہیں جو واقعات اناجیتا� کiا چشiم دیiد گiواہ اس حقیق پر ہی انحصار نہیں کہ وہ کسiی رسiول نے بتلائے ہیں، جiوتا� کی صiiح اس امiiر پiiر بھی موقiiوف ہے کہ ا� کiiو بیiiا� کiiرنے والے رسiiول نے ا� تھiiا بلکہ تاس نے کی ہے واقعات کو صحیح طورپر سمجھا تھا یiiا نہیں اورکہ ا� واقعiiات کی تاوی�ii جiiو صحیح ہے یا باط� ہے۔ حق تiو یہ ہے کہ رسiiولوں نے سiiیدنا مسiiیح کے کلمiiات اور زنiiدگی کے

آاپ کی موت اور ظفریاب قیام کے اص� مفہوم کو پالیا ۔ واقعات کی صحیح تاوی� کی اور پس اس امر میں پہلی تین انجیلوں اورانجی� چہارم میں کوئی تفاوت نہیں پائی جiiاتی

وغiيرہ(۔ جب مقiiدس۱۲تiا ۱: ۴۔ ۸تiا ۲: ۹ ۔۳۰تiا ۲۰: ۳۔ ۲۸تا ۲۳: ۲۔ ۱۵تا ۱۴: ۱)مرقس :۱مرقس بتلاتاہے کہ خiدا نے اعلا� فرمایiا کہ " تiو مiیرا پیiارا بیٹiiا ہے تجھ سiے میں خiو* ہiiوں")

(۔ تiiو اسiiی حقیق کiiو مقiiدس یوحنiiا یiiوں ادا کرتiiاہے " کلام مجسiiم ہiiوا اورہمiiارے۷: ۹، ۱۱ (۔ تمiiام۱۴: ۱درمیا� رہا اور ہم نے اس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال")

تا� سiب کی ایiک ہی تاوی�i ہے)یوحنiا ( اورسiب۱۰: ۱۷رسولوں نے ابن اللہ کا جلال دیکھiا اور وغیرہ(۔۱۷تا ۱۵: ۳پطرس ۲۔ ۲تا ۱: ۱کو ایک ہی " پہچا�" حاص� ہے )طیطس

ل� iا ہے کہ اناجیiکی اسی حقیق کو سiکاٹ ہالینiڈ جیسiے نقiاد نے لے کiر یہ ثiابتا� متفقہ کو سمجھنے کے لئے انجی� چہارم کiiا وجiiود لازمی ہے کیiiونکہ اسiiی انجی�ii میں ہی تا� انجیلوں میں درج ہیں ، صحیح تاوی� موجود ہے۔ اورانجی� چہiiارم بھی )جیسiا واقعات کو جو �iiاناجی �تا آاتی، کیونکہ اس تفسiiیر تا� انجیلوں کے بغیر فہم میں نہیں ہم اوپر بتلاچکے ہیں ( �iiئے انجیiiل� متفقہ کے مسائ� کو ح� کرنے کے ل کے سیا� وسبا� میں ہی ہوسکتی ہے اوراناجی چہام بڑے کام کی چیز ہے ۔ کلیسیا نے چاروں انجیلوں کویکجا جمع کرکے اورا� چاروں کiiو

مستند قرار دے کر ثاب کردیا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جدا اورالiiگ نہیں ہیں بلکہ چiiاروں کی چاروں انجیلیں ایک دوسرے کی تاوی� کرنے میں ممدو معiiاو� ہیں اورایiiک دوسiiرے کی تکمی� کرتی ہیں۔ پس اس پہلو سiiے بھی وہ نہ صiiرف ایiiک دوسiiرے کے بیانiiات کی مصiiد� ہیں بلکہ ایک دوسرے کی تاوی� کو بھی صحیح قرار دےکر چاروں کے پiiایہ صiiح اوراعتبiiار

کے بلند ہونے پر مہر تصدیق ثب کرتی ہیں۔ پس ثاب ہوگیا کہ انجی� چہارم کا مصنف ایک تواریخی شخص کی زندگی کiiو پیشآانخداونiد کے اپiنے الفiiا� نہ کرتاہے ۔ لیکن وہ ایسا نہ کرسکتا اگراس انجی� کے مندرجہ الفiiا� لت متخیلہ کے ذریعہ ہوتے ۔ وہ کسی موجودہ تواریخی ناول نiویس کی طiرح نہیں ہے جiو اپiنی قiiوتاس کے منہ میں تقریiiریں ڈالتiiاہے۔ نہ وہ یونiiا� کے قدیم زمiiانہ کی کسiiی ہسiiتی کiiو پیش کiiرکے تاسiتاد سiقراط کے منہ میں اپiنی فلاسفر افلاطو� کی طرح ہے جو اپiنی تصiiنیفات میں اپiiنے تقریریں ڈالتاہے ۔ افلاطو� نے نہ تو سقراط کو الوہی کا درجہ دیا تھا۔ اورنہ اس نے کبھی لوگوںتاس کے نام پر ایما� لائیں اورنہ وہ اس امiiر پiiر اصiiرار کرتاتھiiا کہ وہ کو یہ دعوت دی تھی کہ وہ

ایک حقیقی تواریخی شخص تھا جو مجسم ہوکر ہمارے درمیا� رہا۔ انجی� چہارم کے مصنف کا روحانی ماحول ہی دوسری قسم کا ہے اوراس کiiا مسiiیحی

۔ کہ انجی�ii چہiiارم1روحانی تجربہ اس کا ممدومعاو� ہے۔ بعض علماء مثال دے کر کہتے ہیں ایسی ہے جیسے اہ� یہود میں کتاب" تارگم" )یاتراجم( ہے۔ جب یہودی ربی عiiبرانی نوشiiتوں کiiا ارامی میں تiرجمہ کiرتے تھے تiویہ تiرجمہ لفظی نہیں ہوتiا تھiiا بلکہ وہ نوشiiتوں کے اص�i مفہiiوم کو اپنی زبا� اور الفا� میں ادا کرتے تھے اورا� کی تشریح میں تاوی� کے عنصر کiiو دخ�ii ہوتiiاتا� کے طرز سے کچھ کچھ انجی� چہارم کے مصنف کے طریقہ کو سiiمجھ سiiکتے تھا۔ ہم

لح حiiق کی زیرہiiدای کرتiiاہے) آانخداونiiد کے مبiiارک اقiiوال کی صiiحیح تاوی�ii رو :۱۴ہیں ۔ وہ آانخداونiiد کے اقiiوال کی نہiiای صiiح کے سiiاتھ ایسiiی جلالی۱۳: ۱۶۔ ۲۶ �ii۔ اوریہ تاوی)

1E.A.Abbot, The Son of Man (1910) p. 411. H.A.Kennedy Philo’s Contribution to Religion (1919) pp.50ff W.F. Howard, The Fourth Gospel in Recent Criticism & Inetrpretation (1931) pp.226-229

Page 32: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

لت طیبات اور سوانح حیات منور ہوکر بنی نiiوع انسiiا� آاپ کے کلمات اورکلما تشریح کرتی ہے کہ کی کایا پلٹ دیتے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ اگر مقدس یوحنا کی انجی� کے کلمات اورمکالماتآانخداونiد سiے بھی زیiادہ عظیم ہسiتی تا� کiا بولiنے والا آانخداونiد کے منہ سiے نہیں نکلiتے تiو

1تھا۔

1 W.Robertson Nicoll, Life & Letters by T.H.Darlow p. 342

Page 33: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

فص� دومفص� دومل� چہارم کی تعلیمات اور اصطلاحات ل� چہارم کی تعلیمات اور اصطلاحاتانجی انجی

تاسiiتاد ل� یہود کے ربی اور تاس زمانہ میں اہ جس زمانہ میں انجی� چہارم لکھی گئی تھی سیدنا مسیح کی مسیحائی کے دعوے کو قبول نہیں کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ یسوع ناصریلن داؤد ہو ۔ کسiiی کiiو یہ علم مسیح موعود نہیں ہوسکتا۔ مسیح موعود کے لئے لازم ہے کہ وہ ابآائیگا۔ وہ معجزے اورنشiiانات دکھلائیگiiا اوربادشiiاہی کریگiiا لح موعود کہاں سے نہیں ہوگا کہ مسی

(۔ لیکن یسوع ناصری بادشاہ نہیں تھا وہ صiiلیب پiر مرگیiiا تھiiا لیکن۳۴: ۱۲اورہمیشہ زندہ رہیگا) ( لہiiذا وہ مسiiیح موعiود نہیں۷: ۵یسعیاہ نبی کے مطابق اس بادشاہ کو ہمیشiہ زنiدہ رہنiiا تھiiا)

ہوسکتا۔ لد نظiر رکھ کiر حضiرت کلمتہ اللہ کے iو مiات کiم کے اعتراضiنف اس قسiا مصiارم کiچہ �iانجی آاپ کی ذات پiربحث کرتiاہے اورکہتiاہے کہ سiیدنا مسiیح بادشiاہ تھiiا لیکن اس کی پیغام، کiام اور بادشاہ اس دنیا کی نہیں تھی۔ اس کی ابتدا کو کوئی نہیں جانتا تھا کیونکہ وہ دوسiiری دنیiiاتہر تصiiدیق آاخر نہیں تھا بلکہ یہ موت اس بiiات کی م تاس کی صلیبی موت اس کا آایا ہے ۔ سے تھی کہ وہ جہiiا� کiiا زنiiدہ منجiiئی ہے۔ پس گوانجی�ii نiiویس حضiiر ت کلمتہ اللہ کiiو مسiiیحتا� کے موعود کا خطاب دیتا ہے لیکن وہ اہ� یہود کے مسیحائی تصور کiiو مiiتروک قراردیتiiا ہے اورتاس کی ذات لح موعiiود کی نسiiب اورجiiو تصiiورات وہ ربیوں کو بتلاتاہے کہ جو خیالات وہ مسiiیل� اصiiلاح ہیں۔ یہiiودی ربی کہiiتے تھے کہ اس دنیiiا میں خiiدا کی نسب رکھتے ہیں وہ خود قابتا� کوبتلاتiاہے آانے والے زمiانہ میں ظiiاہر ہوگiiا۔انجی�ii نiiویس کے نام کا مکاشفہ نہیں ہے لیکن وہ �iiتاس نے کام آامد کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ خدا کے نام کو ظiiاہر کiiرے اوریہ کہ کلمتہ اللہ کی

لد عiiتیق۲۶، ۶: ۱۷احسن طورپر کردیiا) iتتب عہ (۔ اس مقiiام میں ہم کiو یہ یادرکھنiا چiاہیے کہ ک

تراد ہے)یسiiعیاہ iiتی مiiاہ۶: ۵۲کے مطابق خدا کے" نام" سے خدا کی ذات وصفات اورہسii۔ یرمی ۔1 وغيرہ(۲۱: ۱۶

ل� چہiارم ہی لفiظ" مسiیح" کiو بطiiور ایiک اصiطلاح ل� اربعہ میں سے صرف انجی اناجی کے اسiiتعمال کiiرتی ہے۔ مقiiدس پولiiوس کے خطiiوط میں یہ اصiiطلاح ہiiر جگہ پiiائی جiiاتی ہے ۔

۱: ۹ ۔ ۳۹، ۲، ۱: ۸۔ ۲۳تا ۱۱: ۶چنانچہ الفا�" مسیح میں" بکثرت پائے جاتے ہیں)رومیوں وغiiiiیرہ(۔ اورالفiiiiا�" مسiiiiیح تم میں" بھی۱۳، ۱۲، ۱۱، ۱۰، ۷، ۶، ۴، ۳، ۱: ۱۔ افسiiiiیوں

وغiiیرہ(۔ اسiiی طiiرح۲۷: ۱۔ کلسiiیوں ۱۷: ۳۔ ۲۰: ۲۔ گلiiتیوں ۱۰: ۸بکiiثرت ملiiتے )رومیiiوں :۲یوحنiiا ۱باب ۔ ۱۵۔ ۲۰: ۱۴۔ ۵۶: ۶مقدس یوحنا کی انجی� میں بھی یہی الفا� ملتے ہیں )

یی ہذا القیاس الفا�" خدا ہم ہیں " اس انجی� میں پائے جاتے ہیں )۶: ۳۔ ۲۴: ۶، ۵ وغیرہ(۔ عل ( اس تعلیم کiiا مطلب یہ ہے ۔ سiiیدنا مسiiیح۱: ۱تھسiiلنکیوں۱، مقiiابلہ کiiرو ۔۱۶، ۱۵، ۱۳: ۴

خود اپنے لوگوں کا گھiiر ، پنiiاہ گiiاہ اور زنiiدہ مiاحول ہے اورایمiiا� داروں کی زنiدگیوں کiا انiدرونی یہ دونiiوں2محرک ہے۔ یہ تعلیم مقدس پولiiوس اوریوحنiiا دونiiوں کی تحریiiرات میں پiائی جiاتی ہے

وولین کے اسiiتاد تھے پس ظiiاہر ہے کہ یہ تعلیم دراص�ii کلمتہ اللہ کی لر ا مقدسiiین کلیسiiیا کے دو ہی سکھلائی ہوئی ہے جس کے مکتب میں رسولوں نے اس کو حاص�ii کیiiا تھiiا۔ اس سiiے ظiiاہرل� چہارم اوریوحنiiا کے خطiiوط میں موجiiود ہے وہ سiiیدنا مسiiیح کے اپiiنے منہ ہے کہ جو تعلیم انجی نے فرمائی تھی۔ اسی تعلیم کی مقدس پولiiوس اور دیگiر ابتiiدائی اسiiتادوں اور مبلغiiوں نے اشiاع کی۔ پس یہ استاد ، مبلغ اور مقدس پولوس کے خطوط اس تعلیم کی صداق کے گiiواہ ہیں اور

:۱۵۔کرنتھیiiوں۱ثاب کرتے ہیں کہ سب کی تعلیم ایک ہی سرچشمہ سے حاص�ii کی ہiiوئی ہے ) (۔ جس کا بنیادی پتھر یہ ہے کہ نجiات سiیدنا مسiیح پiر ایمiا� لانے سiے ملiتی ہے۔ پس جس۳

تتب سiiے مقiiابلہ کiiرکے ہم جiiا� سiiکتے ہیں کہ ل� اربعہ کو ایک دوسرے سے اوردیگر ک طرح اناجی ا� کی تعلیم تاریخی چٹا� پر مبنی ہے ، اسی طرح انجی� چہارم اورپولiiوس رسiiول کے خطiiوط

1 C.H.Dodd, The Interpretation of the Fourth Gospel pp.93-962 Rev.J.A.Beet, The Writings of John Exp.Times July. 1912 pp.449 ff

Page 34: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

کا مقابلہ کرکے ہم یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ یہ تعلیم وہی تعلیم ہے جiiو حضiiرت کلمتہ اللہ نے(۔۱۱: ۱۵۔کرنتھیوں ۱دی تھی ۔ اورجس کی سب رسول منادی کرتے تھے۔ )

تا� اصiلاحات پiiر جiiو اب ہم اس تعلیم کے چند پہلوؤں پر نظر کiرینگے۔ بالخصiiوص انجی� چہارم میں پائی جاتی ہیں، مجم� بحث کرینگے:

۔( ابن اللہ ۔ انجی�ii نiiویس کی اصiiطلاح میں حضiiرت کلمتہ اللہ " خiiدا کiiا اکلوتiiا۱)آانخداونiiد کiiا جiiو۱۶: ۳، ۱۴: ۱بیٹا" ہے) (۔ اس اصطلاح سے مقدس یوحنiiا کی مiiراد یہ ہے کہ

تتب میں لفiiظ" ل� یہiiود کی ک iiا۔ اہiیر تھiiرشتہ اور تعلق خدا باپ کے ساتھ تھا وہ لاثانی اوربے نظ اا یسعیاہ نبی صبح کے سiiتارے کiiو " صiiبح بیٹا" استعارہ کے طورپر بالعموم استعمال ہوتا ہے مثل

(۔ امثال کی کتاب میں مظلوم لوگ" دکھ کے بیiiٹے " کہلاتے ہیں )۱۲: ۱۴کا بیٹا " کہتاہے )تاس کی ذات وصفات1(۔ یہودی محاورہ کے مطابق کسی کا " بیٹا" وہ ہوتاہے ۵: ۳۱ جس میں

�iiنے کے قابiiنی دیiiو روشiiروں کiiاا " نور کا بیٹا" وہ ہے جو منور ہوچکا ہو اور دوس پائی جائیں۔ مثل ہو" صلح کا بیٹا " وہ ہے جس کے دل میں شانتی ہiور اورجہiiاں بھی وہ جiائے اپiنے سiاتھ صiلحاا بiiراتی اور امن کی فضا لے جائے۔ حضرت کلمتہ اللہ نے خود یہ اسiiتعارہ اسiiتعمال فرمایiiا ہے مثل

آاپ نے " گرج کے بیٹے" کا نام۱۹: ۲" دولہا خانہ کے بیٹے" ہیں)مرقس (۔ زبدی کے بیٹوں کو (۔ "۱۵: ۲۳(" جہنم کiا بیٹiا " )مiتی ۱۲: ۸(۔ " بادشiاہ کے بیiٹے" )مiتی ۱۷: ۳دیiا)مiرقس

(۔ اس جہiiا� کے بیiiٹے" )لوقiiا۶: ۱۰(۔ " سلامتی کا بیٹا ")لوقiiا ۱۲: ۱۷ہلاک کا بیٹا" )یوحنا (۔ " نiور۳۶: ۲۱(۔ " قیiiام کے بیiٹے")لوقiا ۸: ۱۶(۔ " نiور کے بیiٹے" )لوقiا ۳۴: ۲۰۔ ۸: ۱۶

(۔ وغيرہ اسiiتعارے چiiاروں کی چiiاروں انجیلiiوں میں پiiائے جiiاتے ہیں ۔۳۶: ۱۲کے بیٹے " )یوحنا اا " نور کے بیٹے" د� کے اا استعمال کرتاہے مثل مقدس پولوس بھی یہی یہودی محاورہ اصطلاح

(۔۶: ۳(۔ " نافرمانی کے بیٹے")کلسیوں ۵: ۵۔تھسلنیکیوں ۱بیٹے") حضرت کلمتہ اللہ کی اصطلاح میں ابنی سے مراد" کسی کی ذات میں شریک ہوناآاپ کی شراک اور رفiiاق خiiدا بiiاپ کے سiiاتھ لاثiiانی قسiiم کی تھی پس قiiدرتی ہے"۔ چونکہ 1 Manson Mission & Message of Jesus pp.681-682

آاپ نے اپنی ذات پiiاک کے لiئے لفiiظ" ابن " اور " بیٹiiا" اسiتعمال فرمایiا۔ یہ لفiiظ صiiاف طورپر ثاب کرتاہے کہ جو رفاق ، قرب اور شراک حضر ت کلمتہ اللہ خدا باپ کے ساتھ رکھتے تھے ۔ وہ ایک ایسی حقیق تھی جو سب کو مسلم تھی اورکسی کی یہ مجiiال نہ تھی کہ اس حقیق کiiا انکiiار کiiرے۔ پس اگiiرہم اس اصiiطلاح )ابiiنی ( کے حقیقی مفہiiوم کiiو کمiiاحقہ سمجھنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ ہم اس کا مفہوم اس طورپر سمجھیں جس طiiرح سiiیدنا مسiiیح اس کو سمجھتے تھے۔ اوراس لفظ کی تاوی� اس طiiور سiiے کiiریں جiiو سiiیدنا مسiiیح کے مفہiiومآاپ کiا خiاص معنiiوں میں بiاپ احسiاس تھiiا کہ خiiدا iآاپ کو یہ زبردس کے مطابق ہو۔ چونکہ

آاپ کiiو بیٹiiا تصiiور فرمiiاتے )یوحنiiا :۸۔ ۲۹: ۷۔ ۱۸: ۵ہے۔ پس وہ بھی خiiاص معنiiوں میں اپiiنے آاپ کے نزدیiiک حiiق الیقین۲۷: ۱۱۔ متی ۳۵: ۸۔ ۵۵ وغيرہ(۔ ابنی کiiا یہ احسiiاس اور علم

آاپ کiو بلاواسiطہ حاص�i تھiا۔ یہ علم وجiدانی کiا درجہ رکھتiا ہے کیiونکہ یہ علم اوراحسiاس جو عقلی دلائ� او رمنطقیانہ استد لال سے بالا اور بےنیاز تھiا اوراس بلاواسiطہ علم کی بنیiادیی کو کام� اوراکم� طورپر پورا کرنے کا ذاتی تجربہ حاص� تھا۔ آاپ کو رضائے الہ یہ تھی کہ انجی�ii نiiویس کے نزدیiiک یہ اصiiطلاح کiiوئی فلسiiفیانہ اصiiطلاح نہیں ہے۔ اس کے برعکس وہ اس اصطلاح کے استعمال سے ہرکس ونiiاکس پiiر یہ حقیق واضiiح کردینiiا چاہتiiا ہے کہ حضرت کلمتہ اللہ کiو خiدا بiاپ کiا علم وشiعور بلاواسiطہ حاص�i تھiا، جiو بے نظiیر اوربےآاپ کے کام بے مثال تھے جو خدا کی ذات آاپ کی زندگی اور عدی� تھا اور یہی وجہ تھی کہ آاپ سiiے صiiادر ہiiوتے میں شiiریک ہiiونے کی وجہ سiiے شiiعوری اور بے شiiعوری کی حiiال میں

وغiيرہ(۔ا� معiiانی اورمطiiالب کiو ادا۳۰: ۵۔ مرقس ۳۸: ۱۰۔ ۳۲: ۱۔۶۸: ۶۔ ۶۳: ۶تھے)یوحنا کرنے کے لئے انجی� نویس اپنی خاص اصطلاح "اکلوتiiا بیٹiiا" اسiiتعمال کرتiiاہے۔ جس طiiرح بiiاپ

وحدہ لاشریک ہے اسی طرح بیٹا " ابن وحید لاشریک ہے۔

Page 35: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

لت ہم اس موضوع پر اپنے رسالہ کلمتہ اللہ کی تعلیم کے باب چہارم میں اور رسالہ " ابiiو الہی کiiا مفہiiوم" وغiiیرہ میں مفص�ii بحث کiiرچکے ہیں۔لہiiذا یہiiاں اس بحث کiiو طiiول دے کiiر

ناظرین کےوق کو ضائع کرنا مناسب خیال نہیں کرتے۔ ۔۱۷تiا ۱۵: ۱۔( کلام یا لوگوس : کے تصور کiiا اسiiتعمال مقiiدس پولiiوس )کلسiiیوں ۲)

وغiiiیرہ(۔دونiiiوں کiiiرتے ہیں۔ ہم نے اس۱۴تiiiا ۱: ۱ وغiiiیرہ(۔ اور مقiiiدس یوحنiiiا )۶: ۸کرنتھیiiiوں ۱یی کی دوسiری جلiد میں بiاب چہiiارم کی فص�i دوم میں اصiطلاح پiiر بھی اپiنی کتiiاب نiور الہiد مفص�ii بحث کی ہے۔ نiiاظرین کی تiiوجہ اس بحث کی طiiرف مبiiذول کiiرنے پiiر ہی اکتفiiا کiiرتے

ہیں۔آانخداونiiد اپiiنی۳) ۔( ابن اللہ کiiا دنیiiا کی پیiiدائش سiiے پیشiiتروجود: انجی�ii چہiiارم میں

آاپ۵۸: ۸ذات کی نسب فرماتے ہیں" پیشتر اس سے کہ ابراہام پیدا ہوا میں ہوں") (۔ جiiو دعiiا آاپ نے کہiا" اے بiاپ۔ تiو اس جلال آاخiری رات خiiدا سiے کی ، اس میں نے اپنی زندگی کی سے جو میں دنیا کی پیدائش سے پیشiتر تiiیرے سiاتھ رکھتiiا تھiiا مجھے اپiنے سiاتھ جلالی بنiiا")

تو� کا ذکر نہیں فرماتے بلکہ ایک۵: ۱۷ آایات میں حضرت کلمتہ اللہ اپنی کسی پہلی ج (۔ ا� ایسی زندگی کا ذکر کرتے ہیں جو مکا� زما� کی قیود سiے بلنiد وبiالا ہے اورا� قیiود کے وجiود

آاپ آانے سے پیشتر موجود تھی۔ چنiiانچہ میں نہیں فرمiiاتے کہ" پیشiiتر اس سiiے کہ۵۸: ۸میں آاپ فرماتے ہیں " میں ہوں" اور" یہ میں ہوں" بجنسiہ اسiiی قسiم کiا ابراہام پیدا ہوا میں تھا"۔ بلکہ ل� صداق بیا� سiiے نکلے ہیں۔ ہے ، جس قسم کے دعوے اس انجی� میں سیدنا مسیح کی زبااا " زنiiدگی کی روٹی میں ہiiوں"۔ دنیاکiiا نiiور میں ہiiوں"، " راہ ، حiiق اور زنiiدگی میں ہiiوں"۔ مثلآایات سے پتہ چلتاہے کہ یہ زنiiدگی کس قسiم کی تھی۔یہiiاں زنiiدگی کی طiiوال کiiا وغيرہ۔ ا� دو

۔ یعنی جس طiiرح حضiiرت کلمتہ1بتلانا مقصود نہیں بلکہ زندگی کی صف کا بیا� مقصود ہے اللہ کی زندگی " حiق ، " روٹی " ، " پiانی" ، راہ، دروازہ ، قیiام وغiیرہ تھی بعینہ اسiی طiرح آانخداوند کی زندگی ازل سے تھی اور خiدا کی ازلی ذات میں سiے تھی۔ یہiiاں " میں ہiiوں" کiا1 Ibid.pp. 684 – 686

یی سے خطاب کiiرکے فرمایiiا تھiiا" میں ہiiوں جiiو تاس ذات سے ہے جس نے حضرت موس مطلب (۔ اس زندگی کا تعلق زمانہ کے ساتھ نہیں تھا بلکہ ازل کے سiiاتھ تھiiا۔۱۴: ۳ہوں")خروج

اگiرہم اس کiو کسiی اور معنiiوں میں سiمجھنا چiاہتے ہیں تiو ہم نہ صiرف انجی�ii نiویس پiر ظلم کiiرینگے بلکہ سiiیدنا مسiiیح کے اص�ii مفہiiوم کiiو بھی نہیں سiiمجھ سiiکیں گے۔ جس طiiرحآاپ نے لفظی آانخداونiiد لفظی معنiiوں میں " روٹی ، پiiانی ، دروازہ وغiiیرہ نہیں ہیں اسiiی طiiرح تو�( بسiر نہیں کی iدگی )جiی زنiوئی ایسiوکر کiمعنوں میں اس دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے پیدا ہ آاپ کی یہ زندگی ازلی اور ابدی زندگی تھی۔ ابدی زنiiدگی کiiا یہ تھی جو زمانہ میں تھی۔ بلکہ مطلب نہیں کہ وہ طوال میں بے حد لمبی تھی بلکہ اس کiiا مطلب یہ ہے کہ یہ زنiiدگی زمiiا�آانخداوند دینوی پیiiدائش سiiے پہلے تا� سے پرے اورا� سے بالا ہے۔ آازاد اور ومکا� کی قیود سے آاپ اس قسم کی زندگی کا ذکر اپiiنے اس ازلی وابدی زندگی کو خدا کے ساتھ رکھتے تھے۔

آاپ کے۵۸: ۸۔ یوحنiiا ۲۸تiا ۲۷: ۱۱رسولوں سے اکثر اوقiات کیiا کiرتے تھے)مiتی (۔ یہودجiو آاپ کے اص� مفہوم کو نہ پاکر اس زندگی کو دنوں، مہینوں اورسiiالوں کے گiiزوں سامعین تھے

آاپ کا منشا یہ تھاکہ ابدی زندگی کا تعلق سالوں اور زمانوں۵۷تا ۵۲: ۸سے ناپتے تھے) (۔ لیکن کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ابد کے ساتھ ہے ، جس کا زما� ومکا� کی قیود سے کسiiی قسiiم کiiا

تا� سiiiے ورے ہے اورا� سiiiے بiiiالا ہے) وغiiiیرہ(۔۲۸تiiiا ۲۴: ۵واسiiiطہ اور تعلiiiق نہیں ہے بلکہ تبوت اورمحب کا ایسا شعور اوراحساس تھا جiiو بے نظiiیر، بے حضرت کلمتہ اللہ کوباپ کی ا عدی� اورلاثانی تھا۔ یہ زندگی کام� اور اکم� طورپر پایہ تکمی�ii کiiوپہنچ چکی تھی اور یہی ا�

آایات کا مطلب بھی ہے۔ یہی نکتہ دیگiiر اناجی�ii میں بھی پایiiا جاتiiاہے اورا� اقiiوال میں موجiiود ہے جiiو رسiiالہ

آانخداوند کی حین حیات میں ہی جمع کئے گئے تھے )متی ۔ لوقا۲۷تا ۲۵: ۱۱کلمات میں (۔پس یہ نکتہ تiiواریخی طiiورپر صiiحیح ہے اوراناجی�ii اس روحiiانی نکتہ کiiا متفقہ۲۲تiiا ۲۱: ۱۰

Page 36: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

آانخداونiد کی تھی اورجس کiا احسiاس تاس ابدی زندگی کی نسب اعلا� کرتی ہیں جو طورپر آاپ کو تھا۔آادم: ہم سiiiطور بiiiالا میں بتلاچکے ہیں کہ خطiiiاب" ابن اللہ " کiiiوئی مجiiiرد۴) لن ۔( اب

آادم" فلسفیانہ اصطلاح نہیں ہے بلکہ یہ خطاب ایiiک حقیق کiiا حام�ii ہے۔ اسiiی طiiرح " ابن کی اصطلاح بھی کوئی فلسفیانہ اصطلاح نہیں ہے۔ حضرت کلمتہ اللہ نے اس کiiو اپiiنے لiiئےآانخداونiiد کے لiiئے اسiiتعمال کرتiiاہے تiiاکہ تجویز فرمایا۔ اورانجی�ii چہiiارم کiiا مصiiنف بھی اس کوآادم" کا بعینہ آانخداوند بے نظیر انسا� کام� تھے۔ اس انجی� میں" ابن سب پر روشن ہوجائے کہ

آای " کلام مجسiiم" ہiiوا) ۔ اور یہ مصiiنف اس اصiiطلاح کiiو1( کiiا ہے۱۴: ۱وہی مطلب ہے جو لن آادم تھiiا وہی " اب لن تحج تمiام کiرکے کہتiiاہے کہ وہ جiiو اب استعمال کرکے عالم وعالمیiiا� پiر آادم" بھی ہے اور وہ جiiiو الiiiوہی میں بiiiاپ کی ذات رکھتiiiاہے، انسiiiانی ، میں انسiiiانی ذات رکھتiiاہے ۔ یہiiودی محiiاورہ کے مطiiابق جیسiiا ہم اوپiiربتلا چکے ہیں" ابiiنی " سiiے مiiراد کسiiی شiiےکی ذات میں شiiریک ہونiiا ہے۔ پس انجی�ii نiiویس کiiا مطلب یہ ہے کہ کلمتہ اللہ الiiوہیآادم" ہے کے لحا� سے ابن اللہ اور " خدا میں سے خدا" ہے اورانسiiانی کے لحiiا� سiiے " ابن یعنی ہم انسانوں کی مانند ایiک انسiا� ہے جiو روحiانی کے بلنiد تiرین اوج پiرا کم�i صiورت

میں سر بلند ہے۔ل� متفقہ یعنی پہلی تین انجیلوں میں یہ خطاب چالیس مقامiiات میں وارد ہiiوا ہے۔ اناجی ہم اپiiنی کتiiاب کلمتہ اللہ کی تعلیم کے بiiاب چہiiارم میں ا� مقامiiات پiiر مفص�ii بحث کی ہے۔ل� چہiiارم میں یہ خطiاب بiارہ iرتے ہیں۔ انجیiف کiiانب منعطiiاب کی جiiاورناظرین کی توجہ اس کت

:۱۲۔ ۲۸: ۸۔۶۲، ۵۳، ۲۷: ۶۔ ۲۷: ۵۔ ۱۴تiiا ۱۳: ۳، ۵۱: ۱مقامiiات میں اسiiتعمال ہiiوا ہے)آانخداوند کی اس۳۱: ۱۳۔ ۳۴تا ۲۳ (۔ ا� مقامات کا مطالعہ کرنے سے ظاہر ہوجاتاہےکہ ا� میں

آاپ خدا باپ کےساتھ رکھiiتے تھے۔ پس انجی�ii نiiویس کiiا لاثانی رفاق کا اظہار کیا گیا ہے جو مطلب اس اصطلاح سے یہ ہے کہ خدا اورانسا� کے درمیا� کوئی وسiiیع خلیج حائ�i نہیں ہے1 Ibid.pp. 683- 684.

آانخداونiiد بلکہ الوہی نے مسیح کی انسانی میں کام� اوراکم� ظہور پایا ہے۔ یہ مفہiiوم خiiود کے ذاتی تجربہ میں تھا اورایک چٹا� جیسی مضبوط اورپائدار حقیق پر مبiiنی تھiiا۔ یہی تجiiربہ انجی�iii چہiiiارم کے لکھiiiنے والے کiiا ہے جس کiiو وہ اس اصiiiطلاح کے اسiiiتعمال سiiiے عiiiالم وعالمیا� پر ظاہرکرنا چاہتاہے۔ یہی تجربہ ہiiر ایمiا� دار کiiا ہے کیiiونکہ ہiiر ایمiiا� دار کiiا یہ تجiiربہ

منجئی عالمین کے تجربہ کی صدائے بازگش ہے۔آانخداونiiد کی ذات کی آاشکارا ہوگیا ہوگا کہ چiiاروں کی چiiاروں انجیلیں اب ناظرین پر تاسiی حقیق کی دیگiر انجی�ii نiویس نسب ایک ہی بات مانتی ہیں۔ جو مقدس یوحنiا کہتiiاہے آانخداوند کی ذات کی نسiiب رکھiiتے ہیں اسiiی منادی کرتے ہیں اورجو عقیدہ دیگر انجی� نویس کا اعلا� مقدس یوحنا اپنے خصوصی طرز میں مختلف اصطلاحات کے ذریعہ کرتاہے ۔ پس اس�iiمعاملہ میں بھی چاروں کے چاروں انجی� نویس ایک دوسرے کی تائید اور تصدیق کرکے اناجی اربعہ کی قiiدام اوراصiiلی کے گiiواہ ہوجiiاتے ہیں ۔ عق�ii سiiلیم کiiو بجiiز اس کے کiiوئی چiiارہ

نہیں کہ اس قسم کی شہادت کو قبول کرے۔

باب پنجمباب پنجمل� چہارم کی تاریخی صح اورپایہ اعتبار ل� چہارم کی تاریخی صح اورپایہ اعتبارانجی انجی

تاس نے تصiiنیف کی ہے وہ �iiو انجیiiیی ہے کہ ج انجی�ii چہiiارم کےمصiiنف کiiا یہ دعiiویے کی۲۴: ۲۱تiiواریخی پہلiiو سiiے صiiحیح ہے) (۔ انجی�ii کی انiiدرونی شiiہادت اس کے دعiiو

مصد� ہے اور زبا� حال سے پکارکر کہتی ہے کہ اس کا مصنف ایسے واقعات کiiا بیiiا� کرتiiاہے

Page 37: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

ل� آاپ کی زبiiا تاس میں درج ہیں وہ جiiو تiiواریخی ہیں اورکہ حضiiرت کلمتہ اللہ کے جiiو کلمiiات حقیق ترجما� سے ہی نکلتے تھے۔

آائے ہیں کہ اس انجی� کا مصنف ا� واقعات کا ، جن کو وہ ہم باب دوم میں ثاب کر لکھتiiاہے ، خiiود چشiiم دیiiد گiiواہ ہے۔اس کی تصiiنیف سiiے یہ عیiiاں ہے کہ اس کiiو یہ احسiiاس تھاکہ وہ خود ایک بااختیار سند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گو اس کے سامنے انجی� مرقس تھی جستاس کی انجی� کی بنیاد ہے، تاہم بعض اوقات )جیسا ہم باب سوم میں بتلاچکےہیں کے خاکہ پر ( وہ اس سے اختلاف کرتاہے۔ اوراپنا بیiiا� اس کے مقاب�ii دیiiدہ وہ دانسiiتہ پیش کرتiiاہے۔ پس اس کiiو یہ احسiiاس تھiiاکہ وہ خودایiiک ایسiiی ہسiiتی ہے جiiو بااختیiiار اور مسiiتند ہے اورجس کiiو اختلاف کرنے کا حق حاص� ہے۔ اگرا س کو یہ احساس نہ ہوتا تو وہ مرقس جیسی مقبiiول عiiام اور مسiiتند انجی�ii سiiے اختلاف کiiرنے کiiا خیiiال بھی نہ کرتiiا بلکہ غلامiiانہ طiiورپر اس کی پiiیروی

ل� مرقس میں درج ہے ۔1کرکے وہی لکھتا جو انجی ہم باب دوم میں بتلاچکے ہیں کہ مقدس یوحنا نے منجئی جہا� کا مکم� زندگی نامہی

آانخداونiiد کی زنiiدگی کے چنiiد ایسiiے واقعiiات کiiو لکھiiنے کے لiiئے قلم نہیں اٹھایiiا تھiiا۔ وہ آاموز تھے۔ ہر معجزہ کسی نہ کسی منتخب کرتاہے جو اس کے مقصد کے مطابق صحانہ اورپند روحانی نصiiحی کی خiiاطر منتخب کیiiا گیiiا ہے جس کے بعiiد مکiالمہ ہے جومعلمiiانہ حیiiثی رکھتاہے۔ پس اس انجی� میں تواریخی واقعiiات اوراخلاقیiiات وروحiiانی کiiو یکجiiا وابسiiتہ کردیiiا گیا ہے۔ اس حقیق سے ظاہر ہے کہ اس انجی�ii کی تعلیم محض ناصiiحانہ نہیں اور نہ اس کیلت لت بینiات اورکلمiا لد تصiiورات پiر ہے بلکہ یہ انجی�i حضiر ت کلمتہ اللہ کے معجiiزا بنیاد مجiiر

۔2طیبات کی تواریخی چٹا� پر قائم ہے

(۱)

1 Sanday,Criticism of the Fourth Gospel p.1432 G.H.C Macgregor, The Gospel of St. John p.XX11

اا تمام علماء اور نقاد اس نiiتیجہ اا ایک صدی کی بحث وتمحیص کے بعد اب تقریب قریبل� چہارم میں درج ہیں وہ بڑی حد تک صحیح بیانات3پر اتفا� کرتے ہیں کہ جو مکالمات انجی

پر مبنی ہیں۔ خواہ یہ بیانات زبانی تھے اور خواہ وہ تحریری ماخذ تھے۔ حضرت کلمتہ اللہ کا یہتا� سiے کلام" کیiا کiرتے تھے )مiرقس آاپ سiامعین کی " سiمجھ کے مطiابق :۴وطiیرہ تھiاکہ

آاپ تقدس اور علم وفض� کے گڑھ شہر یروشلیم میں تشریف لاتے تھے تiiو اپiiنے۳۳ (۔ پس جب تا� سے خطاب کiiرتے تھے ۔ مث�ii مشiiہور ہے تکلمiو النiiاس سامعین کے علم وعق� کے مطابق آاپ یروشiلیم کے کiاہنوں اورفاضiلوں کے گiروہ سiے اس قسiم کiا کلام یی قدرعقو لھمہ"۔ پس علتور افتiiادہ صiوبہ کے دہقiانوں اورمچھiوؤں سiے کiرتے نہیں کiرتے تھے جس قسiم کiا گلی�i کے د تھے۔ اور گوانجی�ii نiiویس نے ا� مکالمiiات کی اپiiنے خصوصiiی طiiرز کے مطiiابق تاوی�ii کی ہے لیکن یہ حقیق ہر مقام میں عیاں ہےکہ ا� مکالمات کا موقعہ اورمح� ، ماحول اورالفا� سiب

۔4اص� ہیں ا� مکالمات کی صح اور اصلی اس سے بھی ثاب ہے کہ دیگر اناجی� میں بھی نہ صرف ایسی تعلیم پائی جاتی ہے جس کا تعلق ہماری عملی زندگی کے ساتھ ہے بلکہ ا� میں

لز نہانی پر مشتم� ہے )متی آاخiiر ۔۳۲: ۱۰بھی عارفانہ اور متصوفانہ کلام موجود ہے ، جو رمو تiiا آاخر۔لوقا ۲۵: ۱۱ وغیرہ(۔ جب اس قسم کے کلام نے ا� اناجی�ii میں جگہ پiiالی۲۲، ۲۱: ۱۰تا

جو صرف گلی� کے واقعات کا ہی بیا� کرتے ہیں اور جو مختصر ہیں تو یہ ظاہر ہے کہ اس قسم کے کلمات جو باطنی اسرار پر مشiiتم� ہیں ، وہ عارضiiی یiiا سرسiiری اور ضiiمنی قسiiم کے نہیں

آانخداوند کی تعلیم کا ایک اہم حصہ اور جزو لاینفک تھے 5تھے بلکہ

تر مغز اورمختصر کلمات انجی�ii چہiiارم میں بھی جiiا ل� متفقہ کے سے پ اسی طرح اناجیاا " جب تک کوئی نئے سرے سے پیiiدا نہ ہiiو وہ خiiدا کی بادشiiاہی کiiو دیکھ بجا ملتے ہیں مثل

( " زنiiدگی کی روٹی میں ہiiوں " جiiو اپiiنی جiiا� کiiو عزیiiز رکھتiiا ہے وہ اسiiے۳: ۳نہیں سiiکتا ")3 J.A.M.Clymont, St. John (Cent. Bible 1922) pp.36.4 H.H.Wendt. The Gospel According to St.John.p.665 Macgregor,Op, Cit p.XV111

Page 38: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

تاسے ہمیشہ کی زندگی کےلئے محفو� کھوئيگا اورجودنیا میں اپنی جا� سے عداوت رکھتاہے وہ آائے اورپiiئے" وغiiيرہ۔ ظiiاہر ہے رکھیگا"۔ " دنیا کا نور میں ہوں"۔ اگر کوئی پیاسا ہے تومiiیرے پiiاس آانخداونiiد کے اپiiنے منہ سiiے نکلے ہیں۔ اناجی�ii اربعہ کے لکھiiنے کہ یہ اقiiوال تiiورايخی ہیں اور iود میں پشiiیہ �iiونکہ اہiiآائے کی ترمغز اقوال کو احاطہ تحریر میں لے والے ا� مختصر ، سادہ اور پآانiiا تھiiا کہ وہ ہiiر ممکن طiiور سiiے یہ کوشiiش کiiرتے تھے کہ اپiiنے " سiiے یہ دسiiتور چلا iiہاپش داناؤں " کے لطیف اقوال کے الفا� کو محفو� رکھیں۔ پس ظاہر ہے کہ یہ اقوال تiiواریخی طiiورپر

صحیح ہیں۔لم بلاغ نظiiام کے متعلiق بھی اناجی�ii اربعہ ل� غور ہے کہ سیدنا مسiیح کے کلا یہ امرقابآاہنگی پائی جاتی ہے۔ اورچاروں کی چiiاروں انجیلiiوں میں )جیسiiا ہم ابھی بتلاچکے ہیں ( میں ہم تپر مغiiز کلمiiات بھی پiiائے جiiاتے عارفiiانہ اور متصiiوفانہ کلام پایiiا جاتiiاہے اوراس کے سiiاتھ مختصiiر ہیں ۔ اس یک جہتی سے ثاب ہے کہ چاروں انجیلiiوں میں حضiiرت کلمتہ اللہ کے کلمiiات بعینہآاپ کے مبارک منہ سے نکلے تھے۔ اگراناجی� میں یiک رنگی نہ ویسے ہی محفو� ہیں جیسے وہ پiiائی جiiاتی تiiواس بiiات کiiا احتمiiال ہوتiiا کہ یہ کلمiiات محفiiو� نہیں ہیں۔ لیکن یہ یiiک رنگی نہل� اربعہ میں ہی پائی جاتی ہے بلکہ ہر انجی� کے خصوصی ماخذوں میں صرف عام طورپر اناجی بھی )جiiiو قiiiدیم تiiiرین زمiiiانہ میں لکھے گiiiئے تھے(پiiiائی جiiiاتی ہے اورا� کلمiiiات کی صiiiح

اوراصلی کی گواہ ہے ۔ آانخداونiiد کے بعض کلمiiات علاوہ ازیں اناجی� اربعہ میں ہر انجی� نویس یہ بتلاتاہے کہ تا� اقوال کے فرمائے جانے کے وق نہ سمجھے اورگو ا� کلمات کiiو کسiiی نے نہیں کو شاگرد

۔۳۶: ۱۳۔ ۹: ۱۶۔ ۱۵: ۱۵سمجھا تھا تاہم وہ اقiiوال وکلمiiات اناجی�ii میں محفiiو� ہیں۔)مiiتی :۱۲۔ ۶: ۱۰۔ یوحنا ۲۵: ۲۴۔ ۴۵: ۹۔ ۳۴: ۱۸۔ لوقا ۵۲: ۶۔ ۳۲: ۹۔ ۱۷: ۸۔ ۱۴: ۷مرقس

آانخداونiiد کے۱۷: ۱۶۔ ۱۶ تامور سے ظاہر ہے کہ یہ کلمiiات اصiiلی ہیں اور چiiونکہ وہ وغيرہ(۔ ا� فرمودہ تھے، وہ قلمبند کئے گئے ، گو شiiاگرد ا� کiiا مطiiالب نہیں سiiمجھتے تھے۔ بعض اقiiوال

وغiiیرہ(۔لیکن۸: ۲۴۔ لوقiiا ۱۶: ۱۲۔ ۱۹: ۲کiiا اص�ii مطلب شiiاگرد بعiiد میں سiiمجھے )یوحنiiا آاگئے تھے۔ یہ حقیق ا� اقiiوال کے اصiلی پہلے وہ اقوال بجنسہ ماخذوں میں احاطہ تحریر میں

اور صحیح ہونے کی شاہد ہے۔آائی ۔ ابراہام اپنے علم وفض� کے لئے چاردانگ عiiالم میں مشiiہور مرحوم یہودی مصنف ہے۔ اس نے ایک مضمو� میں نہ صرف اپiنی رائے کiا بلکہ دیگiر یہiiودی علمiاء کے خیiالات کiا بھی اظہار کیا ہے۔ وہ کہتاہے کہ انجی� چہارم کے تمام مکالمات کی فضا، تشکی� اور ترتیب ،تا� کی صiiح پiiر سiiب کی سiiب ، یہiiودی ہے جن میں یہiiودی خصوصiiیات موجiiود ہیں جiiو

لد جدیiد کے یہiiودی نقiiادوں کی تصiنیفات1دلال کرتی ہیں ۔ یہ فاض� روزگiار لکھتiاہے i۔ " عہ ل� غور امر یہ ہے کہ وہ اس نiiتیجہ پiiر پہنچے ہیں کہ اناجی�ii میں پہلی صiiدی میں ایک نہای قابل� یہiiود کی بiiیرونی زنiiدگی کی پiiائی جiiاتی ہے، وہ iiویر اہiiو تصiiانہ کی جiiف کےزمiiکے پہلے نص ترس اورصحیح ہے۔ اورجہاں کسی قسم کا اختلاف ملتاہے یہ یہودی نقاد ثاب کرتے ہیں کہ د نقص انجی� کی کتب کے متن میں نہیں ہے بلکہ اس کی تاوی�i کiرنے والے موجiودہ زمiانہ کے مفسروں کا قصور ہے۔ چنiانچہ ڈاکiٹر گiڈمین،ڈاکiٹر بخلiر، ڈاکiٹر شiیکٹر، ڈاکiٹر چولسiن، ڈاکiٹر

۔ سiب یہی بiiات ثiiاب کiiرتے ہیں۔ چنiiانچہ تiiالمود بھی بعض ایسiiی تفصiiیلات کی2مارمورسiiٹین تائید اور تصدیق کرتاہے جن کو چند مسیحی مفسرین مشiiکوک گردانiiتے تھے۔ سiiب سiiے زیiiادہآاواز دلائ� اوربراہین سiiے یہ ثiiاب کiiررہے ہیں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہودی مصنفین بیک تا� حiالات کiو ل� اعتبiiار ہیں بالخصiوص جب ہم iحیح اور قابiکہ انجی� چہارم کے مکالمات ص لد نظiiر رکھiiتے ہیں جن میں یہ مکالمiiات یسiiوع کی زبiiا� سiiے نکلے تھے۔ یہiiودی علمiiاء نے iiم تامیiiد لد جدید کی باریکیوں کی جانب توجہ کiiرنی شiiروع کی ہے اورہمیں صرف حال ہی میں عہ

ہے کہ ا� حکماء کے نتائج اوربھی فائدہ مند ثاب ہونگے۔

1 Abraham Essay”Rebbinic Aids to Exegeis “in Cambridge Biblical Essays p.1812 Dr.Gudemans, Dr.Bucher, Dr.Schechter, Dr. Chowlson, Dr.Marmorstein.

Page 39: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

یی کرتاہے کہ ربیوں کے علم ادب کی کتابوں کا مطالعہ انجی�i کے اکiثر "مکاؤل یہ دعولر حاضiiرہ کے یہiiودی نقiiاد جنہiiوں نے اپiiنے عمiiر حصiiوں کی صiiح کی تصiiدیق کرتiiاہے ۔ دو لدجدیiiد کے مطiiالعہ میں صiiرف کiiردی ہے، اپiiنی تصiiنیفات میں یہ حقیق ثiiاب گرانمiiایہ عہ لم اسiiرائی� کی زنiiدگی کی جiiو تصiiویر موجiود ہے، وہ نہiiای کردیتے ہیں کہ اناجی� اربعہ میں قiiولم خiiود صحیح ہے۔ بلکہ ہم کو تعجب ہوتاہے کہ جہاں بعض مسیحی نقاد بعض تفاصی� کiiو بiiزع غل� تصور کرتے ہیں وہاں یہ چوٹی کے یہودی علماء ثاب کررہے ہیں کہ وہ تفاصی� درس اور صحیح ہیں ! اور کہ مسیحی نقاد غلطی پر ہیں!! سب سے زیادہ عجیب اور قاب� غور بiiات یہ ہے کہ یہ یہودی مصنفین قوی دلائ� سے ثاب کرتے ہیں کہ انجی� چہارم کے مکالمات صiiحیح ہیں تا� کی صiiح تا� کالحiiا� رکھ کiiر اور جن حiiالات اور سiiیا� وسiiبا� میں وہ بiiولے گiiئے تھے،

میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہتی"۔ جب ہم پہلی صiiدی مسiiیحی کے یہiودی مصiنفوں کی کتiابوں کiا مطiالعہ کiiرتے ہیںتتب انجی� چہارم کے مختلف حصص کی صiح کے گiواہ ہیں توہم پر یہ ظاہر ہوجاتاہے کہ یہ کتتب سiے ہم کiو یہ علم ہوجاتiاہے کہ اا ا� ک اوراس کے بیانات کی تائیiد وتصiدیق کiرتی ہیں۔ مثل اہ� یہود کا یہ خیال تھا کہ مسیح موعiود کiا وجودبنiائے عiالم سiے پیشiتر موجiود تھiiا اورکہ مسiیح موعود عدال کریگا۔ ا� یہودی کتابوں سے یہ پتہ بھی چ� جاتاہے کہ مسیح موعود کا جiiو تصiiورل� چہiiارم کے مطiiابق حضiر iiو انجیiا جiiف تھiتاس تصور سے مختل اہ� یہود کے اذہا� میں تھا وہ

۔1ت کلمتہ اللہ کے ذہن میں تھا رینiiا� جیسiiا نقiiاد یہ تسiiلیم کرتiiاہے کہ نیکiiدیمس ایiiک حقیقی شiiخص تھiiا جس کiiو

بiiاب( وہ یہ بھی کہتiiاہے کہ " انجی�ii چہiiارم کے۳سیدنا مسیح نے ملاقات کا شiiرف بخشiiا تھiiا)اا یی ہiiذا القیiiاس۶مکالمiiات میں تiiواریخی عنiiاد موجiiود ہیں مثل بiiاب میں تiiاریخی عنصiiر ہے۔ عل

آایiiات آاخiiری مکالمiiات۲۳تiiا ۲۱سiiامری عiiiورت کiiا مکiiالمہ میں میں تiiاریخی عناصiiر ہیں اور

1 A.E.Brooke,”The Historical Value of the Four Gospels” in Cambridge Biblical Essays pp. 291-328

آانخداوند کے منہ کے فرمائے ہوئے ہیں۔ وہ یہ سiوال کرتiاہے کہ جب انجی�i کiا مصiنف لکھتiاہے ( تiiو ا� نiiاموں میں۴۴: ۱کہ" فلپس ، اندریاس اورپطرس کے شہر بی صیدا کا باشiiندہ تھiiا ، )

کو� سے مثالی معنی پنہاں ہیں؟ وہ کہتاہے کہ یہ امر کہ ہجوم مسیح کو بادشاہ بنانا چiiاہتی تھیآاتاہے۔ بظاہر تواریخی نظر

مصنف انجی� کو یہ احسiاس ہے کہ جiو وہ اس کے سiاتھ رسiول بتلاتے ہیں وہ حقیقیآائے تھے اورکہ ا� تiiواریخی واقعiiات کے آاقا کی زنiiدگی میں پیش تا� کے تواریخی واقعات ہیں جو آاقا کا جلال ظاہر ہوا ۔جو کلمتہ اللہ اورابن اللہ تھا جس نے خدا کو دنیا پر ظاہر کیiiا تا� کے ذریعہ

آاپ کو کام� اور اکم� طورپر دنیا پر ظاہر کیا) (۔۹: ۱۴اورجس کے ذریعہ خدا نے اپنے (۲)

�iا ہے۔ یہ قابiiالعہ کیiiا مطiارم کiiچہ �iاتھ انجیiزی کے سiعر� ری ڈاکٹر ڈرمنڈ نے نہای نقاد اس انجی� کے مصنف کے پایہ اعتبار پر مبسوط بحث کiiرکے انجی�ii کی تiiواریخی صiiح کiiو ثiiاب کرتiiاہے۔ اس انجی�ii کiiا مصiiنف اپiiنے بیانiiات میں موسiiموں اور دنiiوں کی تخصiiیصآاتا سوائے اس حقیق کے کہ یہ د� اور کرتاہے اوراس تخصیص کا بظاہر کوئی سبب نظر نہیں موسم مصنف کو یا دہیں۔ بلکہ بعض اوقات تو وہ ساع اور گھڑی بھی بتلادیتاہے۔جب کiiوئیآانخداوند سے خطاب کرتاہے یا کوئی سوال پوچھتا ہے تو وہ اس کا نام بھی بتلادیتا ہے ، رسول حiiالانکہ بعض اوقiiات وہ سiiوال کiiوئی خiiاص معiiنی نہیں رکھتiiا ۔ انجی�ii کiiا مصiiنف نہ صiiرف اوقات اور اشخاص کی ہی تخصیص کرتاہے بلکہ مختلiف جگہiiوں اور مقiiاموں کی تخصiiیصآائے تھے۔ ا� کا بھی بظiiاہر کiiوئی تا� کے نام بھی بتلاتاہے ، جہاں مختلف واقعات پیش کرکے آاتا سوائے اس کے کہ مصنف کو وہ نام یاد تھے۔ حiiق تiiو یہ ہے کہ انجی�ii کے سبب نظر نہیں

آانکھوں کے سامنے بندھ جاتاہے۔ بیانات ایسے واضح ہیں کہ ا� کاسماں

Page 40: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

اا بعiد میں کسiی روزنiامچہ میں لکھے یہ تفصیلات ثiاب کiرتی ہیں کہ یہ واقعiiات فiور گiiئے تھے جس کiiو بعiiد کے زمiiانہ میں انجی�ii نiiویس نے اپنiiا ماخiiذ بنایiiا۔ کیiiونکہ اس قسiiم کی

لد زمانہ کے بعد نہ تو یاد رہتی ہیں اور نہ ا� کو اہم سمجھاجاتا ہے۔ تفصیلات امتدا کے الفا� سے ظاہر ہے کہ مصiiنف یہiiود کے دسiiتورات سiiے خiiود۵۷تا ۵۵: ۱۱باب

آاگاہ تھا۔چنانچہ ربی اضحا� کا قول اس کی تائید کرتاہے کہ" ہiiر شiiخص پiiر لازم ہے کہ بخوبی آاپ کiiو پiiاک کiiرے " علاوہ ازیں ۔ وغiiیرہ۲۸: ۱۸۔ ۲۵: ۳۔ ۶: ۲وہ عیiiد کے مiiوقعہ پiiر اپiiنے

مقامات )جہاں طہارت کے دستوروں کا ذکر ہے )یہود کے دستوروں سے مطابق رکھiiتے ہیں ۔آاگے چ� کر باب ہفتم کی فص� دوم میں ذکر کiiرینگے(۔ یہ مقامات اس نظریہ کی )جس کا ہم آانخداونiiد تائید کرتے ہیں کہ اس انجی� کا مصنف خود کہان کے طبقہ سے تعلق رکھتا تھا اور کی صiiحب سiiے اکiiثر فیض یiiاب ہوتiiا تھiiا۔ وہ یوحنiiا بپتسiiمہ دیiiنے والے کے شiiاگردوں سiiے بخوبی واقف تھا۔ایسا معلوم ہوتiاہے کہ اس مصiنف کی یہ عiiادت تھی کہ ا� بھiiیڑوں اور ہجومiوںتا� تا� کے خیiiالات سiے اور آانخداوند کو ہiiر وق گھiiیرے رکھiiتی تھیں۔ پس وہ میں ملتا تھا جو

وغيرہ(۔ انجی� کے بیانات سے ظاہر ہے کہ۳۳تا ۲۵: ۷کی رائے زنی سے بخوبی واقف تھا)یوحنا لکھنے والا چشم دید گواہ ہے اورکوئی ایسا شخص نہیں ہے جس نے رسولوں کے شاگردوں سiiے میں کتiiابیں پiiڑھiiلب علم کیا تھا اور تیسری پش یا شاگردوں سے یعنی " تبع تابعین" سے کسلت متخیلہ اور قیاس پر زورلگار کر یہ تمiiام بiiاتیں لکھ لی تھیں۔ کیiiونکہ ہیک�ii کی کر اوراپنی قو

ء( کے بعiiد پiiاکی اورناپiiاکی کے قواعiiد جن کiiا تعلiiق قربiiانیوں کے سiiاتھ تھiiا، ختم۷۰تبiiاہی )ہوچکے تھے۔

کی مiiدت کی ضiiمنی تفصiiی� سiiے بھی یہی نiiتیجہ مسiiتنب� ہوتiiاہے۔۲۰: ۲بiiاب لد حکوم میں ختم۱۹یروشلیم کی ہیک� سن قب� مسیح شروع ہوئی تھی اور قیصرنیرو کے عہ

ء میں جiiو انجی�ii چہiiارم کی تiاری\ کے عین مطiiابق ہے۔ کیiiا یہ امiر قiiرین قیiiاس۲۷ہوئی یعنی آاخiiر میں بیٹھ کiiر حسiiاب لگایiiا ہiiواور پھiiر یہ ہوسکتاہے کہ کسiiی شiiخص نے پہلی صiiدی کے

آای لکھی ہو۔ اس قسم کی متعدد مثالیں انجی� کی قدام ، تاریخی صح اورپایہ اعتبار کیتاس نے تا� باتوں کو لکھ رہا ہے جو ل� حال سے پکا رک کہہ رہی ہیں کہ مصنف شاہد ہیں اور زباآانکھiiوں سiiے دیکھی تھیں۔ اورکہ یہ بiiاتیں واقعiiات کے سiiتر اپنے کانوں سiiے سiiنی تھیں اوراپiiنی

اسی سال بعد نہیں لکھی گئی تھیں بلکہ اس سے مدتوں پہلے لکھی گئی تھیں۔آایiا ہے) (۔ یہ مقامiiات۲۳: ۱۰ اور ۲۰: ۸ہیک�ii کے دو مقامiiات کiiا ذکiر خiاص طiiورپر

آاتشزدگی کے بعد کھنڈرات ہوگئے تھے۔ اور ء کے بعiiد ا� کی تخصiiیص نiiاممکن۷۰ہیک� کی تا� کiiا چشiiم تھی۔صرف وہی شخص ا� مقامات کو جا� سکتا تھا جو مصنف کی طرح خiiود

دید گواہ تھا۔آانخداوند کے مصلوب ہونے کے د� کی صح کا ذکر کiiرچکے ہیں ہم باب سوم میں ۔ انجی� چہارم کے مصنف کی تاری\ کی صح میں کسی قسم کا کلام نہیں ہوسiiکتا کیiiونکہ

۔ نیسiiا� کی رات کiiو فسiiح کiiا کھانiiا۱۴یہ قرین قیاس نہیں کہ یہودی روسiiاء جیسiiے کiiٹر لiiوگ �iiلہ حاصiiا فیصiiوت کiiے مiiتبلاتے ، پلاطوس س کھاکر منجئی جہا� کو گرفتار کرتے، عدال کو لد فسiiح iiاتیں وہ عیiiب بiiر یہ سiiرتے ۔ اورپھiiاا مصلوب کئے جانے کا مطالبہ ک آاپ کو فور کرتے اورتا� کے لئے ایک ہفتہ تک کام کرنا حرام تھا)خiiروج کے پہلے د� کرتے جب شریع کے مطابق

(۔ ہم بتلاچکے ہیں کہ انجی� مرقس کے مطابق ارمتیاہ کےیوسف نے مہین کپڑا مول لیiiا۱۶: ۱۲لک لاشiiہ کiiو کفنiiائے۔ یہ حقیق مقiiدس یوحنiiا کے بیiiا� اور تiاری\ تھا تاکہ وہ منجئی کے مبار

آادھی رات کپڑے کی خریiدوفروخ نiاممکن تھی۱۵کے مطابق ہے کیونکہ یی ہiذا1نیسا� کو عل ۔ نیسiا�۱۵ کی تفصیلات بھی تiاری\ کی صiح کی شiاہد ہیں کیiونکہ یہ د� ۳۱: ۱۹لقیاس

کے مطابق " مقدس مجمع' کا د� تھا۔ چونکہ یہ سiiب کiiا د� تھiiا۷: ۲۳کا د� تھا، جو احبارتدگنا احترام حاص� تھا۔ لہذا اس د� کو

1 Wendt Gospel According to St. John p. 113

Page 41: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

ل� چہارم میں یہودی پارٹیوں کی حiiال بھی تiiواریخی حقیق کے مطiiابق ہے ۔1انجی یروشلیم کی تباہی کے بعد ا� پارٹیوں کی حال کا علم ہی نہیں ہوسکتا تھا ، کیiiوں کہ یہiiودیآانخداوند کے زمانہ میں ا� کی تنظیم زبردس تھی۔ فریسیوں قوم کا شیراز ہ بکھر گیا تھا۔ لیکن اور فقہیوں کی پارٹیوں کے صدر مقام شہر یروشلیم میں تھے، اور صدرعدال میں دونiiوں پiiارٹیوں�iiحاص لر عدال میں اکثری تا� کو صد کے ممبر تھے۔ صدوقیوں کے ہاتھوں میں طاق تھی اورتا� کiiو مiiذہبی رسiiوخ بہ زیiiادہ حاص�ii تھiiا۔ تھی لیکن عوام الناس فریسiiیوں کے سiiاتھ تھے اور

آاتی ہے ) :۱۔ ۲۴: ۱انجی�ii چہiiارم میں ا� دونiiوں پiiارٹیوں کی ہiiو بہiiو یہی تصiiویر ہم کiiو نظiiر ( اور یہ امر انجی� کی صح اورپایہ اعتبار کا گواہ ہے۔۵۴تا ۴۵: ۷۔ ۱۹

میں جس خدشiiہ کiiا ذکiiر ہےوہ بھی ایiiک تiiواریخی حقیق ہے۔۵۰تiiا ۴۷: ۱۱آایiiات کیفانے ہشیاری اورچالبازی سے کام لے کر ایسے الفا� استعمال کئے جو فریسیوں کو خiiاص

طورپر اپی� کرتے تھے۔ترومی حکمرانiiوں اور مفتiiوح یہiiودی لیiiڈروں کے سیاسiiی۳۲تا ۲۸: ۱۸باب میں فiiاتح

آایا ہے کہ یہودیiiوں سiiے تعلقات کا ذکر ہے جو تالمود کے مطابق صحیح ہے۔ چنانچہ تالمود میں سزائے موت دینے کے اختیارات محاصرہ سے چiiالیس سiiال پہلے چھن گiiئے تھے۔ انجی�ii نiiویسآاپ آاتا ہے۔ تاکہ حضرت کلمتہ اللہ کے الفا� پورے ہوں کہ کو اس میں بھی خدا کا ہاتھ نظر رومی طریقہ کے مطابق مصلوب کئے جائینگے اوریہiiودی طiiریقہ کے مطiiابق سنگسiiار ہiiوکر نہیں

مرینگے۔آاتی ہےکیiونکہ۱۵تiا ۱۳: ۱۹باب میں بھی تiاریخی حقیق کی جھلiک ہم کiو نظiiر

آاخiری حصiہ میں اس بiات کiا نہiای خواہشiمند تھiا۔ اور لد حکiوم کے iiقیصر طبریاس اپنے عہ تاس کےہiiاتھ میں کٹھ تقرری کے وق وہ اس بiات کiا خiiاص خیiiال رکھتiiا تھiiا کہ اس کے گiورنر پتلی ہوں اورپلاطوس اپنے ظلم واستنبدار کی وجہ سiے )جیسiا ہم اپiنے رسiالہ توضiیح العقائiد میں

مفص� بیا� کرچکے ہیں( قیصر کی نظروں میں گرگیا تھا۔ 1 Sanday, Criticism of the Fourth Gospel pp.117-144

میں ہے " پلاطوس یہ باتیں سن کر یسوع کو بiiاہر لایiiا اوراس جگہ جiiو چبiiوترہ۱۳: ۱۹ل عiiدال پiiر بیٹھiiا"۔ یونiiانی لفiiظ کiiا مطلب پتھiiر کiiا فiiر* اورعiiبرانی میں گبتiiا کہلاتی ہے تخاا یہ خیiiال کiiرتے تھے کہ یہ پتھiiر iiر عمومiiا خطہ" ہے۔ مفسiiا مطلب" اونچiiا" کiiظ" گبتiiاورارامی لف لف انجی�ii یہ نہیں کہتiiا! پس مفسiروں کی کے فiiر* کiا اونچiiا خطہ پریٹiiوریم میں ہے گiو مصiiن رائے کی بنا پر اس انجی� کا جغرافیہ غل� خیال کیا جاتا تھا لیکن ای� ۔ ایiiف ۔ ونسiiنٹ کی انکشافات نے یہ ثiاب کردیiiا ہے کہ مفسiiر غلطی پiiر تھے اورانجی�ii کiا جغiiرافیہ صiحیح ہے ! تاس نے یہ ثاب کردیا ہے کہ پتھروں کا یہ عالیشا� چبوترہ دوہزار پiiانچ سiiومربع میiiٹر ہے)ایiiک میiiٹر

تر ج کا صحن تھا جوایک اونچی سiiطح پiiر واقiiع۳۷کا طول انچ ہوتاہے(۔یہ چبوترہ انٹونیا کے بلر قiiدیمہ نے انجی�i یوحنiا کے آاثiا ہے، جس کی وجہ سے اس کiو " گبتiiا" کہiا جاتiا تھiiا ۔ یiوں

یونانی اور ارامی ناموں کی تصدیق اورانجیلی بیا� کی صح ثاب کردی ہے۔ اس انجی�ii میں بعض نہiiای خفیiiف اور تفصiiیلی بiiاتیں ہیں جن کiiا ضiiمنی طiiورپر ذکiiر ہiiواہے لیکن اس انجی�ii کی تiiاریخی صiiح اورپiiایہ اعتبiiار کiiو معلiiوم کiiرنے کے لiiئے وہ

اا سiiامری عiiورت کے بیiiا� میں ہے کہ" کنiiواں گہiiرا تھiiا") :۴نہiiای کiiام کی بiiاتیں ہیں۔ مثل فٹ تھی۔حضiiرت یعقiiوب کiiا ذکiiر نہiiای سiiادہ اور قiiدرتی ہے اور۷۵(۔ اس کی گہiiرائی ۱۱

۔ ال\(۔۹: ۴روای کو بھی سادگی سے مبالغہ کے بغیر بیا� کیا گیا ہے) چھٹے باب میں کفرناحوم کے یہود کا بیا� بھی نہای سiiیدھا اور قiiدرتی ہے۔ اس کے الفا� یہود کی فطرت کو ظاہر کرتے ہیں اور ثiiاب کiiرتے ہیں کہ یہ بیiiا� تiiواریخی طiiورپر صiiحیح

ل} مقiiدس میں ربیiiوں کiiو ہiiر جگہ۱۵: ۷ہے۔ میں یہiiود کی حiiیرت بھی نہiiای قiiدرتی ہے۔ ار ء کے بعد ختم ہوگیiiا تھiiا۔ پس یہ بیiiا� انجی�ii کی اصiiلی کiiا۷۰اقتدار اور رسوخ حاص� تھا جو

تا� واقعiiات اوربیانiات کiا چشiم۵۰تا ۴۸: ۸گواہ ہے ۔ باب سے بھی صاف ظاہر ہے کہ مصiنف لم یہود کے مابین واقع ہiiوئے۔ آانخداوند اورقو بiاب کے الفiiا� اور تصiiورات بعینہ۹دید گواہ ہے جو

آانخداوند کے زمانہ میں مروج تھے۔ وہی ہیں جو

Page 42: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

(۳) ۔( انجی� چہارم کی تاریخی صح اورپiایہ اعتبiiار کiو جiانچنے کiا ایiک اورطiریقہ یہ۱)

ل� مiiرقس کے الفiiا� " اقiiوال " بیانiiات کے مطiiالب ومقاصiiد iiآایا انجی ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ انجی� چہارم کے مطالعہ کے بعد زیادہ روشن اور واضح ہوجاتے ہیں یاکہ نہیں۔ اس کسوٹی کا مطلب یہ ہے کہ اگر ا� دونiوں انجیلiوں کے بیانiات کے معiiانی اور مطiالب ایiک دوسiرے کiو منiiور نہیں کiiرتے بلکہ وہ بغiiیر کسiiی پیوسiiتگی کے الiiگ الiiگ اوربے جiiوڑ ہی رہiiتے ہیں اورایiiکآاتے ہیں ، ایسiiا کہ وہ متضiiاد ٹکiiڑاؤں کی طiiرح غiiیرمربوط ہiiوکر دوسiiرے سiiے غiiیر متعلiiق نظiiر جداگانہ ہستی رکھتے ہیں تو ظاہر ہے کہ انجی� مرقس تواریخی سمجھی جائيگی اورانجی� یوحنiiا فلسفیانہ تصورات اور صوفیانہ مثالی اور مجازی کلام کا مجمiiوعہ سiiمجھی جiiائے گی، جساا اگر مقدس مرقس کے معجزات ، نابیناؤں کو بینiiائی میں تواریخی واقعات کو دخ� نہیں مثلآایiiiات اللہ اورنشiiiانات نہیں تھے یعiiiنی کiiiا عطiiiا ہونiiiا وغiiiيرہ صiiiرف اعجiiiازہی تھے اوربس اور وہ �iiجسمانی شفا کے علاوہ کسی قسم کے کوئی مطالب ومعانی کے حام� نہیں تھے تب انجی تا� معجزات کو کلمتہ اللہ کے جلال کی نشانیاں قرار دیتا چہارم کا مصنف غلطی پر ہے جو

آاپ پiiiر ایمiiiا� لاتے تھے) وغiiiیرہ(۔ یہ۲۲تiiiا ۱۸: ۲۔ ۱۴: ۱۔ ۱۱: ۲ہے ، جن کے ذریعہ لiiiوگ مصنف جسمانی شفا کے معجزہ کو روح کی شفا سے متعلق کرتاہے۔ اگر یہ مصiiنف اس معiiاملہ میں غلطی پر ہے تو حضرت کلمتہ اللہ کا مشن محض خدا کی بادشاہ کے اعلا� کرنے والےآاپ کiا شiمار صiرف انبیiiائے یہiiود کی قطiiار میں ہی ہوسiکتاہے اور کا ہی رہ جاتاہے اوربس۔ یiوں آاپ کے دعiiوے آاپ کا درجہ دیگر انبیاء کی طرح محض ایiiک معلم اورنiiبی کiiا ہی رہ جاتiiاہے۔ کہ " میں دنیا کا نور ہوں"، " زندگی کی روٹی میں ہوں"،" راہ، حق اور زنiiدگی میں ہiiوں" وغiiیرہمحض بے حقیق ہوجاتے ہیں ، جوکسی مجذوب کی بڑسے زیادہ وقع نہیں رکھ سکتے ۔

ل� چہارم کے مفہوم کی روشنی میں سiiیدنا مسiiیح کے وہ لیکن حقیق یہ ہے کہ انجی زرین اقوال، سوانح حیات ، معجزات ، صiiلیبی مiiوت ظفریiiاب قیiiام اور صiiعود کے واقعiiات)جن

�iiاتے ہیں۔انجیiiن ہوجiiور اور روشiiب منiiب کے سiiمیں ہے( س �iiکا ذکر انجی� مرقس اوردیگر اناجی چہارم کا مفہوم ا� سب کو ایک نظiام میں ایسiا منظم کردیتiا ہے ، کہ سiب کی سiب انجیلیں ایک دوسرے کے مطالب ومعiانی کiو واضiح اور روشiن کردیiتی ہیں۔ بiاب چہiارم میں ہم واضiح کرچکے ہیں کہ انجی� مرقس کے بعض اقوال انجی�ii یوحنiiا کے بیانiiات کے مرکiiز ہیں اور ا� کےتا� کiiو روشiiن اور منiiور کردیتiiاہے۔ گiiرد محiiور کی طiiرح گھومiiتے ہیں۔ انجی�ii چہiiارم کiiا مفہiiوم تا� کی ایساکہ وہ بیانات اور اقوال الگ الگ بے جوڑ ایک دوسرے سiiے جiiدا نہیں رہiiتے بلکہ یiiک جہiiتی اناجی�ii اربعہ کiiو بiiاہم مربiiوط اورمنظم کردیiiتی ہے ۔ جس سiiے ثiiاب ہوجاتiiاہے کہ

چاروں انجیلوں کی بنیاد تاری\ کی مضبوط چٹا� پر قائم ہے۔ل� متفقہ میں سیدنا مسیح فطرت کا اشیاء کiiا ذکiiر ل� غور ہے۔ اناجی یہاں ایک اور امر قاباا انگiiور لز عم� ہے۔ مثل آاپ کا یہی طر تا� سے سبق اخذ کرتے ہیں، انجی� یوحنا میں بھی کرکے

:۸۔ ۳۷: ۷۔ ۳۸: ۴۔ ۸: ۳کے درخ کی تشiiبیہ، روح القiiدس کے لiiئے ہiiوا کی مثiiال وغiiیرہ)یی ہذا القیاس اس اناجی� متفقہ کی طiiرح اس انجی�ii سiiے بھی ظiiاہرہے کہ۱: ۱۵۔ ۱۲ وغیرہ(۔ عل

آاپ کے اقiiوال کiiو سiiمجھیں اورا� پiiر غiiورکرکے آاپ کے سامعین آاپ کی عادت میں داخ� تھا یہ وغیرہ(۔ جس۵۲: ۶۔ ۱۰تا۹: ۳۔ ال\ یوحنا ۱۰: ۱۳ا� کے مطالب ومعانی سے واقف ہوں)متی

طرح انجی�ii مiiتی میں حضiiرت کلمتہ اللہ شiiریع کے احکiiام کی جگہ اپiiنی ذات اور شخصiiیآاپ کے " میں ہiiوں" کے دعiاوی موجiود ہیں)مiتی تاسی طرح انجی� یوحنا میں کو قائم کرتے ہیں،

وغيرہ(۔۳۵: ۶۔ ۱: ۱۵۔ ۸: ۱۰۔ ویوحنا ۲۶: ۲۶۔ ۱۱تا ۱۰: ۵آانخداونiiد کی ذات اس سiiے بھی زیiiادہ اہم امiiر یہ ہے کہ انجی�ii چہiiارم میں جiiو تصiiور کی نسب پایا جاتاہے وہ تواریخی حیثی سے صiحیح ہے کیiونکہ صiرف اسiی تصiور سiiے ہیآاپ کی وہ تعلیم واضح ہوسکتی ہے جو اناجی� اربعہ میں مندرج ہے اور صرف اسی کام� طورپر

آاپ کےدعوؤں کی وہ تاوی� ہوسکتی ہے جو چiiاروں انجیلiiوں میں موجiiود ہیں)مiiتی :۱۱تصور سے ل� اربعہ۱۷ یوحنا ۲۲تا ۲۱: ۱۰ ال\ لوقا ۳۱: ۲۵۔ ۲۹تا ۲۵ iiرف اناجیiiور نہ صiiیرہ(۔ یہ تصiiاب وغiiب

Page 43: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

لر کے بیانات کے مفہوم کو مربوط کردیتا ہے بلکہ مقدس پولوس کی تحریرات اورکلیسiiیا کے دوتاسiتادوں کی تعلیمiات کiو باہمiد گرمنسiلک کردیتiاہے۔ جب ہم اس بiات کiو ملحiو� وولین کے ا خاطررکھتے ہیں کہ مقدس پولوس مسیحی ہونے سےپہلے ایما� داروں کا جانی دشمن تھا کیiiونکہآانخداونiiد کے دعiiوے یہiiودی کی بنیiiادوں کiiو ہلادیiiنے والے ہیں تiiوہم وہ سiiمجھ گیiiا تھiiا کہ آاسiانی کے سiاتھ یہ جiا� سiکتے ہیں کہ ا� تمiام بiاتوں کiا اص�i چشiمہ ، منبiع اور ماخiذ خiود سیدنا مسیح کے اقوال اور خیالات تھے۔ وہ مقدس یوحنا کے دمiiاغ نے اخiiتراع نہیں کiiئے تھےآاواخر یا دوسری صدی کے اوائ� کے حiالات سiے پیiدا ہiوئے تھے۔ اور نہ وہ پہلی صدی کے ل� اعتبiiار ہیں کیiiونکہ چiiاروں انجیلiiوں کے مطiiابق iiحیح اورقابiiپس یہ تصورات تواریخی طورپر ص ا� کiiا سرچشiمہ خiiود کلمتہ اللہ ہیں۔ ا� تصiiورات کی صiiح اس سiے بھی ظiiاہرہے کہ وہ نہ صرف چiiاروں انجیلiiوں کے واقعiiات اورکلمiات کiو منiiور کردیiiتے ہیں بلکہ انجیلی مجمiiوعہ کی

تمام تحریرات کو ایک دوسرے سے پیوستہ کرکے ا� کی روح رواں بن جاتے ہیں۔ ۔( تمiiام انجیلiiوں میں سiiب۱ہم چند مثالوں سے اس حقیق کو واضح کردیتے ہیں ۔)

بiاب ۔۱بiاب ۔ مiرقس ۳بیانات یوحنا بپتسمہ دینے والے کےکام وپیغام سے شiروع ہiوتے ہیں )متی باب ۔ یہ کیوں ہے؟ اس کی اص� وجہ انجی� چہارم سے ہی معلiiوم ہiiوتی ہے۱باب ۔ یوحنا ۳لوقا

جو دیگر اناجی� کے بیانiات پiر روشiنی ڈالiتی ہے اور وہ یہ ہے کہ حضiر ت کلمتہ اللہ کے قiiدیم (۔ یہ بیiiا� نہiiای ۴۲تiiا ۳۵: ۱تiiرین شiiاگرد یوحنiiا بپتسiiمہ دیiiنے والے کے شiiاگرد تھے )یوحنiiا

مفص� ہے اوربیا� کی تفصی� سے ظاہر ہے کہ اس کالکھنے والا خود ا� شاگردوں میں سے ایکتھا ۔ پس یہ امر انجی� کی صح اورپایہ اعتبار کا گواہ ہے۔

ورے ذبح کئے جاتے تھے اورانجی۱۴�ii( صلیب کی تاری\ کیا تھی؟ ۲) نیسا� کے د� ب چہارم کے مطابق صلیب کا واقعہ اس روز ہوا تھا۔ اگرہم اس تاری\ کو تسلیم کرلیں)جiiو جیسiiاوول میں بتلاچکے ہیں مقiدس مiرقس کےایiک ماخiذ کی ہم حصiہ دوم کے بiاب اول کی فص�i ا تاری\ بھی ہے( توبہ سiiی بiiاتیں جiiو دوسiری انجیلiiوں میں لکھی ہیں منiiور ہوجiiاتی ہیں اورہم ا�

آاسانی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ تاری\ یہود کے دستور کے مطابق صحیح بھی ہےکیونکہ عیiiد کو ب (۔۷: ۲۲کے پہلے روز فسح کا برہ ذبح نہیں کیاجاتا تھiiا اور مقiiدس لوقiiا کiiابھی یہی بیiiا� ہے)

دیگiر بیانiات کے مطiiابق یہiود کے ليiڈر وہ بiات کiرتے ہیں جiو وہ پہلے کہہ چکے ہیں کہ وہ (مقدس لوقا واضح الفiiا� میں بتلاتiا ہے کہ سiiیدنا مسiیح کی " بiڑی۲: ۱۵نہیں کرینگے)مرقس)

آارزو تھی کہ دکھ سہنے سے پہلے یہ فسح تمہارے سiiاتھ کھiiاؤں کیiiونکہ میں تم سiiے کہتiiا ہiiوںآارزو پiiوری نہ ہiiوئی تھی۔ پس۱۶: ۲۲کہ میں اسiiے نہ کھiiاؤں گiiا") (۔ اور سiiیدنا مسiiیح کی یہ

مقدس یوحنا کا بیiا� بiاقی انجیلی بیانiات کی فصiاح کردیتiاہے لہiذا یہ صiحیح اور معتiبر بیiا�ہے۔

۔( انجی� چہارم میں یہوداہ غدار کی غداری کا بیiا� دیگiر انجیلiوں کے بیانiات کiو۳) روشن کردیتاہے اوریوں ثiاب کردیتiاہے کہ یہ ایiک چشiم دیiد گiواہ کiا بیiiا� ہے جس کی صiحتو� وچرا کی گنجائش نہیں رہتی۔ اس بیا� کے مطiiابق جب سiیدنا مسiیح نے فرمایiا کہ تم میں چ میں سے ایک مجھے پکڑوائیگا تو شمعو� پطرس نے اس شاگرد کiiو اشiiارہ کیiiا جس سiiے یسiiوع محب رکھتا تھا اوراس نے پوچھا کہ اے خداوند ۔ وہ کiو� ہے۔یسiوع نے جiواب دیiاکہ جس کiو

لد نظiiر رکھیں کہ اس شiiاگرد۳۰تiا ۲۱: ۱۳میں نiiوالہ دونگiا وہی ہے ) iو مiiر کiiرہم اس امii۔ اب اگ) آایاکہ نوالہ پہلے یہوادہ غدار کو دیا گیا تھا یا جب یہوداہ غدار کو نiiوالہ کو بعد کے زمانہ میں یاد آائی تو سیدنا مسیح نے کہا تھا" جو کچھ تجھے کرنا ہے جلiiد کiiر" تiiو اس امiiر دینے کی باری

۔" تiونے خiود کہہ دیiا"( اور مiرقس کے۲۵: ۲۶سے متی کے بیا� پiر روشiنی پiڑتی ہے )مiتی بیا� پر بھی روشنی پڑتی ہے کیiiونکہ اس کے بیiiا� کے مطiiابق یوحنiiا وہ بiiاتیں لکھتiiاہے جن کینسب وہ جانتاہے کہ وہ سچ اورحق ہیں اور تواریخی طiiورپر ا� کiا پiایہ اعتبiار نہiiای بلنiد ہے)

(۔۲۴: ۲۱ پس انجی�ii چہiiارم میں سiiیدنا مسiiیح کی تiiواریخی زنiiدگی کی حقیقی تصiiویر پiiائی�iiو اصiiجاتی ہے ۔ مصنف ہم کو بتلاتاہے کہ حضرت کلمتہ اللہ کی زندگی اعجازی تھی ، ج

Page 44: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

اورتاریخی واقعات پiر مبiنی تھی۔ یہ تصiویر رومی اوریونiانی مiذاہب کے دیوتiاؤں اورمعبiiودوں کی زنiiدگی کے عین ضiiد تھی کیiiونکہ وہ دیوتiiا کiiوئی تiiواریخی ہسiiتی نہ رکھiiتے تھے ۔ بلکہ ا� کiiولت متخیلہ اوردیومiiالا کے قصiiص پiiر مبiiنی تھیں۔ جiiو تا� کے مذہبی پیشواؤں کی قو کہانیاں تز تھیں ۔ اگر انجیلی بیانات تواریخی واقعات سiiے جiiدا کردئiiيے لب باطلہ کی ج مشرکانہ مذاہ جاتے اور تواری\ کی جانب سے بے نیاز ہوجاتے تو انجی� کا وہی حشiiر ہوتiiا جiiو رومی ، یونiiانی ،یی میں مفص�ii بحث لب بiiاطلہ کiiا ہiiوا تھiiا۔ ہم اس پہلiiو پiiر اپiiنی کتiiاب نورالہiiد دنیiiا میں مiiذاہ کرچکے ہیں ۔ اورناظرین کی توجہ اس کتاب کی طرف منعطiiف کiiرنے پiiر اکتفiiا کiiرتے ہیں۔ اسآانخداوند کی تواریخی شخصی پiiر زوردیتiiا ہے ۔ کے برعکس مقدس یوحنا اپنی تصنیفات میں

۔یوحنiiا۱اس کے خیالات اور تصورات ، تمام کے تما، تواريخی واقعات کے گرد گھومتے ہیں) وغiiiiiiiیرہ(۔ پس اس کی انجی�iiiiiii کی بنیiiiiiiiاد اور اس کے۲۰: ۵۔ ۱۱تiiiiiiا ۹: ۴۔ ۱۶تiiiiiiا ۱: ۳

آاپ کی زنiiiدگی اور مiiوت کے تiiاریخی تصiiiورات ،سiiiیدنا مسiiiیح کے حقیقی سiiوانح حیiiiات اور واقعات کی چٹا� پiiر قiiائم ہیں۔ انجی�ii نiiویس اس حقیق پiiر شiiروع ہی سiiے زور دیتiiا ہے کہ "

(۔ منجئی عالمین کی مiiوت کiا ذکiiر بھی انجی�ii کی ابتiiدا میں )۱۴تا ۱۲: ۱کلام مجسم ہوا" )آاتا)باب ۲۶تا ۲۹: ۱ آاخر میں آا پ کی زنiiدگی کے۱۹، ۱۸( اور آاپ کے تمام دعiiاوی بھی (ہے۔

اا ،زندگی اور روٹی میں ہوں" کا تعلق لعزر کو زندہ کiiرنے اور جنم واقعات سے ہی متعلق ہیں۔ مثلآاپ کی صiiلیبی مiiوت کiiا تاریiiک سiiایہ آانکھیں دینے کے واقعات سiiے متعلiiق ہے۔ کے اندھے کو

آاپ کی ظفریiiاب قیiiام کiiا واقعہ"۵ ۔ )1تمام انجیلی تصiiورات کے تiiاروپودپر پڑتiiاہے بiiاب وغiiیرہ( نئی مخلو�" کے تصور سiے وابسiتہ ہے۔ پس اس انجی�ii کے تصiورات اوراس کی تiاویلات کی بنیاد حضرت کلمتہ اللہ کے کلمات، زندگی اورموت کے واقعات اورظفریاب قیام کےواقعہ پiiرہی

وغيرہ(۔ مصنف اس حقیق پر زور دیتا ہے کہ منجiiئی عiiالمین۳تا ۲: ۴۔یوحنا ۱رکھی گئی ہے)�iiiآاپ کی کام آاپ کےسiiiوانح حیiiiات نے خiiiدا کی مرضiiiی کے مطiiiابق زنiiiدگی بسiiiر کی اورآاپ نے بدی کی طiiاقتوں پiiر غلبہ پایiiا۔ وہ اس بiiات فرمانبرداری کے گواہ ہیں جس کی وجہ سے 1 Hoskyns & Davey, Riddie of N.T. pp. 231-240

