urdu short story by sadat hasan manto

125
Urdu Short Story Alla Datta By Sadat Hasan Manto Posted on November 6, 2011 by mantonama ا لہ د ت ل ا ہ ت لباد ا د و اج ا ت ے ا ک ے۔ ان ھ ت دے ن" ش ا ے ت ک الہ& ن ب( پ ت ش ا& ون رت ن ا۔ دو لہ د ت اور ال ھا ک لہ ر ے۔ ال ھ ت ی2 ئ ھا ت دو ا۔4 و رہ4 ہ ں کا: ی4 ہ و و ن ا& ت لہ ا ا& ن ب( پ ں& می" لاش ت ی ک ت م لار م دادا ون کا& ی2 ئ ھا ت اش دو ت ج ر مگ ے۔ ھ ت ے ک ور4 ہ لا را س ھا۔ دو ت ی ل ارد ادر کا4 ہ ب ت ج ری صا ٹ ر ک& ن ش ف& ی( جT ک& ے۔ اپ ھ ت م لار مکاری ر س ون ن ا دو لہ د ت اور ال ھا ک لہ ر ال ی۔ س را( پ( چ ر کا پ ف ے د ک ورر ی ش ا ف ر ا ل رو پ_ ن ک و ج و ک ھا ک لہ ر ال رف صT ک& ی۔ اپ ھ ت ی4 ہ ر ر ر گ ی ھ( چ ی ار ٹ و۔4 ہ م کj رچ خ اکہ ے ت ھ تo ے ہت ھ ر ت ساT ک& ی اپ2 ئ ھا ت ون ن دو ھا ت ا ;pma&ن لب وت" ش ھا۔ ر ت ا ن: بy پ رات" س ی۔ وہ ھ ت ;pma&ت یا ک" ش ق ل ع ی م ے ک ں ل( ج ال( ے ج ک ی2 ئ ھا ت ’ے ٹ و ھ( چ ے ئت، ا ھا ت ار ٹ س و( ن م" ش( ج ہ" ;pma&ش می4 ہ ے ٹ ھا ک لہ ر ر ال مگ ھا۔ ت ا رت ک ا& ن ل ی ھ ت س ن ھا( ت و ک ورت عدار ا اور ت ;pma&ت ی ر غ ی س ک ھار کب ی ھ کب اور و۔4 ہ ہ م ن4 ہر ٹ م4 ہ در ون ک س و ں م ا ر کا ھ گ ھا کہ ت ا& ن ل ے کام س" وش ج ں& می ر ھ گ ے ئت ی اور ا ھ ت ی ک( ج ا ی ج4 ہ ا& ن ئT ک& ں۔ اپ& ھی ت ان& ن ک ر ل ی دو ک ھا ک لہ ر ے۔ ال ھ ت دہ" ادی س" ون س ن دو ی۔ ھ ت ی ھتر( ٹ ں& می ول ک س ری م2 ئرا( ٹ ی اور ھ ت ی کرش ٹ رہ& پ ن ھا، تٰ ری صغ ام س کا ت ج ری س ی۔ دو ھ ت

Upload: naeemsiddiqui

Post on 21-Feb-2016

101 views

Category:

Documents


13 download

DESCRIPTION

Sadat Hasan Manto

TRANSCRIPT

Urdu Short Story Alla Datta By Sadat Hasan Manto

Posted on November 6, 2011 by mantonama

ہالل دتا

ےدو بھائی تھ الل رکھا اور الل دتا دونوں ریاست پٹیال ک باشند تھ ان ک آبا ے۔ ے ے ہ ۔ ہ ہ ے۔ور ک تھ مگر جب اس دو بھائیوں کا دادا مالزمت کی تالش میں ے۔و اجداد البت ال ے ہ ہ

ا و ر یں کا ۔پٹیال آیا تو و ہ ہ ہ ہ

ادر کا ہالل رکھا اور الل دتا دونوں سرکاری مالزم تھ ایک چیف سیکرٹری صاحب ب ے۔ ہ ہ۔اردلی تھا دوسرا کنٹرولر آف اسٹورز ک دفتر کا چپراسی ے ۔

ی تھی ایک و بڑی اچھی گزر ر ت تھ تاک خرچ کم ۔دونوں بھائی ایک ساتھ ر ہ ۔ ہ ہ ے ے ہےصرف الل رکھا کو جو بڑا تھا، اپن چھوٹ بھائی ک چال چلن ک متعلق شکایت ے ے ے ہ

۔تھی و شراب پیتا تھا رشوت لیتا تھا اور کبھی کبھار کسی غریب اور نادار عورت ہ ۔میش چشم پوشی س کام لیا تھا ک ہکو پھانس بھی لیا کرتا تھا مگر الل رکھا ن ے ہ ہ ے ہ ۔

و م ن م بر ۔گھر کا امن و سکون در ہ ہ ہ ہ

ی جا چکی تھی اور ہدونوں شادی شد تھ الل رکھا کی دو لڑکیاں تھیں ایک بیا ۔ ہ ے۔ ہہاپن گھر میں خوش تھی دوسری جس کا نام صغری تھا، تیر برس کی تھی اور ۔ ے

۔پرائمری سکول میں پڑھتی تھی

و چکی تھی مگر اپن ےالل دتا کی ایک لڑکی تھی —— زینب —— اس کی شادی ہ ہیں تھی اس لی ک اس کا خاوند اوباش تھا پھر بھی و ہگھر میں کوئی اتنی خوش ن ۔ ہ ے ۔ ہ

ی تھی ۔جوں توں نبھائ جا ر ہ ے

ےزینب اپن بھائی طفیل س تین سال بڑی تھی اس حساب س طفیل کی عمر ۔ ے ےوتی تھی و لو ک ایک چھوٹ س کارخان میں ےاٹھار انیس برس ک قریب ے ے ے ہے ہ ۔ ہ ے ہ

ین تھا، چنانچ کام سیکھن ک دوران میں بھی پندر روپ ا تھا لڑکا ذ ےکام سیکھ ر ہ ے ے ہ ہ ۔ ہوار اس مل جات تھ ے۔ما ے ے ہ

۔دونوں بھائیوں کی بیویاں بڑی اطاعت شعار، محنتی اور عبادت گزار عورتیں تھیںیں دیا تھا روں کو کبھی شکایت کا موقع ن وں ن اپن شو ۔ان ہ ہ ے ے ہ

و گئ دونوں ندو مسلم فساد شروع ی تھی ک ایکا ایکی موار گزر ر ے۔زندگی بڑی ہ ہ ہ ہ ہیں تھا ک ان ک مال و جان اور عزت و آبرو پر م و گمان میں بھی ن ےبھائیوں ک و ہ ہ ہ ے

یں افراتفری اور کسمپرسی ک عالم میں ریاست پٹیال چھوڑنا و گا اور ان ہحمل ے ہ ہ ہوا ۔پڑ گی —— مگر ایسا ہ ے

یں ک اس خونیں طوفان میں کون سا درخت گرا، ہدونوں بھائیوں کو قطعا معلوم ن ہوش و حواس کسی قدر نی ٹوٹی —— جب ہکون س درخت س کون سی ٹ ہ ے ے

وئ تو چند حقیقتیں سامن آئیں اور و لرز گئ ے۔درست ہ ے ے ہ

ید کر دیا گیا تھا اور اس کی بیوی کو بلوائیوں ن ر ش ےالل رکھا کی لڑکی کا شو ہ ہ ہالک کر دیا تھا ۔بڑی ب دردی س ہ ے ے

۔الل دتا کی بیوی کو بھی سکھوں ن کرپانوں س کاٹ ڈاال تھا اس کی لڑکی زینب ے ے ہر بھی موت ک گھاٹ اتار دیا گیا تھا ۔—— کا بد چلن شو ے ہ

ل تو کیمپوں گلت سٹرت ر پھر ہے۔رونا دھونا بیکار تھا صبر شکر کر ک بیٹھ ر پ ے ے ے ہ ہے۔ ے ۔ہگلی کوچوں میں بھیک مانگا کیئ آخر خدا ن سنی، الل دتا کو گوجرانوال میں ایک ہ ے ے۔

ےچھوٹا سا شکست مکان سر چھپان کو مل گیا طفیل ن دوڑ دھوپ کی تو اس ے ۔ ے ہ۔کام مل گیا

اڑ ا جوان لڑکی ساتھ تھی گویا ایک پ ی میں دیر تک دربدر پھرتا ر ور ہالل رکھا ال ۔ ۔ ہ ہ ہ ہی جانتا ک اس غریب ن کس طرح ڈیرھ اڑ اس ک سر پر کھڑا تھا الل ےکا پ ہ ہے ہ ہ ۔ ے ہ

ہبرس گزارا بیوی اور بڑی لڑکی کا غم و بالکل بھول چکا تھا قریب تھا ک و کوئی ہ ۔ ہ ۔ےخطرناک قدم اٹھائ ک اس ریاست پٹیال ک ایک بڑ افسر مل گئ جو اس ک ے ے ے ہ ے ہ ےربان تھ اس ن ان کو اپنی حالت زار الف س ل کر تک ک سنائی ۔بڑ م ہہ ے ے ے ے ے۔ ہ ےور ک ایک عارضی دفتر میں ےآدمی رحم دل تھا اس کو بڑی دقتوں ک بعد ال ہ ے ۔