تتب اورانبیiiائے سiiلف کے کلام کے مطiiابق واقعہ پر زوردیتاہے کہ یہ تمام بiiاتیں عہiiد عiiتیق کی کآاپ کی اپiiنی رضiiاورغب سiiے واقiiع ہiiوئی ) آانخداونiiد کی مiiوت ۔۱۱: ۱۰ہiiوئیں اوربتلاتiiاہے کہ

وول ال\(۔ اورکہ یہ واقعہ پچھلے نبیوں کے قiiول کے عین مطiiابق تھiiا۔ یہی بiiات )جیسiiا ہم حصiiہ اتاستاد سکھلاتے تھے۔ وولین کے لر ا کےباب سوم میں بتلاچکے ہیں(کلیسیا کے دو

ل� چہارم کا مصنف حضرت کلمتہ اللہ کی فرمانبرداری کے تiiاریخی واقعiiات سiiے انجی ثاب کرتاہے کہ یہ فرمانبرداری بینظیر اورلاثانی ہے۔ اور اس بات پر تمام اناجی� کiiا اتفiiا� ہے۔ یہ مصنف اس حقیق کو بایں الفا� ادا کرتاہے " کلام مجسم ہوا" یعنی خiiدا کiiاکلام اب نبiiوت کے الفا� یا کتابوں کے صفحوں میں نہیں ہے بلکہ وہ اب جسم میں ظاہر ہiiوا ہے اوریiiوں استتب کی تکمی�ii کiiردی ہے۔ یہ فرمiiانبرداری تiiاریکی کی طiiاقتوں کiiا مقiiابلہ لد عiiتیق کی ک iiنےعہ

تا� کو مغلiوب کiiرنے سiے حاص�i ہiiوئی )یسiعیاہ وغiيرہ(۔ پس اس انجی۲۵�iتiا ۲۴: ۴۹کرکے کے تمام تصورات کا تانا بانا، تاریخی واقعات کی چٹا� پر مبنی ہے۔

ہم نے اس بiاب میں مختلiف پہلiوؤں سiے انجی�i چہiiارم کی تiاریخی صiiح اور پiایہ اعتبار پر نظiر کی ہے اوراس نiتیجہ پiر پہنچے ہیں کہ ہم اس انجی�i کiو خiواہ کسiی کسiوٹی سiے پiiرکھیں، ہiiر پہلوسiiے ہم پiiر یہ عیiiاں ہوجاتiiاہے کہ یہ انجی�ii ایiiک تiiاریخی تصiiنیف ہے اور اس کiiا

یی کہ وہ تiiاریخی حقiiائق پiiر مبiiنی ہے ) (۔ ہiiر پہلiiو سiiے ثiiاب ہے۔ انجی�ii کی یہ۲۴: ۲۱دعiiوآاخiiر میں ثب کی گiiئی ہے کہ اس کiiا پiiایہ اعتبiiار تاس کے آای کلیسiiیا کی مہiiر ہے جiiو آاخiiری

نہای بلند ہے کیونکہ اس کالکھنے والا صاد� القول ہے۔

Page 45: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

باب ششمباب ششمل� یوحنا ل\ تصنیف انجی ل� یوحناتاری ل\ تصنیف انجی تاری

لس منظر کی بحث میں یہ بتلایiiا وول میں انجی� چہارم کے پ ہم نے اس حصہ کے باب الد iiدائش )عیiiیا کی پیiiو کلیسiiئی تھی ، جiiئے لکھی گiiوں کے لiیہودی �iiتھا کہ یہ انجی� یونانی مائ آائے تھے )اعمiiiال ( کے روز سiiiے ہی منجiiiئی عiiiالمین پiiiر ہiiiزاروں کی تعiiiداد میں لے iiiپینتیکوس

باب(۔ چنانچہ مشہور نقاد بیکن کہتاہے کہ" انجی� چہارم یونانی مائ� یہودیوں کے لiiئے لکھی۲ گئی تھی تاکہ سیدنا مسیح کی خوشخبری )انجی�( کے مضمو� کی یونانی فلسفہ اورتصiiورات کے مطiiابق تاوی�ii ہiiو اور وہ یہiiودی جiiو یونiiانی کےرنiiگ میں رنگے ہiiوئے تھے سiiیدنا مسiiیح پiiر

آائیں وولین میں یہ وطیرہ تمام رسولوں کا تھا۔ چنانچہ پولiiوس رسiiول لکھتiiاہے"1ایما� لے لر ا ۔ " دوآاپ کو سب کا غلام بنادیا ہے تاکہ میں زیادہ لوگiوں کiو )مسiیح کے پiاس( کھینچ میں نے اپنے آادمیiوں کےلiئے لاؤں۔ میں یہودیوں کےلئے یہودی بنا تاکہ یہودیiوں کiو کھینچ لاؤں۔۔۔ میں سiب سiiiب کچھ بنiiiا تiiiاکہ کسiiiی طiiiرح بعض کiiiو بچiiiاؤں ۔ میں یہ سiiiب کچھ انجی�iii کی خiiiاطر

وولین سiے تعلiق رکھتiiا ہے۲۳: ۹۔کرنتھیوں ۱کرتاہوں") لر ا (۔ پس انجی� کا مصنف کلیسiیا کے دو اوراس نے یہ انجی�ii پہلی صiiدی کے پہلے نصiiف کے لiiگ بھiiگ لکھی جب مقiiدس پولiiوس اور دیگiiر مبلغیں کی مسiiاعی جمیلہ کے سiiبب ہiiزاروں یونiiانی مائ�ii یہiiودی منجiiئی عiiالمین کے

حلقہ بگو* ہوگئے تھے۔وول کے بiiاب لس مضiiمو� پiiر ہم جلiiد ا اس اولین دور میں رسiiولوں کی " منiiادی" کے نفآائے ہیں کہ آاخر میں ثiiاب کiiر وول کے سوم میں مفص� بحث کرچکے ہیں اوراس جلد کے باب ا

1 B.W.Bacon, The Gospel of the Hellenists p. 112

بلاواسiiطہiiلہ راس انجی� چہارم میں " منادی" کا نفس مضمو� موجود ہے جس سے مصiiنف بiiراخود واقف تھا۔

علاوہ ازیں جیسiiا ہم بتلاچکے ہیں ، یہ مصiiنف صiiرف قiiدیم تiiرین ماخiiذوں کiiو ہیتا� واقعات کو لکھے جو انجی� مرقس میں نہیں تھے چنانچہ مiiورخ یوسiiی استعمال کرتاہے تاکہ بئس ایک قiiدیم روای کiا ذکiiر کiرکے ہم کiو بتلاتiاہے کہ انجی�i چہiiارم کے مصiiنف کiو اپiنی انجی� لکھنے کی اس واسطے ضرور پڑی تاکہ اس سے پہلے سیدنا مسiiیح کی زنiiدگی کےبعض

۔ یہ مصiنف نہ صiiرف قiiدیم تiرین ماخiذوں کiو اسiتعمال2واقعات کiو قلمبنiiد نہیں کیiا گیiا تھا کرتاہے بلکہ متعدد واقعات کا وہ خود چشم دید گiiواہ ہے اورمکالمiات کiiو اس نے اپiiنے کiiانوں

( یہ امور بھی اس بات کو ثاب کرتے ہیں کہ اس انجی� کا تعلiق۴تا ۱: ۱۔یوحنا ۱سے سنا تھا) قدیم ترین زمانہ سے ہے جو پہلی صدی کے نصف کے لگ بھگ کا زمانہ ہے۔ کیونکہ یہ قدیمل­ زمانہ ، یروشلیم آاخر تک حواد ترین ماخذ ، زبانی بیانات اور تحریری پارے پہلی صدی کے کی تبiiاہی اور دیگiiر خطiiروں کی زد سiiے محفiiو� نہیں رہ سiiکتے تھے ۔ مسiیحی کلیسiiیا ئیںتور ل} مقiiiدس کے انiiiدر اوربiiiاہر رومی سiiiلطن کےد بھی پہلی صiiiدی کے نصiiiف میں ار درازمقامات میں قائم ہوچکی تھیں اور یہ کلیسیائیں روز افزوں ترقی کرتی جاتی تھیں۔ پس اسلح حیات، زندگی ، موت بات کی اشد ضرورت تھی کہ وہ منجئی عالمین کے کلمات، سوانتا� کے حقیقی مطiiالب سiiے اورظفریاب قیام سے اورا� کلمات واوقعات کے اص�ii مفہiiوم اور کماحقہ اورجلداز جلد واقف ہوجائیں۔ یہ کلیسیائیں اہ� اسلام کی طiiرح کسiی کلمہ یiا عقیiدہتا� کiو انتشiiار اورپراگنiiدگی سiے بچاسiiکتا ہے۔پس کلیسiiیاؤں کے پرایما� نہیں رکھتی تھیں، جو وجiود اور تحفiiظ کے لiئے یہ امiر نہiiای ضiروری تھiاکہ جلiد از جلiد اناجی�i احiاطہ تحریiر میں آاجائيں، جن میں قدیم ترین زبانی اور تحریری بیانات اور دیگر قدیم ترین ماخذ محفiiو� ہوجiiائيں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ مقiiدس پولiiوس کے خطiiوط ا� کلیسiiیاؤں میں مiiروج تھے لیکن وہ

2 H.E.111 24

Page 46: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

تا�۲اس مقصiiد کiiو پiiورا کiiرنے کے لiiئے نہیں لکھے گiiئے تھے اور پطiiرس سiiے معلiiوم ہوتiiاہے کہ (۔۱۶تا ۱۵: ۳کےتصورات کا عوام النا س کے لئے سمجھنا بھی دشوار تھا)

وول کے حصہ سوم میں ثiiاب کiiرچکے پس ا� اور دیگر وجوہ کے باعث جیسا ہم جلد ا ( میں۵۵ء کے قiiریب لکھی گiiئیں اور انج�ii لوقiiا ۵۰ء میں ، انجی�ii مiiتی ۴۰ہیں انجی�ii مiرقس

آاگiiئی۔ انشiiاء اللہ اس بiiاب میں ہم یہ ثiiاب کiiردیں گے کہ مقiiدس یوحنiiا کی احiiاطہ تحریiiر میں انجی�ii بھی پہلی صiiدی کے نصiiف میں لکھی گiiئی ۔ امiiریکن عiiالم پروفیسiiر ٹiiوری کہتiiاہے کہ

آاچکی تھی ۔ ہم اس جلiد کے1انجی� چہارم مقدس لوقا کی انجی� سiےپہلے احiاطہ تحریiiر میں �iiنی انجیiiباب دوم میں بتلاچکے ہیں کہ مقدس یوحنا انجی� متی سے ناواقف تھا پس اس نے اپ

وول وچہiiارم ایiiک ہی۵۰یiiا تiiو ء سiiےبہ پہلے لکھی تھی اور یiiا یہ دونiiوں انجیلیں یعiiنی انجی�ii اآائیں یعنی دونوں ء کے لگ بھگ لکھی گئیں۔۵۰وق احاطہ تحریر میں

متعدد علماء کا یہ خیال ہے کہ انجی� چہارم بiاقی تین انجیلiوں کے مiدت بعiiد لکھی گئی تھی اورکہ مقدس یوحنا نے اس کو بڑھاپے میں پہلی صدی کے اواخر یا دوسiiری صiiدی کے

۔ لیکن اگiiریہ نظiiریہ صiiحیح ہiiو تiiو سiiوال پیiiدا ہوتiiا ہے کہ اس انجی�ii کiiا2اوائ�ii میں لکھiiا تھال� یہiiود کے لiiئے لکھی گiiئی iiآاتاہے ؟ دونوں انجیلیں اہ مصنف انجی� متی سے کیوں ناواقف نظر اا iاء کے ( قریبiعلم �تا ل� چہارم متی کی انجی�i سiے )بقiiول تھیں۔ پس قیاس یہ چاہتاہے کہ اگرانجی بیس سال بعد لکھی گئی تھی تو مقدس یوحنiiا اس کiiا ضiرور اسiتعمال کiرتے ، جیسiiا انہiiوں نے مقدس مرقس کا استعمال کیا ہے۔ کیونکہ دونiiوں مصiiنفوں نے اہ�ii یہiiود کی خiiاطر اپiiنی انجیلیں�iiتی کی انجیiiدس مiiلکھیں لیکن یہی نقاد اس بات پر اتفا� کرتے ہیں کہ مقدس یوحنا نے مق کiا اسiتعمال سiرے سiے نہیں کیiا۔ پس نiتیجہ ظiiاہر ہے کہ انجی�i چہiارم کے لکھے جiانے کےلل عام انجی� مروج نہیں تھی اور مقدس یوحنiiا کiiو اس کiiا علم نہ تھiiا۔ اس وق متی کی مقبو

ء کے لگ بھگ احاطہ تحریر۵۰سے ہمارے نتیجہ کو تقوی پہنچتی ہے کہ دونوں انجیلیں 1F.V.Filson The Origin of the Gospels p.188-189 2 Westcott, Gospel According to St. John Vol.i,pp. LXX111-LXXX111 see also Peak’s Commentary p.744 and Gore’s Commentary on N.T. p.242 etc

ل� یوحنا کا تعلق دوسری صدی کے اوائ�ii یiiا پہلی صiiدی کےاواخiiر کے سiiاتھ آائیں۔ انجی میں نہیں ہے بلکہ پہلی صدی کے نصف کے ساتھ ہے۔

ہم باب سوم کے شروع میں بتلاچکےہیں کہ مقدس یوحنا کے سiiامنے انجی�ii لوقiiا اورتا� قiiدیم تا� کiا اسiتعمال کرتiا۔ ہiاں وہ تا� کی موجودہ صiورت میں نہیں تھیں ورنہ وہ انجی� متی تا� انجیلiiوں میں درج ہیں اور وہ یہ بھی فiiر} تحریری ماخذوں اوربیانوں سے واقiiف تھiiا جiiو اب تا� سے واقف ہیں۔ یہ دونوں مiذکورہ بiiالا انجیلیں ابھی احiiاطہ کرلیتاہے کہ اس کے ناظرین بھی آائی تھیں ۔ جس سے ثاب ہے کہ مقدس یوحنا نے اپنی انجی�i کiiو انجی�ii لوقiا تحریر میں نہیں

وول کے۵۷ء اور ۵۵سiiے ) لد ا iiا۔ ہم نے جلiiا تھiiپہلے لکھ ء( کے درمیiiا� لکھی گiiئی تھی( بہ ء کے لiiگ بھiiگ۵۰حصہ سوم کے باب چہارم کی فص� دوم میں ثاب کیا ہے کہ انجی� متی

ء کے قریب لکھا تھا۔ ۵۰لکھی گئی تھی پس مقدس یوحنا نے اپنی انجی� کو اسی زمانہ یعنی ل� یہiiود iiوولین میں اہ لر ا وول کے باب سiiوم میں بتلاچکے ہیں کہ دو وول کے حصہ ا ہم جلدا کلیسیا کے ایما� داروں پر اعترا} کی بوچھاڑ کرتے تھے اورکہ اناجی�ii میں تقضiiائے وق کےل� یوحنiا کے مطiالعہ سiiے iiانچہ انجیiا ہے ۔چنiiا گیiiواب دیiواب باصiا جiوالوں کiس �ے اiلحا� س معلوم ہوجاتاہے کہ جب یہ انجی� تالیف کی گiiئی تiiو یہiiودی سiiیدنا مسiiیح کی ذات پiiر اعiiترا}لم سب کے توڑنے کی وجہ سے ملام کا نشانہ بناتے تھے۔ پس یہ کرتے تھے اورکلیسیا کو احکاتا� مکالمات کو اپنی انجی� میں لکھتا ہےجن کا تعلق اس زمiiانہ کی بحث کے موضiiوع مصنف ل� یہiiود کے iiود اہiiق خiiکے متعل لم شiiریع کے سiiاتھ تھiiا۔ کیiiونکہ یہ حضiiرت کلمتہ اللہ نے احکiiاآاسiiمانی روٹی جiiو ربیiiوں سiiے مبiiاحثہ اور منiiاظرہ کیiiا تھiiا۔یہی وجہ ہے کہ سiiب کے احکiiام ، یی نے دی تھی، یوحنا بپتسمہ دینے والے کی منادی اور سیدنا مسیح سے تعلiiق وغiiیرہ حضرت موس

ل� یہiiود پراگنiiدہ۷۰ا� مکالمiiات کے موضiiوع ہیں۔ تiiاری\ ہم کiiو بتلاتی ہے کہ iiد اہiiء کے بع ہوچکے تھے اور کلیسیا کی اکثری غiiیر اقiiوام پiiر مشiiتم� تھی۔ پس اس قسiiم کے سiiوالات کی

Page 47: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

�iہی نہ تھا۔ اس سے بھی ظاہر ہے کہ یہ انجی �اطہ۷۰بوچھاڑ کاتب امکاiدتوں پہلے احiے مiء س لن تصنیف آاچکی تھی اوراس س ء کے لگ بھگ کا ہے۔۵۰تحریر میں

ہم گذشiiiتہ بiiiاب میں بتلاچکے ہیں کہ اس انجی�iii میں یہiiiودی عیiiiدوں، تہiiiواروں اورل� یہiiود iiئی تھی تب اہiiہے کہ جب یہ انجی� لکھی گ دستوروں کا ذکر ہے جس سے یہ بھی ثاب تھی۔فریسiiیوں اورفقیہiiوں کیiiکی تنظیم ابھی زبردس �ا۔اiiرا تھiiیرازہ نہیں بکھiiا شiiوم کiiکی ق

لر مقام ہنوز یروشلیم میں ہی تھے۔ یہ تصویر ء کے بعiiد کی نہیں ہے بلکہ اس۷۰پارٹیوں کے صد سے مدتوں پہلے کی ہے ۔ جس سے ظاہر ہے کہ یہ انجی� پہلی صدی کے نصف کےقiiریب کی

تالیف ہے۔ (۲)

�iiاہے کہ یہ انجیiiاہر ہوجاتiiر ظiiوہم پiiرتے ہیں تiiالعہ کiiائر مطiiا غiiارم کiiچہ �iiجب ہم انجی آاتشiiزدگی ) ء( کے بعiiد کی تصiiنیف۷۰کسی صورت میں بھی یروشلیم کی بربادی اورہیک�ii کی

نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ رینا� اپنی کتاب کی تیرھویں ایڈیشن کے ضمیمہ میں ا� مختلف مقاماتآاتے ہیں اور یہ سوال پوچھتiiا ہے کہ اگiریہ کتiاب کو یکجا کردیتا ہے جن کےنام انجی� چہارم میں آاخiiر میں ایشiiیائے کوچiiک کسی فلاسفر نے تاریخی واقعات کو نظر انداز کiiرکے پہلی صiiدی کے میں لکھی ہوتی تو اس کو کنعا� کے جغرافیائی جگہوں کو اس تفصی� اورباریکی سے لکھiiنے کی کیاضiiرورت پiiڑی تھی؟ لیکن مصiiنف کی ا� بiiاریکیوں کiiو ملاحظہ کیiiا جiiائے تiiو ظiiاہر

(۲۸: ۱ہوجاتiiاہے کہ وہ نہiiای احتیiiاط کے سiiاتھ لکھتiiاہے کہ یوحنiiا یiiرد� پiiار بی عنیiiا میں )آانخداوند کی ملاقات سامری عورت سے سiiوخار اورسالیم کے نزدیک عینوں میں بپتسمہ دیتا تھا ۔

( وہ۵: ۴میں ہوئی جو " اس قطعہ کے نزدیک ہے جو یعقوب نے اپنے بیٹے یوسف کو دیiiا تھiiا") یروشلیم میں بھين دروازہ کے پاس " حو} کا کیوں ذ کر کرتا ہے؟ یiا ایiک اورحiو} " شiیلوخ"

( کیوں بتلاتا؟۷: ۹کا نام)

انجی�ii چہiiارم کے کسiی ایiک لفiiظ سiے بھی ہم یہ نiتیجہ نہیں نکiال سiکتے کہ اسآاتش لر انجی� کی تصنیف سے تیس چالیس سال پہلے یروشلیم کاشہر برباد ہوچکا تھا یiا ہیک�i نiiذ ہوچکی تھی یiا قiiوم یہiiود تبiiاہ حiال ہiiوکر ہiiر چہiiار طiiرف پراگنiدہ ہiiوچکی تھی۔ اس کے بiرعکس انجی� کے مختلف مقامات سiiے پتہ چلتiiاہے کہ اس کے لکھے جiiانے کےوق ا� حiiادثوں میں سے کوئی رونما نہیں ہوا تھا۔ ہیک� میں سiے بھiیڑوں اوربیلiوں کiو نکiالنے ، صiرافوں کی نقiدی

ء کے ہولنiiاک واقعہ۷۰بکھیرنے اورتختے الٹ دینے کے واقعات اور اس قسم کے دیگر بیانات ۔ جس سiiے ظiiاہر ہے کہ یہ بیانiiات نہiiای قiiدیم ہیں اور1کے بعiiد پیiiدا ہی نہیں ہوسiiکتے تھے

آاخر کے زمانہ کے نہیں ہیں۔ چنiiانچہ مقiiدس کے ڈھiائے جiiانے کے الiiزام ) :۱۱پہلی صدی کے آانخداوند نے " یہ اپنے بiiد� کے مقiiدس کی۱۹: ۲، ۴۸ ( کی یہ مصنف یوں تاوی� کرتاہے کہ

(۔ اگرہیک� برباد ہوگiiئی تiiو اس تاوی�ii کی ضiiرورت ہی نہ پiiڑتی بلکہ یہ واقعہ۲۱: ۲باب کہا تھا) ثبiiوت شiiمار کیiiا جاتiiا ۔ علاوہ ازیں انجی�ii کے بعضiiا زبردسiiینگوئ کiiود کی پیشiiیح موعiiمس مقامات کے الفا� سے بھی یہی ثاب ہے کہ اس کی تصنیف کے وق شہر یروشلیم سiiلام

اا یروشiiلیم میں بھiiیڑ دروازہ کے پiiاس ایiiک حiiو} ہے جiiو عiiبرانی میں بی حسiiدا2تھا ۔ " مثلآامدے ہیں" ) آایiiا۲: ۵کہلاتاہے اوراس کے پانچ بر آای میں فع� حال متواتر تiiرین دفعہ (۔ اس ایک

ل� چہiiارم iiال انجیiiح �iiڑے تھے۔ یہ فعiiکھ ل تصiiنیف سiب سiلام ہے جس سے ظاہر ہے کہ بوقآای میں فع� ماضی پایا نہیں جاتا۔ کے تمام نسخوں میں موجود ہے اورکسی قرات میں بھی اس اس قسم کی تفصیلات جو محض ضمنی طiiورپر بیiiا� کی گiiئی ہیں ،اس انجی�ii میں )جیسا ہم گذشتہ باب میں بتلاچکے ہیں ( جابجا پائی جاتی ہیں اورانجی� کی قدام پiiر گiiواہ

ء میں لکھی جiاتی تiiو ا� ضiiمنی تفاصiی� کiا انجی�i میں وجiiود۱۱۰ء یا ۹۰ہیں۔ اگر یہ انجی� بھی نہ ہوتiiا ۔ کیiiونکہ اس قiiدر طوی�ii مiiدت کے بعiiد ایسiiی تفصiiیلات لکھiiنے کے قاب�ii نہیں سمجھی جiاتیں ۔ اس پہلiو سiے بھی ظiiاہر ہے کہ یہ انجی�ii منiدرجہ واقعiات کے ہiiونے کے عین1 J.Armitage Robinson, The Historical Character of Our Gospels. Exp. Times July 1947 pp.458-4592 W.F.Albright, The Archaeology of Palestine.

Page 48: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

آاگiئی تھی۔ یہ امiر بھی ہمiارے اس نiتیجہ بعد کسی نزدیک کے مستقب� میں احاطہ تحریiر میں ء کے لگ بھگ لکھی گئی تھی۔۵۰کی تائید اور تصدیق کرتاہے کہ یہ انجی�

ل� حiال کiiا iiات میں فعiالا مقامiذکورہ بiلس مطلب ۔ م آامiدم بiر یہ تiiو جملہ معترضiہ تھiiا۔ وجود یہ ثاب کرتاہے کہ جب یہ انجی� تصنیف کی گئی تھی اس وق یروشلیم کا شہر سiiلام کھڑا تھا اوراس کی ہیک� بھی سلام کھڑی تھی۔ بعض اصحاب اس دلی�ii پiر اعiترا} کiرکے کہتے ہیں کہ مقiiدس یوحنiا بعض مقامiات میں فع�ii ماضiی کiا بھی اسiتعمال کرتiاہے۔ یہ بiات ہے کہ جب ہم کسiiی جگہ کiiا بیiiا� کiiرتے ہیں تiiو گiiو جiiائے وقiiوع ذکiiر کiiرنے کے وقiiدرس اا کہiiتے ہیں " ل� ماضی کا استعمال کرتے ہیں ۔ مثل موجود ہوتی ہے پھر بھی ہم بعض اوقات فع میں دہلی گیا وہاں قطب صاحب کی لاٹ کھڑی تھی"۔ اس فقرہ کے فع� ماضی کiiا مطلب یہ�iا فعiدس یوحنiiات میں مقiرح بعض مقامiiی طiڑی نہیں ہے۔ اسiiاں لاٹ کھiiنہیں ہوتا کہ اب وہ

اا میں وہ لکھتiاہے" وہiاں پiانی بہ تھiا" لیکن اس۲۳: ۳ماضی کiا بھی اسiتعمال کرتiاہے مثل آای کے فع�ii ماضiی کiا مطلب یہ نہیں کہ انجی�i کی تصiنیف کے وق وہiiاں پiانی نہیں تھiiا۔ل� ماضی کے استعمال سے ہم یہ احذ نہیں کرسکتے کہ وہ شئے یا جگہ حال کے زمانہ پس فع ل میں موجود نہیں۔ ہاں اگر فع� حال ایسے مقام یا ایسی شے کے لئے اسiتعمال ہiiوا ہiiو جiو بiوق

(۲۳: ۳تصنیف موجود نہ ہو تو یہ نتیجہ درس نہ ہوگا۔ پس جب مقدس یوحنا فع� ماضی کا )ل تصiنیف بربiاد۲: ۵یا فع� حiال کiا) ( اسiتعمال کرتiاہے تiو یہ ثiاب ہوجاتiاہے کہ یروشiلیم بiوق

ل تصنیف" شالیم کے نزدیک عینiiو� نہیں ہوا تھا اوراس کے مضافات بدستور قائم تھے اور بوقمیں پانی بہ تھا"۔

( میں ہے " یوحنiiا۲۳: ۳ ۔ )1ہم ایک اور مثال سے اس حقیق کو واضiiح کردیiتے ہیں بھی شالیم کے نزدیک عینو� میں بپتسمہ دیتا تھا کیiونکہ وہiiاں پiانی بہ تھiiا"۔ ا� الفiiا� سiے آای ظاہر ہے کہ یہ مقامات یرد� کی وادی میں واقعہ نہیں تھے کیونکہ " وہiiاں پiiانی بہ تھiiا" ۔

آائے تھے جiiو عiiام طiiورپر۲۲ تاس راسiiتہ سiiے یہiiودیہ آاپ کے شاگرد میں ہے کہ سیدنا مسیح اور 1 J.A.Mc Clymont, St. John.( Cent Bible, 1922)

استعمال ہوتا تھا۔ پس عام مفسروں کی رائے غل� ہے اور "شالیم" وہی قصبہ ہے جiiو قiiدیم زمiiانہ میں اس نام سے مشہور تھا جو نiiابلس کے جنiiوب میں مغiiرب میں واقiiع ہے۔ اور یہ کiiوئی اتفiiا� کی بات نہیں تھی کہ وہاں" عینو�" بھی پاس ہی ہے اور نزدیک کی وادی فارعہ میں بہ پانی

ہے۔ (۔۵: ۴اسiی نiواحی میں منجiiئی عiiالمین" سiوخار" میں سiامری عiiورت کiو ملے تھے)

اا یہ خیiال کiرتے تھے کہ" سiوخار" وہ گiاؤں ہے جس کiو " عسiکر")لشiکر iر عمومiاد اور مفسiiنق گاہ( کہتے ہیں لیکن اب سیلن کی کھدائیوں نے یہ ثiiاب کردیiiاہے کہ یہ وہی جگہ ہے جس کiiو

لر قدیمہ نے انجیلی بیا� کی صح کو ثاب کردیا ہے۔ آاثا " سکم" کہا گیا ہے اور ا� مثالوں کے علاوہ انجی� چہارم کے دیگر مقامات سiے بھی یہی ثiاب ہے کہ جیسiا

تاوپiiر کہہ چکے ہیں انجی�ii چہiiارم کiiا جغiiرافیہ صiiحیح ہے اور یہ حقیق نہ صiiرف ا س۱۷ہم انجی�i کی صiح اورپiایہ اعتبiار پiر دلال کiرتی ہے بلکہ یہ بھی ثiاب کردیiتی ہے کہ اس کے

لر قiiدیمہ کے نتiiائج۷۰ء اور ۶۶بیانات آاثiiا ء کے چار سالہ فسادوں سے بہ پہلے کے ہیں۔ پس یی کے مصiiد� ہیں کہ انجی�ii چہiiارم پہلی صiiدی کے نصiiف کے لiiگ بھiiگ بھی ہمiiارے دعiiو

لکھی گئی تھی۔ ہم گذشتہ بiiاب میں بتلاچکے ہیں کہ یہiiودی علمiiاء میں سiiےابراہا، گiiڈمین وغiiیرہ جiiوتاسiiتاد مiiانے جiiاتے ہیں ، بتلاتے ہیں کہ انجی�ii کی فضiiا اپنے علم وفض� کے لئے مسiiلم الثبiiوت پہلی صدی مسیحی کی ہے ، جس میں یہiiودی خصوصiiیات موجiiود ہیں اور کہ جiiو تصiiویر اس میں قiiوم یہiiود کی زنiiدگی کی پiiائی جiiاتی ہے ، اس کی صiiح میں کسiiی کiiو کلام نہیں iiدرس �اiiہوسکتا اور جس جگہ نقاد اور مفسر انجی� سے اختلاف کرتے ہیں وہاں انجی� کا بی اور مفسiiiروں کی رائے غل�iii ہے۔ اور کہ پہلی صiiiدی کے یہiiiود کی کتب انجیلی بیانiiiات اور

ء کے بعد اس صiiح کے سiiاتھ احiiاطہ۷۰تفصیلات کی صح کی گواہ ہیں۔ یہ تفصیلات آاسiکتی تھیں کیiونکہ یروشiلیم، اس کی ہیک�i اور مضiافات سiب کھنiڈروں کiا تحریر میں نہیں

Page 49: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

ولی زندگی ختم ہوگئی تھی۔ پس یہ انجی� لم یہود کی م ء کے بعiiد نہیں۷۰ڈھیر ہوچکا تھا اورقو لکھی گئی تھی بلکہ اس سے بہ پہلے ، پہلی صدی کے نصف کے لگ بھگ احاطہ تحریر

آاچکی تھی۔ میں (۳)

�iiجو اصحاب کہتے ہیں کہ یہ انجی� پہلی صدی کے اواخر یا دوری صدی کے اوائ تا� کی مضبوط ترین دلائ� میں سے ایک دلی� یہ ہے کہ انجی� چہiiارم ا� میں لکھی گئی تھی آائینہ دار ہے جiو یہiودی قiiوم اورمسiیحی کلیسiیا کے مiابین پہلی صiدی کے اواخiر تعلقiiات کی ل� iiا ہے کہ اہiiاہر کردیتiiالعہ یہ ظiiا مطiiل� اربعہ ک اور دوسری صدی کے شروع میں تھے۔ لیکن اناجیآاپ کiiو مiiوت کے آانخداوند کی مخالف پر تلے ہوئے تھے اور ابتدا ہی سے یہود شروع ہی سے

وغiiیرہ(۔ پس قiiدیم تiiرین۶: ۳۔ ۲۰تiiا ۷: ۲گھiiاٹ اتiiارنے کے منصiiوبے بانiiدھتے تھے )مiiرقس آاتی ہے اورانجی� چہارم ہمیں بتلاتی ہے کہ انجی� کے ابتدائی ابواب میں ہی سے مخالف نظر لر اقتiiدار پiiارٹی کی iiلیم کی برسiiو یروشiiتھی ج یہiiود کی مخiiالف کiiا سرچشiiمہ وہ مخاصiiملم یہود کے روسا حضرت کلمتہ اللہ سے رکھتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ صiiدوقیوں کی طرف سے قو یہ پارٹی مناسب وق پر تمام باتیں اپنے ہاتھ میں لے کر مصلوب کرواکے دم لیتی ہے۔ اور یiiوں یہ انجی� قوم یہود کے لیڈروں کی رو* پر روشنی ڈال کر یہود کی مخالف کے اص� منبع کولب اختیiار لوگiوں بتلا دیتی ہے ۔ مقدس مرقس کiا بھی یہی بیiا� ہے کہ فقیہ یروشiلیم کے صiاح

وغiiیرہ(۔ پس اس نکتہ پiiر۲۲: ۳ ۔ ۱: ۷کی طiiرف سiiے گلی�ii کی جiiانب بھیجے گiiئے تھے)بھی یہ اناجی� ایک دوسرے کے بیانات پر روشنی ڈالتی ہیں۔

یہ نقاد ایک اور دلی� بھی دیتے ہیں کہ چونکہ اس انجی� میں باربiiار لفiiظ " یہودیiiوں"آاخر میں لکھی گئی تھی۔ لیکن ہم کو یہ یادر کھنا چاہیے آایا ہے پس یہ انجی� پہلی صدی کے کہ اس انجی� میں لفظ" یہودیوں" سے مراد نہ صرف یروشلیم کے رہنے والے ہیں بلکہ گلی� کے

و غiiيرہ(۔دیگiiر انجی�ii نiiویس بھی یہی اصiiطلاح۴۱: ۶باشiiندے بھی اس زمiiرہ میں شiiام� ہیں) وغیرہ(۔۵۱: ۲۳۔ لوقا ۱۵: ۲۸استعمال کرتے ہیں )متی

انجی�ii چہiiارم کے مطiiالعہ سiiے ظiiiاہر ہے کہ جب یہ انجی�ii لکھی گiiئی تھی تویہiiود مسیحی کے جانی دشمن تھے اوریہی فضا اعمال کی کتاب کی ہے کیونکہ صلیب کے جانبازتبن سiے ہلادیiا تھiا۔ لیکن بiایں ہمہ انجی�i چہiارم کiا مصiنف رسولوں نے یہودی مiذہب کiو بی\ ول� یہود حضرت کلمتہ اللہ کو اپنا مسiیح موعiود مiا� لیں" جس کiا ہرممکن کوشش کرتا ہے کہ اہ

( وہ بنی اسرائی� کے بزرگiiوں کے نiiام اوریہiiودی رسiiو م۴۵: ۱ذکر توری نے اورنبیوں نے کیا ہے")آاسiمانی روٹی وغiیرہ کی نسiب بتلاتiاہے۔ وہ اس یی ، سiب ، ختنہ ، iکے ذکر میں ابراہام، موس آانخداونiد کے حiق میں گiواہی دی تھی اور وہ بات پر زوردیتا ہے کہ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے

آاتiاہے ) ۔۳۶تiا ۳۳: ۵۔ ۳۶تiا ۲۵: ۳۔ ۳۶تiا ۱۹، ۶: ۱صرف گواہی دیiنے کے لiئے انجی�i میں ال\ وغیرہ(۔۴۰: ۱۰

تتب ل� یہiiود کی ک iiئے اہiiاب" ابن اللہ" کے لiiیح کے خطiiیدنا مسiiیہی وجہ ہے کہ وہ س آانخداونiiد۳۶تiiا ۳۳: ۱۰سے سہارا لیتا ہے جب وہ اس خطاب کو کفر خیال کiiرتے ہیں ) (۔ جب

آاپ کی مسiiیحائی کے ثبiiوت میں پیش کرتiiاہے ) :۱۹کی پسلی چھیدی جiiاتی ہے تiiو وہ یہ امiiر (۔ مصنف اس بات پر زوردیتا ہے کہ مسیح موعود نے برضاورغب خودصلیبی موت کو۳۷تا ۳۲

آاخر۔ ۱۷: ۱۰قبول فرمایا) آاپ کiiو یہiiوداہ غiiدار کی غiiداری۱۱: ۱۹۔ ۱۱: ۱۸تا وغیرہ(۔ کیونکہ آادم کی نجات کی تiiدبیری کا علم تھا۔ لیکن سیدنا مسیح نے اس کو قبول فرمایا کیونکہ یہ بنی لت بینات کو" نشا�" بتلاتiiاہے کیiiونکہ وہ روحiiانی آانخداوند کے معجزا کا حصہ تھا۔ یہ مصنف

وغیرہ( چنانچہ پانچ ہزار کو کھانا کھلانiiا۳۰: ۲۰۔ ۵۳تا ۴۸: ۴۔ ۱۱: ۲حقائق کے نشا� تھے) ۔۳۵: ۶اور لعزر کو مردوں میں سے زنiiدہ کرنiiا وغiiیرہ سiiب روحiiانی حقیقتiiوں کے نشiiانات ہیں)

۔ یہ تمام ثبوت اور دلائ� اس بات کے گواہ ہیں کہ جب یہ انجی� لکھی گئی1 ال\(۲۵: ۱۱

1 See Albright,Archaeology of Palestine p. 240

Page 50: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

لم یہود کا شیرازہ ابھی پراگندہ نہیں ہوا تھا اورکسiiی کے خiiواب وخیiiال میں بھی نہیں تھی تب قوآایا تھا کہ یہود کی قومی اورملی زندگی کا بیس سال کے اندر اندر خاتمہ ہوجائیگا۔

ل� یہiود مسiیحی کے iاہ تاوپiر لکھ چکے ہیں کہ اس انجی�i کی تصiنیف کے وق ہم جانی دشمن تھے اوریہ فضiiا وہی ہے جiiو اعمiiال الرس�ii کی ہے، جہiiاں یہiiود کے رؤسiiا کلیسiiیا کے مبلغین کو کچلنے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔ اس انجی� میں ایمانداروں کی ایذارسiiانیوں

لم یہiiود ہی سiے۳: ۱۶تا ۱۸: ۱۵کے الفا� ) وغیرہ(۔ سiے عیiiاں ہے کہ یہ ایiذائیں کلیسiیا کiو قiiو ملیں گی۔ ایما� دار عبادت خانوں سے خارج کردئیے جائیں گے اور وہ اپنی قiiوم اور اپiiنے لوگiiوں کے ہiiاتھوں مقiiدس سiiتیفنس کی طiiرح مiiوت کے گھiiاٹ اتiiاردئيے جiiائیں گے۔ ا� الفiiا� میں

لم عiiام رکھiiتے ہیں۔ یہی بiiات مiiرقس :۸کسiiی زمiiانہ کی تخصiiیص نہیں کی گiiئی بلکہ وہ حک :۱۶ میں پائی جاتی ہے ۔ یوحنiiا ۲۵تا ۲۲: ۱۷۔۵۸تا ۵۰: ۱۲ اور لوقا ۲۴: ۱۰ اورمتی ۳۵تا ۳۱ل} مقiiدس کے۲ لم یہiiود کے حiiالات اور ار سiiے ظiiاہرہے کہ جب یہ انجی�ii لکھی گiiئی تھی قiiو

تا� کے ل� یہiiود اور iiآانخداوند کے زمانہ میں تھے۔ سیاسی تبدیلیوں کا یا اہ حالات وہی تھے جو آاتشزدگی وغiiیرہ کiiا اشiiارہ حکمرانوں کے درمیا� لڑائیوں کا یا یروشلیم کا تباہی کا یا ہیک� کی

تک نہیں ملتا۔آاخر میں لکھی جاتی تویہ نiiاممکن امiiر تھiiا کہ قیصiiر نiiیرو اگریہ انجی� پہلی صدی کے اوراس کے جانشینوں کی ایذارسانیوں کا ذکر اور" مرتے دم تک وفادار رہنے" کی نصحی وغiiيرہ کiiو اس انجی�ii میں کiiوئی جگہ نہ ملiiتی ۔ اس انجی�ii کے فضiiا اور یوحنiiا کے مکاشiiفات کی

آاسiما� وزمین کiا فiر� ہے۔۹۶ء اور ۸۰کتاب کی فضا میں )جiو ء( کے درمیiا� لکھی گiئی تھی(ترومی سiiرکار نہیں ہے۔ اس کے خطبiiات )بiiاب ( میں۱۷ تiiا ۱۵اس انجی�ii میں ایiiذا دیiiنے والی

یے کiiو تسiiلیم نہیں کرسiiکتے مقدمات بادشاہوں اورحاکموں کے سامنے نہیں ہیں۔پس ہم اس دعiiوآاخiiر میں لکھی گiiئی تھی۔ اس کے بiiرعکس اس انجی�ii کی فضiiا کہ یہ انجی�ii پہلی صiiدی کے

پہلی صدی کے نصف کے زمانہ کی فضا ہے۔

(۴)آامiiد کے انتظiiار میں لح موعiiود کی ل� یہiiود مسiiی iiانہ میں اہiiکے زم آانخداونiiد کی بعث

تا� کے انتظار کا یہ سماں ہو بہiiو وہی ہے جiو اس انجی�ii میں پایiiا جاتiiا ہے ) آاخiiر۱۹: ۱تھے۔ تiا وغiiیرہ(۔ پس یہ تiiواریخی انتظiiار نہ صiiرف۱۵: ۱۲۔ ۵۲ ، ۴۴، ۴۰، ۳۱، ۲۷، ۲۵: ۷۔ ۱۵: ۶

انجی� کی صح اورپایہ اعتبار کو گواہ ہے۔ بلکہ ثاب کرتiiاہے کہ یہ انجی�ii پہلی صiiدی کےآاچکی تھی کیiiونکہ مسiiیحائی کے یہiiودی تصiiور کiiا اواخر سے مدتوں پہلے احاطہ تحریر میں

ل} مقiiدس میں یہiiود کے سیاسiiی غلبہ کے سiiاتھ تھiiا۔ ء۹۰تعلiق اس دنیiiا کی سیاسiiیات اور ارلف غل�ii کی تک یہ تمام تصiiورات نہ صiرف ختم ہiiوچکے تھے بلکہ لوگiiوں کے دلiiوں سiiے حiiر طiiرح مٹ کiiر محiiو ہiiوچکے تھے۔ پس اس قسiiم کی تفصiiیلات سiiے ثiiاب ہوجاتiiاہے کہ یہتاس زمiiانہ میں لکھی گiiئی تھی جب ابھی یہ تصiورات نہ صiiرف زنiدہ تھے بلکہ یہiiود کی انجی� قiiومی اور ملی زنiiدگی کی ڈھiiال رہے تھے۔ یہ ایسiiی تفصiiیلات ہیں جiiو ضiiمنی طiiورپر لکھی جاتی ہیں اور لاشعوری کی حال میں قلم سے نک� جiiاتی ہیں۔ اگiiر کiوئی مصiiنف اپiنے دمiiاغ سے اختراع کرے تو وہ اس قسم کی ضمنی تفصیلات لکھتے وق چوکس نہیں ہوتا۔ وہ صرفتامور میں ہی خبردار رہتاہے ۔ لیکن انجی� کے سiiطحی مطiiالعہ سiiے بھی ظiiاہر ہے بڑے ضروری کہ مصiiiنف نے انجی�iii کی تفصiiiیلات چوکسiiiی کی حiiiال میں نہیں لکھیں ۔ یہ حقیق نہ

تاس کی تواریخی صح پر شاہد ہے بلکہ اس کی قدام کی بھی گواہ ہے۔ صرف ل} مقiiدس لم اسiiرائي� کی زنiدگی کی تصiiویر بعینہ وہی ہے جiiو ار انجی�ii چہiiارم میں قiiو میں پہلی صiدی کے نصiف کے زمiانہ میں تھی۔ اس حقیق کے )جیسiا ہم گذشiتہ بiاب میں�iiا مفصiiالات کiiدس کے حiiل} مق بتلاچکے ہیں ( خود یہودی علماء اور فضiiلا گiiواہ ہیں۔ ہم اروول میں کiiرچکے ہیں اور وہiiاں بتلاچکے ل� ا iiوول کی فص وول کے حصiiہ سiiوم کے بiiاب ا ذکر جلدا ہیں کہ پہلی صدی کے نصف کے بعد یہودی قوم کی ملی زندگی ، اوریہودی پارٹیاں ، اوربنی ترومی حکام کے باہمی تعلقات کیا تھے۔ انجی� چہارم میں اسرائیلی قiiوم کی حiiال اسرائی� اور

Page 51: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

ء کے بعد کی نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے کی ہے اورثاب کرتی ہے کہ یہ انجی�۶۰کی تصویر ء کے لگ بھگ لکھی گئی تھی۔۵۰ء سے پہلے اور ۶۰

(۵) جب ہم اس انجی� میں مسیحی کلیسیا کی زندگی کی طرف متiوجہ کiرتے ہیں تiو اس

�iiاہے کہ یہ انجیiiن کردیتiiر روشiiالعہ بھی ہم پiiا مطiiئی تھی۔ اس۵۰کiiگ لکھی گiiگ بھiiء کے ل انجی� میں مسیحی کلیسیا کی تنظیم ، ترقی اور مسیحی جماع کی بیرونی تشکی� کا کہیںآاتا۔ منجئی عالمین اپنے شاگردوں اور دیگر ایما� داروں کے لئے دعا فرمiiاتے ہیں کہ وہ ذکر نہیں

(۔ مسiیحی کلیسiیا کiا یہiiودی حلقہ۲۶تiا ۹: ۱۷۔ ۱۷تiا ۱: ۱۵خداونiد میں قiiائم رہیں اور بس )تجدا ہوکر الگ جماع بننے کا ، اورایک مستق� جiiدا ہسiiتی قiiائم رکھiiنے والی جمiiاع کiiا سے ذکر چھوڑ کر اشارہ تک نہیں پایا جاتا۔ اگریہ انجی� پہلی صدی کےاواخر یiiا دوسiiری صiiدی کے اوائ�ii میں لکھی جiiاتی تiiو اس میں کلیسiiیا کی یہ تصiiویر نہ ہiiوتی توجواعمiiال کی کتiiاب کی

ء تک تو کلیسiیا نہ صiiرف ایiiک روزافiiزوں مسiiتق� جمiiاع بن۹۰تصویر کے مطابق ہے۔ کیونکہ گئی تھی اور اس کا تعلق یہودی قوم اور یہودی عبادت خانوں سے ٹو ٹ چکا تھا بلکہ اس کی تنظیم ہوچکی تھی اوراس میں باقاعدہ بشپ اور پرسiبٹر تھے جنہiوں نے اس کiو نiئی تشiکی� دے

ء میں لکھے۱۱۰دی تھی جس کی تصویر ہمیں مقدس اگنیشئیس کے خطiiوط میں ملiiتی ہے جوگئے تھے۔

لیکن انجی� چہارم کی وہ فضiiا نہیں جiiو مقiiدس اگنشiiئیس کے خطiiوط کی ہے۔ بلکہوولین دور کے اس کی فضiiiا رسiiiولوں کے اعمiiiال کی فضiiiا ہے اور اس کiiiا مصiiiنف کلیسiiiیا کے ا استادوں کے گروہ سے تعلق رکھتاہے ، جس کا مقصد پولوس کی طiiرح یہ ایمiا� تھiiا کہ حضiiرت کلمتہ اللہ منجئی جہا� ہیں اورکلیسیا میں یہود اورغiیر یہiود ، دونiوں برابiر کے شiریک ہیں اگiرچہللم خiiیر غiiیر یہiiود کiiو یہودکو یہ فضیل حاص� ہے کہ اس قوم کے ذریعہ خدا کی نجا ت کiiا ع

(۔ گiiiو اس انجی�iii کے مکالمiiiات میں حضiiiرت کلمتہ اللہ کی تعلیم کی۲۲: ۴حاص�iii ہiiiوا ہے)

وغiiیرہ(بعینہ جس طiiiرح رسiiالہ۳۲تiiا ۲۳: ۱۲۔ ۱۶: ۱۰۔ ۳۸تiiا ۳۵: ۴عiiiالمگیری کiiا ذکiiiر ہے)لن حیات میں لکھا گیا تھا)لوقا آانخداوند کی حی ، مiiتی۲۹: ۱۳کلمات میں اس کا ذکر ہے جو

وغiiیرہ(۔ لیکن اس انجی�ii میں ایمiiا� داروں کiiو غiiیر یہiiود میں منiiادی کiiرنے کiiاحکم بھی۱۱: ۷ موجiiو دنہیں اورنہ یہ بتلایiiا گیiiا کہ وہ کس شiiرط پiiر کلیسiiیا میں داخ�ii ہوسiiکتے ہیں۔ اس نکتہل� خiiاطر رکھiiتے ہیں کہ منجiiئی کی اہمی ہم پiiر ظiiاہر ہوجiiاتی ہے جب ہم اس امiiر کiiو ملحiiو عالمین کی صلیبی موت کے بیس پچیس سال تک ا� مسائ� پر نہای گرما گرم بحث جiiاری رہی تھی۔ پس اس انجی� کی فضا وہی ہے جو رسلہ اعمiال الرس�i کےپہلے بiارہ ابiواب کی ہے۔

ل� دیگر یہ انجی� یروشiiلیم کی کونس�ii کے انعقiiاد ) ء( کے لiiک بھiiگ لکھی گiiئی تھی۴۹بالفااورپہلی صدی کے نصف سے تعلق رکھتی ہے۔

ل� چہارم میں لفظ" دنیiiا" ) ل� غور ہے۔ انجی ۔۱۹تiiا ۱۶: ۳اس سلسلہ میں ایک اورامر قاب (سiiiiiےمراد غiiiiiیر۳۷: ۱۸۔ ۲۸: ۱۶۔ ۴۶: ۱۲۔ ۳۶: ۱۰۔ ۳۹، ۵: ۹۔ ۱۲: ۸، ۵۱تiiiiiا ۳۳: ۶

یہودی دنیا نہیں ہے۔ ا� مقامات میں لفظ" دنیا" میں اور" بنی اسرائي�" میں تخالف مقصود نہیں بلکہ" دنیا" اور " خدا " میں تخالف وتضاد مقصود ہے۔یہ بعینہ ایسا ہے جس طرح انجی� لوقامیں

آاسiiما� " اور " زمین" مسiتعم� ہiiوئے۱۲: ۵۔ ۳۴: ۱۰( اور انجی�ii مiتی میں )۴۹: ۱۲) ( الفiiا�" ء میں تiiو بiiنی اسiiرائي� اور غiiیر یہiiود کے بiiاہمی تعلقiiات ایiiک فiiاتح قiiوم اورایiiک۹۰ہیں ۔ لیکن

پراگندہ قوم کے تھے۔آائنiiدہ واقعiiات ایک اور امر سے اس انجی� کی قدام پائی جاتی ہے۔ اس میں وہ نہ تiiو

�iiریہ انجیiاہے۔ اگiارہ ہی ملتiiوئی اشiکی جانب ک �ا ۹۰کا کہیں ذکر پایا جاتاہے اورنہ اiiء۱۱۰ء ی ء۵۰کے قریب لکھی جاتی توا� واقعات کا اس انجی� میں اگر ذکر نہیں ، تواشارہ ضرور ہوتا جو

کے بعد کلیسیا کے مستقب� کے لئے ایسiiے اہم ثiiاب ہiiوئے کہ کلیسiiیا کی کایiiا پلٹ گiiئی۔ اس انجی� میں روح القدس کے ملنے کا وعدہ ضرور موجود ہے لیکن اس میں یہ بھی نہیں بتلایا گیااا زبiانوں کiا بولنiا، نبiوت کiا عطiا کہ رسولی زمانہ میں روح القدس کیا صiورتیں اختیiا رکریگiا مثل

Page 52: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

ہونا،رویا کا دیکھنا وغیرہ وغیرہ۔ الغر} یہ تمام باتیں ثاب کرتی ہیں کہ یہ انجی� پہلی صiiدی کےاا ارو� یی کہ بعض علمiiاء مثل اواخر سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ قدیم ترین زمانہ سے متعلق ہے۔ حت گڈاینیف کہتے ہیں کہ انجی�ii چہiiارم سiiب سiiے بعiiد لکھے جiiانے کی بجiiائے سiiب سiiے پہلے

آائی تھی ۔ فیررفینٹن بھی کہتاہے کہ یوحنا کی انجی�ii اناجی�ii متفقہ سiiے پہلے1احاطہ تحریر میں ل� چہiارم کiا پہلی تین انجیلiوں2لکھی گئی تھی i۔ ایک فرانسیسی نقاد لکھتاہے کہ جب ہم انجی

آاتی ہے ل� چہارم ا� سےپہلے کے ابتدائی زمانہ کی تصنیف نظiiر ۔3سے مقابلہ کرتے ہیں تو انجیتا� دنiوں میں لکھی گiئی تھی جب رسiولی �iابق یہ انجیiورین کینن کے مطiقدیم زمانہ کے میورات

ء کiiا ہے جس کiiا۴۲گiiروہ ابھی یروشiiلیم سiiے منتشiiر نہیں ہiiوا تھiiا۔ روای کے مطiiابق یہ واقعہ ء سے پہلے لکھی گئی تھی۔۴۲مطلب یہ ہے کہ کینن کے مطابق یہ انجی�

(۶) ء کے بعد سے )اور بالخصوص پہلی صدی کے اواخر میں( یونiiانی فلسiiفہ کی وجہ۵۰

سے کلیسیا میں بدعتیں رونما ہوگئی تھیں۔ ا� بدعتوں کا وجود غناسiiطی فلاسiiفہ کی وجہ سiiےل� چہارم ہوا جو مسیحی معتقدات کی یونانی فلسفہ کی روشنی میں تاوی� کرتے تھے۔ لیکن انجیتا� کی جiiانب اشiiارہ بھی پایiا نہیں جاتiا اورنہ کلیسiیا کiو ا� میں ا� بدعتوں کا ذکiiر توالiگ رہiiا �iiی انجیiiونکہ اسiiاہے کیiiوجب ہوجاتiiا مiiکے خلاف خبردار کیا جاتاہے۔ یہ امر اوربھی حیرت ک

آاگiiاہ کیiiا ہے) تاستادوں کے خلاف کلیسیا کوباربار ۔۱کے مصنف نے اپنے خطوط میں جھوٹے (۔یہ خ�ii مختصiiر ہے لیکن۳تiiا ۱: ۴۔ ۲۲تiiا ۱۸: ۲۔ ۶: ۵۔ ۲: ۴۔ ۲۲: ۲۔ ۱۲تا ۷: ۳یوحنا

آایiات پiر مشiتم� ہے۱۳اس میں تنبیہ بار بار کی گئی ہے۔ اسی مصiنف کiا دوسiرا خ�i صiرف آای ( ۔ کلیسiiiیائی روای کے مطiiiابق یہ۷لیکن اس میں بھی بiiiدعتوں کiiiا ذکiiiر موجiiiو دہے )

مصنف ایسا غور تھاکہ کسی بدعتی معلم کے ساتھ ایiiک ہی چھ کے نیچے رہiiنے میں اس

1 Cambridge Biblical Essays p. 4372Quoted in Hoskyn’s Fourth Gospel p. 223 A.E.Brooke, “The Historical Value of the Fourth Gospel in Cambridge Biblical Essays pp. 291-328.

ل� سلیم اس بات کو قبول نہیں کرسکتی کہ اگرانجی� کو خدا کے غضب کا اندیشہ تھا۔ پس عقآاگiاہ بھی نہ کی تصنیف کے وق بدعتی تعلیم کا رواج ہوتiا تiو وہ خiامو* رہتiا اورکلیسiیا کiو کرتا۔ اس دلی� کا زور اوربھی بڑھ جاتiiاہے جب ہم یہ یiiاد رکھiiتے ہیں کہ یہ خطiiوط پہلی صiiدی�iiاء کے زعم میں انجیiiعلم �ئے تھے جب اiiمیں لکھے گ �iiدی کے اوائiiآاخر اور دوسری ص کے

چہارم لکھی گئی تھی۔!آایا ہے) :۱۱۔ ۷تiiا ۶: ۴انج� چہارم میں ابن اللہ کے کام� انسا� ہونے کا جابجا ذکر

وغiiیرہ(۔ اس حقیق سiiے بعض علمiiاء اور مفسiiرین کiiو یہ دھوکiiا ہiiواہے کہ ا� مقامiiات میں۳۵تا� کiiا محض ظن ہے۔ اس4غناسطی اور ڈوسٹیک بدعتوں کی پیش بندی کی گئی ہے ۔ لیکن یہ

آاپ کی کام�ii انسiiانی کiiا انجی� کا مصنف جہاں کلمتہ اللہ کے ازل سے ہونے کا قائ�ii ہے وہ آانخداوند سے بخوبی واقف تھے۔ انہوں نے بھی قائ� ہے۔ اس کا مصنف اورمنصف کے ہمعصر آانکھوں سے دیکھiiا بلکہ غiiور سiiے لت طیبات کو سنا تھا اور "اپنی آاپ کے کلما اپنے کانوں سے

لک جسم کو" اپiiنے ہiiاتھوں سiiے چھiiوا تھiiا") آاپ کے مبار تانہوں نے تiiا۱: ۱۔یوحنiiا ۱دیکھا تھا"۔ ۴ آاپ کی انسانی کا ذکر کرتاہے تو وہ محض ایiiک چشiiم دیiiد حقیق (۔ پس جب مصنف

کا بیا� کرتاہے ۔ وہ یہ باتیں غناسiiطی اور دوسiiری بiدعتوں کے رد کiرنے کےلiئے نہیں لکھتiا۔تا� باتوں کiiو صiiرف جن کی یہ تعلیم تھی کہ ابن اللہ کا جسم مادی نہیں بلکہ نوری تھا۔ وہ آانخداوند سiiامریہ میں کنiiوئیں پiiر تھiiک کiiربیٹھ گiiئے۔ وہ اس اا یہ کہ قدرتی طورپر لکھتاہے مثل مقام میں صرف ایک حقیقی واقعہ کا ہی ذکiر کرتiاہے۔ اور ا� الفiiا� سiے اس کiا مقصiد کسiی

اا ۔ ال\ کiا مقiام لےلiو۔ اس مقiiام میں روحiانی۲۰: ۱۲غناسiطی بiدع کiو ردکرنiا نہیں ہے مثل آای ( جس میں کلiiوری کی صiiلیب سiiے فiiرار کiiا امکiiا� تھiiا۔ لیکن۲۷کشمکش کا ذکiiر ہے )

آاتے ہیں اورصiiلیب کی راہ کiiو برضiiاورغب خiiود قبiiول آازمiiائش پiiر غiiالب منجiiئی عiiالمین اس آایات یی ہiذا القیiاس ۳۵ تا ۲۷فرماتے ہیں ) میں سiیدنا مسiیح کiا کلمہ " میں پیاسiا۲۸: ۱۹( عل

آاپ کی یہ حال کی اذی کا قدرتی نتیجہ تھی اور یہ واقعہ انجی� نویس صiiرف ہوں" درج ہے۔ 4 Manson, The Mission and Message of “Jesus p. 671.

Page 53: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

اس واسطے قلمبند کرتا ہے کیونکہ یہ ایک تاریخی واقعہ تھا۔ اس کو لکھنے سے اس کی مiiرادنہ تو کسی بدعتی تعلیم کو رد کرنا تھا اورنہ کسی دوسرے نظریہ کی تائید کرنا تھا۔

پس اس انجی� میں کسی بدع کا اشارہ تک پایا نہیں جاتا جس سiiے ظiiاہر ہے کہ یہآاخiر یiا دوسiری صiدی کے شiروع میں تصiنیف نہیں ہiوئی تھی۔ اس کے انجی�i پہلی صiدی کے برعکس یہ انجی� پہلی صدی کے نصiiف میں لکھی گiiئی جب کسiiی بiدع کiiا نiiام ونشiiا� تiiو

آایا تھا۔ الگ ، کسی کو ا� بدعتوں کا خواب وخیال بھی نہ (۷)

بعض علماء کہتےہیں کہ اس انجی� میں مصiiنف کے گہiiرے تجربiiات پiiائے جiiاتے ہیںتاس نے ا� جiiو بڑھiiاپے میں اس کiiو سiiیدنا مسiiیح کی رفiiاق کے ذریعہ حاص�ii ہiiوئے تھے پس تجربات کی بناء پiiر انجی�ii لکھی ، جس کے خیiiالات عمیiiق اورتصiiورات فلسiiفیانہ ہیں۔ پس یہ�iiئے تھے۔اس دلیiiیدہ ہوگiر رسiiا عمiiآائی جب مقدس یوحن تاس زمانہ میں احاطہ تحریر میں انجی� آاخiر ی حصiہ یiا دوسiiری صiiدی کے کی بنیاد پر یہ علماء اس انجی� کے لiئے پہلی صiدی کے

آاغاز کا زمانہ تجویز کرتے ہیں ۔آانخداونiiد ہم اس حصiiہ کے بiiاب چہiiارم میں یہ بتلاچکے ہیں کہ انجی�ii کiiا مصiiنف لم معجز نظام کی ایسی صحیح تاوی�ii کرتiiاہے آاپ کے سوانح حیات اورکلا کی زندگی کے مشن، تا� کے مطالب اور مفہوم سب کے سب روشن او رمنور ہوجiiاتے ہیں۔ مصiiنف کی تاوی�ii اس کہ کے ذاتی تجربہ اور تواریخی واقعات کی چٹا� پiر قiiائم ہے۔ پس اس کی تاوی�ii کی صiح میں

کسی کو کلام نہیں ہوسکتا۔ لیکن ا� علمiiاء کiiا یہ خیiiال غل�ii ہے کہ مسiiیحی تجiiربہ اور سiiیدنا مسiiیح کی رفiiاق کی گہiiرائی اور قiiرب انسiiانی زنiiدگی کے سiiالوں کی معیiiاد پiiر موقiiف ہے۔ سiiیدنا مسiiیح کییی ل الہ قرب کو حاص� کرنے کے لئے کسی خاص زمانہ کی ضiرورت نہیں ہiiوتی ۔ کیiونکہ قiرب

:۵زما� ومکا� کی قیود سے پرے ہے اوراس انجی� کا مصiiنف اس حقیق پiiر خiiاص زوردیتiiاہے )

یی قرب کے تجربہ کا زمانہ بلiiوغ نہ تiiو اکیس سiiال۲۴ وغیرہ(۔ سیدنا مسیح کی رفاق اورالہ کی عمر سے شروع ہوتاہے اورنہ یہ تجربہ بڑھاپے میں اپنے کمiiال کiiو پہنچتiiاہے۔ کلیسiiیائے جiiامع کے مقدسiiین کے سiiوانح حیiiات بھی ایسiiی حقیق کiiو ظiiاہر کردیiiتے ہیں۔ مثiiال کے طiiورپر مقدس پولوس رسول کے مسیحی تجربہ کی گہرائيوں تک بالعموم بہ کم لiiوگ پہنچے ہیں۔

آاخiiر میں حاص�ii نہیں ہiiوئی تھی۔ بلکہ جب یی قiiرب اس کی عمiiر کے ء۳۵لیکن اس کiiو الہآاپ کا مسiiیحی آاپ کو سیدنا مسیح کا دیدار حاص� ہوا تو آاپ کے دل کی تبدیلی ہوئی اور میں

یی قرب کا اس قiiدر احسiiاس تھiiاکہ آاپ کو الہ آاپ نے گلiiتیوں کiiو۴۶تجربہ شروع ہوا اور ء میں لکھا" میں مسیح کے ساتھ مصلوب ہوا ہوں اور اب میں زندہ نہ رہابلکہ مسیح مجھ میں زندہ ہے)

آاپ کiiو بڑھiiاپے میں۲۱: ۱۷۔ مقiiابلہ کiiرو یوحنiiا ۲۳: ۲ وغiiيرہ(۔ اور فنiiانی اللہ ہiiونے کی حiiالاا چiiالیس بiiرس کے مضiiبوط توانiiا انسiiا� تھے۔ پس کiiوئی آاپ قریب نصیب نہ ہوئی تھی بلکہ جب آاپ وجہ نہیں کہ مقدس یوحنا جیسے روحانی شخص کے مسیحی تجربہ کی بلوغ کiا زمiiانہ

کے بڑھاپے کا زمانہ ہو۔ حق تو یہ ہے کہ انجی� کا سطحی مطالعہ بھی یہ ثاب کردیتا ہے کہ یہ تصiiنیف کسiiی ایسiiے شiiخص کی نہیں ہے جiiو بڑھiiاپے میں لکھ رہiiا ہiiو۔ بڑھiiاپے میں انسiiا� کے تمiiام قiiواء اور پڑجiاتے ہیں اور دمiاغی قiوت جiواب دےدیiتی ہے۔ لیکن اسiوکر سسiزور ہiہ کمiائے رئیسiاعض انجی� کو پڑھ کر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے مصنف کے دماغی قواء مضحم� اور کمزور ہیں اور وہ گویا سٹھایا گیا ہے۔ اس کےبiرعکس انجی�i مصiنف پختہ دمiاغ کiا مالiکلت فکر میں ایسiiا لب علم وفض� اورمسیحی تجربہ میں کام� ہے۔ اس کے ذہن رسا اور قو اور صاح دم خم ہے کہ وہ چشتی سے جولانیاں کرتی ہے۔ انجی� کی ایiiک ایiiک سiiطر نہ صiiرف مصiiنف کے روحiiiiانی تجiiiiربہ کی پختگی کی گiiiiواہ ہے بلکہ یہ بھی ثiiiiاب کiiiiرتی ہے کہ اس کےذہن رساکازمانہ روحانی بلوغ کا زمانہ ہے ۔ وہ عمر رسیدہ نہیں بلکہ خدارسیدہ ہے اور اس کے ذہiiنی

لج کمال کو پہنچے ہوئے ہیں۔ اور دماغی قواء او

Page 54: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

ہم بتلاچکےہیں کہ اس انجی� کiiا مصiiنف ، مقiiدس پولiiوس اورعiiبرانیوں کے خ�ii کےوولین کے" استادوں" میں سے تھا ۔ اس کے علم اور عق�ii کی لر ا مصنف کی طرح کلیسیا کےد و گہرائیiiاں مقiiدس پولiiوس کی سiiی تھیں۔ وہ پولiiوس رسiiول کی طiiرح مختلiiف تصiiورات کے ذریعہ سیدنا مسیح کی زندگی کے ا� پہلiiوؤں کiiو پیش کرتiiاہے ،جن سiiے مقiiدس پولiiوس اورعiiبرانیوں کے مصiiiنف کی تعلیم روشiiiن اور واضiiiح ہوجiiiاتی ہے۔ تiiiاکہ ایمiiiا� داروں کiiiا ایمiiiا� مسiiiتحکم ہوجائےکہ کلمتہ اللہ خدائےمجسم اور دنیا کے منجی تھے جنہوں نے قبر اور مiiوت پiiر فتح پiiائی

اورجن میں الوہی کا کمال موجود تھا۔لم مسiiیح کے مفہiiوم اورطiiریقہ کے متعلiiق ہم خیiiال مقدس پولوس اور مقدس یوحنا تجسآانخداونiiد کiا ظہiiور ، کائنiiات اورانسiا� کی نiئی خلق ہے۔ پس دونiوں کiا ہیں۔ دونiوں کےلiئے لب پیدائش کے پہلےدو ابواب پر انحصار ہے ۔ جس طرح خدا نے پہلے روشiنی کiو خلiق کیiا کتاآامد تاریiiک دنیiiا کے آانخداوند کی اور جو ویرا� اورسنسا� اندھیرے پر جلوہ افگن ہوئی اسی طرح

( مقiiدس۱۳: ۱۔ کلسiiیوں ۸: ۵۔ افسiiیوں ۵: ۴۔ پہلا کرنتھیiiوں ۴: ۴۔کرنتھیiiوں۲لiiئے نiiور تھی)آایات میں واضح طورپر یہ بیا� کیiا گیiا ہے ) ۔۲۱تiا ۱۹: ۳۔ ۹: ۱یوحنا کے پہلے باب کی پہلی

وغيرہ(۔۴۶، ۲۶تا ۳۵: ۱۲۔ ۳۹: ۹لح تiiورات( میں پیiiدائش میں اسiiی ل� ذکر ہے کہ بیرشتھ ربامدرا*)یعنی قدیم شر یہ امر قاب قسم کی باطنی متصوفانہ شرح ہے۔ چنانچہ وہاں مرقوم ہے " ربی یونiiاہ نے کہiiا کہ جب خiدا دنیiiا کو خلق کرنے لگا تو اس قدوس نے راستبازوں اور شریروں کے اعمال پر نظiiر کی" اور زمین ویiiرا� تھی" یعنی شریروں کے اعمال " اور خدا نے کہا کہ روشنی ہوجا " یعنی راس بiiازوں اور شiiریروں کے اعمال کو"۔ خدا نے رشنی کو د� کہا" یعنی راس بازوں کے اعمال" اورتاریکی کiiو رات" یعiiنی شiiریروں کے اعمiiال"۔ سiiو پہلا د� ہiiوا"۔ یعiiنی اس قiiدوس نے ا� کiiو ایiiک د� دیiiا۔وہ د�

کونسا تھا؟ وہ کفار ہ کا د� تھا"۔

" پرانی مخلو�" اور" نئی مخلو�" کا تصور مقدس پولوس کی تحریرات میں واضح ہے۔آادم" کی امتیiiاز آادم" اور"پچھلا میں ہے۔ اس کے سiiاتھ ہی "۴۵: ۱۵کرنتھیiiوں ۲چنانچہ " پہلا

جسم اور روح" کiiا مقiiابلہ بھی موجiiود ہے۔ بپتسiiمہ میں دفن ہiiونے اورپھiiر جی اٹھiiنے کiiا ذکiiر ہے وغiiیرہ(۔ بلکہ الفiiا�۶۳: ۶۔ ۶: ۳ ال\( یہی مقiiابلہ مقiiدس یوحنiiا میں موجiiود ہے)۳: ۶)رومیiiوں

لز استد لال کنعا� کے یہiiودی ربیiiوں کiiا سiiا اا ایک ہی ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ دونوں کا طر تک تقریبہے۔

( وغیرہ میں مقiiدس پولiiوس۵تا ۱: ۱ربنا المسیح کی الوہی کا ذکر عبرانیوں کے خ�) :۱۷۔ ۱۸تiiا ۱: ۱کی تحریرات اور مقدس یوحنا کی انجی� کی خصوصیات میں سے ہے۔یوحنiiا

وغiiيرہ(۔ اوراس۴: ۴۔ دوسiiرا کرنتھیiiوں ۳۶: ۱۱۔ رومیiiوں ۱۹تiiا ۱۵: ۱۔ وغiiیرہ اورکلسiiیوں ۱۲تiiا ۱ حقیق کے لئے لازم نہیں کہ یہ انجیلیں پہلی صدی کے اواخر یا دوسری صدی کے اوائ� میں

ء سiiے پہلے کے ہیں اسiی طiiرح یہ۴۶لکھی جائے بلکہ جس طرح مقiiدس پولiiوس کے تصiورات ء کے لگ بھگ کی ہے۔۵۰انجی� بھی

اس سلسiiلہ میں ہمیں یہ حقیق کبھی فرامiiو* نہیں کiiرنی چiiاہیے کہ انجی�ii چہiiارم ہے ۔ جس میں مجرد تصiiورات سiiےہی کiام لیiiا گیiiاہو۔ بلکہ یہ1کوئی محض فلسفیانہ کتاب نہیں

انجی�" اس واسطے لکھی گئی کہ تم ایما� لاؤ کہ یسوع ہی خدا کابیٹا مسیح ہے اور ایما� لاکر وغیرہ(۔ اس انجی� میں سیدنا مسیح کی۴: ۱۔ پہلا یوحنا ۳۱: ۲۰اس کے نام سے زندگی پاؤ")

شخصی اور ذات کو متصوفانہ زبا� میں بیا� کیا گیا ہے۔(۸)

بعض علمiiiاء یہ خیiiiال کiiiرتے ہیں کہ مقiiiدس یوحنiiiا نے سiiiیدنا مسiiiیح کی تقریiiiروںتمدت مدیiiiد کے بعiiiد اس کے کسiiiی شiiiاگرد نے ا� اورمکالمiiiات کے نiiiوٹ لے لiiiئے تھے اور مکالمات کو ترتیب دے کر لکھا تھا لیکن انجی� کا مطالعہ ثاب کردیتاہے کہ یہ نظریہ غل� ہے

1 J.A.Mc Clymont , St. John (Cent Bible 1922) p. 38 V.H. Stanton, The Gospels as Historcial Documents Part 111 pp.32-73

Page 55: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

لز تحریر ترس ہو تو اس انجی� کے مختلف حصوں میں اص� نوٹوں کی طر ۔ کیونکہ اگریہ خیال دلز تحریر میں نمایاں فر� نمودار ہوناچاہیے لیکن تمام نقاد اوربعد کے زمانہ کے لکھنے والے کی طر

لز تحریiiر ہiiر جگہ یکسiiاں ہے۔ اوراس1اوراس ایک بات پر متفق ہیں کہ انجی� کے ہر مقام میں طiiرآاتا ہے ۔ دو مختلف مصنفوں کiiا ہiiاتھ کسiiی مقiiام میں صرف ایک واحد شخص کا ہی ہاتھ نظر میں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ اورکوئی نقiiاد اس انجی�ii کے مختلiف حصiوں کiو بiاوجود بہ سiی کوششوں کے جدا کرنے میں کامیiiاب نہیں ہiiوا۔ چنiiانچہ جiiرمن نقادولہاسiiن کہتiiاہے کہ گiiو اس انجی� میں مختلف طبقات ہیں تاہم تواریخی طورپر وہ صرف ایک واحد تصiiنیف ہے جس کے تمام کے تمام حصiiے اسiی ایiک حلقہ سiiے متعلiق ہیں جس میں یہ انجی�ii لکھی گiiئی شiiمیڈلآاخiiر ہمیں سiiٹراس کiiا فیصiiلہ قبiiول جیسا ایک طرفہ نقاد تiiک چiiار وناچiiار تسiiلیم کرتiiاہے کہ بلا ترتہ کی طرح ہے جو " بن سلاسراسر بنiiا ہiiوا تھiiا") کئے بغیر چارہ نہیں کہ یہ انجی� مسیح کے ک

۔2(۲۳: ۲۱ل� یوحنiiا کiiا طرزتحریiiر ایسiiا خصوصiiی ہے کہ اس کی انفiiرادی انجی�ii کی iiپس انجی عبادت وبیا� کےرگوں میں سرای کر گئی ہے مصنف کا اسلوب بیا� ایک ہی قسم کا ہے خiiواہ وہ عقائiد کiا ذکرکرتiاہے یiiا وہ دوسiرے لوگiiوں کی تقریiiروں کiiا بیiiا� کرتاہےیiا وہ واقعiiات کiiا بیiiا� کرتاہے۔انجی� کا مصنف کوئی ڈرامiiا نiiویس نہیں ہے جس کے ڈرامiiا میں مصiiنف کی شخصiiیآاتی بلکہ اس کے دماغ کے خلق کردہ اداکiiاروں میں ایسiiی چھپ جiiاتی ہے کہ وہ نظiiر ہی نہیں اس انجی� کا مصنف ایک وقائع نگار ہے جو چشم دید واقعات کو اپنے لفظiiوں میں بیiiا� کرتiاہے اوراس کے بیا� کرنے کiا طiiرز ایسiiا خصوصiی طiiرز ہے کہ خiiواہ ہم انجی�ii کے کسiiی صiفحہ کiو

آاتی ہے ۔ جس جگہ یہ مصiiنف خiiود اپiiنے3پiiڑھیں ہم کiiو ہiiر جگہ مصiiنف کی شخصiiی نظiiر ماخذوں کا استعمال کرتاہے اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کو یہ احسiiاس ہے کہ وہ خiiود ایiiک

1 Schmiedel Encycl. Biblica 11.2556 2 Drummond, The Character and Authorship p. 376.3 Macgregor, the Gospel of St. John p. XX.