ی اس کو چالیس روپ وں ن دوسر روز ےاچھی مالزمت مل گئی تھی چنانچ ان ہ ے ے ہ ہ ۔ائش ک لی دلوا دیا وار پر مالزم رکھ لیا اور ایک چھوٹا سا کوارٹر بھی ر ۔ما ے ے ہ ۔ ہ

ہالل رکھا ن خدا کا شکر ادا کیا جس ن اس کی مشکالت دور کیں اب و آرام ۔ ے ے ہ۔س سانس ل سکتا تھا اور مستقبل ک متعلق اطمینان س سوچ سکتا تھا ے ے ے ے

ےصغری بڑ سلیق والی سگھڑ لڑکی تھی سارا دن گھر ک کام کاج میں مصروف ۔ ے ےر نڈیا میں ا سلگاتی اور مٹی کی تی ادھر ادھر س لکڑیاں چن ک التی چول ہر ہ ہ ۔ ے ے ۔ ہی تنور و جائ آٹا گوندھتی، پاس ہروز اتنا سالن پکاتی جو دو وقت ک لی پورا ے۔ ہ ے ے

اں جا کر روٹیاں لگوا لیتی ۔تھا، و ہ

یں صغری عام یں سوچتا طرح طرح ک خیاالت آت ائی میں آدمی کیا کچھ ن ۔تن ہ ے ے ۔ ہ ہتی اتی ر ن اور ماں کو یاد کر ک آنسو ب وتی تھی اور اپنی ب ا ہطور پر دن میں تن ہ ے ہ ہ ہ

ہتھی، پر جب باپ آتا تو و اپنی آنکھوں ک سار آنسو خشک کر لیتی تھی تاک اس ے ے ہا ی اندر گھال جا ر وں لیکن و اتنا جانتی تھی ک اس کا باپ اندر ر ن ہک زخم ہ ہ ہ ۔ ہ ہ ے ہ ے

یں صغری س بھی اس تا ن تا مگر و کسی س ک ر وقت روتا ر ے اس کا دل ۔ ہ ہ ے ہ ہے ہ ہ ہے۔یں کیا تھا ن کا ذکر ن ۔ن کبھی اس کی ماں اور ب ہ ہ ے

ی تھی ادھر گوجرانوال میں الل دت اپن بھائی ک ےاندگی افتاں و خیزاں گزر ر ے ہ ہ ہ ۔ ہےمقابل میں کسی قدر خوش حال تھا، کیونک اس بھی مالزمت مل گئی تھی اور ہ ے

وار ت سالئی کا کام کر لیتی تھی مل مال ک کوئی سو روپ ما ہزینب بھی تھوڑا ب ے ے ۔ ہت کافی تھ ے۔و جات تھ جو تینوں ک لی ب ہ ے ے ے ے ہ

تا تھا، نچلی منزل میں ہمکان چھوٹا تھا، مگر ٹھیک تھا اوپر کی منزل میں طفیل ر ۔ت خیال رکھت تھ الل دتا اس ےزینب اور اس کا باپ دونوں ایک دوسر کا ب ہ ے۔ ے ہ ے ۔

یں کرن دیتا تھا چنانچ من اندھیر اٹھ کر و صحن میں جھاڑو د کر ےزیاد کام ن ہ ے ہ ہ ۔ ے ہ ہو جائ وقت ملتا تو و دو تین گھڑ لکا ا سلگا دیتا تھا ک زینب کا کام کچھ ےچول ہ ے۔ ہ ہ ہ ہ

۔بھر کر گھڑونچی پر رکھ دیتا تھا

وتا تھا جیس و یں کیا تھا ایسا معلوم ید خاوند کو کبھی یاد ن ہزینب ن اپن ش ے ہ ۔ ہ ہ ے ےت خوس یں و خوش تھی اپن باپ ک ساتھ ب ی ن ہاس کی زندگی میں کبھی تھا ے ے ۔ ہ ۔ ہ ہےتھی بعض اوقات و اس س لپٹ جاتی تھی —— طفیل ک سامن بھی، اور اس ے ے ہ ۔

۔کو خوب چومتی تھی

وتا تو و اس س پرد یں کرتی تھی اگر ممکن ل ن ہصغری اپن باپ س ایس چ ے ہ ہ ۔ ہ ہ ے ے ےیں، صرف احترام ک لی اس ک یں ک و کوئی نامحرم تھا ن ےکرتی اس لی ن ے۔ ے ہ ۔ ہ ہ ہ ے ۔“ ے۔دل س کئی دفع ی دعا اٹھتی تھی “ یا پروردگار، میرا باپ میرا جناز اٹھائ ہ ۔ ہ ہ ے

ونا تھا ی یں جو خدا کو منظور تھا، و وتی ۔بعض اوقات کئی دعائیں الٹی ثابت ہ ہ ۔ ہ ہاڑ ٹوٹنا تھا ۔غریب صغری ک سر پر غم و اندو کا ایک پ ہ ہ ے

وئی سڑک پر الل وئ تپتی ر کو دفتر ک کسی کام پر جات ین دوپ ہجون ک م ہ ے ہ ے ے ہ ے ہ ےنچایا مگر سپتال پ و کر گر پڑا لوگوں ن اٹھایا وش ہرکھا کو ایسی لو لگی ک ب ہ ۔ ے ۔ ہ ہ ے ہ

۔دوا دارو ن کوئی کام ن کیا ہ ے

و گئی اس ن قریب قریب اپن ےصغری باپ کی موت ک صدم س نیم پاگل ے ۔ ہ ے ے ےوتا و تو ت دم دالسا دیا مگر ی کارگر کیس مسایوں ن ب ہآدھ بال نوچ ڈال ۔ ہ ے ہ ۔ ہ ے ہ ے۔ ےو ن کوئی پتوار اور بیچ منجدار ک آن ےایس کشتی ک مانند تھی، جس کا بادبان ہ ہ ے

و ۔پھنسی ہ

وں ن مرحوم الل رکھا کو مالزمت دلوائی تھی، فرشت رحمت ہپٹیال ک و افسر جن ہ ے ہ ہ ے ہوں ن ی کام کیا ل ان وئ ان کو جب اطالع ملی تو دوڑ آئ سب س پ ہثابت ے ہ ے ہ ے ے۔ ے ے۔ ہا ک و اس کا ہک صغری کو موٹر میں بٹھا کر گھر چھوڑ آئ اور اپنی بیوی س ک ہ ہ ے ے ہ

یں انتظام کیا وں ن الل رکھا ک غسل وغیر کا و سپتال جا کر ان ہخیال رکھ پھر ہ ے ہ ے ہ ہ ے۔ا ک و اس کو دفنا آئیں ۔اور دفتر والوں س ک ہ ہ ہ ے

ور آیا ر حال و ال ہالل دتا کو اپن بھائی ک انتقال ک خبر بڑی دیر ک بعد ملی ب ہ ہ ۔ ے ے ے ے ہت دم اں صغری تھی اس ن اپنی بھتیجی کو ب نچ گیا ج اں پ ہاور پوچھتا پاچھتا و ے ۔ ہ ہ ہادر الیا سین ک ساتھ لگایا، پیار کیا دنیا کی ب ثباتی کو ذکر کیا ب ہدالسا دیا ب ۔ ے ۔ ے ے ۔ ہ ۔وتا غریب وئ دل پر ان تمام باتوں کا کیا اثر ا، مگر صغری ک پھٹ ۔بنن کو ک ہ ے ہ ے ے ہ ے

ی ۔خاموش اپن آنسو دوپٹ میں خشک کرتی ر ہ ے ے

وں میری ت شکر گزار ا، “ میں آپ کا ب ۔الل دتا ن افسر صاحب س آخر میں ک ہ ہ ہ ے ے ہیز و تکفین کا آپ میش جھکی ر گی مرحوم کی تج ہگردن آپ ک احسانوں تل ۔ ہے ہ ہ ے ے

ےن بندوبست کیا پھر ی بچی جو بالکل ب آسرا ر گئی تھی، اس کو آپ ن اپن ے ہ ے ہ ۔ ےےگھر میں جگ دی خدا آپ کو اس کا اجر د اب میں اس اپن ساتھ لی جاتا ے ے ے۔ ۔ ہ

“ ہے۔وں میر بھائی کی بڑی قیمتی نشانی ے ۔ ہ

ن دو طبیعت اں ر ا، “ ٹھیک ، لیکن تم اس کچھ دیر اور ی ۔افسر صاحب ن ک ے ہ ہ ے ہے ہ ے“ ۔سنبھل جائ تو ل جانا ے ے

ا، “ حضور میں ن اراد کیا ک اس کی شادی اپن لڑک س کروں ےالل دتا ن ک ے ے ہ ہے ہ ے ہ ے ہ“ ت جلد ۔گا اور ب ہ

وئ “ بڑا نیک اراد لیکن اس صورت میں جب ک تم ت خوش ہافسر صاحب ب ہے۔ ہ ے۔ ہ ہنا مناسب و، اس کا اس گھر میں ر ہاس کی شادی اپن لڑک س کرن وال ہ ے ے ے ے ے

یں تم شادی کا بندوبست کرو، مجھ تاریخ س مطلع کر دینا خدا ک فضل و ےن ۔ ے ے ۔ ہ“ و جائ گا ۔کرم س سب ٹھیک ے ہ ے

۔بات درست تھی الل دتا واپس گوجرانوال چال گیا زینت اس کی غیر موجودگی ہ ہ ۔ن وا تو اس س لپٹ گئی اور ک و گئی جب و گھر میں داخل ت اداس ےمیں ب ہ ے ہ ہ ۔ ہ ہ

۔لگی ک اس ن اتنی دیر کیوں لگائی ے ہ

ٹایا، “ ار بابا، آنا جانا کیا ، قبر پر فاتح ہےالل دتا ن پیار س اس ایک طرف ے ہ ے ے ے ہاں النا تھا ۔پڑھنی تھی صغری س ملنا تھا، اس ی ہ ے ے ۔

اں “ ایک دم چونک کر، “ اں النا تھا ہزینب ن معلوم کیا سوچن لگی “ صغری کو ی ۔ ہ ۔ ے ہاں ؟“ اں النا تھا پر و ک ہے—— صغری کو ی ہ ہ ۔ ہ

ا جب وں ن ک یں، ان ک پاس ان یں پٹیال ک ایک بڑ نیک دل افسر ہ“ و ے ہ ہے۔ ے ہ ے ے ے ہے۔ ہوئ اس ن بیڑی ت “ ی ک ےتم اس کی شادی کا بندوبست کر لو گ تو ل جانا ے ہ ے ہ ہ ۔ ے ے

۔سلگائی

و وئ پوچھا “ اس کی شادی کا بندوبست کر ر ۔زینب ن بڑی دلچسپی لیت ہ ہے ۔ ے ہ ے ےاری نظر میں؟“ ہکوئی لڑکا تم ہے

ےالل دتا ن زور کا کش لیا “ ار بھئی اپنا طفیل میر بڑ بھائی کی صرف ایک ے ۔ ے ۔ ے ہ“ ۔ی نشانی تو میں اس کیا غیروں ک حوال کر دوں گا ے ے ے ہے۔ ہ

ےزینب ن ٹھنڈی سانس بھری “ تو صغری کی شادی تم طفیل س کرو گ ؟“ ے ۔ ے

یں کوئی اعتراض ؟“ اں، کیا تم ہےالل دتا ن جواب دیا “ ہ ہ ۔ ے ہ

و، کیوں —— ی اں —— اور تم جانت ا، “ ج میں ک ہزینب ن بڑ مضبوط ل ہے ہ ے ہ ہ ے ہ ے ے“ و گی یں رگز ن ۔شادی ہ ہ ہ

ر ہالل دتا مسکرایا زینب کی تھوڑی پکڑ کر اس ن اس کا من چوما “ پگلی —— ۔ ہ ے ۔ ہ“ وں ارا باپ ۔بات پر شک کرتی —— اور باتوں کو چھوڑ، آخر میں تم ہ ہ ہے۔

“ اور اندر کمر میں جا کر رون لگی ون کی “ باپ ۔زینب ن بڑ زور س ے ے ۔ ہہ ہ ے ے ے

۔الل دتا اس ک پیچھ گیا اور اس کو پچکارن لگا ے ے ے ہ

ےدن گزرت گئ طفیل فرمانبردار لڑکا تھا جب اس ک باپ ن صغری کی بات ے ۔ ے۔ ےر گئی افسر ین ک بعد تاریخ مقرر ۔کی تو و فورا مان گیا آخر تین چار م ہ ے ے ہ ۔ ہ

ت اچھا جوڑا سلوایا جو اس شادی ک دن ےصاحب ن فورا صغری ک لی ایک ب ے ہ ے ے ےننا تھا ایک انگوٹھی بھی ل دی پھر اس ن محل والوں س اپیل کی ک و ایک ہپ ہ ے ے ے ۔ ے ۔ ہ

ارا ، حسب توفیق کچھ دیں ۔یتیم لڑکی کی شادی ک لی جو بالکل ب س ہے ہ ے ے ے

ےصغری کو قریب قریب سبھی جانت تھ اور اس ک حاالت س واقف تھ ، ے ے ے ےیز تیار کر دیا وں ن مل مال کر اس ک لی بڑا اچھا ج ۔چنانچ ان ہ ے ے ے ہ ہ

یں اور اس و گئ وا ک تمام دکھ جمع ن بنی تو اس ایسا محسوس ہصغری دل ے ہ ہ ہ ے ہاں اس کا استقبال زینب ن کیا نچی ج رحال و اپن سسرال پ یں ب ۔کو پیس ر ے ہ ہ ے ہ ہ ۔ ہ ہےنوں کا و گیا ک و اس ک ساتھ ب ہکچھ اس طرح ک صغری کو اسی وقت معلوم ے ہ ہ ہ ہ

یں کر گی بلک ساس کی طرح پیش آئ گی ۔سا سلوک ن ے ہ ے ہ

ندی ابھی اچھی طرح اترن بھی اتھوں کی م ےصغری کا اندیش درست تھا اس ک ہ ہ ے ۔ ہیں پائی تھی ک زینب ن اس س نوکروں ک کام لین شروع کر دیئ جھاڑو ے۔ن ے ے ے ے ہ ہ

ا و جھونکتی، پانی و بھرتی، ی سب کام و بڑی ہدیتی، برتن و مانجھتی، چول ہ ہ ہ ہ ہ

وتی بات بات پر ۔پھرتی اور بڑ سلیق س کرتی لیکن پھر بھی زینب خوش ن ہ ہ ے ے ےتی ۔اس کو ڈانٹتی ڈپٹتی، جھڑکتی ر ہ

ی کر لیا تھا، و ی سب کچھ برداشت کر گی اور کبھی حرف ےصغری ن دل میں ت ہ ہ ہ ہ ےاں س دھکا مل گیا تو اس ک لی ےشکایت زبان پر ن الئ گی کیونک اگر اس ی ے ے ہ ے ہ ۔ ے ہ

یں تھا ۔اور کوئی ٹھکان ن ہ ہ

یں تھا زینب کی نظر بچا کر کبھی کبھی و ہالل دتا کا سلوک البت اس س برا ن ۔ ہ ے ہ ہو جائ گا تا تھا ک و کچھ فکر ن کر سب ٹھیک ۔اس کو پیار کر لیتا تھا اور ک ے ہ ے۔ ہ ہ ہ ہ

اں یلی ک وتی زینب جب کبھی اپنی کسی س ت ڈھارس ہصغری کو اس س ب ے ہ ۔ ہ ہ ےوتا تو و اس س دل کھول کر پیار کرتا اس ۔جاتی اور الل دتا اتفاق س گھر پر ے ہ ہ ے ہاتھ بٹاتا اس ک واسط اس ےس بڑی میٹھی میٹھی باتیں کرتا کام میں اس کا ے ۔ ہ ۔ ے

وتی تھیں، دیتا اور سین ک ساتھ لگا کر اس س ےن جو چیزیں چھپا کر رکھی ے ے ہ ے“ و تا، “ صغری تم بڑی پیاری ۔ک ہ ہ

یں تھی اس کا ۔صغری جھینپ جاتی در اصل و اتن پر جوش پیار کی عادی ن ہ ے ہ ۔اتھ پھیر دیا تا تھا تو صرف اس ک سر پر ہمرحوم باپ اگر کبھی اس پیار کرنا چا ے ہ ے

اتھ رکھ کر ی دعا دیا کرتا تھا “ خدا میری بیٹی ک ےکرتا تھا یا اس ک کندھ پر ہ ہ ے ے“ ے۔نصیب اچھ کر ے

ت خوش تھی و بڑا اچھا خاوند تھا جو کماتا تھا اس ک ےصغری طفیل س ب ۔ ہ ۔ ہ ےر و ہحوال کر دیتا تھا، مگر صغری زینب کو د دیتی تھی اس لی ک و اس ک ق ے ہ ہ ے ۔ ے ے

۔غضب س ڈرتی تھی ے

ےطفیل س صغری ن زینب کی بدسلوکی اور اس ک ساس ایس برتاؤ کا کبھی ے ے ےتی تھی ک اس ک باعث گھر میں ین چا یں کیا تھا و صلح کل تھی و ن ےذکر ن ہ ہ ہ ہ ۔ ہ ۔ ہنا و اور بھی کئی باتیں تھیں جو و طفیل س ک ہکسی قسم کی بدمزگی پیدا ے ہ ۔ ہ

و جائ گا اور تو اس میں س بچ تی ت ک دیتی مگر اس ڈر تھا ک طوفان برپا ےچا ۔ ے ہ ہ ے ہہ ہ ہہکر نکل جائیں گ مگر و اکیلی اس میں پھنس جائ گی، اور اس کی تاب ن ال ے ہ ے