تا� علمiiاء کiiا یہ قiiول قاب4�iiمعتبر سند ہے جو کلیسیا میں ایک ممتاز اوربااختیiiار ہسiiتی ہے ۔ پس تسلیم نہیں کہ گو تقریiروں اورمکiالوں کے نiوٹ ابتiدائی زمiانہ سiiے متعلiق ہیں انجی�i کی تiالیفلت مدیiiد کے بعiiد پہلی صiiدی کے اواخiiر میں یiiا کسiiی دوسiiرے شiiخص کی ہے جس نے مiiد

دوسری صدی کے اوائ� میں یہ انجی� لکھی۔

(۹)تا� قiiدیم تتب مقدسiiہ" کی جلiiد ثiiانی کے بiiاب دوم میں ل ک ہم نے اپنی کتاب" صiiح

لر مiدار کے شiمال مغiربی سiاح�۱۹۴۷ترین نسخوں کا مجم� طورپر ذکر کیا ہے جو iء میں بح کے نزدیiiک کی پہiiاڑیوں کے تہ دامن ملے تھے۔ گذشiiتہ بiiارہ سiiالوں سiiے مغiiربی ممالiiک کے فضلاء ا� کا مطالعہ کررہے ہیں قمiرا� کے متن کے مطiالعہ نے اب یہ ظiاہر کردیiاہے کہ اس فiرقہتاس قسiiم کے یہiiودی خیiiالات کے معتقiiد تھے جن کiiا ذکiiر یوسiiیفس مiiورخ اور فiiائلو کے پiiیرو

کرتے ہیں اور جو ایسینی اعتقادات کے قریب ترہے۔ل} مقiiدس آامiiد سiiے پہلے ار ا� نسخوں کا مطالعہ ثاب کردیتا ہے کہ سیدنا مسیح کی کے یہiiودی حلقiiوں میں راسii\ الاعتقiiاد ربیiiوں کے خیiiالات کے سiiاتھ سiiاتھ ایسiiے معتقiiدات بھی پiiائے جiiاتے تھے جiiو غiiیر مقلiiدانہ قسiiم کے تھے۔ اس قسiiم کے اعتقiiادات رکھiiنے والے یونانی اوریونانی تصورات میں رنگے ہوئے تھے لیکن یہ بھی ہم پiiر ظiiاہر ہوجاتiiاہے کہ اس گiiروہ کی یونانی اس قسم کی نہ تھی جو غیر یہiiود یونiiانی دنیiiا کے لوگiiوں کی تھی۔ بلکہ یہ لiiوگآامiد سiے پیشiتر ل} مقiiدس کنعiا� میں سiیدنا مسiیح کی اس زمرہ سے تعلق رکھتے تھے جو ارآازاد خیالی غیر مقلد گروہ کی ایک بڑی ل} مقدس میں اس وجود میں تھا ۔ پہلی صدی میں ار تعداد تھی اور ابتدائي کلیسیا میں مقدس یوحنا انجی� نویس مقiiدس سiتفینس اورا سiکے سiiاتھیآاور لیiiڈر تھے۔ گiو اس مسiiیحی " یونانی "۔ اور عبرانیوں کے خ� کا مصiنف اس گiiروہ کے سiربر

4 J.A. Mc Clymont, St. John (Cent Bible) p.61.See also An Unpublished Fragment of the Fourth Gospel ed.C.H.Roberts.

Page 56: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

گروہ کے خیالات یونانی کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے لیکن ا� کی یونiiانی اس قسiiم کی نہ تھی جو کنعا� کے بiاہر کے ممالiک کے یونiانی بولiنے والے یہiiود کی تھی بلکہ ا� کی یونiانیآاتی تھی۔ ل} مقدس کے اندر مسیح سے ایک صدی قب� پہلے ہی سے موجود چلی خود اپنے ار گذشتہ صدی کے علماء کiا یہ خیiال تھiiاکہ چiونکہ انجی�i چہiiارم میں یونiانی کےآاخر میں لکھی گئی تھی۔ جب کنعا� کےباہر کے غiiیر اثرات ہیں لہذا یہ انجی� پہلی صدی کے لر مiiردار کے طومiiاروں" نے جیسiiا ہم iiتھی۔ لیکن " بح یہiiود مسiiیحیوں کی کلیسiiیا میں اکiiثریآازاد غیر مقلiiدانہ خیiiالات سiiیدنا مسiiیح ل� چہارم کے سے بتلاچکے ہیں یہ ثاب کردیا ہے کہ انجیلک ل} مقدس کنعا� میں مروج تھے ۔ پس انجی� چہارم کی یونانی مل آامد سے پہلے خودار کی کنعا� کے باہر کے غیر یہiiود کی نہیں ہے اورنہ اس کiiا سرچشiiمہ غiiیر یہiiودی ہے بلکہ اس کیآازاد غير مقلدانہ یہودی میں ہی گڑی ہیں۔ فاض� کوہن نے ثاب کردیا ہے کہ قمiiرا� کiiا جڑیں

بiiاب( سiiے ہے اور کہ ا� سiiب کiiا۸تا ۶تعلق انجی� چہارم کے خیالات کے ساتھ ہے اوراعمال)ل} مقiiدس میں پہلے ہی موجiiود تھے ۔ سرچشمہ اورمنبiiع وہ غiiیر مقلiiدانہ معتقiiدات ہیں جiiو ارآازاد خیال غیر مقلد ہیک�i کiiو خiiدا کی مثال کے طورپر یہودی اورہیک� کے وجود کا سوال یہ عبادت کے لئے لازمی تصور نہیں کرتے تھے ۔ چنانچہ انجی� چہارم کiiا مصiiنف اس نکتہ پiiر

باب( اعمال سے ظاہر ہے کہ مقدس ستیفنس اس عقیدہ کی وجہ سiiے۴۔ ۱۹: ۲اسرار کرتاہے ) ( اوراس واقعہ کی وجہ سiے اس کے ہم خیiiالوں کiو یروشiiلیم سiے۴۹تiا ۴۸: ۷شہید کیا گیا تھا) ( حالانکہ جو یہودی مسیحی غیر مقلدنہ تھے ا� سے اس وق تعiiر}۲: ۸فرار ہونا پڑا)اعمال

نہ کیا گیا۔ ایک ڈچ فاض� نے ثاب کیا ہے کہ قمرا� کا گiروہ بھی وہی کہتiا تھiiا جiو سiتیفنس(۔۵۳تا ۵۰: ۷نے کہا تھا)اعمال

ل� چہارم کے یونانی رنگ کے خیiiالات کی بنiiا پiiر ہم یہ نہیں کہہ سiiکتے کہ پس انجیآاخiر کی تصiنیف ہے مسiیحی فاض�i پروفیسiر اوسiکر کلمiا� نے انجی� چہارم پہلی صدی کے

ء میں مبسوط مضامین لکھے ہیں جو۱۹۵۹اس موضوع پر اکسپوزیٹری ٹائمز باب اکتوبر ونومبر مذکورہ بالا نتیجہ کی تصدیق کرتے ہیں۔

(۱۰)ل\ تصiiنیف پiiربحث کی ہے۔ ہمیں ہم نے مختلiiف پہلiiوؤں سiiے انجی�ii چہiiارم کی تiiاریآاخiiر میں اورنہ دوسiiری تامیiiد ہے کہ نiiاظرین پiiر ظiiاہر ہوگیiiا ہوگiiاکہ یہ انجی�ii نہ تiiو پہلی صiiدی کے لن تصiiنیف پہلی صiiدی کے نصiiف کے زمiiانہ iiا سiiصدی کے شروع میں لکھی گئی بلکہ اس ک ل� دیگر یہ انجی� منجiiئی عiiالمین کی صiiلیبی مiوت کے بیس سiiال کے انiiدر کے ساتھ ہے ۔ بالفا

اندر لکھی گئی تھی۔لر قiiدیمہ نے اس آاثiiا ہم انجی� کی اندرونی شہادت سiiے اس نiiتیجہ پiiر پہنچے ہیں ۔ اب اندرونی شہادت کی تائید وتصدیق بھی کiردی ہے ۔ چنiانچہ رائی لینiڈز لائiبریری میں ایiک قiدیم

لک مصiiر سiiے دسiiتیاب ہiiوا ہے ۔ اور پیپiiائرس پiiر لکھiiاہے اس پiiارہ کی ایiiک1پارہ موجود ہے جو ملآایiiات لکھی ہیں اور دوسiiری طiiرف اس بiiاب کی۳۳تiiا ۳۱بiiاب کی ۱۸طرف انجی�ii چہiiارم کے

آایا ت لکھی ہوئی ہیں۔ یہ پارہ دوسری صدی کے اوائ� کا ہےاب جiiائے غiiور ہے کہ اگiiر۳۸تا ۳۷ یہ انجی� دوسری صiiدی کے اوائ�ii میں لکھی گiiئی ہiiوتی تiiو وہ اسiiی وق ملiک مصiر میں کس طرح رواج پاسکتی تھی۔ انجی� کے لکھے جانے ، اسکے مقبول ہiiونے اور مقبiiول ہiiوکر عiiام نقلیں

ہونے کے لئے کچھ تو عرصہ چاہیے۔ ء کے لگ بھگ لکھی گئی تھی اس کی نقلیں دوردراز۵۰حق تو یہ ہے کہ یہ انجی�

مقامات کی کلیسیاؤں میں پہلی صدی کے اواخر اور دوسری صدی کے شروع میں مروج ہوگiiئیںلک مصر جیسے دور ملک کی کلیسیا کے ہاتھوں میں موجود تھیں۔ اورمل

1

Page 57: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

باب ہفتمباب ہفتمل� چہارم کا مصنف حضرت یوحنا ل� چہارم کا مصنف حضرت یوحناانجی انجی

وول وولفص� ا فص� اانجی� چہارم کی اندرونی شہادتانجی� چہارم کی اندرونی شہادت

ناظرین نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ ہم نے اس کتاب میں اپنے استد لال کا انحصار انجیلیآابiائے کلیسiیا یiا کلیسiیائی بیانات اور صرف انجیلی بیانات پiر ہی رکھiiا ہے اورجہiiاں کہیں ہم نے روایات کو پیش کیا ہے۔ وہiiاں ہم نے ا� کی تنقیح وتنقیiد کiiرکے اورعق�ii کی کسiوٹی پiر پiرکھ کر انجیلی بیانات کی تائید اور تصدیق کے طورپرہی پیش کیا ہے۔ کسی ایک مقiiام میں بھی ہمآابائے کلیسiیا کی تحریiiرات یiا کلیسiیائی روایiiات کiiو اپiiنے دلائ�ii یiا نتiiائج کی بنیiiاد نہیں نے تاس لح حiق کی زیiر ہiiدای لکھiا گیiا ہے۔ بنایا۔ کیiونکہ ہمiارا یہ ایمiا� ہے کہ کلام اللہ جiو رو�iiرف اس کے ذریعہ ہی ہم اصiiدگی ہے۔ اور صiiق اور زنiiود راہ، حiiو خiiاکلام ہے جiiئی کiiمنج لد عق� سلیم کے ذریعہ پتہ لگاسکتے ہیں۔ تاح� ہم صرف انجی�ii کی انiiدرونی حالات کا خدا دالط مسiiتقیم شہادت سے ہی کام لے کر اپنے مختلف نتائج پر پہنچے ہیں ۔ انشاء اللہ ہم اس صرا

پر قائم رہینگے۔ اس فص�ii میں ہم انجی�ii چہiiارم کiiا غiiائر مطiiالعہ کiiرکے یہ معلiiوم کiiرنے کی کوشiiش کرینگے کہ اس انجی� کا مصنف مقدس یوحنا کو� تھا؟ حق تو یہ ہے کہ ہم صرف انجی� چہارم سے ہی مصiiنف کی نسiiب یہ معلومiiات حاص�ii کرسiiکے ہیں۔ اس انجی�ii کے بiiاہر ہم کiiو اس

۔ پس ہمارا تمام انحصار اس انجی� کی اندرونی شہادت پر ہی ہے۔1کی نسب کوئی علم نہیںوول ۔ انجی�ii چہiiارم سiiے ظiiاہر ہے کہ اس کiiا مصiiنف بiiنی اسiiرائي� میں سiiے ہے ۔وہ2ا

و۴۹: ۷۔ ۹: ۴۔ ۲: ۹۔ ۱۵: ۷۔ ۲۷: ۴یہiiودی خیiiالات اور تصiiورات سiiے کمiiاحقہ واقiiف ہے )

1 Manson, The Mission and Message of Jesus p. 652.

لح موعiود کی منتظiiر تھی) لم یہود مسiی :۷۔ ۱۴: ۶۔ ۲۵: ۴۔ ۲۱: ۱غیرہ( ۔ اس کو علم ہے کہ قو وغiiیرہ( اس کiiو۲۸: ۱۸۔ ۲۲: ۷ وغیرہ(۔ وہ یہودی رسوم سے بخiiوبی واقiiف ہے ۳۴: ۱۲ ال\ ۴۰

(۔ قربiانی کے مiذبح پiر۳۷: ۷علم ہے کہ عید سے سiات د� کے بعiد کiا د� " خiاص د� ہے") کے اقiiوال کے مطلب کiو روشiن۱۲: ۸ اور ۳۸: ۷پانی کا بہایا جانا، اور چراغiاں کiا کیiا جانiا

کردیتے ہیں ۔ اس مضمو� پر ہم گذشتہ ابواب میں بحث کرچکے ہیں۔ کتاب کا طرز تحریر بھی ثاب کردیتاہے کہ اس کا مصنف یہودی ہے۔ اس کے الفiiا�تا� کی تناسiب، نشiانات، علامiات اشiارات وغiیرہ، سiب کے اور فقرے ، فقiiروں کی سiاخ اورآاگے چ� بحث کرینگے۔ جس طریقہ سiiے وہ سب اس بات کے گواہ ہیں ۔ ہم انشاء اللہ اس پر لد عتیق کو استعمال کرتاہے وہ طریقہ بھی یہی ثاب کرتاہے کہ اس کiا مصiنف ایiک یہiودی عہ ہے ۔ وہ موسوی شریع کی نسب اس طرح لکھتاہے جس طرح صiiرف ایiiک یہiiودی ہی لکھ

:۱۔ ۱۹: ۱سiکتا ہے۔ انجی�i میں فریسiیوں اور صiدوقیوں اور دیگiر یہiiودی پiارٹیوں کiا ذکiر ہے) وغیرہ(۔ جن کو ایک جماع کے زمرہ میں" یہود " کہا گیiiا۴۲: ۱۲۔ ۲۲، ۱۸، ۱۳: ۹۔ ۲۴

لح موعiiود ابن اللہ کے جiiانی دشiiمن ہیں )نiiیز دیکھiiو روم :۱۔ پہلا کرنتھیiiوں ۹: ۳ہے جiiو مسiiی وغiiiیرہ(۔ جس سiiiے ظiiiاہر ہوتiiiاہے کہ پہلی۱۳: ۱۔ ۱۳: ۲۔ گلiiiتیوں ۴۲: ۱۰۔ ۲۰: ۹۔ ال\ ۲۲

اا مسیحی کلیسیا کے یہودی مخالفوں کو دیا جاتا تھا۔ صدی کے نصف میں یہ نام عمومل} مقiiدس کے مختلiiف ل} مقدس کنعا� کا یہiiودی ہے ۔ اس کiiو ار دوم۔ یہ مصنف ار

اا " یiiرد�۲۸: ۱۔ ۲: ۲۱۔ ۴۶: ۴۔ ۱۱تiا ۱: ۲مقامات کiiا صiحیح علم حاص�ii ہے) وغiiیرہ(۔ مثلاا دومی�ii "۲: ۱کے پار" بی عنیاہ کی ) iiک قریبiiلیم کے نزدیiiو " یروشiiعنیاہ سے ج تاس بی ،)

لن پیiiدائش ۲۸: ۱۱ہے ) iiس( انہ میںiiدس اوریجن کے زمiiئی ہے ۔ مقiiیز کی گiiتم)۱۸۵�ردiiء(" ی کے پiار" کے بی عنیiiا ہ کiا کسiiی کiو پتہ نشiا� بھی نہ تھiiا ۔ اسiiی طiiرح " شiالیم کےنزدیiک

(۔ انجی�i میں دیگiر مقامiات کiا بھی نہiای صiح ۲۳: ۳عینو�" کا بھی نشا� مٹ چکا تھiا) وغیرہ(۔۳۵، ۲۰، ۵: ۴کے ساتھ پتہ دیا گیا ہے۔)

2 Westcott, The Gospel According to St. John Vol.i.

Page 58: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

سوم۔ یہ امر معنی خیز ہے کہ جن مقامات کے نام اس انجی�ii میں وارد ہiiوئے ہیں اورجنل} تا� جگہiiوں کی ہے جiiو ار تا� میں سiiے زیiiادہ تعiiداد کiiا پہلی تین انجیلiiوں میں ذکiiر نہیں(

اا سiiوخار ) ( جiiو افiiرائيم کiiا شiiہر ہے" شiiالیم کے۵: ۴مقiiدس کے جنiiوب میں واقiiع ہیں۔ مثل (۔ بی ۲۳، ۱: ۶( طبریiاس )۲: ۲۱۔ ۴۶: ۴۔ ۱: ۲(۔ " قانiائے گلی�i )۲۳: ۳نزدیiک عینiو�")

اا۱۳: ۱۹( گبتiiiiا )۲: ۵حسiiiiدا ) آائے ہیں مثل (۔ وغiiiiیرہ۔ لیکن دیگiiiiر اناجی�iiii میں جiiiiو نiiiiام :۵(۔ یا گراسینیوں کiiا علاقہ ")مرقس۲۸ii: ۸خوارزین ، نین، دکاپولس " گدرینیوں کا ملک" )متی

(۔ قیصiریہ فلiپی ، صiiور ، صiiیدا ، وغiیرہ نiiام۲۶: ۸( جiiو اس پiار گلی�ii کے سiامنے ہے")لوقiا ۱�iiتے ہیں اس انجیiiانجی� چہارم میں نہیں پائے جاتے ۔ پس قدرتی طورپر ہم ۔ اس نتیجہ پر پہنچ ہے تiو ہم یہ بھیiتیجہ درسiریہ نiا۔ اگiiا تھiiق رکھتiاتھ تعلiiکے س �اiiوبی کنعiiنے والا جنiiا لکھiک

۔1سمجھ سکتے ہیں کہ اس انجی� میں جنوبی کنعا� کا سارنگ ڈھنگ کیوں موجود ہے چہiارم۔ اس انجی�i سiiے ہم یہ نiتیجہ بھی اخiذ کرسiiکتے ہیں کہ انجی�ii کiا مصiنف یiر وشلیم کا رہنے والا یہودی تھا۔ چنiانچہ جیسiا ہم ذکiر کiرچکے ہیں ۔ اس کiو یروشiلیم شiہر کے

تiiا۱: ۱۸۔ ۷: ۹۔ ۲: ۵مختلف مقامات اورہیک� کے مختلف گوشوں کی بخiiوبی واقفی تھی)آاخر ۔ ۲۸ وغیرہ(۔ " وہ سردار کاہن کiا جiا� پہچiا�۲۲: ۱۔ ۲۰: ۲۔ ۱۳۔ ۴۱، ۲۰، ۱۷: ۱۹تا

(۔ جہiiاں مقiiدس پطiiرس۱۵: ۱۸تھا اور یسوع کے ساتھ سردار کiاہن کے دیiوا� خiانہ میں گیiا" ) (۔ وہ سiردار کiاہن۱۶: ۱۸نہیں جاسiکتا تھiا ، جب تiک کہ مصiنف نے دخ�i انiدازی نہ کی ) (۔ وہ جانتiا ہے کہ۲۶: ۱۸کے نوکر کے نام سے واقiف ہے جس کiا کiا� پطiرس نے اڑادیiا تھiا)آایiiات۲۶، ۱۵، ۱۰: ۱۸پطiiرس سiiے کلام کiiرنے والا نiiوکر دوسiiرے نiiوکر کiiا رشiiتہ دار تھiiا) (۔ا�

آانے جانے والا تھا) آازادانہ (۔ وہ نیکiiدیمس۱۶: ۱۸سے ظاہر ہے کہ وہ سردار کاہن کے گھر میں لر عiiدال کے ممiiبر تھے) ۔۱: ۱۳، اور ارمتیاہ کے یوسف جیسے اکابر سے واقف ہے جو صiiد

۔( اس کو عدال کے کمرہ کی انiدرونی کiارروائي کiا علم ہے جiو خفیہ۳۸: ۱۹۔ ۵۰: ۷ال\ (۔ اس مصنف کا گھر یا تو خاص یروشلیم میں تھiiا۱۰: ۱۲۔ ۵۳تا ۴۷: ۱۱۔ ۵۲، ۴۵: ۷تھی)

1 Dodd Interpretation of the Fourth Gospel pp. 452-453

آاس پاس کے مضافات میں تھا جہاں وہ واقعہ صلیب کے وق سیدنا مسیح کی مiiاں کiiو" اوریا آاسمانی کے موقعہ پر تھیں )اعمiiال ۲۷: ۱۹اسی وق اپنے گھر لے گیا") :۱(۔ جہاں وہ صعود

(۔ ا� انجیلی اشiiارات اور مقامiiات سiiے ہم یہ کہہ سiiکتے ہیں کہ یہ مصiiنف یروشiiلیم کے۱۴ ۔ پس یہ مصiنف کسiی بiڑے گھiiرانے کiا2بارسوخ خاندا� اور مقتدر پارٹی سے تعلق رکھتا تھiا

آانخداونiiد سiiے یروشiiلیم کی خiiدم کے دورا� میں ہiiوئی ۔ چشم وچراغ تھا ، جس کی ملاقات آاپ سiiے ملاقiiات کiا شiiرف آاپ یروشiiلیم تشiریف لاتے وہ آاپ کiiا شiاگرد ہوگیiiا اور جب کبھی وہ لر ایمiiا� حاص�ii کیiiا اور گiiرو اورچیلے کے ل� صحب سے نiiو آاپ کی فیضا حاص� کرتا۔ اس نے باہمی تعلقات ایسے استوار ہوگiiئے کہ اس کiا خصوصiی نiام ہی یہ پڑگیiiا" وہ شiiاگرد جس سiے

(۔ اوراسی نام سے وہ ایمانداروں میں مشiiہور۲: ۲۰۔ ۲۶: ۱۹۔ ۲۳: ۱۳یسوع محب رکھتا تھا")(۔ ۲۴: ۲۱تھا جس کی وجہ سے تمام کلیسیا اس کی قدرومنزل کرتی تھی)

تا� واقعiiات کiiا صiiاد� اورچشiiم دیiiد گiiواہ ہے جن کiiو وہ اپiiنی �iiلف انجی پنجم ۔ مصiiن کہ وہ ا� دو شiاگردوں میں سiے تھiiا جiو یوحنiا بپتسiمہ3انجی� میں لکھتiاہے۔ ایسiا معلiوم ہوتiاہے

(۔ چiiونکہ مصiiنف۴۰۔ ۳۵: ۱دیiiنے والے کی گiiواہی سiiن کiiر ابن اللہ کے پیچھے ہولiiئے تھے )آانخداوند سے صرف یروشلیم میں ہوئی تھی لہذا اس انجی�ii میں مسiiیحائي دعiiوے کی ملاقات کے خفیہ رہنے کاذ کر بھی نہیں ہے بلکہ وہ اس کا اعلا� ابتدا ہی سے کرتاہے۔ یہ ایک قدرتی بات بھی ہے جس شخص نے گلیلی خدم میں سیدنا مسiیح کی صiiحب حاص�ii نہ کی ہiiوآاپ نے آاپ کی یروشiiلیم کی خiiدم ہی سiiے واقiiف ہiiو وہ یہی خیiiال کiiرے کہ اور وہ صiiرف

یے یروشلیم میں کیا تھا ۔4مسیحائی دعوآائے ہیں کہ انجی� کا مصنف ایک چشم دیiد گiiواہ تھiiا۔ اور ہم باب دوم میں ثاب کر

یی وہ خiiود کرتiاہے ) وغiiيرہ(۔ واقعہ نگiاری صiiاف۳ تiا ۱: ۱۔ پہلا یوحنiiا ۱۶: ۱۔ ۱۴: ۱یہ دعiiو ۲۲، ۸، ۵: ۱۴۔ ۲۱: ۱۲۔ ۷تiا ۵: ۶ظاہر کرتی ہے کہ یہاں ایک چشم دید گواہ بiول رہiا ہے )

2 C.F.Burney, The Aramaic Origin of the Fourth Gospel.3 Ibid.4 Mission and Message of Jesus p.661

Page 59: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

تiiiا۱: ۱۲۔ ۱۱: ۱۰۔ ۲: ۷۔ ۱: ۵، ۲۳، ۱۳: ۲وغiiiیرہ(۔ وہ اوقiiiات کی تفصiiiی� بھی دیتiiiاہے ) ۔۵۲: ۴۔ ۶: ۴۔ ۴۰: ۱۔ ۴۳، ۴۰: ۴۔ ۲۹، ۱۷، ۶: ۱۱۔ ۲۶، ۱۹تiiiiا ۱: ۲۰۔ ۳۱: ۱۹۔ ۱۲ :۵ وغیرہ(۔ بعض اوقات وہ تعiiداد بھی بتلاتiاہے )۲: ۳۔ ۱۶: ۶۔ ۲۸: ۱۸۔ ۳۰: ۱۳۔ ۱۴: ۱۹ :۵۔ ۴۶: ۴۔ ۲۳: ۳۔ ۲۸: ۱( وہ مقامiiiات کiiiا بھی ٹھیiiiک پتہ دیتiiiاہے )۳۹: ۱۹۔ ۵: ۱۲۔ ۵

(۔ اس کے بیانiiiات کی تفصiiiی� سiiiے بھی یہی۱: ۱۸ ۵۴، ۳۰: ۱۱ ال\ ۴۰، ۲۳: ۱۰۔ ۱۴ ۔۲۷تiiا ۱۵: ۱۸۔ ۲۰تiiا ۱: ۱۳۔ ۵۱تiiا ۳۵: ۱نiiتیجہ نکلتiiا ہے کہ وہ ایiiک چشiiم دیiiد گiiواہ ہے۔

۔ وغيرہ(۔ وہ اس حقیق ۱۷: ۲۱۔ ۷: ۲۰۔ ۲۳: ۱۹۔ ۳۰: ۱۳۔ ۱۲: ۱۱۔ ۹: ۶۔ ۱۴تا ۱: ۲۱ترزور الفiiا� میں لکھتiiاہے اور لفiiظ" ہم " سiiے اس کی یہ مiiراد ہے کہ وہ " گواہiiوں کےبiiادل" کو پ

۔ سiiیدنا مسiiیح نے بھی یہی فرمایiiا تھiiا کہ" تم بھی مiiیرے گiiواہ ہوکیiiونکہ1میں سiiے ایiiک ہے (۔یہ ایسiiا صiiاد� گiiواہ ہے جiiو ثقہ ہiiونے کی وجہ سiiے تمiiام۲۷: ۱۵شروع سے میرے ساتھ ہو")(۔۲۴: ۲۱کلیسیاؤں میں مشہور ہے )

لز تحریر اور طiiریقہ اسiiتد لال نہiiای عالمiiانہ ہے جiو علاوہ ازیں انجی� چہارم کی طر یہ ظiiاہر ہے کرتiiاہے کہ یہ مصiiنف یونiiانی فلسiiفہ ، اوریونiiانی مائ�ii یہiiود کے فلسiiفیانہ خیiiالات،لد عiiتیق کے عiiبرانی متن iiتصورات اور تاویلات سے ویسا ہی بخوبی طورپر واقف ہے جیسا وہ عہ سے واقف ہے۔ چنانچہ انجی� کا یونiiانی متن ثiiاب کرتiiاہے کہ وہ تiiرجمہ سiiیپٹواجنٹ پiiر انحصiiار نہیں کرتiiا بلکہ اس کے اقتباسiiات سiiب کے سiiب سiiیدھے عiiبرانی متن سiiے لiiئے گiiئے ہیں۔ یہاا پیiiدائش، خiiروج، گنiiتی ، تتب مثل لد عتیق کی مختلiiف ک اقتباسات تعداد میں بیس ہیں اور عہ استشنا، یسعیاہ ، حزقی ای� اور زکریا کی کتابوں اور زبور کی کتاب سےلئے گiiئے ہیں۔ انجی�ii کiiالز اسiتد لال یہ بھی ثiاب کرتiاہے کہ مصiنف نے یہiiودی ربیiiوں کے قiiدموں میں بیٹھ کiر ا� طiiر اسiiتادوں سiiے علم حاص�ii کیiiا تھiiا، جس طiiرح مقiiدس پولiiوس ربیiiوں کے مکتب میں رہ چکiiا

آاپ نے۳: ۲۲تھا)اعمال تا� دلائ�ii کiا بخiiوبی علم تھiiا جiiو (۔ اس کiو حضiiرت کلمتہ اللہ کے �iiاس کے استادوں یعنی ربیوں کے سامنے پیش کئے تھے اوراسی وجہ سے یہ دلائ� مصنف کواپی 1 Wendt, Gospel According to St. John p. 207

لز اسiiتد لال کiiو اسiiتعمال بھی کiiرتے ہیں۔ اب وہ انجی�ii میں ربیiiوں کے سiiے اقتباسiiات اور طiiر�iiکی تاوی کرکے اپنے علم کے خزانہ کو انجی� جلی�ii اور سiiیدنا مسiiیح کی ذات اور شخصiiی

:۱۳کiiرنے کے لiiئے کلیسiiیا کے حلقہ میں منجiiئی جہiiا� کے قiiدموں میں رکھ دیتiiا ہے۔)مiiتی (۔۵۲

ل} مقiiدس ل� چہiiارم کiiا مطiiالعہ یہ ثiiاب کردیتiiاہے کہ انجی�ii کiiا مصiiنف ار iiپس انجی کنعا� کے جنوب کاباشندہ تھا، جس کا گھiiر یروشiiلیم یiا اس کے نزدیiک واقعہ تھiiا۔" وہ سiردار کاہن کا جا� پہچا� تھا"۔ جس سiiے ہم یہ نiiتیجہ احiiذ کرسiiکتے ہیں کہ وہ کسiiی مiiوقر صiiدوقی خاندا� میں سے تھا اورجوا� عمر تھا ورنہ وہ صرف " جا� پہچiiا� " ہی میں نہ ہوتiiا۔ لیکن وہ بےآاتiiا جاتiiا تھiiا اورملازم تiiک اس کiiو جiiانتے تھے اوراس کی مiiانتے تکلiiف سiiردار کiiاہن کے گھiiر تھے۔وہ ا� واقعات کiiا جن کiiو وہ انجی�ii میں قلمبنiiد کرتiiاہے، چشiiم دیiiد گiiواہ ہے۔ ایسiiا معلiiوم

آانخداونiiد کے پیچھے ہولیiiا تھiiiا۔ کیiiونکہ آاخiiر میں وہ۳۵: ۱ہوتiiiاہے کہ وہ شiiروع ہی سiiiے تiiا شاگردوں کا ذکر ہے جن میں سے ایک اندریاس تھا اور دوسرا یہی یوحنiiا، انجی�ii نiiویس تھiiا۔ اس

:۴۔ مiiتی ۲۰تiiا ۱۶: ۱مقiiام میں دوسiiرے شiiخص سiiے مiiراد یوحنiiا بن زبiiدی نہیں ہے )مiiرقس تا� لوگوں میں سے تھا جس نے یوحنا بپتسمہ دیiiنے۲۲تا ۱۸ لف انجی� (۔ پس یہ مقدس یوحنا مصن

آانخداوند کا شاگرد ہوگیiiا تھiiا۔ اس آاواز پر لبیک کہی تھی اوراس کے ایما کے مطابق والے کی کو سیدنا مسیح اپنی خاص قرب سے سرفراز فرماتے تھے ، ایسا کہ اس کا نiiام ہی یہ پڑگیiiا " وہتتب کiiا اص�ii عiiبرانی لد عiiتیق کی ک iiرکھتا تھا"۔ وہ نہ صرف عہ شاگرد جس سے یسوع محبتا� کے علم کی زبا� میں علم رکھتiا تھiiا بلکہ اس نے یہiiود کے ربیiوں کے قiiدموں میں بیٹھ کiر آانخداونiiد کی تعلیم کے رمiiوز کiiو گلی�ii کے مچھiiوؤں سiiے زیiiادہ تحصiiی� کی تھی۔ پس وہ آاخiiری آانخداونiiد کے سمجھنے کی اہلی رکھتا تھا۔ یہ ایک قدرتی بات تھی کہ ایسا شخص آاپ کے سiiینہ کی طiiرف بیٹھے۔یہ اغلب ہے کہ شiiاگردوں کiiو یہ کھiiانے میں بھی شiiریک ہiiو اور تا� میں " یہ تکiiرار ہiiوئی کہ ہم میں سiiے کiiو� بiiڑا سiiمجھا جاتiiا بiiات نiiاگوار معلiiوم ہiiوئی ہiiو پس

Page 60: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

بiiاب کی گوتفسiiیر ہے۔ ہمیں یہ بiiات یiiادر۱۳(۔ جiiو مقiiدس یوحنiiا کے ۲۷تiiا ۲۴: ۲۲ہے")لوقiiا ( سے ہم یہ نتیجہ اخiذ نہیں کرسiکتے کہ دوازدہ۱۴: ۲۲کھنی چاہیے کہ مقدس لوقا کے الفا�)

رسولوں کے علاوہ کوئی تیراھواں عشاء کے وق موجود ہی نہ تھا کیونکہ اس قسم کiiا اسiiتد لالمنطق کے قواعد کے خلاف ہے۔

�iiاعر بھی ہے۔ اس کی انجیiش مقدس یوحنا نہ صرف ایک عالم ہے بلکہ ایک زبردساا یی پایہ کی نظمیں جن کو مقدس رسول یوحنا بن زبدی سے توقع نہیں ہوسکتی ۔ مثل میں اعل

انجی�ii یوحنiiا کiiا دیبiiاچہ درحقیق ایiiک نظم ہے جiiو عiiبرانی نظم کے قواعiiد کےتاس کے مختلiiف مطابق منظوم کی گiiئی ہے۔ اس کے ضiiائع اور بiiدائیع عiiبرانی محiiاورہ کے ہیں۔

۔1اشعار کے مصرعے عبرانی نظم کی صنعتوں کے مطابق ڈھالے ہوئے ہیں یی پایہ کی نثر کی عبiiارت پiiائی جiiاتی ہے ، اس نظم کے مختلف اشعار کے درمیا� اعل

جو ا� اشعار کی تشریح اور توضیح کرتی ہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو:۔( ابتدا میں کلمہ تھا۔۱)

اورکلمہ خدا کے ساتھ تھا۔۔( اور خدا کلمہ تھا۔۲)

وہ ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔۔( ساری چیزیں اس کے وسیلے سے پیدا ہوئیں۔۳)

اور اس کے بغیر کوئی چیز پیدا نہیں ہوئی ۔تاس میں زندگی تھی۔۴) ۔( چونکہ

آادم کا نور تھی۔ اور وہ زندگی بنی ۔( وہ نور تاریکی میں چمکا تھا۔۵)

اورتاریکی نے اسے مخفی نہ کیا۔

1 Burney, pp.41-42

آادمی خدا کی طرف سے بھیجا گیا تھاجس کا نام یوحنiا تھiiا۔ یہ گiواہی کے لiئے ایک تاس )نور( پر ایما� لائیں۔ وہ نور نہ تھا مگiiر اس نiiور کiiا گiiواہ آایا کہ نور کی گواہی دے تاکہ سب

آانے والے انسا� کو روشن کردیتا ہے ۔ وہ دنیا میں نور تھا۔ تھا۔ وہ حقیقی نوردنیا میں ہر ۔( اوردنیا اس کے وسیلے سے پیدا ہوئی ۔۶)

اوردنیا نے اس کو نہ جانا۔آایا۔۷) ۔( وہ اپنوں کے پاس

تاس کے اپنوں نے اسے قبول نہ کیا۔ اورتا� کiو تا� کو خدا کے فرزند بننے کا حق بخشiا یعiiنی جتنوں نے اسے قبول کیا اس نے جiiو اس کے نiiام پرایمiiا� لاتے ہیں۔کیiiونکہ وہ نہ خiiو� سiiے اورنہ جسiiم کے ارادہ سiiے اورنہ کسiiی

انسا� کے ارادے سے پیدا ہوا بلکہ وہ خدا سے پیدا ہوا ۔۔( اورکلمہ مجسم ہوا۔۸)

اور وہ ہمارے درمیا� خیمہ ز� ہوا۔۔( اورہم نے اس کا جلال دیکھا۔۹)

جلال جو باپ کے اکلوتے کا ساتھا۔۔( وہ فض� اورحقیق سے معمور تھا۔۱۰)

جس کی معموری میں سے ہم سب نے پایا اور فض� پر فض�۔یی کے وسیلے سے دی گئی ۔۱۱) ۔( کیونکہ شریع موس

لیکن فض� اورحقیق مسیح کے وسیلے ۔ خiiدا کiiو کسiiی انسiiا� نے کبھی نہیں دیکھiiا ۔ خiiدا کے اکلiiوتے بیiiٹے نے

جوباپ کی گود میں ہے، اسی نے ظاہر کیا ہے۔ منiiدرجہ بiiالا نظم میں عiiبرانی نظم کی ایiiک صiiنع ہے جس میں ہiiر مصiiرعہ اپiiنےلج کمiiال پیiiدا کردیتiiاہے۔ اس صiiنع میں ہiiر شiiعر کiا دوسiiرا ماقب� سے تاخیر میں بڑھ کiر عiiرو

Page 61: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

مصرعہ نہ صرف پہلے مصرعہ کی صدائے بازگش ہوتاہے بلکہ اس میں چند الفا� ایiزاد کiئے جاتے ہیں جو شعر کے معانی کو کام� کردیiiتے ہیں۔ پہلا مصiiرعہ غiiیر مکم�ii ہوتiiاہے اور دوسiiرا

مصرعہ پہلے مصرعے کے الفا� میں شام� کرکے شعر کومکم� کردیتاہے ۔ کہ اس قسiiم کی صiiنع صiiرف بہiiترین عiiبرانی نظم کی ہی1ڈاکٹر ڈرائیور کہتiiاہے

۱: ۱۱۳۔ ۱۳: ۹۲۔ ۳: ۹۲۔ ۳: ۹۳۔ ۲: ۹۲۔ ۵: ۱۹خصوصiiی ہے۔ اورمثiiال کے طiiورپر زبiiور ل� چہiiارم کے کا حوالہ دیتاہے۔ یہی صنع دبورہ کے گی کی خصوصیتوں میں سے ہے۔ انجی

اا: مندرجہ بالا منظوم دیباچہ میں اس صنع کو ملاحظہ فرمائیں۔ مثل۔( چونکہ اس میں زندگی تھی۔۴)

آادم کا نور تھی ۔ اور وہ زندگی بنی ۔( اور وہ نور تاریکی میں چمکا تھا۔۵)

اورتاریکی نے اس کو مخفی نہ کیا۔آایا ۷) ۔( وہ اپنوں کے پاس

اوراپنوں نے اسے قبول نہ کیا۔۔( ہم نے اس کا جلال دیکھا۔۹)

جلال جو باپ کے اکلوتے کا سا تھا۔۔( وہ فض� اورحقیق سے معمور تھا۔۱۰)

جس کی معموری میں سے ہم سب نے پایا۔ا� اشعار کے ہر مصرعہ کے وز� میں تین مقامات میں زورموجود ہے ۔

آای اا بتلایا گیا ہے۱۳دیباچہ کی کا جو مندرجہ بالا ترجمہ کیا گیا ہےاس میں صریحلن اطہر سے پیدا ہوئے تھے۔ آانخداوند مقدسہ بی بی مریم کنعاری کے بط کہ

ل� کے صنائع وبدائع پر مفص� بحث کرینگے۔ ہم اگلے حصہ میں اناجی

1Driver, Lit. of OT.p.363

فص� دومفص� دومکلیسیائی روایات کی تنقیح وتنقیدکلیسیائی روایات کی تنقیح وتنقید

ل� چہiiارم کiiو سiiیدنا مسiiیح کے رسiiول مقiiدس iiابق انجیiiکے مط قiiدیم کلیسiiیائی روای یوحنا بن زبiدی نے اپiنے بڑھiاپے میں افسiس کے مقiiام میں لکھiiا تھiiا۔ گiویہ روای قiiدیم ہے تiاہم

ء سےپہلے کوئی شخص یہ نہیں کہتا کہ اس انجی� کا مصنف مقدس یوحنا رسول تھا۔ اس۱۸۰ ء( ۔ سiiکندریہ کiiا۲۵۴ء تiiا ۱۸۵کے بعد یہ روای جiiڑ پکiiڑ کرمضiiبوط ہوگiiئی۔ چنiiانچہ اوریجن )

ء( وغiيرہ سiب اس۳۴۰ء تiا ۳۱۴ء( ۔ قیصریہ کiا بشiپ یوسiی بئس )۲۰۰کلیمنٹ )تاری\ وفات کو یوحنا رسول کی تصنیف گردانتے ہیں۔

ل� چہارم کے مصنف کی نسب علم حاص� کرنے کے لiئے ہمیں دوسiری یiا لیکن انجی�iiتیسری صدی کی کلیسیائی روایات کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس بات کا اص� فیصلہ خود انجی کرسکتی ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ کوئی روای صحیح نہیں ہوسکتی جو کلام اللہ کے مطiiابق نہل} مقiiدس کے جنiiوب کiiا رہiiنے والا ہiiو۔ انجی�ii چہiiارم کی یہ شiiہادت ہے کہ اس کiا مصiiنف ارل} مقدس کے شمال کiiا اوریروشلیم کا باشندہ تھا۔ لیکن سیدنا مسیح کا رسول یوحنا بن زبدی ار

ل� چہارم کے مطiiابق اس کے مصiنف۲۰: ۱رہنے والا صوبہ گلی� کا باشندہ تھا ۔ )مرقس (۔ انجیآانکھوں سے دیکھا تھiiا نے ا� کلمات طیبات کو اپنے کانوں سے سنا تھا اور ا� واقعات کو اپنی جiiو اس نے قلمبنiiد کiiئے تھے لیکن مقiiدس یوحنiiا بن زبiiدی گلی�ii کiiا رہiiنے والا تھiiا جiiوگلیلیآانخداوند کی صحب میں رہتا تھiا۔ وہ گلیلی خiدم کے دورا� خدم کے دورا� میں ہر جگہ آانخداوند کی صحب میں رہتا تھا۔ وہ گلی� کے صiوبہ کے مختلiف مقامiات سiے میں ہر جگہ واقف ہوگiiا لیکن وہ جنiiوبی کنعiا� کے مقامiات سiiے اور جغرافیiiائی حiالات سiے اور یروشiلیم کےت� واقعiiات کiiا چشiiم مختلف مقامات اورہیک� کے گوشوں سے واقف نہیں ہوسکتا تھiiا اورنہ ہی ا دید گواہ تھا جو یروشلیم میں واقع ہوئے ۔ انجی� چہارم کiiا مصiiنف ایiiک عiiالم شiiخص تھiiا جس

Page 62: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

لب انبیائے سلف کا عبرانی میں علم تھا۔ وہ ایک زبردس شاعر تھا اورربیوں کے قiiدموں تت کو ک میں بیٹھا تھا اوریونانی مائ� یہودیوں کے فلسفہ سے بخوبی واقف تھiiا لیکن یوحنiiا بن زبiiدی ا�

اا � پڑھ" سے مراد یہ نہیں کہ وہ ناخوانiiدہ۱۳: ۴پڑھ اور ناواقف شخص تھا)اعمال (۔ ہاں لفظ" تھiiابلکہ اس کiiا مطلب یہ ہے کہ اس نے نہ توربیiiوں سiiے تiiورات کiiا علم حاص�ii کیiiا تھiiا اورنہ وہل� چہiiارم کiiا مصiiنف صiiدوقی خانiiدا� کiiا چشiiم دیiiد چiiراغ iiا۔ انجیiiف تھiiے واقiiس �اiiبرانی زبiiع ل� چہiiارم کی ایiiک iiا۔انجیiiہ تھiiآابائی پیش تھالیکن زبدی کا بیٹا ایک ماہی گیر تھا۔ اوریہی اس کا ایک سطر اس عالم مصنف کی روحانی زندگی کی گہرائی اوراس کی محب بھiiری زنiiدگی کی گواہ ہے ۔ لیکن مقدس یوحنا بن زبدی کے مزاج میں کینہ اورغصہ تھا ایسا کہ سiiیدنا مسiiیح نے

آاپ نے اس کiiا۵۶تiiا ۵۱: ۱۰اس " جھڑکا" تھا اورکہا تھا کہ" تم کیسی روح کے ہو")لوقiiا (۔ اور (۔ اس میں کچھ شiiک۱۷: ۳اوراس کے بھائی کا نام ہی " گرج کے بیٹے" رکھ دیا تھiiا)مiiرقس

اہ تبiiدی� کiiرکے" محب کiiا رسiiول " بناسiiکتا تھiiا لیکن " نہیں کہ خiiدا کiiا فض�ii اس کiiو کلیت محبوب شاگرد"کا خطاب اس رسiiول کiiو اس کے بڑھiاپے میں نہیں ملا تھiiا بلکہ یہ خطiiاب اس کو اس زمانہ میں ملا تھا جب سیدنا مسیح ابھی زندہ تھے اورجب وہ ابھی " گرج کiiا بیٹiiا " ہیآاتiiاہے تiiو وہ آاخiiری بارنظر تتب میں لد جدیiiد کی ک iiو عہiiول ہم کiiا۔ علاوہ ازیں جب یہ رسiiتھ �iiیحیوں کی تھی لیکن یہ انجیiiودی مسiiو یہiiڈر ہے جiiآاوردہ لی کلیسiiیاکی اس پiiارٹی کiiا سiiربر چہارم کا نکتہ نظر نہیں ہے۔ ا� اوردیگر وجوہ کے بiiاعث ہم اس کلیسiiیائی روای کی صiiح کو نہیں ما� سکتے کہ انجی� چہارم کا مصنف مقدس یوحنا وہی مقدس یوحنا تھا جiiو زبiiدی

کا بیٹا اور سیدنا مسیح کا رسول تھا۔ل� متفقہ iiا۔ اناجیiiے نہیں تھiiولوں میں سiiارہ رسiiا بiiپس اس انجی� کا مصنف مقدس یوحن کے مطابق منجئی عالمین نے یوحنا رسول کو اپنی صiورت کے بiدلنے کے مiوقعہ پiر اور گتسiمنی

تچنا تھا)مرقس ل� چہiiارم میں ا� دونiiوں۳۴: ۱۴۔ ۲: ۹باغ میں اپنا خاص مصاحب ii۔ لیکن انجی) واقعات کا ذکر نہیں ہے حiالانکہ یہ واقعiiات ایسiے ہیں جiiو نہ صiرف بھولiiنے والے ہی نہیں بلکہ

وغiiیرہ(۔ علاوہ ازیں۱۶: ۱پطiiرس ۲انہوں نے دیکھنے والوں کی زندگی پر مستق� اثر ڈالا تھا۔ )آانخداوند کی زنiدگی کے واقعiات کiو قلمبنiد کرتiاہے اس سiے صiاف جس طرز سے یہ مصنف

1ظاہر ہے کہ وہ بارہ رسولوں میں سےنہیں تھا۔

�iiارلس نے انجیiٹر چiرتے ہیں۔ ڈاکiذ کiیہی نتیجہ ہم مقدس یوحنا کے خطوط سے اخ ۔ اوریہ ثiiاب کردیiiا2چہارم اور یوحنا کے خطوط کا نہای عالمانہ طورپر تفصیلی مطالعہ کیiiا ہے

آاپ کiو " ہےکہ یہ چاروں تصانیف ایک ہی شiخص نے لکھی ہیں۔ ا� خطiiوط میں مصiنف اپiiنے آای (۔ اوریہ عہiiدہ انجی�ii اور۱یوحنiiا ۳، ۱: ۱یوحنiiا ۲رسول " نہیں کہتiiا بلکہ " پرسiiبٹر" کہتiiاہے)

خطوط کے مصنف کی نشا� دہی کا کام دیتاہے ۔ یہ وہی " پرسiiبٹر" ہے جس کiiا ذکiiر جیسiiا ہم 3ابھی بتلائينگےپے پئس کرتiiiاہے اور یوسiiiی بiiiئیس بھی اسiiiی نکتہ کی جiiiانب اشiiiارہ کرتiiiاہے

۔4اورمقدس جیروم صاف لفظوں میں اس کی وضاح کرتاہے ل� چہiiارم مقiiدس یوحنiiا رسiول بن iiکہ انجی پس ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ یہ روای زبدی کی تصنیف ہے ، صحیح نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ انجی� چہارم کی شہادت کے اوراناجی�ل� سلیم یہی چاہتی ہے کہ اس کا مصنف یروشلیمی متفقہ کے دیگر مقامات کے خلاف ہے ۔ عقتاسiiتاد وولین میں کلیسiiیا کiiا ایiiک بااختیiiار اور مسiiتند لر ا مقiiدس یوحنiiا پرسiiبٹر گردانiiا جiiائے اور دو اورمعلم تھا جو یہ مطالبہ کرنے کا حق رکھتا ہے کہ اس کی باتیں سنی اورقبول کی جائیں کیiiونکہ

(۔ اس کو یہ احساس ہے کہ اس کے ساتھ کے مبلغين وہی گواہی دیiiتے ہیں۴: ۲۱وہ حق ہیں) ، یوحنiiا۱۳، ۶، ۱۶، ۱۴: ۴یوحنiiا ۱ ۔ )5اوروہی بiiاتیں کہiiتے ہیں جن کی وہ خiiود تعلیم دیتiiاہے

وغيرہ(۔۲۳تا ۲۱: ۲۰(۲)

1 Manson, Mission and Message of Jesus p.6552 Charles, Revelation p.XXXIV3 Hoskyns Fourth Gospel p.974 H.E.iii.255 de viris illus.CC.9 and 18

Page 63: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

کلیسiیائی روای کہ انجی�i چہiارم کiا مصiنف یوحنiا رسiول درحقیق دوسiری صiدیآائرینوس کے وق سے ہے آاخر آائرینوس کے زمiiانہ میں اوراس انجی�ii کے زمiiانہ1کے ۔ لیکن بشپ

اا ڈیڑھ سو سال کا طوی� زمانہ حائ� ہے۔ پس اس روای کو تسلس� اور تواتر کiiا تصنیف میں قریب آائر ینiiوس نے یہ روای درجہ بھی نصیب نہیں ۔ اس روای کے حق میں یہ کہا جاتاہے کہ بشپ پiiولی کiiا رپ اورپے پئس سiiے حاص�ii کی تھی جiiو یوحنارسiiول کے مصiiاحب تھے لیکن مiiورخ

۔ 2یوسی پئس صاف کہتاہے کہ پے پئس یوحنا رسول کا مصاحب نہیں تھا علاوہ ازیں جب ہم پے پئس کے الفiiا� پiiر )جن کiiا اقتبiiاس یوسiiی بئس نے کیiiا ہے( تنقیدی نظر کرتے ہیں تو ہم پر یہ واضح ہوجاتاہے کہ شہر افسس کا بشپ یوحنiiا ، زبiiدی کiiا بیٹiiا

3اور سیدنا مسیح کا رسول نہ تھا۔ چنانچہ پے پئس کہتاہے " اگر کوئی شخص مجھے ملتا جiو پرسiبٹروں کiiا شiiاگرد رہ چکiا ہوتiا تiو میں اس سiے پرسبٹروں کے اقوال کی باب دریاف کرتا ۔ جو اندریاس یا پطرس نے فلپس یiiا تومiiا یعقiiوب نے یا یوحنا یا متی نے یا سیدنامسیح کے کسiiی دوسiiرے شiiاگرد نے کہے تھے اور نiiیز جiiو ایرسiiٹیو�

اوریوحنا پرسبٹر خدا کے شاگرد کہتے ہیں"۔آانخداوند کے بارہ رسولوں میں سے کسی یہ ظاہر ہے کہ اس اقتباس میں لفظ" پرسبٹر" کے لئے استعمال نہیں ہوا، کیونکہ دوسرے یوحنا کے لئے یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مندرجہآادمیiiوں سiے بالا اقتباس یہ بھی ظاہر کرتاہے کہ پے پئس نے رسiولوں کی بiاتیں بالواسiطہ تیسiرے سنیں۔ بالفiiا� دیگiر خبردیiنے والiiوں نے اس کiو یہ بتلایiا کہ فلاں بiات ہم نے فلاں پرسiiبٹر سiے سiiنی کہ فلاں رسiiول نے اس سiiے یہ بiiات کہی تھی۔ لیکن جب پے پئس کہتiiا ہے " اورنiiیز ایرسiiٹیو� یiiا یوحنiiا پرسiiبٹر سiiیدنا مسiiیح کے شiiاگرد کیiiا کہiiتے ہیں" تiiو اس نے یہ بiiاتیں بالواسiiطہآادمیiiوں سiiے سiiنی تھیں۔ نiiاظرین یہ بھی ملاحظہ کیiiا ہوگiiا کہ پے پئس پہلی قسiiم کے دوسiiرے لئے فع� ماضی " کہے تھے" استعمال کرتiiاہے لیکن دوسiiرے مقiiام میں فع�ii حiiال" کہiiتے ہیں"1 Hoskyns Fourth Gospel p.972 F.V.Filson Origin of the Gospel pp.201-2053 Ecc. Histo,iii.39

اورلفظ" نیز" استعمال کرتاہے، جس سے یہ ثاب ہے کہ ایرسٹیو� اور یوحنiiا پرسiiبٹر اس وق زنiiدہتھے۔ لیکن یوحنا بن زبدی اوراس کے رفقاءوفات پاچکے تھے۔

ء کے قiiریب لکھے تھے کیiiونکہ یوسiiی بئس ہمیں بتلاتiiاہے۱۰۰پے پئس نے یہ الفiiا� تاسiی زمiانہ میں بشiپ تھا ۔ پس4کہ جس زمiانہ میں پولیکiارپ اور اگنیشiئیس بشiپ تھے وہ بھی

ء کے قریب بشپ پے پئس ایک شخص یوحنا سے واقف تھا جس کو وہ " پرسبٹر" کہتاہے۱۰۰ )لیکن رسول نہیں کہتا(جو منجئی عالمین کی صحب سے فیضیاب ہوچکا تھا اورپے پئس کے زمانہ میں زندہ تھا۔ لیکن اقتباس سے ظاہر ہے کہ یوحنا بن زبدی رسiiول کے اقiiوال کے لiiئے وہ اور

5شخصوں کا مرہو� من ہے، جنہوں نے دوسروں سے سنا تھاکہ اس رسول نے کیا فرمایا تھا۔

انجیلی مجمiiوعہ میں مقiiدس یوحنiiا کے خطiiوط موجiiود ہیں جن میں سiiے دوسiiرے اورآاپ کiiو" پرسiiبٹر" کہتiiاہے ) ( پس یہiiاں پے پئس کے۱: ۱تیسiiرے خ�ii میں یہ مصiiنف اپiiنے

خطاب کی تصدیق ہوتی ہے۔آائرینiiوس ہمیں بتلاتiاہے کہ انجی�ii چہiiارم کiiا مصiiنف ل� غiiور ہے ۔ بشiiپ ایک اور امر قاب

ء( تiک زنiدہ رہiiا۹۸یوحنا" سیدنا مسیح کiا شiاگرد" شiہر افسiس میں قیصiر ٹiiریجن کے زمiانہ ) تھا۔ اگریہ یوحنا، زبدی کا بیٹا سیدنا مسیح کا رسول ہوتا تو پے پئس کویہ ضرورت ہی نہ پڑتی کہ وہ تیسری پش کے لوگوں سے اس کے اقوال کو دریاف کرتا کیونکہ وہ ا� اقوال کوجمع کرکے

ء کے قریب لکھ رہا تھا اور وہ ایسی جگہ کا بشپ تھا جiiو افسiiس کے قiiریب تھی پس وہ۱۰۰تا� سے کلام کرسکتا تھا۔ لہ راس بلاواسطہ برا

پس ہم اس نiiتیجہ پiiر پہنچiiتے ہیں کہ جس طiiرح بشiiپ پے پئس کiiو مقiiدس انiiدریاستاس کو مقدس یوحنiiا بن زبiiدی مقدس پطرس وغیرہ دیگر رسولوں کابلاواسطہ علم نہ تھا اسی طرح

رسول کا بھی علم نہ تھا۔

4 Ibid.iii.365 C.F.Burney Aramaic Origin of the Fourth Gospel pp. 132 ff

Page 64: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

ل� چہارم کے مصنف کو" سیدنا مسiiیح آائرینوس انجی ناظرین نے نوٹ کیا ہوگا کہ مقدس کا شاگرد" بتلاتاہے جس طرح وہ مقدس مرقس کو " پطرس کا شاگرد" کہتاہے اور مقدس لوقا کو

" رسولوں کا شاگرد"بتلاتاہے ۔ لیکن وہ اس کو " یوحنا رسول" نہیں کہتا۔ اس میں کچھ شک نہیں کے پے پئس کے اقتباس میں دونوں یوحنiiا کے لiiئے الفiiا� "آاخiر میں اوراس کے بعiiد کے سیدنا مسiیح کے شiاگرد" لکھے گiئے ہیں لیکن پہلی صiدی کے زمانہ میں جب وہ لوگ جنہوں نے سiیدنا مسiیح کiiو دیکھiiا تھiا فiiوت ہوگiiئے تiو لفiiظ" شiiاگرد" نہ صرف بارہ رسولوں کے لئے استعمال ہوتا تھا بلکہ ا� تمام لوگوں کے لئے استعمال ہiiونے لiiگ گیiiا

۔1تھا جنہوں نے سیدنا مسیح کو دیکھا تھا یوسی پئس اس اقتباس کی نسب لکھتاہے " اس مقiiام میں پے پئس صiiاف کہتiiاہے کہ وہ لوگ حق پر ہیں جiiو یہ کہiiتے ہیں کہ یوحنiiا نiiام کے دواشiiخاص تھے اور افسiiس میں اب تiiک ایک قبر بھی موجود ہے جس کو " یوحنا کی قبر" کہتے ہیں "۔ اس بات کی مزید تائیiد" رسiولی ضابطہ )اپسٹالیک کانسٹیٹیوشن( سے بھی ہوتی ہے جو چوتھی صدی کی کتاب ہے اور جو قiiدیم میں لکھiiاہے " تیمتھیس جسiiپوں کی فہرسiس کے بشiنی ہے۔ اس میں افسiے بiذوں سiماخ

iiدیس کی "۔ یہ فہرسiiا نے تقiiا جس کی یوحنiiدیس کی اوریوحنiiک۱۰۰کی پولوس نے تقiiء ت ء سے پہلے ایک یوحنا افسس کا بشiiپ رہ چکiiا تھiiا جس۱۰۰کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ

کی یوحنا رسول بن زبدی نے تقدیس کی تھی جس طرح پولوس رسiiول نے تیمتھیس کی تقiiدیسکی تھی ۔ اورہم سمجھ سکتے ہیں کہ دونوں یوحنا کس طرح غل� مل� ہوگئے۔

(۳) ممکن ہے کہ بعض اصiiحاب یہ خیiiال کiiریں کہ کلیسiiیائی روایiiات متفقہ طiiورپر تسiiلیم کرتی ہیں کہ ایشیا کا یوحنا جو بڑھاپے میں قدرتی موت مرگیا تھا وہی یوحنا ہے جو زبدی کiiا بیٹiiا اور سیدنا مسیح کا رسول تھiiا۔ لیکن کلیسiiیائی روایiiات کiiا اس امiiر پiiر اتفiiا� نہیں ہے بلکہ ایiiک اورکلیسیائی روای کے مطابق جو قدیم ہے زبدی کے بیٹے مقدس یوحنiiا رسiول نے شiہادت کiا1 Macgregor, The Gospel of St John pp. XLIV ff.

درجہ حاص� کیا تھا۔ یہ روای صحیح بھی معلiوم ہiوتی ہے اور اس کی تائیiد انجی�i جلی�i سiےآاخر(۔۳۵: ۱۰حضرت کلمتہ اللہ کے الفا� سے بھی ہوتی ہے )مرقس تا

۔( سکندریہ کا کلیمنٹ ، ہیراکلیو� کا اقتباس کرتاہے جس میں لکھا ہے " بعض نے۱)اا مiتی ، فلپس، تومiا، لیiوی وغiيرہ"۔ ا� نiاموں میں مقiiدس اپنے ایما� پر موت سے مہiر نہ کی مثلاا " وغiيرہ" میں شiمار نہیں کیiiا جاسiiکتا ! کم ازکم iiو یقینiام نہیں ہے اوراس کiا نiiول کiا رسiiیوحن

۔2کلیمنٹ اس کے خلاف نہیں ہے آاف اینڈروز( میں جن الفا� میں مقiiدس یوحنiiا رسiiول۲) لت اندریاس")مارٹرڈم ۔( "شہاد

آایا ہے ا� سے یہ پتہ چ� سکتا کہ یعقوب کا بھiائی یوحنiiا ایشiیا کوچiک میں گیiا تھiا اور کا ذکر وہاں اس نے مدت تک زندگی بسر کی ۔

آاف سائید پانچویں صدی کے مورخ نے ۳) ء میں لکھا کہ مiiائراپولس کے۴۳۰۔( فلپ بشپ پے پئس نےا پنی کتاب" سیدنا مسیح کے کلمات سماوی کی تفسیر " کی دوسiiری جلiiد میں لکھاہے کہ " یوحنا اوراس کے بھائی یعقوب کو یہود نے قت� کردیiا"۔ یہ بشiپ پہلی صiدی

کے اواخر اور دوسری صدی کے اوائ� کے ہیں پس یہ گواہی نہای اہم ہے۔ ۔3۔( مقدس خرسسٹم بھی یوحنا رسول کی شہادت کا حامی ہے۴) ء میں کہتاہے " سیدنا مسیح منجiiئی۳۴۳۔( افراح اپنے وعظ " دی پرسیکیوشن" ۵)

آاپ کے بعiiد سiiتفینس ایمانiiدار شiiہید ہiiوا جس کiiو اہ�ii یہiiود یی اورجلالی ہے۔۔ کی شiiہادت اعلآاقiiا کے نےسنگسار کردیا۔ شمعو� اور پولوس بھی کام� شiiہید تھے ۔ یعقiiوب اوریوحنiiا بھی اپiiنے لش قدم پر چلے۔ اورسولوں میں سiے دوسiiروں نے بھی ایمiiا� کiا اقiiرار کiiرکے شiiہادت کiiا درجہ نق

حاص� کیا "۔

2 Revd.J.L.Jackson”The Death of John , Son of Zebedee”in J. Th. S. Oct. 19163 See Charles, Revelation Vol I, p.XIV ff.

Page 65: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

ء( سiiے بھی ہiiوتی۴۱۱۔( اس امر کی تائید ایڈیسہ کی سریانی کلیسیا کی جنتری)۶) 4ہے جس میں لکھا ہے :

ii"۲۶اiiتاری\ ماہ دسمبر ۔ پہلا شہید استفینس جو یروشلیم میں شہیدہوا ، وہ شہداء ک تاری\ ماہ دسمبر ۔ یوحنا اوریعقوب رسول جو یروشلیم میں شہید ہوئے " ظiiاہر ہے کہ۲۷سردار ہے۔

لم یہود کی پراگندگی ) ء( سے پہلے واقع ہوئی تھی۔۷۰اگریہ شہادت درحقیق واقعہ ہوئی تو قو یہ ممکن ہے کہ مذکورہ بالا مصنفوں میں سے کسی ایک کی گiiواہی ضiiعیف ہiiولیکنآاخiiری دو گواہیiiاں جب سب گواہیاں اکٹھی کی جائیں تو وہ وز� دار ہوجاتی ہیں ۔ بالخصiiوص قسiiم کی ہیں۔ کم ازکم ا� سiiے یہ ظiiاہر ہوجاتiiاہے کہ چiiوتھی صiiدی میں ایشiiیائےiiزبردس کوچiiک اور مشiiر� کی کلیسiiیائیں یہ مiiانتی تھیں کہ مقiiدس یوحنiiا رسiiول نے درجہ شiiہادت پایiiا

تھا۔ میں مقiiدس پولiiوس نے افسiiس میں الiiوداعی تقریiiر کiiرتے وق کہiiا "۲۹: ۲۰اعمiiال

لف آائیں گے" ۔ لیکن اگiiر مقiiدس لوقiiا مصiiن مiiیرے جiiانے کے بعiiد پھiiاڑنے والے بھیڑئiiيے تم میں اعمال کو یہ علم ہوتا تکہ مقدس یوحنا رسول مقدس پولوس کے افسس میں جانشین ہiiوں گے تiiو

وہ ہر گز اس قسم کے الفا� نہ لکھتے۔ ء میں۱۱۰علاوہ ازیں انطiiiاکیہ کےبشiiiپ اگنیشiiiئیس نے اپiiiنی شiiiہادت سiiiےپہلے

افسیو� کی کلیسیا کے نام ایک خ� لکھا جس میں وہ کہتاہے کہ مقدس پولiiوس کی وجہ سiiے اس کلیسiiیاکی بنیiiاد رسiiولی ہے۔ لیکن اگiiراس کiiو یہ علم ہوتiiا کہ مقiiدس یوحنiiا وہiiاں تھے تiiو وہ رسولی بنیاد کی وجہ پولوس اوریوحنا لکھتا لیکن وہ افسس میں مقدس یوحنا کے وجود کی نسب

قطعی خامو* ہے اوریہ خاموشی ثاب کرتی ہے کہ یوحنا رسول وہاں کبھی گئے ہی نہ تھے۔ل� چہiiارم کiiا iiتی کہ انجیiiمتفقہ طورپر نہیں کہ پس نتیجہ صاف ہے کہ کلیسیائی روای�iiآاخر میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس انجی مصنف مقدس یوحنا رسول تھا۔ جہاں دوسری صدی کے آاواز بھی موجiiود تھی جiiو یہ نہیں کورسiiول کے ہiiاتھوں نے لکھiiا تھiiا وہiiاں کلیسiiیا میں دوسiiری 4 F. C. Burkitt, Gospel History and its Transmission pp.250-54

ل� یہiود کے ہiاتھوں شiہید کiئے گiئے تھے ۔ یہ iول اہiا رسiمانتی تھی اورکہتی تھی کہ مقدس یوحن سوال قدرتی طiiورپر پیiiدا ہوتiاہے کہ اگiiریہ رسiول شiہید نہیں کiئے گiئے تھے تiو ا� کی شiہادت iiے زبردسiiواہ ایسiiہادت کے گiiکی ش �کیسے شروع ہوگئی ؟ ہم بتلاچکے ہیں کہ ا کی روای

ء کے۶۲۔ بشiiپ پے پئس کے مطiiابق یہ شiiہادت 2ہیں کہ وہ نظiiر انiiداز نہیں کiiئے جاسiiکتے اس کے بھiiائی یعقiiوب کی شiiہادت اس سiiے بہ 3یہiiودی فسiiادات کے دورا� میں واقiiع ہiiوئی

آائی تھی )اعمال (۔۲: ۱۲پہلے وقوع میں (۴)

ہم سطور بiالا میں کہہ چکے ہیں کہ انجی�i چہiارم کے اشiارات سiے یہ پتہ چلتiاہے کہ اس کا مصنف مقدس یوحنا پرسبٹر ایک معزز صدوقی خاندا� سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ جواں عمiiر

آاسiiودہ خانiiدا� جس4(۲۲: ۱۰تھا جوخود تمام واقعات کا چشم دید گواہ تھا) یہ ممتاز ،باوقiiار اورآانخداونiiد کا وہ چشم وچراغ تھا کاہنوں کا خاندا� تھا۔ وہ بارہ رسولوں کے زمiiرہ میں نہ تھiiالیکن ل خاص سے سiiرفراز آاخری ایام میں خاص طورپر اپنی صحب کا محبوب شاگرد تھا جس کو اپنے

آایiات ال\ سiے ظiiاہر ہے۲۰، ۷: ۲۱۔ ۲: ۲۰۔ ۳۶: ۱۹۔ ۱۵: ۱۸، ۲۳: ۱۳فرمایiا تھiiا۔چنiانچہ آانخداونiiد آاپ کiiا رفیiiق ، مiiونس اور غمخiiوار تھiiا۔ جب کبھی آاخiiری ایiiام میں وہ کہ منجiiئی کے آاپ کے ساتھ ہوتا۔ ڈاکٹر گiiاوری کiiا خیiiال ہے کہ وہ بiiالا یروشلیم جاتے وہ ا� ایام کے دورا� میں

اا یہی وجہ ہے کہ وہ اپنا نام بھی ظاہر نہیں کرتا۔ خانہ کا مالک تھا اور غالب اس نظiiریہ کی )کہ مقiiدس یوحنiiا کiiاہنوں کے خانiiدا� سiiے تھiiا( تصiiدیق افسiiس کے

ء میں ایiiک۱۹۰بشپ پولی کریٹیز سےبھی ہوتی ہے۔اس نے روم کی کلیسیا کے بشپ وکiiٹر کiiو سiiال تiiک مسiiیحی رہ چکiiا تھiiا۔ وہ بشiiپ وکiiٹر کiiو مشiiرقی۶۵خ�ii لکھiiا جب پiiولی کریٹiiیز

لد قیiام کب منiiاتی ہیں اورکہتiاہے iلکھتاہے کہ یہ کلیسیائیں عی کلیسیاؤں کے دستور کی نسب2 Filson, the Origin of the Gospels pp. 201 ff. See also Moffat’s Introduction to the Lit.of N.T. pp. 601 ff.3 Outlines of Christianity , Vol.i.p2814 A.E. Garvie, The Beloved Disciple (1922) See also Duff’s book, and Sanday’s Criticism of the Fourth Gospel.

Page 66: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

آامiiد کے آارام کررہے ہیں اور سiiیدنا مسiiیح کی لب فض� وکمال جو اب کہ" تمام مشر� میں صاحاا فلپس جو دوازدہ رسولوں میں سiiے تھiiا اوراب ہiiائراپولوس میں سiiورہا ہے اوراس وق اٹھیں گے مثلآانخداونiد کے سiینہ کی طiiرف جھکiiا تھiiا اورکiiاہن رہ چکiا تھiiا کی دو بیٹيiiاں ۔۔۔ اوریوحنiiا جiiو اورجiiو کiiاہنوں کiiا سiiینہ بنiiد بانiiدھے ہوتiiا تھiiا۔ اورپiiولی کiiارپ جiiو سiiمرنا کiiا بشiiپ اورشiiہید

۔ اگر اس شخص کا یہ خیال ہوتا کہ یہ یوحنا سیدنا مسیح کا رسول ، زبدی کiiا بیٹiiا تiiو1تھا۔۔۔۔ وہ لکھتے وق ،فلپس جو بiارہ رسiولوں میں سiے تھiا" کے بعiد اس کiا نiام لکھتiا نہ فلپس کی بیٹیوں کے بعداس کے نام کا ذکر کرتiا ۔ حiیرت پiر حiیرت یہ ہے کہ وہ اس یوحنiا کiو " رسiول" نہیں کہتا بلکہ " گواہ اوراستاد " کہتاہے حالانکہ وہ لکھتiiاہے کہ وہ افسiiس میں سiiوتاہے" جساا وہ سiiب سiiے پہلے اس کiiا نiiام iiو یقینiiا تiiپ ہوتiiا بشiiجگہ کا پولی کریٹیز سے پیشتر افسس ک

لکھتا۔ پس اس انجی� کا مصنف مقدس یوحنا بن زبدی سیدنا مسیح کiiا رسiول نہیں تھiiا بلکہ یروشلیم کے ممتاز کاہنوں کے خاندا� کا ایک ہونہار جiiوا� تھiiا جس نے ربیiiوں کے مکتب میںآاپ کiو ربیiوں سiے بحث کiiرتے سiنا تھiiا اورا� کiو دنiدا� شiکن علم حاص� کیا تھiiا اورجس نے جواب پاتے دیکھا تھاجو اس کے لiئے مزیiد کشiش کiا بiاعث ہiiوا کیiونکہ )جیسiا ہم اگلے حصiہآانخداوند ربیiiوں کے علم اور اسiiتدلال سiiے بخiiوبی واقiiف تھے اورا� میں چ� کر ثاب کردینگے( �iiا اور اس قابiiیح کے پیچھے ہولیiiیدنا مسiiکتے تھے۔ پس وہ سiiواب دے سiiترکی جiiترکی ب iiو تiiک

آانخداوند کے خیالات کے مطابق کرسکے۔ لد عتیق کی تاویلات ہوگیاکہ عہ

فص� سومفص� سومل� چہارم کا پایہ اعتبار ل� چہارم کا پایہ اعتبارمقدس یوحنا کے حالات اور انجی مقدس یوحنا کے حالات اور انجی

ہم نے اس باب میں قدرے تفصی� کے ساتھ کام لے کر انجی� چہارم کے مصنف کےل� چہارم کی اندرونی شہادت سے اور کلیسiیائی روایiات کی جiانچ پڑتiiال صحیح حالات کا انجی

1 Eusebius, H.E.V.24

سے پتہ لگانے کی کوشش کی ہے ۔کیونکہ اس سوال کا تعلق انجی� کے پایہ اعتبار سiے بھی ہے ۔ اگریہ ثاب ہوجائے کہ اس انجی� کا مصنف یوحنiiا بن زبiiدی سiiیدنا مسiiیح کiiا رسiiول تھiiا تiiو یہ ظiiاہر ہے کہ وہ نہ تiiو واقعiiات کiiا چشiiم دیiiد گiiواہ ہiiو سiiکتا ہے اورنہ وہ انجی�ii کے فاضiiلانہلد عiiتیق iiا وہ عہiiخص تھiiاواقف " شiڑھ اور نiiپ �اا مضامین کا ذمہ دار ہوسiiکتاہے۔ چiiونکہ وہ ایiiک " کی عبرانی سے )جس کا علم صرف علماء اورربیوں کے طبقہ تک ہی محدود تھا، ناواقف تھiiا ،�iانی مائiiا اوریونiiکتا تھiiائم کرسiiالات قiiوفانہ خیiiنے متصiوہ صرف سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر اپ �iiر انجیiiا اثiiیہودی تصورات سے صرف بالواسطہ تعلق رکھ سکتا تھا ۔ ظاہر ہے کہ اس نظریئے ک چہارم کی صiiح اورپiiایہ اعتبiiار دونiiو پڑتiiاہے۔ یہی وجہ ہے کہ جiiو علمiiاء یہ مiiانتے ہیں کہ اس�iکے قائ انجی� کو یوحنا بن زبدی رسiول نے لکھiiا وہ بiiالعموم اس انجی�ii کی تiiواریخی اہمییی ہے اوراس کے نہیں اور ا� کiiiا یہ نظiiiریہ ہے کہ انجی�iii چہiiiارم تiiiواریخی واقعiiiات سiiiے معiiiر مکالمات مصنف کے اپنے ہیں جن کو وہ کلمتہ اللہ کے منہ میں ڈالتiiاہے پiiر چiiونکہ یہ مکالمiiاتمتصوفانہ اور عارفانہ پیرایہ میں ہیں لہذا وہ حضرت کلمتہ اللہ کے اصلی خیالات کے حام� ہں۔ لیکن ہم اس بiiاب میں اص�ii حقیق بتلاچکے ہیں کہ انجی�ii کی انiiدرونی شiiہادت سے یہ پتہ چلتاہے کہ اس کا مصنف یروشلیم کا یہودی ہے جو کسiiی بارسiiوخ خانiiدا� کiiا چشiiم وچiiراغ تھiiاجو جنiiوبی کنعiiا� کے مختلiiف مقامiiات کiiو نہiiای صiiح کے سiiاتھ بیiiا� کرتiiاہے اوریروشلیم کی گلیوں اورہیک� کے کونہ کونہ سے واقف تھiiا اورا� کiiا ٹھیiiک ٹھیiiک پتہ دیتiiاہے ۔لز تتب کا اص� عبرانی میں علم رکھتا ہے۔ اس نے تورات کاعلم اورطiiر لد عتیق کی مختلف ک وہ عہ اسiiتدلال ربیiiوں کے مکتب میں سiiیکھا ہے وہ یونiiانی فلاسiiفہ اوریونiiانی مائ�ii یہiiود کے تصiiوراتتا� بیانات کا جو انجی� میں لکھے ہیں سے بخوبی واقف ہے۔ وہ ایک اچھا ادیب اورشاعر ہے۔ وہ

" کہ اس انجی� ک2چشم دید گواہ ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر برنارڈ اپنی مشہور تفسیر میں لکھتاہے سطحی اور قدرتی تاوی� ظاہر کردیتی ہے کہ یہ بیانات انجی� مرقس سiے بھی زیiادہ قiدیم ہیں۔ استا� واقعات کو لکھتاہے جن کا وہ چشم دید گواہ ہے اور وہ باتیں بتلاتاہے جiواس کے کا مصنف 2 J.H. Bernard, Commentary on St.John (International) Critical Commentary T.&T.Clark)

Page 67: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

آائیں اورجن کی نسiiب اس کiiو یقین ہے کہ وہ فی الحقیق وقiiوع پiiذیر ہiiوئیں۔ اپiiنے علم میں تا� کی نسiiب اس کiiو یقین ہے کہ وہ فی الواقiiع کہے گiiئے جن مکالمiiات کiiو وہ لکھتiiا ہے �iتیجہ نہیں ہیں، جن کی تاویiتھے ۔ انجی� کے مختلف مناظر، مصنف کے تخلیقی دماغ کا ن مجiiازی طiiورپر ہiiونی چiاہئیے" اس مشiہور عiiالم مصiنف کے یہ الفiiا� نہiiای اہم ہیں کیiiونکہ وہ

۔ ہم بiاب پنجم1پہلے اس نظریہ کا حامی تھا کہ یہ انجی�i یوحنiiا بن زبiiدی رسiول نے لکھی ہےلر حاضرہ کے یہودی علماء جنہiوں نے اپiنی عمiر گرانمiایہ اس انجی�ii کے آائے ہیں کہ دو میں بتلا مطالعہ میں صرف کردی ہے ، کہتے ہیں کہ وہ مسیحی نقاد اور مفسر غلطی پر ہیں جو یہ خیiiال کiiرتے ہیں کہ جiiو مکالمiiات اس انجی�ii میں درج ہیں وہ یسiiوع ناصiiری کے منہ سiiے نہیں نکلے

تھے۔تچو� وچرا تسلیم کiرنے کے لiئے تیiار نہیں حق تو یہ ہے کہ اب علماء اس نظریہ کو بے کہ انجی� چہارم کا مصنف مقد س یوحنا بن زبدی رسول تھا اور عام طورپر نقiiاد اس نظiiریہ کے

آاتے ہیں ۔2خلاف نظر (۲)

ل� یہiiود کے iiول ، اہiiدی رسiiا بن زبiiدس یوحنiiہے کہ مق iiدرس اگiiریہ کلیسiiیائی روای ہاتھوں شہید ہوگئے تھے تو ظاہر ہے کہ اس واقعہ سiiے انجی�ii چہiiارم کی تiاری\ تصiنیف پiiر بھیآاپ ل� یہود نے اس رسول کو شہید کیا ہوگا تiiو یہ امiiر محتiiاج بیiiا� نہیں کہ روشنی پڑتی ہے۔ اگراہ

آائی ہوگی۔ کیiiونکہ اس کے بعiiد یہiiود خiiود پراگنiiدہ ہiiوکر۷۰کی شہادت ء سے پہلے وقوع میں تتر بتر ہوگئے تھے۔ ہم گذشتہ فص�ii میں بتلاچکے ہیں کہ بشiiپ پے پئس کے بیiiا� کے مطiiابق

ء سے پہلے شہادت کiiا درجہ پiiاچکے تھے تiiو۷۰ء میں شہید ہوگئے تھے۔ پس اگر وہ ۶۲آاپ ء کے قiiریب انجی�ii کiiو کس طiiرح افسiiس کے مقiiام پiiر اپiiنے۱۱۰ء یiiا بقiiول بعض نقiiاد ۹۰وہ

1 Review in the Gurdian (England) Aug.23. 1929.2 B.W.Bacon, The Story of Jesus (1928) p.40

بڑھiiاپے کے زمiiانہ میں تصiiنیف کرسiiکتے تھے؟ اص�ii حقیق یہ ہے کہ اس انجی�ii کے مصiiنف ۔3ء میں فوت ہوئے تھے۱۱۷مقدس یوحنا پرسبٹر تھے جو

(۳) پس ثاب ہوگیا کہ اس انجی� کا اص� مصنف یروشلیم کا رہنے والا مقدس یوحنا پرسiiبٹر ہے جواپنی جوانی کے ایام میں سیدنا مسiیح کی شiاگردی اور صiحب سiے سiiرفراز ہوچکiا تھiiا۔آاپ کی والiiدہ جب سiiیدنا مسiiیح مصiiلوب ہiiوئے تiiو سiiیدنا مسiiیح کے اس محبiiوب شiiاگرد نے وولین میں وہ کلیسiiیا کے " اسiiتادوں" کے گiiروہ لر ا ماجدہ کو اپنے گھiiر میں رکھiiا۔ کلیسiiیا کے دولد iiکا ایک ممتاز فرد تھا اورچونکہ وہ مقدس پولوس اورعبرانیوں کے خ� کے مصنف کی مانند عہ عتیق کا اوریہود کے ربیوں کiا اوریونiانی مائ�i یہiiود کے فلاسiفہ کiا علم رکھتiiا تھiiا اورکلیسiیا کiاآاپ کی صiiلیبی مiوت ، آاقا اور مولا کی زندگی کے واقعiiات ، استاد اورپرسبٹر تھا ، اس نے اپنے لد ثiiانی کی صiiحیح تاوی�ii کiiرکے کلیسiiیائے جiiامع کے خیiiالات کiiا رخ بiiدل دیiiا۔ iiآام قیiiام اور ل� چہارم کو پہلی صدی کے نصiف میں تصiنیف کiرکے پینتالیس پچاس سال کی عمر میں انجی وہ وایک ایسiی انجی�ii کلیسiیا کiو ورثہ میں دے گیiاجو تiادوام زنiدہ رہیگی اورعiالم وعالمیiiا� کiو

(۔۲۱: ۲۰زندگی کی راہ تاقیام دکھاتی رہیگی)

باب ہشتمباب ہشتمل� اربعہ کے پایہ اعتبار پراجمالی نظر ل� اربعہ کے پایہ اعتبار پراجمالی نظراناجی اناجی

ناظرین کو یاد ہوگا کہ اس کتاب کو لکھنے کا ایiک مقصiد یہ تھiا کہ اسiبات کiاثبوتلت بینات، صلیبی موت، ظفریاب لت زندگی ، معجزا بہم پہنچایا جائے کہ منجئی جہا� کے واقعال� اربعہ میں پایا جاتاہے ، درحقیق اسی طرح وقiiوع پiiذیر قیام وغیرہ واقعات جن کا ذکر اناجی

3 Profl.A. Burr.”The Factor of Testimony in the Gospels Exp.Times, Jesus 1938 pp.401ff

Page 68: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

لت طیبiiات آاپ کے جiiو مکالمiiات اورکلمiا ہiiوئے تھے جس طiiرح وہ اناجی�ii میں منiiدرج ہیں۔ اورکہ ل� معجز بیا� سے نکلے تھے۔ آاپ کی زبا اناجی� میں لکھے ہوئے ہیں وہ بعینہ وہی ہیں جو

ہم نے ا� چار حصوں میں یہ ثاب کیا ہے کہ جن واقعات کا ذکر اناجی� میں کیiiا گیiiاتا� کے کiiانوں نے تا� کے لکھiiنے والے اور ذکiiر کiiرنے والے خiiود چشiiم دیiiد گiiواہ تھے۔ جiiو ہے آانکھiiوں سiiے سنا ، وہی انہوں نے قلمبند کرلیا۔ یہ گواہ کہتےہیں کہ " جسے ہم نے سiiنا اور اپiنی

:۱دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اوراپنے ہiiاتھوں سiiے چھiiوا ہم اس کی گiiواہی دیiiتے ہیں)پہلا یوحنiiا ۲۷: ۱۵۔ یوحنiiا ۳تiiا ۲: ۱۔ ۳۹: ۲۴۔لوقiiا ۱۶: ۱پطiiرس ۲۔ ۳۵: ۱۹۔یوحنiiا ۲۰: ۴۔اعمiiال ۱

وغیرہ(۔

۔( سیدنا مسیح کی وفات کے بعد پہلے دس سال۔( سیدنا مسیح کی وفات کے بعد پہلے دس سال۱۱))وول میں یہ ثiاب کیiا ہے کہ سiیدنا مسiیح کی زنiدگی کے وول کے حصiہ ا ہم نے جلiد ا

آاپ کے جiiانفزا، پیغiiام کوسiiننے والے ہiiزاروں تھے)لوقiiا وغiiیرہ(۔۱: ۱۲واقعiiات کودیکھiiنے والے اورآاپ کے مبiiارک کلام آاپ گiiئے ، ل} مقدس کے مختلiiف گوشiiوں میں جہiiاں کہیں جنہوں نے ارآاپ تا� عجیب کiiاموں کiiا اور آاپ کے کاموں کو دیکھiiا۔ یہ لiiوگ جس جگہ بھی گiiئے کو سنا اورل} مقiiدس کے مختلiف آاپ نے خiود سiتر مبلغین کiو ار کے منہ کی بiاتوں کiا چرچiا کiرتے رہے۔ لم حج ہوجiiائے۔ پس انجیلی بیانiiات کے مصiiد� ہزارہiiا کونوں میں بھیجا تاکہ تمام یہود پر اتمiiا

۱۶: ۹ثقہ چشم دید گiiواہ ہیں جن میں سiiے بعض سiiیدنا مسiیح کے جiانی دشiiمن تھے )یوحنiiا کےiوتھی پشiا چiری یiا تیسiری یiنی دوسiiابعین کے یعiع تiابعین اور تبiات تiیرہ(۔ پس یہ بیانiوغ تا� لوگiiوں کے ہیں " جiiو شiiروع ہی سiiے خiiود دیکھiiنے والے ایمانداروں کے بیانات نہیں ہیں بلکہ

(۔ جواپiiنے اعتبiiار کے لحiiا� سiiے کلیسiiیا میں مشiiہور تھے۲: ۱اورکلام کے خiiادم" تھے)لوقiiا (۔۲۴: ۲۱)یوحنا

یہ ہزارہا چشم دید گواہ سب کے سب لکھےپڑھے خواندہ اشخاص تھے جن میں سiiےتا� کلمiiات کiiو قلمبنiiد تا� واقعiiات کiiو پiاروں میں لکھiiا جوانہiiو ں نے دیکھے تھے اور بیسیوں نے

آانخداونiiد کی وفiiات کے بعiiد کے دس سiiال میں یہ۱: ۱کیiiا جiiو انہiiوں نے سiiنے تھے)لوقiiا (۔ تحریری پارے مختلف کلیسiiیاؤں میں رائج ہوگiiئے اور جiiوں جiiوں کلیسiiیا روز افiiزوں تiiرقی کiiرتی گئی یہ پارے جگہ بہ جگہ نق�ii ہiiوکر ایمiا� داروں کے ایمiiا� کiو مسiiتحکم کiرنے اوردوسiiروں کiو

منجئی جہا� پر ایما� لانے میں ممدومعاو� ثاب ہوئے۔آاپ کiiو منظم بھی کرلیiiا۔ چنiiانچہ اس میں رسiiولوں وولین میں کلیسiiیانے اپiiنے لر ا اس دواوراستادوں کا اورمبلغین کے گروہوں کا وجود پیiiدا ہوگیiiا اوریہ گiiروہ جiiڑ پکiiڑ کرتiiرقی کiiرتے گiiئے ۔ تانہوں نے کلیسیا کے بے شمار ایما� داروں کے لئے مختصر رسالے لکھے جن میں سiiیدنا مسiiیحل� یہود کے دیگiiر بیسiiیوں لد عتیق سے ثبوت پیش کیا گیا تھا ۔ اوراہ یے کا عہ کے مسیحائي دعوآائیں ۔ اعتراضiiات کiiا جiiواب دیiiا گیiiا تھiiا تiiاکہ کلیسiiیا کے ایمiiا� داروں اور مبلغiiوں کے کiiام مسیحی معلموں اوراستادوں کے فاض� گروہ نے صلیبی واقعہ کiiا مربiiوط مسلس�ii بیiiا� بھی مiiرتب

کیا جو چشم دید گوہوں کے بیانات پر مشتم� تھا۔ اس فاض� گروہ کے ہاتھوں میں ایک رسالہ بھی تھiiا جس میں حضiiر ت کلمتہ اللہ کےلن حیiiات میں ہی جمiiع کiiئے گiiئے تھے۔ آاپ کی حی کلمiiات لکھے تھے۔ یہ خداونiiدی کلمiiات اس رسالہ کی نقلیں جا بجا کلیسیاؤں میں مروج تھیں اورسولوں ، معلموں، مبلغوں، اورایما� داروں کے ہاتھوں میں موجود تھیں۔ یہ رسالہ ارامی زبا� میں تھا جس میں حضرت کلمتہ اللہ کلام کرتے

آاپ کے ا� کلمات کو مقدس متی نے جمع کیا تھا۔ تھے ۔ وولین دور میں )از ء( یعiiنی منجiiئی عiiالمین کی وفiiات کے دس سiiال۴۰ء تا ۳۰پس اس ا

کے اندر کلیسیا میں ہزارہiا نومریiد شiام� ہوگiئے جن میں کiٹر یہiiود اور یونiانی مائ�i یہiود ، دونiوںلت خداونiiدی" مiiروج تھiiا۔ اس کے علاوہ ا� کے شiiام� تھے۔ ا� ایمiiا� داروں میں رسiiالہ " کلمiiاآانخداوند کے معجزات بینات کا ذکر تھا جو چشم دیiد ہاتھوں میں بیسیوں پارے اورتھے جن میں آانخداوند کی صلیبی موت اورظفریاب قیام کے حiiالات بھی پiiاروں گواہوں نے لکھے ہوئے تھے۔ تور دراز مقامiات کی کلیسiیاؤں کے ہiiاتھوں میں تھے ۔ کلیسiiیا ل} مقدس کے د کی شک� میں ار

Page 69: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

لت مسیح موعود" تیارکرکے ایمiiا� داروں کے ہiiاتھوں کے فاض� معلموں کی جماع نے رسالہ" اثباتتب سiiے ثiاب کیiiا گیiiا تھiiا کہ یسiوع ناصiری لد عiiتیق کی ک iiا ، جس میں عہiiا تھiiمیں دے دی مصلوب ہی وہ مسیح موعود ہے جس کی انبیائے سلف کمال شiiو� سiiے انتظiiار کiiررہے تھے۔ ا� کے علاوہ مختصر رسالوں ، دوورقہ اور چار ورقہ پاروں میں ا� اعتراضات کiiا جiiواب بھی دیiiا گیiiال� یہود سiiیدنا مسiیح کی مسiیحائی پiiر کiرتے تھے تiiاکہ ایمiiا� دار یہiiودی معترضiiین کiiو تھا جواہتا� کے اپنے ایما� کو استقام حاص� ہو اور وہ دوسروں کی تسلی بخش جواب دے سکیں۔ اور

نجات کا وسیلہ بن جائیں۔

۔( سیدنا مسیح کی وفات کے بعد کے پچیس سال۔( سیدنا مسیح کی وفات کے بعد کے پچیس سال۲۲))لف اناجی� کا زمانہ لف اناجی� کا زمانہجمع وتالی جمع وتالی

�iiنی انجیiرقس نے اپiدس مiiدر مقiدر انiال کے انiمنجئی عالمین کی وفات کے دس س آانخداونiد کے جیiiتے جی۴۰لکھی اور آاپ نے رسiiالہ کلمiiات کiiو جiiو ء میں اس کو شائع کیiiا۔

آاپ کےدیگر چھiiوٹے چھiiوٹے پiiارے اسiiتعمال کiiئے لکھا گیا تھا اپنا ماخذ بنایا۔ اس کے علاوہ آاپ جو قدیم ترین تھے اورجن کو چشم دید گواہوں نے لکھا تھا۔ا� تحریری ماخذوں کے علاوہ آاپiنے اپiiنے چشiiم دیiد تجiiربہ اوردیگiiر چشiiم دیiد خود صلیبی واقعہ کے چشiiم دیiد گiواہ تھے ۔ تاسiiتادوں کiiا وولین کے لر ا آاپ نے دو گواہiiوں کے بیانiiات سiiے صiiلیبی واقعہ کiiا بیiiا� مiiرتب کیiiا۔ لت مسیح موعود" کا بھی استعمال کیا اوراپنی انجی�ii تiiالیف کی جiiو اپiiنے پiiایہ اعتبiiار رسالہ" اثباآاپ ل} مقiiدس کی کلیسiiیاؤں میں رواج پiiاکر مقبiiول عiiام ہوگiiئی۔ چiiونکہ کی وجہ سiiے تمiiام ار مقدس پطرس اورمقدس پولوس اوربرنبiiاس کے سiاتھ انجی�ii کے سiiنانے میں بiڑے سiرگرم تھے لہiiذا

آاپ کے کiiام اورجiiو* سiiے بخiiوبی واقiiف تھیں) ۔۱۰: ۴تیمتھیس۲ii۔ ۱۳: ۵پطرس۱iiکلیسiiیائیں آاپ کی انجی� کا پایہ اعتبار ہiiر۴۰: ۱۵ ۔ اعمال ۱۴: ۴۔ کلسیوں ۲۴فلیمو� جس کی وجہ سے

جگہ مسلم تھا ۔

لت خداوندی کو جiiو قiiدیم تiiرین اور معتiiبر تiiرین رسiiالہ۲) ۔( مقدس متی نے رسالہ کلماآاپ نے مقiiدس مiرقس کی انجی�i کiو جس میں منجiiئی عiالمین تھا" اپنی انجی� کا ماخذ بنایiا۔ آاپ نے کلیسiiیا کے اہم تiiرین سiiوانح حیiiات کiiا ذکiiر تھiiا، لفiiظ بہ بلفiiظ نق�ii کیiiا ۔علاوہ ازیں لت مسیح موعiiود" کiiا بھی اسiiتعمال کیiiا اور دیگiiر کےفاض� معلموں کےتیارکردہ قدیم رسالہ " اثبا چھوٹے چھiiوٹے پiاروں کiو )جiو قiiدیم زمiانہ سiiے کلیسiیاؤں میں مiروج تھے اورچشiم دیiد گواہiiوںآاپ تا� کiiو بھی اپiiنی انجی�ii کiiا ماخiiذ بنایiiا۔ کےلکھے ہوئے تھے(۔ بڑی کاو* سے جمع کیا اور نے اپنی انجی� کو یہودی نومریiدوں کے ایمiiا� کے اسiiتحکام کے لiiئے منجiiئی جہiiا� کی وفiاتاا بیس برس کے بعد لکھا۔اس انجی� کےوسیلے ہزاروں کٹر یہود کلیسیا میں شام� ہوگiiئے۔ کے قریب یہ انجی� اس قد مستند اور معتبر تسلیم کی جاتی تھی کہ قiiدیم کلیسiiیا میں ایمiiا� داراس کiiو " الانجی�" کے نام سے موسوم کiiرتے تھے حiiالانکہ یہ انجی�ii کiiٹریہود کی خiiاطر لکھی گiiئی تھیل� یہiiود کے iiو اہiiمذاہب سے شام� ہوئے تھے ، ج تب پرس اورکلیسیا میں یہ ایما� دار مشرک اور نام سے بیزار تھے لیکن اس کا مستند ہونا ہر ایک کو مسلم تھا اوراس کا پایہ اعتبiiار نہiiای بلنiiد

تھا جس کی وجہ سے اس کو خاص طورپر" الانجی�" کہا جاتا تھا۔آاپنے قدیم ترین انجی�ii مiiرقس کiiو مقدس لوقا نے بھی رسالہ کلمات خداوندی کو اپناماخذ بنایا۔ بھی لفظ بلفظ نق�i کیiا کیiونکہ یہ انجی�i تمiام کلیسiیامیں نہiای مسiتند اور معتiبر تسiلیم کی جاتی تھی۔علاوہ ازیں مقدس لوقiا مقiدس مiرقس سiے بخiوبی واقiف تھے کیiونکہ دونiوں مقiدس

(اوردونوں۱۴: ۴۔ کلسیوں ۲۴۔ فلیموں۱۱: ۴تیمتھیس ۲پولوس کے ساتھی اورخدم گزار تھے۔ ) کرنتھیiiوں۲۔ ۱۱: ۴تیمتھس۲ii۔ ۱۰: ۴بشارت کے کام میں سرگرم اورجوشiiیلے مبلiiغ تھے)کلسiiیوں

(۔۱۸: ۸ مقiiدس لوقiiا نے دوڑ دھiiوپ کiiرکے نہiiای محن سiiے مختلiiف رسiiالے اورپiiارے بہمتا� لوگوں کے لکھے ہوئے تھے جو شروع سiiے خiiود دیکھiiنے والے ،اورکلام کے خiiادم پہنچائے جو

آاپ نے غiiیر یہiiود۱: ۱تھے") (۔ اوربڑی تحقیق اورجستجو کے بعد اس قاب� قدر وقدیم ذخیرہ سے

Page 70: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

نومریiiiدوں کے لiiiئے انجی�iii تiiiالیف کی جiiiو اس وق ہiiiزاروں کی تعiiiداد میں سiiiلطن روم کے مختلف گوشوں میں رہتے تھے تاکہ وہ اپنے ایما� پر ثاب قiiدم رہیں۔ یہ انجی�ii مقiiام قیصiiریہ میں

ء میں شائع ہوگئی۔۵۷منجئی جہا� کی وفات کے پچیس برس بعد لکھی گئی اور ۔( جن ایام میں مقدس متی نے اپنی انجی� کو کٹر یہودی مسیحیوں کے لئے لکھiiا۴)

اا بیس بiiرس کے بعiiد مقiiدس یوحنiiا نے اپiiنی لی عالمین کی وفات کے قریب انہی ایام میں یعنی منجئ تا� یہودی نومریدوں کے لئے تصiiنیف کی جiiو یونiiانی کے دلiiدادہ تھے اورجن کی تiiربی انجی� یونانی تہذیب اورفلسiفہ کے گہiوارہ میں ہiiوئی تھی۔مقiiدس یوحنiiا خiود یروشiلیم کے رہiiنے والےتا� واقعiات کے خiود چشiم دیiد گiواہ تھے اورکiاہنوں کے خانiدا� کے چشiم وچiراغ تھے ۔ وہ تا� مکالمiiات کiiو سiiنا تا� کے اپنے کانوں نے تھے جومقدس شہر یروشلیم میں رونما ہوئے تھے۔ آاپ نے قiدیم تiرین ل� مبارک سiے فرمiائے تھے ۔ علاوہ ازیں تھا جو حضرت کلمتہ اللہ نے اپنی زبالل عiiام تھی، اپنiiا خiiاص انجی�ii مiiرقس کiو جiiو اپiنے پiایہ اعتبiiار کی وجہ سiiے کلیسiیا میں مقبiiولت خداونiدی" کiو بھی بطiور ماخiذ اسiتعمال کیiا۔ انکے آاپنے قiدیم تiرین رسiالہ کلمiا ماخذ بنایا۔ وولین کے لر ا آاپ خiiوددو آاپ کے پاس دیگر معتبر قسم کے قدیم ماخذ بھی تھے۔ چiiونکہ علاوہ لت مسیح موعود" کا بھی آاپنے قدرتی طورپر رسالہ " اثبا تاستادوں کے زمرہ کے ایک ممتاز فرد تھے استعمال کیا اورا� ماخذوں سiiے سiiیدنا مسiیح کی زنiدگی کے واقعiiات کiو انجی�ii میں لکھiiا ۔آانخداوند کے سiوانح حیiات کiو لکھiiا بلکہ ا� کی ایسiی تاوی�i کی جس سiے آاپ نے نہ صرف سیدنا مسیح کی جلالی زندگی کے نورانی واقعات کااص� مفہوم عالم وعالمیا� پر روشن ہوگیا۔

(۲)ل� اربعہ کے بیانiiات چشiiم دیiiد گواہiiوں کے iiلربالا میں بتلاچکے ہیں کہ اناجی ہم سiiطو بیانات ہی تھے۔ اناجی� کے مصنفین اس معاملہ میں نہای محتاط تھے۔ انہiiوں نے کسiiی چشiم دید گواہ کےبیا� کو تسلیم نہ کیا تاوقتیکہ دیگiiر چشiiم دیiiد گواہiiوں نے ا� کے بیiiا� کی تصiiدیقل� یہiود میں تiورات iئے اہiاننے کے لiو جiک نہ کی۔ ا� کا خصوصiی معیiار وہی تھiا جiو صiداق

میں یہ معیiiار ہے" کسiiی شiiخص۱۵: ۱۹شریف کے احکام کی بنا پر رائج تھا۔ چنانچہ استشiiنا کے خلاف۔۔۔۔ ایک ہی گواہ بس نہیں بلکہ دوگواہiiوں یiا تین گواہiiوں کے کہiiنے سiiے بiات پکی