۔سک گی ے

وئی تھیں اور و کانپ کانپ گئی تھی اب وئ معلوم ۔ی خاص باتیں اس چند روز ہ ہ ے ہ ے ہاں و ٹ جاتی، یا دوڑ کر اوپر چلی جاتی ج تا تو و الگ ہالل دتا اس پیار کرنا چا ہ ہ ہ ہ ے ہ

ت تھ ے۔اور طفیل ر ے ہ

وتی ر گئی یں با وتی تھی الل دتا کو اتوار کو زینب ک ہطفیل کو جمع کو چھٹی ہ ہ ۔ ہ ۔ ہ ہےتو و جلدی جلدی کام کاج ختم کر ک اوپر چلی جاتی اگر اتفاق س اتوار کو ۔ ے ہتی ڈر ک مار اس س وتی تو صغری کی جان پر بنی ر ر گئی یں با ےزینب ک ے ے ۔ ہ ہ ہ ہ

اتھوں اور دھڑکت دل وتا لیکن زینت کا خیال آتا تو اس مجبورا کانپت ےکام ن ہ ے ے ۔ ہ ہا سب کچھ کرنا پڑتا اگر و کھانا وقت پر ن پکائ تو اس کا خاوند ےس طوعا و کر ہ ہ ۔ ہ ے

۔بھوکا ر کیونک و ٹھیک بار بج اپنا شاگرد روٹی ک لی بھیج دیتا تھا ے ے ے ہ ہ ہ ہے

ی تھی، الل دتا یں تھی، اور و آٹا گوند ر ہایک دن اتوار کو جب ک زینب گھر پر ن ہ ہ ہ ہاتھ رکھ دیئ ے۔پیچھ س دب پاؤں آیا اور کھلنڈر انداز میں اس کی آنکھوں پر ہ ے ے ے ے

۔و تڑپ کر اٹھی، مگر الل دتا ن اس اپنی مضبوط گرفت میں ل لیا ے ے ے ہ ہ

ا، “ شور اں سنن واال کون تھا الل دتا ن ک ہصغری ن چیخنا شروع کر دیا مگر و ے ہ ۔ ے ہ ے“ ۔مت مچاؤ ی سب ب فائد —— چلو آؤ ہے ہ ے ہ ۔

تا تھا ک صغری کو اٹھا کر اندر ل جائ کمزور تھی مگر خدا جان اس میں ےو چا ے۔ ے ہ ہ ہانپتی کانپتی اں س اتنی طاقت آ گئی ک الل دتا کی گرفت س نکل گئی اور ہک ے ہ ہ ے ہ

و کر اس ن اندر س کنڈی چڑھا دی نچ گئی کمر میں داخل ۔اوپر پ ے ے ہ ے ۔ ہ

و گئی تھی اندر کمر ےتھوڑی دیر ک بعد زینب آ گئی الل دتا کی طبیعت خراب ۔ ہ ہ ۔ ےا، “ ادھر آؤ، میری ٹانگیں ہمیں لیٹ کر اس ن زینب کو پکارا و آئی تو اس س ک ے ہ ۔ ے

ےدباؤ زینب اچک کر پلنگ پر بیٹھ گئی اور اپن باپ کی ٹانگیں دبان لگی —— ے ۔ے۔تھوڑی دیر ک بعد دونوں ک سانس تیز تیز چلن لگ ے ے ے

“ و یں ۔زینب ن الل دتا س پوچھا “ کیا بات ؟ آج تم اپن آپ میں ن ہ ہ ے ہے ۔ ے ہ ے

۔الل دتا ن سوچا زینب س چھپانا فضول ، چنانچ اس ن سارا ماجرا بیان کر دیا ے ہ ہے ے ے ہیں تو شرم ن آئی، پر اب یں تھی —— تم و گئی “ کیا ایک کافی ن ہزینب آگ بگوال ہ ہ ۔ ہ

و گا، اسی لی میں شادی ک ی تھی —— مجھ معلوم تھا ک ایسا ےتو آنی چا ے ہ ہ ے ے ہ“ یں ر گی ۔خالف تھی —— اب سن لو ک صغری اس گھر میں ن ہے ہ ہ

ج میں پوچھا “کیوں؟“ ےالل دتا ن بڑ مسکین ل ہ ے ے ہ

“ تی یں چا ا، “ میں اس گھر میں اپنی سوت دیکھنا ن ۔زینب ن کھل طور پر ک ہ ہ ہ ے ے

و گیا اس ک من س کوئی بات نکل ن سکی ۔الل دتا کا حلق خشک ہ ے ہ ے ۔ ہ ہ

تی تھی ی چا ر نکلی تو اس ن دیکھا ک صغری صحن میں جھاڑو د ر ہزینب با ہے۔ ہ ے ہ ے ہی ۔ک اس س کچھ ک مگر خاموش ر ہ ہے ے ہ

ین گزر گئ —— صغری ن محسوس کیا ک طفیل اس س ےاس واقع کو دو م ہ ے ے ے ہ ےوں س دیکھتا آخر تا تھا ذرا ذرا سی بات پر اس کو شک کی نگا ہے۔کھنچا کھنچا ر ے ہ ۔ ہ

ر نکال دیا اتھ میں دیا اور گھر س با ۔ایک دن آیا ک اس ن طالق نام اس ک ہ ے ہ ے ہ ے ہ

ٹھنڈا گوشتوا، کلونت کور پلنگ س اٹھی اپنی وٹل ک کمر میں داخل ی ۔ایشر سنگھ جون ے ہ ے ے ہ ہ

ےتیز تیز آنکھوں س اس کر طرف گھور ک دیکھا اور درواز کی چٹخنی بند کر ے ےر کا مضافات ایک عجیب پراسرار خاموشی ہدی رات ک بار بج چک تھ ، ش ے ے ہ ے ۔

۔میں غرق تھا

ہکلونت کور پلنگ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی ایشر سنگھ جو غالبا اپن پراگند ے ۔اتھ میں کرپان لی ایک کون میں ا تھا، وئ دھاگ کھول ر ےخیاالت ک الجھ ے ہ ہ ے ے ہ ے ے

ے۔کھڑا تھا چند لمحات اسی طرح خاموشی میں گزر گئ کلونت کور کو تھوڑی دیر ۔الن لگی ۔ک بعد اپنا آسن پسند ن آیا اور دونوں ٹانگیں پلنگ س نیچ لٹکا کر ے ہ ے ے ہ ے

۔ایشر سنگھ پھر بھی کچھ ن بوال ہ

اتھ پیروں والی عورت تھی چوڑ چکل کول ، تھل تھل ہےکلونت کور بھر بھر ے ے ۔ ہ ے ے، تیز آنکھیں، باالئی وا سین ی اوپر کو اٹھا ہکرن وال گوشت س بھرپور کچھ زیاد ہ ہ ہ ے ے ے

ےونٹ پر بالوں کا سرمئی غبار، ٹھوڑی کی ساخت س پت چلتا تھا ک بڑ دھڑل ے ہ ہ ے ہہے۔کی عورت

ےایشر سنگھ سر نیوڑھائ ایک کون میں چپ چاپ کھڑا تھا، سر پر اس کی کس ےوئ اتھ جو کرپان کو تھام ی تھی، اس ک و ر وئی پگڑی ڈھیلی ےکر باندھی ہ ے ہ ے ہ ہ ہہتھ ، تھوڑ تھوڑ لرزاں تھ ، مگر اس ک قد و قامت اور خد و خال س پت ے ے ے ے ے ے

ہے۔چلتا تھا ک و کلونت کور جیسی عورت ک لی موزوں ترین مرد ے ے ہ ہ

۔چند اور لمحات جب اسی طرح خاموشی میں گزر گئ تو کلونت کور چھلک پڑی ےہہلیکن تیز تیز آنکھوں کو نچا کر و صرف اس قدر ک سکی “ ایشر سیاں“ ہ

وں کی ہایشر سنگھ ن گردن اٹھا کر کلونت کور کی طرف دیکھا، مگر اس کی نگا ے۔تاب ن ال کر من دوسری طرف موڑ لیا ہ ہ

ی آواز بھینچ لی اور پلنگ س اٹھ کر ےکلونت کور چالئی “ ایشر سیاں “ لیکن فورا ہاں ر تم اتن دن؟“ وئ بولی “ ک ےاس کی جانب جات ہے ہ ے ہ ے

“ یں ونٹوں پر زبان پھیری “ مجھ معلوم ن ۔ایشر سنگھ ن خشک ہ ے ہ ے

“ ہے۔کلونت کور بھنا گئی “ ی بھی کوئی ماں یا جواب ہ

وتا ہایشر سنگھ ن کرپان ایک طرف پھینک دی اور پلنگ پر لیٹ گیا ایسا معلوم ۔ ےےتھا ی و کئی دنوں کا بیمار کلونت کور ن پلنگ کی طرف دیکھا جو اب ایشر ہے۔ ہ ہ

و گیا چنانچ اس مدردی کا جذب پیدا ہسنگھ س لبالب بھرا تھا اس ک دل میں ۔ ہ ہ ہ ے ۔ ےیں؟“ وا تم اتھ رکھ کر اس ن بڑ پیار س پوچھا “ جانی، کیا ہک ماتھ پر ہے ہ ے ے ے ہ ے ے

ٹا کر اس ن کلونت کور یں ا تھا اس س نگا ےایشر سنگھ چھت کی طرف دیکھ ر ہ ہ ے ۔ ہر کو ٹٹولنا شروع کیا “ کلونت “ ۔ک مانوس چ ے ہ ے

ونٹ میں آ گئی “ ۔آواز میں درد تھا، کلونت ساری کی ساری سمٹ کر اپن باالئی ہ ے“ ک کر و اس کو دانتوں س کاٹن لگی ۔اں جانی ے ے ہ ہہ ۔ ہ

وں س دیکھا ارا لین وال نگا ۔ایشر سنگھ ن پگڑی اتار دی کلونت کور کو س ے ہ ے ے ہ ۔ ےےاس ک گوشت بھر کول پر زور س دھپا مارا اور سر کو جھٹکا د کر اپن آپ ے ے ہے ے ے

“ ا “ ی کڑی یا دماغ خراب ہے۔س ک ہ ہ ے

ےجھٹکا دین س اس ک کیس کھل گئ کلونت کور انگلیوں س ان میں کنگھی ے۔ ے ے ےاں ر تم وئ اس ن بڑ پیار س پوچھا “ ایشر سیاں ک ہےکرن لگی ایسا کرت ہ ے ے ے ے ہ ے ۔ ے

ےاتن دن؟“

“ ایشر سنگھ ن کلونت کور کو گھور ک دیکھا اور دفعت ہہ“ بر کی ماں ک گھر ے ے ۔ ے ےگورو کی، وئ سین کو مسلن لگا “ قسم وا اتھوں س اس ک ابھر ہدونوں ۔ ے ے ے ہ ے ے ے ہ

“ و ۔بڑی جاندار عورت ہ

اتھ ایک طرف جھٹک دیئ اور ےکلونت کور ن ایک ادا ک ساتھ ایشر سنگھ ک ہ ے ے ےر گئ تھ ؟“ اں ر —— ش یں میری قسم، بتاؤ ک ےپوچھا “ تم ے ہ ہے ہ ہ

یں “ وئ جواب دیا “ ن ی لپیٹ میں اپن بالوں کا جوڑا بنات ہایشر سنگھ ن ایک ۔ ے ہ ے ے ہ ے

ت سا روپی ر گئ تھ —— اور تم ن ب یں تم ضرور ش ہکلونت کور چڑ گئی، “ ن ہ ے ے ے ہ ہ“ و ۔لوٹا جو مجھ س چھپا ر ہ ہے ے ہے

“ و جو تم س جھوٹ بول ے۔“ و اپن باپ کا تخم ن ے ہ ہ ے ہ

ی بھڑک اٹھی و گئی، لیکن فورا ۔کلونت کور تھوڑی دیر ک لی خاموش ہ ہ ے ے

وا کیا —— اچھ بھل میر یں یں آتا، اس رات تم ے“ لیکن میری سمجھ میں ن ے ے ہ ہ ہر س لوٹ کر نا رکھ تھ جو تم ش ن پ ےساتھ لیٹ تھ ، مجھ تم ن و سار گ ہ ے ے ہ ے ہ ے ہ ے ے ے ے

ن وا، اٹھ کپڑ پ یں کیا ہالئ تھ میری بھپیاں ل ر تھ ، پر جان ایک دم تم ے ے ہ ہ ے ے ہے ے ے۔ ے“ ر نکل گئ ے۔کر با ہ

ا، “ دیکھا ی ک و گیا کلونت کور ن ی تبدیلی دیکھت ہایشر سنگھ کا رنگ زرد ہ ے ہ ے ۔ ہگورو کی، ضرور کچھ دال میں ہکیس رنگ نیال پڑ گیا —— ایشر سیاں، قسم وا ے

“ ہے۔کاال

“ یں ۔“ تیری جان کی قسم، کچھ بھی ن ہ

و گیا ۔ایشر سنگھ کی آواز ب جان تھی کلونت کور کا شب اور زیاد مضبوط ہ ہ ہ ۔ ےا، “ ایشر سیاں، کیا وئ ک ونٹ بھینچ کر اس ن ایک ایک لفظ پر زور دیت ہباالئی ے ہ ے ے ہ

ل تھ ؟“ و جو آج س آٹھ روز پ یں ےبات ، تم و ن ے ہ ے ہ ہ ہ ہے

۔ایشر سنگھ ایک دم اٹھ بیٹھا جیس کسی ن اس پر حمل کیو تھا کلونت کور کو ہ ے ےےاپن تنومند بازوؤں میں سمیٹ کر اس ن پوری قوت ک تھا بھنبھوڑنا شروع کر ے ے

ڈاں دی وں گھٹ گھٹ پا جپھیاں، تیری نکل ی ہدیا “ جانی میں و ے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہ ہ ۔“ ۔۔۔۔۔۔۔۔گرمی

یں اس رات ی، “ تم ہکلونت کور ن کوئی مزاحمت ن کی، لیکن و شکایت کرتی ر ہ ہ ہ ےہو کیا گیا تھا؟“

“ و گیا تھا ۔“ بر کی ماں کا و ہ ہ ے

یں؟“ ہ“ بتاؤ گ ن ے

“ و تو بتاؤں ۔“کوئی بات ہ

“ اتھوں س جالؤ اگر جھوٹ بولو ۔“ مجھ اپن ے ہ ے ے

ونٹوں ونٹ اس ک ہایشر سنگھ ن اپن بازو اس کی گردن میں ڈال دیئ اور ے ہ ے ے ےےمیں گاڑ دیئ مونچھوں ک بال کلونت کور ک نتھنوں میں گھس تو اس چھینک آ ے ے ے ے۔

نسن لگ ے۔گئی دونوں ے ہ ۔

وانی نظروں س دیکھ ےایشر سنگھ ن اپنی صدری اتار دی اور کلونت کور کو ش ہ ے“ و جائ ا، “ آ جاؤ ایک بازی تاش کی ے۔کر ک ہ ہ

ونٹ پر پسین کی ننھی ننھی بوندیں پھوٹ آئیں ایک ادا ک ےکلونت کور ک باالئی ۔ ے ہ ے“ و ا، “ چل دفعان ۔ساتھ اس ن اپنی آنکھوں کی پتلیاں گھمائیں اور ک ہ ہ ے

وئ کول پر زور س چٹکی بھری کلونت کور تڑپ ۔ایشر سنگھن اس ک بھر ے ہے ے ہ ے ے ے“ وتا ٹ گئی “ ن کر ایشر سیاں، میر درد ہے۔کر ایک طرف ہ ے ہ ۔ ہ

ونٹ اپن دانتوں تل دبا لیا اور ےایشر سنگھ ن آگ بڑھ کر کلونت کور کا باالئی ے ہ ے ےےکچکچان لگا کلونت کور بالکل پگھل گئی ایشر سنگھ ن اپنا کرت اتار ک پھینک ہ ے ۔ ۔ ے

“ و جائ ترپ کی چال ا “ لو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔دیا اور ک ے ہ ہ

اتھوں س کلونت ونٹ کپکپان لگا ایشر سنگھ ن دونوں ےکلونت کور کا باالئی ہ ے ۔ ے ہیں، اسی طرح ہکور کی قمیص کا گھیرا پکڑا اور جس طرح بکر کی کھال اتارت ے ے

ےاس کو اتار کر ایک طرف رکھ دیا پھر اس ن گھور ک اس ک ننگ بدن کو دیکھا ے ے ے ۔گورو کی بڑی کراری ا “ کلونت، قسم وا وئ ک ہاور زور س بازو پر چٹکی لیت ۔ ہ ے ہ ے ے

“ ۔عورت تو ہے

وئ الل دھب کو دیکھن لگی، “ بڑا ظالم تو ہےکلونت کور اپن بازو پر ابھرت ے ے ے ہ ے ے“ ۔ایشر سیاں

“ اور ی ک کر ون د آج ظلم ہہایشر سنگھ اپنی گھنی مونچھوں میں مسکرایا، “ ہ ۔ ے ے ہونٹ دانتوں تل ےاس ن مزید ظلم ڈھان شروع کر کئ کلونت کور کا باالئی ہ ے۔ ے ے

وں وئ کول وئ سین کو بھنبھوڑا بھر ہکچکچایا کان کی لوؤں کو کاٹا ابھر ے ہ ے ۔ ے ے ہ ے ۔ ۔ے۔پر آواز پیدا کرن وال چانٹ مار گالوں ک من بھر بھر ک بوس لی چوس ے ے ہ ے ے۔ ے ے ے۔چوس کر اس کا سارا سین تھوکوں س لتھیڑ دیا کلونت کور تیز آنچ پر چڑھی ے ہ