وغiiيرہ(۔ گiiویہ معیiiار قiiانونی کiiارروائی۶: ۱۷، استشiiنا ۳۰: ۳۵سiiمجھی جiiائے ")دیکھiiو گنiiتی اورعiiدالتی معiiاملات کےلiiئے پہلے پہ�ii تجiiویز ہiiوا تھiiا، لیکن اس کiiو وسiiع دے کiiر جiiرائم اورگناہوں پر لاگو کردیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ یہی معیار سوش� اورسماجی زندگی پر بھی حiiاوی

۔ال\ ۔ میں خطاکار بھائی کو سمجھانے کے لئے یہ اصول لکھiiاہے"۱۵: ۱۸تھا۔ چنانچہ متی ہرایک بات دو تین گواہوں کی زبا� سے ثاب ہوجائے"۔ ا� دو تین گواہوں کا کام کسiiی الiiزام کiiو ثاب کرنا نہ تھا بلکہ سمجھانا تھا تاکہ بھائیوں میں باہم صلح کررہے ۔ مقدس پولوس رسiiول بھی

آاتiا ہiiوں۔ دویiا تین گواہiiوں کی۱: ۱۳کرنتھیوں ۲ میں فرماتاہے " یہ تیسری بار میں تمہارے پاس �iiول اہiiا اصiiوں کiiا تین گواہiiاہر ہے کہ دویiiے ظiiائے گی "۔ اس سiiہوج زبا� سے ہرایک بات ثابل� یہiiود کی زنiدگی کiا ہiiر شiعبہ تiورات iiونکہ اہiا کیiا تھiزوبن چکiیہود کی سماجی زندگی کا ج تاصiول کے مiاتح تھiiا۔ کiاذب گiواہ سiخ سiزا کiا مسiتوجب ہوتiا کے احکiام اور شiرع کے

آاخر و ۱۶: ۱۹تھا)استشنا وغیرہ(۔۷: ۱۷تا ل� متفقہ میں سiiیدنا مسiiیح کی دعiiائيہ زنiiدگی کiiا ذکiiر ہے لیکن یہی وجہ ہے کہ اناجی آاپ کے دعاؤں کے الفا� کا ذکر صرف تب کیا گیا ہے جب دوسرے لوگوں نے ا� کو سiنا تھiا۔تدعiiا کے الفiiا� کiiو سiiنا آاپ کی اا گتسiiمنی بiiاغ میں نینiiد کے غلبہ سiiے پہلے رسiiولوں نے مثل

(۔۴۱: ۲۲۔ لوقا ۳۹: ۲۶۔ متی ۳۵: ۱۴تھا)مرقس مقiiدس یوحنiiا کی انجی�ii سiiے بھی گواہiiوں کی صiiح پiiر روشiiنی پiiڑتی ہے ۔ چنiiانچہ الفا� " گواہ" اور" گiiواہی" اس انجی�ii میں باربiار وارد ہiiوئے ہیں بلکہ اس کے دیبiاچہ تiک میں

(۔ بیانiiات۳۷: ۱۸پائے جاتے ہیں ۔ اس انجی�i کے مطiiابق ابن اللہ کiا کiام ہی گiواہی دینiiا ہے) ۱۲یوحنا ۳۔ ۲۴: ۲۱۔ ۳۵: ۱۹کے دینے والے گواہوں کی صح اورپایہ اعتبار کا بھی ذکر ہے )

وغiiیرہ(۔۵: ۲تھسiلنیکیوں ۱۔ ۸: ۱۔ فلiiپیوں ۲۳: ۱کرنتھیiiوں ۲۔ ۹: ۱وغیرہ۔ مقiiابلہ کiiرو رومیiiوں

Page 71: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

یی ہذا القیاس سیدنا مسیح کی قیiام کے روز مقiدس پطiرس اور مصiنف انجی�i کے بیانiات علآانخداوند خودفرماتے ہیں " اگر میں خود اپنی گواہی دوں تومiiیری میں دونوں کی گواہی موجود ہے۔ گواہی سچی نہیں۔ ایک اورہے جو میری گواہی دیتاہے ۔ تم نے یوحنا کے پاس پیiiام بھیجiiا اوراس

آاٹھiiویں بiاب میں۱۹: ۵نے سچائی کی گواہی دی ہے") آاخر(۔ناظرین کiو یiاد ہوگiا کہ فریسiی تا آاپ دیتiiاہے۔ تiیری گiiواہی سiچی نہیں "۔ جس کے سیدنا مسیح کو کہiiتے ہیں" تiiو اپiiنی گiواہی آادمیiiوں کی گiiواہی جواب میں سیدنا مسیح فرمiiاتے ہیں " تمہiiاری تiiورات میں بھی لکھiiاہے کہ دو

1م� کر سچی ہوتی ہے"۔

ل� اربعہ کے مصiiنفین نے ہرچشiiم دیiiد گiiواہ کےبیانiiات کی خiiوب چھiiا� بین iiپس اناجی تانہوں نے کسی ایسے بیiiا� کiiو قبiiول نہ کیiiا جس کی دویiiا۴تا ۱: ۱اورجانچ پڑتال کی )لوقا (۔

تین دیگiiر چشiiم دیiiد معتiiبر گواہiiوں نے تصiiدیق نہ کی۔ پس ا� اناجی�ii کے بیانiiات صiiح کےل� اربعہ روای اور درای کے ہiiر اصiiول پiiر اور iiیر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اناجیiiے بے نظiiا� سiiلح لل منطiiق پiiر پiiوری اتiiرتی ہیں۔ گiiواہ چشiiم دیiiد اور معتiiبر ہیں ۔ ا� کے بیانiiات مشiiتبہ نہیں اصو تا� میں کلمتہ اللہ کے اپiنے سiے منہ سiے نکلے ہiوئے الفiا� درج ہیں ۔ ہiر بیiا� کiا نہiiای ہیں۔ آاخری راوی وول اور معتبر اور غیر منقطع تعلق کسی نہ کسی چشم دید گواہ سے ہے جو اس کا اییحiiدہ بیiiا� ییحiiدہ عل ہے ۔ کسی کی سند سماعی نہیں ہے۔ بعض بیانات مختلف لوگوں نے علل� اربعہ نہ iک نہیں ۔ اناجیiام تiا نiاد کiاہمی تضiبر ہیں جن میں بiکئے ہیں اور وہ سب ثقہ اور معت لل درای پر بھی پوری اتiiرتی ہیں۔ ا� لل روای کے معیار پر پوری اترتی ہیں بلکہ اصو تاصو صرف �iiکے بیانات عق �وحال کے قرائین کے موافق ہے۔ ا کا ہر بیا� تاری\ کے مطابق ہے۔ اور وقآاتی کے عین مطابق ہیں اورہiر بیiiا� میں حضiرت کلمتہ اللہ کی پiاک ذات کی جھلiک نظiر ہے۔ اناجی� اربعہ میں نہ توعجوبہ پرستی ہے اورنہ کے مولفiiوں نے رطب و یiiابس جiiوکچھ سiiامنےوول ہی سے اناجی� اس قدر مستند تھیں کہ ا� کے پiiایہ اعتبiiار لر ا آایا لے لیا۔ یہی وجہ ہے کہ دو

کے سامنے ہر چھوٹے بڑے کام کا سرخم تھا۔ 1 Rev.J.Badcock, Exp.Times Otc.1941

(۳) ہم نے اس کتاب میں اناجی� اربعہ کی قدام ، صح اورپایہ اعتبار پرمختلiiف پہلiiوؤں�iا ہے کہ اناجیiکردی سiے بحث کی ہے اور ہiiر پہلiو پiر ہم نے تفصiیلی بحث کی ہے اوریہ ثiاب اربعہ کی صح اور پایہ اعتبار کے بلند ہiiونے میں کسiiی صiiحیح العق�ii شiiخص کے لiiئے شiiک

کی گنجائش نہیں رہتی۔ ہم نے یہ ثاب کردیا ہے کہ چاروں کی چاروں اناجی�i کوخiواہ کسiی پہلiو سiے دیکھiiواا اورمجموعی طورپر حضرت کلمتہ اللہ ربنا المسیح کی ایک ہی قسم کی تصویر اا فرد تا� میں فردآاتی ہے۔ ہم نے ایک ایک انجی� پiiر تفصiiیلی نظiiر ڈال کردیکھiiا ہے کہ ہiiر ایiiک میں منجiiئی نظر عالمین کی ایک ہی تصویر موجiiود ہے اور چiiاروں انجیلiiوں پiiر مجمiiوعی نظiiر ڈال کiiر بھی اسiiیآاپ آاتی ہے ۔ آانخداونiiد کی ایiiک ہی تصiiویر نظiiر نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ چاروں کی چاروں میں کی جiiو تصiiویر ایiiک انجی�ii پیش کiiرتی ہے کiiوئی دوسiiری انجی�ii کے متضiiاد تصiiویر پیش نہیں کرتی حالانکہ ا� انجیلiوں کے لکھiنے والiوں نے مختلiف مقاصiد اورنکتہ نگiاہ سiiے اپiنی اپiنیآانخداونiد کی انجیلوں کو لکھiiاہے لیکن ا� کے نکتہ نگiاہ اور مقاصiiد کے اختلاف کے بiاوجود جو تصویر انجیلوں میں پائی جاتی ہے وہ نہ صرف تضاد سے پiاک ہے بلکہ واحiد قسiم کی ہے۔ یہ وحدت ثاب کرتی ہے کہ اناجی� اربعہ نہای مستند اور معتبر کتابیں ہیں جو تنقیiiد کے معیiiار

پرہر پہلو سےپوری اترتی ہیں۔اا اورمجموعی طiiورپر اا فرد یہ ایک رنگی اور یک جہتی نہ صرف ہر چہار اناجی� میں فردوول کے حصiiہ دوم تا� کے ہر حصہ میں پiiائی جiiاتی ہے۔ ہم جلiiد ا پائی جاتی ہے بلکہ یہ موافق میں بتلاچکےہیں کہ ہiiر انجی�ii نiiویس نے اپiiنی انجی�ii کiiو قiiدیم تحریiiری اور زبiiانی بیانiiات سiiے تالیف کیا ہے، جو اس کے ماخذ ہیں۔ انجی� کا ہiiر حصiiہ کسiiی نہ کسiiی ماخiiذ سiiے تiiالیف کیا گیا ہے۔ پس یہ ہم رنگی اور یک جہiiتی نہ صiرف ہiiر انجی�i میں بلکہ ہرانجی�i کے ہiر ماخiذلد نظiiر رکھiiتے ہیں کہ ہرانجی�ii نiiویس نے بےشiiمار iiو مiiات کiiاتی ہے۔ جب ہم اس بiiائی جiiمیں پ

Page 72: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

وغیرہ( صرف ایسے ماخذوں کiiا ہی اسiiتعمال کیiiا تھiiا۱: ۱۔ لوقا ۲۵: ۲۱ماخذوں میں سے یوحناتاس کے کiiام کے تھے)یوحنiا وغiیرہ(۔تiوہم پiر یہ ظiاہر۳۰: ۲۰جواس کے اپنے مقصد کے مطابق

ہوجاتاہے کہ یہ قدیم ترین تحریiری بیانiات سiیدنا مسiیح کی ایiک ہی تصiویر کiو پیش کiرتے تھے ( ا� قiiدیم تiiرین۱: ۱گiiویہ بیانiiات مختلiiف مقامiiات میں مختلiiف اشiiخاص نے لکھے تھے)لوقiiا

وول درجہ کے معتiiبر چشiiم دیiiدگواہوں بیانات کی موافق اور یک جہتی ثاب کرتی ہے کہ وہ ا کےبیانات تھے جن کا پایہ اعتبار نہای بلند اور جن کiiا زمiiانہ" تحریiiر نہiiای قiiدیم تھiiا۔ وہ اس زمانہ میں لکھے گئے تھے جب وہ واقعات رونما ہورہے تھے جن کiiا وہ ذکiiر کiiرتے ہیں ۔ پس ا�آانکھiiوں سiiے ا� کے لکھiiنے والے حضiiرت کلمتہ اللہ کے معتiiبر ہم عصiiر تھے جنہiiوں نے اپiiنی آاپ آاپ کا جانفزا کلام سنا تھا۔ جس سے ثاب ہے کہ واقعات کو دیکھا تھا اوراپنے کانوں سے آانے کے درمیiiا� کے کلمات کے فرمائے جانے اور واقعات کے ہiiونے اورا� کے احiiاطہ تحریiiر میں لت زرین اور سیدنا مسیح کے سوانح حیiiات میں طوی� زمانہ کا فاصلہ حائ� نہ تھا۔پس جو کلماآاپ کے آاپ نے کiئے اور آاپ نےفرمiائے اور اناجی�i اربعہ میں موجiود ہیں ، وہ بجنسiہ وہی ہیں جiو

آائے۔ یہ تواتر اور تسلس� ا� کےمستند اور معتبر ہونے کی زبردس دلی� ہے۔ پیش علاوہ ازیں ہمیں یہ امر کبھی فرامو* نہیں کرنا چاہیے کہ اناجی�ii اربعہ کی تiiالیف کےتتب میں اورانجیلی بیانiiiات میں تتب لکھی جiiiارہی تھیں۔ا� ک لدجدیiiiد کی دیگiiiر ک زمiiiانہ میں عہتتب میں لد جدیiiد کی تمiiام ک iiوتے۔ لیکن عہiiحیح نہ ہiiات صiiر انجیلی بیانiiا،اگiiکتا تھiiاد ہوسiiتض آاہنگی اوراناجی� اربعہ کے بیانات میں تضiiاد کiiا نشiiا� تiiک نہیں بلکہ اس کے بiiرعکس ہiiرجگہ ہم ل� اربعہ صiiح کے پiiایہ اور یک رنگی پائی جاتی ہے جو اس حقیق کا مزید ثبوت ہے کہ اناجی

آاپ اپنی نظیر ہیں ۔1کے لحا� سے

(۴)

1

آائے ہیں جiو ہiر انجی�i نiویس اپiنے وول کے حصiہ دوم میں وہ طiریقہ بھی بتلا ہم جلد اآائے ہیں کہ ماخiiذوں کiiو اسiiتعمال کiiرتے وق اختیiiار کرتiiاہے۔ مثiiال کے طiiورپر ہم یہ ثiiاب کiiر مقدس متی اور مقدس لوقا دونوں کiiا ایiiک ماخiiذ مiiرقس کی انجی�ii تھiiاجس کiiو دونiiوں نے لفiiظلت یی ہiiذا القیiiاس پہلے تین انجی�ii نویسiiوں کiiا ایiiک ماخiiذ رسiiالہ" کلمiiا بلفiiظ نق�ii کیiiا ہے۔ عل خداوندی" تھiiا جiiو نiبیوں نے لفiiظ بلفiiظ نق�ii کیiا ہے۔ اس طiiریقہ کiار سiے یہ پتہ چلتiiاہےکہ ہiiر انجی� نویس اپنے ماخذوں کو لفظ بلفظ نق� کیا کرتا تھا ۔ چونکہ کسی انجی� کا کوئی حصiiہ�iiقدیم ترین ماخذوں سے تالیف نہ کیا گیا ہو پس نتیجہ ظاہر ہے کہ ہر انجی �ایسا نہیں ہے جو ا تا� کiو لفiظ بہ لفiiظ نق�ii کیiiا ہے جiو نویس نے اپنے مطلب کے موافق قدیم تiرین ماخiذ چن کiر ل� اربعہ کی قدام ، صiiح اورپiiایہ اعتبiiار کوثiiاب کرتiiاہے۔ ہم سiiطور بiiالا میں بتلاچکے اناجیآانے اورا� کے منiiدرجہ کلمiiات اورواقعiiات ہیں کہ اناجی�ii کے ا� ماخiذوں کے احiiاطہ تحریiر میں لت طیبiiات آانخداونiiد کے جiiو کلمiiا کے رونما ہونے کے درمیا� بہ فاصلہ حائ� نہیں تھا ۔ پس ل� اربعہ میں مذکور ہیں وہ قدیم ترین ماخذوں سے لفظ بلفظ نق�ii ہiiوکر ہم تiiک اورمکالمات اناجیآاپ کے آانخداونiiد کی زبiiا� معجiiز بیiiا� سiiے نکلے تھے۔ بجنسiiہ ویسiiے ہی پہنچے ہیں جیسiiے �iiے اناجیiiآائے تھے ، جیس سوانح حیات جواناجی� میں مندرج ہیں وہ بعینہ اسی طرح وقiiوع میں

میں مندرج ہیں ، کیونکہ اناجی� کے مولفوں نے اپنے ماخذوں کو لفظ بلفظ نق� کیا ہے۔(۵)

وول کے حصہ دوم وسوم اوراس جلiiد کے حصiiہ چہiiارم میں ہم نے ا� تمامباتوں کا جلد ال� اربعہ کے بیانات کی صiح کiا پiایہ ظiiاہر ہوجiائے۔ ہم نے یہ ثبوت دیا ہے تاکہ ناظرین پر اناجی کوشش کی ہے کہ تمام ثبوت اناجی� کی اندرونی شہادت پر ہی مبنی ہیں۔ اگرچہ ہمارے پاس ایسے خارجی ثبوت بھی ہیں جو انجیلی بیانات کی صiiح پiiر شiiاہد ہیں ۔ لیکن ہم نے ا� کiiو شiiہادت ہے جسiiی زبردسiiک ایسiiہادت ہی ایiiپیش کرنے سے پرہیز کیا ہے کیونکہ اندرونی ش ل� سلیم اپنا سر جھکا دیتی ہے۔ اس قسم کی شہادت کiiو تسiiلیم کiiئے بغiiیر چiiارہ کے سامنے عق

Page 73: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

نہیں ہوتا۔ خارجی شہادت کو ثاب کرنے کے لئے مزید ثبوت درکار ہوتے ہیں جن کو قiiائم کiiرنے کے لئے دلائ� سے کام لینا پڑتا ہے اورا� دلائ� کو دیگر مزیiiد دلی�ii کے سiiہارے کی ضiiرورت ہوتی ہے اور یہ ایک سلسلہ ہوجاتاہے جس کی ہر کiiڑی مضiiبوط ہiiونی چiiاہیے اوراگiر ایiiک کiiڑی بھی کمزور ہو تو تمام استد لال کمزور ہوجاتاہے۔ اس کے برعکس اندرونی شہادت ایiiک ایسiiی شiiہادت ہiiوتی ہے جس کے لiiئے دلائ�ii دردلائ�ii کی ضiiرورت ہی نہیں پiiڑتی اوراگiiریہiiزبردس آانگ ہو اور تناقض وتضاد سے پاک ہو تو وہ نہiiای ٹھiiوس شiiہادت ہiiوتی شہادت ہم رنگ اورہم ہے۔ پس ہم نے اس کتاب میں اپنے نتائج کو ہر جگہ اندرونی شہادت کی چٹا� پر قiiائم کیiا ہے اوربیرونی خارجی شہادت کا محض ضiiمنی طiiورپر کہیں کہیں ذکiiر کیiiا ہے تiiاکہ نiiاظرین پiiر یہ

حقیق ظاہر ہوجائے کہ انجیلی بیانات کا پایہ اعتبار کس قدر رفیع اور بلند ہے۔(۶)

ناظرین نے )اوربالخصوص ہمارے مسiiلم بiiرادرا� نے( یہ ملاحظہ کیiiا ہوگiiا کہ اس کتiiابلل تنقید پر رکھiiاہے اوراپiiنے نتiiائج پiiر پہنچے لم ادب کے صحیح اصو میں ہم نے اناجی� اربعہ کو علتامور ایمانیہ پر اپنے دلائ� کو قائم نہیں ہیں ۔ ہم نے اس کتاب میں کسی ایک جگہ بھی صرف کیiiا یعiiنی ہم نے کہیں یہ نہیں لکھiiاکہ ہiiر رسiiول کiiا قiiول اور فع�ii خiiدا کے مiiاتح ہوتiiاہے پس دوازدہ رسiiولوں نے جiiو تعلیم دی اور انہiiوں نے جiiو کچھ سiiیدنا مسiiیح کے کلمiiات اور سiiوانح حیات وغيرہ کی نسب بتلایiا وہ الہiiام سiiے لہiiذا خطiiا سiiے پiاک ہے ۔ اورچiiونکہ انجی�ii نiویسلر iiا وہ امiiو کچھ لکھiiوں نے جiiذا انہiiتھی لہ �iiد حاصiiدس کی تائیiiو روح القiiملہم تھے جن ک اہ پiiاک ہیں۔ اس قسiiم کی دلی�ii صiiرف ایسiiے حقیق تھiiا پس اناجی�ii غلطی اورخطiiا سiiے کلیتلر ایمiiانیہ کی لوگوں کے نزدیک ہی وز� دار ہوسکتی ہے جو مسیحی کے حلقہ بگو* ہوکر امiو بنیاد پر اپنے عقائد اور دلائ� قائم کیا کرتے ہیں۔ اسی قسم کی دلی� ہمارے مسلما� برادرا� دیاآا� عربی کiiا ایiiک ایiiک لفiiظ خطiiا سiiے تا� کے ایما� میں داخ� ہے کہ قر کرتے ہیں کیونکہ یہ امر آا� کی حفiiiاظ کiiiرنے والا ہے۔ لیکن جiiiو پiiiاک ہے کیiiiونکہ اللہ نے وعiiiدہ کیiiiا ہے کہ وہی قiiiر

شخص اسلام کے دائرہ سے باہر ہے، اس کے لئے یہ دلی� کiiوئی وز� نہیں رکھ سiiکتی ۔ ہم نے آا� عiiربی کی دردنiiاک حiiال بتلاکiiر ثiiاب لب مقدسiiہ " میں جمiiع قiiر تت ل ک اپiiنی کتiiاب" صiiحلل عربی درس دیا کرتے تھے ۔مسلم علمiiاء آا� نہیں ہے جس کا رسو آا� وہ قر کردیاہے کہ موجودہ قر اس قسم کے دلائ� بھی پیش نہیں کرسکتے جس قسم کے ہم نے اناجی� اربعہ کی صح اور پایہ اعتبار کی نسب اس کتاب میں پیش کئے ہیں۔ کیونکہ اس قسم کے دلائ� کiiا دارومiiدارتاصiول لل تنقیiد کے مطiابق پiرکھی جiاتی ہے۔ یہ لم ادب کے اصiو اندرونی شiہادت پiر ہے جiو علتتب دیiiنی اورمiiذہبی ہiiوں، خiiواہ وہ ادبی ہiiوں آامiiد ہیں خiiواہ وہ ک تتب کiiو جiiانچنے میں کار تمiiام کآامiiد ہیں خiiواہ وہ تتب کiiو جiiانچنے میں کار اورخiiواہ وہ کسiiی اور قسiiم کی ہiiوں۔ یہ اصiiول تمiiام کلب دینی اورمذہبی ہوں، خواہ وہ ادبی ہوں اور خواہ وہ کسiiی اور قسiم کی ہiiوں۔ یہ اصiiول کسiiی تت ک مذہب ، مل یا نظiریہ کے حiامی نہیں ہiiوتے بلکہ غiير جانبiدار ہiiوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہملب مقدسiiہ" میں تت ل ک نے ا� اصولوں کی کسوٹی کا اسiiتعمال اس کتiiاب میں اوررسiiالہ " صiiحل� اربعہ دنیiiا کی صiiحیح تiiرین اور مسiiتند iiائے کہ اناجیiiج �iiکھ کیا ہے تاکہ سiiب پiiر یہ حقیق

تتب میں سے ہیں۔ ترین کلب احادیث خواہ وہ شیعوں کی ہوں یiiا تت ل� عربی پورا اترتاہے اورنہ ک آا اس کسوٹی پر نہ تو قرلب احiiادیث ہیں جن میں سiiب سiiے پہلی کiافی ہے جس تت ل� شیعہ کی پiانچ ک سنیوں کی ہوں۔ اہ

لن وفات آاخiiری کتiiاب طوسiiی کی۳۲۸کو محمد بن یعقوب الکلینی )س ہجری( نے جمع کیا اور ہجری میں وفiiات پiiائی ۔ یعiiنی یہ کتiiابیں چiiوتھی اورپiiانچویں صiiدی ہجiiری میں۴۵۹ہے جس نے

ل� سiiن کی حiiدیث کی کتiiابیں بھی اس معیiiار پiiر پiiوری نہیں اتiiرتیں۔ یعiiنی iiئیں۔ اہiiلکھی گ صحاح ستہ کی احادیث ، خواہ وہ مرفوع ہوں ، موقوف ہوں یا مقطوع ہوں ، کیiiونکہ ا� احiiادیث کی تدوین کا کام تیسری صدی ہجری میں شiiروع ہiiوا اور صiiحاح سiiتہ اسiiی صiiدی میں مiiرتب

ہجiiری میں وفiات پiiائی۔ پس۳۰۳ہجiiری ہے۔ النسiائی نے ۲۵۶کی گئیں۔ امiام بخiiاری کی تiاری\ صحاح ستہ کی شہادت کوئی اہمی نہیں رکھ سکتی ۔ چنانچہ پاکستا� کی ہiiائی کiiورٹ کے

Page 74: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

آار۔ کیانی اقرار کتے ہیں کہ " زمiiانہ حاضiiر جج مسٹر جسٹس محمد منیر اورمسٹر جسٹس ایم۔ ل� شiiہادت بھی شiiام� ہے ( احiiادیث، سiiن ترو سے )جن میں ہمiiارا قiiانو کے قوانین شہادت کی ل� قبول شہادت نہیں ہے، کیونکہ ا� میں سے ہر ایک میں سiiنی سiiنائی بiiاتوں کی متعiiدد کی قاب کڑیاں ہوتی ہیں۔ہاں شرعی معاملات میں ا� سے سند لے سکتے ہیں۔ ا� مجموعوں کا اص� فائدہ یہ نہیں کہ )جیسا بہ لوگ خیiiال کiiرتے ہیں ( ا� کے مصiiنفوں نے پہلی دفعہ یہ فیصiiلہ کیiiا کہ بے شمار احادیث میں فلاں حدیث سiiچی ہے اورفلاں حiiدیث جھiiوٹی ہے ۔ بلکہ ا� کی اہمی\iiانہ میں راسiiکے زم �تا کی وجہ یہ ہے کہ ا� مصنفوں نے ا� تمام احiiادیث کiiو اکٹھiiا کردیiiا جiiو لت لت فسiادا الاعتقاد مسلما� صحیح خیال کرتے تھے"۔ )رپورٹ تحقیقاتی عدال برائے تحقیقiiا

(۔۲۲۲ء صفحہ ۱۹۵۳پنجاب ل� اربعہ iiاملہ میں اناجیiiاب اس معiiحق تو یہ ہے کہ روئے زمین کے مذاہب کی کوئی کت تامید ہے کہ جن اصiحاب نے خiالی الiذہن ہiوکر اس کتiاب کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔ ہمیں واثق تا� کے سiiامنے پیش کا مطالعہ کیاہے اوراس شہادت پر غiiور کیiiا ہے جiiو ہم نے ا� صiiفحوں میں لت طیبiات جiو تا� پر حقیق منکشف ہوگئی ہiiوگی کہ حضiرت کلمتہ اللہ کے کلمiا کی ہے ، آاپ ل� معجزبیiiا� سiiے نکلے تھے اور آاپ کی زبiiا اناجی�ii اربعہ میں منiiدرج ہیں بجنسiiہ وہی ہیں جiiو آایiiاہے ، لت بینiiات ہیں( جن کiiا ذکiiر اناجی�ii اربعہ میں آایiiا کے سiiوانح حیiiات اورمعجiiزات )جiiو آانے درحقیق تواریخی واقعات ہیں اورکہ ا� کلمات کے فرمائے جانے ، واقعiiات کےظہiiور میں تا� میں واقiiع ل� اربعہ میں لکھے جانے کے درمیانی عرصہ میں نہ صرف کوئی فتiiور اورا� کے اناجی نہیں ہوا بلکہ وہ اس کاو* ، محن اور عرقہ ریزی سے جمع کئے گئے ہیں ، اوراس صiiح کے ساتھ اناجی� اربعہ میں لکھے گئے ہیں کہ جہاں تک قiiدام اوراصiiلی کiiا تعلiiق ہے دنیiiا کی

ل� اربعہ کے پایہ کے اعتبار کو نہیں پہنچ سکتی۔ لب اناجی کوئی قدیم کتاب کتا

حصہ پنجمحصہ پنجمل� اربعہ کی اص� زبا� ل� اربعہ کی اص� زبا�اناجی اناجی

تامiiور پiiر نiiاظرین کiiو یiiاد ہوگiiا کہ ہم نے دیبiiاچہ میں لکھiiا تھiiا کہ ہم اس کتiiاب میں دو لت طیبiiات وول۔ ہم اس بات کا ثبوت دیں گے کہ حضiرت کلمتہ اللہ کے کلمiiا بحث کریں گے ۔اآاپ ل� معجiiز بیiiا� سiiے نکلے تھے اورکہ جiiو آاپ کی زبا جو اناجی� میں مندرج ہیں ، وہی ہیں جو تا� میں موجiiود ہیں وہ حقیقی ہیں اور تiiاریخی حیiiثی سiiے ا� کiiا پiiایہ اعتبiiار کے سiiوانح حیiiات نہای بلند ہے ۔ ہم نے گذشتہ چiiار حصiiوں میں اس حقیق پiiر بحث کiiرکے ا� نکiiات کiiو ا� ادبی تنقید کے اصول کے مطابق ثاب کردیا ہے کہ ا� کلمات کے فرمائے جانے اور واقعiiات کے رونما ہونے اورا� کے اناجی� اربعہ میں لکھے جانے کے درمیانی عرصہ میں ا� میں کسی قسم کiiا فتور واقع نہیں ہوا کہ وہ ساق� عن الاعتبار ہوگئے ہوں۔ اس کے بiرعکس دنیiا بھiiر کی کiوئی قiiدیم

مذہی کتاب ا� تنقیدی اصولوں پر اناجی� اربعہ کی طرح پوری نہیں اترتی۔ دوم ۔ ہم نے دیبiiاچہ میں کہiiا تھiiا کہ ہم اس بiiات کiiا بھی ثبiiوت دینگے کہ حضiiر ت کلمتہ اللہ کے الفا� جویونانی لباس میں ہمiارے پiاس موجiود ہیں درحقیق وہی کلمiات ہیں جiو آاپ نے ارامی زبiiا� میں فرمiiائے تھے اورا� میں ارامی زبiiا� سiiے یونiiانی زبiiا� میں تiiرجمہ ہiiونے سiiے کسی قسم کا فتiور واقiع نہیں ہiوا۔ ہم انشiاء اللہ اس حصiہ میں اس نکتہ کے مختلiف پہلiوؤں پiرآاپ کی لت طیبiiات بعینہ وہی ہیں جiiو آانخداوند کے کلما مفص� بحث کرکے ثاب کردیں گے کہ

زبا� مبارک سے نکلے تھے۔تا� نتiائج اس بحث کے دورا� میں ناظرین پر یہ ظاہر ہوجائیگiا کہ اس حصiہ کے نتiائج کی تائید اور تصدیق کرتے ہیں جن پر ہم اب تiiک پچھلے چiiار حصiiوں میں پہنچے ہیں۔ اوریiiوںتامiiور کی بحث سiiے ثiiاب ہوجاتiiاہے کہ منجiiئی عiiالمین کے زرین اقiiوال منiiدرجہ بiiالا دونiiوں

وول درجہ کی معتبر سند کے ہیں۔ اورمبارک سوانح حیات جو انجی� جلی� میں مندرج ہیں ا

Page 75: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

وول وولباب ا باب احضرت کلمتہ اللہ کی زبا�حضرت کلمتہ اللہ کی زبا�

ہم نے اپiiنی مختلiiف تصiiنیفات میں ارامی زبiiا� کی تiiاری\ پiiر روشiiنی ڈال چکے ہیں ۔�iiوامی رسiiبین الاق �اiiے پہلے بھی ارامی زبiiیری سiiود کی اسiiل� یہ iiافی ہے کہ اہiiا کiiاں یہ بتلانiiیہ

(۔ اوربiiابلی سiiلطن میں بiiابلی زبiiا� کے دو* بiiدو*۲۶: ۱۸سiiلاطین ۲ورسiiائ� کiiا ذریعہ تھی)اا صiiرف iiاتحین غالبiiکے ف �دی اوراiiودی قیiiوح یہiiاتی تھی ۔ مفتiiتعمال کی جiiوسیع پیمانہ پر اس آاپس میں بات چی کرسکتے تھے۔علاوہ ازیں اہ� یہود تجارتی اغiiرا} کےلiiئے اسی زبا� میں ہی غیر یہود سے خریدوفروخ کرنے کے لئے یہی زبiiا� اسiiتعمال کiiرتے تھے۔ جiiو یہiiود اسiiیری سiiےآائے وہ عبرانی سے ایسiiے واقiiف نہ تھے جیسiiے وہ ارامی زبiiا� سiiے واقiiف ل} مقدس میں واپس ار

(۔ جب یہiiود اسiiیری میں تھے تiiو قiiوم پرسiiتی کے زوال کےبiiاعث اور۸، ۲: ۸تھے ۔ )نحمیiiاہل} مقiiدس۱۰، ۹متعدد اقوام کےباہمی رشتہ ناطہ کرنے کی وجہ سے )عزرا باب( ارامی زبا� نے ار

ل� یہiiود عiiبرانی اور ارامی دونiiوں iiد اہiiیری کے بعiiمیں اپنے قدم جمالئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس زبانیں استعمال کiرتے تھے۔ عiiبرانی زبiا� قiiومی روایiات ، ادبی اورمiذہبی ضiروریات کی وجہ سiiے زندہ تھی لیکن ارامی زبا� تجارتی اغرا} ، بiiیرونی تiiاثرات اور روز مiiرہ کی زنiiدگی کے مشiiاغ�یتی کہ پہلی صiiدی مسiiیحی میں گوادبیiiات کے کی وجہ سiiے روز افiiزوں تiiرقی کiiرتی گiiئی ۔ ح فاض� اورعلماء عبرانی کا استعمال کiiرتے تھے لیکن یہiiودی عiiوام النiiاس اپiiنی مقiiدس زبiا� عiiبرانی

سے ناواقف تھے اور ا� کی مادری زبا� ارامی ہوگئی تھی۔(۲)

پہلی صدی مسیحی میں کنعا� میں چار زبانیں مروج تھیں:

وول: لاطیiiنی زبiiا� جiiو فiiاتح رومی حکمرانiiوں کی زبiiا� تھی۔ یہ سiiرکاری زبiiا� تھی اور ا (۔ یہ زبا� یروشلیم میں بمشک� سنی۲۰: ۱۹رومی قانو� کی ضروریات کو پورا کرتی تھی۔)یوحنا

جاتی تھی۔ دوم: یونiiانی زبiiا� یہiiود اور غiiیر یہiiود کے درمیiiا� ادبی اور تجiiارتی معiiاملات کiiا وسiiیلہ تھی۔ تعلیم یiiافتہ یہiiودی جiiو یونiiانی کے رنiiگ میں رنگے تھے وہ بھی اس زبiiا � کiiا اسiiتعمالتا� لوگiiوں کی بھی مiiادری زبiiا� کiiرتے تھے۔ علاوہ ازیں ۔ یہ یونiiانی مائ�ii طبقہ کی زبiiا� تھی اور تھی جو غير یہودی پرستی کو ترک کiرکے یہiودی مiذہب کiو قبiول کرلیiتے تھے۔ یہ زبiا� کنعiا�

کی دفتری زبا� بھی تھی۔ سiiوم: عiiبرانی زبiiا� اہ�ii یہiiود کی مقiiدس کتiiابوں کی زبiiا� تھی اور فلاحiiتی اور ثقiiافتی یہودی حلقوں میں ادبی ضروریات کو پورا کرتی تھی۔ یہود کے عمائد اور علمiiاء کے حلقiiوں میں

عبرانی کا استعمال ہوتا تھا۔ یہ زبا� ربیوں کے مکتبوں کی زبا� تھی۔تا� کی خiاطر چہارم: ارامی زبا� جو کنعا� کے عوام النiاس یہiود کی مiادری زبiا� تھی عبادت خiانوں میں عiiبرانی تiiورات کiiا تiرجمہ ارامی میں کیiiا جاتiiا تھiiا"۔ بزرگiiوں کی روایiات" کی تعلیم بھی ارامی میں دی جiiاتی تھی۔ لیکن خiiدا کے کلام کiiا اس اقiiد احiiترام کیiiا جاتiiا تھiiاکہ" مورخ یوسیفس کہتاہے کہ یہ روایات زبانی حفظ کی جاتی تھیں۔ لیکن شریع کے الفا� طومiiارآانخداونiد کے زمiانہ میں سے پڑھے جاتے تھے تاکہ عوام سiنتے وق دونiوں میں تمiیز کرسiکیں۔ تتب مقدسiiہ ارامی لت عمیم میں ک بھی تحریری " تراجم" موجiiود تھے جس سiiے ثiiاب ہے کہ عبiiاد

۔ ہیک�ii میں بھی ارامی زبiiا� مسiiتعم� ہiiوتی تھی۔ خiiزانہ1ترجمہ کے بغiiیر پiiڑھی نہیں جiiاتی تھیں کے صندوقوں پر کی زبiiا� بھی ارامی تھی۔ ہیک�ii کی عبiiادتیں ارامی زبiا� میں ہiiوا کiiرتی تھیں اور

قربانیاں بھی ارامی زبا� میں گذرانی جاتی تھیں۔ :۱۹۔ ۲: ۵یہ ایک دستور ہوگیا تھiiاکہ ارامی زبiا� کiiو " عiبرانی" کہiiا جاتiiا تھiiا )یوحنiا

۔ اس حقیق سiiiiiiiے ظiiiiiiiاہر ہے کہ۱۴: ۲۶۔ ۲: ۲۲۔ ۴۰: ۲۱۔ اعمiiiiiiiال ۱۶: ۲۰۔ ۱۷، ۱۳1 G.Dalman, The Word of Jesus (1902)

Page 76: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

آانخداوند کے زمانہ میں زبا� کے معاملہ میں یہود کے صوبہ اورگلی�ii کے صiiوبہ میں کiiوئی فiiر�ل} مقiiدس میں رہiتی تھی ارامی زبiا� ہی بولiتی تھی۔ اگiر دونiوں نہ تھiا بلکہ ک�i قiوم یہiود جiو ار میں فر� تھا تو صرف لہجہ کا تھا ۔ چنانچہ یروشلیم میں سردار کاہن کے مح� میں گلی�ii کے

۔۷۳: ۲۶رہنے والے مقدس پطiiرس کی شiiناخ اس کے گلیلی لہجہ کی وجہ سiے ہiiوئی )مiتی (۔ نiiاظرین کiiو یiiاد ہوگiiا کہ مقiiدس پولiiوس نے اگرپiiا بادشiiاہ کiiو ارامی زبiiا� میں۷۰: ۱۴مiiرقس

آاپ نے یہiiودی عiiوام سiiے بھی ارامی زبiiا� میں ہی خطiiاب کیiiا۱۴: ۲۶مخاطب کیا تھا)اعمال ) آاپ نے رومی افسiiر سiiے یونiiانی میں بiiات کی۲۲:۱)اعمال (۔ اعمال کی کتاب میں ہے کہ جب

(۔ جس سiiے ظiiاہر ہے کہ یروشiiلیم۳۶: ۲۱تواس نے حیرا� ہوکر پوچھا " کیا تویونiiانی جانتiiا ہے ")کے یہود یویونانی نہیں بولتے تھے۔ ء( یہودی مiiورخ کی شiiہادت بھی یہی ثiiاب کiiرتی ہے کہ۳۷یوسیفس )تاری\ پیدائش

پہلی صدی مسیحی میں یہودی عiiوام کی زبiا� ارامی تھی۔ چنiانچہ وہ کہتiiاہے کہ جب یروشiiلیم کو محصور کیiiا گیiiا تiو یروشiلیم کے نگہبiiا� " اپiنی زبiا� میں" اعلا� کiرتے تھے کہ تiیروں کیآارہی ہے۔ پھر وہ بتلاتاہے کہ اس نے محصور ین سے " ا� کی دیسiiی زبiiا� میں " گفتگiiو بوچھاڑ

میں لکھاہے" اس کھی کا نام ا� کی زبا� میں ہق� دمہ پڑگیiiا"۔ جس سiiے۱۹: ۱کی۔ اعمالل} مقiiدس کے تمiام یہiiود خiiواہ وہ شiاہ ظاہرہے کہ یروشلیم کے عوام کی زبا� ارامی تھی۔ پس ار تھے یا گدا عوام تھے یا خواص، یہودیہ کے تھے یا گلی�ii کے رہiiنے والے ، سiب کے سiب ارامی

تا� کی مادری زبا� تھی۔ بولتے تھے اورارامی (۳)

گiiو گلی�ii کے صiiوبہ کےیہiiود کی مiiادری زبiiا� ارامی تھی۔ لیکن ا� کے لiiئے یونiiانی�iiا۔ گلیiiکتا تھiiس �iiکا کاروبار نہیں چ �کا علم لوازمات میں سے تھا کیونکہ اس کے بغیر ا �زبا کے ماہی گiiیروں میں اورا� تiiاجروں میں جiiو مچھلیiiوں کی تجiiارت کiiرکے ا� دوردراز ممالiiک میں بھیجتے تھے باقاعدہ طورپر تجارت قائم تھی۔ متعدد اشiiخاص مقiiدس مiiتی کی طiiرح سiiرکاری

ملازم تھے۔ یونانی دفتری زبا� تھی اور قiiانونی اغiiرا} کiiو پiiورا کiرنے کےلiiئے اسiتعمال کی جiiاتیلز زنiiدگی اور خیiiالات وتصiiورات تھی۔ گلیلیiiوں کiiا روزمiiرہ کی زنiiدگی میں یونiiانی اور رومی طiiر سےسiiابقہ پڑتiiا تھiiا رومی سiiکے ہiiر جگہ گلی�ii کے یہiiود کے ہiiاتھوں میں ہiiوتےتھے۔ ا� کی ارامی

سiiاح� سiiے دکپلس کی طiiرف سiiے بہ سiiڑکیں1زبا� میں یونانی الفا� بھی داخ�ii ہوگiiئے تھےآامدورف عام تھی۔ جس کا نتیجہ یہ ہiواکہ گلی�i کے یہiودی باشiندے گلی� کو جاتی تھیں اور اپنی مادری زبا� ارامی کے علاوہ یونانی زبا� سے بھی واقف تھے ۔ لیکن اس کiiا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ یونانی زبا� کو کماحقہ ، جانتے تھے۔ اگرایسا ہوتا تو یہودی عبادت خiiانوں میں عiiبرانیتتب مقدسہ کا یونانی ترجمہ سیپٹواجنٹ )سبعینہ( استعمال کیا جاتا لیکن اس بات کی شہادت ک

کا وجود بھی نہیں ملتا۔(۴)

لر حاضرہ میں علماء اس امر پiiر متفiiق حضرت کلمتہ اللہ کی مادری زبا� ارامی تھی۔ دوآاپ کی مادری زبا� ارامی زبا� کی وہ شاخ تھی جو " یہودی کنعانی )جوئیش فلسiiطینی( ہیں کہ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ بولی " مسیحی کنعانی )کرسچین فلسطینی( شاخ سے ملتی جلتی ہے اور دونوں بولیاں ارامی زبا� کی شاخیں ہیں۔پہلی بولی مشناہ کی زبا� ہے اوردوسری بiiولی تiiراجم"

آاتی ہے کہ حضiiرت ابن2مدرراشم اوریروشلیمی تالمود کی زبiiا� ہے ہم کiiو یہ بiiات بھی معقiiول نظiiر ۔ لیکن3اللہ یونانی زبا� سے بھی کچھ کچھ واقف تھے اور اس زبiiا� کiiو بiول بھی سiiکتے تھے

آاپ کے آاپ نے اہ�ii یہiiود کiiو یونiiانی زبiiا� میں تعلیم دی تھی کیiiونکہ اس کiiا یہ مطلب نہیں کہ ل} ل� یہiiود ار iiارامی تھی۔ اہ �اiiادری زبiiآاپ کی م سامعین سiiب کے سiiب یہiiودی تھے جن کی اورتامور اور تبلیغ کےلئے یونiiانی اسiiتعمال نہیں کiiرتے مقدس میں یہودی سامعین کے واسطے مذہبی لف تھے اورنہ وہ ایسا کرسکتے تھے کیونکہ وہ یہود جیسے قوم پرس لوگوں کےلئے یہ ایiiک خلا

1 George Adam Smith, Historical Geaography Ch.282 W.O.S Oesterely, The Study of Synoptic Gospels, Expositore, Vol 12 July 19053 G.W.Thacher in H.D.G.C art Galilee.

Page 77: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

فطiiرت بiiات تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مقiiدس پولiiوس نے یہiiودی ہجومiiوں سiiے ارامی میں بiiات کیآانخداونiiد کiiا اپiنے لوگiiوں کiiو )جن۲: ۲۲تھی )اعمال (۔ پس گلی� جیسے قوم پرس علاقہ میں

کی مادری زبا� ارامی تھی اورجiiو قiiومی روایiiات ، زبiiا� اور ثقiiاف پiiر مرمٹiiنے والے انسiiا� تھے، جا� بوجھ کiر ارامی کiو بiالائے طiiا� رکھ کiر یونiانی میں تعلیم دینiا،اوروہ بھی اناجی�i کی سiیل� سiiلیم iiو عقiiعجیب قسم کی یونانی میں تعلیم دینا ایک ایسا مضحکہ انگیز نظریہ ہے جس ک قبول نہیں کرسکتی ۔ مثال کے طورپر مقدس پطرس نہ صرف یونiانی زبiا� سiے واقiف تھے بلکہ

آاپ نے۳۴: ۱۰اس کے مترجم کی مددکے بغiiیر تقریiiر بھی کرسiiکتے تھے)اعمiiال (۔ لیکن جب آای ۲۲تا ۱۵: ۱" بھائیوں" )یہودی مسیحیوں( کے سامنے تقریر کی ) سے ظاہر ہے کہ۲۰( تو

آاپ نے ارامی زبا� میں ہی تقریر کی تھی۔آانخداونiد غiیر پس یہ کہنا کہ ملiک کنعiا� میں لاطیiنی اور یونiانی زبiا� مiروج تھیں اور اقiiوام کی زبiiا� سiiمجھ سiiکتے تھے، ایiiک بiiات ہے ۔ لیکن اس حقیق سiiے یہ نiiتیجہ نکالنiiا بالک� دوسری بات ہے کہ حضرت کلمتہ اللہ نے اپنی مادری زبا� کو جو اکثری کی اورعiiوام کیآاپ کے سامعین کی بھی زبا� تھی دیدہ ودانستہ ترک کرکے یونانی زبا� کو اپنی زبا� تھی اورجو آاپ " اسiiرائي� کی کھiiوئی ہiiوئی بھiiیڑوں" کiiو آاپ کiiو یہ احسiiاس تھiiاکہ تعلیم کiiا وسiiیلہ بنایiiا۔ تا� کو ا� کی اپنی زبiiا� میں ہی آاپ لط مستقیم دکھانے کی خاطر بھیجے گئے ہیں۔ پس صراآاپ کی بiاتوں کiو " خوشiی سiے سiنتے تھے"۔ چنiانچہ تعلیم دیiتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عiiوام آاپ کے منہ کے فرمiائے ہiوئے ارامی الفiا� ملiتے ہیں جس اناجی� اربعہ میں )جویونiانی میں ہیں( اا " ابiiا" ،"افتiiاح"،" آاپ ارامی میں تعلیم دیiiا کiiرتے تھے۔ مثل سے یہ قطعی طورپر ثاب ہوجاتiiاہے آاپ کiiاکلمہ " ایلی ،ایلی لماشiiبقتنی" بھی اس بiiات کی فیصiiلہ تالیتھا قم" وغیرہ۔ صلیب پر سiiے آاپ کی مبiارک زبiا� سiے آاپ ارامی میں تعلیم دیا کرتے اور قدرتی طiورپر ارامی تن دلی� ہے کہ کآاپ کiو ارامی زبiا� آانخداونiد نے نکلی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مقiiدس پولiوس بھی فرمiاتے ہیں کہ

آاپ کی زبا� سے " رسالہ کلمات" کے شروع میں ارامی۱۴: ۲۶میں مخاطب فرمایا تھا)اعمال (۔

آاپ کiiاگویہ تکیہ کلام تھiiا اورجس کی اردو زبiiا� میں تiiرجمہ" سiچ " کیiiا آامین" ملتiiاہے جiو لفiiظ" گیiiاہے۔ یہ ارامی الفiiا� مابعiiد کے زمiانے کی تحریریiوں اور نوشiتوں میں نہیں پiائے جiاتے۔ پس ا� ارامی اص� الفا� کا موجودہ یونiiانی اناجی�ii میں پایiiا جانiiا اس امiiر کی بین اور قطعی دلی�ii ہے کہآانے کiا درمیiانی وقفہ آانخداوند کےکلمiات طیبiات کے بiولے جiانے اورا� کے احiاطہ تحریiر میں

آاپ کے اقوال زرین کسی صورت میں بھی مس\ ہونے نہیں پائے ۔1نہای قلی� تھا اورل� یہود کو جہاں لد عتیق کے انبیاء کی طرح اہ پس ثاب ہوگیاکہ حضر ت کلمتہ اللہ عہآاپ کو ملتے خداکی جانفزا نجات کا پیغام ارامی زبا� میں دیتے تھے۔ بعض اوقات اپنے بھی وہ

آاپ عبادت خانوں میں وعiiظ فرمiiاتے تھے۔ )مiiرقس تiiا۱۶: ۴۔ لوقiiا ۲: ۶زمانہ کے ربیوں کی طرح آاپ سامعین کو ارامی زبا� میں تعلیم دیتے جو گلیلیوں کی مادری زبا� تھی۔۲۱ وغیرہ(۔

(۵) ہم اوپر بتلاچکے ہیں کہ علماء کی زبا� عبرانی تھی لیکن عiiوام النiiاس کی زبiiا� ارامیلد لب عہ تت تھی۔ پرلازم ہے کہ ہم پہلی صدی مسیحی کے یہودی علماء کی عبرانی زبا� میں اور کلد عiiتیق کی عiiبرانی ایiiک iiانہ میں عہiiمیں تمیز کریں۔ سیدنا مسیح کے زم �عتیق کی عبرانی زبا لف مقدسہ مردہ زبا� ہوچکی تھی۔ جو صرف یا تو عبادت کے موقعہ پر استعمال ہوتی تھی یا صح کے جاننےکےلئے اس کا مطالعہ کیا جاتا تھا۔ یہودی ربیiiوں کی عiiبرانی وہی تھی جiiو مشiناہ اورلب مقiiدس کی لف مقدسiہ کی عiiبرانی " کiو کتiiا ل� یہiiود صiح iiہے۔ اہ �اiiم کی زبiiقدیم ترین مدراش زبا�" اور دوسری عبرانی کو " علماء کی زبiiا� " کہiiتے تھے۔ علمiiاء کی زبiiا� مکتبiiوں کی زبiiا�لد عتیق کی مردہ عiiبرانی ہی نہ تھی بلکہ وہ زنiiدہ زبiiا� بھی تھی جiiو تتب عہ تھی جس کی جڑ ک بحث، منiiاظرہ ، حدوتحدیiد اور تصiریح کے لiئے اسiتعمال ہiوتی تھی اور جس میں شiرعی قیiiود کی توضیح کی جاتی تھی ۔ اس زبا� کے الفا� اورمحاورات ا� مطالب کے لئے نہiiای مiiوزوں

آارہی تھی ۔ پس ربیو ں کی عبرانی زبا� ایک جیتی2تھے۔ اس زبا� کی ارتقا سالہسال سے چلی

1F.C.Burkitt, the Earliest Sources of the Life of Jesus.2 Prof, Moore, Judiaism. 199ff

Page 78: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

جاگتی زندہ زبا� تھی جو سیدنا مسیح کے زمانہ میں صرف ایک محiiدود طبقہ تiiک ہی رائج تھیل} مقiiدس میں موجiiود تھی ۔ ابن اللہ اور مشناہ یا مدرا* کے لکھے جiiانے سiiے مiiدتوں پہلے ار

کے زمانہ میں اسی زبا� میں بحث اورمناظرہ ہوا کرتا تھا۔آاپ آانخداوند اس "علماء کی زبا�" سے واقف تھے اورکیا اب سوال یہ پیدا ہوتاہے : کیا آاپ اس زبiiا� نے کبھی اس کا استعمال فرمایا تھا؟ اناجی� کا غائر مطالعہ صاف ثاب کردیتiiا ہے

آاپ نےاکثر اوقات اس کا استعمال کیا تھا تامور اس1سے بخوبی واقف تھے اور ۔ چنانچہ ذی� کے سوال پر روشنی ڈالتے ہیں:

لد عiiتیق سiے ۱) تتب عہ آانخداوند نے ک مقامiات کiا اقتبiiاس فرمایiاہے۔۸۷۔( اناجی� میں آاپ نہ صiiرف تiورات شiiریف کی پiانچوں کتiابوں کی ا� اقتباسات کiا مطiiالعہ ثiاب کردیتiiاہے کہ

آاپ نے سiیموئي� ،کتب سiلاطین، یسiعیاہ، یرمیiاہ ، حiزقی ای�i ،۲عiبرانی سiے واقiiف تھے بلکہ ہوسیع ، یوئي�، یوناہ ،میکاہ، صفنیاہ۔ زکریiiا، ملاکی، ایiiوب، دانی ای�ii ،اورمزامiiیر کiiا بھی بخiiوبی

آاپ لڑکپن سے ہی اص� عبرانی متن کا مطالعہ کرتے رہے تھے۔ مطالعہ فرمایا تھا اور ناظرین کو یاد ہوگا کہ تیمتھیس کی یونانی یہودی ماں اورنانی اس بات کا خاص خیiiال

تتب مقدسiiہ کiiا علم بچپن سiiے حاص�ii کiiرے ) (۔۵: ۱۔ ۱۵: ۳تیمتھس ۲رکھiiتی تھیں کہ وہ کل} مقدس کے رہنے والی مقدسہ مiiریم جیسiiی مiiاں تب پرس تھا۔ کیاہم ار حالانکہ اس کا باپ آانخداونiiد بچپن ہی آاپ نے اس بات کا خاص خیiiال رکھiiا ہوگiiا کہ سے یہ امید نہیں کرسکتے کہ آانخداونiد لف مقدسہ کا مطiالعہ کiریں؟ پس یہ کiوئی حiیرانی کی بiات نہیں کہ سے عبرانی صحتتب مقدسiiہ کیااص�ii عiiبرانی زبiiا� سiiے وسiiیع اورکمiiاحقہ واقفی رکھiiتے تھے۔ جiiو شiiخص کلف مقدسiہ کی اص�i عiiبرانی سiے اس قiدر واقiف ہiو اس کے لiئے " علمiاء کی زبiا� " سiے صح

واقف ہونا ایک سہ� امر تھا۔

1 T.W.Manson, Teaching of Jesus pp.45ff

آاپ کو " ربی" کے معزز خطاب سے مخiiاطب کiiرتے تھے۔۲) آاپ کے شاگرد ( صرف آاپ کو اسی طرح خطiiاب کiiرتے تھے)مiiرقس ۳۸: ۹۔ ۳۸: ۴)مرقس :۹(۔ بلکہ دیگر یہود بھی

آاپ کiiو اسiiی طiiرح مخiiاطب کiiرتے تھے)مiiرقس ۱۷ ،۱۴: ۱۲(۔ علمiiاء کے گiiروہ کے افiiراد تiiک آاپ کiiو" ربی" کےلقب سiiے ملقب کiiرتے تھے)یوحنiiا ۳۲ (۔۲: ۳(۔ یہiiودی قiiوم کے سiiردار بھی

آاپ کے علم وفض�iii کے قائ�iii تھے بلکہ یہ بھی جس سiiiے ظiiiاہر ہے کہ علمiiiاء بھی نہ صiiiرف آاپ " علماء کی زبا� " اور ربیوں کے علوم پiiر حiiاوی ہیں اور ا� کiiو انہی محسوس کرتے تھے کہ

ترکی جواب دے سکتے ہیں )مرقس ترکی بت لز استد لال سے ت (۔۲۸: ۱۲کے طر ۔( حضرت کلمتہ اللہ نے اپنی منادی کے شروع میں عبادت خانہ میں تعلیم دی جiiو۳)

تا� فقیہiiوں کے طiiریقہ تعلیم سiے بخiiوبی آاپ فقیہوں کی سی نہ تھی ۔ جس سے ظاہر ہے کہ گiiو تا� کے طریقہ کی پiیروی نہ کی ۔ علاوہ ازیں اناجی�ii سiiے ظiiاہر آاپ نے دیدہ ودانستہ واقف تھے آاپ کو عبادت خiiانوں میں تعلیم دیiنے کے لiiئے کھiiڑا کیiiا جاتiiا تھiiا۔ عبiiاد ت خiiانوں میں ہے کہ لف مقدسہ کی شرح اور معiiانی کiو بیiiا� کیiا جاتiا تھiiا اورا� کے منتظم کسiی ل� عبادت صح دورا

ایسے شخص کو جو ا� باتوں کا اہ� نہ ہو تعلیم دینے کے لئے ہر گز تجویز نہ کرتے۔آاپ۴) ۔( مقدس لوقا ہم کiو بتلاتiاہے کہ جب ابن اللہ کی عمiر بiارہ بiرس کی ہiوئی تiو

(۔۴۷: ۲یروشلیم " ربیiiوں کے درمیiiا� بیٹھے اورا� کی سiiنتے اورا� سiiے سiiوال کiiرتے پiiائے گiئے )آاپ نے ا�"علمiاء کی زبiا�" اا پیدا ہوتاہے کہ کیا منادی شiروع کiرنے سiے پہلے پس یہ سوال قدرتلن مناظرہ وغیرہ کے علم کی تحصی� میں اٹھارہ سال کiiا درمیiiانی عرصiiہ کو اور ا� کے علوم اور ف صرف نہ کیا ہوگا؟ کلمتہ اللہ بار بار فقہیوں پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے شiiریع کے احکiiام�iiحاص تا� کو علوم سے کمiiاحقہ واقفی آاپ نے کو مس\ کردیاہے؟یہ الزام خود ثاب کرتاہے کہ

تا� کی تعلیم کو کھوکھلا پایا تھا۔ تا� کے طریقوں اور آاپ نے کرلی تھی اورمطالعہ کے بعد آانخداوند کا پیشہ بڑھئی کا تھا لیکن یہ پیشہ علوم کی تحصی� کی راہ میں کوئی۵) ۔(

ل� یہiiود میں ربیiiوں کiiا علم حاص�ii کiiرنے کے لiiئے اس قسiiم کی بiiاتیں iiونکہ اہiiا۔ کیiiاوٹ نہ تھiiرک

Page 79: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

رکاوٹ کا باعث نہیں ہiiوتی تھیں۔ حiiق تiو یہ ہے کہ ربیiiوں کے اکiثر چiوٹی کے عiiالم اور سiiرتاج اپنے ہاتھوں روزی کمانا اوراپنے خاندا� کا پیٹ پالنا عارنہ سiiمجھتے تھے۔ چنiiانچہ مقiiدس پولiiوس

وغيرہ(۔۴تا ۳: ۱۸جو ربیوں کے علوم کے ماہر تھے خودایک خیمہ دوز تھے)اعمال پس انجیلی اندرونی شہادت سے ثiiاب ہے کہ حضiiر ت کلمتہ اللہ " علمiiاء کی زبiiا�"تتب درس وتiدریس سiے بخiوبی واقiف تھے۔ اوریہ حقیق نہiiای عیiاں ہiوکر پiایہ تا� کی ک سے اورآاپ علمiiاء ل� اربعہ کےا� مقامات کا مطالعہ کیا جاتاہے جہاں ثبوت کو پہنچ جاتی ہے جب اناجیآاپ " علمiاء کی زبiا�" اورفقہا سiے بحث میں الجھiتے ہیں ، ربیiiوں سiiے بحث کiرنے کے وق

اا مiiرقس ۔ کے مقiiام کiiو لیں۲۳، ۱: ۷یعنی ربیوں کی عبرانی" کی زبا� میں بحث کiiرتے ہیں مثلآاات آاپ۱۳تا ۶جس میں رسمی پاکیزگی اورباطن کی پاکیزگی کا ذکر پایا جاتاہے ۔ میں علماء

تتب سiiے تین اقتباسiiات اور متعiiدد اصiiطلاحی لد عiiتیق کی ک iiات میں عہiiآای کے مخiiاطب ہیں۔ا� آای (۔جو " ربیiiوں کی عiiبرانی"۱۲الفا� موجود ہیں۔ یہاں بالخصوص لفظ" قربا� ، وارد ہواہے )

کا اصطلاحی لفظ ہے اورمشناہ میں بھی موجود ہے۔ اس ایک مثال سiiے یہ واضiiح ہوجاتiiاہے کہآای میں مرقوم ہے" اور یہ مناظرہ ربیوں کی مکتبی زبا� میں کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اگلی

آای تا� سے کہنے لگiiا۔ تم سiiب مiiیری سiiنو اور سiiمجھو") (۔ یہ۱۴وہ لوگوں کو پھر پاس بلا کر آای صاف ظاہر کرتی ہے کہ عوام نے نہ تو اس بحث میں کوئی حصiiہ لیiiا تھiiا اورنہ وہ بحث کی

(۔۲۰تا ۱: ۵اصطلاحی باتوں کو سمجھے تھے)متی ڈاکiiٹر ٹی ۔ ڈبلیiiو۔ مینسiiن نے اپiiنی کتiiاب میں حضiiرت کلمتہ اللہ کے اقiiوال کiiو تینآاپ نے اپiiنے رسiiولوں گروہوں میں تقسیم کیا ہے۔پہلے گروہ میں وہ اقوال جمع کئے گئے ہیں جiiو آاپ نے عiiوام کiiو فرمiiائے تھے اور تیسiiرے سے فرمائے تھے۔ دوسiiرے گiiروہ میں وہ اقiiوال ہیں جiiو گروہ میں وہ اقوال ہیں جو بحث اورمنiiاظرہ سiے متعلiق ہیں۔ اس عiiالم نقiiاد نے مختلiف گروہiiوں کے اقوال کا مطالعہ کرکے یہ ثاب کردیاہے کہ ہر گروہ میں چند اہم اور دقیع الفا� پiiائے جiiاتے

ہیں جو کسی دوسرے گروہ میں نہیں پائے جiاتے اورجوایiک گiروہ کiو دوسiiرے سiiے تمiیز کiرتے ۔ یہ تمیز تمام کتاب میں ملحو� رکھی گئی ہے۔1ہیں

یہiiاں جملہ معترضiiہ کے طiiورپر ہم یہ کہنiiا چiiاہتے ہیں کہ اگراناجی�ii کے تمiiام حصiiص کے قدیم ماخذ تحریiری نہ ہiوتے تiویہ تمiiیز کس طiiرح قiiائم اور برقiرار رہ سiiکتی تھی؟ یہ نiاممکن بات ہے کہ یہ الفiiا� سiینہ بسiینہ زبiانی بیانiات میں ایسiے محفiiو� رہ سiکتے کہ ا� کے یونiiانی

ترجمہ میں بھی یہ تمیز برقرار رہ کر دلائ� کی بناء ہوسکتی !آاپ2حاص� کلام یہ ہے کہ حضiرت کلمتہ اللہ کی مiادری زبiا� ارامی تھی ۔ جس میں

آاپ دعا کیا کرتے تھے )مرقس وغیرہ(۔۳۶: ۱۴قدرتی طورپر کلام کیا کرتے تھے۔ اسی زبا� میں آاپ فریسiiیوں کے سiiاتھ بحث آاپ شiiاگردوں کiiو تعلیم دیiiا کiiرتے تھے لیکن جب اسiiی زبiiا� میں تا� آاپ مختلف طبقوں کے لوگوں سے " تا� کی طرح مشناہ کی عبرانی بولتے تھے ۔ آاپ کرتے تو

تا�۳۳: ۴کی سمجھ کے مطابق کلام" کiرتے تھے )مiرقس (۔ اوراپiنے مخiiاطب ربیiوں کی زبiا�، تا� کiiو منہ تiiوڑ جiiواب دیiiتے تھے۔ لز اسiiتد لال اسiiتعمال کiiرکے کی اصiiطلاحات اورانہی کiiا طiiر

باب(۔۱۲، ۱۱)مرقس

باب دومباب دوملم بلاغ نظام لم بلاغ نظامحضرت کلمتہ اللہ کاکلا حضرت کلمتہ اللہ کاکلا

ہم نے گذشiiتہ بiiاب میں یہ بتلایiiا ہے کہ حضiiرت ابن اللہ اپiiنی مiiادری زبiiا� ارامی سiiےآاپ نے یونiانی کiو اپiنی تعلیم دیiنے واقف ہونے کے علاوہ یونانی زبا� سے بھی واقiف تھے اگiرچہ لف مقدسہ کiiا اص�ii زبiiا� یعiiنی عiiبرانی میں مطiiالعہ آاپ اپنی صح کا وسیلہ نہ بنایا تھا۔ علاوہ ازیں آاپ ربیiiوں تتب کا بیشتر حصہ عiiبرانی میں حفiiظ تھiiا۔ اس کے علاوہ آاپ کوا� ک کیا کرتے تھے اور

1 Ibid. pp. 20-21 and Appendix I.VI pp. 320-22 See also Dalman’s Words of Jesus, Jesus –Jeshua and Sacred Sites and Ways.

Page 80: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

لز اسiiتد لال کiiا تا� کی تعلیمات ، تاویلات اورطر کی عبرانی زبا� سے بھی کماحقہ واقف تھے اوریی درجہ کا علم حاص� تھا۔ آاپ کو اعل

لم معجز نظام فصiiاح اوربلاغ آاپ کا کلا اس باب میں ہم انشاء اللہ یہ بتلائینگے کہ تر ہے۔مرحوم کینن برنی نے ثاب کردیا ہےکہ عبرانی نظم کی صنعتیں اور خصوصیات، سiiب سے پ

لت طیبات میں پائی جاتی ہیں ۔ مرحوم کی کتiiاب اس کی1کی سب حضرت کلمتہ اللہ کے کلماتانہiiوں نے۱۹۲۵وفات کے بعد ء میں شائع ہوئی۔ پروفیسر مرحوم عبرانی زبiiا� کے یکتiiا عiiالم تھے۔

ایک ایسی تحقیق کی بنیاد ڈالی جس پر موجودہ زمiiانہ کے علمiاء اپiنے نظرئiiيے قiiائم کiررہے ہیں اوراب علماء اس حقیق پiر متفiiق ہیں کہ حضiرت کلمتہ اللہ کiا فرمiودہ کلام فصiاح وبلاغتپر ہے۔ ہم ذی� میں مشتے نمونہ ازخروارے مختلف صنعتوں کی چند مثالیں پیش کرتے ہیں: سے

1 C.F. Burney. The Poetry of Our Lord.

Page 81: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

(۱) متiiوازی : عiiبرانی نظم میں متiiوازی کی صiiنع خiiاص طiiورپر پiiائی جiiاتی ہے ۔ ہم

وول صفحہ آایiات ۱۳ پر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ مرقس ۱۰۰جلدا آانخداونiد۱۳تiا ۹بiاب کی آایات منظوم ہیں اور ا� میں متوازي کی صنع موجود ہے : 1کے کلمات پر مشتم� ہیں۔ یہ

لو گ تم کو عدالتوں کے حوالہ کریں گے اورتم عبادت خانوں میں پیٹے جاؤ گے

اورحاکموں اوربادشاہوں کے سامنے تم میری خاطر حاضر کئے جاؤ گے

اورجب وہ تم کو گرفتار کریںاورلے جاکر حوالہ کریں

تو پہلے سے فکر نہ کرناکہ تم کیا کہو گے ۔

بلکہ جو کچھ اس گھڑی تم کو بتلایا جائےتم وہی کہنا۔

کیونکہ کہنے والے تم نہیں ہوبلکہ روح القدس ہے۔

اوربھائی حوالہ کرے گا بھائی کو قت� کے لئے اورباپ بیٹے کو

اوربیٹے کھڑے ہوں گے تا� کو مرواڈالیں گے ۔ اپنے والدین کے خلاف اور

اورسب لوگ تم سے نفرت کریں گے میرے نام کی خاطر۔

1 Vincent Taylor, The Apocalyptic Discourse of Mark XIII.ExpTimes Jan.1949

وہی نجات حاص� کرے گا۔ تiiا۶۸: ۱( اورزکریا کے گی )لوقiiا ۵۵تا ۴۶: ۱مقدسہ بی بی مریم کے گی میں )لوقا

آاتی ہے۔۷۹ ( میں ہر جگہ متوازی کی صنع موجود ہے جو اردو ترجمہ میں بھی نظر آانخداوند کے کلام میں متوازی کی صنع خصوصی کے سiiاتھ نمایiiاں ہے۔ اور اس قiiدر غiiالب عنصiiر ہے کہ پروفیسiiر بiiرنی کہتiiاہے کہ " ہم وثiiو� کے سiiاتھ کہہ سiiکتے ہیں کہ وہ کلمات جن میں عبرانی نظم کے عرو} پائے جiiاتے ہیں سiiیدنا مسiiیح کی اپiiنی زبiiا� سiiے نکلے

ہیں "۔آایات اردو ترجمہ میں بھی شاعرانہ پیرایہ ظاہر ہے: ذی� کی

اپنے دشمنوں سے محب رکھو۔جو تم سے عداوت رکھیں ا� کا بھلا کرو۔

(۔۳۸تا ۲۷: ۶وغیرہ وغیرہ )لوقا آانخداوند کے اقوال حق تو یہ ہے عبرانی نظم کی صنعتیں اوزا� ، قافئے اور عرو} وغیرہ میں ہiiiر جگہ پiiائے جiiاتے ہیں۔ چiiونکہ یہ ایiiک حقیق ہے کہ اس قسiiم کی شiiاعری ابتiiدائی�iiوال جواناجیiiد کے اقiآانخداون کلیسیاکے مسیحیوں میں موجiiود نہ تھی لہiiذا یہ ثiاب ہوجاتiiاہےکہ آاپ کے شiiاعرانہ لہ مبiiارک سiiے نکلے ہیں اور آاپ کے ہی من اربعہ میں منiiدرج ہیں اصiiلی ہیں ۔ وہ

۔2تخی� اورشاعرانہ طبعی کا نتیجہ ہیں(۲)

۔ اس میں نظم کے مصiiرعوں میں ہم معiiنی الفiiا� پiiائے جiiاتے ہیں اورایiiک ہی3مiiترادف متiiوازيخیال کو دومختلف شکلوں میں ادا کیا جاتاہے:

کہ ظاہر نہ ہوجائے گی ۔( کوئی چیز چھپی نہیں ۱)آائے گا )مرقس کوئی بھید نہیں (۴:۲۴جوظہور میں نہ

2 A.Richardson, The Gospel in the Making , S.C.M pp.126-1283 Synonymous Parallelism.

Page 82: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

۔( اپنے دشمنوں سے محب رکھو ۲)جوتم سے عداوت کریں ا� کا بھلا کرو

تا� کے لئےبرک چاہو جوتم پر لعن کریں تا� کے لئے دعا کرو جو تم کو بے عزت کریں

1(۴۴: ۵،متی ۲۷: ۶)لوقا آافتاب کو بدوں اورنیکوں دونوں پر چمکاتا ہے۳) ۔(خدا اپنے

(۵:۴۵وہ راستبازوں اورناراستوں ، دونوں پر مینہ برساتاہے)متی۔( اپنی جا� کا فکر نہ کرو کہ ہم کیا کھائیں گے ۴)

نہ اپنے بد� کا کہ ہم کیا پہنیں گے کیونکہ جا� خوراک سے بڑھ کر ہے

(۔۲۵: ۶۔ متی ۲۲: ۱۲)لوقا اوربد� پوشاک سے ۔( جومیری طرف نہیں، وہ میرے خلاف ہے ۵)

(۔۲۳: ۱۱جومیرےساتھ جمع نہیں کرتا، وہ بکھیرتا ہے)لوقا تردہ تھا،اب زندہ ہوا ۶) ۔(یہ تیرا بھائی م

(۔۳۲: ۱۵)لوقا کھویا ہوا تھا، اب ملا ہے۔ تا� کو یہ صنع ملے گی: اگرناظرین مقدس لوقا کے ذی� کے مقامات کو غور سے پڑھیں تو

۔ )۲۳: ۱۱۔(۵۔ )۱۰تiiiا ۹: ۱۱۔(۴۔ )۴۰: ۶۔(۳۔)۳۵: ۶۔(۲۔ )۲۹تiiiا ۲۷: ۶۔( ۱) ۔ اگرنiiiاظرین ا� مقامiiiات کے۱۶: ۱۶۔(۹۔ )۴۶: ۱۲۔(۸۔ )۲۳تiiiا ۲۲: ۱۲۔(۷۔ )۴۷: ۱۱۔( ۶

2حوالہ جات مقدس متی کی انجی� میں دیکھیں تو وہاں بھی یہ صنع پائیں گے ۔تاس کے ہاتھ میں ہے۱۰) تاس کا چھاج ۔(

(۔۱۷: ۳اور وہ اپنے کھلیا� کو خوب صاف کرے گا ۔)لوقا

1 T.W.Manson, The Teaching of Jesus Ch32

یی ہے۔۱۱) آانے والا ہے جو مجھ سے اعل ۔( میرے بعد وہ شخص تاس کی جوتیوں کا تسمہ کھولوں)مرقس (۔۷: ۱میں اس لائق نہیں کہ جھک کر

۔( انسا� کچھ نہیں پاسکتا۔۱۲)آاسما� سے نہ دیا جائے )یوحنا (۔۲۷: ۳جب تک اس کو

۔(میں مسیح نہیں ہوں ۔۱۳)آاگے بھیجا گیا ہوں۔)یوحنا تاس کے (۔۲۸: ۳بلکہ

۔( باپ بیٹے سے محب رکھتاہے ۱۴)تاس کے ہاتھ میں دے دی ہیں۔)یوحنا (۳۵: ۳اس نے سب چیزیں

(۳)ل تضiiاد : اس صiiنع میں دوسiiرا مصiiرعہ پہلے مصiiرعہ کiiا مقاب�ii خیiiال پیش کرتiiاہے ۔3صiiنع

چنانچہ ملاحظہ ہو:وہ اسے کھوئے گااپنی جا�۔( جو کوئی بچانی چاہے ۱)

(۸:۳۵وہ اسے بچائے گا)مرقساپنی جا� لیکن جو کوئی کھوئے تبرا پھ�۲) ۔(کوئی اچھا درخ نہیں جو لائے

ترادرخ نہیں جو لائے اچھا پھ�)لوقا (۔۱۷: ۷۔ متی۴۳: ۶)کوئی بہر اچھا درخ اچھا پھ� لاتاہے۔

تبرا پھ� لاتاہے تبرا درخ لیکن (۔۳۳: ۱۲۔( اپنا مال اسباب بیچ کر خیرات کردو۔۔۔۔ دل بھی لگا رہیگا)لوقا۳)(۔۵۱: ۱۲۔( کیا تم گما� کرتے ہو کہ میں زمین پر صلح کرانے۔۔۔۔ جدائی کرانے)لوقا ۴)تاسی کی ہے۵) ۔( جو بیٹے پر ایما� لاتاہے ہمیشہ کی زندگی

(۔۳۶: ۳لیکن جو بیٹے پر ایما� نہیں لاتا وہ زندگی کو نہ دیکھے گا)یوحنا ۔(میں تم کو پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں ۶)

3 Rev.F.Bussby,”Q an Aramaic Document”. Exp Times June 1954

Page 83: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

(۔۸: ۱۱لیکن وہ تم کو روح القدس سے بپتمسہ دے گا۔)مرقس ۔(وہ اپنے گیہوں کوکھتے میں جمع کرے گا۷)

آاگ میں جلائيگاجو بجھنے کی نہیں۔)لوقا تاس (۔۱۷: ۳لیکن بھوسی کو آاتی ہے۔ چنiiانچہ پروفیسiiر بiiرنی مرحiiوم یہ صiiنع مقiiدس یوحنiiا کی انجی�ii میں باربiiار لر تصiiدیق ثiاب iiتمہ تا� خطبiiات کی اصiلی پiر ل تضاد کا وجiود خiاص طiiورپر کہتاہے کہ" صنع

۔1کردیتاہے جو انجی� چہارم میں مندرج ہیں ل تضاد پائی جاتی ہے۔ ترکنی بحر کے شعر کی مثال لیں جس میں صنع اا ب چار

آایا ہوں م سمجھو کہ میں توری منسوخ کرنے آایا ہوں۔)متی (۔۱۷: ۵منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے

ل تضiiاد کے دو ہم قiiافیہ یی پایہ کی نظم سات اشعار پiiر مشiiتم� ہے۔ اس میں صiiنع ذی� کی اعلمثلث موجود ہیں:

اپنے واسطے زمین پر خزانہ جمع نہ کروجہاں کیڑا کھاتاہے اورزنگ

تراتے ہیں اورجہاں چور نقب لگاتے اور چآاسما� پر خزانہ جمع کرو بلکہ اپنے لئے

تچراتے ہیں جہاں چور نہ نقب لگاتے ہیں اور نہ (۔۲۱تا ۱۹: ۶کیونکہ جہاں تیرا خزانہ ہے وہیں تیرا دل بھی ہوگا)متی

(۴) : اس صiنع میں پہلے مصiرعہ کے خیiال کiا تکملہ دوسiرے مصiرعہ میں پایiا2مiرکب متiوازی

جاتاہے۔ ملاحظہ ہو:۔( تم اپنے باپ ابلیس سے ہو ۱)

1 Anti-thetic Parallelism.2 Poetry of Our Lord p.84

(۔۴۴: ۸اوراپنے باپ کی خواہشوں کو پورا کرتے ہو۔)یوحنا آایا ہوں۔۲) آاگ لگانے ۔(میں زمین پر

آاگ لگ چکی ہو تو میں کیا ہی خو* ہوتا۔)لوقا (۔۴۹۔ ۱۲اور ۔(وہ اپنے تعویز بڑے بناتے ہیں ۳)

(۔۵: ۲۳اور اپنی پوشاک کے کنارے چوڑے رکھتے ہیں۔)متی اا توسرے مصرعہ میں پہلے کی تشریح کی گئی ہے۔ مثل بعض اوقات د

زمین پر کسی کو اپنا باپ نہ کہو آاسمانوں پر ہے)متی (۔۹: ۲۳کیونکہ تمہارا باپ ایک ہی ہے جو

یہی صنع مقدس لوقا کی انجی� میں ذی� مقامات میں پائی جاتی ہے۔ :۱۷۔(۵۔ )۲۰تا ۱۸: ۱۳۔( ۴۔ )۲۷تا ۲۴: ۱۲۔(۳۔ )۳۲تا ۳۰: ۱۱۔( ۲۔ )۱۵تا ۱۳: ۱۰۔( ۱)

۔۳۰تا ۲۶تا� مقامiiات میں بھی یہ صiiنع موجiiود ہے، جہiiاں یی ہiiذا القیiiاس مقiiدس مiiتی کے عل

آایات کے حوالہ جات ہیں ۔ مذکورہ بالا ۔(۵)

: اس صنع میں ایک مصرعہ کا خیال دوسiiرے مصiiرعہ میں موجiiود3زینہ بزینہ متوازی ہوتiiاہے اورپہلے الفiiا� کiiو دہراکiiر خیiiال قiiدم بہ قiiدم زینہ بiiزینہ تiiرقی کرتiiاہے۔ اس صiiنع میں ہiiراا لج کمiiال کوپہنچتiiاہے ۔مثل مصiiرعہ اپiiنے ماقب�ii مصiرعہ سiiے تiاثیر میں بڑھiiا ہiiوا ہوتiiاہے اوریiiوں عiiرو

ملاحظہ ہو: ۔( جو کوئی مiیرے نiام سiے اس بچے کiو قبiiول کرتiiاہے وہ مجھے قبiول کرتiاہے جiو۱)

(۔۳۷: ۹کوئی مجھے قبول کرتاہے وہ میرے بھیجنے والے کو قبول کرتاہے )مرقس ۔(جو تم کو قبول کرتاہے وہ مجھے قبول کرتاہے۲)

(۔۴۰: ۱۰جو مجھے قبول کرتاہے وہ میرے بھیجنے والے کو قبول کرتاہے)متی 3 Synthetic Parallelism.

Page 84: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

اگiiر نiiاظرین مقiiدس لوقiiا کی انجی�ii میں ذی�ii کے مقامiiات کiiو غiiور سiiے پiiڑھیں تiiو یہآاجiiائيگی۔ ( انہی مقامiiات کے حiiوالہ۵: ۱۲( )۲۹: ۱۱()۴۶: ۱۰)۳۴: ۶صiiنع ا� کiiو نظiiر

جات کو مقدس متی کی انجی� میں مطالعہ کریں تو یہ صنع وہاں بھی پائیں گے۔مقدس یوحنا کی انجی� میں یہ صنع ملاحظہ ہو:

تاس کی ہے۔۷) ۔( جو بیٹے پر ایما� لاتاہے ہمیشہ کی زندگی لیکن جو بیٹے پر ایما� نہیں لاتا وہ زندگی کو نہ دیکھیگا

تاس پررہتاہے ۔)یوحنا (۔۳۶: ۳بلکہ خدا کا غضب ۔(جس کی دلہن ہے وہی دلہا ہے۔۸)

تاس کی سنتا ہے وہ دلہا کا دوس ہے۔ جو کھڑا ہوا آاواز سے نہای خو* ہوتاہے۔)یوحنا (۔۲۹: ۳وہ دلہے کی

تضرور ہے کہ وہ بڑھے۹) ۔( ضرور ہے کہ میں گھٹوں

(۳۰: ۳پس یہ میری خوشی پوری ہوگئی ہے ۔)یوحنا تاس میں زندگی تھی۱۰) ۔(

تور تھا آادمیوں کا ن اور وہ زندگی اور وہ نورتاریکی میں چمکاتھا

اور تاریکی اس کی تابندگی کو پوشیدہ نہ کرسکی آایا وہ اپنے کے پاس

اوراس کے اپنوں نے اسے قبول نہ کیا۔ہم نے اس کا جلال دیکھا

ایسا جلال جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال۔وہ فض� اور سچائی سے معمور تھا

(۔۱۵تا ۴: ۱ ۔ )یوحنا1جس کی معموری سے ہم نے پایااب دوہم قافیہ مثلث ملاحظہ ہوں جو متوازی کی کام� مثال ہے:

۔( مانگو تو تم کو دیا جائے گا ۱)ڈھونڈوتو پاؤ گے

کھٹکھٹاؤ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا تاسے ملتا ہے ۲) ۔( کیونکہ جو کوئي مانگتاہے

اور جوڈھونڈتا ہے ، وہ پاتاہے ۔تاس کے واسطے کھولا جاتاہے)متی (۔۸تا ۷: ۷اور جو کھٹکھٹاتاہے

۔(۶) ہم نے مندرجہ بالا مثالوں میں متوازی کی مختلف اقسام کو لیا ہے کیiونکہ یہ صiنعل� اربعہ کی نظمiiوں میں خiiاص طiiورپر موجiiود ہے۔ تتب عبرانی کی نظموں اوراناجی لد عتیق کی ک عہلم معجiiز نظiiام میں ایiiک اور قسiiم کی صiiنع موجiiود ہے جس میں حضiiرت کلمتہ اللہ کے کلا متiiوازی صiiرف کسiiی ایiiک تصiiور اوراس کے الفiiا� میں ہی نہیں پiiائی جiiاتی بلکہ یہ متiiوازی

اا: تصورات کے سلسلہ اورتمام عبارت میں موجود ہے۔ مثلآایات ملاحظہ ہوں:۳۰تا ۲۶: ۱۷لوقا

)الف۔(۔( جیسا نوح کے دنوں میں ہوا تھا۱) آادم کےدنوں میں ہوگا ۲) لن ۔( ویسا اب۔( وہ کھاتے پیتے تھے ۳)

وہ بیاہتے تھے اوربیاہے جاتے تھے۔تاس د� تک جب نوح کشی میں گیا۔۴) ۔( آایا اورسب کو ہلاک کرگیا۔۵) ۔( اورطوفا�

1 Step-Parallelism.

Page 85: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

)ب۔(۔( جیسا لوط کے دنوں میں ہوا تھا ۱)۔( وہ کھاتے پیتے تھے ۲)

وہ خریدوفروخ کرتے تھےوہ درخ لگاتے اور گھر بناتے تھے۔

۔(لیکن جس د� لوط سدوم سے نکلا۔۴)آاگ اورگندھک کی بار* نے سب کوہلاک کردیا۔۵) آاسما� سے ۔(

(۔۳۲تا ۳۱: ۱۱ایک اورمثال لیں )لوقا )الف(

تا� کو مجرم ٹھہرائے۱) آادمیوں کے ساتھ عدال کے د� اٹھ کر ۔( دکھن کی ملکہ اس زمانہ کےگی۔

آائی ۔۲) ۔( کیونکہ وہ دنیا کے کنارے سے سلیما� کی حکم سننے کو ۔( اوردیکھو یہاں وہ ہے ۔ جوسلیما� سے بھی بڑا ہے۔۳)

)ب( ۔( نینiiوہ کے لiiوگ اس زمiiانہ کے لوگiiوں کے سiiاتھ عiiدال کے د� کھiiڑے ہiiوکر ا� کiiو مجiiرم۱)

ٹھہرائیں گے ۔۔( کیونکہ انہوں نے نینوہ کی منادی پر توبہ کرلی۔۲)۔( اوردیکھو یہاں وہ ہے جو یوناہ سے بھی بڑا ہے۔۳)

تiiا۲۶: ۶، مiiتی ۲۸تiiا ۲۴: ۱۲ایک اورمثiiال لیں جس میں خiiدا کی پروردگiiاری کiiا ذکiiر ہے)لوقiiا (۔۳۰

)الف(۔( کوؤں پر غور کرو۱)

۔( وہ نہ بوتے ہیں اورنہ کاٹتے ہیں ۲)نہ ا� کا کھتہ ہوتاہے ، نہ کوٹھی

تا� کو کھلاتاہے ۔۴) ۔( اور خدا ۔( تمہاری قدر تو پرندوں سے کہیں زیادہ ہے۔۶)

)ب(۔( سوسنوں پر غور کرو کہ کس طرح بڑھتے ہیں ۱)۔( وہ نہ محن کرتے اور نہ کاٹتے ہیں ۔۲) ۔( تو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سiiلیما� بھی بiiاوجود اپiiنی شiiا� وشiiوک کے ا� میں سiiے۳)

کسی کی مانند ملبس نہ تھا۔۔( پس جب خدا گھاس کو ایسی پوشاک پہناتاہے ۔۴)آاج میدا� میں ہے۔۵) ۔(جو

اورک� تنور میں جھونکی جائے گی ۔۔( تواے کم اعتقادو۔ تم کو کس قدر بہتر نہ پہنائے گا ؟۶)

آاپ گم شدہ بھiiیڑ کی یiiا گم شiiدہ سiiکہ کی تمiiثیلوں کiiو اور رائی یی ہذا القیاس اگر علتا� کی تشکی� بھی یہی صنع ظاہر کرے گی۔ کے دانہ کی یا خمیر کی تمثی� کولیں تو

آاپ اناجی� کے کسiiی موضiiوع کiiو لیں جس میں تصiiورات کےسلسiiلہ حق تو یہ ہے کہ آاپ خود دیکھ لیں گے کہ یہ صiiنع مختلiiف اقسiiام کے تصiiورات میں متوازی پائی جاتی ہو تو اورجذبات میں موجود ہے اورا� کو اس طور سے ادا کرتی ہے کہ سونے پر سہاگہ کا کiام دے کiر تا� کے گہرے قلiiبی جiiذبات کiiو ایسiiی کمiiالی سiiے ادا کiiرتی ہے کہ کiiوئی اور صiiنع ا� کiiو

۔ اسی قسم کی دیگر مثالوں کے لئے ذی� کے مقامات ملاحظہ ہوں:1ویسے ادا نہیں کرسکتی ۔ مiتی۲۸تiا ۲۴: ۱۲۔( لوقiiا ۳۔ )۴۸تiا ۴۳: ۹۔( مiiرقس ۲۔ )۲۲تiا ۲۱: ۲۔( مرقس ۱)

:۱۱۔ مiiتی ۱۵تiiا ۱۳: ۱۰۔(لوقا ۵۔ )۳۳تا ۳۱: ۱۳۔ متی ۲۱تا ۱۸: ۱۳۔( لوقا ۴۔ )۳۸تا ۲۶: ۶1 Burney,Aramaic Origin of the Fourth Gospel 1922,p.42-43

Page 86: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

:۱۵۔( لوقا ۹۔ )۳۳تا ۲۸: ۱۴۔( لوقا ۸۔ )۵تا ۲: ۱۳۔(لوقا ۷۔ )۲۷تا ۲۵: ۴۔(لوقا ۶۔ )۲۳تا ۲۱ وغیرہ(۔۲۱تا ۱۶: ۲۳۔( ۱۱۔ )۴۶تا ۴۴: ۱۳۔( متی ۱۰۔ )۱۰تا ۴

ترکن ہiوتے ہیں جس میں تین تاکیiدی عiبرانی نظم میں بعض اوقiات ہiiر مصiرع میں چھ اا ہوتے ہیں۔ حضرت کلمتہ اللہ بھی کثر ہم قiiافیہ مصiiرعے زبiiا� مبiiارک سiiے فرمایiiا کiiرتے تھے۔ مثل

تین ہم قافیہ مصرعے ملاحظہ ہوں؛۔( تم ربی نہ کہلاؤ۱)

کیونکہ تمہارا ربی ایک ہی ہے۔اور تم سب بھائی ہو۔

۔( کسی کو اپنا باپ نہ کہو ۲)کیونکہ تمہارا باپ ایک ہی ہے۔

آاسما� پر ہے۔ وہ جو ۔( تم ہادی نہ کہلاؤ ۳)

کیونکہ تمہارا ہادی ایک ہی ہے۔(۔۱۲تا ۸: ۲۳جو تم میں بڑا ہے وہ تمہارا خادم ہے ۔)متی

۔(۷)لب مقدسiہ سiے تت مندرجہ بالا اقسiام متiوازی کی صiنع کی اقسiام ہیں جiو عiبرانی کآانخداونiiد کے کلام میں مختلiiف مقامiiات میں پiiائی جiiاتی ہیں۔ اناجی�ii میں مخصiiوص ہیں۔ اور

لن تعلی� کا بھی استعمال کیا گیاہے ۔ مثال کے طورپر ملاحظہ ہو: ل حس صنعآادمیوں کے قصور معاف کروگے ۔ اگر تم

آاسمانی باپ بھی تم کو معاف کرے گا ۔ تو تمہارا آادمیوں کے قصور معاف نہ کروگے ۔ اگر تم

آاسمانی باپ بھی تمہارے قصور معاف نہ کرے گا)متی (۔۱۴: ۶تو تمہارا

۔(۸) ارامی زبا� کی ایک اور صنع ہے جس میں حرف عطف نہیں ہوتا۔ یہ صiiنع خiiاصتا� ل� یوحنا میں پiiائی جiiاتی ہے۔ چنiiانچہ اگiiرہم حضiiرت کلمتہ اللہ کے ل� مرقس اورانجی طورپر انجی

اا مرقس ۔ تو ہم پر یہ صiنع عیiاں ہوجiاتی۹تا ۶: ۱۳اقوال پر غورکریں جوایک جگہ جمع ہیں مثل۔1ہے ۔ اس مقام میں سات فقرے ہیں اورچار مقامات میں یہ صنع موجود ہے

۔(۹) ۔ اس میں2ایک اور صنع ہے جس کiو ارامی اصiطلاح میں " ق�ii وخمiر" کہiiتے ہیں

کمی اور زیادتی کا حساب ہوتاہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو: آانکھ کےتنکے کودیکھتاہے ۱) ۔( توکیوں اپنے بھائی کی

آانکھ کے شہتیر پر غور نہیں کرتا؟ اوراپنی آانکھ کے شہتیر کو نہیں دیکھتا جب تو اپنی

تواپنے بھائی سے کیونکر کہہ سکتا ہےآانکھ میں ہے نکال دوں؟ بھائی لا، اس تنکے کو جو تیری

(۔۴۲تا ۴۱: ۶)لوقاآاسiiمانی بiiاپ اپiiنے۲) تبرے ہوکر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہوتiiو ۔(جب تم

مانگنے والوں کو روح القدس کیوں نہ دیگا؟(۔۱۳: ۱۱)لوقا

۔(۱۰)لب مقiدس بہ مقامiات ایسiے ہیں جن کے فقiiرے اس طiرز پiر ڈھiالے گiئے تت عبرانی ک

ہیں:"۔۔۔۔۔۔نہ۔۔۔۔۔۔ بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔"

1 Manson, The Teaching of Jesus Ch.32 Dr.Mathew Black An Aramaic Approach to the Gospels & Acts p.48

Page 87: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

یہ صنع انجیلوں میں بھی موجود ہے۔ ملاحظہ ہو:تاس خiوراک کے لiiئے جوابiدی زنiiدگی کے لiiئے " فانی خوراک کے لئے محن نہ کرو

(۔۱۷: ۶قائم رہتی ہے)یوحنا ۔(۱۱)

لم معجز بیا� میں اوزا� بھی پائے جiiاتے ہیں۔ یہ اوزا� عiiبرانی حضرت کلمتہ اللہ کے کلانظم سے مخصوص ہیں ۔ مشتے نمونہ ازخروارے ، تین تال کا وز� ملاحظہ ہو:

تاسiiے ظiiاہر کرنiiا چiiاہے )لوقiiا ۱) آاسما� اور زمین کے مالک ۔۔۔ بیٹiiا :۱۰۔( اے باپ ۔ (۔۲۲تا ۲۱

آانکھ ہے۔۔۔۔ تجھے روشiiن کرتiiاہے )لوقiiا ۲) تiiا۳۴: ۱۱۔( تiiیرے بiiد� کiiا چiiراغ تiiیری (۔۳۵

آانخداوند کے مبارک اقوال میں قافیہ بنiدی بھی ہے۔ چنiانچہ مرحiوم ڈاکiٹر بiرنی لکھiتےآاپ کے اقوال کا ارامی زبiiا� میں آانخداوند قافیہ بندی کو اکثر استعمال کرتے تھے اورجب ہیں کہ

۔ یہی وجہ تھی کہ1دوبارہ ترجمہ کیا جاتiاہے تiو اکiثر مقامiات میں قiiافیہ بنiدی ظiاہر ہوجiاتی ہےآانخداوند کے کلام کو زبانی یاد بھی رکھ سکتے تھے۔ عوام الناس

(۱۲)اا بعض ل� اربعہ میں جiiا بجiiا دیگiiر اقسiiام کی صiiنعتیں بھی پiiائی جiiاتی ہیں مثل iiاناجی مقامات میں مختلف الفا� کی ایiک ہی حiرف سiے ابتiدا ہiiوتی ہے ۔ جiو سiرحرفی صiنیع ہے۔ بعض مقامات میں ہم صوتی کی صنع پiiائی جiiاتی ہے۔ ا� میں یجبiiنیس صiiوتی ہے اورالفiiا� ہماا اگiiر ل ایہiiام موجiiود ہے جس میں رعiiای لفظی ہiiوتی ہے۔مثل آاواز ہیں۔ بعض مقامiiات میں صiiنع

وغیرہ مقامات کی یونانی زبiiا� کiiا دوبiiارہ ارامی میں۱۳: ۱۶لوقا ۲۴: ۶۔ ۳۰: ۱۰۔ ۱۷: ۱۱متی آاجiاتی ہیں ارا نظiiر ۔ تجiiنیس صiiوتی جس میں الفiiا� کےپہلے2ترجمہ کیاجائے تو یہ صiنعیتیں فiiو

1 Bussby, Exp. Times June 19542 See F.V. Filson Origin of the Gospels pp.85-88

ل ایہiiام اوراصiوات کی دیگiiر صiiنعیتیں حضiiرت کلمتہ اللہ کے آاواز ہوتے ہیں اور صنع حروف ہم لت اقوال کی خصوصیات میں سے ہیں۔ یہ صنعیتیں ہر چہار اناجی� میں سیدنا مسiiیح کے کلمiاآاپ کے کلمات میں ہی پائی جاتی ہیں۔ بلکہ ایiiک طیبات میں موجود ہیں اور قریب قریب صرف آانخداوند کے ایسے اقوال مقام میں توتجینس صوتی نے ایسا کام دیا ہے کہ انجی� کے مولف نے کiiو ا� اصiiوات کی بنiiاء پiiر ایiiک جگہ جمiiع کردیiiا ہےجن میں اور کiiوئی دوسiiرا تعلiiق نہیں ہے۔

اسiiی بنiiا پiiر جمiiع کی گiiئی ہیں۔ دونiiوں۴۸تiiا ۴۲ کے بعiiد ایiiات ۴۱تiiا ۳۸: ۹چنiiانچہ مiiرقس آایات کی ترتیب ارامی الفا� کے آاتا۔ ا� لس مضمو� میں اور کوئی تعلق نظر نہیں مقامات کے نفلت طیبiiات آانخداونiiد کے کلمiiا حiiروف اور اصiiوات کی بنiiاء پiiر کی گiiئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی سینوں کی الواح پر کالنقس فی الحجiiر ہوجiiاتے تھے۔ جب ہم ا� کلمiiات کiiو ارامی میںلل مبارک کiiو دوبارہ ترجمہ کرکے پڑھتے ہیں تو ہم پر عیاں ہوجاتاہے کہ حضرت کلمتہ اللہ اپنے اقواآاپ کے الفiiا� بالعمiد ہiiوتے تھے جiو بے سiiوچے سiمجھے تول کر اپiنی زبiا� سiے نکiالتے تھے۔ آاپ کے اقiiوال کی یiiونہی منہ سiiے نہیں نکلiiتے تھے۔ کیiiونکہ وہ جنچے تلے الفiiا� ہiiوتے تھے۔ تا� کی عبiiارت ایسiiی ہے جس کے الفiiا� اور اصiiوات طiiرزاورعظم یسiiعیاہ نiiبی کی سiiی ہے۔ نہای مiوزو� طiiورپر جiiذبات اور تصiورات کی خiوبی کiiو سiروں کے اور تiرنم کے ذریعہ انسiiانیتلطiiف یہ ہے کہ الفiiا� کی اصiiوات حسiiب مiiوقعہ اور موضiiوع کے ذہن پiiر نقش کردیiiتے ہیں۔

اا متی میں نiiرم، دھیمے اورنiiازک اصiiوات والفiiا� ہیں لیکن مiiرقس۲۹تا ۲۸: ۱۱مطابق ہیں ۔ مثل میں یہ اصiiوات سiiخ اورکiiرخ ہیں کیiiونکہ یہiiاں ٹھiiوکروں کiiا ذکiiر ہے۔ جن۴۸تiiا ۴۳: ۹

آاپ کے الفا� حروف حلق سے مقامات میں حضر ت کلمتہ اللہ ریاکاروں کا ذکر کرتے ہیں وہاں نکلتے ہیں یا سسکار نے والے ہیں اور سسکاری سے اس طورپر ادا ہiiوتے ہیں جس میں تضiiحیک

لس صiiوتی کی دیگiiر مثiiالیں ذی�ii کے مقامiiات میں بھی3اور استہزا کا گما� پایiiا جاتiiاہے ۔ تجiiنی ۔( لوقا۵۔ )۳۲: ۷۔( لوقا ۴۔)۸: ۷۔(لوقا ۳۔)۴۰: ۶۔( ۲۔ )۳۶تا ۲۷: ۶۔(لوقا ۱پائی جاتی ہیں )

3 Black Aramaic Approach Part 111 Ch VI.

Page 88: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

تا� مقامات میں بھی ملیگی۳۴: ۱۲۔(لوقا ۶۔ )۷: ۱۲ ۔ ناظرین کو یہی صنع مقدس متی کے جن میں یہی موضوع ہیں۔

سiiیدنا مسiiیح کی تمiiثیلوں میں )جوبجiiائے خودایiiک صiiنع ہیں(اصiiوات کی مختلiiف صنعتیں پائی جاتی ہیں۔ جب ا� تمثیلوں کا یونانی سے ارامی زبiا� میں لفظی تiرجمہ کیiا جاتiاہےآاتی ہے ۔ چنiiانچہ ذی�ii کے مقامiiات میں اصiiوات کی مختلiiف صiiنعتیں تو یہ صنعتیں صاف نظiiر

:۱۳۔ مiتی ۸تiا ۴: ۸لوقiا ۹تiا ۱: ۱۳۔ مiتی ۳۲تiا ۳۰، ۲۹تiا ۲۶، ۹تiا ۱: ۴موجiود ہیں۔ مiرقس ۔۱۹تا ۱۸: ۱۳۔لوقا ۳۲تا ۳۱

ل� اربعہ کے دیگiiر مقامiiات میں بھی موجiiود ہیں۔ چنiiانچہ iiنعتیں اناجیiiوات کی یہ صiiاص ۔مiiرقس۵۰تiiا ۴۹: ۹۔ لوقiiا ۴۱تiiا ۳۸: ۹۔ مiiرقس ۸: ۷۔ یوحنiiا ۵: ۱۴۔ ۱۴تا ۸: ۲ملاحظہ ہولوقا

۔ مiرقس۱۰ تiا ۷تا ۱: ۱۴۔ لوقا ۹تا ۸: ۱۔ یوحنا ۲تا ۱: ۱۷۔ لوقا ۹تا ۶: ۱۸۔ متی ۴۸تا ۴۲: ۹ تiiا۳۳: ۱۲۔لوقiiا ۳۴تiiا ۲۵، ۲۰تiiا ۱۹۔ ۸تiiا ۱: ۶۔ مiiتی ۴۶: ۱۹۔ لوقiiا ۱۳: ۲۱۔ مiiتی ۱۷: ۱۱ تiiا۲۸: ۱۱۔ مiiتی ۵۰تiiا ۳۶: ۷۔ ۳۷تiiا ۲۷: ۶۔ لوقiiا ۴۸تا ۴۳: ۵۔ متی ۳۶: ۲۲۔ ۳۱تا ۲۲، ۳۴۔۷تا ۳: ۱۵۔ لوقا ۱۴تا ۱۲: ۱۸۔ ۳۰

تشتے نمونہ ازخروارے ، ہم صرف ایiک تمثی�ii پیش کiiرتےہیں جiو تمثیلوں میں سے بطورملب توجہ نظم ہے اورعبرانی عرو} میں کئی حصوں میں منقسم ہے۔ میں بھیڑوں۴۶تا ۳۱: ۲۵جاذ

تموجب ہے کہ جب1اوربکریوں کی تمثی� ہے۔ ڈاکٹر بiiرنی مرحiiوم کہiiتےہیں ۔ یہ امiiر دلچسiiپی کiiا تتب کی عiiبرانی زبiiا� میں تiiرجمہ کیاجاتiiا ہے تiiو وہ ایiiک نظم کی لد عتیق کی ک اس تمثی� کو عہلد عiتیق کی منظiiوم کتiابوں iiے عہiا� سiرنم، اوردانی کے لحi، ت �و وزiتی ہے جiصورت اختیار کرلی کی طرح توجہ کو اپiنی جiانب خiواہ مخiiواہ کھینچ لیiتی ہے"۔اس عiالم نے اس تمثی�i کiا عiiبرانی

لب ذی� ہے: منظوم ترجمہ کیاہے جس کاپہلا حصہ حسآائے گا آادم اپنے جلال میں لن جب اب

تاس کے ساتھ ۔ اورسب فرشتے 1 Ibid.

وہ اپنے جلال کے تخ پربیٹھے گاتاس کے سامنے جمع کی جائیں گی اورسب قومیں

اوروہ ایک کو دوسرے سے جدا کرتاہے۔اور وہ بھیڑوں کو اپنے دہنے ہاتھ کھڑا کرے گا

لیکن بکریوں کو اپنے بائیں ہاتھ یہ نظم ایiiiک مقفی نظم ہے جiiiو ابتiiiدا میں عiiiبرانی میں منظiiiوم تھی۔اس عiiiالم نے اس تمثی� کو ارامی زبا� میں بھی ترجمہ کرکے ثاب کردیاہے کہ" ارامی زبا� میں اس تمثی� کی قiiافیہتتب لد عiiتیق کی ک iiعہ �iiاہے کہ یہ تمثیiiالم کہتiiاتی ہے" پس یہ عiiائع ہوجiiحد تک ض بندی بہ

آانخداوند کے عبرانی کلام کا ایک نمونہ ہے ۔2کی عبرانی نظم کے طرزپر تھی اور حضiiر ت کلمتہ اللہ کی تمiiثیلوں میں تشiiبہیات ، ممiiاثل ، اسiiتعارے، نقش ونگiiارآانکھiوں کے سiامنے سiماں بنiدھ جاتiاہے۔ یہ بیانiات اورکنiایہ ہیں۔ اورا� کiا طiرز بیiا� ایسiا ہے کہ جیتی جاگتی تصویر ہوجاتے ہیں ، جن کے وسیلے روحانی حقائق غبی سے غiبی شiخص پiر بھیل} مقiiدس کے منکشف ہوجاتے ہیں۔ ا� تمثیلوں کiiا مطiiالعہ یہ ظiiاہر کردیتiiاہے کہ یہ تمiiثیلیں ار مختلف مقامات میں پاروں میں تھیں۔ ا� کی خصوصیات ثاب کردیتی ہیں کہ وہ حضرت کلمتہ اللہ کے منہ کی فرمiiودہ ہیں۔ا� کiiا شiiاعرانہ انiiداز ثiiاب کردیتiiاہے کہ وہ ایiiک ایسiiے شiiخص کےتا� پر جتنا زیادہ غiiور کiiرو اتنiiا یی کی بلندیوں سے واقف ہے۔ ل* معل دماغ نے خلق کی ہیں جو عرل� حiال سiے پکiiار کiiر کہiiتی ہیں کہ وہ تا� کی خاصی اورپایہ اعتبiiار ثiاب ہوجاتiiاہے ۔ وہ زبiiا ہی

۔ اناجی�iii اربعہ کے3کسiiiی معمiiiولی دمiiiاغ کی اخiiiتراع نہیں ہیں بلکہ اصiiiلی اور تiiiواریخی ہیں مولفiiوں نے تیس بiiڑی تمiiثیلوں اورچنiiد ایiiک چھiiوٹی چھiiوٹی تمiiثیلوں کiiو جمiiع کیiiاہے۔ پہلی تینآانخداوند کےکلام میں اور چھوٹے چھiiوٹے اسiiتعارے اناجی� میں استعاروں کی تعداد ساٹھ ہے گو

2 Burney, Journal of Theological Studies April 1913 pp. 414-4243 St. Matthew (Cent. Bible)pp.55-57

Page 89: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

آاپ کے کلام کiiو لطiiف۱۷بھی پائے جاتے ہیں۔ ا� سiiاٹھ اسiiتعاروں میں تشiiبہیات بھی ہیں جiiو اندوز دریاف انگیزی بنادیتی ہیں۔ چنانچہ ملاحظہ ہو:

ترغی اپiiنے بچiiوں iiرح مiiاے یروشلیم ، اے یروشلیم۔۔۔کتنی بار میں نے چاہا کہ جس ط" تاسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کروں۔۔۔ ال\ )مiiتی :۲۳کو پروں تلے جمع کرلیتی ہے

(۔۳۷(۳)

لم بلاغ نظام سiiے چنiiد ایiiک صiiنعتوں آانخداوند کے کلا مذکورہ بالا سطور میں ہم نے کے نمونے ناظرین کےسامنے پیش کئے ہیں۔ اس مضمو� پر مستق� کتiiابیں لکھی جاسiiکتی ہیںتا� سے حضرت کلمتہ اللہ کے کلام کا اعجاز قیاس لیکن جونمونے ہم نے پیش کئے ہیں ناظرین

ل� من بہار مراکرسکتے ہیں ۔ ع تن زگلستا قیاس کلف طiiوال نظiiر ل� اربعہ میں دیگر اقسام کی صنعتیں بھی موجود ہیں جن کو بخiiو اناجیل احتجiiاج ، بالی�ii ، صiiنع موقiiوف ۔ ل سiiوال وجiiواب۔ صiiنع اا صiiنع انiiداز کردیiiا گیiiا ہے۔ مثل ل ل والجiiز الی الصiiدر۔ صiiنع ل تجنیس، صiiنع ل لف ونشر، صنع ل مراعات النظیر۔ صنع صنعآاپ کے کلام میں لطاف استعارہ انiiدرت ل قطار البعیر و غيرہ پائی جاتی ہیں۔ شبہ اشقا� ، صنعیے عبiiارت اور قiiافیوں کی دلکشiiی،زبiiا� کی سiiلام ، روانی آاہنگی، مصiiف تشiiبیہ، وز� کی خiiو* ل الفiiiا�، رعiiای لت کلمiiات، شiiوک ، مناسiiباiiدت اورنفاسiiرتیب، جiiب، اور تiiرنم، تناسiiاورت تہر پاشiiی اور اصطلاحات ، بلندی مضامین، سادگی تiiراکیب وغiiيرہ وغiiیرہ، حقiiائق ومعiiارف کی گ سفتگی کے ساتھ ساتھ پائ جاتی ہے۔ حضiiرت کلمتہ اللہ کے زرین اقiiوال میں تلمیح بھی ہےآاپ کے کلمiiات سiiلیس رنگین ہیں یعiiنی معiiنی تا� میں سiiجع اورمiiوزانہ ہے۔ اور ترصiiیح بھی۔۔۔ سiiiہ� ہiiiونے کے سiiiاتھ ادائے مطلب ہیں مناسiiiبات الفiiiا� کی رعiiiای ہے۔ زبiiiا� میں سiiiلامآاپ کے کلام کiiو ایiiک دفعہ سiiن لیiiا وہ کبھی بھiiول نہ سiiکا۔ یہ اوردلنشiiینی ایسiiی ہے جس نے آانخداوند کے کلام کے تاردپود میں ہیں ایسiiا کہ یونiiانی زبiiا� کے شiiفاف پiردہ میں خصوصیات

آاتی ہے چنiiiانچہ پروفیسiiiر مین سiiiین کہتiiiاہے" سiiiیدنا مسiiiیح کے اقiiiوال سiiiے بھی صiiiاف نظiiiر آاپ کی شiاعری کی اورمکالمات میں عبرانی نظم کی تمام صنعتیں موجود ہیں اور سچ پوچھiو تiو آاپ کے کلام میں متوازی کی مختلف اقسiام کی روانی اوزا� کiا اص� خصوصیات ہی یہ ہے کہ

آاپ ہی کا خاص حصہ ہے ۔1ترنم پایا جاتاہے شاعری کی دنیا میں یہ ہمیں یہ حقیق فرامiiو* نہیں کiiرنی چiiاہیے کہ گiiو مختلiiف اقسiiام کی صiiنعتیں وغiiیرہآاخiiر یہ صiiنعتیں ، قiiiافئے اور وز� وغiiيرہ لم بلاغ نظiiام میں موجiiiود ہیں لیکن آانخداونiiد کے کلاتامور کے ساتھ ہی تعلiiق رکھiiتے ہیں۔ لیکن سiiیدنا مسiiیح کے محض الفا� اورزبا� جیسے خارجی تا� تصورات میں بھی ہر جگہ شاعرانہ تخی� موجود اقوال میں جو خیالات اور تصورات موجود ہیں، تا� کے معانی کے ساتھ ہے اور یہ تخی� خواہ نثر میں ہو خواہ ہے، جس کا تعلق الفا� سے زيادہ

لح رواں ہے۔ تو نظم میں ہو ، درحقیق شاعری کی رتجملے جiو علاوہ ازیں زبا� اور بیا� کے معاملے میں چھوٹے چھوٹے مختصر فقiiرے اور ل� اربعہ کے iiآاپ اناجی ہiiیئ میں کم لیکن معiiانی میں وسiiیع ہiiوں، بلاغ کی جiiا� ہiiوتے ہیں۔ ل� فصiاح بیiا� سiے ل� متفقہ کے کلمات کا جو حضرت کلمتہ اللہ کی زبiا اور بالخصوص اناجیترمغiiز فقiiرے ہiiر جگہ آاپ اس قسiiم کے چھiiوٹے ، مختصiiر لیکن پ نکلے ہیں ، مطiiالعہ کiiریں ۔

اا متی لب حیiiات کiiا درجہ رکھiiتے ہیں اور۲۷تiiا ۲۴: ۱۶پائینگے)مثل آا (۔ جiiو پڑھiiنے والے کے لiiئے اا حiiافظہ اور دل میں گھiiر کiiرکے انسiiا� کی اخلاقی اور روحiiانی زنiiدگی کی بلنiiدپروازی کiiا فiiور

باعث بن جاتے ہیں۔(۱۴)

حضرت کلمتہ اللہ کے کلام میں جو فصاح اوربلاغ پائی جاتی ہے وہ اس حقیقلت طیبiiات زرین اقiiوال اورمبiiارک آاپ کے جiiو کلمiiا ل� اربعہ میں iiرتی ہے کہ اناجیiiک کiiو بھی ثiiابل� معجiiز بیiا� سiے ہی نکلے تھے اورا� آاپ کی زبiا مکالمات پائے جاتے ہیں وہ سiب کے سiب کی اصلی میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں رہتی۔ ناظرین نے ملاحظہ کیا ہوگiiا کہ1 Vincent Taylor, The Formation of Gospel Tradtion.(1933) pp.100-110

Page 90: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

صiiنعتوں کے جونمiiونے ہم نے اس بiiاب میں دئے ہیں وہ کسiiی ایiiک انجی�ii سiiے نہیں لiiئے گiiئےتا� اقiiوال کی بلکہ چاروں انجیلوں سے لئے گئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ سiیدنا مسiیح کے آاپ کے ا� مکالمiiات کی اصiiلی میں جiiو اصلی میں جو پہلی تین انجیلوں میں درج ہیں اور انجی� چہارم میں موجود ہیں کسی قسم کا کiوئی فiiر� نہیں ہوسiکتا کیiiونکہ چiاروں انجیلiوں کے

لت1کلام میں یہ صنعتیں وز� اور قiiافئے وغiiيرہ موجiiود ہیں ۔ چiiاروں کی چiiاروں انجیلiiوں کے کلمiiا طیبات حضرت کلمتہ اللہ کے فرمودہ ہیں اور انجیلوں میں درج ہونے کے وق تiiک ا� میں کسiiی

قسم کا فتور واقع نہیں ہوا بلکہ وہ من وعن محفو� رہے۔

باب سومباب سومل� اربعہ کے ماخذوں کی زبا� ل� اربعہ کے ماخذوں کی زبا�اناجی اناجی

آائے ہیں کہ حضiرت کلمتہ اللہ کی مiادری اس حصiiہ کے پہلے بiاب میں ہم ثiiاب کiiر ل} مقدس کے یہود کو تعلیم دیا کرتے تھے۔ گذشتہ باب میں ہم آاپ ار زبا� ارامی تھی جس میں �iiا ہے کہ اناجیiiکردی لت طیبات کی صوری اورخارجی شک� پر بحث کرکے ثاب آاپ کےکلما نے لم معجiز نظiام میں عiiبرانی نظم کے آاپ کے کلا لس پردہ اربعہ کی یونانی ایک شفاف پردہ ہے۔ اورپیے عبiiارت آاپ کا مبارک کلام فصاح وبلاغ ، صنائع وبiiدائع ، مقف عرو} ہرجگہ موجود ہیں۔

تپر ہے۔ اور رباعیات وغیرہ سے مندرجہ بالا حقیقتوں سے چند ایک نتائج مستنب� ہوتے ہیں:

تاوپiiر لکھ چکے ہیں ، حضiiرت کلمتہ اللہ کiiا کلام لفiiظ بلفiiظ صiiح وول: جیسiiا ہم اوول درجہ کی سند کا ہے۔ اس کتاب کے پچھلے کے ساتھ محفو� رہا ہے اوراس کا پایہ کاعتبار ال� اربعہ کی انiدرونی شiہادت سiے بعینہ اسiی نiتیجہ پiر پہنچے ہیں۔ اب iچار حصوں میں ہم اناجی اناجی�ii کی اص�ii زبiiا� پiiر غiiورکرنے سiiے اس نiiتیجہ کی تائیiiد اور تصiiدیق ہوجiiاتی ہے۔ چنiiانچہتاصiiول کے ذریعہ ہم یہ معلiiوم لم تنقید کے پروفیسر ونسنٹ ٹیلر کہتے ہیں " حقیق تویہ ہے کہ عل1 F.N.Filson, the Origin of the Gospels. pp.87-88

کرسکتے ہیں کہ سیدنا مسیح کے کسی خاص قول کا اص� کیا تھا اوردوسروں تک پہنچiiنے میںآانخداونiد کے متعiد اقiوال دویiا تین وول تiو اس قول میں کiوئی تبiدیلی واقiع ہiوئی ہے یiا کہ نہیں۔اآاپ کے اقوال کے اص� الفiiا� کیiiا انجیلوں میں پائے جاتے ہیں اوریوں ہم کو پتہ لگ سکتا ہے کہ آاپ کی تعلیم کے آاپ کے کiوئی اقiiوال درج ہiiوں تiو تھے۔ دوم۔ اگiر صiرف ایiک ہی انجی�ii میں �iلز عم دیگر حصص سے مقابلہ کرکے ہم ا� اقوال کی اصiلی کiو معلiوم کرسiiکتے ہیں۔ اس طiiرآانخداوند کی تعلیم کے الفiiا� بجنسiiہ محفiiو� ہیں اوردنیiiا سے علماء اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ

۔ اب2کے دیگiiiر معلمiiiوں کے اقiiiوال سiiiے کہیں زیiiiادہ صiiiح کے سiiiاتھ محفiiiو� رہے ہیں "آاپ کے کلام کی آانخداوند کے کلمات کی زبا� کا مطiiالعہ سiiونے پiiر سiiہاگہ کiiا کiiام کرتiiاہے اور صiiح کiiو ایسiiا ثiiاب کردیتiiا ہے کہ کسiiی صiiحیح العق�ii شiiخص کے لiiئے شiiک وشiiبہ کی

گنجائش ہی نہیں رہتی۔ دوم۔ یہ بھی ثاب ہوجاتاہے کہ جن ماخذوں کو اناجی�ii کے مصiiنفوں نے اسiiتعمال کیiiاتاس زمiiانہ سiiے معلiiق ہیں جب حضiiرت کلمتہ اللہ نے اپiiنے کلمiiات تھا وہ نہای قiiدیم تھے۔ وہ وول میں ماخiiذوں آاپ کی زندگی کے واقعات رونما ہورہے تھے۔ ہم جلد ا کوفرمایا تھا اورجب ابھی آائے ہیں ۔ اب زبiا� کی دلی�i بھی اس حقیق کی بحث میں یہ نکتہ دیگر دلائ� سے ثاب کر

کی تائید کرتی ہے کہ یہ ماخذ قدیم تریں زمانہ کے ہیں، لہذا نہای معتبر ہیں۔وولین ایiiام میں وول میں بتلاچکے ہیں کہ ا سiiوم۔ یہ ماخiiذ ارامی زبiiا� میں تھے۔ ہم بiiاب اتا� لوگوں پر مشتم� تھی جو پہلے یہودی تھے، اورمنجئی عالمین پر ایمiiا� مسیحی کلیسیا صرف وولین کلیسiiیا کے شiiرکاارامی بولiiتے تھے لا کiiر نجiiات ابiiدی سiiے بہiiرہ انiiدوز ہوگiiئے تھے ۔ پس اآانکھiiوں دیکھے تا� کی اا چشiiم دیiiد گواہiiوں نے اپiiنے بیانiiات کiiو جiiو اورارامی لکھiiتے تھے۔ قiiدرتل} مقدس کے مختلف مقامiiات کی اورکانوں سنے تھے ارامی زبا� میں دوسروں تک پہنچایا اور ار کلیسiiiیاؤں کے پiiiاس یہ بیانiiiات ارامی زبiiiا� میں ہی محفiiiو� تھے۔ چنiiiانچہ پروفیسiiiر مین سiiiین کہتاہے : " علماء کی ایک کثیر تعداد کiiا اب اس امiiر پiiر اتفiiا� ہے کہ اناجی�ii متفقہ میں سiiیدنا2 Vincent Taylor, Formation of Gospel Tradtion (1933) pp.110-113

Page 91: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

آانخداونiiد کی زنiiدگی کے پہلے واقعiiات مسiiیح کی تعلیم منiiدرج ہے اور وہ بیانiات جن کiiا تعلiق سے ہے وہ سب ارامی زبا� میں تھے خواہ یہ حصص تحریری یازبانی بیانiiات پiiر مشiiتم� تھے۔ اس

۔1امر پر سب کا اتفا� ہے" اس حقیق کا ایک زبردس ثبوت یہ ہے کہ حصرت کلمتہ اللہ کے اقوال اورمکالمiiاتآاسانی سiiےدوبارہ تا� کا نہای کا اور دیگر حصص کا جو اب ہمارے پاس یونانی زبا� میں ہیں ، اا آانخداونiد کے اص�i ارامی الفiا� کiا علم ہوجاتiاہے۔ مثل ارامی زبا� میں تiرجمہ ہوسiکتا ہے اوریiوں

آانخداونiiد۹: ۱۶، اورمتی ۱۸، ۱۷: ۸مرقس آایات کا جب ارامی میں دوبارہ ترجمہ کیا جاتاہے تو یی ہذا القیiiاس جب لوقا اا پتہ لگ جاتاہے ۔ عل کiiا۴۴: ۵ اورمiiتی ۲۸تiiا ۲۷: ۶کے اص� قول کا فور

آانخداوند کے اقوال کے اص� الفا� کا علم ہوجاتاہے ۔ پروفیسر ڈلمن2ارامی ترجمہ کیا جاتاہے تو کی کتiاب اس امiر کiو ثiاب کردیiتی ہے کہ اناجی�i اربعہ کے ماخiذ ارامی زبiا� میں لکھے گiئے

آاتی کہ اناجی�ii کے ماخiiذ ارامی کی بجiiائے یونiانی3تھے ۔ حiق تiو یہ ہے کہ کiiوئی وجہ نظiiرنہیں آامiد کiا تصiور یونiانی بولiنے والے غiیر یہiiود والے زبا� میں لکھے جاتے ۔ یہودی مسیح موعود کی تا� میں سiے کiوئی شiخص بھی مسیحیوں کےلئے کiوئی معiiنی نہیں رکھتiا تھiiا۔ مثiال کے طiورپر

آاگے چ�ii کiiر مفص�ii بحث کiiریں4 سiiے متiiاثر نہ ہوتا۲۹: ۸مiiرقس ۔ ہم انشiiاء اللہ اس نکتہ پiiر گے۔

وول میں اس نظiiریہ کی تردیiiد کی وول کے بiiاب چہiiارم کی فص�ii ا چہارم۔ ہم نے جلد اآائے تھی کہ اناجی� کے ماخذ صرف زبانی بیانiات تھے جiو سiینہ بسiینہ نصiف صiدی تiک چلے تھے۔ ہم نے مختلف دلائ� سے یہ ثاب کیا تھا کہ اناجی� اربعہ کے ماخiiذ، اگiiر سiiب کے سiiبل} مقدس کے مختلف مقامiات تا� کا اکثر وبیشتر حصہ تحریری تھا جو ار تحریری نہیں تھے تو 1 T.W.Manson”The Problem of Aramaic Sources” Exp. Times Oct. 1935 pp.7-11 Black Aramaic Approach , Moulton, Grammer of NT. Greek.II32 T.W. Manson, The Teaching of Jesus p.533 Dalman the Word of Jesus.4 C.C.Torrey, The Four Gospels pp. 256-7 (b) T.W.Manson,”The Problem of Aramaic Sources in the Gospels”Exp. Times Oct. 1935

وغiiیرہ(۔ اب زبiiا� کی۳۰: ۲۰۔ یوحنiiا ۴تiiا ۱: ۱کی کلیسیاؤں کے ہاتھوں میں موجiiود تھiiا )لوقiiا ل� اربعہ کے لکھiiنے iiے اناجیiiذوں سiاہے کہ جن ماخiکرت بحث اورعiبرانی صiنعتوں کiiا وجiiود ثiابلت طیبات، اقوال زرین اورمبارک مکالمات کiiو اپiiنی انجیلiiوں والوں نے حضرت کلمتہ اللہ کے کلمال� سلیم اس مفروضہ کiو نہیں میں جمع کیا تھا وہ سب کے سب ارامی تحریری ماخذ تھے ۔ عقآاپ کے کلام میں پائی جاتی ما� سکتی کہ وہ تمام صنعتیں ، وز� ،قافئے ، تجنیس صوتی وغیرہ ہے، نصف صدی بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ کے لئے سینہ بسینہ زبانی بیانiات میں محفiiو�آانخداونiiد کی ل� یہiiود کی زبiiا� تھی لیکن iiو اہiiکی ہیں۔ ج �اiiنعتیں ارامی زبiiکتی ہیں۔ یہ صiiرہ س وفات کے صنف صدی بعد کلیسیا کے شiرکاء کی اکiثری غiیریہود یونiانی بولiنے والiوں کی تھی جن کی زبا� کی نظموں میں نہ تو یہ صنعتیں پiiائی جiiاتی تھیں اورنہ عiiبرانی وز� اور عiiرو} پiiائےتامور غیر مانوس تھے ۔ وہ کس طرح ایک غیر زبا� کی ا� خصوصیات تا� کے لئے یہ جاتے تھے۔ تا� میں کiiو اس طiiورپر حفiiظ کرسiiکتے تھے کہ یہ خصوصiiیات من وعن قiiائم اور برقiiرار رہiiتیں؟ اور زیروزبر کا بھی فiر� نہ ہوتiا کیiونکہ بعض صiنعتیں انہی باریiک نکتiوں پiر ہی منحصiر ہیں۔ مثiالآانخداونiiiد ریاکiiiاروں کی کے طiiiورپر ہم پچھلے بiiiاب میں بتلاچکے ہیں کہ جن مقامiiiات میں تا� الفا� کے حiiروف سسiکاری سiiے اس طiiور پiر ادا ہiiوتے ہیں مذم کرتے ہیں وہاں حلق سے تا� سiiے تضiiحیک اور اسiiتہزاپایا جاتiiاہے ۔ اب کiiو� ہوشiiمند کہیگiiا کہ غiiیر یہiiود مسiiیحی ، کہ حلق سے اس قسم کے الفا� نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک زبانی رٹتے رہے اور دوسروں کiiو

رٹاتے رہے! حق تو یہ ہے کہ زبiiانی بیانiiات کiiا مفروضiiہ اس قiiدر غل�ii ہے کہ اب علمiiاء متفقہ طiiور پiiر تسiiلیم کiiرتے ہیں کہ رسiiالہ کلمiiات تحریiiری شiiک� میں مقiiدس لوقiiا اور مقiiدس مiiتی کے سiiامنے موجiiود

۔ حالانکہ پچاس سال پہلےعلمiiاء اس حقیق پراتفiiا� نہیں کiiرتے تھے ۔ اب متعiiدد علمiiاء5تھالت آانخداونiiد کےکلمiiا ل� متفقہ میں جiiو مقامiات iiار ہیں کہ اناجیiiو تیiرنے کiلیم کiiو تسiiات کiiاس ب

5 Peak Commentary (Supplement).

Page 92: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

۔ عبرانی عرو} ، صنعتوں اور وزنiiوں1طیبات پر مشتم� ہیں وہ تحریری ماخذوں سےلئے گئے تھےآانخداونiiد کے اقiiوال اص�ii وزنiiوں کی شiiک� میں ارامی زبiiا� میں کا وجود یہ ثiiاب کردیتiiاہے کہ "

۔2محفو� تھے" ۔ " اناجی�ii کی یونiiانی میں ارامی زبiiا� کiiا3ڈاکiiٹر بلیiiک ایiiک مضiiمو� میں لکھتiiا ہے

عنصر موجود ہے جوکوئنی زبا� کی وسع اورسامی زبiا� کے بiاوجود پایiا جاتiاہے۔ ۔۔۔۔یہ عنصiرلد عتیق کے اقتباسات ثاب کiiرتے ہیں کہ ا� مقدس مرقس کی انجی� میں موجود ہے۔ اس میں عہ کiiا تعلiiق کنعiiا� کے عبادتخiiانوں سiiے ہے۔ جس طiiرح ہم جiiانتے ہیں کہ اس انجی�ii نiiویس کےاا اس وق ارامی سiے یونiiانی میں تiiرجمہ iiو غالبiiا جiiود تھiتصنیف موج سامنے رسالہ کلمات بوق ہوچکا تھا اسی طرح ہم وثو� کے سiiاتھ یہ کہہ سiiکتے ہیں کہ اس کے سiiامنے ارامی کے ماخiiذآانخداوند کی تمثیلوں کا ترجمہ ارامی زبا� سے یونiiانی اا صرف اس انجی� میں ہی موجود تھے۔ مثل میں کیا گیا ہے، اگرچہ یہ تiرجمہ لفظی نہیں ہے ۔ایسiا معلiوم ہوتiiاہے کہ اس انجی�i کے چiوتھے باب کی تمثیلیں اورنویں باب کے کلمات کسی ایسے ارامی ماخذ سے لئے گئے ہیں جس میںتا� تا� کے علاوہ اورباتیں بھی لکھی تھیں۔ مرقس کی انجی� کے جوحصے بیانات پر مشiiتم� ہیں �iiے حاصiiذوں سiiات ارامی ماخiiہےکہ یہ مقام میں ہر جگہ ارامی زبا� موجiiودہے۔ جس سiiے ثiiابآانخداونiiد کی زنiiدگی کے واقعiiات بالخصiiوص کiiئے گiiئے ہیں ۔ یہ بiiات نہiiای اغلب ہے کہ صلیبی واقعہ کا بیا� اور دیگر چنiiد کلمiات کiiا ابتiiدائی کلیسiiیاؤں میں ارامی زبiiا� میں رواج تھiiا۔

یی ہذا القیاس مرقس سامی الفا� اور محاورات موجود ہیں"۔۴۴ تا ۳۰: ۶علیی کہ جن "مقiiدس لوقiiا کی انجی�ii میں بھی جiiو حصiiے بیانiiات پiiر مشiiتم� ہیں حiiتتا� میں بھی سامی الفiiا� آانخداوند کے منہ سے نہیں نکلے ، مقامات میں ایسے کلمات ہیں جو اورمحiiاورات پiiائے جiiاتے ہیں۔اس انجی�ii میں پیiiدائش اور طفiiولی کے بیانiiات سiiیدھے عiiبرانی

1 F.V.Filson, Origin of the Gospels pp. 85-882 Black,”The Problem of Aramaic Element in the Gospels”Exp.Times April 19483

اورارامی ماخذوں سے لئے گئے ہیں۔دیباچہ کو چھوڑ کر باقی انجی� کی یونانی زبا� سے ثاب ہے کہ ا� حصوں کے ماخذ ارامی زبا� کے تھے۔ جن کا لوقiiا سiiیپٹواجنٹ کی یونiiانی زبiiا� کی سiiی

یونانی میں ترجمہ کرتاہے"۔ " مقiiدس یوحنiiا کے سiامنے بھی رسiالہ کلمiات کی طiiرح کاایiک مکالمiات کiا رسiiالہ تھا ۔ اس انجی� میں جو مکالمات ہیں وہ یہiiودی ربیiiوں کے سiiے ہیں اورا� کiiا منظiiوم شiiک� میںتا� میں حضiiرت کلمتہ اللہ کے اپiنے منہ کے فرمiiائے ہiiوئے کلمiات محفiiو� ہونiiا ثiاب کرتiiاہے کہ

ہیں"۔ اس باب میں ہم اناجی� کے مختلف ماخذوں پر بحث کرکے ثاب کرینگے کہ یہ ماخذ

اناجی� میں درج ہونے سے پہلے ارامی زبا� میں موجود تھے۔

Page 93: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

وول وولفص� ا فص� ارسالہ کلمات کی زبا�رسالہ کلمات کی زبا�

آائے ہیں ۔ لہiiذا ا� وول میں کiر لت خداوندی" کا مفص�ii ذکiر جلiد ا ہم اس رسالہ" کلما تفصiiیلات کiiا اعiiادہ ضiiروری نہیں سiiمجھتے۔ اس فص�ii میں ہم اس رسiiالہ کی زبiiا� پiiرہی بحث کرینگے۔ ناظرین پر انشاء اللہ یہ ظاہر ہوجائے گا کہ بحث کiا یہ پہلiو ا� تمiام نتiائج کی تائیiiد اور

وول میں پہنچے تھے۔ تصدیق کرتاہے جن پر ہم جلد ا(۱)

جو بیا� بشپ پے پئس نے رسالہ کلمات کے متعلق دیا ہے" وہ بشپ مذکور کے دنiiوں سے بھی کہیں زیiادہ قiiدیم ہے اوریہی وجہ ہے کہ موجiiودہ زمiانہ کے نقiiاد ایسiiے زوداعتقiiاد بشiپ کے بیا� کو بغیر چو� وچرا تسلیم کرتے ہیں ۔ چنانچہ یہ رسالہ اناجی� کا قدیم ترین ماخذ ہے جiولن حیات میں لکھا تھا۔ مقدس پولوس کے خطوط بھی مقدس متی نے حضرت کلمتہ اللہ کی حیآاپ کی تعلیم کابنیادی پتھiiر تھiiا۔ مثiiال آاپ کے ہاتھوں میں تھا، اور یہ ثاب کرتے ہیں کہ یہ رسالہ

کiiا مقiiابلہ پولiiوس رسiiول کے خطiiوط۱۶: ۱۰ اورمiiتی ۴۹تا ۲۷: ۶ ۔ ۲۲تا ۱: ۱۰کے طورپر لوقا ۔ اورہم پiiریہ ظiiاہر1(سiiے کiiریں تiiویہ حقیق ہم پiiر عیiiاں ہوجiiاتی ہے۲۹: ۲۰اور تقریiiروں )اعمiiال

ہوجاتاہے کہ یہ رسالہ قدیم ترین زمانہ میں کلیسیا کے ہادیوں کے ہاتھوں میں تھا۔(۲)

بشپ پے پئس کے بیا� کے مطابق یہ رسالہ" عبرانی میں لکھiiا گیiا تھiiا ، اگiرچہ چنiiد ۔ لیکن نقiiادوں کی اکiiثری کiiا اس2ایک علماء کا خیال ہے کہ اس رسالہ کی زبiا� عiiبرانی تھی

:۲۲۔ ۴۰: ۲۱بات پر اتفا� ہے کہ بشپ مذکور کا لفiiظ" عiiبرانی" سiiے مطلب ارامی تھiiا)اعمiiال

1 W.Argyle,” Paralles Between Pauline Epistles & Q,”Exp Times of Aug.1949 & Feb.1951.p.1572 Dr.Briggs. Wisdom of Jesus, the Messiah. Exp.Times Vol.8.(pp.393-398, 492-496)Vol.9 pp.69-75

ل} مقدس میں بولی جiiاتی تھی۔ چنiiانچہ مرحiiوم ڈاکiiٹر مینسiiن کہتiiا ہے کہ " مضiiبوط۲ (۔ جو ار ۔3ترین دلائ� سے یہ ثاب ہوگیاہے کہ یہ رسالہ ارامی زبا� میں لکھا گیا تھا"

(۳)لب ذی�ii مقامiiات تھے۱) ۔ یہ4۔( مرحوم ڈاکٹر سٹریٹر کے مطابق رسالہ کلمات میں حس

مقامات ہم نے مقدس لوقاکے حوالوں سiے دیiئے ہیں اور مقiدس مiتی کی انجی�i میں بھی موجiودتا� حوالوں کو خود ملاحظہ کرلیں: ہیں۔ ناظرین

۔ )۴۹تا ۲۰: ۶۔(۵۔)الف۔()۱۶تا ۱: ۴۔(۴)۲۲تا ۲۱: ۳۔(۳۔)۱۹تا ۱۶: ۳۔(۲۔)۹تا ۲: ۳۔(۱)۔)۲۴تiا ۲۱: ۱۰۔(۱۰۔ )۲۶تiا ۲: ۱۰۔(۹۔)۶۰تiا ۵۷: ۹۔(۸۔)۳۵تا ۱۸: ۷۔(۷۔)۱۰تا ۱: ۷۔(۶

تiiا۲۶: ۱۴۔(۱۵۔)۳۵تiiا ۱۸: ۱۳۔(۱۴۔)۵۹تiiا ۲۲: ۱۲۔(۱۳۔)۱۲تiiا ۱۔(۱۲۔)۵۲تiiا ۸: ۱۱۔(۱۱ :۱۷۔( ۲۰۔ )۶تiiا ۱: ۱۷۔(۱۹۔)۱۸تiiا ۱۶: ۱۶۔(۱۸۔)۱۳: ۱۶۔(۱۷۔)۳۵تiiا ۳۴: ۱۴۔(۱۶۔)۲۷۔۲۷تا ۱۱: ۱۹۔( ۲۱۔)۳۷تا ۲۰

۔( مiiذکورہ بiiالا مقامiiات کiiا سiiطحی مطiiالعہ بھی یہ ظiiاہر کردیتiiاہے کہ یہ مقامiiات۲) شاعرانہ تخی� سے معمور ہیں۔ ارامی زبا� کے ماہرین ہم کو بتلاتے ہیں کہ ا� مقامiiات میں عiiبرانیاا ا� میں سiٹروفی ہے۔ "بiiازگرداں اشiعار" نظم کی مختلف اقسام اور صنعتیں پائی جiاتی ہیں ۔ مثل

آاتی ہے آاخiر میں ۔ ہم نے5ہیں ، " متiوازی " کی مختلiف اقسiام ہیں۔ترجیiع ہے، جiوہر بنiد کے گذشتہ باب میں اس منظوم رسالہ میں سiے مثiالیں دے کiر ثiاب کردیiاہے کہ اس میں متiiوازی کی تمام قسمیں اوردیگر قسم کی صنعتیں پائی جاتی ہیں۔ ا� کiiا وجiiود یہ ثiiاب کردیتiiاہے کہ یہ رسالہ ارامی میں تھا اوریونانی الاص� نہیں تھاکیونکہ یونانی نظم کا ا� صiiنعتوں سiiے دور کiiا بھی

اا لوقiiا تiا۲۶: ۱۰۔ مiتی ۹تiا ۲: ۱۲تعلiق نہیں۔ ا� کiا لطiiف اردوتiiرجمہ میں بھی موجiiود ہےمثل۔۳۳

3 Manson, The Problem of Aramaic Sources”Exp Times Oct.1935.pp7-114 Streeter, The Four Gospels.p.2915 B.W.Bacon, The Story of Jesus (1928) p.180

Page 94: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

لف۳) ۔( رسالہ کلمات کے بعض مذکورہ بالا مقامiات میں ارامی الفiiا� کiو یونiانی حiرو�iiرجمہ اردو انجیiا تiول ، جہنم، میمن)جس کiز بiآامین۔ بعل اا تہجی کiا لبiاس پہنایiا گیiا ہے۔ مثل

(۔۶: ۱۷۔ سiiیو کے می نiiوس)۲۱: ۱۳میں " دول "کیا گیاہے( فریسی ، شیطا�، ساطو� )لوقiiا جس کا اردو ترجمہ " توت کا درخ " کیا گیا ہے جو غل� ہے۔ کیونکہ اس کے پiتے تiو ت کے درخ کے اورپھ�ii انجیرکiiا سiiا ہوتiiاہے۔ مقiiدس لوقiiا نے ا� ارامی الفiiا� کویونiiانی حiiروف میں

لکھاہے۔ل}۴) ۔( رسiiالہ میں مقامiiات کے نiiام۔ یہ نiiام زیiiادہ تiiر صiiوبہ گلی�ii کے ہیں ۔ لیکن ار

اا نینiiوہ، صiiیدا، سiiدوم، صiiور، اسiiرائي�، یiiرد�، مقدس کے دوسرے مقامات کے نام بھی ہیں۔ مثلآایiiا ہے یعiiنی �iiالہ میں پہلے پہiiرف اس رسiiر صiiا ذکiiام بھی ہے جس کiiیروشلیم، ایک اورمقام کان خوارزین )جوجiیروم کے مطiiابق کفرنحiiوم سiiے دومی�ii تھiا اور طiiالمود کے مطiابق گیہiوں کے لiiئےآاخری دومقامات کا ذکر بھی پہلے پہ� اسی رسiiالہ مشہور تھا(۔ بی صدا، کفر نحوم، ناصرت،

آایاہے۔یہ نام بھی یونانی حروف میں لکھے گئے ہیں ۔ میں ،�iوع، ہابiiا،یسiiاا یوجن یی ہذا القیاس اس رسالہ میں شخصiiی نiiام بھی موجiiود ہیں۔ مثل عل 1ابراہام، اضحا�، یعقوب،نوح،سلیما،زکریاہ، یہ نام بھی یونانی حروف تہجی میں لکھے گiiئے ہیں

۔آایات کے بعض ارامی الفا� کا غل� یونانی تiرجمہ کیiا گیiاہے۔۵) ۔( رسالہ کلمات کی

آایات کا نیا تiرجمہ" میں اس کی مثiiالیں دی ہیں۔ ل� اربعہ کی زبا� اورچند ہم نے اپنے رسالہ" اناجیا� مثالوں سے بھی یہ ثاب ہوجاتاہے کہ رسالہ کلمات کی اص� زبا� ارامی تھی۔

اا دعiiائے۶) ۔( رسالہ کلمات میں ہiiر جگہ خiالص ارامی محiiاورے پiائے جiiاتےہیں ۔ مثلآایاہے" جس طiiرح ہم اپiنے قرضiدار وں کiو معiاف کiرتےہیں تiو بھی ہمiارے قiiر} ہمیں ربانی میں

(۔ اس مقام میں " قر} "گناہ کے معنiiوں میں اسiiتعمال ہiiواہے جiiو خiiالص۱۲: ۶معاف کر")متی

1 Rev.F.Bussby,Q An Aramaic Dcoument, Exp Times June 1954

اور نہ یونiانی زبiا� کiا محiاورہ2ارامی محاورہ ہے۔ یہ محاورہ عبرانی زبiا� کiا بھی محiiاورہ نہیں ہےہے اور ثاب کرتاہے کہ اناجی� کا یہ ماخذ پہلے پہ� ارامی زبا� میں لکھا گیا تھا ۔

(۴) مذکورہ بالا دلائ� اس امiر کiiو ثiiاب کiiرتی ہیں کہ رسiiالہ کلمiiات کی اص�ii زبiiا� ارامی تھی۔ بعض اصحاب یہ اعترا} کرتے ہیں کہ ہمiiاری یونiiانی اناجی�ii میں رسiiالہ کلمiiات کے بعضلد عiتیق کے اقتباسiات پiائے جiاتے ہیں وہ یونiانی تiرجمہ سiیپٹواجنٹ سiےلئے iو عہiمقامات میں ج گئے ہیں لہذا یہ رسالہ ارامی میں نہیں لکھا گیا تھا،بلکہ پہلے پہ� یونانی میں ہی لکھا گیا تھا۔

لیکن مذکورہ بالا دلائ� یہ ثاب نہیں کرتی کہ یہ رسالہ ارامی میں نہیں لکھiiا گیiiا تھiiا۔ کیونکہ اگر یہ اقتباسات ارامی زبiiا� سiے یونiانی میں کسiی ایسiے مiترجم نے کiiئے ہiiوں جiو سiیپٹو اجنٹ سے بخوبی واقف ہو تو ظاہر ہے کہ وہ یونانی زبiiا� میں تiرجمہ کiiرتے وق ا� اقتباسiiات کiiو سیپٹواجنٹ ترجمہ سے نق�ii کiiرے گiiا۔ پس ہم یہ دلی�ii نہیں دے سiiکتے کہ اگرکسiiی مقiiام میں یونانی اناجی� میں ترجمہ سیپٹواجنٹ کے متن کے مطابق ہوا ہے تو وہ ارامی اص� سے ترجمہ نہیں

۔ بشiپ ربiولہ نے سiiکندریہ کے بشiپ سiرل3ہوسکتا۔ ہم اس کوایک مثiiال سiے واضiح کiiرتے ہیں�iiمیں ترجمہ کیا تھا۔ اب یہ کتاب دونوں زبانوں یعنی اص �کی ایک یونانی تصنیف کا سریانی زبا یونانی اور سریانی میں موجود ہے اور دونوں کا مقابلہ ظاہر کردیتاہے کہ بشiiپ ربiiولہ نے بشiiپ سiiرلتاس کے دنiوں تاس سiریانی انجیلی تiرجمہ سiے اخiذ کیiiا ہے جiو کے یونانی انجیلی اقتباسiiات کiو

میں مروج تھا۔ تدور کیوں جائیں۔ جب کوئی انگریزی خواں مسiiیحی کسiiی انگریiiزی کتiiاب کiiا )جستاردو میں ترجمہ کرتا ہے تو وہ انجی�ii کiiا وہ اردو تiiرجمہ نق�ii کرتiiاہے آایات لکھی ہوں( میں انجیلی آاتiiاہے ۔ چنiiانچہ رام الحiiروف نے اس کتiiاب میں ہiiر جگہ وہ اردو تاس کے روزانہ اسiiتعمال میں جو

وول کے ایiiک مقiiام میں انجی۱۹۴۹�iiترجمہ استعمال کیا ہے جو ء میں شائع ہوا تھا۔ صiiرف جلiiدا

2 M.Black, the Problem of Aramaic Element in the Gospels. Exp.Times April.19483 Exp.Times Jan.1954 p.125

Page 95: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

آایiات کiا بھی دیگiر تمiام۴تا ۱: ۱لوقا کےدیباچہ ) ( کا تiرجمہ اس ایڈیشiن سiے مختلiف ہے۔ا� ء کی ايڈیشن میں ہے۔۱۹۴۹مقام میں وہی ترجمہ نق� کیا گیا ہے جو

پس اس اعترا} کی درحقیق کوئی بنیاد نہیں ہے۔ مضبوط دلائ� نے یہ ثiiاب کردیiiاوول وسوم کے مصنفوں نے لفظ بلفظ نق�ii کیiiا ہے ہے کہ رسالہ کلمات کا ماخذ جس کو انجی� ا

پہلے پہ� ارامی زبا� میں لکھا گیا تھا۔

فص� دومفص� دومل� اربعہ کے دیگر ماخذوں کی زبا� ل� اربعہ کے دیگر ماخذوں کی زبا�اناجی اناجی

((۱۱))لت مسیح ل� اربعہ کا قدیم ترین ماخذ" رسالہ اثبا لت خداوندی" کے بعداناجی "رسالہ کلماوول کے باب سiiوم اور بiiاب وول میں حصہ ا موعود" ہے جس کے مضامین اورتالیف کا ذکر ہم جلد اوولین کے لر ا آائے ہیں۔ قارئین کiو یiاد ہوگiiا کہ یہ رسiالہ دو پنجم کی فص� دوم میں مفص� طورپر کر تاستادوں اورمعلموں کے فاض� گروہ نے لکھا تھا تاکہ حضiiرت ابن اللہ کی مسiiیحائی کiiو مسیحی

لف عہدعتیق سے ثاب کرے۔ یہاں ہم اس رسالہ کی اص� زبا� پر ہی بحث کرینگے۔ صحل� اا اس کی زبiا آایات پر مشتم� تھا لہiذا قiدرت لف مقدسہ کی چونکہ یہ رسالہ عبرانی صحلد عiتیق کی وہ پیشiینگوئیاں جمiع کی گiئی تھیں iiبرانی تھی۔ اس میں عہiہ کی عiلف مقدس صحآامد اورمشن کےساتھ تھiiا۔ جب ہم ا� کiا مطiالعہ کiرتے ہیں تiو ہم جن کا تعلق مسیح موعود کی تا� کا عبرانی متن موجودہ مسiiوراہی متن سiiے مختلiiف تھiiا۔ چنiiانچہ ہمiiاری پر یہ ظاہر ہوجاتاہے کہ �iiے نقiرجمہ سiیپٹواجنٹ کے تiiثر سiرجمہ اکiا تiات کiآای موجودہ یونانی انجی� مiتی میں ا� عiiبرانی

۔ پس1نہیں کیا گیا ۔ بلکہ مترجم نے سیدھا عبرانی متن کا خود یونانی زبا� میں تiiرجمہ کیiiا ہے اا متی کی بناء و ہ عبرانی۱۵: ۲یہ یونانی ترجمہ سیپٹواجنٹ کے ترجمہ کے مطابق نہیں ہے۔ مثل

1 F.C.Burkitt. Gospel History & Its Transmission (1907) pp.124-126

آای کا یونانی متن سیپٹواجنٹ کے۱: ۱۱متن ہے جس کا اقتباس ہوسیع سے کیا گیا ہے اوراس یی ہiiذا یونانی متن سے مختلف ہے بلکہ اس کا اص� متن " تارگم" سے بھی اختلاف رکھتاہے۔ عل

ہے۔ اس کی۱۳: ۱۱۔ میں " یرمیاہ نبی" کا نام ہے لیکن اس کی بنiiاء زکریiiا ۹: ۲۷القیاس متی بناء دوعبرانی الفا� ہیں جن کا ترجمہ" کمہار" اور " خزانہ" ہے۔ سیپٹواجنٹ کی قiiرات اس سiiے مختلف ہے اور تiارگم میں "کمہiار" خiiزانہ کiا افسiردہ بنادیiا گیiiا ہے جس سiے ہم کiو یہ اقتبiiاسلت مسیح موعود" سے اخذ کیا گیا تھا جس عبرانی متن سے لیا گیا ہے اوریہ عبرانی متن رسالہ" اثبا میں انبیiiائء سiiلف کے نiiام ا� کی پیشiiینگوئیوں کے سiiاتھ درج نہ تھے ورنہ انبیiiا کے نiiام لکھiiنے

میں غلطی واقع نہ ہوتی۔تاس کی عبرانی زبا� سے ظiاہر ہے کیiونکہ پہلی صiدی کے اواخiر اس ماخذکی قداملف مقدسiہ سiربمہر کتiiابیں ہiiوچکی تھیں۔ عiiبرانی زبiا� میں مسیحی کلیسیا کے لئے عiiبرانی صiح

ء کے بعد یہودی جمiiاع اورمسiiیحی کلیسiiیا کے قطعی الiiگ ہوجiiانے کی وجہ سiiے کلیسiiیا۷۰تتب سے صرف سیپٹواجنٹ ترجمہ لد عتیق کی ک کے لئے ایک مردہ زبا� ہوچکی تھی۔ کلیسیا عہ

۔2کے وسیلے سے ہی واقف تھیل� اربعہ ل� اربعہ کی تاری\ تصنیف کے ساتھ بھی ہے۔اگر اناجی اس حقیق کا تعلق اناجی

آایiiات کiiا اسiiتعمال کیiiا ہے توظiiاہر ہے کہ یہ ء سiiے بہ پہلے احiiاطہ۷۰کے مولفiiوں نے عiiبرانی تا� نتائج کی تصدیق ہiiوتی ہے جن پiiر ہم آاچکی تھیں۔ پس اس پہلو سے بھی ہمارے تحریر میں

پہلی جلد میں حصہ سوم میں پہنچے تھے۔ اس حقیق سے یہ امر بھی مسلم ہوجاتiiاہے کہ اگiiر حضiiرت کلمتہ اللہ کے زرین اقiiوال کا یونانی ترجمہ " سیپٹواجنٹ کے یونانی ترجمہ کے مطابق نہیں ہے اور وہ عبرانی سے سiiیدھا لیiiاآانخداونiiد کی زبiiا� مبiiارک سiiے نکلے ہیں اور ا� کی اصiiلی میں کسiiی گیا ہے تووہ اقiiوال خiiود آانخداونiiد کی زبiiانی " قسم کے شک کی گنجائش ہی نہیں رہتی ۔ مثال کے طورپر مقiiدس مiiتی

( سiiے اقتبiiاس۶: ۶( ہوسیع نبی )۱۳: ۹۔ ۷: ۱۲میں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں")متی 2 Burkitt, The Earliest Sources of the Life of Jesus (1910)

Page 96: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

کرتا ہے۔ یہ قول عبرانی متن کے مطiiابق ہے لیکن سiiیپٹواجنٹ کے تiiرجمہ سiiے مختلiiف ہے جس میں لکھا ہے" میں رحم کو قربانی پر ترجیح دیتا ہiiوں"۔ یہ الفiiا� صiiاف طiiورپر ثiiاب کردیiiتے ہیںآانخداوند کی مبارک زبiا� کiا فرمiiودہ ہے اوراس کی اصiلی میں کسiی قسiم کiا شiک کہ یہ قول

۔1نہیں (۲)

تمام نقاد اورعلماء اس ایک امر پر متفق ہیں کہ انجی� مرقس قدیم تiiرین انجی�ii ہے۔ پسوولین کے ماخiذ ہیں اور یہ ماخiذ ارامی لر ا ظاہر ہے کہ اس انجی� کے ماخذ ابتiدائی کلیسiیا کے دو

" انجی�ii مiرقس ہی ایiک انجی�ii ہے جس میں اس2زبا� میں تھے۔ چنiiانچہ ڈاکiiٹر بلیiiک لکھتiiاہے بات کی شہادت پiائی جiاتی ہے کہ اس میں نہ صiiرف سiiیدنا مسiیح کے اقiiوال کے ماخiiذ ارامی زبiiا� کے ہیں بلکہ اس کے وہ حصiiص بھی ارامی ماخiiذوں سiiے لiiئے گiiئے ہیں، جوبیانiiات پiiر مشتم� ہیں"۔یہی مصiiنف ایiiک اور مضiiمو� میں لکھتiiاہے " مiiرقس کی انجی�ii کے بیانiiات ارامی زبا� سے معمiiور ہیں ایسiiا کہ یہ معلiiوم ہوتiiاہے کہ گویiiا ا� بیانiiات نے ارامی الفiiا� اورمحiiاورات کiiا

۔ اس انجی� میں عبرانی محاورے بہ کم ملتے ہیں۔3ٹھیکہ لے رکھا ہے"لف ہم گذشتہ باب میں بتلاچکے ہیں کہ ارامی زبا� میں ایiک صiنع ہے جس میں حiرتاس کی لاعطفی ہے۔ عطف نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر بلیک کہتiiاہے" مiiرقس کی انجی�ii کی خصوصiiیات لف عطف نہیں ملتiiا۔ اس میں اکiiثر " مقامiiات " ایسiے پiائے جiiاتے ہیں جہiiاں اا حر اس میں عموملف رب�ii کے " تصiiریفی طiiورپر ملے ہiiوئے ہیں ۔ انجی�ii مiiرقس ہی فقرے کے فقرے بغیر کسiiی حiiر ایک واحد انجی� ہے جس کے بیانات کے حصوں میں متوقعiiانہ طiiورپر ضiiمائر اسiiتعمال کیiiا گیiiا ہے۔ ہم مختلiiف شiiہادتوں کی بنiiاء پiiر یہ کہہ سiiکتے ہیں کہ انجی�ii مiiرقس کے جن حصiiوں کiiاتا� کے ماخiiذ بھی ارامی ہیں"۔ اس کی تصiiدیق اس حقیق سiiے تعلiiق بیانiiات کے سiiاتھ ہے 1 Black, Aramaic Approach ch.IX pp.206-72 Black, the Problem of Aramaic Element in the Gospels. Exp. Times April 1948 & J.M.Creed, Gospel according to St.Luke (pp.LXXVI.LXXXI)3 G.A.Barton, Prof , Torrey’s Theaory of Aramaic Origin of the Gospels”.J.Th.S. Oct.1935

بھی ہوتی ہے کہ اس انجی� میں ارامی الفا� بھی موجiود ہیں جن میں سiiے بعض کiiا یونiانی میں(۔۱۱: ۷ترجمہ کیا گیاہے)مرقس

وول کے باب سوم میں بتلاچکے ہیں کہ فiiارم کرٹiiک نقiiادوں نے وول کے حصہ ا ہم جلد اآائی تھی یہ ثاب کردیا ہے کہ قدیم تiiرین زمiiانہ میں ہی کلیسiiیا کiiو اس بiiات کی ضiiرورت درپیش کہ منجئی جہا� کے صلیبی واقعہ کے بیانات کو جمع کرے۔ یہ بیانات ارامی زبا� میں تھے جiiو تا� لوگiiوں کی مiiادری زبiiا� تھی جنہiiوں نے بیانiiات کiiو اکٹھiiا کیiiا تھiiا اورجن کے لiiئے یہ بیانiiات اکٹھے کئے گئے تھے۔ ا� بیانات کو جمiiع کiiرنے والے سiiیدنا مسiiی کی صiiحب سiiے فیضiiیاب ہiiوچکے تھے اور ا� کiiو بہiiترین طiiورپر جمiiع کiiرنے کے اہ�ii بھی تھے۔ یہ ارامی بیانiiات مقiiدس

۔4مرقس کی انجی� کے ماخذ تھےوول میں انجی�ii مiiرقس کے ماخiiذوں وول کی فص� ا وول کے حصہ دوم کے باب ا ہم جلد ا

آائے ہیں کہ اس کا ایiک ماخذ باب میں ہے۔ یہ ماخiذ تحریiری تھiا اور۱۳کی بحث میں ثاب کر ۔5ارامی زبا� میں تھا

کiiا مقiiام ایiiک بiiڑے مجمiiوعہ کiiا۳۴تiiا ۲: ۴پروفیسر مین سن کiiا خیiiال ہے کہ مiiرقس حصہ ہے جو تمثیلوں پر مشتم� تھا۔ اور کہ مقدس مرقس نے اس مجموعہ میں سiiے اپiiنی تمiiثیلوں

بiاب میں۶کو لیiا تھiا۔ یہ مجمiوعہ بھی ارامی زبiا� میں تھiا۔ پروفیسiر مiذکور کہتiاہے کہ مiرقس ۔ ڈاکiiٹر بلیiiک6یوحنا بپتسمہ دینے والے کی شہادت کا ذکiر" بلاشiک وشiبہ ارامی زبiا� میں تھiiا"

کہتاہے" جس طر ح ہم وثو� کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ رسالہ کلمات کی اص� زبا� ارامیتاسiiی وثiiو� کے سiiاتھ ہم یہ کہہ سiiکتے ہیں کہ مقiiدس مiiرقس کے سiiامنے ایiiک ایسiiا ارامی تھی �iiرقس کی انجیiiآانخداوند کے کلمات درج تھے۔ رسالہ کلمات کے علاوہ م ماخذ تھا جس میں

4 T.W.Manson,”The Problem of Aramaic Sources in the Gospels’ Exp. Times Oct. 1935 See also Black Problem of Aramaic Element”. Exp Times April 1948.5 Black, Exp. Times April 19486 Manson, Problem of Aramaic Sources, Exp. Times Oct.1935

Page 97: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

وول1میں سب سے زيادہ ارامی ماخذ استعمال کئے گئے ہیں ہر عاق� شخص جس نےہماری جلiiد اوول کا غور سے مطالعہ کیا ہے، ڈاکiiٹر موصiiوف کے نiiتیجہ کی تصiiدیق کے حصہ دوم کی فص� اآاگے ل� مiرقس میں اسiی قiدر موجiود ہیں کہ جیسiا ہم iیات انجیiکی خصوص �اiا۔ ارامی زبiکریگ چ� کر ذکر کریں گے متعiiدد علمiiاء کiiا یہ نظiiریہ ہے کہ یہ انجی�ii پہلے پہ�ii ارامی زبiiا� میں ہی

لکھی گئی تھی۔(۳)

ل� متی کے ماخذوں ل� متی کے ماخذوںانجی وول کے حصiہ دومانجی پر اس انجی� کی خصوصiیات پiر ہم جلiد اوول اوردوم میں اوراس انجی� کے پس منظiiر پiر ہم حصiہ سiوم کے بiاب چہiارم باب دوم کی فص� اآائے ہیں۔ ا� فصلوں کے مطالعہ نے ناظرین پر ظاہر کردیiiا ہوگiiا وول میں مفص� بحث کر کی فص� ال� یہiiود iiسے ہی تعلق رکھتی ہے۔ یہ انجی� اہ کہ اس انجی� کے ماخذوں کی فضا صرف یہودیلر کے لiiئے لکھی گiiئی تھی جن کی مiiادری زبiiا� ارامی تھی۔یہ ماخذکلیسiiیا کی زنiiدگی کے دووولین سiے متعلiق تھے جب غiiیر یہiودابھی کسiی بiڑی تعiداد میں سiیدنا مسiیح کے حلقہ بگiو* ااا انجی�ii کی اعiiداد کے بنiiاء پiiر تقسiiیم ،یہiiودی نہیں ہوئے تھے۔ ا� ماخذوں کی خصوصیات مثل محاورات کی کثرت ، ارامی الفا� ربیوں کے سiے دلائ�ii ، انجی�i کiiا عiiام پلا�، وغiیرہ سiب اس بات کا ثبوت ہیں کہ انجی� کے مصنف نے قiiدیم تiiرین ماخiiذوں کiiا اسiiتعمال کیiiا تھiiا جiiو ارامی

زبا� میں تھے۔ ہم نے اس باب میں انجی� متی کے تین بڑے ماخiiذوں پiiر یعiiنی رسiiالہ کلمiiات ، رسiiالہ اثبات اورانجی� مرقس کے ماخذوں کا مطالعہ کرکے یہ ثاب کردیا ہے کہ یہ ماخiiذ ارامی زبiiا� میںوول میں حصہ دوم بiاب دوم کی فص�i اول کiا غiiو پہلے پہ� لکھے گئے تھے۔ اگر قارئین جلد ا رسے مطالعہ کریں تو یہ حقیق ظاہر ہوجائے گی کہ اس انجی�ii کے ماخiiذ ارامی زبiiا� کے ہیں۔ پروفیسiiر مین سiiن کہتiiاہے کہ " مiiتی کی انجی�ii میں جiiو مقامiiات صiiرف اسiiی انجی�ii میں پiiائے

1 W.O.E.Oesterely, Study of the Synoptic Gospels Expositor, Vol.12July 1905

جiiاتے ہیں ، ا� میں ربیiiوں کی متعiiدد اصiiطلاحات موجiiود ہیں ۔ ا� مقامiiات میں سiiیدنا مسiiیحتپر ہیں جiو یہiiودی ربیiو ں کی کتiiابوں میں پiائے جiاتے کے اقوال بھی ایسے الفا� اور فقرات سے

ل} مقدس کنعا� کا ہے لس منظر ار تا� تمام مقامات کا پ ۔2ہیں ۔ ہم ناظرین کی خاطر چند عام فہم مثالیں دیتے ہیں جن سے مقiiدس مiiتی کے ماخiiذوں

کے ارامی الاص� ہونے پر روشنی پڑتی ہے۔وول"یہiiاں جس لفiiظ کiiا۳۰: ۱۹۔( ۱) آاخiiر ا آاخر ہوجائيں گے اور وول میں ہے" بہ سے ا

آاخر" ترجمہ کیا گیا ہے اس کے " مسیحی کنعانی" بولی میں معنی ہیں " ایڑی کو پکڑنا"۔ یوں " اا ذہن میں آای معiiنی خiiيز ہوجiiاتی ہے کہ کیiiونکہ اس سiiے عیسiiو اور یعقiiوب کiiا قصiiہ فiiور یہ

۔ 3آاجاتاہے میں تجنیس صوتی موجود ہے یعنی عبرانی لفظ" نصiiر" اور" ناصiiری"۲۳: ۲۔( متی ۲)

ل� اربعہ کی زبا�" صفحہ (۔ ۹۰)دیکھومیرا رسالہ " اناجیل تجiiنیس۲۱: ۱۔( ۳) میں )جو حضiiرت کلمتہ اللہ کی پیiiدائش کiiا ماخiiذہے ( صiiنع

اور ایہام کا استعمال صاف پتہ دیتاہے کہ یہاں ایک ارامی ماخذ موجiiود ہے۔ یہiiاں عiiبرانی الفiiا�"آاہنگی پائی جاتی ہے۔ یسوع" اور" نجات" میں ہم

آانخداوند کا نسب نامہ)۴) یی ہذا القیاس اس انجی� میں (۔ چiiودہ چiiودہ۱۷تiiا ۱: ۱۔(عل پشiiتوں کے تین حصiiوں میں لکھiiا گیiiا ہے ۔ اس کی بنiiاء حضiiرت داؤد کے نiiام کے تین عiiبرانی حروف)د۔و۔د( ہیں ا� تین حروف کی وجہ سے مسیح موعود کے نسب نامہ کiiو تین حصiiوں میں

ہiiوتی ہے لہiiذا ہiiر۱۴تقسیم کیا گیاہے۔ چونکہ ابجد کے حساب سے ا� تین حروف کی جمiiع لن داؤد۱۴حصiہ میں یی جiiو مسiیح موعiود تھے وہ اب iیدنا عیسiاکہ کہ سiئی ہیں تiائی گiiتیں گنiپش

تھے۔

2 Oesterely Ibid.3 H.F.D.Sparks,”The Semetisms of St. Luke’s Gospel in J.Th.S.July-Oct 1943

Page 98: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

آایا ہے جس کا ترجمہ اردو میں" پاگ�" کیiiا گیiiاہے۔۲۱: ۵۔( متی ۵) میں لفظ" راکا" یہ لفظ یونانی نہیں ہے۔ عiiبرانی میں اس کiا مiادہ وہ لفiiظ ہے جس کے معiiنی " تھوکنiiا" ہے جسل� یہود کو نفرت کا اظہار کرنا مقصود ہوتاتھا اس کو " راکا" کہا جاتiiا تھiiا جس طiiرح ہم سے اہتمراد تھی اردو میں کہتےہیں " میں فلاں پرتھوکتا ہiiوں" ۔ پس اس لفiiظ سiiے غصiiہ کی وہ حiiال

جس میں غضب اورنفرت دونوں شام� ہوں۔(۶�iiرنے کے قابiiات ملاحظہ کiiاں یہ بiiاورہ ہے۔ یہiiبرانی محiiآاگ کا جہنم" ع ۔( لفظ "

آاگ۲۲: ۵ہے کہ اس مقiiام میں ) آاگ کiiا جہنم" یiا " آاگ" نہیں کہiiا گیiiا بلکہ" ( " جہن کی لی حنiiوم یروشiiلیم کے جنiiوب کی طiiرف کی جائے حنوم" کہا گیاہے۔ ناظرین کiiو یiiاد ہوگiiا کہ وادآاگ میں قربانیiiاں گiiزارنی تھیں۔ بعiiد میں آاخز اور منسہ نے اپنے بچiiوں کی واقع تھی جہاں بادشاہ تمردوں کiiو جلانے کے تا� کی لاشوں کو جلانے اوردیگر یہ جگہ مجرموں کو پتھراؤ کرنے کے بعد آاگ ہمیشہ جلiiتی رہiiتی تھی۔ رفتہ رفتہ ل� صح کےخیال سے وہاں لئے استعمال ہوتی رہی۔ حفظا اہ� یہود میں یہ خیال پیدا ہوگیا کہ جس طرح" جiiائے حنiiوم" میں مجرمiiوں کی لاشiiیں جلiiتی ہیں اسی طرح اگلے جہا� میں بھی ایک ایسی جگہ ہے جہاں روحیں بد� سے جدا ہوکر رہتی ہیں ،آاگ غiیر ل� یہiiود کے خیiال میں وہiiاں کی iiا ہے۔ اہiiا گیiام دیiا نiیول" کiجس کو عالم ارواح یا" ش لغ عد� یا فiiردوس یہود اورغیر اقوام کو جلادیتی ہے لیکن یہوداس عالم ارواحم میں سے نک� کر با کو جاتے ہیں سوائے ا� لوگوں کے جوزناکار ہیں یا جو اپiiنے بھiiائیوں کiiو گiiالی دیiتے ہیں۔ یہiiودیاا یہ " مiiورہ" تھی جس کiiا تiiرجمہ" iiا تھی لیکن غالبiiالی کیiiا کہ یہ گiiروایات میں یہ نہیں بتلایا گی احمق" کیا گیا ہے لیکن یہ لفظ دراص�" خدا کے خلاف بغاوت " کiا مطلب ریکھتiiاہے اور کفiiرآاپ پر موت کا کے مترادف ہے۔ یہی وہ الزام تھا جو صدر عدال نے سیدنا مسیح پر لگایا تھا اور

یی دیا تھا ۔1فتو تامیiiد ہے کہ اب نiiاظرین سiiمجھ گiiئے ہiiونگے کہ انجی�ii مiiتی کiiا تiiاروپودعبرانی اورارامی الفا�، خیالات، تصورات اورعقائد پر مشتم� ہے۔ ا� وجوہ کی بنiiاء پiiر متعiiدد علمiiاء کiiا یہ نظiiریہ1 Creed, Gospel According to St.Luke.p.265

ل� متفقہ میں جو مقامiات صiرف انجی�i مiتی میں پiائے جiاتے ہیں وہ ارامی زبiا� کے ہے کہ اناجیآاگے چ�ii کiiر بتلائینگے یہ علمiاء کہiiتے ہیں کہ انجی�ii مiتی2تحریری ماخiذ تھے ۔بلکہ جیسiiاہم

پہلے پہ� ارامی زبا� میں تصنیف کی گئی تھی۔(۴)

وول کے بiiاب پنجم اورحصiiہ دوم کے وول کے حصiiہ ا قارئین کو یاد ہوگiiا کہ ہم نے جلiiد اوول میں یہ ثاب کردیاہے کہ مقدس لوقا نے رسالہ کلمات کو لفظ بلفظ نق� باب سوم کی فص� اوول کیiiا ہے اورکہ یہ رسiiالہ اس کے بiiڑے ماخiiذوں میں سiiے ایiiک ہے۔ ہم نے اس بiiاب کی فص�ii ا میں یہ بھی ثاب کردیاہے کہ یہ قدیم ترین ماخذ ارامی زبا� میں لکھا گیا تھا ، ہم عبرانی عiiرو}آائے ہیں کہ وہ اور فصاح وبلاغ اورعبرانی شاعری کی مختلف اقسام کی مثالوں سے ثاب کiiر آانخداونiد کی اس رسالہ کلمات کی خصوصیات میں سے ہیں۔ پس یہ رسالہ قدیم تiرین زمiانہ میں

لن حیات میں ارامی زبا� میں لکھا گیا تھا۔ حیآائے ہیں کہ مقiiدس لوقiiا نے انجی�ii مiiرقس کiiا۲) وول میں یہ بھی ثiiاب کiiر ۔( ہم جلiiدا

�iiالا میں بتلاچکے ہیں انجیiiاستعمال کیا تھا۔ تمام نقاد اس امر پر متفق ہیں کہ جیسا ہم سطور ب �iiریہ ہے کہ یہ انجیiiا یہ نظiiاء کiiیی کہ بعض علم مiiرقس کے تمiiام ماخiiذ ارامی زبiiا� کے تھے۔ حiiت

پہلے پہ� ارامی میں لکھی گئی تھی۔ ۔( مقدس لوقا کی انجی� کے پہلے دوباب کے بیانات بالک� اسی قسم کے ہیں جiiو۳)

تتب تiiواری\ )بالخصiiوص سiiیموئی� کی پہلی کتiiاب( کے ہیں لد عiiتیق کی ک iiواب کے3عہiiاب �۔ ا لف مقدسہ کے ہیں اورانجی�ii کiا یونiiانی تiiرجمہ بھی سiیپٹواجنٹ کiiا سiا ہے۔ محاورات عبرانی صح پس ا� دو ابواب کا ماخiذ عiبرانی الاص�i ہے جس کiا تiرجمہ سiیپٹواجنٹ کے الفiا� کے مطiiابق

کیا گیا ہے۔

2 T.W.Manson The Problems of Aramaic Sources in the Gospels. Exp Times Oct.1935.p.7.3 Ibid.

Page 99: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

( بعض نقiiادوں کے مطiiابق ایiiک۲۰تiا ۱۵: ۲۲۔( عشائے ربiiانی کے تقiiرر کiا بیiiا� )۴)آایiiات عبرانی ماخذ سے لیا گیا ہے جس میں منجئی عالمین کے مصiiائب کiiا بیiiا� درج تھiiا۔ اگiiر

آانخداوند کے مبارک الفا� ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ اس موقعہ پر عبرانی میں فرمiiائے گiiئے۱۶ اور ۱۵ ۔1تھے جن کا ترجمہ سیپٹواجنٹ کی زبا� میں کیا گیا ہے

ل� لوقا میں مسئلہ معاد کiiا بیiiا� )۵) آایiiات۳۶۔۵: ۲۱۔( انجی (ہے۔ اگiiر اس میں سiiے وہ ل� مرقس سے نق� کی ہیں تو وہ ایک مستق� اورکام�ii پiiارہ خارج کردی جائیں جو مصنف نے انجی

۔ 2بن جاتاہے جو ارامی زبا� میں لکھا گیا تھا میں ایسiiے مقامiiات ہیں جiiو صiiرف اسiiی انجی�ii میں پiiائے۱۰: ۱۹تا۱: ۱۵۔( لوقiiا ۶)

جاتے ہیں ۔ ا� مقامات کو " گنہگاروں کی انجی�" کے نام سے موسوم کیiiا جاسiiکتاہے۔ یہ بھیتجدا ارامی ماخذ تھا ۔3ایک مستق�

آانے۳۵تا ۱۳: ۱۴۔( لوقا ۷) آانخداوند کا قیام کے بعiiد شiiاگردوں کiiو پہلے نظiiر میں کiiا واقعہ درج ہے۔ ولہاسiiن نے ثiiاب کردیiiا ہے کہiiاس مقiiام میں ہiiر جگہ ارامی رنiiگ موجiiود ہے

کiا یہ نظiiریہ ہے4اوراس کا اص� ایک ارامی ماخذ ہے۔چنانچہ گوگ�ii، روڈم،بiارٹن، کiورف اورپiیری کہ یہ بیا� قدیم یروشلیمی ماخiiذ سiے لیiiا گیiiا ہے۔ شiiمیڈل بھی کہتiاہے کہ یہ بیiiا� نہiiای معتiiبر رپiiورٹ ہے جiiو ہمiiارے پiiاس موجiiود ہےجس کی بنiiاء ایiiک حقیقی تiiواریخی واقعہ ہے اورمرحiiومتاس کرسپ لیک اس کے ساتھ اتفا� کرتا ہے ۔ ڈبیلیس کہتاہے کہ اس مقام میں اص�ii بیiiا� اپiنی شک� میں موجود ہے جو ایک نہای قدیم ماخذ تھا۔ تمام قدام پسند نقاد یہ تسiiلیم کiiرتے ہیں

آامیزی سے پاک ہے ل� قدر بیا� ہر قسم کے مبالغہ اور رنگ ۔5کہ یہ قاب

1 Goguel, T.K.Rordam, G.A. Barton.T.Korfl Perry. Schmiedel. Lake Dibelius.2 R.D.Sawyer.Exp.Times,Dec 1949.p.913 Streeter, The Four Gospels p.2024 Barton,”Prof Torrey’s Theory of the Aramaic Origin of the Gospels J.Th.S.Oct 19355 H.E.111.4

۔( بعض علمiiاء کہiتےہیں کہ مقiiدس لوقiا میں جiو مقامiات صiرف اسiiی انجی�i میں۸)وول درجہ کی سiiند" کے ہیں ۔ یہ6پiiائے جiiاتے ہیں وہ ایسiiے ماخiiذوں سiiے لiiئے گiiئے ہیں " جiiو ا

(۔ جب۸: ۲۱مسالہ فلپس اوراس کی بیٹیوں کی مدد سے قیصiiریہ میں جمiiع کیiiا گیiiا تھiiا)اعمiiالتا� یہiودی مسiیحیوں میں سiے تھiا جiو پراگنiدہ ہiiوکر تiتر بiتر7مقدس لوقiا وہiاں مقیم تھے ۔ فلپس

تاس نے بیانiات حاص�ii کiئے ہوگئے تھے۔ گواس کی مادری زبا� یونانی تھی لیکن جن لوگوں سے تھے وہ ارامی بولنے والے تھے۔

۔ جس کے مطابق مقدس لوقiا انطiiاکیہ کےرہiنے8یوسی بئیس ایک روای کا ذکرکرتاہےتسریانی تسریانی زبا� بولی جاتی تھی۔ اگریہ روای سچ ہے تو مقدس لوقا والے تھے۔ اس شہر میں زبا� کوبخiiوبی جiانتے تھے ۔ سiریانی زبiiا� ارامی سiiے متعلiiق ہے پس مقiiدس لوقiا ارامی زبiiا� سiiے واقف تھے۔ عبرانی اور ارامی زبانیں ایک دوسرے بہ ملiتی جلiتی ہیں۔ گiوہم وثiو� کے سiاتھ یہلد عiتیق کی عiبرانی اص�i کی iiونکہ وہ عہiانتے تھے کیiبرانی جiا عiنہیں کہہ سکتے کہ مقدس لوق جانب رجوع نہیں کرتے بلکہ سیپٹواجنٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ پروفیسر کریڈ ہم کو بتلاتiiاہے کہ انجی� لوقا میں عiبرانی زبiا� کے الفiiا� کے کم از کم سiات محiiاورات پiائے جiاتے ہیں اور دس

(۔۸۱قسم کے ارامی زبا� کے محاورات موجود ہیں")دیباچہ تفسیر لوقا صفحہ سٹریٹر مرحوم کا یہ خیال صحیح معلوم ہوتاہے کہ مقدس لوقا نے اپنے ارامی ماخiiذ زیiiادہ تر قیصر سے جمع کئے تھے۔ اس شہر میں سiiریانی کے علاوہ یونiiانی زبiiا� بھی بiiولی جiiاتی تھی

۔ جس میں مقiدس پطiرس رسiول کے پہلے غiiیر9اور وہ کنعiا� کiا دیiوانی دارالحکiوم بھی تھالس منظiر کiاعلم یہiiود مریiد رہiiتے تھے۔ پس اس نظiریہ سiے ہم کiو انجی�i لوقiا کے ماخiذوں کے پلس منظر لوقا کے خاص ماخذوں سے مطابق بھی رکھتا تھiiا۔ قیصiiریہ کی کلیسiiیا ہوجاتاہے اوریہ پل� یہود کی قiومی تمنiائیں موجiود ہiوں اوراس کے تامید بھی کی جاسکتی ہے کہ اس میں اہ سے یہ 6 Creed.The Gospel According to St.Luke.p.LXX7 Eduard Meyer quoted in Exp.Times Dec,1949.8 Livy and Polybius.9 The Beginnings of Christianity Part1 the Acts of the Apostels Vol2 Prolegomena 2 Criticism.