انڈی ک طرح ابلن لگی لیکن ایشر سنگھ ان تمام حیلوں ک باوجود خود ےوئی ۔ ے ے ہ ہےمیں حرارت پیدا ن کر سکا جتن گر اور جتن داؤ اس یاد تھ سب ک سب اس ے ے ے ے ۔ ہوا کلونت لوان کی طرح استعمال کر دیئ پر کوئی کارگر ن ۔ن پٹ جان وال پ ہ ہ ے ہ ے ے ےےکور ن جس ک بدن ک سار تار تن کر خودبخود بج ر تھ غیر ضروری چھیڑ ہے ے ے ے ے

“ ا، “ ایشر سیاں، کافی پھینٹ چکا، اب پتا پھینک ۔چھاڑ س تنگ آ کر ک ہ ے

اتھ س جیس تاش کی ساری گڈی نیچ پھسل گئی ی ایشر سنگھ ک ۔ی سنت ے ے ے ہ ے ہ ے ہلو میں لیٹ گیا اور اس ک ماتھ پر سرد پسین ک وا و کلونت کور ک پ ےانپتا ے ے ے ہ ے ہ ہ ہ

ی ت کوشش کی، مگر ناکام ر ون لگ کلونت کور ن اس گرمان کی ب ۔لیپ ہ ہ ے ے ے ے۔ ے ہا تھا، لیکن جب کلونت کور ک منتظر وتا ر ی ےاب تک سب کچھ من س ک بغیر ہ ہ ہ ہے ے ہوئی تو و جھال کر پلنگ س نیچ اتر گئی سامن ےب عمل اعضا کو سخت ناامیدی ۔ ے ے ہ ہ ہ

ےکھونٹی پر چادر پڑی تھی اس کو اتار کر اس ن جلدی جلدی اوڑھ کر اور نتھن ے ۔ا، “ ایشر سیاں، و کون حرامزادی جس ک ج میں ک وئ ل ےپھال کر بپھر ہے ہ ہ ے ہ ے ہ ے

ہےپاس تو اتن دن ر کر آیا اور جس ن تجھ کو نچوڑ ڈاال ؟“ ے ہے ہ ے

ا اور اس ن کوئی جواب ن دیا انپتا ر ۔ایشر سنگھ پلنگ پر لیٹا ہ ے ہ ہ

وں، کون و چڈو —— کون ہےکلونت کور غص س ابلن لگی، “ میں پوچھتی ہ ہے ہ ے ے ےہو الفتی —— کون و چور پت ؟“ ہ ہے ہ

یں کلونت، کوئی بھی ج میں جواب دیا “ کوئی بھی ن وئ ل ہایشر سنگھ ن تھک ے ہ ے ہ ے ے“ یں ۔ن ہ

ا “ ایشر اتھ رکھ کر ایک عزم ک ساتھ ک وں پر ئ کول ہکلونت کور ن اپن بھر ے ہ ہ ے ہ ے ے ےگور جی کی قسم —— کیا وں گی —— وا ہسیاں، میں آج جھوٹ سچ جان ک ر ہ ے

یں؟“ ہاس کی ت میں کوئی عورت ن ہہ

ا، مگر کلونت کور ن اس کی اجازت ن دی، “ قسم نا چا ہایشر سنگھ ن کچھ ک ے ہ ہ ےوں —— تکا بوٹی ال سنگھ کی بیٹی ل سوچ ل ک میں بھی سردار ن ہکھان س پ ہ ہ ے ے ہ ے ےگورو کی قسم —— کیا اس ہکر دوں گی اگر تو ن جھوٹ بوال —— ل اب کھا وا ے ے

یں ؟“ ہکی ت میں کوئی عورت ن ہہ

و الیا کلونت کور بالکل دیوانی ہایشر سنگھ ن بڑ دکھ ک ساتھ اثبات میں سر ۔ ہ ے ے ےےگئی لپک کر کون میں س کرپان اٹھائی، میان کو کیل ک چھلک کی طرح اتار ے ے ے ے ۔

۔کر ایک طرف پھینکا اور ایشر سنگھ پر وار کر دیا

و ک فوار چھوٹ پڑ کلونت کور کی اس س بھی تسلی ن ہآن کی آن میں ل ے ے۔ ے ے ہےوئی تو اس ن وحشی بلیوں کی طرح ایشر سنگھ ک کیس نوچن شروع کر ے ے ہ

ی ایشر ی ساتھ و اپنی نامعلوم سوت کو موٹی موٹی گالیاں دیتی ر ۔دیئ ساتھ ہ ہ ہ ے۔ت بھری التجا کی “ جان د اب کلونت، جان ےسنگھ ن تھوڑی دیر ک بعد نقا ے ے ہ ے ے

“ ے۔د

ٹ گئی ۔آواز میں بال کا درد تھا، کلونت کور پیچھ ہ ے

ا تھا اس ن ےخون ایشر سنگھ ک گل س اڑ اڑ کر اس کی مونچھوں پر گر ر ۔ ہ ے ے ےونٹ کھول اور کلونت کور کی طرف شکری اور گل کی ملی جلی ےاپن لرزاں ے ے ہ ے

وں س دیکھا ۔نگا ے ہ

“ وا ٹھیک ت جلدی کی —— لیکن جو ہے۔“ میری جان، تم ن ب ہ ہ ے

“ اری ماں ۔کلونت کور کا حسد پھر بھڑکا، “ مگر و کون ؟ تم ہ ہے ہ

نچ گیا جب اس ن اس کا ذائق چکھا تو اس ک بدن و ایشر سنگھ کی زبان تک پ ےل ہ ے ۔ ہ ہ۔میں جھرجھری سی دوڑ گئی

وں اس ۔۔۔۔۔۔“ اور میں اس میں بھینی یا چھ آدمیوں کو قتل کر چکا ہ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔“ ے۔۔۔۔۔۔کرپان س

وں، کون ہےکلونت کور ک دماغ میں صرف دوسری عورت تھی “ میں پوچھتی ہ ۔ ےہو حرامزادی؟“

وئی اور لکی سی چمک ان میں پیدا ی تھیں ایک ہایشر سنگھ کی آنکھیں دھندال ر ہ ۔ ہ“ ا، “ گالی ن د اس بھڑوی کو ۔اس ن کلونت کور س ک ے ہ ہ ے ے

وں، و کون؟“ ہےکلونت چالئی، “ میں پوچھتی ہ ہ

“ ی ک کر اس ن اپنی گردن وں ےایشر سنگھ ک گل میں آواز رندھ گئی، “ بتاتا ہہ ہ ۔ ہ ے ےاتھ پھیرا اور اس پر اپنا جیتا خون دیکھ کر مسکرایا، “ انسان ماں یا بھی ایک ہپر

“ ہے۔عجیب چیز

“ ۔کلونت کور اس ک جواب کی منتظر تھی، “ ایشر سیاں تو مطلب کی بات کر ے

و بھری مونچھوں میں اور زیاد پھیل گئی ٹ اس کی ل ہایشر سنگھ کی مسکرا ہ ہوں گال چرا ماں یا میرا اب دھیر ا ی کی بات کر ر ے—— “ مطلب ۔۔۔۔۔۔ ہے ۔۔۔۔۔۔ ہ ہ ہ

“ ی ساری بات بتاؤں گا ۔دھیر ہ ے

ون لگ “ ے۔اور جب و بات بتان لگا تو اس ک ماتھ پر ٹھنڈ پسین ک لیپ ے ہ ے ے ے ے ے ے ہوا انسان یں بتا سکتا، میر ساتھ کیا یں ن ۔۔۔۔۔۔کلونت، میری جان میں تم ہ ے ہ ہ ۔۔۔۔۔۔ر میں لوٹ مچی تو سب کی طرح میں ن ےکڑی یا بھی ایک عجیب چیز ش ہ ہے۔۔۔۔۔۔

یں ن بتائی ۔بھی اس میں حص لیا لیکن ایک بات تم ہ ہ ہ

ن لگا کلونت کور ن اس کی ےایشر سنگھ ن گھاؤ میں درد محسوس کیا اور کرا ۔ ے ہ ےےطرف توج ن دی اور بڑی ب رحمی س پوچھا “ کون سی بات؟“ ے ہ ہ

ا وئ ک و کو پھونک ک ذریع س اڑات وئ ل ہایشر سنگھ ن مونچھوں پر جمت ے ہ ے ے ے ے ہ ے ہ ے ے۔۔۔۔۔۔“ جس مکان پر میں ن دھاوا بوال تھا اس میں سات اس میں سات ۔۔۔۔۔۔ ے ۔۔۔۔۔۔

ےآدمی تھ چھ میں ن قتل کر دیئ اسی کرپان س جس س تو ن ے ے ے۔۔۔۔۔۔ ے ے۔۔۔۔۔۔۔ت سندر اس کو اٹھا کر ۔۔۔۔۔۔مجھ چھوڑ اس سن ایک لڑکی تھی ب ہ ۔۔۔۔۔۔ ے۔۔۔۔۔۔ ے۔۔۔۔۔۔

“ ۔میں اپن ساتھ ل آیا ے ے

ی ایشر سنگھ ن ایک بار پھر پھونک مار ک ےکلونت کور خاموش سنتی ر ے ۔ ہوں کتنی سندر و اڑایا “ کلونت جانی میں تم س کیا ک ہمونچھوں پر س ل ے ۔ ہ ے