Page 100: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

�iiساتھ ساتھ غیر یہود میں انجی� کے پرچار کا جذبہ بھی ہو اور یہ دونوں باتیں جیساہم اس انجی کی خصوصیات کی بحث میں بتلاچکے ہیں انجی� لوقا کا جزو اعظم ہیں۔

آائے ہیں کہ مقدس لوقا کے صلیبی واقعہ کا بیiiا� ایiiک جiiدا۹) وول میں بتلا ۔( ہم جلد اآائے ہیں کہ وول کے باب سiiوم میں بتلا وول کے حصہ ا مستق� ماخذ تھا۔ ہم سطور بالا میں اورجلد اوولین کے مسیحی معلموں کےفاض� گروہ نے صلیبی واقعہ کے مختلف بیانات کو جمع کیا لر ا دو

تھا۔ پس مقدس لوقا کا یہ مستق� ماخذ ارامی زبا� میں لکھا گیا تھا۔وول کiiا غiiور سiiے۱۰) وول کے حصiiہ دوم کے بiiاب سiiوم کی فص�ii ا ۔( اگر ناظرین جلد ا

تا� پر یہ ظاہر ہوجائیگا کہ مقدس لوقا کے تمام ماخذ قدیم ترین زمانہ سے ہی تعلق مطالعہ کریں تو تا� رکھتے ہیں ۔ اس فص� میں ا� ماخذوں کے مضامین پر بحث کی گئی تھی لیکن یہ مضiiامین کی زبا� پر بھی روشنی ڈالتے ہیں اورہم پر ظiiاہر کردیiتے ہیں کہ ا� ماخiiذوں کی زبiiا� ارامی تھی۔ ا� ماخذوں کاارامی زبا� میں ہونا نہ صرف ا� کی قiiدام پiiر دلال کرتiiاہے بلکہ اس انجی�ii کے iiپایہ اعتبار کا بھی شاہد ہے۔ چنانچہ مشرقی ممالک کی تاری\ کا ماہر ایڈورڈ مائر جیسا زبردس

کہ لوقا نہای مسiiتند مiiورخ ہے جس کiiا پiiایہ اعتبiiار ویسiiا ہی ہے جیسiiا1مستند مصنف کہتا ہے ۔2لوی اورپولی بئس کا ہے

مقدس لوقiا کی انجی�i یہ ثiاب کردیiتی ہے کہ اس کiا مصiنف نہ صiرف ایiک محتiاطتاس نے اپiiنے مولiiف اورادیب بھی تھiiا۔ جس خiiوبی اورطiiریقہ سiiےiiک زبردسiiا بلکہ ایiiورخ تھiiم

اا مiiرقس :۱۶مختلف ماخذوں کی تالیف کرکے ا� کو اپنالیا ہے وہ اس حقیق کا گواہ ہے۔ مثلآانخداونiiد کiiا رسiiولوں۷ سے ظاہر ہے کہ اس بیا� کے بعد وہ بیiiا� تھے جن میں قیiiام کے بعiiد

سےگلی� میں ملاقات کرنے کا ذکiر تھiiا۔ مقiiدس لوقiا نے سiیدنا مسiیح کے رسiولوں کiو یروشiiلیم کے نزدیک دکھلائی دینے کے بیا� کو انجی�i مiرقس کے بیiا� کے سiاتھ اس خiوبی سiے پیوسiتہ

1 G.R.Driver, “The Original Language of the Fourth Gospel.Jewish Gurdian 19232 Black, Aramaic Approach.p.208

آاتiا کہ کردیا ہے کہ اگiر ہمiارے پiاس انجی�i مiرقس نہ ہiوتی تiو ہمiارے خiواب وخیiال میں بھی نہ ل� لوقا کا بیا� دوبیانوں پر مشتم� ہے ۔3انجی

(۵) مقiiدس یوحنiiا نےبغiiیر کسiiی شiiک وشiiبہ کے ارامی ماخiiذوں کiiا اسiiتعمال کیiiا ہے۔ ا� ماخiiذوں کی ارامی زبiiا� ایسiiی نمایiiاں ہے کہ وہ انجی�ii کی یونiiانی زبiiا� کے شiiفاف پiiردے کےآاتی ہے۔ یہ حقیق ایسی واضح ہے کہ متعدد علمiiاء اور نقiiاد یہ کہiiتے ہیں پیچھے صاف نظر آاگے چ�ii کiiر بحث کiiریں کہ یہ انجی�ii پہلے پہ�ii ارامی زبiiا� میں لکھی گiiئی تھی۔ اس پiiر ہم

گے۔ پروفیسiiر ڈرائیiiور کiiا خیiiال ہے کہ اس انجی�ii میں حضiiر ت کلمتہ اللہ کے جiiو اقiiوال

۔ ڈاکٹر بلیiiک4اورمکالمات درج ہیں وہ ارامی زبا� میں مسیحی حلقوں اورکلیسیاؤں میں مروج تھےآانخداونiiد کے ارامی کلمiiات کے الہiiامی" تiiارگم" ہیں کا خیiiال ہے کہ اس انجی�ii کے مکالمiiات جو ابتدائي ایام میں یونانی میں ترجمہ کئے گئے تھے جس طرح رسالہ کلمiiات یونiiانی میں تiiرجمہ

میں یوحنiiا بپتسiiمہ دیiiنے والے۳۳تا ۳۱: ۲کیا گیا تھا ۔ یہی مصنف اپنی کتاب میں کہتاہے کہ اا تحریری شک� میں موجود تھا 5کے اقوال سے ظاہر ہے کہ اس مقام کا ماخذ ارامی تھا جو غالب

کی۳۹: ۵۔ اسی صفحہ پر ڈاکٹر بلیiiک کہتiiاہے کہ ایiiک پiiارہ دسiiتیاب ہiiوا ہے جس میں یوحنiiا آانخداونiiد ایک قرات لکھی ہے۔ یہ قرات خواہ صحیح ہiiو یاغل�ii کم ازکم یہ ثiiاب کردیiiتی ہے کہ کے اس قiiول کiiا ماخiiذ ارامی زبiiا� میں موجiiود تھiiا۔ ایiiک اورمقiiام میں یہ مصiiنف کہتiiاہے کہ مقدس یوحنا کے سامنے انجی� لکھiiتے وق رسiiالہ کلمiiات کiiا سiiا ایiiک اورارامی رسiiالہ تھiiا جس میں وہ طوی�ii مکالمiiات درج تھے جiiو اس انجی�ii منiiدرج ہیں۔پھiiر وہ کہتiiاہے کہ اس انجی�ii میں

3 Black,”The Problem of the Aramaic Element in the Gospels” Exp Times, April 19484 F.V.Filson Origin of the Gospels p.2055 Albright. The Archaeology of Palestine.

Page 101: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

یہودی ربیوں کے سے مکالمات ہیں جiiو منظiiوم ہیں۔ ا� کی نظم یہ ثiiاب کردیiiتی ہے کہ ا� میںحضرت کلمتہ اللہ کے اپنے منہ کے کلمات محفو� ہیں۔

فلسن جیسا محتاط مصنف کہتاہے" ایک لازمی طورپر تسلیم کiiرنی پiiڑتی ہے کہ کiiوئیل} نظر یہ قبول کرنے کے لائق نہیں جو یہ زمانے کے انجی� چہارم کے تحریری یiiا زبiiانی ماخiiذ ار مقدس کنعا� کے ہیں۔ ہم کو یہ عنصiر ماننiiا پڑیگiا خiواہ ہم اس انجی�i کی اص�ii زبiا� کiiو ارامی

۔ مورخ اولم اسٹیڈ اس بات پر زوردیتiiاہے کہ انجی�ii چہiiارم کے وہ حصiص1مانیں یا یونانی مانیں" ء سiiے پہلے ارامی زبiiا� میں لکھے گiiئے تھے جن کiiا بعiiد میں۴۰جiiو بیانiiات پiiر مشiiتم� ہیں

یونانی زبا� میں ترجمہ ہوا۔

1

Page 102: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

باب چہارمباب چہارمل� اربعہ کی یونانی زبا� کی خصوصیات ل� اربعہ کی یونانی زبا� کی خصوصیاتاناجی اناجی

ہم نے گذشتہ تین ابواب میں یہ ثاب کیاہے کہ ہماری موجودہ یونانی اناجی�i کے ماخiذ قدیم ترین زمانہ کے ماخذ تھے جو ارامی زبا� میں تھے۔ جب ہم اناجی� اربعہ کی یونانی زبا� کا مطالعہ کرتےہیں توہم پر یہ حقیق نہiiای وضiiاح کے سiiاتھ ظiiاہر ہوجiiاتی ہے۔ا� اناجی�ii کی زبا� خوداس امر کی پکار پکار کر گواہی دیتی ہے کہ ا� کے ماخiiذ ارامی زبiiا� کے تھے جن کiiا

ترجمہ یونانی زبا� میں کیا گیاہے۔ جب ہم کسی کتاب یا تحریر کا ایک زبا� سiے دوسiری زبiا� میں تiرجمہ کiرتے ہیں تiو

اا ہم ذی� کے طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ کا استعمال کرتے ہیں: عموم ۔( ہم بعض اوقiiiات اس کiiiا لفظی تiiiرجمہ کiiiرتے ہیں ۔ لیکن یہ طiiiریقہ عiiiام طiiiورپر۱)

استعمال نہیں ہوتا کیونکہ زبانوں کے محاورے انکی صرف ونحو کے قواعiiد، ا� کے جملiiوں کی سiiاخ اور ترکیبiiوں میں بہ فiiر� ہوتiiاہے ۔ لفظی تiiرجمہ اص�ii الفiiا� کی صiiح کiiو تiiوبرقرار رکھتاہے لیکن نحوی پابندیوں اورمحاوروں وغيرہ کی طرف سے لاپرواہ ہوتاہے۔ مثال کے طورپر شاہآا� لفظی ہے لیکن بامحاورہ نہیں ہے۔ اردوجملوں کی ساخ اور فقiiروں عبدالقادر کا اردوترجمہ قر کی ترکیبیں اردو صرف ونحو کے مطابق نہیں ہیں۔ لہذا ترجمہ بے ڈول اوربھiiدا ہے لیکن اس میں اص� الفا� کی صح کا ایسا لحiiا� رکھiiا گیiiاہے کہ کiiوئی عiiربی خiiوا� اس لفظی تiiرجمہ سiiےآاسانی سے دوبارہ عربی زبiiا� میں تiiرجمہ آا� کے اص� عربی الفا� کا پتہ لگاسکتاہے اوروہ نہای قرآا� کے اص�ii الفiiا� کے مطiiابق ہوگiiا۔ پس گiiو لفظی تiiرجمہ زبiiا� کے کرسکتا ہے۔ اوریہ ترجمہ قریی پiiایہ کiiا نہیں ہوتiiا، تiiاہم اس قسiiم کiiاترجمہ اص�ii الفiiا� کی صiiح کiiوبرقرار لحiiا� سiiے اعل

رکھتاہے اور اص� الفا� کومعلوم کرنے میں بڑے کام کا ہوتاہے۔

اا حافiiظ نiiذیر احمiiد دہلiiوی کiiا اردو۲) ۔( بعض اوقات ترجمہ بامحاورہ کیا جاتاہے۔ مثلآا� ۔ مرحوم نے اس ترجمہ میں اردو زبا� کی ہر طiiرح سiiے رعiiای رکھی ہے اورایiiک ایسiiا ترجمہ قرآا� کiiا حافiiظ نہ ہiiو( اس ترجمہ کیا ہے جس کی زبا� ٹکسالی ہے۔لیکن کوئی عiiربی خiواں)جiiو قiiرآاسانی اورخوبی سے ترجمہ نہیں کرسiiکتا، آا� کے اصلی الفا� میں دوبارہ دیسی اردو ترجمہ سے قر

جس خوبی سے وہ شاہ عبدالقادر دہلوی کے ترجمہ سے کرسکتاہے۔ ۔( اکثر اوقات ہم اص� تحریiiر کiiا تiiرجمہ نہ تiiو لفظی کiiرتے ہیں اورنہ بامحiiاورہ تiiرجمہ۳)

کرتے ہیں بلکہ کتاب کے مفہوم کو اپنے الفiiا� میں ادا کردیiiتے ہیں جس سiiے اص�ii کی تشiiریح اور توضیح ہوجاتی ہے لیکن اس طریقہ سے اص� اور اس کے تiiرجمہ میں بہ فiiر� پیiiدا ہوجاتiiاہےاا ایسiiا کہ بعض اوقiiات اس قسiiم کے تiiرجمہ کiiو اص�ii کتiiاب کiiا تiiرجمہ نہیں کہہ سiiکتے۔ مثل

لت عمر خیال کا انگریزی ترجمہ ۔ انگریز مترجم فیٹز،جیرلڈ کارباعیا(۲)

اا واضiiح جب ہم اناجی� اربعہ کی یونانی زبا� کا مطالعہ کرتے ہیں تiiو ہم یہ حقیق فiiور ہوجiiاتی ہے کہ یہ زبiiا� خiiالص ٹکسiiالی اورادبی یونiiانی زبiiا� نہیں ہے۔ گiiواس کے فقiiرے یونiiانی صرف ونحو کی غلطیوں سے پاک ہیں لیکن اس کے فقiiروں کی ترکیiiبیں اورمحiiاورے یونiiانی زبiiا� کے نہیں ہیں۔ اس کے جملے اورترکیiiبیں یونiiانی زبiiا� میں بھiiدی، بدوضiiع اورغiiیر مiiوزوں ہیں۔ یہ زبا� بھونڈی بےڈول اور گنواری قسم کی ہےل یکن اس کے لکھنے والے گنiiوار نہ تھے ۔ چنiiانچہ

یی پiiایہ کی ٹکسiiالی یونiiانی زبiا� میں لکھتiiاہے۴تiا ۱: ۱مقiiدس لوقiiا اپiنی انجی�ii کادیبiiاچہ ) ( اعلآاخر تک کی یونانی، ادب کے لحا� سے نہای نiiاقص ہے۔ آای سے کتاب کے لیکن پانچویں یہی حال چاروں کی چاروں انجیلوں کا ہے۔ پس سوال یہ پیداہوتاہے کہ مقiiدس لوقiا جیسiے ادیب اورقادرالکلام شخص کی تصنیف میں اور دیگر اناجی� کی زبا� میں اس قسiiم کی عجیب یونiiانی

آاگیا؟ کا وجود کیسے

Page 103: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اناجی� کی یونانی زبا� کے لکھiiنے والiiوں نے اپiنے ماخiiذوں کiا جو ارامی میں تھے یونانی زبا� میں لفظی ترجمہ کیا ہے۔ اوریہ تiرجمہ ایسiے الفiiا� اور فقiرات میں کیiiا گیiiا ہے کہ ماخiiذوں کے اص�ii الفiiا� کی صiiح کiiو برقiiرار اورقiiائم رکھiiا گیiiا ہے اورارامی محاوروں کا لفظی ترجمہ کیا گیا ہے اور ترجمہ کا کا م اس خوبی سے نبھایا ہے ارامی زبا� کے�iر انجیiآاتی ہیں۔ ہ محاورے اور صنعتیں وغیرہ)جیسا ہم باب دوم میں بتلاچکے ہیں( صiاف نظiiر �iiگنواری اوربھونڈی ہے لیکن اناجی کا مترجم ایک قادر الکلام شخص ہے۔ گوفقروں کی ساخ اربعہ میں ایک لفظ بھی ایسiا نہیں جiiو گنiiواروں اورجiiاہلوں کی بiولی کiiا ہiiو۔ اناجی�ii اربعہ میں ہiiر قسم کی اصطلاحات ، ادبی، منطقیانہ ، فلسفیانہ الفا� اور دینیات کی اصiiطلاحات موجiiودہیں۔ ا� کا مطالعہ ثاب کردیتا ہے کہ مترجمین نے جو الفا� صف اور متعلق فع� کے طورپر استعمال کiiئے ہیں اورجiiو فع�ii جiiذبات اور افعiiال کiiو بیiiا� کiiرنے کے لiiئے مسiiتعم� ہiiوئے ہیں وہ نہiiای احتیاط اورصح کے سiاتھ اسiiتعمال کiئے ہیں۔ ایسiا کہ ہم معiiنی اورمiiترادف الفiiا� کے معiiانی کےباریک فر� میں تمیز موجiود ہےجس سiے یہ ثiاب ہے کہ وہ نہ صiرف اص�i ارامی کے مiاہرتا� کے معانی سiiے بھی وہ بخiiوبی واقiiف تھے بلکہ جس یونانی زبا� کے الفا� وہ لکھ رہے تھے

تھے اس یونانی زبا� کے محاورات ارامی ہیں۔تا� کے ایما� کی بنیاد اورنجات یہ مترجم اص� عبارت کوالہامی اورلاثانی مانتے تھے جو

(پس انہوں نے ازحد کوشش کی ہے کہ جہiiاں تiiک ہوسiiکے۹: ۱۸کے لئے ضروری تھی )یوحنا وہ اص� الفا� کا بغیر کسiی تبiدیلی یiا کمی بیشiiی کے تiرجمہ کiریں۔ وہ کiوئی ایسiی یونiانی نہیں لکھ رہے تھے جو بولی جاتی تھی ، جس طرح شاہ عبiiدالقادر کiiوئی ایسiiی اردو نہیں لکھ رہے تھے جودہلی میں بولی جاتی تھی۔ مترجمین کiiا مقصiiد یہ تھiiا کہ وہ ایسiiے الفiiا� اسiiتعمال کریں جو یونانی پڑھنے والے سمجھ سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اص� ارامی زبا� کے الفiiا� اورمحiiاورات کiiوبھی جiiو ہiiاتھ سiiے نہ دیiiا۔ انہiiوں نے اص�ii کiiا لفظی تiiرجمہ یونiانی میںآاگاہ کردیا۔ وہ ارامی اور یونانی دونوں زبانوں کے عالم تھے اورغل� ترجمہ کے خطروں سے بخوبی

تھے۔ پس انہوں نے ہر لفظ کiiا یونiانی تiرجمہ نہiiای حiiزم اوراحتیiiاط کے سiiاتھ کیiiا۔ جس کiا نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے علماء جو ارامی اوریونiiانی زبiiانوں کے مiiاہر ہیں، اناجی�ii اربعہ کے

طiرح شiاہ1موجودہ یونانی ترجمہ سiے اص�i ارامی الفiا� میں دوبiارہ تiرجمہ کرسiکتے ہیں ۔جسآانی متن کاعلم ہوسکتاہے۔ عبدالقادر کے اردو ترجمہ سے دوبارہ عربی میں ترجمہ کرکے اص� قر

(۳)لف سماوی کے یونiiانی تiiرجمہ اس طریقہ کار کے لئے ا� مترمین کے سامنے عبرانی صح سiiیپٹواجنٹ کی نظiiیر موجiiود تھی۔ ا� مiiترجمین کے سiiامنے وہی دق پیش تھی جوسiiیپٹواجنٹ کے مترجمین کے سامنے تھی کہ سامی محاورات کو کس طرح احسن طiiورپر یونiiانی الفiiا� میںلب مقدسiہ" میں تت ل ک ادا کیا جائے۔ سیپٹواجنٹ ترجمہ کا مفص�i ذکiر ہم نے اپiنی کتiاب" صiحلد عiتیق کiا بiالعموم لفظی تiرجمہ ہے۔جس کے الفiiا� گویونiانی ہیں iiلب عہ تت کیا ہے۔ یہ تiرجمہ ک لیکن فقروں کی ترکیب یونانی نحو کے مطابق نہیں ہے۔ بالفا� دیگر اس ترجمہ کے الفا� یونانی ہیں لیکن نحوی ترکیب عبرانی ہے۔ سیپٹواجنٹ کا کوئی حصہ ایسiiا نہیں جس میں اص�ii عبiiارت کی صرف توضیح کی گئی ہو یا اص� عبرانی کا صرف مفہوم یونانی زبا� میں ادا کیا گیا ہو اوریہ

آاتی ہے تتب پر صاد� لد عتیق کی تمام ک ۔ گو مترجمین نے ہر جگہ عiiبرانی محiiاوروں کiiا2بات عہ لحا� رکھاہے تاہم انہوں نے جا بجا یہ کوشش کی ہے کہ ایسے الفا� اورمحاورات کا ایسiiا لفظی

تا� کے زمانہ کے لوگ نہ سمجھ سکیں۔ ترجمہ نہ ہو جول� اربعہ کے ماخiiذوں کے مiiترجمین نے سiiیپٹواجنٹ کی نظiiیر کواپiiنے سiiامنے iiپس اناجی رکھ کiiر اپiiنے ارامی ماخiiذوں کiiا اس کے نمiiونہ کے مطiiابق اس طiiورپر لفظی تiiرجمہ کیiiا ہےکہ گوالفا� یونانی ہیں لیکن ا� کی نحوی ترکیب ارامی ہے۔ مثال کے طورپر مقدس لوقا کiiو لیں۔ یہ فاض� ادیب یونانی ترجمہ سiiیپٹواجنٹ سiiے واقفی نiiامہ رکھتiiا تھiiا اوراس کiiو ایiiک مقiiدس کتiiاب

1 C.C.Torrey. The Four Gospels pp.237-2452 Ibid.pp.247-8 also T.R.Glover World of NT.pp.94-98

Page 104: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

مانتiiا تھiiا۔ پس اس نےاپiنی انجی�ii کے تiرجمہ کiiو دیiدہ ودانسiiتہ سiiیپٹواجنٹ کی زبiiا� اورطiiرز پiiرتامور پیش کرتے ہیں :۔1ڈھالا۔اس حقیق کے ثبوت میں ہم ذی� کے پانچ

تتب کے اقتباسiiات سiiے ثiiاب ہوتiiاہے۱) لد عتیق کی ک ۔( مقدس لوقا کی انجی� میں عہ کہ وہ ا� کا بالعموم سiیپٹواجنٹ کےتiرجمہ سiے اقتبiاس کرتiاہے۔ لیکن جiائے غiور ہے کہ جب وہ مقدس مرقس یا رسالہ کلمات کے اقتباسات کو لیتاہے تiو وہ سiیپٹواجنٹ کےتiرجمہ کiو اسiتعمال

اا مiiرقس ( جب وہ کسiiی ایسiiے۳۷: ۷۔ لوقiiا ۱۰: ۱۱۔مiiرقس ۴: ۳۔لوقiiا ۳: ۱نہیں کرتiiا۔ )مثلاا لوقiiا تا� سے ماخوذ ہے تو وہ سیپٹواجنٹ کی نق� کرتاہے )مثل اقتباس کو کھول کر بیا� کرتاہے جو

۔ جب ا� اقتباسiiات کiiا انحصiiار ماخiiذوں پiiر نہیں ہوتiiا تiiو وہ سiiیپٹواجنٹ کiiا اسiiتعمال۶تiiا ۵: ۳(۔۳۰: ۲۳کرتاہے)

لد عتیق کے عبرانی نiiاموں کی تشiiکی� وہی ہے جiiو سiiیپٹواجنٹ۲) ل� لوقا میں عہ ۔( انجی میں " ملiiک۲۶: ۴کے یونانی ترجمہ میں ہے۔ ا� میں ایک مثال خاص طورپر قاب� ذکر ہے۔ لوقا

آایا ہے وہ تمام یونانی علم ادب میں کہیں نہیں پایiiا جاتiiا ، صیدا" کے لئے یونانی لفظ " سائڈ�" کے جس کی جiانب مقiiدس لوقiا۹: ۱۷سوائے یونiانی تiرجمہ سiیپٹواجنٹ کےمقiام پہلاسiلاطین

میں اشارہ پایا جاتاہے۔ ۔( مقدس لوقا کے بعض خاص الفا� سiiیپٹواجنٹ کے تiiرجمے کے مرہiiو� من ہیں۔۳)

اا آافتاب" ترجمہ کیا گیاہے۔ اس مقام میں سiiیدنا مسiiیح۷۸: ۱مثل میں یونانی لفظ کا اردو میں " میں۱۲: ۶۔ ۸: ۳ ، اورزکریiiiا ۵: ۲۳کی جiiiانب اشiiiارہ ہے۔ یہی لفiiiظ سiiiیپٹواجنٹ میں یرمیiiiاہ

لح موعiiود کی طiiرف اشiiارہ ہے، جہiiاں اس لفiiظ کiiا تiiرجمہ اردو میں " موجiiود ہے جس میں مسiiیشاخ" کیا گیاہے۔

یی ہiiذا القیiiاس مقiiدس لوقiiا کے خصوصiiی جملے اور فقiiروں کے حصiiے بھی۴) ۔( عل ۔۲۷: ۱۔ لوقiا ۴۲: ۲۵۔پہلاسiiیموئي�۱۴: ۶، واستشiنا۸: ۲۱سیپٹواجنٹ سے لئے گئے ہیں )لوقا

1 Sparks”The Semetisms of St.Luke’s Gospel.J.Th.S.July-Oct.1943

:۶۔ حiiزقی ای�ii ۱۲: ۳۔ یرمیiiاہ ۵۱: ۹ ۔ لوقiiا ۲۴: ۱۔قاضی ۱۲: ۱۴ کا مقابلہ پیدائش ۳۷: ۱۰ وغیرہ سےکرو(۔۷: ۲۱۔ یرمیاہ ۲۵: ۳۔ کا مقابلہ یسعیاہ ۲۴: ۲۶۔ لوقا ۲

۔(مقدس لوقا نے متعدد مقامات میں مرقس کی انجی�ii کiiو نق�ii کiiرتے وق اس کے۵)اا مiiرقس ، سiiے۸، ۴: ۸ کiiا مقiiابلہ لوقiiا ۹تiiا ۱: ۴الفا� کو سیپٹواجنٹ کے مطابق ڈھiiالا ہے۔مثل :۱۷ اورخiروج ۴۴: ۹ کiا مقiابلہ ۳۱: ۹کرو ۔ جوترجمہ سیپٹواجنٹ کے زیادہ قریب ہے۔ مرقس

ل� ذکiiر ہے کہ مقiiدس لوقiiا جب انجی۲�ii: ۲۔ ملاکی ۱۵: ۲۳۔ یرمیiiاہ ۱۴ iiر قابiiرو۔ یہ امiiے کiiس آادمی کiiا۱۴: ۱۲مiiرقس ) ( کiiو نق�ii کرتiiاہے تiiو وہ عiiبرانی محiiاورہ)جس کiiا اردو تiiرجمہ" توکسiiی

( میں سiیپٹواجنٹ کے مطiiابق کردیتiا ہے)احبiiار۲۱: ۲۰طرفردار نہیں" کیا گیا ہے( کے الفا� کو)(۔۱۵: ۱۹

(۴)ل� اربعہ کی iiام اناجیiiا ہے۔ تمiiورپر پیش کیiiونہ کے طiiہم نے مقدس لوقا کی انجی� کو نم یونانی سیپٹواجنٹ کی یونانی کی سی ہے۔ چنانچہ یہی حال مقدس متی کی انجی�ii کiiا ہے۔ اس

آاگے چ� کر ہم اس2کی یونانی بھی ویسی ہے جیسی سیپٹواجنٹ کے ترجمہ کی ہے ۔ انشاء اللہ ل� اربعہ کی یونiiانی زبiiا� سiiیپٹواجنٹ کی حقیق پر زیادہ روشنی ڈالیں گے کہ تمام کی تمام اناجی سی یونانی ہے ، جس کا ترجمہ لفظی ہے۔ یہiiاں ہم چنiد عiiام فہم مثiالیں دیiتے ہیں تiاکہ نiاظرین

ل� اربعہ کی یونانی زبا� کے لفظی ترجمہ سے واقف ہوجائیں: اناجی کے یونانی متن میں ہے" وہ کشتی میں گیiiا اور جھی�ii میں بیٹھiiا"۔یہ۱: ۴۔( مرقس ۱)

اس کiا تiرجمہ اردو میں یiوں ہے " وہ جھی3�iارامی محاورہ ہے جس کا لفظی ترجمہ کیiا گیiا ہےمیں ایک کشتی میں جا بیٹھا"۔

لد عiتیق میں۱۷، ۱: ۵۔( لوقا ۲) iوئے ہیں۔ یہ عہiوا" وارد ہiiا ہiا� " اورایسiiیرہ میں الفiوغ لف جiiار اورمصiiدر لف سiiماوی کی طiiرح اس کے بعiiد حiiر بھی باربار پائے جاتے ہیں اورعبرانی صiiح

2 W.C.Allen,J.Th.S.April 1946 p. 493 Exp.Times March 1915.

Page 105: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

اورضمیر شخصی موجود ہے۔ علاوہ ازیں تمام فقiiرے میں کiiوئی فع�ii نہیں ۔ پس مقiiدس لوقiا کےلد iiو عہiiاورات اورجملے ہیں جiiے محiاورات ہیں بلکہ وہ ایسiiماخذ میں نہ صرف ارامی الفا� ومح آاسiiانی سiiے لفiiظ بلفiiظ عiiتیق کی عiiبرانی زبiiا� کے مطiiابق ہیں۔ اس مقiiام کiiا تمiiام فقiiرہ نہiiای عبرانی میں ترجمہ کیا جاسکتاہے ۔ جس طرح یہاں فقرہ کی ساخ عبرانی ہے اسی طiiرح متعiiدد

۔1دیگر مقامات کی ساخ عبرانی وضع کی ہے مقدس مiiرقس کiiو لفiiظ " فی الفiiور" بہ مرغiiوب ہے جس کiiا وہ جiiاوبے جiiا اسiتعمال

وغيرہ(۔ مقدس متی لفظ" پھر" اکثر استعمال کرتاہے جوارامی زبiiا�۲۹، ۲۱، ۱۲، ۱۰: ۱کرتاہے) وغیرہ(۔۲۹، ۲۱: ۱۵، ۴۷، ۴۵: ۱۳سے مخصوص ہے)

اا دونiiوں خiiدا۳) ۔( انجی� لوقا میں ہiiر جگہ ارامی وعiiبرانی محiiاورات پiiائے جiiاتے ہیں مثل (۔۶: ۱کے حضور راس باز اور خداوند کے سب احکام وقiiوانین پiiر بے عیب چلiiنے والے" تھے)

تاس کے منہ کی کسی بات کا شکار کiiریں") تا�۵۴: ۱۱" فریسی گھات میں رہے تاکہ (۔ وہ د� آاپڑے") (۔ " عالم بالا سے قوت کiا۳۴: ۲۱پر جو تمام روئے زمین پر بیٹھے ہیں پھندے کی طرح

(۔ حق تویہ ہے کہ اس انجی� میں مرقس اورمiتی کے مقiiابلہ میں نہ صiرف۴۹: ۲۴لباس نہ ملے")�iiی انجیiiسامی الفا� ومحاروات زيادہ ہیں بلکہ متعدد ایسے جملے اور ترکیبیں ہیں جو صرف اس کے ماخذوں میں پائی جاتی ہیں اورجن کا یونانی ترجمہ نہiiای بدوضiiع معلiiوم دیتiiا ہے یہ ترکیiiبیں

۔ 2اس انجی� کے تمام حصوں میں پائی جاتی ہیں آادمی کے پiiاس کiiثرت سiiے۱۵: ۱۲۔( لوقiiا ۴) کے یونiiانی متن میں ہے" کیiiونکہ اگiiر

آای کiiا بھی ہو پھر بھی اس کی زندگی اس کے مقوضات سے نہیں نکلتی" ہم نے یہاں یونانی جو ترجمہ اردو میں کیا ہے وہ یونانی اص� سے زیادہ بامحاورہ ہے! مقدس لوقiiا جیسiiے ادیب کے

1 Sparks. Op.cit.2 (b).Toreey.Four Gospels,p.268

قلم سے اس قسم کی یونانی کی امید نہیں ہوسکتی۔لیکن اس قسم کے یونiiانی تiiرجمہ نے سiiیدنا ۔ 3مسیح کے اص� ارامی کلمہ کو صح کے ساتھ محفو� رکھاہے

آاتiiا۲۷: ۹ اور لوقiiا ۱: ۹۔( مiiرقس ۵) میں " خiiدا کی بادشiiاہی کiiو قiiدرت کے سiiاتھ ہوا"۔ " موت کا مزہ چکھنا" وغiیرہ ارامی محiiاورات ہیں جن کiا لفظی تiرجمہ یونiiانی میں کیiiا گیiiا

ہے۔ آایا ہے۴: ۱۲ ولوقا ۲۸: ۱۰۔( متی ۶) لف جار کی یونانی میں فع�" ڈرو" کے بعد حر

ل اضiافی میں ہے" جiوارامی اورعiبرانی زبiا� کی خصوصiی اور مفعول " جو قت� کiرتے ہیں" حiال ہے۔ اس قسiم کی مثiالیں اناجی�i میں متعiiدد مقامiات میں پiائی جiاتی ہیں اورثiاب کiرتی ہیں کہ

۔4مصنفوں نے اپنے ماخذوں کا لفظی ترجمہ کیاہے ۔ الفا� یونانی ہیں لیکن ترکیبیں سامی ہیں ۔( لوقiiا کی انجی�ii میں ہے" اس نے ایiiک زيiiادہ نiiوکر بھیجiiا" اور" تیسiiرے کiiو زيiiادہ۷)

(۔ جس طiiرح یہ اردو محiiاورہ نہیں ہے اسiiی طiiرح یہ یونiiانی محiiاورہ بھی۱۱: ۲۰کiiرکے بھیجiiا" )آانخداونiiد کے قiiول کiiو صiiح کے سiiاتھ محفiiو� رکھتiiا ہے ۔ نہیں ہے۔ لیکن یہ لفظی تiiرجمہ

وغیرہ ثاب کرتی ہیں کہ۱۹: ۲۰ ، ۳۶: ۴ ۔ لوقا ۱۸، ۱۲: ۵اسی قسم کی دیگر مثالیں مرقس انجی� نویسوں نے اص� ارامی زبا� کiو لفظی تiiرجمہ کiا لبiiاس پہنiiا کiر نہiiای صiiح کے سiiاتھ

۔5محفو� رکھاہے میں سیدنا مسیح کے مشہور۳۳: ۱۷ اورمقدس لوقا نے ۳۵: ۸۔( مقدس مرقس نے ۸)

آاپ کے اص� الفا� کو محفو� رکھاہے۔ قول کا لفظی ترجمہ کرکے ل� مرقس میں بونے والے کی تمثی� ارامی زبا� کا لفظی ترجمہ ہے۔۹) ۔( انجیآاسiما� پiر۱۰) تدور کیوں جاؤ۔ سیدنا مسیح کے دعا کے الفiiا� کiو لے لiiو" بiاپ جو ۔(

آاسiiمانوں پiiر پiiوری ہiiوتی ہے "، آائے"، " مرضiiی ہے"، " تیرا نام پاک مانا جائے"، " تیری بادشiiاہی

3 Black, the Problem of Aramaic Element in the Gospels.Exp. Times April.19484 (b) Hoskyns & Davey, Riddie of N.T.5 Black Op. Cit.

Page 106: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

روز کی روٹی " وغiiیرہ سiiب کے سiiب ارامی محiiاورے ہیں جن کiiا مقiiدس مiiتی نے لفظی تiiرجمہ یونانی زبا� میں کیا ہے"۔ جس طرح ہم نے اپنے قiiر} داروں کiiو معiiاف کیiiا ہے تiiو بھی ہمiiارےآای میں " گنiiاہ" کے لiiئے قiiر}" کے لفiiظ کiiا اسiiتعمال خiiالص قiiر} ہمیں معiiاف کiiر"۔ اس

۔ ا� تمiiام عiiبرانی1ارامی محiiاورہ ہے جiiو نہ تویونiiانی زبiiا� کiiا اور نہ عiiبرانی زبiiا� کiiا محiiاورہ ہے محاوروں کا مقدس متی کی انجی�ii میں لفظی تiiرجمہ کیiiا گیiiا ہے اوریiiوں حضiiرت کلمتہ اللہ کے

مبارک الفا� کو نہای صح سے محفو� رکھا گیا ہے۔ مذکورہ بiiالا مثiiالیں بطiiور مشiتے نمiiونہ ازخiروارے ، پیش کی گiiئی ہیں تiiاکہ یہ حقیق ناظرین کے ذہن نشین ہوجائے کہ انجی� نویس کے سامنے تصنیف کرنے کے وق ارامی زبا� کے ماخذ تھے جن کiو انہiوں نے نہiای ایمانiداری کے سiاتھ نق�i کیiا اور مiترجمین نے ا� ماخiذوںتا� کے الفا� کو صح کےسiiاتھ کی ارامی زبا� کا نہای احتیاط کےساتھ لفظی ترجمہ کرکے ایسا محفو� رکھاہے کہ اب یونانی اورارامی زبانوں کے قادر اکلام ماہر اور حضiiرت کلمتہ اللہ کےلت طیبات اورمکالمات کو موجودہ یونانی زبا� سے دوبارہ ارامی زبiiا� میں واپس تiiرجمہ کiiرکے کلما

آاپ کے اص� الفا� کو معلوم کرسکتے ہیں۔(۵)

لت خداوندی" بiiڑی اہمی ل� متفقہ کے ارامی ماخذوں میں قدرتی طوپر رسالہ" کلما اناجیآاپ کےکلمiiiات لن حیiiiات میں ہی آانخداونiiiد کی حی رکھتiiiاہے کیiiiونکہ اس میں مقiiiدس مiiiتی نے �iiوں اناجیiiے پہلی تینiiایہ کی وجہ سiiتند پiiاور مس بابرکات کو جمع کردیا تھiiا۔اور اس کی قiiداموولین میں یہiودی مسiیحیوں کی لر ا کے لکھنے والوں نے اس کو استعمال کیiاہے۔ یہ ارامی ماخiذدول} مقدس کے مختلiف مقامiات میں تھیں، ارامی زبiا� میں نق�ii ہوتارہiiا۔ جماعتوں کے لئے جو ارآانخداونiiد کے حلقہ بگiiو* ہوگiiئے تiiو یہ ضiiرورت چند عرصہ کے بعد جب " یونانی مائ� یہودی" تا� کی مادری زبا� یونانی میں منجئی عالمین کے کلمiات کiا تiiرجمہ تا� کے لئے آائي کہ درپیش ل\ آاپ کی تعلیم سiiے کمiiاحقہ واقiiف ہوسiiکیں۔ چنiiانچہ بشiiپ پے پئس )تiiاری کیiiا جiiائے تiiاکہ وہ 1 Streeter Four Gospels pp.238 ff.

تا� کلمiiات کiiا )یونiiانی۶۰پیدائش ء( ہم کو بتلاتاہے کہ" ہر شخص نے اپنی لیiiاق کے مطiiابق وولین کے معلمiوں اور مبلغiوں کiو اس قسiم کے تiرجمہ کی لر ا زبا� میں ( ترجمہ کیiا"۔ چiونکہ دواشدضرورت تھی لہذا یہ ترجمہ کلیسیا کی زندگی کے ابتدائی مراح� اورمنازل میں ہی کیا گیا۔

رسالہ کلمات کے یونانی ترجمہ سے ظاہر ہے کہ اس کا مترجم ازحد کوشش کرتiiاہے کہتا� کiا مفہiوم ہiاتھ آانخداوند کے ارامی کلمات کا لفظی یونانی ترجمہ ایسے پیرایہ سے کرے۔ کہ اا جب وہ سیدنا مسیح کے مبارک کلمہ" مبارک ہو تم جو غریب ہو" کےارامی سے نہ کھودے مثل اص� یونانی میں ادا کرنا چاہتاہے تو وہ" دل کے غریب" سے ادا کرتاہے کیiiونکہ لفiiظ" غiiریب" کiاتا� لوگiiوں سiiے تھiiا جiiو بiiدی کی طiiاقتوں کے نیچے دبے ہiiوئے خiiدا کی نجiiات کے مطلب ہی

۔2منتظر تھے اور صبر سے موجودہ دور کے ظلم واستبداد کو وفاداری سے برداش کرتے تھے ۔ یہ تiiرجمہ ایiiک3مقدس لوقا رسالہ کلمiات کے قiiدیم تiiرین تiiرجمہ کiiا اسiiتعمال کرتiiاہے

تا� کلیسیاؤں میں مروج رہا جن کے شرکاء کی مiادری زبiا� یونiانی تھی۔ پھرایiک وق مدت تک �iکااص �اiانی زبiالہ کی یونiوداس رسiترجم نے خiکے م �iiا انجیiترجم نے یiآایا جب کسی اورم ایسا ارامی زبا� سے مقابلہ کرکے" اپنی لیاق کے مطابق" ایک نیا ترجمہ کیااورگویا پہلے تiiرجمہ کی نظر ثانی کی ۔اس دوسرے ترجمہ کو مقدس متی کی انجی� میں استعمال کیiiا گیiiاہے۔ ا� دونiiوںآانخداوند کےکلمات کے الفiiا� میں )جورسiالہ کلمiات خداونiدی سiiے مiاخوذ ہیں( انجیلوں میں آاتاہے اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ یونiiانی الفiiا� دونiiوں انجیلiiوں میں دو جو فر� بعض اوقات نظر

ء۱۹۳۵مختلف ترجموں سے نق� کئے ہیں۔ ڈاکٹر مین سن اخبارایکس پوزیٹری ٹائمز باب اکتوبر میں ا� دومختلiiف ترجمiiوں کی مثiiال دانی ای�ii کی کتiiاب کے دومختلiiف یونiiانی ترجمiiوں کی دیتاہے یعنی سیپٹواجنٹ کا ترجمہ اور تھیوڈوشئن کا یونانی ترجمہ ۔ ا� دونiiوں ترجمiiوں" میں اتفiiا� بھی ہے اور اختلاف بھی ہے۔ ایiiک تiiرجمہ سiiیپٹواجنٹ کiiا ہے اور دوسiiرا وہی سiiیپٹواجنٹ کiiا

ترجمہ ہے لیکن تھیوڈوشئن نے اصلی عبرانی کے ساتھ مقابلہ کرکے اس کی تصحیح کی ہے۔

2 Swete,Apocalypse CXXIV n.I3 A.T. Robertson Grammer of Greek Testament,1990 P.91

Page 107: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

کہ مقiiدس مiiتی1علاوہ ازیں مرحوم ڈاکٹر سٹریٹر کا یہ نظiiریہ بھی صiiحیح معلiiوم ہوتiiاہے نے رسالہ کلمات کے اقوال کے ساتھ سیدنا مسیح کےدیگر ایسے اقوال بھی اکٹھے کردئiiیے ہیں جو رسالہ کلمات کے اقوال کے مشiابہ اورمتiوازی ہم اص�i اقiوال تھے۔ یہ دوسiرے اقiiوال اس کے دیگiر ماخiiذوں میں تھے۔ ا� دووجوہiiات کے بiاعث دونiiوں انجیلiوں کے مشiابہ اورہم اص�i اقiiوال

آاتاہے ۔ مثال کے طورپر اگiر ہم مقiiدس مiتی کی انجی�ii کی مبiارک بiادیوں ) تiا۴: ۵میں فر� نظر ( کiا مقiiابلہ کiریں تiویہ نکتہ ہم پiر۲۳تiا ۲۰: ۶( اورمقدس لوقiا کی انجی�ii کی مبiiارک بiادیوں)۱۲

واضح ہوجاتاہے۔ بہiiر حiiال ا� دونiiوں انجیلiiوں میں جب ہم ا� مقامiiات کiiا مطiiالعہ کiiرتےہیں جiiو رسiiالہ کلمات سiے مiاخوذ ہیں تiوہم پiر یہ حقیق واضiiح ہوجiiاتی ہے کہ ا� کے ارامی الفiiا� کiا یونiانی زبا� میں اس طور پر لفظی ترجمہ کیا گیiiاہے کہ گiو الفiiا� یونiانی ہیں لیکن فقiiروں اورجملiوں کی نحوی ترکیب ارامی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ا� یونiiانی الفiiا� کے پیچھے عiiبرانی اورارامی زبiiا�آاتی ہیں جن کی مثiiالیں ہم کے الفiiا� ، محiiاورے، عiiرو}، صiiنعتیں، ترکیiiبیں وغiiيرہ صiiاف نظiiر

آائے ہیں ۔ گذشتہ ابواب میں تفصی� دے (۶)

لر بالا میں مفص� بیا� کرچکے ہیں کہ اناجی� اربعہ کی بھدی اور بے ڈول زبiiا� ہم سطو کی اص� وجہ یہ ہے کہ ا� کے ماخذوں کی ارامی زبا� کا یونانی میں لفظی تiiرجمہ کیiiا گیiiا ہے۔ اس صدی کے شروع میں جب ارامی زبا� کا مطالعہ ابھی ابتiiدائی منiiازل میں ہی تھiiا توعلمiاء نے"�iiاکہ اناجیiiا تھiiائم کیiiریہ قiiئے یہ نظiiرنے کےلiiک �iiو حiئلہ کiiانی کے مسiکی عجیب یون �iiاناجی تجوں ارامی زبiiا� تجوں کوئنی" زبا� میں لکھی گئی ہیں جو سامی زبا� کی ایک شاخ تھی لیکن اا iiعموم کiا مطiiالعہ تiiرقی کرتiiا گیiiا۔ یہ نظiiریہ کمiiزور اور بے دلی�ii ثiiاب ہوتiiا گیiiا۔ اب یہ حقیق

ل� اربعہ کی یونiiانی کے جiiو الفiiا� ہیں وہ وہی ہیں جiiو رومی۱تسiiلیم کی جiiاتی ہے کہ ) iiاناجی )

1 Creed Gospel According to St.Luke P.XXVI and Rev.R.M.pope “The Greek Style of St.Paul.”Exp Times Sept.1938 p.534

( یہ نظریہ کہ " کونئی" کiiوئی خiiاص سiiامی زبiiا� کی شiiاخ۲سلطن میں عام طورپر مروج تھے ) تھی اب غل�i ثiاب ہوگیiا ہے۔ یہ امiر معiنی خiيز ہے کہ کوئiنی زبiا� کے متعلiق ہمیں جiو کچھل� یہود کی بڑی بڑی بسiiتیاں مiiدت مدیiiد سiiے معلوم ہے وہ ملک مصر سے حاص� ہوا ہے جہاں اہتتب مقدسiiہ کے یونiiانی تiiرجمہ آابiiاد تھیں۔ ا� یہودیiiوں کی یونiiانی کiiو قiiدرتی طiiورپر عiiبرانی ک سیپٹواجنٹ کی زبا� نے متاثر کر رکھا تھا اور ا� کی زبا� نے مصر کی کوئنی پر لامحالہ اثر ڈالا

ہوا تھا۔ ڈاکٹر سویٹ بھی کہتiiاہے کہ مصiiر کے چنiiد کاغiiذات کی زبiiا� سiiے ہم یہ دلی�ii نہیں لاسکتے کہ اناجی� کے مصنفوں کی یونانی ، عبرانی اور ارامی زبانوں کiiا اثiiر بہ کم تھiiا۔ ہم مستق� کتابوں کی زبا� کا مقiiابلہ چنiد کاروبiاری خطiiوط اور حسiاب کتiاب کے کاغiiذات اوراس قسم کے دیگر عارضی اورچند روزہ مقصد کے کاغذات سے نہیں کرسiiکتے اورپھiiر اس قسiiم کiiا مقiiابلہ کiiرکے بھی کسiiی مسiiتق�، اورپائiiدار نiiتیجہ پiiر نہیں پہنچ سiiکتے ۔ بہiiر حiiال ہم کiiو یہ فرامو* نہیں کرنا چاہیے کہ ا� کاغذات کے ایسے الفا� یونiiانی بولiiنے والے یہiiود کی روزانہ بiiول

۔2چال کی وجہ سے ہوسکتے ہیں ہم کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ گو سیپٹواجنٹ کی یونانی ایک لفظی تiiرجمہ ہے تiiاہمل� یہود کی روزانہ بول چال کے ہیں اوریہ اس کی زبا� کے الفا� سکندریہ کے یونانی بولنے والے اہ کiiوئی حiiیرت کی بiiات نہیں ہiiوگی اگiiراس تiiرجمہ کی زبiiا� نے سiiکندریہ کی کوئiiنی پiiر اثiiر ڈالا

ل� یہود سکندریہ میں کثرت سے بستے تھے ۔3ہوکیونکہ جیسا ہم بتلاچکے ہیں اہل� ذکiiر ہے کہ اگiiرچہ مصiiر کے یہiiودی سiiیپٹواجنٹ )جس کی یونiiانی زبiiا� iiات قابiiیہ ب اناجی� کی سی ہے( کااستعمال کرتے تھے وہاں کے مصنف انجی� کی یونiiانی کی سiiی عجیبلب تت اا یہiودی فلاسiفر فiائلو اپiنی ک ترفہ زبا� اور نحوی ترکیiبیں اسiتعمال نہیں کiرتے تھے ۔ مثل اور ط مقدسہ سے صرف یونانی زبا� میں ہی واقف تھا ۔ لیکن اس کی کتابیں ٹکسالی ادبی یونانی میں

2Expositor, Third Series Vol.3 pp.260-61 3 Delitzech, Isaac Salkinson C.D.Ginsburgh.

Page 108: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

لد جدیiiد کے مجمiiوعہ میں مقiiدس iiاہر عہiiاربعہ کے ب �iiاؤ، اناجیiiوں جiiتدور کی لکھی ہiiوئی ہیں۔ پولiiوس رسiiول کے خطiiوط روزمiرہ کی اچھی قسiم کی یونiiانی میں لکھے ہیں اور مقiiدس لوقiا نےیی ٹکسiالی یونiانی زبiا� میں خود اپنی انجی�i کادیبiاچہ اوراعمiال کی کتiiاب کiا دوسiiرا حصiہ اعل لکھiiا ہے۔ یہiiودی مiورخ یوسiiیفس کی تصiنیفات میں بھی " کوئiنی" کی قسiiم کی کiوئی خiاص زبا� نہیں پائی جاتی ۔ پس ارامی زبiiا� کے مطiiالعہ کی روشiiنی میں اب یہ نظiiریہ رد کیiiا جاتiiا ہے

۔1کہ اناجی� ایک خاص زبا� میں لکھی گئی تھیں جو " کوئنی " کہلاتی تھیلا س بiiاب میں مفص�ii بتلاچکے ہیں کہ اناجی�ii کے اص� حقیق وہی ہے جس کو ہم ماخiذوں کے مiترجمین نے ارامی زبiا� کiا ایسiا لفظی تiرجمہ کیiا ہے کہ جiرمن نقiاد ولہاسiن کےآاسiiانی سiiے سiiامی اص�ii زبiiا� میں دوبiiارہ تiiرجمہ کی جاسiiکتی ہے"۔ الفiiا� میں" یہ یونiiانی زبiiا� اناجی�ii کی یونiiانی زبiiا� بھiiدی اوربے ڈول ہے کیiiونکہ اگiiرچہ ا� کے الفiiا� یونiiانی ہیں لیکن ا� محاورات اورنحوی ترکیبیں سب ارامی زبا� کی ہیں۔ یہ ایک حقیق ہے کہ دونiiوں زبiiانوں میں اس قدر فر� ہے کہ یوسiiیفس جیسiiا شiiخص جویونiiانی کiiا شiیدائی تھiiا اقiiرار کرتiiاہے کہ بiiاوجود ہiiزار

کوشش وہ یونانی زبا� اور تلفظ پر حاوی نہ ہوسکا!(۷)

ل� ل� یہود میں مسیحی کی تبلیغ کی خاطر انجی موجودہ زمانہ کے مسیحی علماء نے اہ ء میں کیiiا گیiiا۔ اس کے۱۸۱۷۔ ایiiک تiiرجمہ 2جلی� کا یونانی متن سے عبرانی میں ترجمہ کیا ہے

لم اسiرائي� کiوا� کی۱۸۷۷بعد ڈی لٹشن نے لد جدید کا عبرانی میں تiرجمہ کیiا تiاکہ قiو ء میں عہل� iiائے اور اہiiج �iiخبری مiiات کی خوشiiالمین کی نجiiمیں منجئی ع �لف سماوی کی زبا اپنی صحلز احسن سiiمجھ سiiکیں۔ اس یہود سیدنا مسیح کے جانفزا کلمات کو اص� زبا� میں پڑھ کر بطرآاسٹریا کے یہود کے لئے عبرانی میں انجی� جلی� کا تiiرجمہ کیiiا لک آائزک سالکمنن نے مل کے بعد

۔ یہ موجiiودہ تiiرجمے یونiiانی متن3جس کو ڈاکٹر گنس برگ نے اس کی وفiiات کے بعiiد شiiائع کیا1 G.Dalman, The Words of Jesus pp.71-732 Burkitt, Earliest Sources of the Life of Jesus .3

سiiے عiiبرانی میں کiiئے گiiئے ہیں اوراناجی�ii اربعہ کے اص�ii الفiiا� کiiو معلiiوم کiiرنے میں نہiiای ممدومعاو� ثاب ہوئے ہیں کیونکہ جیسا ہم بتلاچکے ہیں اناجی� کی یونانی زبا� لفظی ترجمہ کی وجہ سے ایک شفاف پردہ ہے جس کے پیچھے ارامی زبا� کے الفiiا� ، محiاورات وغiیرہ نہiiای

آاگے چ� کر ہم اس موضوع پر زیادہ روشنی ڈالیں گے۔ آاتے ہیں ۔ انشاء اللہ واضح طورپر نظر ہم گذشiتہ چiار حصiوں میں اناجی�ii اربعہ کے ماخiذوں کی تiاری\ ، قiiدام اور ا� کےلت طیبiiات، مضiiامین پiiر بحث کiiرکے اس نiiتیجہ پiiر پہنچے تھے کہ حضiiرت کلمتہ اللہ کے کلمiiال� اربعہ میں iiاتھ اناجیiiکے س آاپ کے مبiiارک سiiوانح حیiiات نہiiای صiح مکالمiات بابرکiiات اور تا� کی صح کا مقiiابلہ نہیں کرسiiکتی ۔صiiح محفو� ہیں ایساکہ دنیا کی کوئی قدیم کتاب ل� اربعہ ویسی ہی لاجواب ہیں جیسی وہ روحانی اوراخلاقی تعلیم اورپایہ اعتبار کے لحا� سے اناجی

کے لحا� سے بے نظیر ہیں ۔ حصiiہ پنجم کے پہلے ابiiواب میں ہم نے اناجی�ii کے ماخiiذوں کی زبiiا� پiiر بحث کیل} مقiiدس کے رہiiنے والiiوں کiiو ہے ۔ ہم نے ثاب کیiiاہے کہ حضiرت کلمتہ اللہ ارامی زبiiا� میں ار تعلیم دیا کرتے تھے اور فضiلائے یہiiود کے سiiاتھ" علمiiاء کی زبiiا� " میں بحث کیiiا کiiرتے تھے۔تپر ہے جس میں شiiاعرانہ تخی�ii ہiiر جگہ موجiiود ہے۔ عiiبرانی آاپ کاکلام فصاح اوربلاغ سے لم بلاغ نظام آاپ کے کلا زبا� کی نظمیں، رباعیات، قطعات، ترنم، صنعتیں ، وز�، قافئے وغيرہ آاپ کے کلام کا اس کمالی کے ساتھ یونiiانی کی خصوصیات ہیں۔ موجودہ یونانی اناجی� میں �iiو� ہیں۔اناجیiiیات من وعن محفiiب خصوصiiب کی سiiمیں یہ س �ا ہے کہ اiiا گیiiرجمہ کیiiمیں ت لت اربعہ کی یونiiانی زبiiا� ایiiک ایسiiا شiiفاف پiiردہ ہے جس میں سiiے حضiiرت کلمتہ اللہ کے کلمiiا

آاتے ہیں ل� حال سے پکار کر کہتےہیں4طیبات نہای صفائی اور وضاح کے ساتھ نظر ، اور زبا کہ یونانی زبiiا� کے کلمiiات درحقیق وہی کلمiiات ہیں جiiو منجiiئی عiiالمین نے ارامی زبiiا� میں اپنے مبارک منہ سےفرمائے تھے۔ چنانچہ پروفیسر برکٹ کہتiiاہے " حقیق تiویہ ہے کہ اگiریہ معلiوم کرنا ہو کہ یونانی اناجی� میں کوئی خاص کلمہ سiiیدنا مسiیح کے منہ کiiا ہے تiو اس کی اصiiلی4

Page 109: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

۔ پس جب ہم1معلو م ہوجاتی ہے کیونکہ وہ یونiiانی سiiے اص�ii ارامی زبiiا� میں تiiرجمہ ہوسiiکتاہےل اناجی�ii کے مسiiئلہ پiiر زبiiا� کے لحiiا� سiiے غiiور کiiرتے ہیں تiiوہم بعینہ اسiiی نiiتیجہ پiiر صiiح پہنچiiتے ہیں جس پiiر ہم اناجی�ii اربعہ کے مضiiامین ، قiiدام ، اورخصوصiiیات پiiر بحث کiiرکے پہنچے تھے کہ روئے زمین کی کوئی کتاب صح اورپایہ اعتبار کےلحiiا� سiiے اناجی�ii کے ٹکiiر

کی نہیں ہے۔

باب پنجمباب پنجمل� اربعہ کی اص� زبا� ل� اربعہ کی اص� زبا�اناجی اناجی

وول کے بiiاب چہiiارم میں یہ ثiiاب کیiiا ہے کہ چشiiم دیiiد وول کے حصiiہ ا ہم نے جلiiد ا گواہوں کے بیانات صرف زبiiانی بیانiiات ہی نہ تھے جiiو نصiiف صiiدی سiiے زائiiد عرصiiہ تiiک سiiینہتوسری پش تک پہنچائے گئے تھے ۔ گذشتہ صiiفحات سiiے قiiارئین پiiر تپش سے د بسینہ ایک آایا ہوگا کہ یہ بیانات جiiو ارامی زبiiا� میں تھے اناجی�ii اربعہ کے ماخiiذ تھے اورکہ یہ یہ ظاہر ہوتا چلا ماخذ تحریری تھے کیونکہ حافظہ کےلئے یہ ناممکن ہے کہ انجیلی بیا� کے واقعات کو مسلس�آائے اور نہ بیانiiات کے لفظiiوں اور طiiورپر ایسiiا حفiiظ کiiرے کہ نہ توواقعiiات کی تiiرتیب میں فiiر� فقروں میں اختلاف واقع ہواور کہ ا� بیانات کے الفا� اور فقرے ایسiiی صiiح کے سiiاتھ سiiینہلم بلاغ نظiiام کی تمiام بسینہ دوتین پشiتوں تiک حفiiظ رہے ہiوں کہ حضiرت کلمتہ اللہ کےکلا خصوصیات اور صنعتیں وغيرہ محفو� رہیں۔ مثال کے طورپر مقiiدس مiiرقس کی انجی�ii کiiا بیiiا�

کے بعد بغیر کسی شک وشبہ کے ایک چشم دیiد گiواہ۳۲: ۱۰۔ اور 2ایک روزنامچہ کا سا ہے

1Foakes –Jackson and Kirsopp. Lake, The Beginnings of Christianity part 1 The Act of the Apostels. Vol 2 prolegomena 11 Criticism pp.106ff 2 J.T. Marshall, Expositor 1891-1893

آاگے بiiڑھ کiiر یہ کا بیا� ہے جو تاریخی لحا� سے سلسلہ وار مرتب کیا ہiiواہے۔ بلکہ ہم ایiiک قiiدم کے بعد یروشiiلیم کiiو جiiا� کiiا واقعہ مصiiنف۲۶: ۸کہہ سکتے ہیں کہ مقدس پطرس کے اقرار

کے ہمیشiiہ زیرنگiiاہ رہتiiاہے۔ اس کے بعiiد تمiiام واقعiiات ایiiک لiiڑی میں پiiروئے ہiiوئے ہیں جن ک آاخری منزل صلیب ہے۔ انسانی حافظہ کے لئے اس ترتیب کا اور ترتیب کے بیانات کا اوربیانiiات کے الفا� کا پشتوں تک سینہ بسینہ صiiح کے سiiاتھ محفiiو� رہنiiا اعجiiاز سiiے کم نہیں۔ پسآاچکے اناجی� کے ماخذ ارامی زبا� میں اناجی� کی تصنیف سے مدتوں پہلے احاطہ تحریiiر میں

تھے اوراناجی� کے مصنفوں کے ہاتھوں میں تھے۔(۲)

چiiونکہ حضiiرت کلمتہ اللہ اپiiنے یہiiودی سiiامعین کiiو ارامی زبiiا� میں تعلیم دیiiتے تھےوولین میں یہiiiودی مسiiiیحی لر ا اورانجی�iii نویسiiiوں کے سiiiامنے ماخiiiذ ارامی زبiiiا� میں تھے اور دو�iنی اناجیiدرتی ہے کہ وہ اپiiر قiکلیسیاؤں کے لئے اپنی اناجی� کو تصنیف کررہے تھے پس یہ ام

کو ارامی زبا� میں لکھتے۔ گذشتہ چالیس سالوں میں علماء کی تحقیiiق نے اس نiiتیجہ کiو نہiiای تقiiوی دی ہے کہ اناجی�ii پہلے پہ�ii ارامی زبiiا� میں لکھی گiiئی تھیں۔ یہ نظiiریہ ابتiiدا میں جے ٹی مارش�ii نے

تاس زمiiانہ میں مسiiیحی فضiiلاء۱۸۹۳ء تا ۱۸۹۱ایکس پوزیٹر کی ء کے نمبروں میں پیش کیiiا تھiiا۔تا� دنiiوں میں اس حقیق کiiا علم نے ارامی زبا� کا ایسا وسیع مطالعہ نہیں کیا تھiiا۔ علمiiاء کiiو آانخداوند کی بعث سے قب� صدیوں پہلے ارامی اہ� یہود کی ادبی زبا� تھی اور بہ کم تھا کہ ل� یہiiو دکی بعض iiانچہ اہiiاتی تھیں چنiiمیں ہی لکھی ج �اiiابیں ارامی زبiiئے کتiiاس کے لiiوام النiiع کتابوں کی نسب چالیس سال پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ پہلے پہ�ii عiiبرانی یiiا یونiiانی میں لکھی گiiئی تھیں لیکن اب یہ تسiiلیم کیiiا جاتiiاہے کہ وہ پہلے پہ�ii ارامی میں تصiiنیف کی گiiئی

تھیں ۔

Page 110: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

۔ " یہ ایiک حقیق ہے1ڈاکٹر برکٹ جیسے پایہ کا عالم اناجی� کی نسiب کہتiاہے�iiکے اثر سے بالک لس مضمو� اور ذہنی فضا کا تعلق ہے وہ یونانی کہ جہاں تک اناجی� کے نف پاک ہیں اوربادی النظر میں وہ ارامی اص� کا ترجمہ معلiiوم دیiiتی ہیں۔ ا� کے خصوصiiی موضiiوع اوربنیiiادی تصiiورات جس کے گiiرد اناجی�ii کے تصiiورات گھومiiتے ہیں سiiب کے سiiب کiiا تعلiiقاا سیدنا مسیح کی بادشاہ ، مسیح موعود کا تصور، عiiدال کiiا خداوند کے زمانہ سے ہے۔ مثلآاسما� کا خزانہ ، ابراہام کی گود وغیرہ سب کے سiب یہiiودی تصiiورات سiiے متعلiiق ہیں اور د�، رومی یونانی دنیا کے تصورات کا ا� تصورات سiiے کسiی قسiم کiiا کiوئی تعلiiق نہیں۔ چنiiانچہ ہملز قیiiام کiا ذکiر ملتiاہے۔ ہم کiو " آاتiا لیکن رو کو اناجی� میں" بقائے روح" کا مسiئلہ نظiiر نہیں نیکی" کا یونانی فلسفیانہ معیار نہیں ملتا لیکن خدا کی راس بازی کiا ذکiر ہے۔ ہم کiو" تiرکیہل� اربعہ iiنہیں ملتا لیکن گناہوں کی معافی کا تصور ہر جگہ موجود ہے۔ تمام اناجی �نفس" کا نشا تامiiور ثiiاب کiiرتے ہیں میں کفر ، شرک اور الحاد کے خلاف ایک لفظ بھی پایا نہیں جاتا "۔ یہ کہ اناجی�ii اربعہ میں یونiiانی کiiا شiiائبہ بھی نہیں پiiای جاتiiا ۔ تمiiام اناجی�ii میں ہiiر جگہ صiiرف

یہودی فضا ہی ہے اوراناجی� نے اسی ارامی فضا میں ہی پرور* پائی ہے۔ل� اربعہ ،سiiب کی سiiب پہلے2پروفیسر سی ۔ سی ٹوری کا یہ نظiiریہ iiیہ ہے کہ اناجی

پہ� ارامی زبiiا� میں لکھی گiئی تھیں جن کiا بعiد میں یونiانی زبiا� میں لفظی تiرجمہ کیiا گیiا۔وول لف ا iiکے ماہرین میں ص �ڈاکٹر ٹوری کوئی معمولی پایہ کا علم نہیں ہے بلکہ ارامی اوریونانی زبا

۔ جس کے علم کا لوہا تمام3کاعالم ہے۔ وہ ایک نہای زبردس زبا� دا� اورماہر علم اللسا� ہے ۔ حiق تiو یہ ہے کہ ٹiiوری4علماء مانتے ہیں۔ چنانچہ فiiوکس جیکسiن اورکرسiپ لیiiک کہiiتے ہیں

کی کتاب میں جو دلی� اناجی� کی زبا� سے متعلق ہے وہ مسiiتق� حیiiثی رکھiiتی ہے۔ اورجہiiاں تک اناجی� کے پہلے پہ�i ارامی زبiا� میں لکھے جiانے کiا تعلiق ہے اس کے نظiiریہ کےمخiiالفین

1 (b) Burkitt Earliest Sources .pp.29-302 Torrey Four Gospels and Our Translated Gospels.3 (b) W.F.Albright, The Archaeology of Palestine, P.1984 Op.Cit.p. 129

ل� iاب" اناجیiنی کتiر اپiذک �iا مفصiریہ کiiکے"۔ ہم اس نظiواب نہیں دے سiتاحال کوئ قطعی ج آایiiات کiiا نیiiا تiiرجمہ" میں کiiرچکے ہیں لہiiذا اس کiiو یہiiاں دہiiرانے کی اربعہ کی زبiiا� اور چنiiد ضرورت نہیں سمجھتے۔ ڈاکٹر ولہاسن جیسے علماء)جوارامی اوریونانی زبiiا� دونiiوں میں مiiاہر ہیں(تا� لوگiiوں سiiے چھiiپی تا� نکiات کiو ظiiاہر کردیiتی ہے جiiو کی تصانیف ہر شخص پر اناجی�ii کے

رہتی ہیں جو دونوں زبانوں سے واقف نہیں ہوتے۔آانحداونiiد نے اپiiنے سiiامعین کiiو ارامی زبiiا� میں مخiiاطب کیiiا تھiiا پس اگiiر وہ چiiونکہ آاپ کے فرمودہ کلمات کااص� مطلب جاننے کا خواہشمند ہے تو یہ لازم ہے کہ وہ یونانی شخص آاپ تا� اص� ارامی الفiiا� کiiو معلiiوم کiiرے جiiو ترجمہ کے الفا� کے پردے کے پیچھے جائے اور آاپ کے زمiiانہ کے خiiاص حiiالات لزادا کiiو جiiانے اور آاپ کے خیiiالات کی طiiر نے فرمiiائے تھے اورآاخiiر اورکیفیات کا جائزہ لے۔ ا� باتوں کا علم صرف یونiiانی تiiرجمہ سiiے نہیں ہوسiiکتا کیiiونکہ وہ

ترجمہ ہے اور اص� نہیں ہے۔ یہاں ہم اناجی� سے چند عام فہم مثالیں پیش کiiرتے ہیں جiiو ڈاکiiٹر ٹiiوری کے نظiiریہ پiiر

۔5روشنی ڈالتی ہیںل� اربعہ میں ایسے بعض ایسiiے الفiiا� اور فقiiروں کے حصiiے ہیں جiiو خiiالص ارامی اناجیل� متفقہ میں خiاص طiورپر پiائے جiاتے ہیں ۔ iiےبعض اناجیiمیں س �تے ہیں۔ اiق رکھiسے تعل �زبا

اا مiiتی آاکiiر ۔۔۔ ارامی زبiiا� کی۲۴: ۵مثل میں اردو تiiرجمہ کے الفiiا� کی تiiرکیب " جiiاکر ۔۔۔ نحiiوی تiرکیب کی ماننiiد ہے۔ لیکن یونiانی زبiiا� کے قواعiiد کے مطiiابق یہ تiرکیب غل�i ہے جس

آاکiر۔۔۔ پiاتی ہے")مiتی آانا " اور " جانا" کiو یکجiiا نہیں کیiiا جاسiکتا۔ " ("۴۴: ۱۲میں لفظ " آاکر ۔۔۔پہنچا" )لوقا۲۳: ۱۹آاکر لے لیتا" )لوقا آاکiiر سiiجدہ۲۳: ۲(" جابسا" )مiiتی ۲۵: ۱۵(" ")

آائی ۔۔۔گری" )مرقس ۲۵: ۱۵کیا")متی (۔ یہ ترکیب ارامی محاورہ کے مطiiابق ہے" بھiiیڑ۲۵: ۷(" ( ارامی )اور اردو( محiiاورہ کے مطiiابق ہے۔ لیکن یونiiانی۳۶: ۱۳کو چھوڑ کر گھiiر میں گیiiا")مiتی

اا" چھiiوڑ کiرچلے گiئے" )مiiتی ۔۲۲: ۲۲زبا� کے محاورہ کے مطابق" چھوڑنا" زائiد" ہوجاتiiاہے مثل5 G.Dalman, The Words of Jesus pp.2-42

Page 111: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

( "بیٹھ کر ۔۔ جمع کرلیں")مiiتی۳۶: ۴۔ مرقس ۱۷: ۲۱۔ ۴: ۱۶۔ متی ۱۳: ۸۔ ۱۲: ۱۲مرقس :۱۴( " بیٹھ کiر ۔۔۔ حسiاب نہ کiرے")لوقiا ۳: ۱۴(۔ بیٹھ کر ۔۔ تعلیم دیiنے لگiا")لوقا۴۸: ۱۳ (۔ یہ تiiرکیب۶: ۱۶(" بیٹھ کiiر لکھ دے")لوقا۳۱: ۱۴(۔ " بیٹھ کر ۔۔ مشورہ نہ کرے")لوقiiا ۲۸

ارامی )اور اردو محاورہ کے مطابق درس ہے لیکن یونانی میں " بیٹھiنے" کiا ذکiر زاوئiد میں سiےیی ہذا القیاس متی وغiيرہ میں دعiا کiرتے وق ۱۱: ۱۸۔ لوقiا ۲۵: ۱۱۔ مرقس ۵: ۶ہوجاتا ہے۔ عل

۔۱: ۱۰"کھڑے ہونے" کا ذکر ارامی محiiاورہ اوریہiiودی دسiتور کے مطiابق ہے" اٹھ کiر" )مiرقس وغیرہ(۔ ارامی )اور اردو( زبا� کے محiiاورے کے مطiiابق۳۹: ۴۔ ۳۹: ۱۔ ۲۰: ۱۵۔ لوقا ۵۰: ۱۰

ہے لیکن یونانی زبا� کے محاورہ کے مطابق یہ غیر ضروری الفا� ہیں۔ عبرانی زبiا� کے محiاورہ کے مطiابق" فلاں نے کہiا" کی بجiائے" فلاں نے جiواب میں

:۱۳۔ ۷: ۱۱۔لوقiiا ۴۵، ۴۴، ۴۰، ۳۷، ۲۶، ۱۲: ۲۵۔ ۳۰تiiا ۲۹: ۲۱کہiiا" بiiولا جاتiiاہے)مiiتی آایiiا ہے جہiiاں کiiوئی۲۸: ۷۔ مiiرقس ۲۹: ۱۵۔ ۲۵ وغiiیرہ(۔ بعض اوقiiات یہ ایسiiے مقامiiات میں

۔ مiرقس۱۴: ۱۳۔ ۶۰: ۱۔ لوقiا ۱۷: ۵سوال مiذکور نہیں اوریہ ارامی زبiا� کiا محiiاورہ ہے )یوحنiا وغیرہ(۔ چونکہ اردو زبiiا� میں ایسiے مiوقعہ پiر" جiواب۴: ۱۷۔ ۲۵: ۱۱۔ متی ۱۴: ۱۱۔۵۱: ۱۰

تتب میں لد عiiتیق کی ک iiا ہے۔عہiiا گیiiرجمہ کیiا" تiiاں" کہiiاا اردو میں یہ دیا" نہیں کہتے لہذا عموم اس عبرانی محاورہ کا جب سیپٹواجنٹ میں ترجمہ کیاگیا تو وہiiاں لفظی تiiرجمہ" جiiواب دیiiا" کیiiا گیا ہے جس طرح یونiiانی اناجی�ii میں کیiiا گیiiا ہے کیiiونکہ )جیسiiا ہم بتلاچکے ہیں ( سiiیپٹواجنٹ

کا ترجمہ ایک نمونہ تھا جس کی اناجی� کے مترجموں نے تقلید کی ہے۔آایiاہے)مiتی ۔۱۸: ۲۸۔ ۱: ۲۳ارامی زبiا� کiا محiiاورہ" بiولا اورکہiiا" یونiانی اناجی�i میں

وغيرہ( جویونانی )اوراردو( زبا� کے محiiاورہ کے خلاف ہے۔ یہی وجہ۳: ۱۴۔ لوقا ۲۶: ۱۲مرقس ہے کہ اردو ترجمہ میں "بولا اورکہا" یا " بول کiiر کہiiا" نہیں لکھiiا گیiiا بلکہ صiرف لفiiظ" کہiiا"

اا یوحنا آایا ہے مثل میں " مخاطب ہوکرکہiiا" لکھiiا گیiiا ہے تiiاکہ۱۲: ۸یااس کاکوئی مترادف لفظ اردو زبا� کا بامحاورہ ترجمہ ہو۔

ارامی زبا� کا محاورہ " شروع کیا" کا اناجی� اربعہ کی یونانی میں لفظی ترجمہ کیا گیا ۔یہ محاورہ مiiتی میں۵: ۱۳ہے حالانکہ یونانی زبا� کے محاورہ کے مطابق وہ بے معنی ہے)یوحنا

تاس مقiام۲۶ دفعہ اور لوقا میں ۲۶ دفعہ ، مرقس میں ۱۲ آایiا ہے ۔ اردو تiرجمہ میں یہ صiرف مرتبہ :۱۴میں ترجمہ کیا گیا ہے جہاں وہ اردو زبا� کے محاورہ کے مطابق ہے۔ دیگiiر مقامiات )لوقiا

۔ وغیرہ(۔ میں مترادف الفا� استعمال کئے گئے ہیں یا یہ محاورہ حذف کیا گیiiا۲۴: ۱۸۔ متی ۹(۔۹: ۱۴ہے')لوقا

اا' ، " فی الفiiور" وغiيرہ ل� اربعہ کے نiاظرین نے یہ ملاحظہ کیiا ہوگiا کہ الفiiا�" فiiور iiاناجی �iiانچہ انجیiiوتے چنiiوم نہیں ہiiوزوں معلiiبعض اوقات ایسے مقامات میں وارد ہوئے ہیں جہاں وہ م

آائے ہیں۔۷دفعہ اوریوحنiiا میں ۸ مiiرتبہ ۔ لوقiiا میں ۱۸ دفعہ ، مiiتی ۴۵مiiرقس مiiںی مقامiiات میں یونiiانی تiiرجمہ اناجی�ii میں اس ارامی لفiiظ کiiا لفظی تiiرجمہ کیiiا گیiiا ہے لیکن اردو تiiرجمہ میں

مختلف الفا� سے کام لیا گیا ہے۔لف سiiiماوی میں ارامی الفiiiا�" اورایسiiiا ہiiiوا" عiiiبرانی محiiiاورہ بھی ہے اورعiiiبرانی صiiiحلف جار اور مصدر اور ضمیر آاتاہے۔ ا� کتب کی عبرانی کی طرح بعض اوقات اس کے بعد حر اکثر

آایiiاہے۴۲دفعہ اور لوقiiا میں ۴بار ۔ مرقس میں ۶شخصی بھی موجود ہے۔ یہ محاورہ متی میں دفعہ لیکن انجی�i چہiiارم میں یہ الفiiا� پiائے نہیں جiاتے۔ یہ محiiاورہ یونiiانی زبiiا� کiا نہیں ہے اوریہiiا ں

ارامی کا یونانی میں لفظی ترجمہ کیا گیاہے۔ :۱۳ارامی الفا�" جب بورہا تھا" کا یونانی اناجی� میں لفظی ترجمہ کیiiا گیiiا ہے )مiiتی

( جویونانی نحو کے خلاف ہے۔ اردو زبا� میں فقرہ کی یہ ساخ بھدی معلiiوم۴: ۴۔ مرقس ۴ دیتی ہے اوریہی وجہ ہے کہ اردو مiiترجمین نے اس کiiا تiiرجمہ" بiiوتے وق " کردیiiا ہے۔ لیکن ارامی

کی یونiانی۳۶: ۹۔ ۴۰: ۸میں فقرہ کی ساخ نحو کی روسiے صiحیح ہے۔ یہی سiاخ لوقiا میں جہاں ارامی کا یونانی میں لفظی ترجمہ کردیا گیا ہے ۔

Page 112: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

میں دولتمند اپنی " جiiا�" کiiو مخiiاطب کرتiiاہے۔ یہ ارامی محiiاورہ ہے جiiو۱۹: ۱۲لوقا آایا ہے اور اس کالفظی ترجمہ یونانی میں کیا گیا ہے۔ ۱۹: ۲۱ میں بھی

آایiiاہے اور مفعiiول" جiiو قت�ii کiiرتے ہیں"۴: ۱۲لوقا لف جiiار میں فع�" ڈرو" کے بعد حرل اضiiافی میں ہے اور یہ ارامی زبiiا� کی خصوصiی ہے جس کiو یونiiانی لفظی تiرجمہ میں حiال

بحال رکھا گیاہے۔ تامیiiد ہے کہ مiiذکورہ بالاچنiiد مثiiالوں نے اناجی�ii کے یونiiانی تiiرجمہ کی حقیق ہمیں اوراہمی کiو نiاظرین پiر واضiح کردیiا ہوگiا۔ انجی�i کے مiترجمین نے نہiای صiح کے سiاتھ ارامی الفا� کا لفظی یونانی ترجمہ کرکے اص� متن کو قائم رکھا اوراس بات کی پرواہ نہ کی کہلد صiرف ونحiو اورمحiiاورہ کے مطiiابق ہے یiا کہ نہیں۔ iiکے قواع �اiکا یونانی ترجمہ یونانی زب �آایا ا جب ہم اس کا اردو ترجمہ کے سiiاتھ مقiiابلہ کiiرتے ہیں تiiو یونiiانی تiiرجمہ کی صiiح ہم پiiراچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کیiiونکہ اردو کے مiiترجمین نے یونiiانی مiترجمین کی طiiرح لفظی تiiرجمہ

نہیں کیا اوراردو زبا� کی ترکیبوں اورمحاوروں کو ہمیشہ مدنظر رکھاہے۔ جiiو علمiiاء ڈاکiiٹر ٹiiوری کے نظiiریہ کی مخiiالف کiiرتے ہیں وہ کہiiتے ہیں کہ یہ مثiiالیں صiiرف یہ ثiiاب کiiرتی ہیں کہ اناجی�ii کے ماخiiذ ارامی زبiiا� میں تھے جن کiiا یونiiانی میں لفظی ترجمہ کیا گیا ہے لیکن وہ یہ ثاب نہیں کرتیں کہ اناجی� پہلے پہ� ارامی زبiiا� میں لکھی گiiئی

تھیں۔ ثبiوت یہ ہے کہ بعض مقامiات میں ارامیiبوط اور زبردسiڈاکٹر ٹوری کا سب سے مض کاغل� ترجمہ یونانی زبا� میں کیا گیiiا ہے کیiiونکہ ارامی عبiiارات میں اعiiراب نہیں تھے اورالفiiا� پر زیر، زبر، یا پیش وغیرہ لکھی نہیں جاتی تھی۔ علاوہ ازیں ارامی عبارات لکھتے وق مختلف الفا� میں کiوئی جگہ چھiiوڑی نہیں جiiاتی تھی اورالفiiا� کے حiروف جiiداگانہ لکھے جiiاتے تھےآاخری حiiرف کiiو جس کی وجہ سے اناجی� کے مترجم نے بعض اوقات ایک لفiiظ کے پہلے یiiا اس کے ساتھ کے حرف سے ملادیا۔ مثiiال کے طiiورپر اگiiر ہم پچھلی سiiطر کiiو یiiوں لکھیں" ج

س ک ی و ج ہ س ے ا� اج ل ک م ت ر ج م � ے ب ع } ا و� ات ای ک ل ف � ک ے پ ہ ل ی ا ا خ ری ح رف ک و اس ک ےس ا ت ہ ک ے ر ف س ے م ل ا و ی ا " تو قارئین میں سiے کتiنے اس فقiرے کے صiحیح طiiورپر پiڑھ کiر اس کiا کسiی غiیر زبiا� میں لفظی تiiرجمہ کرسiiکیں گے؟ ڈاکiiٹر ٹiiوری کہiiتے ہیں کہ اناجی�ii کے مiiترجموں نے بعض اوقiiات عبارت کو غل� پiڑھ کiر اس کiا یونiانی میں لفظی تiرجمہ کردیiا۔ بعض اوقiات ایiک حiرف غلطی سے دوسرا حرف پڑھاگیا۔ بعض اوقات اعراب کی غلطی سے ترجمہ غل�ii ہوگیiiا۔ ڈاکiiٹر موصiiوف

۔( متن۲۔( تiiرجمہ کiiرنے میں زبiiا� کی غلطیiiاں۔ )۱بتلاتے ہیں کہ یہ اغلاط چھ قسiiم کی ہیں۔) ۔( لفظی تiرجمہ۳کے اعراب کی عدم موجودگی کی وجہ سے اورکتاب کی وجہ سiے غلطیiiاں۔ )

۔(ارامی اسiiمائے ضiiمیر کiو نہ سiiمجھنے۴کا حد سے زیادہ لحا� رکھنے کی وجہ سے غلطیiiاں۔) ۔( ارامی استفہا میہ فقروں کو شiناخ نہ کiرنے کی وجہ سiے غلطیiاں اور۵کی وجہ سے غلطیاں)

لف عطف کے بغیر شروع ہونے کی وجہ سے مختلiiف فقiiروں کiiو صiiحیح۶) ۔( ارامی فقروں کا حر طورپر الگ الگ نہ کرنے کی وجہ سے غلطیاں سرزدہوئی ہیں۔ ڈاکٹر ٹiiوری کے علاوہ دیگiiر علمiiاءاا پروفیسiر مین سiن کہتiاہے کہ آایiات میں مiترجم کی غلطیiiاں بتلائی ہیں مثل نے بھی چند یونانی

میں جو لفظ " ہوشعنا" استعمال ہوا ہے وہ ایک "۱۳: ۱۲ اوریوحنا ۲۱: ۹ اورمتی ۱۰: ۱۱مرقس زندہ باد" کی قسم کا نعرہ یا جیکiار ہے لیکن مiتی کی یونiانی سiے ظiاہر ہے کہ اس کے یونiانی

ڈاکiٹر ٹiوری نے اس قسiم کی1مiترجم نے اس مقiiام کی عiiبرانی یiاارامی زبiا� کiو نہیں سiمجھا متعدد غلطیاں ثاب کرکے ا� کی قرات کو صحیح کiiرکے ا� کiiا دوبiiارہ تiiرجمہ کیiiا ہے۔ ہم نےاا آایات کا نیا ترجمہ" میں ڈاکٹر صاحب کی تقریب اپنی کتاب" اناجی� اربعہ کی اص� زبا� اور چند

مثiiالیں پیش کی ہیں پس ہم نiiاظرین کی تiiوجہ اس رسiiالہ کی جiiانب مبiiذول کiiرنے پiiر اکتفiiا۵۰ کiiرتے ہیں۔ اس کتiiاب سiiے ثiiاب ہوجاتiiاہے کہ ڈاکiiٹر ٹiiوری کiiا نظiiریہ ا� مقامiiات کی مشiiکلوںتتب آاسiiانی سiiے سiiلجھا دیتiiاہے۔ ڈاکiiٹر ٹiiوری صiiاحب موصiiوف کی ک اورپیچیiiدگیوں کiiو نہiiای ثاب کردیتی ہیں کہ اس قسم کے مقامات چاروں کی چiاروں انجیلiوں میں پiائے جiاتے ہیں جس1 (b) Mission & Message of Jesus p.139

Page 113: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

سے وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ یہ چiiاروں انجیلیں پہلے پہ�i ارامی میں لکھی گiiئی تھیں جنکا بعد میں یونانی زبا� میں لفظی ترجمہ ہواہے۔

اہ نہای کم ہیں چنانچہ ہم نے اپنے مiiذکورہ بiiالا رسiiالہ آایات مقابلت لیکن اس قسم کی آایات کا ذکر کیiiا ہے۔ جب ہم اس امiiر کiiا لحiiا� رکھiiتے ہیں کہ اناجی�ii اربعہ اا پچاس میں تقریب

آایات کے ترجمہ کے کسی ایک لفiiظ کiiا۳۷۷۸میں آایات میں سے پچاس آایات ہیں توا� ہزاروں آایiiات میں سiiے ایiiک ل� غiiور ہے کہ ا� غل� ہونا کوئی تعجب خیز امر نہیں ہوسکتا۔یہ امر بھی قاب آای بھی ایسی نہیں جس کے الفا� کے غل� ترجمہ کا اثر مسیحی عقائد پر پڑ سکے اورہم کiiو ہر گز ہرگز یہ فرامو* نہیں کرنا چiاہیے کہ یہ غلطیiاں اص�i ارامی اناجی�i میں نہیں ہیں بلکہ ا�

لن اناجی� نے بعض الفا� کو ترجمہ کرتے وق کیں۔ کے یونانی ترجمہ میں ہیں جو مترجمی(۳)

سطور بiالا میں ہم نے اناجی�i کی انiدرونی شiہادت سiے ہی کiام لیiا ہےاور اناجی�i کی یونiiانی زبiiا� کی خصوصiiیات سiiے یہ ثiiاب کیiiا ہے کہ وہ پہلے پہ�ii ارامی زبiiا� میں لکھی گiiئی اا بہ تھیں۔ اب ہم خارجی شہادت کی جانب رجوع کرتے ہیں جس کی طرف علماء نے نسiiبت�iiادہ اناجیiiاہے کہ کم از کم دویازیiiہوجات کم تiiوجہ دی ہے۔ اس خiiارجی شiiہادت سiiے یہ ثiiاب

ل} مقدس میں مروج تھیں۔ ارامی زبا� میں یروشلیم کی بربادی سے بہ پہلے ار جارج ایف ۔مور کہتاہے " یہ حقیق ایسی عیاں ہے کہ ہم بلاثبiiوت دئے اس بiiات کiiو تسلیم کرسکتےہیں کہ قدیم اناجی�ii کی زبiiا� ارامی تھی اورکہ) مسiiیحی کلیسiiیا( ا� نiiئی کتiiابوں

( تسiلیم کiiرتی تھی۔ جiiو یہiiودی مسiیحی مصiiنفین نے۱۰: ۱۹کiو الہiiامی" نبiiوت" )مکاشiiفات لف سماوی کی توسیع کے طورپر لکھی تھیں"۔ یوحنا لل۹: ۱۸عبرانی صح سiے ظiiاہر ہے کہ رسiو

تتب کی طرح الہامی مانتے تھے۔ لد عتیق کی ک خداوند کے کلمات کو عہ

۔ یہ قاب� مصiiنف1اس مرحوم مصنف کے ایک مضمو� کا ہم ذی� میں اقتباس دیتے ہیں لکھتiاہے " ابتiدائی منiازل میں جiو بحث نوشiتوں سiے متعلiق ہے)بالخصiiوص اکلی زیس طیس اورآاستر اوسیرک کی کتابوں کی باب اس میں " اناجی�" کو خاص طورپر خارج کیiiا غزل الغرلات اور�iiتوں" میں داخiiنوش " ،"�iiے پہلے یہ " اناجیiiنی یہ ہیں کہ اس سiiریح معiiا ہے جس کے صiiگی

میں مiiذکور ہے۵: ۱۳ اور توسiiینفتا سiiب ۱۳: ۲تھیں۔ یہ بiiات صiiاف طiiورپر تiiو سiiینفتائدائیم تتب سے خiiارج ہیں۔ اگiiرچہ ا� جہاں اس سوال کے جواب میں صاف لکھاہے کہ اناجی� اسی کاا طیطس iiو غالبiا ہے جiک میں خدا کا نiام لکھiiاہے۔۔۔۔ قiiدیم تiریں ذکiر یوحنiا بن زکی کے وق

کی جنگ سے پہلے کا ہے"۔ " مذکورہ بالا اقتباس سے ظاہر ہے کہ اس زمانہ سے پہلے یسوع ناصری کے پiیرو وفiادار یہودی شمار کiئے جiاتے تھے اگiرچہ یہ خیiال کیiا جاتiا تھiا کہ وہ ایiک نiئے اور غل�i طریiق کی پیروی کررہے ہیں۔ ا� کی " اناجی�" کiiو عiiزت وتکiiریم کی نگiiاہ سiiے دیکھiiا جاتiiا تھiiا۔ وہ دیگiiر

تروم۶۰یہود کی طرح عبادت خانوں کی عبادت میں حصہ لے سکتے تھے۔ چنiiانچہ ء کے قiiریب کے یہودی رئیسوں نے پولوس رسiول کiو کہiا تھiiا " نہ ہمiارے پiاس یہiiودیہ سiے تiیرے بiارے میںآاکر تیری کوئی خiiبردی ہے اورنہ بiiرائی بیiiا� کی ہے۔ آائے ہیں اورنہ بھائيوں میں سے کسی نے خ� مگر ہم مناسب جiانتے ہیں کہ تجھ سiے سiنیں کہ تiیرے خیiالات کیiا ہیں کیiونکہ اس فiiرقہ کی

(۔ لیکن۲۲تiiا ۲۱: ۲۸باب ہم کiiو معلiiوم ہiiواہے کہ ہiiر جگہ اس کے خلاف کہiiتےہیں")اعمiiال لگ دلی سiے تبiiدی� iئے اور یہ رواداری تنiقدم اٹھائے گ بعد میں نئے حالات پیدا ہوگئے اور سخ

ہوگئی۔ " گملی ای� دوم یوحنا کا جانشین تھا۔ اس نے اپنے وق کی مروجہ دعا میں یہ ایزادی

ء کےلگ بھگ ہوا۔۸۰کروائی کہ" خدا بدعتیوں کو تباہ اور برباد کرے" یہ

1 G.F.Moore,”The Repudiation of Christian Scriptures in Essays in Modern Theology and Related Subjects. Quoted in the Beginning of Christianity Vol.1 pp. 318-320

Page 114: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

" دوسری صدی کے دوسرے تیسرے عشiرے میں دونiوں کے تعلقiiات زیiادہ کشiیدہتا� کی ل� یہiiود کے اکiابرین اسiماعی� ، عقیبہ، تiارفو�، یوسiiی گلی�ii وغiيرہ بiدعتیوں اور iiئے۔ اہiiہوگ لب مقدسہ کے خلاف ایسی درشتی سiے زبiا� درازی کiرتے ہیں جس سiے ظiiاہر ہے ہوجاتiاہے تت ک

کہ دونوں کے تعلقات بد سے بدتر ہوکر نہای خراب ہوچکے ہیں "۔ آافا� کتiiاب کے ایiiڈیٹر لکھiiتےہیں" یہ شiiہادت نہiiای اس اقتباسات کے بعد اس شہرہ اہم ہے۔ اس میں جن" اناجی�" کا ذکر ہے وہ ہماری موجودہ یونانی اناجی� نہیں ہوسiiکتیں۔ پس یہ نہای قدیم اور بلاواسطہ زبردس شہادت اس حقیق کو ثاب کرتی ہیں کہ اناجی� ارامی زبiiا� میں موجود تھیں"۔ ٹوری کہتاہےکہ طiiالمود میں ایiک مقiiام موجiiود ہے جس سiiے ثiاب ہوتiiاہےکہ پہلی صiدی کے نصiiف کے کچھ عرصiiہ بعiiد یروشiiلیم میں ارامی انجیلیں موجiو دتھیں۔ پروفیسiر جی۔ایiiف۔مiiور نے اس حقیق کiiو بے نقiiاد کردیiiا ہے ۔ چنiiانچہ یہiiودی ربی یiiونتن بن زکی کےتب نہیں ہیں۔ فتiiوے کے الفiiا� ہیں کہ ناصiiری" انجیلیں" اور " ابن سiiیرا کی امثiiال" الہiiامی کت جس سے ثاب ہے کہ اس قدیم زمانہ میں کم ازکم مرقس اور متی کی " اناجی�ii" ارامی زبiiا� میں

۔1موجود تھیں پس یہودی تحریرات سےارامی اناجی� کے وجودکiiاثبوت ملتiiاہے۔ ا� سiiے پتہ چلتiiاہے کہ

آاخiری تیسiرے حصiے میں ) ل� یہود کے اکابرین نے پہلی صدی کے ء کے بعiد( اور دوسiری۶۶اہتتب قرار نہ دینے کiا سiوال اٹھایiا صدی کے شروع میں اناجی� کے تسلیم کرنے یا ا� کو الہامی ک تھا۔ یہ اناجی� یہودی حلقوں اور مسiiیحی کلیسiiیاؤں میں )جن کے شiiرکاءکی اکiiثری اس وق

یہودی مسیحیوں پر مشتم� تھی (ارامی زبا� میں مروج تھیں۔اا مطiiالعہ کiiرکے ا� کی اص�ii زبiiا� کiiا پتہ لگiiانے کی اا فiiرد اب ہم ا� اناجی�ii کiiا فiiرد

کوشش کرتے ہیں۔

1 F.V.Filson Origin of the Gospels pp.75-76

وول وولفص� ا فص� امقدس مرقس کی انجی� کی اص� زبا�مقدس مرقس کی انجی� کی اص� زبا�

وول اورحصہ سوم کے بiiاب سiiوم کiiا وول کے حصہ دوم کے باب ا جن اصحاب نے جلد اتا� پiر یہ حقیق ظiiاہر ہوگiئی ہiوگی کہ انجی�i مiرقس کiا آاخر تک بغiور مطiiالعہ کیiا ہے شروع سے وولین کiiا ایiiک یہiiودی تھiiا جس نے یہ انجی�ii یہiiودی مسiiیحیوں کی خiiاطر ایسiiے لر ا مصiiنف دول} مقدس سے ہی تھا۔ ہم اس حصiہ میں ثiاب کiرچکے ماخذوں سے تالیف کی جن کا تعلق ار

ہیں کہ یہ ماخذ ارامی زبا� میں تھے۔ قیاس ہی چاہتاہے کہ قدیم ترین انجی� ارامی زبا� میں لکھی گئی ہو کیونکہ یہ قدرتیتاسی زبا� میں لکھی جائے جس میں سیدنا مسیح تعلیم دیiiتے تھے امر ہے کہ یہ قدیم ترین انجی� اورجس کو یہود سمجھتے تھے اور وہ اسی مقصد کی خاطر لکھی گئی تھی کہ یہودی مسiiیحی سیدنا مسیح کی تعلیمات اورحالات سے واقف ہوں اور ا� کiو دوسiرے لوگiوں تiک پہنچiائیں جiو

آائے ہیں ۔2یہودی تھے تاکہ وہ بھی مسیح موعود پر ایما� لے ناظرین خود خیال کرسکتے ہیں کہ جب تعلیم دینے والے کی زبا� ارامی ہiiو ، تعلیم کiiا وسیلہ ارامی زبا� ہو ، جن کو تعلیم دی جائے وہ ارامی بولتے ہوں، ا� کے بیانات ارامی میں ہiiوں، ا� ارامی ماخذوں کو تالیف کرنے والا ارامی بولتاہو، جن کی خاطر وہ اپiiنی انجی�ii تiiالیف کرتiiا ہiiو وہ ارامی بولتے ہوں تو یہ ایک غیر فطرتی بات ہوگی کہ وہ اپنی انجی�ii کiو یونiانی زبiا� میں لکھے جو نہ تعلیم دینے والے کی زبا� تھی، نہ تعلیم کا وسیلہ تھی، نہ سامعین کی مادری زبا� تھی، نہتا� کی زبiا� تھی جن کی خiiاطر ماخذوں کی زبا� تھی نہ انجی� کے مولiiف کی زبiا� تھی اور نہ ل� سلیم کا یہی تقاضہ ہے کہ یہ قدیم ترین انجلی ارامی میں لکھی یہ انجی� لکھی گئی ۔ پس عق

گئی ہو۔

2 Dalman The Words of Jesus p.16

Page 115: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

اندرونی شہادت بھی اسiiی بiiات کی گiiواہی دیiiتی ہے کہ یہ انجی�ii پہلے پہ�ii ارام زبiiا� میں لکھی گئی تھی۔ ہم گذشتہ ابواب میں اناجی� کی یونانی زبiا� پiر بحث کiرکے اس نiتیجہ پiر

( کہ اس انجی� کے ماخذ ارامی زبiiا� کے1پہنچ چکے ہیں )جس پر تمام علماء اورنقاد متفق ہیں تھے۔ ہم نے اناجی� کی یونانی زبا� کی خصوصیات پر ایiiک اجمiiالی نظiiر ڈال کiiر یہ ثiiاب کیiiا�iiانچہ جب ہم انجیiiاورے ارامی ہیں۔ چنiiرکیب اور محiiوی تiiروں کی نحiiانی فقiiکے یون �ا کہ اiiتھ مرقس کا مطiiالعہ کiرتے ہیں تiiو ہم پiiر یہ ظiiاہر ہوجاتiاہے کہ اس حقیق کiiا اطلا� اس انجی�ii کےآارچ ڈیکن ایلن جیسا عالم کہتiiاہے کہ موجiiودہ یونiiانی تمام حصوں پر ہوتا ہے جس کی وجہ سے

ل� مرقس کا ترجمہ ہے کہ" مiرقس کی انجی�i کی خصوصiی لاعطفی ہے2انجی� اص� ارامی انجی اوراس میں یہ خصوصی نہ صرف سiیدنا مسiیح کے اقiiوال میں پiائی جiاتی ہے بلکہ ا� مقامiات

میں بھی پائی جاتی ہے جوبیانات اور واقعات پر مشتم� ہیں"۔آایiات کiiا نیiiا تiiرجمہ۲) ل� اربعہ کی زبا� اور چند ۔( جن اصحاب نے میری کتاب" اناجی

تا� پر یہ ظاہر ہوگیا ہوگاکہ انجی�ii مiرقس کے متعiiدد مقامiiات کے یونiiانی تiiرجمہ " کا مطالعہ کیاہے �iiپہلے پہ �iiکرتی ہیں کہ یہ انجی میں مختلف وجوہ کے باعث جو غلطیاں موجود ہیں وہ یہ ثاب

۔3ارامی میں لکھی گئی تھی ۔( اس حصہ کے باب دوم میں ہم نے انجی� مرقس کے مختلف مقامات سے مثiiالیں۳)

دے کر یہ ثاب کیاہے کہ ا� میں ارامی زبا� کی مختلف صنعتیں پائي جاتی ہیں ، متiiوازی کیچند اورمثالیں ملاحظہ ہوں جو اس انجی� میں ہیں:

۔( ہم جانتے ہیں کہ تو سچا ہے۱)اورکسی کی پروا ہ نہیں کرتا

آادمیوں کے چہرے کو نہیں دیکھتا کیونکہ تو

1 F.V.Filson Origin of the Gospels .p.712 Allen,St Mark (Oxford Church Biblical Commentary),Preface and Introduction.3 Black Aramaic Approach Ch.IX p. 206-207

بلکہ سچائی سے خدا کی راہ کی تعلیم دیتاہےپس قیصر کو جزیہ دینا روا ہے یا نہیں؟

(۱۲:۱۴)مرقس کیا ہم دیں یا نہ دیں؟۔( فقہیوں سے خبردار رہو۲)

جولمبے جامے پہن کر پھرناپسند کرتے ہیں اوربازاروں میں سلام

یی کرسیاں اورعبادت خانوں میں اعلاور ضیافتوں میں صدر نشینی

جوبیواؤں کے گھروں کا شکار کرتے ہیں اورطوی� بلاطائ� دعائیں مانگتے ہیں

(۔۴۰تا ۳۸: ۱۲)مرقسا� کی سزا زیادہ سخ ہوگی اا۴) ۔(ارامی زبا� میں ایک ہی بات کو پھر دہرایا جاتاہے۔ مثل

(۔۱۹: ۱۳"خلق کے شروع سے جس کو خدا نے خلق کیا")مرقس "تو ا� کاموں کو کس اختیار سے کرتiiاہے یiiا کس نے تجھے یہ اختیiiار دیiiاکہ

(۔۲۸: ۱۱ا� کاموں کو کرے" )مرقس تا� کے ساتھ ہے۔۔۔جس وق تک دولہا ا� کے ساتھ "براتی جب تک دولہا

(۔۱۹: ۲ہے )مرقس (۔ کے اص� ارامی کے یونiiانی۳۵: ۱وہ اٹھ کر نکلا۔۔۔۔ اورباہر گیا") مرقس

ترجمہ کے الفا� کے معنی ہیں" وہ باہر گیا اور چلا گیا" جو بھدا ترجمہ ہے لیکن لفظی ہے!اا ۔۵) آاتاہے ۔ مثل ۔( امر کی بجائے جملہ شرطیہ کا استعمال بھی ارامی زبا� میں

آانا چاہے ۔۔۔پیچھے ہولے")مرقس (۔۳۴: ۸ "اگر کوئی میرے پیچھے

Page 116: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

(۶ ۔( انجی�ii کی یونiiانی میں مختلiiف ضiiمائر کiiا اسiiتعمال بھی ارامی اص�ii کiiو ثiiابکرتاہے۔

وغiیرہ بھی ارامی زبiا� کے محiiاورہ کے مطiابق۴۰، ۳۹، ۷: ۶۔( اعداد کو دہرانiا ۔ ۷)ہے۔

اا اس۸) ۔( جملوں میں فع� کا استعمال بھی ارامی نحiiوی تiiرکیب کے مطiiابق ہے۔ مثلآائے ہیں۔ چنiiانچہ غiiیر مکم�ii افعiiال دفعہ اور۲۲۸انجی� میں باربار فع� حال اورغیر مکم� افعال

مرتبہ استعمال ہوئے ہیں۔ ہم اس ارامی نحوی ترکیب کا اندازہ لگاسکتے ہیں جب۱۵۱فع� حال لد نظiiر رکھiiتے ہیں کہ iiو مiiات کiiال ۱ہم اس بiiح �iiاب میں بھی فعiiلاطین کی کتiiرتبہ۱۵۱سiiم

۔ یہ نحiiوی تiiرکیب1استعمال ہواہے۔ حالانکہ وہ کتاب مرقس کی انجی� سے دگنی سے زیادہ ہے یونانی زبا� کے نحو کے مطابق نہیں ہے، کیونکہ اس انجی� میں صiiیغہ حاضiiر کے ذریعہ گذشiiتہ واقعات کو بیا� کیا گیا ہے ۔ سiرجا� ہiiاکنس نے یہ ثiاب کردیiاہے کہ اس قسiم کiا صiیغہ حiiالاا یہ صiiیغہ ہiiر صiiفحہ میں نiiو یiiا دس ل� مiiرقس میں اوسiiط آایاہے لیکن انجی سیپٹواجنٹ میں شاذونادر

۔یہ نکتہ نہای اہم ہے کیونکہ اس سے ثاب ہوتاہے کہ مرقس کی انجی� کی2مرتبہ استعمال ہواہے یونiiiiانی زبiiiiا� کی نسiiiiب یہ نہیں کہiiiiا جاسiiiiکتا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کiiiiا مصiiiiنفل� سیپٹواجنٹ کی یونانی پڑھنے کا عادی تھا۔ سرجا� ہاکنس نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اناجی�iiر ہے۔ انجیiiے کم اثiiکا سب س �متفقہ میں سے انجی� مرقس کی یونانی پر سیپٹواجنٹ کی زبا متی کی یونانی پر اس سے زيادہ ہے اورانجی� لوقiiا کی یونiiانی پiiر سiiب سiiے زيiiادہ اثiiر ہے۔ پس یہ نکتہ صاف ثاب کرتاہے کہ انجی� مرقس پہلے پہ� ارامی زبا� میں لکھی گiiئی تھی اوراس کiiا لفظی تiiرجمہ یونiiانی زبiiا� میں کیiiا گیiiا اوراس کی یونiiانی زبiiا� سiiیپٹواجنٹ کی مرہiiو� نہیں ہے۔ل} مقiiدس کiا رہiنے والا خiالص اورکہ اسiکا مصiنف کiوئی یونiانی مائ�i یہiودی نہیں تھiا بلکہ ار

یہودی نژاد شخص تھا، جس کی مادری زبا� ارامی تھی۔

1Barton, J.Th.S.Oct. 1935 pp.357 ff. 2 J.T.Hudson “The Aramaic Basis of St.Mark’s Exp Times May 1942

۔( انجی� مرقس کے بعض مقامات صاف ثاب کرتے ہیں کہ اس انجی� کiiا یہiiودی۹)اا انجی�ii کی پہلی لف سiiماوی کiiو اص�ii زبiiا� میں اسiiتعمال کرتiiاہے۔ مثل مصiiنف ،عiiبرانی ، صiiح

:۴۰( اوریسiعیاہ نiبی کی کتiiاب )۱: ۳(۔ اس مقام میں ملاکی نبی کی کتiiاب )۳تا ۲: ۱آایات)آایiات کiو کیiiوں۳ آایات کو یکجا کیا گیاہے۔ لیکن یونانی متن سiiے یہ پتہ نہیں چلتiiا کہ ا� ( کی

یک جا کیا گیاہے ۔ یہودی ربیوں کا دستور تھاکہ وہ دوسببوں کی وجہ سے صiiحف کی مختلiiفآایiiات کے آایات کے خیiiالات میں یکسiiانی ہiiوتی تھی اوریiiا آایات کو اکٹھا کیا کرتے تھے۔ یا تو الفا� میں مشابہ پائی جاتی تھی۔ یونانی متن یہ ظاہر نہیں کرتا کہ اس مقام میں دونوں نiiبیوں کی کتiiابوں کے عiiبرانی متن میں ایiiک ہی لفiiظ )فتح درک ( ہے اوراس سiiیا� وسiiبا� میں عiiبرانیلف سiماوی میں سiوائے ا� دونiبیوں کی کتiابوں کے اورکسiی جگہ وارد نہیں ہiiوا۔ پس مiرقس صح نے یہاں ا� دو مقامات کو یک جاکر دیاہے جو نہ صiiرف خیiiالات میں ہی یکسiiاں ہیں بلکہ جن

۔3میں ایک ہی لفظ پایا جاتا ہے )فتح درک بمعنی راستہ صاف کرو(جو شافہ ہے کی نسiب لکھتiiاہے جس کسiی نے مزامiیر۱۷: ۱۰یہی فاض� یہودی مصiنف مiرقس

:۱۰۷۔ ۱: ۱۰۶کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتا ہے کہ یہ لفظ)نیک( خiiدا کے لiiئے اسiiتعمال ہوتiiاہے )۔۱۔ ۱۳: ۵تiواری\ ۲ وغيرہ(۔ یہودیوں کی دعائے عام کی کتاب میں اور ۱: ۱۳۶۔ ۱۱: ۱۱۸۔ ۱

وغيرہ میں بھی یہ لفظ خدا کے لiئے اسiتعمال کیiiا گیiiاہے۔ یہiiود کے ایiک بiرک ۳۴: ۱۶تواری\اا استعمال ہوتا تھا لکھا ہے" اے خداوند تو مبiiارک ہے۔ تiiیرا نiiام نیiiک ہے کے کلمہ میں جو عموم اور صرف توہی ۔ اس لائق ہے کہ تیرا شکر ادا کیا جائے"۔ اس کلمہ کا استعمال خiiاص طiiور یہ

۔ اس اسiتعمال کی4تاس وق کیا جاتiا تھiا جب زنiدگی کے لiئے خiدا کiا شiکر کیiا جاتiا تھiiا روشنی میں ہم سیدنا مسیح کا جواب اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔

3 C.F.Burney The Aramaic Origin of the Fourth Gospel. P.16 Seealso Allen article in Exp.XIII.1902 pp. 328 ff.4 I.Abraham,Rabbinic Aids to Exegesis in Cambridge Biblical Essays.p.179

Page 117: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

کے متعلق لکھتاہے کہ یہ طرز عم� یہودی حکم۶۳تا ۶۰: ۱۴یہ فاض� مصنف مرقس آایiاہے کہ کفiiر کے مقiدمہ میں منصiف کھiڑے ہiوکر اپiنے کiپڑے کے مطابق ہے کیونکہ مثناہ میں

۔1پھاڑتے تھےلد جدیiد کiو iiاء عہiودی عالمiرہ میں جب یہiلر حاض یہ یہودی مستند عالم لکھتاہے " دو سiiمجھنے کےلiiئے ربیiiوں کے اقiiوال کے مطiiالعہ پiiر زورد ے رہے ہیں ، تعجب خiiيز امiiر یہ ہے کہ مسیحی علماء الٹا کہہ رہے ہیں کہ اس کو سمجھنے کے لئے ا� اقوال کی ضرورت ہی نہیں !۔ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ ا� علماء کے دلوں میں یہ بات بیٹھ گiiئی ہiiوئی ہے کہ ا�تتب کو یونانی مائ� یہود کے خیiiالات کی روشiiنی میں ربیiiوں کے اقiiوال کی نسiiب بہiiتر طiiورپر ک سمجھ سکتے ہیں اور کہ یہ یسiوع ا� یونiiانی خیiiالات سiiے بہ متiiاثر تھiiا۔ لیکن اص�ii سiوال یہلد جدید کی تاوی� کرنے میں معاو� ہوسکتے ہیں یiiاکہ نہیں۔ اس ہےکہ کیا ربیوں کے خیالات عہ سوال کا صرف ایک ہی جواب ہے اور وہ اثبات میں ہے۔ مفسiiر کiiا پہلا فiiر} ہے کہ وہ متن کیتا� کiو نظiiر انiiداز کرنiiا پiرلے تاوی� کرے اوراگر یہ اقiiوال تاوی�i کiiرنے میں مفیiiد ثiiاب ہiiوتے ہیں تiiو درجے کی غفل شعاری ہے۔ مفسر سiiے ہم صiiرف یہ طلب کiiرتے ہیں کہ و ہ ہم کiiو یسiiوع کے الفا� سمجھائے۔ اس کی تعلیم کااص� مفہiوم سiمجھنا اس کے ماخiذوں کiو جiاننے سiے زیiادہ

۔2ضروری ہے�iiال میں اناجیiiک کے خیiاء تiودی علمiiاکہ یہiiا ہوگiiاہر ہوگیiiے ظiiاس سiiالا اقتبiiذکورہ بiم آاسiiکتی ہیں کیiiونکہ یہی ا� صرف ارامی اور عبرانی زبانوں کے سiiیا� وسiiبا� میں ہی سiiمجھ میں

کا ماحول اور فضا ہے۔ ۔( مرقس کی انجی� کے ارامی الاس� ہونے کiiا یہ بھی ثبiiوت ہے کہ اس میں سiiیدنا۱۰)

لف مسiiیح کے منہ کے الفiiا� ارامی زبiiا� اور عiiبرانی زبiiا� میں محفiiو� ہیں، اگiرچہ وہ یونiiانی حiiرو

1 Ibid.p.1912 Ibid. p.188

وغiiiيرہ(۔ پس اس انجی�iii سiiiے ہم سiiiیدنا۳۴: ۱۵۔ ۳۴: ۷۔ ۴۱: ۵تہجی میں لکھے گiiiئے ہیں) ۔3مسیح کے ارامی الفا� کے تلفظ تک کو معلوم کرسکتے ہیں

�iiا ہے کہ انجیiiر پہنچiتیجہ پiروہ اس نiاور دیگر وجوہ کے باعث علماء کا ایک بڑا گ �ا لد iiو عہiiام� ہے جiiن شiiاء میں ولہاسiiعلم �ئی تھی ۔ اiiمیں لکھی گ �اiiارامی زب �iiرقس پہلے پہiiم آاخiiری عمiiر میں اناجی�ii کی زبiiا� کiا مطiiالعہ عتیق پرایک مستند عالم تسلیم کیاجاتاہے۔ وہ اپiiنی ل� مiiرقس پہلے iiآارچڈیکن ایلن جیسا فاض� بھی کہتاہے کہ " انجی کرکے اس نتیجہ پر پہنچا تھا ۔

۔ لٹمن جیسا محتاط نقاد بھی مجبiiور ہiiوکر کہتiiاہے کہ یہ اغلب4پہ� ارامی میں لکھی گئی تھی ۔ پادری کیڈاؤ جیسا عالم اس نتیجہ پiiر5ہے کہ مرقس کی انجی� ارامی زبا� میں لکھی گئی تھی

۔6ء میں لکھی گئی تھی ۴۰پہنچاہے کہ انجی� مرقس پہلے پہ� ارامی زبا� میں

3 Ibid.p.1824 Dalman Words of Jesus p.535 W.C.Allen,Exp,Times July 1910 pp.439 ff.6 T.W.Manson “The Problem of Aramaic Sources”. Exp Times Oct.1935.pp.711-

Page 118: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

فص� دومفص� دومل� متی کی اص� زبا� ل� متی کی اص� زبا�انجی انجی

وول کے حصہ دوم کے باب دوم اور حصہ سوم کے باب چہام میں انجی� مiiتی ہم جلد اآائے ہیں۔ ہم نے اس کے پس منظiiر ، ماخiiذوں کی قiiدام اور خصوصiiیات پiiر مفص�ii بحث کiiر تامیiiد ہے کہ ا� حصہ کے مختلف ابواب میں اس انجی� کی زبiiا� پiiر بھی روشiiنی ڈالی ہے۔ ہمیں ل} ل� مiتی کی فضiiا ار iiا کہ انجیiiا ہوگiاہر کردیiiر ظiiاظرین پiاغ نiiصفحات کے مطالعہ نے روشن دم مقدس کنعا� کی ہے۔ اس کا مصiiنف ایiiک یہiiودی مسiiیحی فاض�ii ہے جس نے اپiiنے ہم وطنiiوںتا� کی اپiiنی زبiiا� میں لکھی تھی۔ اس کے ماخiiذ ارامی زبiiا� کے ہیں اوراس �iiکی خاطر یہ انجی کے تصورات نے ارامی میں جنم لیاہے۔ ہم نے ثاب کردیiاہے کہ اس کے بiiڑے ماخiiذ یعiiنی رسiالہ کلمات اوررسالہ اثبات اورانجی� مرقس ارامی زبا� میں لکھے گئےتھے جiو اس انجی�i کے مصiنف کے سامنے موجiiود تھےاورجن کiو وہ لفiiظ بلفiiظ نق�ii کرتiiاہے۔ انشiاء اللہ ہم اس بiاب میں ثiاب

کردینگے کہ یہ انجی� پہلے پہ� ارامی زبا� میں لکھی گئی تھی۔

وول ۔ اندرونی شہادت وول ۔ اندرونی شہادتا ا انجی� کی انiiدرونی شiiہادت سiiے یہی ثiiاب ہوتiiاہے کہ یہ انجی�ii پہلے پہ�ii ارامی زبiiا��iiمیں نق �اiiظ ارامی زبiiظ بلفiiمیں لکھی گئی تھی۔ ہم بتلاچکے ہیں کہ اس کے ارامی ماخذ لف کئے گئے ہیں ۔ چنانچہ اسی حصہ کے بiiاب دوم میں ہم نے اس انجی�ii سiiے متعiiدد مثiiالیں دےلم بلاغ نظiiام میں جiiو ارامی زبiiا� کی صiiنعتیں پiiائی آانخداونiiد کے کلا کiiر ثiiاب کردیiiا ہے کہ �iiوم میں بھی اس انجیiiاب سiiود ہیں۔ ہم نے بiiجاتی ہیں ، وہ سب کی سب انجی� متی میں موج سے مختلف مثالیں دے کر یہ ثاب کیاہےکہ ارامی الفا� ، محاورے اورنحوی ترکیبیں اس انجی� کے ہر حصiiہ میں پiiائی جiiاتی ہیں جiiو ظiiاہر کiiرتی ہیں کہ یہ انجی�ii پہلے پہ�ii ارامی زبiiا� میں لکھی گئی تھی اورہمiاری موجiودہ یونiانی انجی�ii اس ارامی انجی�i کiا لفظی تiرجمہ ہے۔ چنiانچہ

آاسiiمانوں کی بادشiiاہی" کiiا محiiاورہ ۳۲انجی� جلی� کے مجموعہ میں صرف اسی انجی� میں " آاسiiمانوں" عiiبرانی اور ارامی زبiiا� میں ہمیشiiہ جمiiع کے صiiیغہ میں مiiرتبہ اسiiتعمال ہiiواہے۔ لفiiظ " آایاہے۔ یونانی متن میں بھی یہ لفiiظ جمiع کے صiiیغہ میں لکھiiا ہے جس سiiے ظiiاہر ہے کہ یہآاسiiما� انجی� ارامی زبا� سے ترجمہ کی گئی ہے۔ اردو ترجمہ بامحاورہ ہے جس میں صیغہ واحد" آاسiiمانوں میں ہے" ارامی محiiاورہ ہے جiiو اس یی ہiiذا القیiiاس ، بiiاپ جiiو کی بادشاہی" لکھاہے۔ عل

آاسiiمانی۱۳انجی� میں آایاہے اوریونانی متن میں بھی جمع کے صیغہ میں ترجمہ کیا گیiiاہے" دفعہ آایiiاہے ۔لفiiظ" دیکھiiو" اس1باپ " بھی انجیلی مجموعہ میں صرف متی کی انجی� میں سات بار

آایاہے۔ اس ارامی محiاوہ کiا کiثرت سiے وارد ہونiا اس بiات کی بین دلی�i ہے۵۸انجی� میں دفعہ کہ یہ انجی� پہلے پہ� ارامی میں لکھی گئی تھی۔ اسی طرح لفظ" تب" یا "پھiiر" جسiiکا لفظی

آایiاہے اوراس کiا ارامی الاص۹۰�iترجمہ یونانی متن میں کیا گیا ہے نiوے ) ( دفعہ اس انجی�i میں میں ہے " ایک نقطہ یiا ایiک شوشiہ تiوری سiے ہiiر گiز نہ ٹلیگiا"۔۱۸: ۵ہونا ثاب کرتاہے۔ متی

آایوٹا" لکھاہے جو یونانی حروف تہجی میں سب سے چھوٹiiا ہے حiiرف ہے۔ یہ یہاں یونانی حرف" یونانی حرف" )یود(" ی" کا یونانی ترجمہ ہے جو صاف ثاب کرتاہے کہ یہiiاں اص�ii ارامی حiiرف

کا نام تھا۔اا ثiiاب کiiرتے ہیں کہ انجی�ii پہلے پہ�ii ارامی میں لکھی گiiئی بعض مقامiiات تiiو صiiریح

اا کے یونانی متن میں ہے ۔ اس جگہ جو گلگتا کہلاتی ہے یعنی کھوپڑی کی۳۳: ۲۷تھی۔ مثل جگہ کہلاتی ہے" یونانی متن میں لفiiظ" کہلاتی ہے " کiiا دوبiiارہ ہونiiا صiiاف ثiiاب کرتiiاہے کہ یہ

کے۴۰: ۱۲ ۔ مiiتی 2ارامی اص� کiiا لفظی تiiرجمہ ہے ۔ اردو تiiرجمہ میں یہ لفiiظ دہرایiiا نہیں گیا یونانی متن میں ہے " جیسے یوناہ تین رات اورتین د� مچھلی کے پیٹ میں رہا"۔ یہ الفiiا� ارامی اص� کا غل� یونiانی تiرجمہ ہیں ۔ اص�i ارامی میں لفiظ" عونiاہ" تھiا جس کے معiiنی " رات د�

3ہیں"1 B.C. Butler The Originality of St. Matthew Ch.X.2 Epiphany Calcutta , May 1st 19543 J.H.Ropes Synoptic Gospels Quoted by Butler p. 164.

Page 119: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

آایiات کی اردو ترجمہ میں اص�i ارامی محiiاورہ کے مطiابق" رات د� " ہے۔ اس قسiم کی دیگiر آایات کا نیا ترجمہ" میں پائی جاتی ہیں جن ل� اربعہ کی زبا� اور چند مثالیں میری کتاب" اناجی سے ثاب ہوتاہے کہ بعض اوقات مترجم انجی� نے اص� ارامی متن کاغل� ترجمہ کیiiا ہے اوراس سے ظاہر ہوجاتاہے کہ انجی� کی اص� زبا� پہلے پہ� ارامی تھا۔ یہ ایiiک قiiدرتی بiiات بھی ہے کہ جو کتاب ایک یہودی مصنف نے یہودی مسیحیوں کے لئے اوراپنے ہم وطنوں کو منجiiئی عiiالمینتا� کی مiiادری زبiiا� تھی۔ ایiiک کے قiiدموں میں لانے کےلiiئے لکھے ، وہ ارامی زبiiا� میں ہوجiiو یہودی مسیحی کے لئے سیدنا مسیح کی خوشخبری کو اہ� یہود کے لئے یونانی میں لکھنا )جiو

غیر اقوام کی زبا� تھی( ایک غیر فطرتی بات تھی۔لدجدید کی کسی کتاب میں مسیحیوں کی نئی شریع کووہ اہمی نہیں دی گئی عہ جiiو انجی�ii مiiتی میں دی گiiئی ہے۔ انجیلی مجمiiوعہ کی کسiiی کتiiاب میں بھی اس قiiدر جملے محاورے وغيرہ نہیں پائےجاتے جن کی یہودی ربیوں کی تصiiنیفات میں ممiiاثل موجiiود ہے۔ اسانجی� کا مصنف ایک یہودی مسیحی ربی تھiا گiووہ اپiنے لiئے یہ خطiاب کبھی تجiویز نہ کرتiا)

(۔ یہ انجی� تالمود سے مس رکھتی ہے وراس سے ملiiتی جلiتی ہے۔ اس میں خiiاص طiiورپر۸: ۲۳ ا� سوالا ت کا ذکر ہے جن کا تعلق کنعا� کی مسiیحی کلیسiیاؤں سiiے ہے کیiiونکہ یہی مسiائ�

سiے ظiiاہر ہے کہ یہ انجی�ii اس وق تiالیف کی گiئی تھی۸تiا ۵: ۱۰تا� کے درپیش تھے۔ مiتی (۔ پس یہ۳۶: ۹جب خداونiiد کی نجiiات کiiا پیغiiام ابھی تiiک اہ�ii یہiiود میں ہی محiiدود تھiiا۔)

قدرتی بات تھی کہ یہ انجی� پہلے پہ� ارامی زبا� میں لکھی گئی تھی ۔وول کiiا مصiiنف ایiiک یہiiودی1امiiریکن عiiالم روپس اس نiiتیجہ پiiر پہنچتiiاہے ل� ا iiکہ انجی

تا� کiiو یہiiودی خیiiالات ، مسiiیحی تھiiا۔ اس کی تمiiام انجی�ii یہiiودی رنiiگ میں رنگی ہے۔ وہ آانخداوند کiا روزانہ سiابقہ پڑتiا تھiiا۔اس کiا مصiنف تصورات اورعقائد کا ذکر کرتاہے جن سے تا� پیشین گوئیوں سiے عiبرانی زبiا� میں بخiiوبی واقiiف ہے جن کiا تعلiق تتب مقدسہ کی عبرانی کتا� پیشن گوئیوں کے مسیح موعود کے ساتھ ہے۔ ا� میں سے بعض مقامات سے ظاہر ہے کہ وہ 1 Justin Martyr Syria Memoirs of the Apostels.

لن داؤد" اسiiتعمال کiiرنے کiiا خiiاص عبرانی متن سے واقف ہے۔ وہ مسیح موعود کے لئے لفiiظ " ابآاسiمانی آاسiما� کی بادشiاہی" ،" یی ہذا القیiاس ارامی اورعiبرانی محiiاورے " طورپر مشتا� ہے۔ عل باپ" ،" مقدس شہر" یعنی یروشلیم ،" اسiiرائی� کiا خiiدا" ۔ اسiiرائی� کے شiہروں" وغiيرہ الفiiا� یہودی کی اصطلاحیں ہیں۔ یہ مصiiنف یہiiودی ربیiiوں کی تعلیم سiiے واقiiف تھiiا۔ کiوئی شiiخصوول کی جiiiڑیں یروشiiiلیم کی ابتiiiدائ کلیسiiiیا کے اس امiiiر میں شiiiک نہیں کرسiiiکتا کہ انجی�iii ا

۔" کیiiا2تصورات، خیالات، عقائد وروایات کی زمین میں نہای مضبوطی سے گڑی ہiiوئی ہیں�iiا؟ انجیiiکتا تھiiلکھ س �iiیونانی میں اپنی انجی� پہلے پہ �اس قسم کا مصنف غیر اقوام کی زبا متی کے پہلے دوباب کی زبا� ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم ا� کی اص� زبiiا� کiو عiiبرانی تسiلیم

اا آای ہمiiاری سiiمجھ میں تب ہی۳: ۲کiiریں۔ مثل میں لکھiiاہے " وہ ناصiiری کہلائے گiiا "۔ یہ لر نگاہ رکھیں کہ جو عبرانی لفiiظ مسiiیح موعiiود کے تصiiور آاسکتی ہے جب ہم اس حقیق کو زی کے ساتھ وابستہ تھا وہ " نصر" تھا۔ الفا� " نصر" اور' ناصری " میں تجینس صوتی ہے لیکن یہ

یی ہiiذا القیiiاس آای سے ظاہر نہیں ہiiوتی ۔ عل کے الفiiا� " تiiو اس کiiا نiiام۲۱: ۱حقیق یونانی تا� کے گنiiاہوں سiiے نجiات دے گiا"۔ میں الفiiا� " یسiوع رکھنiiا کیiiونکہ وہی اپiنے لوگiiوں کiو آاہنگی پائی جاتی ہے ، جس سے ظاہر ہے کہ یہ حصہ عiiبرانی میں یسوع" اور " نجات " میں ہم لکھا گیا تھا۔ مقدس متی کی انجی� میں ایک مقام ہے جو صرف اسی انجی�ii سiiے مخصiiوص

آانخداوند نے ہوسiیع نiبی ) (۔اقتبiاس کیiاکہ" میں قربiانی نہیں۷: ۱ہے۔ جس میں لکھاہے کہ بلکہ رحم پسiiند کرتiiا ہiiوں "۔ یہ کلمہ عین عiiبرانی متن کے مطiiابق ہے۔ لیکن وہ یونiiانی تiiرجمہ سیپٹواجنٹ سے مختلف ہے کیونکہ اس تiiرجمہ میں یہ لکھiiاہے " میں قربiiانی پiiر رحم کiiو تiiرجیحآای کااص�i عiiبرانی متن دے کر رحم کو زیادہ پسند کرتiا ہiiوں"۔ اس مثiiال سiے ظiiاہر ہے کہ اس تھا۔ غر} جس پہلو سے بھی اس موضiiوع پiiر غiiور کیاجiiائے ہiiر پہلiiو سiiے یہی ثiiاب ہوتiاہے کہ

پہلے پہ� یہ انجی� ارامی زبا� میں لکھی گئی تھی۔

2 Eusebius H.E.V.10,3

Page 120: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

ہم نے دیدہ دانستہ ایسی مثالیں دینے سے پرہیز کیا ہے جن کiiا تعلiiق یونiiانی اور ارامی�iiئے بالکiiارے لiiانیں ہمiiزبانوں کی اصطلاحوں اور صرف ونحو کے قواعد سے ہے۔ کیونکہ یہ زب اجنبی ہیں۔ لیکن کوئی شخص ا� بiاتوں کiو مسiتند تفاسiیر میں پiڑھ کiر اس نiتیجہ پiر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ انجی� پہلے پہلے ارامی میں تصiنیف کی گiiئی تھی اورموجiiودہ یونiانی

متن اس کے ارامی متن کا لفظی ترجمہ ہے۔ رسولوں کے عامال کی کتاب میں لکھا ہے " جن لوگiiوں نے پطiiرس کiiاکلام قبiiول کیiiاتا� میں م�i گiئے اوریہ رسiولوں سiے آادمیiiوں کے قiiریب انہوں نے بپتسiمہ لیiiا اوراسiی روز تین ہiiزار

آایہ شiiریفہ سiiے یہ نiiتيجہ اخiiذ کiiرنے میں حiiق بجiiانب۴۱: ۲تعلیم میں مشiiغول رہے") (۔ ہم اس لت طیبiiات کی تعلیم دیiiنے میں مشiiغول رہے تiiاکہ ا� کے ذریعہ ہiiوں گے کہ رسiiول حیiiات اورکلمiiا تبلیغ کا سلسلہ جاری رہے۔ اس تعلیم کے دورا� میں کلیسیا کی زندگی کے ابتدائی سiiالوں میںلن قیiiاس مقiiدس مiتی کے ماخiذوں اوربیiiانوں نے ارامی انجی�i کی شiک� اختیiiار کiرلی۔ یہ امiر قiiریآاپ لن حیiiات میں بھی ہے کیونکہ ناظرین کو یاد ہوگiiا کہ مقiiدس مiiتی نے سiiیدنا مسiiیح کی حیل} مقiiدس کی کلیسiiیا ؤں کے ہiiاتھوں کے کلمات کو ایک ارامی رسالہ میں جمع کیا تھا جو ار میں تھiiا۔ ابتiiدا ہی سiiے مقiiدس مiiتی کiiو اس انجی�ii کiiا مصiiنف قiiرار دیiiا گیiiا ہے اورکiiوئی دوسiiرا شخص اس انجی� کا مصنف قرار نہیں دیا گیiiا۔ علاوہ ازیں مقدسiiمتی کی زنiiدگی کے حiiالات کے متعلق اناجی� اربعہ میں سوائے ایiiک مقiiام کے ،ایiک لفiiظ بھی کہیں پایiiا نہیں جاتiiا۔ اگiریہآاپ جیسiiے گمنiiام رسiiول انجی� مقدس متی نے نہ لکھی ہوتی تو کوئی وجہ معلiiوم نہیں دیiiتی کہ

کا نام اس انجی� کی تصنیف کے ساتھ قدیم زمانہ سے ہی متعلق کیا جاتا۔ مذکورہ بالا وجوہ کے باعث ہم انجی� کی اندرونی شہادت سے اس نتیجہ پiiر پہنچiiتےآاپ کی تعلیم جiiiانفزا لن حیiiiات میں ہیں کہ جس طiiiرح مقiiiدس مiiiتی نے سiiiیدنا مسiiiیح کی حیآاپ نے منجiئی جہiiا� تاسiی طiرح کوارامی زبا� میں رسالہ " کلمات خداوندی" میں جمع کیا تھا

کی وفات کے بعداپنی انجی� کو ارامی زبا� میں لکھا تھا جس کا بعد کے زمانہ میں یونانی زبiiا�میں لفظی ترجمہ کیا گیا جو اب ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے۔

دوم۔ خارجی شہادت ہے۔)iڑی زبردسiہادت بiیرونی شiونے کی بiمقدس متی کی انجی� کے ارامی الاص� ہ

۔( جسٹن شہید کی تصنیفات کا مطالعہ ظاہر کردیتاہے کہ ملiiک شiiام میں مiiتی کی سiiی ایiiک۱ " کہتiiاہے جس میں سiiے وہ سiiب سiiے زيiiادہ1انجی� مروج تھی جس کو وہ " رسولوں کے توزک

ایسے اقتباسات پیش کرتاہے جو مقدس متی کی انجی� کے متن سiiے مشiiابہ ہیں۔دونiiوں میں جiiو�iاوراس کی ارامی انجی �iiانی انجیiiخفیف اختلافات ہیں وہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہماری موجودہ یون آانخداونiد لف قرات تھے۔ جس انجی� سiے جسiٹن اقتبiاس کرتiاہے اس انجی�i میں بھی میں اختلالد نظiiر رکھiiتے ہیں کہ جسiiٹن iiو مiiر کiiکی پیدائش اورموت کے سوانح موجود تھے۔ جب ہم اس ام شہید سکم )نابلس( کا رہنے والا تھا، اوراسی شہر میں مسیحی ہوا تھا تو ہم پر اس شiہادت کiااا اس کی مiiادری زبiiا� iiغالب �اiiونکہ یہ زبiiا کیiiف تھiiوبی واقiiے بخiiظاہر ہوجاتاہے ۔ وہ ارامی س �وز تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس ارامی انجی� کے اقتباسات کiiا تiiرجمہ پیش کرتiiاہے ۔گiiوہ وہ موجiiودہ

چاروں اناجی� سے واقف تھا۔ ۔( جب سiiکندریہ کے مدرسiiہ دینیiiات کiiا پرنسiiپ� مقiiدس پین ٹیiiنئس ہندوسiiتا� میں۲)

آایiiا تiiواس نے دیکھiiا کہ مقiiدس برتلمiiائی رسiiول نے ہندوسiiتا� کے مسiiیحیوں کے منiiادی کiiرنے ۔ جب وہ واپس2آاباواجداد کو مقدس مiiتی کی انجی�ii دے رکھی تھی، جiiو ارامی زبiiا� میں تھی

سکندریہ گیا تو وہ اپنے ساتھ اس نادر کتاب کا نسخہ لیتا گیا۔ ہم اس واقعہ کا مفص�ii ذکiiر اپiiنیوول میں کiiرچکے ہیں لب ا ل\ کلیسiiیائے ہنiiد کی جلiiد دوم " صiiلیب کے ہiiراول" کے بiiا کتiiاب تiiاری

اورناظرین کی توجہ اس کتاب کی جانب مبذول کرتے ہیں۔

1 Syrian Beroea, Pamphilus.2 Burkitt, Gospel History and Transmission p. 275 note.

Page 121: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

۔( ابتدائی کلیسیا کا مورخ یوسی بئس ہم کو بتلاتاہے کہ مقدس متی کی انجی� کا۳)آائرینiiوس اوراوریجن اص�ii ارامی نسiiخہ وجiiود میں تھiiا اوراس کے لiiئے وہ سiiکندریہ کے کلیمنٹ، فضiiلائے کلیسiiیا ئے کی شiiہادت پیش کرتiiاہے اوربتلاتiiاہے کہ مقiiدس اوریجنiiے زبردسiiجیس

آائرینوس کا بھی یہی خیال تھا ۔ وہ لکھتاہے کہ مقiiدس مiiتی نے عiiبرانیوں کے لiiئے انہی1اوربشپ کی زبا� میں ایک انجی� لکھی ۔ ایک اور مقام میں وہ لکھتاہے " چiiونکہ مiiتی نے عiiبرانیوں میں انجی� کی منادی کی تھی اس نے ا� کے لئے ایک انجی� بھی لکھی تاکہ یہ کتاب اس کی غیرآائے "۔ پھiiر لکھتiiاہے" مiiتی نے عiiبرانیوں میں انجی�ii کی منiiادی کی تا� کے کiiام حاضiiری میں تا� کی اپiiنی اورجب وہ غير اقوام میں منادی کرنے گیا تو اس نے یہودی نومریدوں کو ایک انجی�

ء میں یروشiiلیم کiiو۴۶زبiiا� میں لکھ کiiر دے دی"۔ روای ہم کiiو بتلاتی ہے کہ رسiiولوں نے چھوڑا تاکہ وہ غیر اقوام ممالک میں تبلیغ کا کام کریں۔

۔ ( مقدس جیروم نے " عiiبرانیوں کی انجی�i" کiا ایiک نسiخہ دیکھiا جiو ارامی زبiا�۴) کے مسیحی استعمال کرتے2میں تھا لیکن وہ عبرانی حرف میں لکھا ہوا تھا۔ اس کو سریانی بیریا

تھے۔ مابعد کے زمانہ میں اس عالم کو اسiی انجی�ii کiiا ایiک نسiiخہ قیصiiریہ میں پiiادری پمفیلئستتب خiiانہ میں دسiiتیاب ہiiوا ۔ اس نے پiiادری مiiذکور سiiے اس کiiو نق�ii کiiرنے کی اجiiازت کے ک حاص� کرلی اوراس کا ترجمہ یونانی اورلاطیiنی زبiانوں میں کردیiا کیiونکہ وہ اس کiو ایiک نہiiای بیش قیم نسخہ تصور کرتا تھا۔ اس نسخہ کے مطالعہ نے اس پر یہ حقیق ظاہر کردی کہ وہاا تیس سال تiiک اسiiی نظiiریہ کiiا قائ�ii رہiiا۔ اس انجی� متی کا اص� ارامی نسخہ ہے ۔ یہ عالم قریب نظریہ کے خلاف نے اس کبھی کوئی دوسری رائے ظiiاہر نہیں کی ۔ یہ نسiخہ انجی�ii مiتی کiا ہی تھا ورنہ جیروم جیسiiا عiiالم شiiخص اس کiiو کبھی یونiiانی انجی�ii اول کiiا ارامی اص�ii قiiرار نہ دیتiiا۔

ارامی اناجی� میں سے جو اب ضائع ہوگئی ہیں یہ انجی� سب سے زيادہ اہم ہے۔

1 (b) Lightfoot Westcott “Salmon.2 Zahn. See Dalman’s Word of Jesus p.59 (note) and pp.61-62

ل­ زمiiانہ کے ہiiاتھوں مقiiدس جiiیروم کے تiiرجمے ضiiائع ہوگiiئے ہیں لیکن مقiiدس حiiوار اوریجن کی مانند وہ اس انجی� کے اقتباسات اپنی مختلف تصنیفیات میں کرتiاہے۔ یہ اقتباسiات ثاب کiiرتے ہیں کہ اس ارامی انجی�ii سiیدنا مسiiیح کی پیiiدائش اورمiiوت کے بیانiiات موجiiود تھے کیونکہ وہ پہلے دوابواب میں سے دوہ مقامات کا اقتباس کرتاہے۔ دیگiiر اقتبiiاس ثiiاب کiiرتے ہیںاا وہی ہے جو موجودہ یونانی انجی� مiتی کiا ہے۔ مقiiدس جiیروم قiiرات کہ صلیبی واقعہ کا بیا� قریب

اا کہ " مقiiدس کiiا پiiردہ" پھٹiiنے )مiiتی (۔۵۱: ۲۷کے چند اختلافات کا بھی ذکر کرتاہے ۔ مثل کی بجائے اس ارامی انجی� میں تھا کہ مقiiدس کی اوپiiر کی چiiوکھٹ پھٹ گiiئی ۔ اگiiر قiiرات کے کوئی اہم اختلافات ہوتے تو یہ عالم اپنی متعدد تصنیفات میں کسی نہ کسی مقام میں انکiiا

میں مشiiابہ وممiiاثل ۲۲تiiا ۲۱: ۱۸ضرور ذکر کرتا اس کے برعکس ایک اقتباس میں اورمiiتی کے لفiiظ" بریونiiاہ" کی بجiiائے" یوحنiiا کiiا بیٹiiا"۱۷: ۱۶موجiiود ہے۔ ایiiک اوراقتبiiاس میں مiiتی

کiiا واقعہ موجiiود تھiiا۔ یوسiiی۲۰تiiا ۱۳: ۱۶لکھاہے جس سے ظiiاہر ہے کہ اس ارامی نسiiخہ میں (۔ اوریجن۳۰تiا ۱۴: ۲۵بئس ہم کو بتلاتiاہے کہ اس نسiخہ میں تiوڑوں کی تمثی�i لکھی تھی)

کiiا واقعہ بھی تھiiا۔ ایسiiا معلiiوم ہوتiiاہے کہ اس انجی�ii کiiا۲۲تا ۱۶: ۱۹کہتاہے کہ اس میں متی پلا� انجی�ii مiiتی کے مطiiابق تھiiا اوراس میں انجی�ii مiiرقس کے وہ حصiiے بھی تھے جiiو ہمiiاری

۔3موجودہ انجی� متی میں ہیںوول میں جiiو مشiiابہ ہے یہ ظاہر ہے کہ اس ارامی نسخہ میں اور موجودہ یونانی انجی�ii ا وہ کوئی اتفاقیہ امر نہیں ہے اوریہ اس بات کی دلی�ii ہے کہ دونiوں انجیلiوں میں گہراتعلiق تھiا۔اس

۔( یiiا تiiو مقiiدس جiiیروم جیسiiےپایہ کے عiiالم کی رائے۱تعلق کے صرف دو سiiبب ہوسiکتے ہیں ) صحیح تھی اوریہ اص� ارامی انجی� تھی جس کiا تiiرجمہ ہمiiاری موجiiودہ یونiiانی انجی�ii مiتی ہے

کiا نظiiریہ صiiحیح ہے کہ ہمiiاری4۔( ڈاکiٹر لائٹ فٹ ۔ بشiپ وسiٹکٹ اورڈاکiiٹر سiiامن۲اوریiا) موجiiودہ یونiانی انجی�i مiتی پہلے پہ�i یونiiانی میں لکھی گiئی تھی اورجiiیروم کiا نسiخہ ثiانوی ہے3 Lagrange S. Marc.(1st ed).Voste, See Butler’s Originality of St. Matthew pp.155(note) and 1594

Page 122: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

اورجویونانی کا ترجمہ تھا اوریا یونانی انجی� کی بناء پر ارامی میں تصنیف کیا گیا تھا۔ جب ہم ا��iودہ انجیiموج �iاہے کہ یہ انجیiہوجات دونوں نظریوں کا غور سے مطالعہ کرتے ہیں توہم پر یہ ثاب یونانی کiا ارامی تiرجمہ نہ تھی بلکہ وہ پہلے پہ�ii ارامی میں ہی لکھی گiئی تھی اوریہی اس کی

اا ) ( میں لکھاہے " یوسف ناصرت نام ایک شہر میں جا بسا تiiاکہ جiiو۲۳: ۲اص� زبا� تھی۔ مثل نبیوں کی معرف کہا گیا تھا وہ پورا ہو کہ وہ ناصری کہلائے گا"۔ اگر اس انجی� کی اص�ii زبiiا�آای کiiiا مطلب صiiiاف آای بے معiiiنی ہوجiiiاتی ہے۔ لیکن عiiiبرانی میں اس یونiiiانی ہiiiوتی تiiiویہ ہوجاتاہے ۔ کیونکہ عبرانی الفiiا�" نصiر" اور" ناصiری" میں صiنع ایہiام اورتجiiنیس ہے اور ضiلع جگ سiiےکام لیiiا گیiiا ہے اوریہ یونiiانی زبiiا� میں ناممکنiiات میں سiiے ہے۔ہم نے اس قسiiم کیآایات کا نیا ترجمہ" میں جمiiع کی متعدد مثالیں اپنی کتاب " اناجی� اربعہ کی اص� زبا� اورچند

(۔ یونiiانی سiiے ارامی میں نہ۱۶تiiا ۹: ۱۲ہیں ۔ سوکھے ہاتھ شiiفا بخشiiنے کے معجiiزہ کiiا ذکiiر ) صرف زیادہ واضح ہے بلکہ اس مقام کے الفا� میں جا� پڑجاتی ہے۔ پس ڈاکiiٹر لائٹ فٹ اور سٹکٹ وغيرہ کا نظریہ غل� ہے۔ اور مقiiدس جiiیروم کiiا نظiiریہ صiiحیح ہے کہ جiiو نسiiخہ اس نے

ل� متی کی نق� تھا۔ دیکھا تھا وہ اص� ارامی انجی ہم نے اس فص� میں اندرونی اوربیرونی شہادت سے ثاب کردیاہے کہ انجی� متی پہلے پہ� ارامی زبا� میں لکھی گiئی تھی۔ علمiiاء کiiا ایiiک فاض�ii طبقہ بھی اس امiiر کiا قائ�ii ہے کہ اس انجی� کی اص� زبا� ارامی ہے۔ چنانچہ ہم ڈاکٹر ٹوری کiا نظiiریہ بتلاچکے ہیں ۔ ڈاکiiٹر ذاہن

۔ اوراس کے ثبiiوت میں یونiانی1کا بھی یہی نظریہ ہے کہ اس انجی�ii کی اص�ii زبiا� ارامی تھی عبارت اسiلوب بیiiا� کiو پیش کرتiاہے جس میں ارامی الفiiا� کiا یونiانی میں تiرجمہ کیiا گیiا ہے۔ مشہور نقاد ولہاسiiن بھی اسiiی نiتیجہ پiiر پہنچتiiاہے اورکہتiiاہےکہ یہ انجی�ii ابتiiدا میں ارامی زبiiا� میں لکھی گiiئی تھی اورکہ یہ نiiتیجہ ایسiiا پختہ ہے کہ اسiiکے لiiئے مزیiiد ثبiiوت کی ضiiرورت بiiاقی

کہ انجی�ii مiiتی کی اص2�iiنہیں رہتی۔ مفسر لیiiگ رانج اپiiنی تفسiiیر میں یہ نظiiریہ پیش کرتiiاہے

12

توستے بھی اسی نتیجہ پر پہنچتاہے کہ یہ انجی� پہلے پہ�ii ارامی زبiiا� میں لکھی زبا� ارامی تھی۔ گئ تھی۔

Page 123: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

فص� سومفص� سومل� لوقا کی اص� زبا� ل� لوقا کی اص� زبا�انجی انجی

جب ہم اعمال کی کتاب کا اور مقدس پولوس کے خطوط کا مطiiالعہ کiiرتے ہیں تiiوہم پر یہ ظاہر ہوجاتاہے کہ رسول مقبiول کے سiفروں میں ہiر یہiودی عبiادت خiانہ کے گiرد ایسiے غiیر یہود تھے جویا تو یہودی کے پیرو تھے یا اس مiiذہب کے حiiامی تھے ، جiiو خوشiiی سiiے سiiیدنا مسیح کاکلام سنتے تھے ۔ غیر یہود مسیحی نومریدوں کی ایک بڑی تعداد گروہ سے ابتدائی ایiiام میں کلیسیا میں داخ� ہوئی ۔ جب اس قسم کے نومرید کلیسیا میں داخ� ہوگئے تو غیر یہود میں

۔1تبلیغ کا دروازہ کھ� گیا مقدس لوقا اسی غیر یہiود گiروہ میں سiے منجiiئی عiالمین کے حلقہ بگiو* ہiوئے تھے۔ جب انہiiوں نے دیکھiiاکہ مقiiدس مiiرقس اورمقiiدس مiiتی اورمقiiدس یوحنiiا جیسiiے اسiiرائیلی نiiژادتا� کiiو تiiرتیب وار یہودیوں نے" اس بات پر کمر باندھی کہ جو باتیں ہمارے درمیا� واقiiع ہiiوئیں تا� بiiاتوں کی پختگی تا� کی مiiادری زبiiا� ارامی میں " بیiiا� کiiریں " تiiاکہ یہiiودی مسiiیحیوں کiiو تانہوں نے تعلیم پائی تھی ، تو مقدس لوقا نے بھی یہ " مناسiiب جانiiاکہ معلوم ہوجائے " جن کی تا� کی مiiادری سب باتوں کا سلسلہ ٹھیک ٹھیک دریاف کرکے " غiiیر یہiiود نومریiiدوں کے لiiئے تا� بiiاتوں کiiو " تiiرتیب سiiے لکھے" جیسiiاکہ انہiiوں نے جiiو شiiروع سiiے زبiiا� یونiiانی میں ، خوددیکھiiنے والے اور کلام کے خiiادم تھے ہم تiiک پہنچایiiا"۔ تiiاکہ جن بiiاتوں کی غiiیر یہiiود

تا� کی پختگی معلiوم ہوجiائے")لوقiا (۔ جن اصiحاب نے۴تiا ۱: ۱مسiیحیوں نے تعلیم پiائی تھی تا� وول کے باب سوم اورحصہ سوم کے باب دوم کا غور سiے مطiiالعہ کیiiا ہے وول کے حصہ ا جلد ا پر یہ ظاہرہوگیا ہوگاکہ مقiiدس لوقiiا نے کس جانفشiiانی اور عiiر� ریiزی سiiے دوڑ دھiوپ کiرکے اپiنےآائے ہیں کہ یہ ماخiiذ ارامی ماخذوں کو جمع کیا تھا۔ ہم اس حصہ کے بiiاب سiiوم میں ثiiاب کiiر

زبا� میں تھے اور قدیم ترین زمانہ کے تھے جن کا پایہ اعتبار اول درجہ کا تھا۔

1 T.R.Glover The World of N.T (1931) pp.105-06

تا� غiiیر یہiiود کے لiiئے لکھی گiiئی تiiو جiiو پولiiوس رسiiول کے تبلیغی �iiونکہ یہ انجیiiچ آائے تھے اور یہ مسiiیحی یونiiانی بولiiنے والے تھے ۔2دوروں کے زمiانہ میں منجiiئی کے قiiدموں میں

پس قدرتی طورپر مقدس لوقا نے یہ انجی� پہلے پہ� یونانی زبا� میں لکھی۔ یہ غiiير یہiiودی ارامی ۔ اس وق تiiک بعض ارامی3سiiے نiiاواقف تھے پس مقiiدس لوقiiا نے اپiiنی انجی�ii ارامی نہ لکھی

آائے ہیں کہ رسiiالہ ماخiiذوں کiiا تiiرجمہ یونiiانی میں ہوچکiiا تھiiا۔ چنiiانچہ ہم بiiاب چہiiارم میں بتلالت خداوندی کا ترجمہ غیر یہود مسیحیوں کی مادری زبا� یونiiانی میں ہوچکiا تھiiا۔ مقiiدس کلما

ء سے بہ پہلے یونiiانی میں تiiرجمہ۵۵مرقس کی انجی� کا )جو رسالہ کلمات کا تکملہ تھی ( لت مسiیح موعiود کے یونiانی ہوچکا تھا۔ یہ دونوں ترجمے مقدس لوقا کے سiiامنے تھے۔ رسiالہ اثبiاآایiات پiر ہی مشiتم� لف مقدسiہ کی ترجمہ کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ وہ صiرف عiبرانی صiحتتب کا یونiانی تiرجمہ سiیپٹواجنٹ موجiود تھiiا۔ پس تھا اوریونانی جاننے والوں کے ہاتھوں میں ا� ک مقدس لوقا نے اپنے خالص ارامی ماخذوں کا یونانی زبا� میں ترجمہ کیا جن کو اس نے )جیسiiاآائے ہیں ہم باب سوم میں بتلاچکےہیں ( قیصریہ اوردیگر مقامات سے جمع کیا تھiiا۔ ہم ثiiاب کiiر کہ مقدس لوقا ارامی زبا� سےبخوبی واقiiف تھiا اوراس کی انجی�i کiا دیبiiاچہ ثiاب کرتiاہے کہ وہلز احسiiن یونiiانی زبiiا� ٹکسالی یونانی لکھا تھا۔ پس وہ اس بات کا اہ� تھاکہ اپنے ماخذوں کا بطر میں ترجمہ کرسکے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسiiکے بعض ماخiiذوں کiiا رسiiالہ کلمiiات کی طiiرح

۔ بہر حال یہ امiiر ہمیں کبھی فرامiiو* نہیں کرنiiا چiiاہیے کہ لوقiiا4پہلے پہ� یونانی ترجمہ ہوگیا ہو کی انجی� کiiا تمiiام مسiالہ کنعiiا� کiiا ہے اور قiiدیم تiiرین زمiiانہ کiiا ہے۔ ا� میں ہمیں اس بiات کiال} مقiiدس سiے ہٹ گیiiا ہے۔ اس کی یونiانی نشا� بھی نہیں ملتا کہ مسیحی کا مرکز ثق� ار انجی� میں بعض سامی الفا� اوریہودی رسوم کی توضiيح پiائی جiاتی ہے اوریہ اس لiiئے کیiiا گیiiا

ہے کہ تاکہ غیر یہودی مسیحی ا� کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔ 2 Barton, “Prof Torrey of theory of the Aramaic Origin of the Gospels J.Th.S. Oct 19353 Ibid p. 3654 (b) Sparks. Semetisms of St. Luke’s Gospel.J.Th.S. July-Oct.1943 pp. 129 ff.

Page 124: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

ہم باب چہارم میں بتلاچکے ہیں کہ مقدس لوقiiا نے اپiiنے ماخiiذوں کiiا اس قسiiم کی یونانی میں ترجمہ کیiا جiو سiیپٹواجنٹ کی تھی۔ عiبرانی صiحف مقدسiہ کے یونiانی مiترجمین کا یہ عقیدہ تھاکہ جن الفا� کا وہ ترجمہ یونانی میں کررہے ہیں کہ وہ الہامی ہیں پس انہiiوں نے عبرانی متن کا لفظی ترجمہ کا تاکہ متن کی صح برقرار رہے۔ مقiiدس لوقiiا کiiا بھی یہی عقیiiدہ تھاکہ جن ماخذوں کے الفا� کا وہ ترجمہ کررہاہے ا� کے الفا� سیدنا مسiiیح کے اپiiنے منہ سiiے

وغیرہ(۔ پس اس نے بھی سیپٹواجنٹ کا نمونہ اختیار کیiiا۔۹: ۱۸نکلے ہیں اورالہامی ہیں )یوحنا آایiiiات شسiiiتہ ، ادبی اورٹکسiiiالی یونiiiانی میں ہیں لیکن یکایiiiک چنiiiانچہ انجی�iii کےدیبiiiاچہ کی آای سے طرز تحریر بدل جاتاہے۔ یونانی محاورات اوریونانی صرف نحiiو کے قواعiiد کiiو پانچویں بiiالائے طiiا� رکھ دیiiا جاتiiاہے۔ بiiاقی تمiiام انجی�ii کی زبiiا� کے الفiiا� یونiiانی ہیں لیکن اس کے

محاورے ، جملوں کی نحوی ترکیبیں وغيرہ سب ارامی ہیں۔وول ودوم( پڑھiiنے سiiے ایسiiا معلiiوم ہوتiiاہے کہ انجی�ii لوقiiا میں طفiiولی کiiا بیiiا� )بiiاب اتتب تواری\ یiiا سiiموئي� کی پہلی کتiiاب پiiڑھ رہے ہیں۔ اس بیiiا� میں ارامی لد عتیق کی ک گویاہم عہتتب کی عiiبرانی کے لد عiiتیق کی ک iiاورات عہiiکے محiiونکہ اسiiا کیiiبھی نہیں ملت �اiiا نشiiک �اiiزب محiiاورے ہیں۔ اسiiبات کiiا پروفیسiiر ٹiiور ی تiiک کiiو اقiiرار ہے لیکن ا� ابiiواب کے الفiiا� اورجملے سیپٹواجنٹ میں پائے جاتے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ ا� کا تiiرجمہ سiiیپٹواجنٹ کی یونiiانی میں

کیا گیا ہے۔ل� لوقiiا پہلے پہ�ii یونiiانی زبiiا� میں تiiالیف کی گiiئی ۔ چنiiانچہ ڈاکiiٹر بلیiiک iiپس انجی لکھتاہے" یہ نظریہ کہ لوقا نے اص�i ارامی ماخiذوں کiا تiرجمہ یونiانی میں کیiا، بہiترین طiورپر اس

۔ جس طرح مقدس متی اور مقدس مرقس کے لiiئے یہ1کی یونانی زبا� کے مسئلہ کو ح� کرتاہے ایک قدرتی بات تھی کہ وہ اپنی انجی� پہلے پہ� ارامی زبا� میں لکھیں جiiو ا� کی مiiادری زبiiا� تھی ۔ اسی طرح مقدس لوقا کےلئے یہ قدرتی بات تھی کہ وہ اپنی انجی�ii کiiو پہلے پہ�ii یونiiانی زبا� میں لکھے، جو غیر یہiود مسiیحیوں کی مiادری زبiا� تھی۔ اگiر وہ اس کiو ارامی میں لکھتiا1 T.W.Manson, the teaching of Jesus (1935) Ch.111.

جس کو غیر یہود پڑھ لکھ نہ سکتے تھے تiiو اس کی محن عبث ہiiوتی اوراس کiiا اص�ii مقصiiدفوت ہوجاتا کہ غیر یہودی کلیسیاؤں کے ایما� کو پختگی حاص� ہو۔

(۲) مقدس لوقا نے اپنے ماخذوں کا سiیپٹواجنٹ کی یونiانی زبiا� کی طiرز پiر لفظی تiرجمہ کiiرکے ا� ماخiiذوں کے اص�ii ارامی الفiiا� اورمحiiاورات اورنحiiوی ترکیبiiوں اور ارامی صiiنعتوں کiiولت طیبiiات اور سiiوانح حیiiات آانخداونiiد کے کلمiiا محفiiو� رکھiiا۔ پس اس کی انجی�ii میں بھی بجنسہ محفو� ہیں۔ جب ہم اناجی� کے طریقہ تالیف پر غiiور کiiرتے ہیں تiiوہم پiiر یہ ظiiاہر ہوجاتiiاہے کہ اناجی� کے مولف نہ صرف اپنے ماخذ کے الفiiا� کiو لفiiظ بلفiiظ نق�ii کiرتے ہیں بلکہ وہ ا� کے اکثر حصہ کو نق� کرلیتے ہیں۔چنانچہ ہم بتلاچکے ہیں کہ مقدس لوقا نے انجی� مiiرقس کی

آایات میں سے ۶۶۱ آایات یعنی اپنی انجی� کiiا قiiریب تین چوتھiiائی حصiiہ نق�ii کیiiا ہے۔ اس۴۵۵ یی ہذا القیاس ہم بتلاچکے ہیں کہ اس نے نے انجی� مرقس کے ڈھانچہ کو بھی برقرار رکھاہے۔ عللل مبiiارک آانحداونiiد کے اقiiوا نہ صرف رسالہ کلمات کو لفظ بلفظ نق� کیاہے بلکہ اس رسiiالہ میں �iام انجیiنی تمiا نے اپiدس لوقiے مقiا ر سiریقہ کiiکی اص� ترتیب کو بھی بحال رکھا ہے۔ اس ط میں )جوا� ماخذوں پر مشتم� تھی( سیدنا مسیح کے مبارک کلام کے الفا� " ا� کiiو تiiرتیب ،لد ل� نزول" کو اورمنجی جہا� کی زندگی ، صلیبی مiiوت، ظفریiiاب قیiiام اور صiiعو تا� کے " شا آاسمانی وغيرہ واقعات کو نہiiای صiح کے سiاتھ تiرتیب وار محفiiو� رکھiiاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایڈورڈ مائر جیسے پایہ کا مورخ کہتاہے کہ لوقا نہای مستند اورمحتاط مصنف ہے جس کا پiiایہ

اعتبار لوی اور پولی بيئس کا ساہے۔

Page 125: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

فص� چہارمفص� چہارمل� یوحنا کی اص� زبا� ل� یوحنا کی اص� زبا�انجی انجی

ل� چہiiارم کiiا مصiiنف مقiiدس یوحنiiا iiآائے ہیں کہ انجی ہم حصiiہ چہiiارم میں ثiiاب کiiر یروشلیم کا یiا اس مقiiدس شiہر کے مضiافات کiا رہiiنے والا ہے ، کسiی کiاہن کے خانiدا� کiاآارائیiiوں سiے بخiiوبی چشم وچراغ تھا ۔ جو یہودی ربیiiوں کے تصiورات ، طiiرز اسiiتدلال اورقیiاس ل� یہiود کے تہiiواروں ، رسiوم iا۔ وہ اہiالم تھiiا عiبرانی کiiتتب کی ع واقف تھا اور عہد عiتیق کی کلت لح موعiود کی ذا تا� امیiدوں سiے جiو مسiی وشرع کiو اچھی طiiرح جانتiا تھiiا اورقiوم اسiرائي� کی وول کے مصiiنف کی طiiرح کiiٹر ل� ا iiنف انجیiiا۔ یہ مصiiف تھiiوبی واقiiتہ تھیں؟ بخiiات سےوابسiiبابرک یہودی تنiiگ خیiiالات کiiا مالiiک نہیں تھiiا ۔ اس کی انجی�ii میں کشiiادہ دلی اور وسiiیع الخیiiالی

( تiiاہم۶تiiا ۳: ۳پائی جاتی ہے۔مقدس پولوس کی ماننiiد وہ گiiو'عiiبرانیوں کiiا عiiبرانی " تھiiا )فلiiپیوں وولین کی کلیسiiیا کے لر ا یونiiانی فلسiiفہ ، خیiiالات اور تصiiورات کے مiiاحول سiiے متiiاثر تھiiا۔ وہ دولز اسiتد لال سiے استادوں اورمعلموں کے گروہ کا ایiک ممتiاز فiiرد تھiا جوربیiوں کی تعلیم اور طiر

( میں سiiے نہ تھiiا۔ چنiiانچہ اس۱: ۶بھی متاثر تھا۔ لیکن وہ " یونانی مائ� یہود" کےگروہ )اعماللب مقدسiiہ اورتiiارگم سiے لیiiا گیiiاہے، جس کی یہiiودی فلاسiiفر تت کا " لوگوس" کiiانظریہ یہiiودی ک�iiرح انجیiiی طiiہ دوم(۔ اسiiیی حص فiiائلو سiiے کچھ نسiiب نہیں )دیکھiiو مiیری کتiiاب نiور الہiiد چہارم کا لفظ" نوموس" عبرانی مترادف کے معiiنی میں ہی مسiiتعم� ہiiواہے۔ جiiو ثiiاب کرتiiاہے کہلم ادب اوراس کی اصiiطلاحات سiiے اس انجی� کا دائرہ یہودی تک ہی محدود ہے اوریونiiانی عل

ل} مقدس کنعiiا� میں جنم لیiiا اورپہلی صiiدی کے1اس کا کچھ تعلق نہیں ۔ اس انجی� نے ار نصف کی پیداوار ہے جو فراخ دل اور وسیع الخیiiال یہودیiiوں کے لiiئے لکھی گiiئی تھی۔ لہiiذا یہتا� لوگوں کی مادری زبا� تھی۔ اگریہ انجی� پہلے انجی� پہلے پہ� ارامی زبا� میں لکھی گئی جو پہ� یونانی زبا� میں لکھی جاتی تو اس کے لکھے جانے کا اص� مقصiiد فiiوت ہوجاتiiا کیiiونکہ یہ

1 Black,Aramaic Approach p.81

" اس لئے لکھی گئی تھی تاکہ بiنی اسiرائي� ایمiا� لائیں کہ یسiiوع ہی خiiدا کiا بیٹiiا مسiiیح ہے(۔ ۳۱: ۲۰اورایما� لاکر اس کے نام سے زندگی پائیں ")

(۲) اس انجی�ii کی یونiiانی زبiiا� پکiiار پکiiار کiiر یہ شiiہادت دیiiتی ہے کہ یہ ارامی زبiiا� کiiاآائے ہیں، جن سiiے لفظی ترجمہ ہے چنiiانچہ بiiاب دوم میں ہم اس انجی�ii سiiے متعiiدد مثiiالیں دے ظاہر ہے کہ عبرانی اورارامی زبا� کی صنعتیں اس میں موجود ہیں ، ۔ عبرانی ادبیات کی ایک اور خصوصiiی جiiو اس انجی�ii میں موجiiود ہے اعiiداد تین اور سiiات کiiا اسiiتعمال ہے جiiو مقiiدسآایiiا ہے۔ سiiیدنا مسiiیح کiiا گلی�ii میں تین دفعہ اا اس میں تین عیدوں کا ذکر سمجھتے تھے ۔ مثل جانے کا ذکر ہے۔ صلیب پر سے تین کلمات پائےجiiاتے ہیں۔ انجی�ii میں سiiات معجiiزے موجiiود

۔۱۴: ۸۔ ۳۴: ۵ہیں۔ اس انجی� میں سیدنا مسiیح نے سiiات قسiم کے گواہiوں کiا ذکiiر کیiiا ہے) ( سiiیدنا مسiiیح کی ذات کی نسiiب سiiات۲۶: ۱۵۔ ۲۷: ۱۵۔ ۷: ۱۔ ۴۶تا ۳۹: ۵۔ ۳۵: ۱۰

دعiiوے اس انجی�ii میں درج ہیں یعiiنی زنiiدگی کی روٹی میں ہiiوں " ، " دنیiiا کiiا نiiور میں ہiiوں"، بھیڑوں کا دروازہ میں ہوں "۔ اچھا چرواہا میں ہوں"،" قیام اور زندگی میں ہوں"۔ راہ ، حiiق اور

زندگی میں ہوں"۔ انگور کی حقیقی بی� میں ہوں"۔ اا " ربی علاوہ ازیں اس انجی� کے مختلiiف مقامiiات میں عiiبرانی الفiiا� موجiiو دہیں۔ مثل "، " مسیح"، کیفا"، شلوم" ، گبتا" گلگتا" ، توما" نتن ای�" وغيرہ جن کا غیر یہiiود کی خiiاطر

وغيرہ(۔۴۲: ۱ترجمہ بھی کیا گیا ہے") یہ حقیق اس امر پر بھی روشنی ڈالتی ہے کہ جب مقدس یوحنا موسموں، مہینiiوں اورل} مقiiدس میں ساعتوں یعنی گھنٹوں کی نسب لکھتاہے تو وہ اس حساب سے لکھتاہے جiiو ار

اا میں " چھٹے گھنٹے" سiے مiراد دوپہiiر کiiا۶: ۴یہودیوں کےشمار کے مطابق مروج تھے۔ مثل آای آانے میں ابھی چiiار مہیiiنے بiiاقی ہیں" جس کiiا مطلب۳۵وق ہے اور میں ہے " فص� کے

لہ فiiروری میں بiات کiررہے تھے کیiونکہ کنعiا� میں یہ ہے کہ منجئی عالمین سامری عورت سے ما

Page 126: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

تو� کے تیسiرے ہفiتے تiک رہiiتی ہے۔ بیس iوتی ہے اور جiiروع ہiے شiر سiآاخ جوکی فص�i مiئی کے تو� تiiک جiiو اورگیہiiوں کی فص�ii کٹ جiiاتی ہے۔ یروشiiلیم میں فiiروری سiiاڑھے پiiانچ بجے شiiام iiج اندھیرا چھا جاتا ہے اور کوئی عورت ایسے وق پiiانی بھiiرنے کےلiiئے بiiاہر نہیں جiiاتی چہ جiiائيکہ

بجے اندھیرے میں سامری عورت کے کہنے پر نک� پڑے!۶ساراشہر تتب سiiے لد عiiتیق کی ک iiایک اور امر قاب� غور یہ ہے کہ اس انجی� میں جو اقتباسات عہ لئے گiئے ہیں وہ اص�ii عiبرانی متن سiے لiئے گiئے ہیں۔ وہ یونiانی تiرجمہ سiیپٹواجنٹ سiے مiاخوذ

اا1نہیں ہیں ۔ جس سiiiiے صiiiiاف ظiiiiاہر ہے کہ اس انجی�iiii کiiiiا۳۷: ۱۹۔ ۸: ۱۳۔ ۱۳: ۱۲ ۔ مثل مصنف اص� عبرانی سے اقتباس کرتاہے اوراس نے انجی� یونiiانی زبiiا� میں نہیں لکھی بلکہ ارامی زبiiا� میں لکھی تھی۔اگiiریہ انجی�ii پہلے پہ�ii یونiiانی زبiiا� میں لکھی جiاتی تiو اس کiiا مصiiنف مقدس لوقا کی طرح سیپٹواجنٹ کا تiiرجمہ اسiiتعمال کرتiiا۔ پروفیسiiر بiiرنی نے ا� تمiiام اقتباسiiات کو ایک جگہ جمع کرکے ا� کا مطالعہ کیاہے اور وہ اس نتیجہ پر پہنچاہے کہ انجی� کiiا مصiiنفتتب کے عبرانی متن کiiا اقتبiiاس کیiiا تھiiا۔ وہ لد عتیق کی ک ل} مقدس کا یہودی ہے جس نےعہ ار

۔ انجی�ii کی2یونiiانی مائ�ii یہiiودی نہیں تھiiا اور اس کے اقتباسiiات سiiیپٹواجنٹ سiiے نہیں ہیںل} مقدس کی ہے اور" مصنف اپنی مiادری زبiا� کی فضiا اور مiاحول کiو اپiنے سiاتھ تمام فضا ار

۔3ساتھ لئےپھرتاہے اوریہ فضا اس کو جہاں چاہتی ہے ، لئے پھرتی ہے"(۳)

ہم انجی� مرقس وانجی� متی کی بحث میں ارامی زبا� کی نحوی خصوصiیات کiا ذکiرتا� میں موجiiود ہیں۔ آائے ہیں کہ اس زبiا� کے الفiiا�" محiiاورے اورترکیiبیں وغiیرہ کرکے ثiاب کiر ارامی اور عبرانی زبا� کے ماہروں نے اوربالخصوص مرحوم پروفیسر برنی اور ڈاکiiٹر ٹiiوری نے یہ ثiiابل� چہارم میں پائی جاتی ہیں۔ اوراس کے عبرانی اص� کردیاہے کہ ارامی زبا� کی خصوصیات انجی

کا پتہ دیتی ہیں۔1 C.H.Dodd. the Interpretation of the Fourth Gospel. P.1762 Very.Revd.J.A.Mc Clymont.St.John (Cent Bible)3 Ewald, quoted by Burney, p.21 note.

آائے ہیں کہ جب مقiiiدس لوقiiiا اپiiiنے دیبiiiاچہ کواپiiiنی زبiiiا� میں ہم سiiiطور بiiiالا میں بتلایی درجہ کی ٹکسiiالی یونiiانی زبiiا� میں لکھتiiاہے) (۔ لیکن بiiاقی انجی۴�iiتiiا ۱: ۱لکھتاہے تو وہ اعل

�iiا پہلا خiiا اپنiiدس یوحنiiرح جب مقiiی طiiاہے۔ اسiiکرت �iiانی کی نقiiیپٹواجنٹ کی یونiiمیں وہ س لکھتاہے کہ تووہ ارامی الفا� اورمحاورات یا ارامی زبا� کی نحوی ترکیبiiوں کiiو اسiiتعمال نہیں کرتiiا

تو۹: ۱۸لیکن جب وہ انجی� لکھتاہے جس کے کلمات اورمکالمات کو وہ الہامی سمجھتاہے وہ ارامی الفiiا� کiا لفظی تiرجمہ کرتiا ہے۔اس کے الفiiا� تiو یونiانی زبiا� کے ہیں۔ لیکن نحiiوی

۔ چنiانچہ ایولiڈ کہتiاہے" مصiنف کی یونiانی نہiای صiاف اور4ترکیب وغيرہ ارامی زبiا� کی ہے پرزور الفا� میں اس بiiات کی شiiہادت دیiiتی ہے کہ اس میں عiiبرانی کے نشiiانات موجiiود ہیں۔ وہل� یہود میں اس نے پرور* پائی۔ اسی سiiماج میں وہ جiiوا� ہiiوا۔ ل} مقدس میں پیدا ہوا۔ اہ خود ار اس کی مiiادری زبiiا� یونiiانی نہ تھی بلکہ اس کی انجی�ii کی زبiiا� نے بعiiد میں یونiiانی لبiiاس

مشiiہور5پہنالیکن یہ لباس اس کی مادری زبا� اوراس کے تصورات وخیالات پر پردہ نہیں ڈالتالز تحریر، الفiiا� کی بنiiد* اورا� نقاد پروفیسر شیلٹر نے یہ ثاب کردیا ہے کہ انجی� چہارم کی طرل} مقدس کا ہے۔ اس عiiالم کا استعمال صاف ظاہر کرتے ہیں کہ اس انجی� کا مبداء اورمخرج ارآای کiiو لے کiiر ثiiاب کیiiا ہے کہ ا� کے الفiiا� ومحiiاورات وہی نے اس انجی� کی ایک ایiiک

اا اس نے پہلے بiiاب کی آایiiات۵۱ہیں جو یہiiودی ربیiiوں کی تصiiنیفات میں پiiائے جiiاتے ہیں۔ مثل آایات کے مماث� الفا� کی نظiیریں ڈھونiڈ نکiالی ہیں۔ یiوں اس عiالم نے اس انجی۳۴�iمیں سے

تتب کے آایات کی ایک کثیر تعداد کے لئے مiiدرا* کے مقامiiات اور ربیiiو ں کی عiiبرانی ک کی ل} مقامiات ثبiوت میں پیش کiئے ہیں۔ یہ عiالم اس نiتیجہ پiر پہنچiiاہے کہ انجی�i کiا مصiنف ار مقدس کا رہنے والا تھا جس کی مادری زبا� ارامی تھی، جو خود ارامی زبا� میں تعلیم دیا کرتiiا

۔6تھا۔ اس نے محض تبلیغ کی خاطر یونانی زبا� کے علم کی تحصی� کی تھی

4 Manson,” Problem of Aramaic Sources ” Exp Times Oct 19355 H.Ewald.Quoted by Burney p.2. note.6 Prof.A.Schlater See Burney Op.Cit.p.3 note.