یں ایشر سیاں، کلونت کور ا، “ ن ہتھی میں اس بھی مار ڈالتا، پر میں ن ک ہ ے ے ۔۔۔۔۔۔“ ر روز مز لیتا ، ی میو بھی چکھ دیکھ ۔ک تو ہ ہ ہے ے ہ ے

وں “ ا “ ۔۔۔۔۔۔کلونت کور ن صرف اس قدر ک ہ ہ ے

اں ا تھا میں ہاس میں کندھ پر ڈال کر چل دیا راست میں کیا ک ر ۔۔۔۔۔۔ ہ ہہ ۔۔۔۔۔۔ ے ۔۔۔۔۔۔ ے ےر کی جھاڑیوں تل میں ن اس لٹا ر کی پٹری ک پاس، تھو ےراست میں ن ے ے ہ ے ہ ۔۔۔۔۔۔ ے

ت ایشر کی ت ک یں ی ک ل سوچا ک پھینٹوں، لیکن پھر خیال آیا ک ن ےدیا پ ہ ے ہ ہ ۔۔۔۔۔۔ ہ ہ ہ ے ہ ۔۔۔۔۔۔۔زبان سوکھ گئی

وا؟“ ہکلونت کور ن تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا اور پوچھا “ پھر کیا ۔ ے

۔۔۔۔۔۔ایشر سنگھ ک حلق س بمشکل ی الفاظ نکل ، “ میں ن پتا پھینکا ے۔۔۔۔۔۔ ے ہ ے ے۔۔۔۔۔۔لیکن لیکن “

۔اس کی آواز ڈوب گئی

وا؟“ ہکلونت کور ن اس جھنجھوڑا، “ پھر کیا ے ے

وئی آنکھیں کھولیں اور کلونت کور ک جسم کی وتی ےایشر سنگھ ن اپنی بند ہ ہ ےوئی تھی الش ی تھی “ و مری ۔۔۔۔۔۔طرف دیکھا جس کی بوٹی بوٹی تھرک ر ہ ہ ہ

اتھ د “ ے۔۔۔۔۔۔تھی بالکل ٹھنڈا گوشت جانی مجھ اپنا ہ ے ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔

اتھ پر رکھا جو برف س بھی زیاد ٹھنڈا اتھ ایشر سنگھ ک ہکلونت کور ن اپنا ے ہ ے ہ ے۔تھا

جاؤ، حنیف جاؤاوس کی ا تھا ٹی و ر ہچودھری غالم عباس کی تاز ترین تقریر پر تبادل خیاالت ۔ ہ ہ ہ ہم کشمیر اں کی چائ کی طرح گرم تھی سب اس بات پر متفق تھ ک ہفضا و ہ ے ۔ ے ہ

ی و جانا چا یں گ اور ی ک ڈوگر راج کا فی الفور خاتم ے۔ل کر ر ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ ے

د تھ لڑائی ک فن س نابلد تھ ، مگر میدان جنگ میں جان ےسب ک سب مجا ے ے ے ے۔ ہ ےل بول دیا جائ تو یوں ےک لی سربکف تھ اس کا خیال تھا ک اگر ایک دم ہ ہ ہ ے۔ ے ے

موں کی کوئی ضرورت ن ر و جائ گا پھر ڈاکٹر گرا ہےچٹکیوں میں کشمیر سر ہ ہ ۔ ے ہین گڑگڑانا پڑ گا ر چھٹ م ۔گی، ن یو این او میں ے ے ہ ے ہ ہ

رو کی طرح میں ر الل ن دوں میں میں بھی تھا مصیبت ی ک پنڈت جوا ہان مجا ہ ہ ہے ہ ۔ ہوں اس لی کشمیر میری زبردست کمزوری چنانچ میں ن ےتھی کشمیری ہ ہے۔ ے ۔ ہ

وا ک جب لڑائی شروع اں مالئی اور آخر میں ط ی اں میں دوں کی ہباقی مجا ہ ہ ے ۔ ہ ہ ہوں اور صف اول میں نظر آئیں م سب اس میں شامل ۔و تو ہ ہ ہ

ار کیا، مگر میں ن محسوس کیا ک و ہحنیف ن یوں تو کافی گرم جوشی کا اظ ہ ے ہ ےت سوچا مگر مجھ اس افسردگی کی کوئی وج معلوم ن ہافسرد سا میں ن ب ہ ے ہ ے ہے۔ ہ

۔و سکی ہ

اؤس ہچائ پی کر باقی سب چل گئ ، لیکن میں اور حنیف بیٹھ ر اب ٹی ہے۔ ے ے ے ےت دور ایک کون میں دو لڑک ناشت کر ر تھ م س ب ے۔قریب قریب خالی تھا ہے ہ ے ے ہ ے ہ ۔

ےحنیف کو میں ایک عرص س جانتا تھا مجھ س قریب قریب دس برس چھوٹا ۔ ے ےا تھا ک اردو کا ایم-ا کروں یا انگریزی کا ۔تھا بی-ا پاس کرن ک بعد سوچ ر ے ہ ہ ے ے ے ۔

ٹاؤ پڑھائی کو، سیاحی و جاتی ک ہکبھی کبھی اس ک دماغ پر ی سنک بھی سوار ہ ہ ہ ےی ے۔کرنی چا ہ

وئی ہمیں ن حنیف کو غور س دیکھا و ایش ٹر میں س ماچس کی جلی ے ے ہ ۔ ے ےوں، و ل ک چکا ا تھا جیسا ک میں پ ہتیلیاں اٹھا اٹھا کر ان ک ٹکڑ ٹکڑ کر ر ہ ہہ ے ہ ہ ۔ ہ ے ے ے

وئی تھی میں ی افسردگی چھائی ر پر و ۔افسرد تھا اس وقت بھی اس ک چ ہ ہ ے ہ ے ۔ ہا، ی چنانچ میں ن اس س ک ہن سوچا موقع اچھا ، اس س دریافت کرنا چا ے ے ہ ے۔ ہ ے ہے ے

و؟“ ہ“ تم خاموش کیوں

وا سر اٹھایا ماچس کی تیلی ک ٹکڑ کر ک ایک طرف ےحنیف ن اپنا جھکا ے ے ۔ ہ ے“ ی ۔پھینک اور جواب دیا، “ ایس ہ ے ے

ر چیز کی کوئی ن کوئی یں ی، تو ٹھیک جواب ن ہمیں ن سگریٹ سلگایا، “ ایس ہ ۔ ہ ہ ے ے“ و وئ واقع ک متعلق سوچ ر وتی —— تم غالبا کسی بیت ۔وج ضرور ہ ہے ے ے ے ہ ے ہے ہ ہ

“ اں الیا، “ ۔حنیف ن اثبات میں سر ہ ہ ے

“ ہے۔“ اور و واقع کشمیر کی سرزمین س تعلق رکھتا ے ہ ہ

ےحنیف چونکا، “ اپ ن کیس جانا؟“ ے

وں میں بھی —— ار بھئی کشمیر کی ومز ا، “ شرلک ےمیں ن مسکرا کر ک ہ ہ ہ ےوئ و —— کسی بیت ی تھیں —— جب تم ن مال لیا ک سوچ ر و ر ےباتیں جو ہ ے ہ ہے ہ ے ہ ہ

وئ نچ گیا ک اس بیٹ و تو میں فورا اس نتیج پر پ ےواقع ک متعلق سوچ ر ہ ے ہ ہ ے ہ ہے ے ےاں و سکتا —— کیا و یں ہواقع کا تعلق کشمیر ک سوا اور کسی سرزمین س ن ہ ہ ے ے ے

ارا؟“ ہکوئی رومان لڑا تھا تم

وا ضرور تھا رحال، کچھ ن کچھ یں —— جان کیا تھا ب ۔“ رومان —— معلوم ن ہ ہ ہ ۔ ے ہ“ ہے۔جس کی یاد اب تک باقی

ش تھی ک میں حنیف س اس کی داستان سنوں “ اگر کوئی امر مانع ۔میری خوا ے ہ ہو ک و کچھ ن کچھ کیا تھا؟“ و تو کیا تم مجھ بتا سکت ہن ہ ہ ہ ے ے ہ ہ

ا، “ منٹو صاحب، کوئی خاص ہحنیف ن مجھ س سگریٹ مانگ کر سلگایا اور ک ے ےیں گ اور مجھ ٹوکیں گ یں —— لیکن اگر آپ خاموشی س سنت ر ےدلچسپ ن ے ے ہ ے ے ہوا، آپ کو من و عن بتا دوں گا —— ل جو کچھ یں تو میں آج س تین برس پ ہن ے ہ ے ہ

“ یں —— پھر بھی میں کوشش کروں گا ۔میں افسان گو ن ہ ہ

یں توڑوں گا اصل میں و اب دل و ہمیں ن وعد کیا ک میں اس ک تسلسل کو ن ۔ ہ ے ہ ہ ےتا تھا رائیوں میں ڈوب کر اپنی داستان بیان کرنا چا ۔دماغ کی گ ہ ہ