Page 127: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔
Page 128: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

(۴) جیسiiا ہم بتلاچکے ہیں انجی�ii چہiiارم کے فقiiروں کی سiiاخ اورعبiiارت کی نحiiوی تiiرکیب صiiاف پتہ دیiiتی ہے کہ یہ انجی�ii پہلے پہ�ii ارامی زبiiا� میں لکھی گiiئی تھی۔ اورموجiiودہاا ارامی زبا� میں عبارت کے مختلف فقiiرے الiiگ انجی� اس ارامی اص� کا یونانی ترجمہ ہے۔ مثللف عطiiف سiiے بiiاہم پیوسiiتہ نہیں کiiئے جiiاتے اور یہ الiiگ ہiiوتے ہیں جiiو لفiiظ " اور" وغiiيرہ حiiر�iiجو اس انجی ل� چہارم میں پائی جاتی ہے۔ ارامی زبا� کی ایک اور خصوصی خصوصی انجی میں موجو دہے یہ ہے کہ اس زبا� میں مiiرکب فقiiرے نہیں ہiiوتے اورا� کی تiiرکیب سiiادہ ہiiوتی ہے۔ ایiiک اور خصوصiiی یہ ہےکہ سiiادہ فقiiروں میں جب فاع�ii پiiر زوردینiiا مقصiiود ہوتiiاہے تiiو اس میںاا " خiiدا کiiو ضمائر شخصی کا اضافہ کیا جاتاہے اوریہ خصوصی انجی� میں پائی جاتی ہے۔ مثل

(۔۱۸: ۱کبھی کسی نے نہیں دیکھا۔ اکلوتا بیٹا جوباپ کی گiiود میں ہے، اسiiی نے ظiiاہر کیiiا ) ۶ مiiرقس میں ۴۷مقامات انجی�ii مiiتی میں ، ۱۱ مقامات انجی� یوحنا میں ، ۲۷اس قسم کے

لوقا میں پائے جاتے ہیں۔لف عطف " کہ " غلطی سے ضiiمائر کی ل� یوحنا کے بعض مقامات میں حر یونانی انجی جگہ استعمال ہواہے، جiو صiاف ظiiاہر کرتiاہے کہ یہ تiرجمہ کی غلطی ہے ۔ جب ارامی زبiا� کے ماہر ا� مقامات کودوبارہ یونانی سے ارامی میں تiرجمہ کiرتےہیں تiو یہ غلطی ظiاہر ہوجiاتی ہے۔ ایک اورمثال لیں۔ لفiiظ " کہ " ارامی لفiiظ"د" کiiا تiiرجمہ ہے جس کiiا مطلب " کہ" ،" تiiاکہ" ،اا جو " ، چونکہ" وغیرہ ہوجاتاہے جس طرح فارسی زبا� میں لفظ" کہ" کے یہ معنی ہوتے ہیں۔ مثل

آادمی نہیں کہ وہ مجھے حiiو} میں اتiاردے" یہiiاں لفiiظ"۷: ۵یوحنا میں ہے" میرے پاس کوئی آادمی نہیں جiو د" کا اص� مطلب " جiiو " ہے اورتiiرجمہ یiوں ہونiا چiاہیے تھiiا" مiیرے پiاس کiوئی تاتiاردے" ایiک اور غلطی کااص�i سiiبب یہ ہے کہ ارامی میں اعiiراب نہیں تھے مجھے حiiو} میں اورمختلiف حiiروف ایiiک دوسiرے کے مشiابہ بھی تھے۔ ا� مختلiف سiiببوں کی چنiد مثiالیں ہم

آائے ہیں۔ آایات کا نیا ترجمہ" میں دے ل� اربعہ کی زبا� اور چند اپنی کتاب" اناجی

آائے ہیں۔ ل� چہiiارم میں بکiiثرت iiمیر انجیiiم ضiiر کے اسiiیغہ حاضiiیغہ متکلم اور صiiص ل� یوحنا میں دفعہ اور۴۱ مiiرتبہ ، مiiرقس میں ۹۲ مقامات میں، انجی�ii مiiتی میں ۳۰۷چنانچہ انجی

مقامات میں موجود ہیں۔ ا� میں بہ سے مقامiiات ایسiiے ہیں جہiiاں اردو کی طiiرح۸۰لوقا میں اا " توپiiانی پی لے" میں لفiiظ" تiiو" زائiiد ہے اوراردو میں یہ لم ضمیر کی ضرورت نہیں ہiiوتی۔ مثل استاس وق استعمال ہوتاہے جب اس پر زوردینiiا منظiiور ہiiو۔ یہ حقیق صiiاف ظiiاہر کiiرتی اسم ضمیر ہے کہ موجiiودہ یونiiانی انجی�ii اص�ii ارامی کiiا تiiرجمہ ہے کیiiونکہ یونiiانی زبiiا� میں فع�ii ہی سiiے صیغے معلوم ہوجاتے ہیں اور ضمائر" میں" ،" تiiو" ،" ہم " ، " تم" وغiiيرہ کی ضiiرورت ہی نہیں

ہوتی۔ ارامی زبا� کا ایک اور خاصہ ہے کہ زمانہ گذشتہ کے واقعات کو بیا� کرتے وق زمiiانہآائے ہیں۔ یہ ل� مiرقس کی بحث میں کiر iر ہم انجیiا ذکiاہے۔ اس کiا جاتiحال کا فع� استعمال کی

�iiانچہ یہ فعiiاہے۔ چنiiا جاتiiثرت پایiiا میں، ۱۶۴فع� حال انجی� یوحنا میں بکiiرتبہ یوحنiiرتبہ۷۸ مiiم ل� لوقiiا میں صiiرف ۱۵۱مiiتی میں اور iiاہے لیکن انجیiiا جاتiiرقس میں پایiiم �iiرتبہ انجیiiرتبہ۶ مiiم

وول ودوم وچہiiارم ارامی اص�ii کے لفظی یونiiانی اسiiتعمال ہiiواہے ۔ جس سiiے ظiiاہر ہے کہ انجی�ii ا ترجمے ہیں۔جس طرح یونانی کے نحو کے مطابق یہ استعمال غل� ہے اسی طرح اردو کے قاعiiدہ کے خلاف ہے لہذا اناجی� کے اردو کے بامحiiاورہ تiرجمہ میں ماضiی کiا فع�i اسiتعمال کیiiا گیiiا اا یوحنا اس کی باب گواہی دیتاہے کہ" بجائے اردو انجی� میں" یوحنا نے اس کی بiiاب ہے۔ مثل

(" یسوع کی ماں اس کو کہتی ہے کہ" بجائے ترجمہ ہے" یسوع کی مiiاں نے۱۵: ۱گواہی دی")لف قاعiiدہ فع�ii کiiا اسiiتعمال صiiاف ثiiاب ۳: ۲اس کو کہا") ( وغیرہ۔ پس یونiiانی انجی�ii میں خلا

کرتاہے کہ یہ انجی� پہلے پہ� ارامی میں لکھی گئی تھی۔ ارامی نحو کے مطابق ماضی کی بجائے ماضی استمراری کا فع� استعمال کیا جاتاہے۔اا " اس نے کہا" کی بجائے" وہ کہتا تھا" اوریہ استعمال اکثر مرقس اوریوحنا کی انجیلiiوں میں مثل

پایا جاتاہے، جو ا� کا ارامی الاص� ہونا ثاب کرتاہے۔

Page 129: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

ارامی زبiiا� میں فع�ii مسiiتقب� کی بجiiائے فع�ii حiiال کiiو اسiiتعمال کیiiا جاتiiاہے اوریہآاتاہے " ) اا جو میرے بعiiد آایاہے مثل ل� یوحنا میں بکثرت ،۲۱: ۴۔ ۳۰، ۲۷، ۵: ۱بالخصوص انجی

وغيرہ(۔ یہ اردو زبا� کے محاورے کے مطابق بھی ہے لہذا اردو مترجمین نے بھی یہ فع� حال۲۳ل� یوحنiiا میں iiاورہ نہیں ہے ۔ لیکن انجیiiا محiiک �ات۲۸استعمال کیا ہے۔ لیکن یہ یونانی زباiمقام

آایاہے۔ دیگر اناجی� میں بھی یہ خصوصی موجود ہے گواس کثرت سے نہیں پiiائی جiiاتی ۔ میں اا مiiiiتی ۔۲۰: ۷، ۱۶: ۳، ۲۹: ۳، ۲۰: ۱۷۔ لوقiiiiا ۴۹: ۲۷، ۴۴، ۴۳، ۴۲: ۲۴، ۱۱: ۱۷مثل

۔ وغiiیرہ۔ ا� میں سiiے بعض مقامiiات میں اردو مiiترجمین نے۱۲: ۹۔ ۷: ۱۔ مiiرقس ۴۰، ۳۹: ۱۲فع� مستقب� کا استعمال کیا ہے۔

ہم نے صرف چند عام فہم مثالیں دی ہیں تiiاکہ اردو خiiوا� نiiاظرین جiiو یونiiانی اورارامیتا� وجوہiiات سiiے واقiiف ہوجiiائیں جن کی بنiiاء پiiر علمiiاء اس نiiتیجہ پiiر زبiiانوں سiiے نiiاواقف ہیں ، پہنچے ہیں کہ یہ انجی� ارامی زبا� میں پہلے پہ� لکھی گiiئی تھی ، اور اس کiiا بعiiد میں یونiiانی

زبا� میں لفظی ترجمہ کیا گیا تھا۔ ہم نے اس حصہ کے باب دوم میں اس انجی� سے چند مثالیں دے کر بتلایا تھاکہ اسآایiiات کiiا متن یونiiانی سiiے ارامی میں ارامی اورعiiبرانی نظم کی صiiنعتیں موجiiود ہیں اورکہ اس کی میں ترجمہ کیا جاسکتاہے۔پروفیسر بiiرنی اوردیگiiر علمiiاء نے اس انجی�ii کے مختلiiف مقامiiات کiiااا پروفیسiiر بiiرنی نے انجی�ii کے دیبiiاچہ تiiرجمہ کiiرکے اس کiiا ارامی الاص�ii ہونiiا ثiiاب کیiiاہے۔ مثل

آایات ( کا ترجمہ کیاہے بعض مقامات میں ارامی الفا� استعمال ہوئے ہیں جو ذومعنی ہیں۱۴: ۱)" آای اا اورجن کا یونانی انجی� میں موجiiود ہونiا انجی�ii کے ارامی الاص�i ہiiونے کiiا ثبiiوت ہے۔ مثل

(کے الفiiا� ذومعiiنی ہیں۔۱۹: ۲اس مقدس کو ڈھادو تو میں اسے تین د� میں کھڑا کiiردوں گiiا")آانخداونiد ہیک�i کiو تین د� میں کھiiڑا کiردینگے )مiتی سiامعین ا� الفiiا� سiے یہ سiمجھے کہ

آاپ مiiوت کے بعiiد تیسiiرے۲۹: ۱۵۔ مرقس ۴۰: ۲۷ (۔ لیکن منجئی جہا� کا مطلب یہ تھiiا کہ آاپ نے ارامی لفظ" ہیک�" استعمال فرمایا تھا ذومعiiنی 1د� جی اٹھیںگے۔ اس کلمہ مبارک میں

1 Expository Times 1910 pp.191-192

ہے۔ چنانچہ عربی میں بھی یہ لفظ ذومعiiنی ہے اورا سiiکا مطلب ہے " کiiوئی عالیشiiا � شiiے ۔ بiiڑا مادی وجود ، بڑی عمارت، بiد�، بiڑی عمiiارت ۔ ہیک�i" چنiiانچہ اردو زبiiا� میں بھی لفiiظ " دیiiوآانخداوند نے فرمایا تھا " اس ہیک� )بمعنی عمارت( کiiو آایہ شریفہ میں ہیک�" استعمال ہوتاہے۔ اس �iiڈھادو" ایک اورمثال ملاحظہ ہو " اس کی معموری میں سے ہم سب نے پایا یعنی فض� پر فض

آایiiاہے ۔ جس کے عiiام طiiورپر "۱۶: ۱") لف جiiار" اینiiٹی" یونiiانی متن میں آای میں حiiر (۔ اس بجائے" کے معنی لئے جاتے ہیں۔یہاں یونانی میں ارامی لفظ کا لفظی ترجمہ کیا گیاہے اور لفiiظ" فض� " کے لئے جو ارامی لفظ ہے اس کے معنی " بے تiوفیقی" کے بھی ہیں پس یہiاں مصiنفتاس آایہ شریفہ کiiا مطلب یہ ہiiوا " نے دیدہ دانستہ ایک ذومعنی لفظ استعمال کیاہے، جس سے یہ کی معموری میں سے ہم سب نے بے توفیقی کی بجائے توفیق اورالزام کی بجiiائے رحم کiiو پایiiا "یی کی معiرف دی گiئي ، iو موسiت آای میں بھی پایiا جاتiاہے" شiریع کیiiونکہ یہی خیiال اگلی جس کی وجہ سے الزام پایا لیکن توفیق اور سچائی یسوع مسیح کی معرف پہنچی"۔ یہی خیiiالوولین دور میں کلیسiiیا کے اسiiتادوں آائے ہیں کہ دونiiوں مصiiنف ا پولiiوس رسiiول کiiا بھی ہے۔ ہم بتلا�iiرجمہ " فضiiآایہ زیر بحث میں یونانی متن کا لفظ جس کا ت کے زمرہ کے ممتاز افراد تھے۔ پس �iiلف جار کا وجود اس وجہ سے ہے کہ مترجم کو یہ علم نہ تھا کہ اص " کیا گیا ہے اوریونانی حر

آای 2ارامی لفiiiظ ذومعiiiنی ہے میں متiiiوازی کی صiiiنع بھی موجiiiود ہے اوراس کے علاوہ۱۵ ۔ ارامی الفا�" مقدم" اور" پہلے" کے ایک سے زیادہ معنی ہیں جن کو اردو ترجمہ ظiiاہر کردیتiiاہے۔�iiپہلے پہ �iiاہے کہ یہ انجیiiکرت یونانی انجی� میں اس قسiiم کے ذومعiiنی الفiiا� کiiا وجiiو د ثiiاب

ارامی زبا� میں لکھی گئی تھی۔�iiاہے کہ انجیiiر پہنچiiتیجہ پiiروہ اس نiiڑا گiiاور دیگر وجوہ کی بناء پر علماء کا ایک ب �ا

۔اس گiiروہ میں متعiiدد سiiرکردہ عiiالم ہیں ۔ چنiiانچہ3یوحنiiا پہلے پہ�ii ارامی میں لکھی گiiئی تھیتریانی، iiبرانی، سiiالم ہیں اور ارامی، عiiبرانی کے عiiلدعتیق کی ع iiوری عہiiپروفیسر برنی اور پروفیسر ٹ

2 M.Black, “Does an Aramaic Tradtion underline John1: 16 J.Th.S.Jan-April 19413 See Dr.J.C.Ball Exp. Times Nov.1909

Page 130: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

۔ پس ا� کے نتائج نہiiای وز� دار ہیں جن کiiو رد کiiرنے1اوردیگر سامی زبانوں کے بھی ماہر ہیںکے لئے نہای وز� دار دلائ� کی ضرورت ہے۔(۵)

ل� اربعہ پہلے پہ�i یونiiانی میں لکھی گiئیں iر ہیں کہ اناجیiتمص بعض اصاحب جو اس پر آاپ ایک اور نظریہ پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت کلمتہ اللہ یونانی سے واقف تھے پس نے اپنے سامعین کو جو گلیلی تھے )لہذا یونانی سے بھی واقف تھے( یونانی زبا� میں تعلیم دی تھی۔ اوراناجی� پہلے پہ� یونانی زبا� میں لکھی گئیں جن کا بعد میں ارامی زبا� میں ترجمہ کیiiا گیا اوراس ارامی ترجمہ کا دوبارہ پھر یونiiانی زبiiا� میں تiiرجمہ کیiiا گیiiا!!۔ یہ نظiiریہ ایسiiا مضiiحکہل� سلیم اس کو قبول نہیں کرسکتی، اورنہ کوئی دلی�i اس مفروضiiہ کiو قiiائم کiرتی خيز ہے کہ عق ہے۔ اس بiiات کiiو کiiو� مiiا� سiiکتاہے کہ حضiiرت کلمتہ اللہ نے فقیہiiوں اورفریسiiیوں سiiے بحثآاپ کے دلائ�ii یہiiودی کرتے وق یونانی زبا� کiiا اسiiتعمال کیiiا تھiiا؟ جیسiiا ہم بتلاچکے ہیں کہ آانخداونiiد یونiiانی میں تعلیم دیiiتے لد عiiتیق پiiر ہے۔ اگر تتب عہ ربیوں کے سے ہیں جن کا انحصار ک

آاپ کو یونانی کے شیدائی کا خطاب نہ دیتے؟ لن جا� فریسی آاپ کے دشم تو کیا حق تویہ ہے کہ اس رسول کiا تعلiق علم اللسiا� کے سiاتھ ہے۔ اگiر حضiرت کلمتہ اللہ کے مبارک الفا� کو جمع کیا جائے توا� کا مقiابلہ سiیپٹواجنٹ کے مiترادف الفiا� سiے اوردیگiرآانخداونiiد تراجم کے الفا� سے اور ترجمہ پشیتہ کے الفا� سے کیا جائے تiiو یہ ظiiاہر ہوجاتiiاہے کہ آاپ نے ارامی میں ہی تعلیم دی تھی اوراس حقیق کiاذکر ہم اس حصiiہ کے ارامی بولتے تھے اورآانخداونiiد نے آائے ہیں کہ آائے ہیں جہاں ہم اس نظریہ کا کھوکھلا پن ثiiاب کiiر وول میں کر باب ا

سامعین کویونانی زبا� میں تعلیم دی تھی۔

1 See.Dr.J.C.Ball, Exp Times Nov.1909 C.F.Burney, Aramaic Origin of the Fourth Gospel 1922 Torrey, Four Gospels and Our Translated Gospels Burch.The Structure and Message of the Fourth Gospel 1928.Manson, The Incarnate Glory 1928.

اگرہم اس نظریہ کو تسلیم کرلیں کہ اناجی� پہلے پہ� ارامی زبiiا� میں لکھی گiiئی تھیںآامد ہوتے ہیں : 2تو اس حقیق سے چند ایک نہای اہم نتائج بر

۔( اس کiiا اثiiر اناجی�ii کے پiiایہ اعتبiiار پiiر پڑتiiاہے۔ اگiiریہ حقیق ہے کہ اناجی�ii ارامی۱)تا� لوگiiوں کی حین حیiiات میں ہی احiiاطہ �iiاہر ہے کہ یہ اناجیiiو ظiiمیں لکھی گئ تھیں ت �اiiزب

آاگiئی تھیں جiو " شiروع سiiے خiود دیکھiنے والے اورکلام کے خiادم تھے")لوقا (۔۲: ۱تحریiر میں پس اس حقیق سے ثاب ہوتاہے کہ اناجی� نہای قدیم ہیں اورا� کاپایہ اعتبار بے نظیر ہے۔

(۲�iiا علم بھی حاصiiنیف کiiائے تصiiاس نظریہ کی روشنی میں ہم کو اناجی� کی ج )۔ ہوسکتاہے۔ اگریہ حقیق ہے کہ یہ اناجی� ارامی زبا� میں پہلے پہ�ii لکھی گiiئی تھیں توظiiاہر ہےلک شام میں لکھی گئی تھیں جہiiاں ل} مقدس کنعا� میں لکھی گئی تھیں یا وہ مل کہ یا تو وہ ارلک شiiام میں کلیسiiیا iiارامی اوریونانی دونوں زبانیں بولی جاتی تھیں چونکہ اس ابتدائی زمانہ میں مل ل} مقدس میں ہی لکھی گiiئی ئیں نہیں تھیں لہذا نتیجہ ظاہر ہے کہ یہ ارامی اناجی� پہلے پہ� ار

تھیں۔ ۔( اس نظiiریہ سiiے یہ بھی اظہiiر من الشiiمس ہوجاتiiاہے کہ اناجی�ii کی تصiiنیف کی۳)

ء سے بہ پہلے۶۰تاریخیں جو ہم نے تجویز کی ہیں صحیح ہیں کہ چاروں کی چاروں انجیلیں یعنی صلیبی واقعہ کے پچیس سال کے اندر اندر لکھی گئی تھیں۔

2 F.V.Filson Origin of the Gospels pp.61-63

Page 131: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

فص� پنجمفص� پنجمارامی اناجی� کی گمشدگی کےاسبابارامی اناجی� کی گمشدگی کےاسباب

تن اندرونی اور بیرونی شہادت سے یہ ثiiاب کردیiiا ہے ہم نے گذشتہ فصلوں میں فیصلہ ککہ مقدس لوقا کی انجی� کے سوا تمام اناجی� اربعہ پہلے پہ�ii ارامی زبiiا� میں لکھی گiئی تھیں۔ اندرونی شہادت ایسی صاف اورواضح ہے کہ اس میں کسی قسiiم کے شiiک کی گنجiiائش نہیں رہتی۔ بیرونی شہادت کے حق میں یہ قدیم صدیوں کے مختلiiف علمiiاء کے اقتباسiiات پیش کiiئے گئے ہیں ۔ جن سے ظاہر ہے کہ یہ مصنف اس ایک بات پر زوردیتے ہیں کہ یہ اناجی� ارامی زبا� میں تھیں۔ یہ حقیق ا� عالم مصنفوں کے لئے بھی موجب حیرت تھی کیونکہ ا� کے زمانہ میں

ارامی نسخے ناپید ہوچکے تھے اور صرف یونانی اناجی� ہی ہر جگہ مروج تھیں۔ اس کے خلاف بعض محتاط نقاد یہ دلی� پیش کرتے ہیں کہ اناجی� اربعہ ہم تک یونانی زبا� میں ہی پہنچی ہیں اور سب قدیم اورجدید ترجمے یونانی متن سے ہی ترجمہ کئے گiiئے ہیں۔ ہم کو اب تک کوئی ایسا نسخہ دستیاب نہیں ہوا جس میں کسی ارامی الاص� انجی� کا جiiز بھ

آاتا ۔1ہو اورکلیسیائی روایات میں ارامی الاص� اناجی� کا کہیں ذکر نہیں لیکن یہ دلی�iii منطقیiiiانہ اسiiiتد لال کے خلاف ہے ۔ کسiiiی شiiiے کی گمشiiiدگی یiiiا ناپیدگی سے اس کا عدم وجود ثاب نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی چiiیز ہم کiiو دسiiتیاب نہیں ہiiوئی تiواا علمiiاء اس امiiر کiiو قبiiول آائی تھی۔ مثل آاتiiاکہ وہ کبھی وجiiود میں ہی نہیں اس سiiے یہ لازم نہیں کرتے ہیں کہ مکابیوں کی پہلی کتاب عبرانی اص� کایونانی ترجمہ ہے۔ اب یہ کتiiاب عiiبرانی میں موجiiود نہیں لیکن اس سiiے یہ نiiتیجہ نہیں نک�ii سiiکتا کہ یہ کتiiاب پہلے پہ�ii عiiبرانی میں نہیں

لگ یہiiود" ہے۔ یہ2لکھی گئی تھی iiاری\ جنiiاب" تiiوزیفس کی کتi۔ ایک اور مثال یہودی مورخ ج بات سب کو مسلم ہے کہ اس نےیہ کتاب ایسے لوگiiوں کے لiiئے ارامی زبiiا� میں لکھی تھی جiiو

1 F.V.Filson Origin of the Gospels p.692 A.Roberts.Expositor, Vol. VI p.86

ارامی پڑھتے لکھتے تھے ۔ یہ لوگ نہ صرف کنعا� کے یہود تھے بلکہ پارتھیا، باب�ii ، عiiرب کے دور دراز مقامات کے قبائ� ، فرات کے پار کے یہiiودی اورادیiiابین کے باشiiندے تھے۔ تھیکiiرےآائے ہم کو بتلاتاہے کہ اس نےیہ کتاب رومی حکام کے ایماپر لکھی تھی تاکہ پراپاغنڈ کے کiiام یعنی اس کتاب کا مقصد یہ تھاکہ مغربی ایشیا میں بغاوت اور فساد فردہوجائے۔ پر اب ارامی زبا�تاس زبiا� میں کبھی میں یہ کتاب موجود نہیں ہے لیکن اس سے یہ ثiاب نہیں ہوتiا کہ یہ کتiاب

۔3لکھی ہی نہ گئی تھی حق تویہ ہے کہ کسی زمانہ یا کسی صدی یiiا کسiiی زبiiا� کی کتiiابوں کiiا محفiiو� رہنiiاآاگے چ� کر ا� اسباب پiiر بحث کiiریں گے جن کی وجہ سiiے محض ایک اتفاقیہ امر ہوتاہے ۔ ہم

ارامی اناجی� کا رواج بند ہوگیا۔ ارامی اناجی� کے وجود کے خلاف ایک اوردلی�ii یہ دی جiiاتی ہے کہ اناجی�ii کے تمiiام مشکوک یونانی الفا� کا ایسی ارامی زبiiا� میں تاحiiال تiiرجمہ نہیں کیiiا گیiiا جiiو تمiام علمiاء کے نزدیک مسلم ہو۔ لیکن یہ بھی کوئی معقول دلی� نہیں ہے۔ مثiiال کےطiiورپر ہم مکiiابیوں کی پہلی کتاب کو لیں ، جو عبرانی اص� کا یونiiانی تiiرجمہ ہے۔ جب علمiiاء اس کتiiاب کے یونiiانی الفiiا� کا دوبارہ عبرانی میں ترجمہ کiرتے ہیں تiو ظiiاہر ہوجاتiاہے کہ اص�i عiiبرانی الفiiا� کiا ہiiر جگہ ایسiالد یقینی طورپر ترجمہ نہیں ہوسکتا جس کے سامنے سب علماء سرتسلیم خم کردیں، حالانکہ عہ عiiتیق کے عiiبرانی متن کiiا سiiیپٹواجنٹ میں تiiرجمہ موجiiود ہے اوردونiiوں یونiiانی متن علمiiاء کےتا� کو یہ تعین کرنا پڑتاہے کہ سیپٹواجنٹ کے مترجمین کے سامنے عبرانی سامنے موجود ہیں، تاہم

۔4اص� متن کے کیا الفا� تھے یہ ایiiiک تiiiواریخی حقیق ہے کہ پہلی صiiiدی کی کنعiiiانی تحریiiiرات اب ناپیiiiد ہیںتاس خاص زمانہ کی ارامی زبا� کی کتب موجود نہیں جس زمانہ میں اناجی� ارامی اورہمارے پاس میں تصنیف کی گئیں۔ لیکن اس سے یہ ثاب نہیں ہوتاکہ یہ اناجی� پہلے پہ� ارامی میں لکھی

3 W.R.Taylor, Aramaic Gospel Sources .Exp. Times Nov.19374 Burney, Aramaic Origin of the Fourth Gospel p.24

Page 132: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

ہی نہ گئی تھیں۔ ارامی زبا� سیدنا مسیح کے زمانہ سے مدتوں پہلے نشوونما پiiاکر تiiرقی کiiرچکی تھی اوراس کی خصوصiiیات ہiiر زمiiانہ میں اور ہiiر جگہ جہiiاں یہ زبiiا� بiiولی جiiاتی تھی، قiiائم اور برقiiرار ہیں۔ چنiiانچہ دیگiiر زبiiانوں کی طiiرح ارامی زبiiا� کے بھی مخصiiوص محiiاورات اورنحiiویاا پہنچانی جاسکتی ہیں خiواہ وہ تiرجمہ کی صiورت میں ہی موجiود ہiiوں۔ علاوہ ترکیبیں وغيرہ فورتانہiiوں نے انبیiiاء کی صiiحف مقدسiiہ پiiر ازیں اس معiiاملہ میں انکلiiوس اوریiiونتن کے تiiارگم جiiو تا� سiiے یہ پتہ چ�ii جاتiiاہے کہ پہلی صiiدی مسiiیحی میں لکھے ہیں بiiڑے کiiام کے ہیں کیiiونکہ

ل} مقدس میں کس قسم کی ارامی زبا� مروج تھی ۔ اس کے علاوہ ہمیں ایک کتبہ دستیاب1ار قب� مسیح کا ہے۔ اور سیدنا مسیح کی پیدائش سے پہلے ہیرودیس اعظم کے عہد۴۴ہواہے جو

کے یہودی کتبے ملے ہیں جن سے منجئ عالمین کے زمانہ کی ارامی زبا� معلوم کiiرنے میں مiدد ۔2م� سکتی ہے

ا� اعتراضات کی اص� وجہ یہ معلوم ہiiوتی ہے کہ علمiiاء صiiدیوں سiiے یہی مiiانتے چلے آائے ہیں کہ اناجی�ii کی اص�ii زبiiا� یونiiانی ہے لیکن اگiiرہم اس نظiiریہ کiiو مiiا� لیں تiiو اناجی�ii کیل� اربعہ کی اص� زبا� اور چنiiد مشکلات بدستور قائم رہتی ہیں کیونکہ جیسا ہم اپنی کتاب" اناجی

( اگiiر بعض مقامiiات پہلےپہ�ii یونiiانی میں لکھے۱آایات کا نیا ترجمہ" میں ثاب کرچکے ہیں )آاتی لیکن جب ا� کiiا ارامی زبiiا� میں دوبiiارہ تiiرجمہ کیiiا گiiئے تھے تiiو ا� کی سiiمجھ ہی نہیں

( بعض الفا� کو یونانی مترجم نے غل�ii اعiiراب دے۲جاتاہے توا� کے معانی روشن ہوجاتے ہیں ) ( یونiiانی متن۳کر یا غل� پڑھ کر ترجمہ کردیاہے جس سے یونانی متن کا مطلب خب�ii ہوجاتiاہے )

( حروف۴کے بے ڈھنگے اور غرائب محاورات اورنحوی ترکیبیں جو یونانی زبا� کے خلاف ہیں )تن ہوجاتiiاہے ۔ لیکن جار اور افعال کی مختلف صiiورتوں کiiا اسiiتعمال جiiو بعض اوقiiات حiiیرا� ک جب ا� کiiا دوبiiارہ ارامی زبiiا� میں تiiرجمہ کیiiا جاتiiاہے تiiودق دور ہوجiiاتی ہے ۔ پس یہ نظiiریہ کہ

اناجی� پہلے پہ� ارامی زبا� میں لکھی گئیں تھیں صحیح ہے۔

1 W.F.Albright, The Archaelogy of Palestine p.198.2 Torrey, Our Translated Gospels .p.XIII.

(۲)لم ادب جو ارامی زبا� میں لکھا گیا تھا، سب کا سiiب ضiiائع ہوگیiiاہے۔ اس مسیحی عل میں اناجی�iii کی نقلیں بھی شiiiام� ہیں۔ اس کی ایiiiک بiiiڑی وجہ یہ عiiiداوت تھی جiiiو یہودیiiiوں

ء میں یہ خلیج ایسiiی وسiiیع نہیں ہiiوئی تھی )اعمiiال۶۰اورمسیحی کلیسیا میں بڑھتی گئی تھی ۔ (۔ اس زمانہ میں جیسا ہم اس باب کے شروع میں بتلاچکے ہیں یسوع ناصری کے۲۲تا ۲۰: ۲۸

باب( گو وہ بدعتی سمجھے جاتے تھے۔۲۲شاگرد ابھی وفاداریہودی شمارکئے جاتے تھے )اعمال ا� کی " اناجی� " کو عزت وتکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ لیکن یروشلیم کی تباہی نے یہ نقشہ پلٹ دیا۔ تب علمائے یہود نے اناجی� کے خلاف فتوے صادر کردئیے اورمسiiیحی کتiiابوں کو تباہ کردیا۔ کیونکہ ا� کو نہ صرف یہ اختیار حاص� تھاکہ بلکہ ا� میں ایسا کiiرنے کی قiiدرت

تا� سے3بھی تھی ۔ طیطس کے ماتح رومیوں نے رہا سہا ارامی لٹریچر برباد کردیا جس طرح ( اہ�i یہiiود سiے۵۸تiا ۵۶: ۱مکiابی۱پہلے مکابیوں کے زمiانہ میں یونiانیوں نے تبiاہ کردیiا تھiiا۔ )

iپرس تب کہیں زیادہ یہودی مسیحی کلیسیا برباد ، تبiiاہ اور پراگنiدہ ہوگiiئی کیiونکہ کنعiiا� کی پسiندiiتجو اور شکس تا� کiو بiدعتی ، صiلح تا� کو یہودی تصور کرتی تھی اور اہ� یہود آابادی

ء سے ذرا پہلے اہ� یہود کے فسادات میں سیدنا مسیح کے بھiiائی۶۶خیال کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت یعقوب جو یروشلیم کی کلیسیا کا سر تھے شہید کردئiiیے گiiئے ۔ پس یہ اغلب یہ ہے کہتند تiiوم پرسiiاں قiiے )جہiiہروں سiiڑے شiiکے ب �iiیروشلیم سے مسیحیوں کی ایک بڑی تعداد گلی

ء سے پہلے بھاگ کر پراگندہ ہوگئے تھے۔۶۶مزاج یہودی بستے تھے( یہودی مسیحی یہiiودی مسiiیحیوں کی پراگنiiدگی نے اس رشiiتہ اور تعلiiق کiiو تiiوڑ ڈالا جiiو غiiیر یہiiودی مسiiیحیوں میں اورا� روایiiات میں تھiiا جن کiiا تعلiiق سiiیدنا مسiiیح کے رسiiولی حلقہ اورچشiiم دیiiدلت طیبiiات آاپ کے کلمiiا گواہوں سے تھا۔ جنہوں نے سیدنا مسیح کے معجiiزات کودیکھiiا تھiiا اور

کو سنا تھا۔

3 Burkitt, Earliest Sources of the Life of Jesus pp.240-242

Page 133: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

ارامی زبا� کے ناپید ہونے کے اسباب میں نہ صiiرف یہiiودی مسiiیحیوں کی پراگنiiدگی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم وجہ یہ تھی کہ کلیسیا میں غير یہود کی اکثری ہوگئی تھی اوریہآاپ کے شiiاگرد ارامی بولiiنے والے سiiامی نس�ii کے آانخداوند اور اکثری روز بروز بڑھتی گئی تھی۔ یہودی تھے ۔ لیکن دوپشiiتوں کے انiiدر انiiدر مسiiیحی کلیسiiیاؤں کی ایiiک بiiڑی اکiiثری یونiiانیل روم کے شہروں میں رہنے والی ہوگiئی جس نے یونiانی خیiiالات میں پiرور* بولنے والی اورسلطن

اا ارامی اناجی� کا نق� ہونا رفتہ رفتہ بند ہوگیا کیونکہ ا� اناجی� کا یونانی زبا� میں1پائی تھی قدرتآایiا یی کہ ایiک وق ایسiا اس وق ترجمہ ہوچکiا تھiiا جن کی نقلیں کiثرت سiے ہiiوتی گiئیں۔ حiت�iانی اناجیiیون �ا اوراiا ہی رواج ہوگیiک �iانی اناجیiرف یونiئیں اور صiiد ہوگiجب ارامی اناجی� ناپی

کے ترجمے مختلف ممالک کی زبانوں میں ہوگئے ۔(۳)

آاتiiاہے۔ پہلی صiiدی مسiiیحی کے مسیحی مورخ کو ا� واقعات میں خدا کiiا ہiiاتھ نظiiر ل� یہود کiiو ایسiiا کچ�ii دیiiا2اواخر میں دنیا کے حالات دگرگوں ہوگئے تھے ۔ رومی سلطن نے اہ

لر آاثiiا ل} مقدس میں اس زمانہ کےکسی عبادت خانہ کے کھنڈرات بھی نہیں ملiiتے۔ تھا کہ اب ار قدیمہ کے ماہرین کو جتiنے عبiادت خiانے ملے ہیں وہ سiب کے سiب دوسiری صiدی مسiیحیتا� کو کنعiiا� اوراس کے بعد کےہیں۔جو یہودی لوگ رومی افواج کے ظلم وستم کے ہاتھوں بچے آابادی نے ختم کردیا۔ یہودی قوم کا مرکز یافiiا اورلiiدہ کے سiiاح� کے قصiiبوں میں تب پرس کی

منتق� ہوگیا تھا۔آازاد ہوگئی۔ اب مسiiیحی اہ اب مسیحی ، یہودی اوریہودی کی رسوم ورواج سے کلیت کلیسیا کے لیڈر یہودی مسیحی نہ رہے بلکہ اس کے بشپ یونانی بولنے والے غیر یہiiود تھے۔ ا� کی انجی� ارامی کی بجائے یونانی میں تھی جس کے لفظی تiرجمہ کی وجہ سiiے منجiiئی کiiونین

کے الفا� اور واقعات نہای صح سے محفو� تھے۔

1 Albright, The Archaeology of Palestine pp. 240-2422 B.W. Bacon Studies in Mathew p.58

گو کلیسیامیں غیر یہود کی زبردس اکiثری تھی اورمسiیحی مغiiرب کے شiہروں میں ہر جگہ فروغ پارہی تھی لیکن موجودہ یونانی اناجی� اربعہ میں یونانی فلسفہ ، قانو� یiiا تہiiذیب کiiا اثiiر تiiک نہیں ملتiiا اوریہ حقیق اناجی�ii اربعہ کی قiiدام اوراصiiلی کی گiiواہ ہے۔ دوسiiری�iی انجیiتی جیسiدس مiiاتی تھیں کہ مقiiصدی کے اوائ� میں اناجی� اس قدر قدیم تصور کی ج جو یہودی رنگ میں رنگی ہے۔ بالفا� پروفیسر بیکن" ارامی زبا� میں جنوب کی طiiرف فiiرات اور ہندوستا� کی جانب اوریونiانی زبiا� میں مغiiرب کی طiiرف ۔۔۔۔ انطiاکیہ کی جiانب پھی�i گiئی

۔ یہی حiiال دیگiiر اناجی�ii کiiا تھiiا۔ دوسiiری3تھی اور روم کی کلیسiiیا نے اس کiiو قبiiول کرلیiiا تھا صدی میں چاروں کی چاروں انجیلیں اس قدر قدیم اور مستند تسiiلیم کی جiiاتی تھیں کہ ا� کیآابiائے کلیسiیا میں سiے مقiدس لن فطرت کے سiاتھ تشiبیہ دی جiاتی تھی چنiانچہ قدام کو قوانی آائیرینوس کہتاہے کہ" جس طرح کائنات کے صرف چار گوشے )یعنی شiiمال، جنiiوب، مشiiر� اور مغرب( ہوسکتے ہیں اورجس طرح دنیا میں چار ہوائیں ہیں اور کتاب مکاشiiفات کے چiiار حیiiوا�

۔4ہیں اسی طرح انجیلیں بھی شمار میں چار اورصرف چار ہی ہوسکتی ہیں" آائیرینوس کا یہ قول نہiiای اہم ہے کیiiونکہ وہ دوسiiری صiiدی میں تھiiا اوریہ صiiدی تiiاری\ کلیسiiiیا میں خiiiاص اہمی رکھiiiتی ہے ، کیiiiونکہ اس صiiiدی میں کلیسiiiیائی تنظیم اور عقائiiiدل� یادگiiار ہے کیiiونکہ وہ رسiiولی iiورپر قابiiاص طiiانہ خiiا زمiiیرینوس کiiآائ درحقیق پنiiپے۔ اس بشiiپ آابiiائے کلیسiiیائے سiiے تعلiiق رکھتiiا ہے، جiiو خiiود تعلیمiiات سiiے پے پئس اورپiiولی کiiارپ جیسiiے مقدس یوحنا کے شاگرد تھے۔ کلیسیا کا یہ ایما� تھاکہ اس کی بنیاد اناجی� اربعہ کے چارستونوں پر قائم ہے اورجب کبھی یہ اناجی� علانیہ پڑھی جiiاتی تھیں تiiو اپiiنی عقیiiدت کے اظہiiار کے لiiئے

اا سiروقد کھiiڑے ہوجiاتے تھ iے ہی تعظیمiدیم سiانہ قiتور اب5کلیسیائے کے شرکاء زمiے ۔ یہ دس تک تمام قدیم کلیسیاؤں میں جاری ہے۔

3Iren 111.11. 4 Burkitt, Gospel History and Its Transmission p.2805

Page 134: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

باب ششمباب ششمء(ء(۶۰۶۰ ء تا ء تا ۳۰۳۰یونانی اناجی� کا زمانہ)از یونانی اناجی� کا زمانہ)از وول وولفص� ا فص� ا

آاغاز اور قیام آاغاز اور قیامغیر یہود کلیسیاؤں کا غیر یہود کلیسیاؤں کا آاغاز میں یونانی اوریونانی کلچر اور فلسفہ نے اہ�ii یہiiود کی پہلی صدی مسیحی کے اور وسiiیع اثiiر ڈال رکھiiا تھiiا۔ تiiاری\ ہم کiiو بتلاتی ہے کہ یونiiانی فلسiiفہ کےiiر زبردسiiدگی پiiزن تصورات نے تمام مہذب دنیا کو مدت سے اسiیر کiر رکھiiا تھiiا۔ چنiانچہ سسiرو اورقیصiر مiارکس آاریلیس رومی تھے لیکن یہ دونiiوں مصiiنف یونiiانی فلسiiفہ کے مرہiiو� من تھے۔ یہiiودی قiiوم کی

تاری\ میں یہودی اوریونانی میں زبردس تصiiادم کے بiاوجود یونiانی نے بے شiiمار یہودیiiوں کےل� یہود کے علماء تک اس اثر سے نہ بچ سiiکے۔ چنiiانچہ طiالمود دلوں میں گھر کر رکھا تھا۔ اہ میں کم از کم تین ہiiزار یونiiانی الفiiا� اوراصiiطلاحات پiiائی جiiاتی ہیں بلکہ تiiورات کےلiiئے لفiiظ"

۔ مقiiدس پولiiوس ہمیں بتلاتے ہیں کہ انہiiو ں نے یونiiانی کلچiiر میں1ناموس" تک اسiتعمال ہiiواہے ترتیب حاص� نہیں کی تھی۔ اورا� کی تصiiنیفات بھی یہی شiiہادت دیiiتی ہیں کہ وہ " عiiبرانیوں

( انہوں نے ربی گملی ای� کے قدموں میں خاص یروشلیم میں تعلیم۵: ۳کے عبرانی " تھے )فلپیآاخر وہ ترسiiس میں پیiiدا ہiiوئے تھے اوریونiiانیوں کے درمیiiا�۳: ۲۲حاص� کی تھی )اعمال (۔ لیکن

سکون کرتے تھے اورا� سiiے روزانہ می�ii جiiول رکھiiتے تھے۔ وہ فلاسiiفر نہ تھے تiiاہم وہ بھی اپiiنےخطوط میں ستویقی فلسفہ کی اصطلاحات " نیچر" اور " کانشنس" استعمال کرتے ہیں۔

ل� یہiiود پراگنiiدہ ہiiوکر مختلiف ممالiiک میں iiدیوں پہلے اہiiے صiiیحی سiپہلی صدی مس مستق� طورپر بودوبا* کرتے تھے۔ ا� پر اگندہ یہودیوں کی مادری زبا� یونانی ہوگئی تھی۔ ا� کےلف مقدسہ کا تiiرجمہ یونiiانی سiiیپٹواجنٹ کیiiا گیiiا تھiiا۔ اہ�ii یہiiود لک مصر میں عبرانی صح لئے مل کی تبلیغي مساعی نے ہزاروں غیر یہود اشخاص کiو یہiiودی کiا حلقہ بگiو* کiر رکھiiا تھiا)مiتی

وغیرہ(۔ جو یہود سے بھی کہیں زیادہ جوشیلے تھے )اعمiiال۴۳: ۱۳۔ ۱۰: ۲، اعمال ۱۵: ۲۳ (۔ یہ لوگ ہمیشہ حق کی تلا* میں رہتے تھے پس قدرتی طورپر مسیحی کے مبلiiغ ا�۲۹: ۹

یہiiودی نومریiiدوں کے پiاس مسiیحی کiiا جانفزاپیغiiام لے کiر گiئے اوراس گiiروہ میں سiiے ہiiزاروںآاگئے۔ جب یہ غیر یہود نومرید مسیحی کے حلقہ جو� درجو� منجئی عالمین کے قدموں میں بگو* ہوگئے تو غیر یہود ب پرستوں کے درمیا� تبلیغ کادروازہ کھ� گیiا۔ اب مسiیحی کلیسiیاؤں کiiو یہiiودی عبiiادت خiiانوں کی ضiiرورت نہ رہی کیiiونکہ بقiiول مiiور" جس مiiذہب میں بتiiوں کی

یہ2پرستش نہیں ہوتی اس کو کسی ہیک� یا کسی خاص خانہ خدا کی ضرورت ہی نہیں ہوتی"آایاہے۱: ۶سب یونانی بولنے والے تھے۔ اعمال میں جس " یونانی مائ� یہودی" جماع کا ذکر

1 T.R.Glover , The World of New Testament p.992 Moore. Judaism, Vol.1p.26

Page 135: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

(۱۰: ۲اس میں نہ صرف وہ لوگ شiiام� تھے جوپراگنiiدہ یہiiودی قبائ�ii سiiے متعلiiق تھے )اعمiiالآائے آاغiiو* میں بلکہ وہ غیر یہود بھی شام� تھے جiو یہiiودی مiذہب کی راہ سiے مسiیحی کی

(۔ جس کiiا مطلب یہ ہے کہ پہلے۵: ۶تھے مثلا" نیکiiولس، نومریiiد یہiiودی انطiiاکی" تھiiا)اعمiiالل� ذکر ہے کہ ا� ڈیکنوں کا کام" یونانی مائ�ii یہiiود" کی ساتوں ڈیکن" نومرید" تھے اور یہ امر قاب خدم کرنا تھا۔ اس " یونانی مائ�" جماع میں وہ ہiiزاروں غiیر یہiiود اشiخاص بھی شiام� تھے

آائے تھے) ۔۲: ۱۰جiو پولiiوس رسiiول اوردیگiر مسiیحی مبلغین کی طفی�i منجی کے قiiدموں میں وغیرہ(۔ اس " یونانی مائ�" جماع کی مادری زبا� یونانی تھی۔ کلیسiiیا کے۴۶: ۱۳۔ ۲۰: ۱۱

دونوں گروہوں" )عبرانی اور" یونiiانی مائ�i"( میں مiابہ الامتیiاز شiiے صiرف ا � کی مiادری زبiانیں�iانی مائiزوں " یونiداد اور روز افiارامی تھی اورباقی کثیر التع �تھیں" ۔ عبرانی " مسیحیوں کی زبا

۔1" مسیحیوں کی مادری زبا� یونانی تھی پس ابتiiدا ہی سiiے یروشiiلیم میں بھی کلیسiiیا میں دوزبiiانیں یعiiنی ارامی اوریونiiانی زبiiانیںآانخداوند کے کلمات اور معجزات کا بیا� دونiiوں مروج تھیں۔ جب جماع اکٹھی ہوتی ہوگی تو

زبانوں میں کیا جاتا ہوگا۔(۲)

اعمال کی کتاب اور مقدس پولوس کے خطiiوط سiiے پتہ چلتiiاہے کہ غiiیر یہiiود میسiiحیل روم کے دور دراز مقامات میں پھی� رہی کلیسیائیں بڑی سرع سے روز افزوں ترقی کرکے سلطن تھیں۔ چنانچہ پولوس رسول کہتاہے کہ " یروشلیم سے لے کر چiiاروں طiiرف الiریکم تiک" اس نے

(۔ مسiیحی کے مسiتقب� کےلiئے یہ۱۹: ۱۵انجی� جلی� کی " پوری پوری منادی کی" )رومیوں قیصریہ نہای اہم مرکز تھا جس میں گورنر رہتا تھا اور رومی افواج جمع رہتی تھیں۔ سiiامریہ میں مسیحی نومرید تھے مشiiر� کی جiiانب دمشiiق تiiک اورشiiمال کی جiiانب فینکے کے سiiاح� تiiک مسیحی پھیلے ہوئے تھے۔ کiiپرس میں مسiiیحی تھے اورایشiiیائے کوچiiک میں کلیسiiیائیں جابجiiا

1 A.S Wilkin “The Language used by Apostles” Expositor 3rd Series Vol.7 See also Exp.Times Aug.1937. p. 524

منظم تھیں، جو اس تجارتی شiاہراہ پiر واقiع تھیں جiو سلیسiیا سiے ایجiئین کے سiاح� تiک تھiiا۔ افسiiس کے بiiڑے مرکiiز میں کلیسiiیا تھی ۔ مقiiدونیہ اور یونiiا� میں کم از کم نصiiف اور درجن کلیسیاؤں کے ناموں سے اعمال کی کتاب کے پڑھنے والے بخوبی واقف ہیں۔ اٹلی کےملک میں مسیحی کلیسیائیں نہ صiiرف دارالسiلطن روم میں تھیں بلکہ چھiiوٹے چھiiوٹے سiاحلی بنiدرگاہوں

اا پٹiiولی میں بھی موجiiود تھیں۔ یہ تمiiام کلیسiiیائیں مقiiدس پولiiوس کی شiiہادت ) ء( سiiے۶۴مثلآاگئیں۔ پہلے وجود میں

شام کے وسسیع صوبہ میں جو کنعا� کےشمال اورشمالی مشiر� کی جiانب واقiع تھiiا انطاکیہ کازبردس شہر تھا جو دنیا بھر میں روم اورسiiکندریہ کے بعiiد تیسiرا شiiہر شiمار کیiا جاتiاتب پرسiiتوں تھا۔ یہ شہر مسیحی کی تiiاری\ میں نہiiای اہم ہے کیiiونکہ مسiiیحی نے غiiیر یہiiود میں درحقیق اسی شiiہر میں ہی جنم لیiiا ۔ یہiiاں سiے مسiiیحی کلیسiیا ہiiر چہiiار طiiرف نہiiای زبردس اثر پیدا کiرتی گiئی۔ کیiونکہ یہ جگہ مسiیحی کiا پہلا مرکiiز تھiiا۔ اس جگہ کے سiiاتھیے کiiرتی مقدس پولوس ، برنباس اورلوقا جیسے اکابردین کiiاتعلق تھiiا اوریہiiاں کی کلیسiiیا یہ دعiiو

تھی کہ مقدس پطرس اس کا اولین بشپ تھا۔ یونا� کے ملک میں کiرنتھس کی کلیسiیا قiiائم تھی لیکن ایشiیائے کوچiک کلیسiیا کiا

( ہاراپولس میں مقدس۳، ۲زبردس گڑھ تھا جہاں جابجا کلیسیائیں قائم تھیں )مکاشفات باب فلپس رہتا تھا اور وہ وہی فوت بھی ہوا۔ افسس میں مقدس یوحنا رہتا تھiا۔ اس جگہ وہ بiزرگ مقیم تھے جن سے مسیحی کلیسیا کے لiiوگ مقiiدس انiiدریاس، پطiiرس، فلپس ، تومiiا اوریعقiiوب وغiiیرہل} مقiiدس میں جب رسiiولوں کی نسiiب استفسiiار کیiiا کiiرتے تھے۔ ایسiiا معلiiوم ہوتiiاہے کہ ارآابسiے تھے۔ایشiیائے کوچiک میں فسادات برپا ہiوئء تiو وہiiاں کے کثiیر التعiiداد مسiیحی یہiاں اا بہ زیiادہ تھiiا کیiiونکہ نہ صiرف شiہروں بلکہ مضiافات اور نومریدوں اورکلیسiیاؤں کiا شiمار نسiiبت دیہات کے رہنے والے ہزاروں کی تعداد میں مسیحی ہوگئے تھے ۔ چنانچہ بعد کے زمiiانہ میں اس

علاقہ میں تمام دنیا سے زیادہ مسیحی بستے تھے۔

Page 136: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

مکاشiiفات کی کتiiاب سiiے ظiiاہر ہے کہ ایشiiیائے کوچiiک میں سiiمرنا،پiiرگم ، تھiiاتیرہ، سiiاردس ، فلiiڈیلفیا وغiiيرہ میں کلیسiiیائیں موجiiود تھیں۔ پطiiرس کے پہلے خ�ii سiiے ثiiاب ہے کہ پلiiونٹس ، تبiiونیہ اورکپiiدوکیہ کے صiiوبوں میں کلیسiiیائیں موجiiود تھیں۔ پاسiiبانی خطiiوط سiiے پتہتتب میں کارتھیج ، گال اورہسپانیہ کی لد جدید کی ک چلتاہے کہ کریٹ میں کلیسیا تھی۔ گو عہ کلیسiiiیاؤں کے نiiiام موجiiiود نہیں، لیکن کلیسiiiیائی تiiiاری\ بتلاتی ہے کہ مسiiiیحی کلیسiiiیائیں ا�

۔1مقامات میں موجود تھیں یروشiلیم کے بiاہر ۔ یونiانی تہiiذیب وثقiiاف اوریونiانی ہiiر جگہ غiiالب تھ۔ ہiiر مقiiام میں مسiiیحی کلیسiiیاؤں کے شiiرکاء یونiiانی بولiiنے والے تھے۔ نiiوب یہiiاں تiiک پہنچی کہ کنعiiا� کی کلیسیائیں بھی نہای تیزی کے ساتھ دیگر یونانی بولنے والے کلیسیاؤں کiiا حصiiہ ہوگiiئیں۔ پس

یہ فر� کلیسیاکی جماع 2ء کے درمیا� مسیحی کلیسیا میں عظیم فر� پیدا ہوگیا۔۶۵ء اور ۳۵ کے شرکاء میں ، اس کی جغرافیائی وسع میں ، اس کی زبا� میں اوراس کے مذہبی زوایہ نگiiاہمیں نمودار تھا۔ غرضيکہ اس کی زندگی کے ہر شعبہ میں اس فر� کا اثرروز بروز نمایاں ہوتا گیا۔

1 J.H.Ropes The Church After Paul in Outlines of Christianity ed. By peake and parsons.pp.265- 2772 R.H.Lightfoot.”Form-Criticsim and Gospel Story Exp.Times Nov.1941

Page 137: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

فص� دومفص� دومل� یہود کے معتقدات اوغیر یہود کلیسیاؤں کے تصورات ل� یہود کے معتقدات اوغیر یہود کلیسیاؤں کے تصوراتاہ اہ

اناجی�ii اربعہ کiiا ارامی سiiے یونiiانی میں تiiرجمہ ہiiونے کی وجہ صiiرف یونiiانی بولiiنے والی کلیسiiیاؤں کiiا قیiiام ہی نہ تھiiا۔ ابتiiدائی ایiiام ہی سiiے ا� لوگiiوں پiiر جiiو مقiiدس پولiiوس کی ماننiiد صاحب بصیرت تھے، یہ عیاں ہوگیا تھا کہ منجئی عالمین کی انجی� صرف اہ�ii یہiiود تiک ہیآاپ کے پiiیرو فریسiiیوں کی طiiرح آامد کا یہ مقصد نہ تھا کہ آانخداوند کی محدود نہیں رہ سکتی آامiiد آانخداوند کی موسوی شریع کے پابند رہیں۔ شروع ہی سے ہر عاق� پر یہ ظاہر ہوگیا تھا کہ سے وہ زمانہ ختم ہوگیiiا ہے، جب یہ خیiال کیiiا جاتiا تھiiا کہ ہم صiرف شiریع ہی سiے راسiتبازآانخداوند نے خدا کے پاس جانے کا ایک نیا راستہ بتلادیا تھا ۔ موسiiوی ٹھہر سکتے ہیں کیونکہ شریع کا دقیانوسی دورختم ہوچکا تھا اوراس فرسودہ نظام کی بجائے ایک نیا دور اورنظام شiiروع

۔ اناجی�i اربعہ اور اعمiال1ہوگیا تھا جس کا اعمال کی راس بiازی کے سiاتھ کiوئی تعلiق نہ تھاوول ہی لز ا آانخداونiiد کے اورکلیسiiیا کے دشiiمنوں نے اس نکتہ کiiو رو کی کتiiاب سiiے ظiiاہر ہے کہ

سے بھانپ لیا تھا۔ غiiیر یہiiود میں ہiiوتی گiiئی جن کے جسiiمiiپرس تب تجوں مسiiیحی کی تبلیiiغ توں iiج ودماغ کی تربی اور ذہنی پرور* یونانی کی فضا اور یونانی فلسفہ اور کلیچiiر میں ہiiوئی تھی ،

آازاد ہiiوتی ہوگiiئی ۔یہiiودی نے ء کے بعiiد۷۰کلیسiiیا ارامی اورسiiامی عناصiiر کی پابنiiدیوں سiiے تتب مقدسہ میں سiے اناجی�ii کiiوپہلے کلیسیاسے قطع تعلق کرلیا تھا۔ اوریہودی ربیوں نے یہودی ک ہی خارج کردیا تھا۔ چونکہ مسیحی یونانی ترجمہ سیپٹواجنٹ کiiا اسiiتعمال کiiرتے تھے، یہiiود نے سیپٹواجنٹ کو ممنوع کتiiاب قiiرار دے دیiiا جس کی" سiiونے کے بچھiiڑے" کے سiiاتھ تشiiبیہ دی گئی ! جس طرح مکابیوں کےزمانہ میں وہ اونٹی اوکس سے بیزار تھے وہ اب مسیحی کلیسیا سiiے

۔ مسیحیوں کے خلاف تکفیری کلمات استعمال ہiiونے لiiگ گiiئے۔ چنiiانچہ یہiiودی2بيزار ہوگئے

1 T.R.Glover Paul of Tarsus p.552 T.R.Glover World of the N.T p.106.

یی کے الفا� ملاحظہ ہوں " ا� مرتدوں کے لئے کوئی امید باقی نہ رہے۔ ہمارے زمiiانہ میں اس فتوآاسمانی بادشاہ ( کا خاتمہ ہوجائے۔ ناصiiری اوردیگiiر بiiدعتی ایiiک لحظہ میں ( مغرور بادشاہ

آائیں "۔ یہiiود نے iiہ میں۶۲تباہ وبرباد ہوجiiانی عرصiiکے درمی ء میں دورومی گiورنروں کی حکiومآاپ کے آاپ کی شiہادت کے بعiد سیدنا مسیح کے بھائی مقدس یعقiوب کiو شiہید کردیiا تھiiا۔ رشتہ کا بھائی شمعو� ، یروشلیم کی کلیسیا کا سر بنا جiو مقدسiہ مiiریم کے خاونiiد یوسiiف کےتا� کے خانiiدا� میں رہی جب تiiک وہ بڑھiiاپے میں چiiالیس بھائی کلیوپاس کابیٹا تھiiا۔ یہ سiiرداری سال بعد صلیب پر شہید نہ کیا گیiا۔ اس کے بعiد مسiیحی کلیسiیاؤں کiا تعلiق یہiودی مسiیحی کلیسیاؤں کے ساتھ نہ رہا۔ کیونکہ ا� کی زبردس اکثری یونانی بولiiنے والے لوگiiوں اور بشiپوں پiر

مشتم� تھی۔ اس اکثری کا تعلق یہودی معتقدات ، خیiiالات اور تصiiورات کے سiiاتھ نہ تھiiا کیiiونکہآابiائے کلیسiیا کی اس کی تربی ، یونانی اوریونiiانی فلسiفہ میں ہiiوئی تھی ۔ دوسiiری صiiدی کے تصنیفات کا مطالعہ اس حقیق پر روشنی ڈالتاہے ۔ چنانچہ مقدس پولiوس رسiول نے جiو کچھآابiiائے کلیسiiیا کے خیiiالات سiiے بیگiiانہ ہے۔ ا� کی شریع اور فض�ii کے متعلiiق لکھiiاہے،وہ ا� تصنیفات میں ہم کو " ایما� سے راس باز" ٹھہرنے کiiا تصiiور بمشiiک� ملتiiاہے۔ اس زمiiانہ کیاا سiب کے سiب غiیر یہiود اقiوام سiے مشiرف بہ مسiیحی ہiiوئے تھے۔ iرکاء تقریبiیا کے شiکلیس اا بحiiیرہ روم کے مشiiرقی حصiiہ کے تھے۔ انہiiوں نے انہی شiiہروں کی یونiiانی تہiiذیب اورنسiiل�iiودی نسiiاتعلق یہiiا کے مکین تھے جن کiiانی رومی دنیiiائی تھی۔ وہ یونiiاورروایات میں پرور* پ تتب کiiو مسiلم اورمسiiتند لد عiiتیق کی ک iiیحی عہiا۔ یہ مسiiاتھ نہ تھiiا کے سiiکی خصوصی فض مانتے تھے اورا� کے یونانی ترجمہ سیپٹواجنٹ کا اسiiتعمال بھی کiiرتے تھے لیکن یہ کتiiابیں ا� کے قومی لٹریچر کا حصہ نہ تھیں۔ وہ ا� کے لئے بدیشی تھیں جن سے ا� کو کiiوئی مناسiiبتراسiiرار چیسiiتا� تھے۔ نہ تھ۔ ا� کی زبا� اورمحاورے ا� کے لئے غiiیر مiiانوس اور بعض اوقiiات پاا انجی� ا� کے لئے مسیح موعود اورخدا کی بادشاہی کے یہودی تصورات طبعی نہ تھے ۔ مثل

Page 138: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

چہارم اس لئے لکھی گئی تھی " تاکہ تم ایما� لاؤ کہ یسوع ہی خدا کا بیٹا مسiiیح ہے"۔ لیکنتب پرس یونانی رومی دنیا کے لئے " خدا کا بیٹا مسیح" ایک بے معنی بiiات تھی۔ ا� غیر یہود iودی ریاسiا۔ یہiiا تھiوئی مطلب نہ رکھتiآانخداوند کا داؤد کے وعدوں کا وار­ ہونا ک کے لئے ختم ہوچکی تھی۔ یہودی قوم غلام اورشکستہ ہوچکی تھی۔ اب کلیسiiیا کے شiiرکاء سiiب کےلز معاشiiرت کے مطiiابق سiiب ، یونiiانی فسiiلفہ ، یونiiانی تصiiورات سiiے مiiانوس تھے اوریونiiانی طiiرآاسiمانوں کی بادشiاہی" ارامی " لفiiظ" ملکiوت" کiا زنiدگی بسiر کiرتے تھے۔ یہiودی محiاورہ " یے ، لیکن اس قسiiiم کے تiiiرجمہ ہے جس کے معiiiنی ہیں"فرمiiiاں روائی " حکiiiوم اقتiiiدار اعلآانخداونiد خiدا کی تصورات یونانی رومی دنیا کے لئے بیگانہ تھے۔ پس ا� کے لئے یہ بiات کہ آائے تھے کوئی معنی نہ رکھiiتی تھی۔مقiiدس پولiiوس طرف سے ممسوح ہوکر اورمسیح موعود بن کر نے جن غیر یہود کو کرنتھس اور افسس کی کلیسیا میں شام� کیا تھا ا� کے بیٹوں اورپوتiiوں کےتا� کی آانخداوند کی زندگی کے وہ واقعات جو صوبہ گلی� یا یروشiiلیم میں واقiiع ہiiوئے تھے لئے

۔1اپنی دنیا سے غیر متعلق تھے یہ حالات تو دوسری صدی کے ہیں۔ اس سiiے پہلے بھی کلیسiiیا کی زنiiدگی کی جiiوآاخiiر میں کتiiاب )یعiiنی خداونiد کی تعلیم جiiو دوزادہ تصویر ہم کو پہلی صدی کے رسولوں نے غiیر یہiودی کiو دی"( میں ملiتی ہے اسiی قسiم کی ہے۔ اس کتiاب کے لکھiنے کiا مقصد یہ تھاکہ مسیحی کلیسیا کے شرکاء مسیحی زندگی کے علم کو حاص�i کiiریں۔ اس قiiدیم

( مسiiیحی۳( مسiiیحی عبiiادت اور تنظیم، )۲( مسیحی اخلا�، )۱کتاب کے تین حصے ہیں ۔ ) تامید ۔ اس مختصر کتاب سے ہم کو یہ معلوم ہوسکتاہے کہ مولف کے خیال میں کلیسiiیاؤں کiiو کس قسم کی تعلیم کی ضرورت تھی ۔ ا� کلیسیاؤں کے سامنے وہ مشکلات اورمسiiائ� درپیش نہ تھے ، جو یہودی کلیسیاؤں یا مقدس پولوس کے غیر یہود بپتسiiمہ یافتگiiا� کے درپیش تھے۔آانخداوند کی زندگی کے واقعات کiiا ذکiiر تiiک نہیں ملتiiا۔ بلکہ اس کے پڑھiiنے اس کتاب میں تامiiور سiiے پتہ تنجی عiiالمین کبھی مصiiلوب بھی ہiiوئے تھے۔ ا� سiiے یہ بھی معلiiوم نہیں ہوتiاکہ م1 Burkitt Gospel History and Its Transmission pp.269-70

آانخداونiiد کے مشiiن کiiا چلتiiاہے کہ پہلی صiiدی کی غiiیر یہiiود مسiiیحی کلیسiiیا کے ذہن میں آایا، جس تا� کے لئے مسیح ابن اللہ جو خدا کا پیغام لےکر دنیا میں کونسا پہلو زیادہ غالب تھا۔آاسiiما� کے بiiادلوں، پiiر مقiiررہ وق پiiر جلال کے لت جiiاودانی کی بشiiارت دی ، جiiو نے حیiiا ساتھ ظاہر ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ مختلف قسم کے فلسiiفیانہ بiiدعتی خیiiالات کلیسiiیا میں پیiiدا

۔ جن سiiiے ظiiiاہر ہے کہ یونiiiانی بولiiiنے والی2ہوگiiiئے جiiiو غناسiiiطی اور ڈوسiiiٹی قسiiiم کے تھے ل� یہود کے خیالات، تصورات ، تہذیب وثقاف کلیسیاؤں کے شرکاء صوبہ گلی� کی یہودی اوراہ

تا� کی جانب توجہ نہیں دیتے تھے۔ سے اجنبی اورناواقف تھے پس وہ ل� اربعہ کی اص�iii زبiiiا� ،ا� کی قiiiدام اور ا� کے زمiiiانہ iiiاناجی منiiiدرجہ بiiiالا حقیق

آاخiiری۱تصنیف کے پیچیدہ سوالات پر بھی روشنی ڈالiiتی ہے) ( اگiریہ اناجی�ii پہلی صiiدی کے ربع میں لکھی جاتیں جیسا بعض علماء کا خیاہے ، تiو وہ ارامی زبiا� میں ہرگiiز نہ لکھی جiاتیں۔ ا� کی اص�ii زبiiا� یونiiانی ہiiوتی اوریہ یونiiانی زبiiا� ٹکسiiالی زبiiا� ہiiوتی۔ کسiiی مصiiنف کے خiiوابآاتiiا کہ وہ ایسiiی انجی�ii لکھے جس کے الفiiا� تویونiiانی ہiiوں لیکن محiiاورے وخیiiال میں بھی نہ یہودی، اور فقروں کی نحوی ترکیبیں ارامی زبا� کی ہوں۔ چاروں انجیلیں خالص ٹکسالی یونانییی قسiم کی ادبی یونiانی زبا� میں لکھی جاتی جس طرح مقiiدس لوقiا کی انجی�i کiا دیبiiاچہ اعل میں لکھا ہے۔ پس اناجی� کی موجودہ یونانی زبا� صاف ثاب کرتی ہے کہ ا� کا تعلiق اس زمiiانہ سے ہے جب کلیسیا کا غالب عنصر یہودی مسیحیوں پر مشتم� تھا اور یہودیوں کی زبا� الہiiامی اور مقدس زبا� شمار کی جاتی تھی ۔ جس کiا اسiی قسiم کی یونiانی زبiا� میں تiرجمہ کیiiا گیiiا

لف مقدسہ کا سیپٹواجنٹ میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ جس قسم کا عبرانی صح ء کے بعد لکھی جاتیں تو اس میں سیدنا مسiiیح کی زنiiدگی۷۰۔( اگر اناجی� اربعہ ۲)

تا� میں اب مندرج ہیں ۔ کیونکہ جیسا ہم بتلاچکے ہیں غیر یہiiود کے وہ واقعات درج نہ ہوتے جو تا� امیiدوں کiا ذکiر کلیسیاؤں کو ا� امور کے سiاتھ دلچسiپی نہ تھی۔ اناجی�i میں اہ�i یہiود ک لح موعود کی ذات سے وابستہ تھیں۔ کیونکہ اس قسiiم کی بiiاتیں تقiiویم پiiارینہ بھی نہ ہوتا جو مسی2 Ibid pp.270-273

Page 139: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

کی طرح بیکار اورا� کے لئے کوئی معنی نہ رکھتی تھیں۔پس ا� امور کا اناجی�ii میں موجiiود ہونiiا �iiاہے کہ اناجیiiکرت ء سiiے بہ پہلے لکھی گiiئی تھیں ، جب غiiیر یہiiود اقiiوام کے۷۰یہ ثiiاب

خیالات ، تصورات اور ذہنی نے ابھی کلیسیا میں جڑ بھی نہ پکڑی تھی۔

اگرچہ غیر یہود کلیسیائیں پہلی صدی کے اواخر اور دوسری صدی میں ہر چہار طرف بiiڑی تiiیزیتتب کiiا ل� اربعہ اورانجیلی مجمiiوعہ کی بiiاقی ک iiکے ساتھ ترقی کرکے پھیلتی جارہی تھیں تاہم اناجی ایiiک ایiiک لفiiظ ا� کی قiiدام کے بiiاعث نہiiای صiiح کے سiiاتھ نق�ii ہوتiiا رہiiا۔ مختلiiف ممالiiiک کی کلیسiiiیاؤں کے ہiiiاتھوں میں یہ نقلیں موجiiiود تھیں حiiiالانکہ ا� اناجی�iii کی فضiiiا ،ل} مقدس کنعا� سے ہی متعلق تھے۔ جو غير یہود اقiiوام الفا� ، محاورات ، معتقدات وغيرہ ار�iiا مفصiiئے جن کiiئے گiiرجمے کiiابوں کے تiiکت �اطر اiiکی خ �تا یونانی زبا� سے ناواقف تھیں تتب مقدسiہ" میں کiرچکے ہیں۔ اس حقیق سiے انiدازہ ہوسiکتا ل ک ذکر ہم اپنی کتاب" صiحل� اربعہ کس قدر مسiتند مiانی جiiاتی تھیں ۔ ا� کiiا پiiایہ ہے کہ پہلی صدی کے اواخر میں اناجیتا� کی قدام کے سامنے ہرکہہ ومہ کiiا سiiر تسiiلیم خم تھiiا۔ حiiق تiiو یہ ہے اعتبار مسلم تھا اورل� میں یہ ایک لفظ بھی ایسا نہیں جو سیدنا مسiیح کی وفiات کے بیس تیس سiال کے کہ اناجی

۔ اناجی� اربعہ نے اپنی قiiدام کی وجہ سiiے اس قiiدیم زمiiانہ میں غiiیر1اندر اندر نہ لکھا گیا ہو یہود کلیسیاؤں میں ایسی مضبوطی سے قدم جمالئے تھے کہ کسی کے خواب وخیال میں بھی

تا� کے قiiدم اکھiiڑ جiiائیں۔ آایiiا کہ ا� کے مسiiتند ہiiونے کiiو ایسiiا چیلنج کiiرے کہ ء تiiا۱۵۰یہ نہ ء کا عرصہ اناجی� اربعہ کے قطعی طورپر مسلم اور مستند تسلیم کئے جانے کا زمانہ ہے۔۱۹۰

1C.C. Torrey Four Gospels pp.254 ff.Also see W.C. Allen in Exp Times Vol 20 pp.445 Vol.21. pp. 439 ff and Vol2 pp.349 ff.

فص� سومفص� سوماناجی� کے یونانی تراجم کی تاری\اناجی� کے یونانی تراجم کی تاری\

ل� متفقہ کی تiiاری\ تصiiنیف اوراس جلiiد کے iiوم میں اناجیiiہ سiiوول کے حص ہم نے جلiiد ال\ تصنیف پر مفص� بحث کی ہے۔ ہم نے یہ ثاب کردیاہے حصہ چہارم میں انجی� یوحنا کی تاری

ء۵۰ء میں لکھی گئی تھی۔ مقiiدس مiتی اور مقiiدس یوحنiا کی انجیلیں ۴۰کہ قدیم ترین انجی� ء کے درمیا� احاطہ تحریiر میں۵۷ء اور ۵۵کےلگ بھگ لکھی گئیں اور مقدس لوقا کی انجی�

آاگiiئی تھی۔ پس تمiiام اناجی�ii یروشiiلیم کی تبiiاہی سiiے مiiدتوں پہلےلکھی گiiئی تھیں۔ اگiiرا� کیآانخداونiiد کی تصنیف کے وق یروشلیم اور اس کی ہیک�i بربiاد ہوگiئی ہiiوتی تiو انجی�i نiویس نبوت کے پورا ہونے کiاذکر ضiرور کiرتے جس طiرح مقiدس یوحنiا دیگiر پیشiین گوئیiوں کے پiورا

(۔۳۳: ۱۸۔ ۲۳: ۱۲۔ ۵۰: ۱۱ مقiiابلہ ۱۴: ۱۸۔ ۱۲: ۱۷۔ مقiiابلہ ۹: ۱۸ہونے کiا ذکiر کرتiاہے) چنانچہ یہودی عالم جی ۔ ایف ۔ مور لکھتاہے کہ یروشلیم کی بربiiادی کی دلی�ii مسiiیحیوں کے ہاتھوں میں ایک زبردس حربہ تھا۔ کیونکہ اہ� یہود نے" اس قدوس کا انکار کیا اور زنiiدگی کے

ال\( بربادی کے واقعہ سے پہلے مقدس پولوس نے کہiiا تھiiا کہ۱۴: ۳مالک کو قت� کیا")اعمال ( پس جو مبلغ یہ ثiiاب کرنiiا چiiاہتے تھے کہ۱۰: ۲تھسلینکی۲تا� پر غضب نازل ہوکر رہے گا۔ )

حiiربہ تھiiا کہ شiiہر مقiiدس کیiiاتھوں میں یہ زبردسiiکے ہ �تا یسوع ناصiiری مسiiیح موعiiود ہے، لح موعiود کی پیشiین گiوئی کے عین مطiiابق تھی۔ یہ ممکن آاسiمانی تھی جiو مسiی بربادی بلائے ہے کہ ایiک انجی�i نiویس اس حiربہ کiا اسiتعمال نہ کرتiا چiاروں کے چiاروں انجی�i نویسiوں کی

Page 140: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

ل� اربعہ iiرتی ہے کہ اناجیiک ء کے واقعہ ہiiائلہ سiے سالہسiال پہلے تحریiر۷۰خاموشی صiاف ثiابآاچکی تھیں۔ میں

اناجی� کو پڑھنے سے یہ حقیق عیاں ہوجاتی ہے کہ مقدس متی اور لوقا کی تصنیفات اور مقiiدس مiiرقس کی انجی�ii کے درمیiiا� کiiوئی لمبiiا چiiوڑا وقفہ حائ�ii نہ تھiiا۔ مقiiدس یوحنiiا کے بیانات کی تازگی اورمکالمات کی شگفتگی صاف ثاب کرتی ہے کہ انجی� چہارم صلیبی واقعہ

کے چند سالوں کے اندر اندر لکھی گئی تھی۔ آانخداوند کی زنiiدگی کی تفاصiiی� کiiا یہ امر بھی معنی خیز ہے کہ مقدس پولوس رسول

کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اس امر کی جانب سiiے بے۱۶: ۵کرنتھیوں ۲کہیں ذکر نہیں کرتا۔ آانخداونiiد کی صiiلیبی مiiوت ، قیiiام اور صiiعود کے واقعiiات کiiا ذکiiر پiiرواہ تھiiا کیiiونکہ وہ باربiiار آاپ کو ایک کام� انسا� مانتاہے۔ اوراگر کوئی پوچھے کہ اس کام� انسiiا� مسiiیح کی کرتاہے اوراا پیروی کا کیا مطلب ہے تو اس کے جiiواب میں وہ اخلاقی فiiرائض کiiا خiiاکہ پیش کرتiiاہے مثل

آاخiiر۵: ۲بiiاب میں وہ محب کiiا تصiiور پیش کرتiiاہے ۔ فلiiپیوں۱۳کرنتھیوں کے پہلے خ�ii کے تiiا آاخر ۔ کلسiیوں ۲۲: ۵گلتیوں آاخر وغiيرہ کiiو ملاحظہ کiiرو۔ یiiا ۱۲: ۳تiا کرنتھیiiوں میں ہے" تم۱ تiا

(۔ اب سiiوال یہ پیiiدا ہوتiiاہے کہ۱: ۱۱مiiیری ماننiiد بنiiو جیسiiا میں مسiiیح کی ماننiiد بنتiiا ہiiوں")�iiے حاصiiاں سiiول نے کہiiوس رسiiاتیں پولiiویہ بiiآاچکی تھیں ت اگراناجی�ii احiiاطہ تحریiiر میں نہیں کیں؟ محض سینہ بسینہ زبiiانی روایiiات کiiا نظiiریہ اس حقیق کی تشiiریح کے لiiئے کiiافی نہیںآانخداوند کی زنiدگی کiا جiوعکس پایiا ہوسکتا۔ یہ خطوط قدیم مسیحی لٹریچر ہیں پس ا� میں جاتاہے وہ اس امر کا بین ثبوت ہے یہ کہ اناجی� مقدس پولوس کی زندگی ہی میں تحریری شک�

۔1میں موجود تھیںتا� کی اصلی اورپiایہ اعتبiار کiا اہم ثبiوت ل� اربعہ کی ہم رنگی اور یکسانی بھی اناجی ہے۔یہ امر بھی قاب� ذکiiر ہے کہ اناجی�ii اربعہ اور مقiiدس پولiiوس کے خطiiوط میں کسiiی قسiiم کی

تفاوت پائی نہیں جاتی۔ یہ حقیق ا� اناجی� کی قدام اورپایہ اعتبار کی زندہ گواہ ہے۔1 Blunt.St.Mark pp.17-18

ہم ا� امور پر اس کتاب کے حصہ سوم اور چہارم میں مفص� بحث کرچکے ہیں۔ لہذا ا� کا اعادہ مناسب نہیں سمجھتے۔ مذکورہ بالا باتیں صرف نiiاظرین کiiو ا� نتiiائج کی یاددہiiانی

۔ مقiiدس مiiتی اور مقiiدس یوحنiiا2ء میں ۴۰کے لئے لکھی گئی ہیں کہ مقدس مرقس کی انجی� ء کے درمیiiا� احiiاطہ تحریiiر۵۷ء اور ۵۵ء کے لگ بھگ اور مقدس لوقا کی انجی� ۵۰کی اناجی�

آاچکی تھیں۔ میں (۲)

سiiے ظiiاہر ہے کہ ابتiiدا ہی سiiے یونiiانی بولiiنے والے۸تiiا ۶اعمiiال کی کتiiاب کے بiiاب لر قدیمہ سے امر کی شہادت ملiiتی ہے کہ یونiiانی مائ�ii یہiiود آاثا مسیحی یروشلیم میں موجود تھے۔

تا� کی مiiادری زبiiا� یونiiانی تھی بiiاب۱۱ ۔ اعمiiال 3کے عبiiادت خiiانے یروشiiلیم میں بھی تھے اورآاخر سے ثاب ہے کہ یونانی بولنے والے مسiiیحی، کلیسiiیا کی تبلیغی مسiiاعی میں ہiiر جگہ پیش تا پیش تھے۔ اورا� کی کوششوں سiے ہiiزاروں غiiیر یہiود منجiiئی عiالمین کی نجiiات سiے بہiiرہ انiدوز ہوگiiئے تھے۔ ا� ہiiزاروں یونiiانی مائ�ii یہiiود اور غiiیر یہiiود نومریiiدوں کے لiiئے یہ ضiiرورت تھی کہ وہوولین لر ا آانخداوند کے کلمات اور سiوانح حیiiات سiے واقiiف ہiiوں۔ پس ا� کے لiiئے دو یونانی میں میں انجیلی بیانات کے ماخذ نہای سiرع کے سiاتھ ارامی زبiا� سiے یونiانی میں تiرجمہ کiئے

۔4جارہے تھے جو یونانی بولنے والے مسیحیوں میں مروج تھے ۔( قدرتی طورپر پہلے پہ� رسالہ کلمات کا یونانی میں ترجمہ کیا گیiiا اورکiiئی سiiالوں۱)

تک یہ رسالہ ارامی زبا� میں عبرانی مسیحیوں میں ، اوریونانی زبا� میں یونانی بولنے والے مسیحیوں میں مiiروج رہiiا۔ ہiiائراپولس کiiا بشiiپ پے پئس ہم کiiو بتلاتiiاہے کہ اس رسiiالہ کے متعiiدد تiiرجمےآائے ہیں کہ مقدس لوقا نے اس رسالہ کا ایک ترجمہ استعمال کیا تھا اورمقدس ہوئے ۔ ہم ذکر کر

متی کی انجی� کے مترجم نے اس کا دوسرا ترجمہ استعمال کیا تھا۔

2 See also A.S.Barnes.J.Th S.Vol.VI p.187.3 F.V.Filson the Origin of Gospels p. 80.4 Ibid.pp.80, 115.

Page 141: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

ء میں مقدس مiiرقس کی انجی�ii ارامی زبiiا� میں لکھی گiiئی تiiو اس کiiا۴۰۔( جب ۲) ترجمہ بھی یونانی زبا� میں کیا گیا تاکہ یونانی بولنے والے کلیسیائیں منجiiئی جہiiا� کی زنiiدگیآانخداونiد کی نجiات کے کے واقعات سiے کمiاحقہ واقفی حاص�i کرسiکیں۔ چنiانچہ جب

ل� مرقس کا یونانی ترجمہ ہوا ۔ مترجم نے یونانی1پیغام کی مغرب کی جانب اشاع ہوتی تو انجیتا� کiiا بھی تiiرجمہ کردیiiا) :۳بولنے والوں کی خاطر بعض ارامی الفا� کو اص� زبiiا� میں لکھ کiiر

(۔ جس سے ثاب ہوتاہے کہ اس انجی� کے۴۲: ۱۵۔ ۳۴: ۱۵۔ ۳۴: ۷۔ ۱۱: ۷۔ ۴۱: ۵۔ ۱۷ تصنیف کئے جانے اوراس کے ترجمے کئے جانے کا درمیانی عرصہ نہای قلی� تھiiا ورنہ مiiترجم اص� ارامی الفا� کiو لکھiiنے کی زحم نہ اٹھاتiiا ا� ارامی الفiiا� کiiا صiحیح تiرجمہ بھی اسiیل� پطiiرس" میں غiiیر زبiا� کے ایiiک iiاب" انجیiiوعہ کتiiبات کی شہادت دیتاہے۔ چنانچہ ایک موض لفظ کا غل� ترجمہ کیا گیا ہے اور اس کتاب کی بعiiد کی نقلiiوں میں سiiے اس کے ارامی الفiiا��iiانجی زائد سمجھ کر خiiارج کردئiiیے گiiئے ہیں۔ مقiiدس مiiتی کی انجی�ii کے تiiرجمہ کے وق

ودوم کا ترجمہ یونانی بولنے والی کلیسیاؤں کے ہاتھوں میں ہر جگہ موجود تھا۔ ء کےلگ بھگ لکھی گiiئی تiiو "۵۰۔( جب مقدس متی کی انجی� ارامی زبا� میں ۳)

تا� کiا گiiروہ یونانی مائ� یہودی" مسیحیوں کی خاطر اس کا یونiانی میں تiرجمہ کیiا گیiا کیiونکہ مشرف بہ مسیحی ہونے سے پہلے یہودی کو قبول کرچکا تھا۔ پس انجی� متی کے مترجم نےل� iانی کی اورانجیiر ثiرکے اس کی نظiابلہ کiiے مقiس �اiارامی زب �iرجمہ کااصiات کے تiالہ کلمiرس ل� کے باقی ماندہ حصص کiiا تiiرجمہ مرقس کے یونانی ترجمہ کو بھی استعمال کیا۔ اس نے انجی کرکے تمام انجی�ii کے تiرجمہ کiiو پiورا کردیiا۔ مقiiدس مiiتی کی انجی�ii کے مiiترجم نے نہ صiiرف رسالہ کلمات کی یونiiانی زبiiا� کی نظiiر ثiiانی کی ہے بلکہ مقiiدس مiiرقس کی یونiiانی انجی�ii کی

تاس کی2زبا� کی بھی نظر ثانی کی ہے ۔ قیاس یہی چاہتا ہے کہ انجی� متی کا یونiiانی تiiرجمہ تصنیف ہونے کے چند سال کے اندر اندر مکم� ہوگیا تھا۔

1 W.C.Allen, J.Th. S Jan-April 1946 pp.46-49.2 J.H.Moulton “NT Greek in the light of Modern Discovery in Cambridge Biblical Essays p. 485

تاس نے اپنی انجی�، یونiiانی بولiiنے والے غiiیر یہiiود۴) ۔( جب مقدس لوقا قیصریہ میں تھا ء کے درمیiiانی عرصiiہ میں یونiiانی زبiiا� میں لکھی۔ اس نے رسiiالہ۵۷ء اور ۵۵مسiiیحیوں کے لiiئے

ل� مرقس کے یونانی ترجمہ کiو اسiتعمال کیiا اوراپiنے خiاص کلمات کے یونانی ترجمہ کو اور انجی ماخذوں کا جوارامی زبا� میں تھے، یونانی میں ترجمہ کیا اور ا� سب کی جمع اورتiiالیف کiiرکے

اپنی انجی� کو یونانی زبا� میں لکھا۔ ۔( مقدس یوحنا نے یروشiiلیم میں اپiiنی انجی�ii کiiو ارامی زبiiا� میں لکھiiا۔ انجی�ii کی۵)

اندرونی شہادت سے ظاہر ہے کہ اس کے دلائ� وبرہا� کے مخاطب ۔ یہiiودی مiiذہب کiiو مiiاننے (۔ پس " یونiiانی مائ�ii یہiiود" )جنہiiوں نے پہلے یہiiودی کiiو قبiiول کiiر رکھاتھiiا(۲: ۲۰والے تھے)

اوریونانی بولنے والے شرکائے کلیسیا کے لئے اس انجی� کا یونانی میں ترجمہ ہوگیiiا۔اس تiiرجمہ میں بھی اص� عبرانی کا سالطف ہے جس کی وجہ سے بعض علماء کا خیiiال ہے کہ اس انجی�ii کے اص� عبرانی اور ارامی ماخذوں میں اور اس کی یونانی زبا� میں بہ سالوں کا فاصiiلہ حائ�ii نہیں

ء کے قریب کیا گیاتھا۔۵۵ ۔ہمارا قیاس یہ ہے کہ اس انجی� کا یونانی ترجمہ 3ہے ء سے پہلے یعنی منجئی جہiiا� کی صiiلیبی مiiوت۶۰پس اناجی� اربعہ یونانی زبا� میں

آاکر رومی یونانی دنیا کی کلیسیاؤں میں مروج ہوگئیں۔ کے تیس سالوں کے اندر اندر وجود میں (۳)

ل� اربعہ کے یونiiانی ترجمiوں میں خiدا کی پروردگiاری اورحفiiاظ کiا ہiiاتھ صiiاف iiاناجی آاتاہے۔ اگرا� اناجی� کا ترجمہ یروشلیم کی تباہی سے پہلے سر انجام پiiاکر سiiلطن روم طورپر نظر کے مختلiiف گوشiiوں میں مiiروج نہ ہوجاتiiا تiiو اناجی�ii صiiرف ارامی زبiiا� میں ہی ہiiوتیں اوریہiiودیل} مسیحیوں کےسiاتھ ہی ا� اناجی�i کiا بھی خiاتمہ ہوجاتiااور مسiیحی کی اشiاع صiرف ار مقدس تک ہی محدود رہتی اوریہودی مسیحیوں کی پراگندگی کے ساتھ یا تو ارامی اناجی� کی طرح ختم ہوجاتی اوریا سسک سسک کر نیم مردہ حال میں چنiiد سiiالوں تiiک ہی زنiiدہ رہiiتی۔

ل� اربعہ کiiا یونiiانی زبiiا� میں تiiرجمہ ہوچکiiا تھiiا جiiو ایiiک بین۷۰لیکن چiiونکہ iiے پہلے اناجیiiء س 3 Allen J.Th.S. April 1946

Page 142: The Reliability of the Four Gospels - Muhammad, Islam ... · Web viewدونوں مصنف اس بات کو ہمیشہ کی زندگی سمجھتے ہیں کہ لوگ خدا کو جانیں۔

تچوگiنی تiرقی کiررہی تھیں تدگiنی اور رات الاقوامی زبا� تھی اور یونiانی بولiنے والی کلیسiیائیں د� لہذا مسیحی کو عروج حاص� ہوتا گیا، اور وہ ہر ملک اورہر قوم میں جڑ پکڑ کرہر طرف پھیلتی

گئی۔ یہ ایiiiiک حقیق ہے کہ اس زمiiiiانہ میں اگرکiiiiوئي مصiiiiنف یہ چاہتiiiiاہے کہ اس کی تصنیف سے مہذب دنیا کی مختلiف اقiiوام فائiدہ حاص�ii کiریں تiو وہ اپiنی تصiنیف کiو یiا تiو یونانی زبiا� میں لکھتiا اوریiا اس کiا تiرجمہ یونiانی میں کردیتiiا تھiiا۔ چنiiانچہ ہم گذشiتہ بiاب کیلگ یہiiود" پہلے iiاری\ جنiiاب" تiiنی کتiیفس نے اپiiورخ یوسiiآائے ہیں کہ یہودی م فص� پنجم میں ذکر�iiا اوراب ارامی اناجیiiا تھiiپہ� ارامی میں لکھی تھی اورا سکا ترجمہ اس نے یونانی میں خودہی کی کی طرح یہ ارامی تصنیف بھی گم ہوگئی ہے لیکن ا� کے یونانی ترجمہ کو بقا نصیب ہوئی ہے۔

جب اناجی� اربعہ کا یونانی زبا� میں ترجمہ ہوگیا تو مسیحی کی روز افiiزوں تiiرقی ہiiوتییے کہ مشر� ومغرب کے ممالک کے حکمرانوں کے پے درپے مسلس� ایذارسانیوں کے گئی۔ حت باوجود روئے زمین پر کiiوئی ایسiiا ملiiک نہ رہiiا جس میں اناجی�ii کے تiiرجمے موجiiود نہ تھے۔ اب یونiiانی اناجی�ii کے تiiراجم کے ذریعہ منجی عiiالمین کiiا جiiانفزا پیغiiام دوہiiزار سiiال سiiے ہiiر ملiiک ،آادمیوں تک پہنچ رہiiا ہے۔ا� یونiانی اناجی�ii کے متن کی صiح پiر ہم نے قبیلہ ، اور مذہب کے تتب مقدسہ" میں نہای تفصی� کے ساتھ بحث کiiرکے ثiاب کردیiiاہے کہ ل ک اپنی کتاب" صحلغ دنیا کی کiوئی قiiدم کتiاب اناجی�ii اربعہ کی صiح کiا مقiiابلہ نہیں کرسiکتی ۔ جس طiiرح بiا عد� کو چار ندیوں کا پانی سیراب کرتا تھiiا یہ چiiار انجیلیں بھی دوہiiزار سiiال سiiے اس دنیiiا کے

آائی ہیں۔ ہرگوشہ کو سیراب کرکے اس کو جن الفردوس بناتی چلی