ل نا شروع کیا، “ منٹو صاحب، آج س دو برس پ ےحنیف ن تھوڑ توقف ک بعد ک ہ ے ہ ے ے ےیں تھا گرمیوں کا موسم م و گمان میں بھی ن ۔کی بات جب ک بٹوار کسی ک و ہ ہ ے ہ ہ ہے

ر کنوار یں کیوں —— میرا خیال ک ہتھا میری طبیعت اداس تھی معلوم ن ہ ہ ہے ہ ۔ ۔ےنوجوان اس قسم ک موسم میں ضرور اداسی محسوس کرتا خیر، میں ن ہے۔ ے

ےایک روز کشمیر جان کا اراد کر لیا مختصر سا سامان لیا اور الریوں ک اڈ پر ے ۔ ہ ےنچی تو میرا اراد بدل گیا میں ن سوچا سری نچا ٹکٹ لیا الری جب کد پ ےجا پ ۔ ہ ہ ۔ ۔ ہ

وں —— اگل اسٹیشن بٹوت پر اتر ےنگر میں کیا دھرا ، بیسوں مرتب دیکھ چکا ہ ہ ہےیں اور صحت یں آت ہجاؤں گا سنا بڑا صحت افزا مقام تپ دق ک مریض ی ے ہ ے ہے۔ ہے ۔وٹل ر گیا وٹل میں ٹھ اں ایک یں چنانچ میں بٹوت اتر گیا اور و و کر جات ہیاب ۔ ہ ہ ہ ہ ۔ ہ ے ہ

رحال ٹھیک تھا مجھ بٹوت پسند آ گیا صبح ی واجبی سا تھا ب ۔بس ایس ے ۔ ہ ۔ ہ ے چڑھائی کی طرف سیر کو نکل جاتا، واپس آ کر خالص مکھن اور ڈبل روٹی کا

و جاتا ۔ناشت کرتا اور لیٹ کر کسی کتاب ک مطالع میں مصروف ہ ے ے ہ

ےدن اس صحت افزا فضا میں بڑی اچھی طرح گزر ر تھ آس پاس جتن ے۔ ہےنا سنگھ جو ہدوکاندار تھ سب میر دوست بن گئ تھ ، خاص طور پر سردار ل ے ے ے ےتا تھا عشق و محبت ۔درزیوں کا کام کرتا تھا میں اس کی دکان پر گھنٹوں بیٹھا ر ہ ۔تی تھی ہک افسان سنن اور سنان کا اس قریب قریب خبط تھا مشین چلتی ر ۔ ے ے ے ے ے

تا تھا تا تھا یا سناتا ر ۔اور و یا تو کوئی داستان عشق سنتا ر ہ ہ ہ

ا ، کس ر چیز کا علم تھا کون کس س عشق لڑا ر ہےاس کو بٹوت س متعلق ہ ے ۔ ہ ےی ایسی وئی کون کون س لونڈیا پر پرز نکال ر ہے۔کس کی آپس میں کھٹ پٹ ہ ے ے ۔ ہ

تی تھیں ۔تمام باتیں اس کی جیب میں ٹھنسی ر ہ

نچ ال ک در تک پ ہشام کو میں اور و اترائی کی طرف سیر کو جات تھ اور بان ے ے ہ ے ے ہل موڑ پر وٹل س اترائی کی طرف پ ست واپس چل آت تھ ست آ ےکر پھر آ ہ ے ہ ے۔ ے ے ہ ہ ہ ہوئ کوارٹر تھ میں ن ایک دن سردار جی اتھ مٹی ک بن ن ےسٹرک ک دا ے۔ ے ہ ے ے ہ ے ہ ے

یں؟ ی میں ن اس لی دریافت کیا تھا ک ائش ک لی ہس پوچھا ک ی کوارٹر کیا ر ے ے ہ ہ ے ے ہ ہ ہ ےیں ی ک لی ائش اں، ر ۔مجھ و پسند آ گئ تھ سردار جی ن مجھ بتایا ک ہ ے ے ہ ہ ہ ہ ے ے ے۔ ے ہ ے

یں ان کی دھرم پتنی وئ ر ۔آج کل اس میں سرگودھ ک ایک ریلو بابو ٹھ ہ ے ہ ے ہ ے ے ےوں و گی خدا معلوم میں دق س اتنا کیوں ڈرتا ۔بیمار میں سمجھ گیا ک دق ہ ے ۔ ہ ہ ہے۔

۔اس دن ک بعد جب کبھی میں ادھر س گزرا، ناک اور من پر رومال رکھ ک گزرا ے ہ ے ےتا یں کرنا چا ۔میں داستان کو طویل ن ہ ہ

و گئی ہقص مختصر ی ک ریلو بابو، جن کا نام کندن الل تھا، س میری دوستی ے ے ہ ہ ہیں و اس ہاور میں ن محسوس کیا ک اس اپنی بیمار بیوی کی کوئی پروا ن ۔ ہ ہ ے ہ ے

ت کم جاتا تھا ا و اس ک پاس ب ہفرض کو محض ایک فرض سمجھ کر ادا کر ر ے ہ ہے۔ ہتا تھا جس میں و دن میں تین مرتب فنائل چھڑکتا تھا ۔اور دوسر کوارٹر میں ر ہ ہ ہ ےن سمتری کرتی تھی دن رات ی لڑکی ہمریض کی دیکھ بھال اس کی چھوٹی ب ۔ ہ ہ

ن کی خدمت میں مصروف و گی، اپنی ب ہجس کی عمر بمشکل چود برس کی ہ ہتی تھی ۔ر ہ

لی مرتب مگو نال پر دیکھا میل کپڑوں کا بڑا انبار پاس ےمیں ن سمتری کو پ ۔ ے ہ ہ ےٹ ی تھی ک میں پاس س گزرا آ ہرکھ و نال ک پانی س غالبا شلوار دھو ر ۔ ے ہ ہ ے ے ے ہ ے

ا میں ن اس کا اتھ جوڑ کر نمست ک ےسن کر و چونکی مجھ دیکھ کر اس ن ۔ ہ ے ہ ے ے ۔ ہا، و؟ سمتری ن باریک آواز میں ک ہجواب دیا اور اس س پوچھا، تم مجھ جانتی ے ہ ے ے

یں میں ن ایسا محسوس کیا ک مظلومیت اں آپ بابو جی ک دوست ہےجی ہ ے ۔ ہ ے ۔ ہتا تھا ک اس س ےجو سکڑ کر سمتری کی شکل اختیار کر گئی میرا جی چا ہ ہ ہے۔

لی و جائ مگر پ لکا ہباتیں کروں اور کچھ کپڑ دھو ڈالوں تاک اس کچھ بوجھ ے۔ ہ ہ ہ ے۔مالقات میں ایسی ب تکلفی نامناسب تھی ے

ی تھی تو میں ن وئی و کپڑوں پر صابن لگا ر ےدوسری مالقات بھی اسی نال پر ہ ہ ۔ ہ ےی بیٹھ گیا ا اور چھوٹی چھوٹی بٹیوں ک بستر پر اس ک پاس ۔اس کو نمست ک ہ ے ے ہ ےو ٹ دور وئیں تو اس کی ی گھبرا ہو کسی قدر گھبرائی لیکن جب باتیں شروع ہ ہ ہ ہ

و گئی ک اس ن مجھ اپن گھر ک تمام معامالت بتان ےگئی اور و اتنی ب تکلف ے ے ے ے ہ ہ ے ہے۔شروع کر دیئ

و چل وئ پانچ برس ن کی شادی ےبابو جی یعنی کندن الل س اس کی بڑی ب ہ ے ہ ہ ےا، لیکن جب رشوت ک ل برس تو بابو جی کا سلوک اپنی بیوی س ٹھیک ر ےتھ پ ہ ے ے ہ ے۔

ا زیور وا تو اس ن اپنی بیوی کا زیور بیچنا چا ۔الزام میں و نوکری س معطل ہ ے ہ ے ہو جائیں گ بیوی ن مانی نتیج اس کا تا تھا ک دگن روپ ہبیچ کر و جوا کھیلنا چا ۔ ہ ے۔ ہ ے ے ہ ہ ہوا ک اس ن اس کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا سارا دن ایک تنگ و تاریک کوٹھری ۔ی ے ہ ہ ہ

ینوں ایسا کیا آخر ایک دن عاجز آ ۔میں رکھتا اور کھان کو کچھ ن دیتا اس ن م ہ ے ۔ ہ ےہکر اس کی بیوی ن اپن زیور اس ک حوال کر دیئ لیکن زیور ل کر و ایسا ے ے۔ ے ے ے ےین تک اس کی شکل نظر ن آئی اس دوران میں سمتری کی و ک چھ م ۔غائب ہ ے ہ ہ ہتی تو اپن میک جا سکتی تھی اس کا باپ ی و اگر چا ن فاق کشی کرتی ر ۔ب ے ے ہ ہ ۔ ہ ہ ہ

ت پیار کرتا تھا مگر اس ن مناسب ن سمجھا نتیج اس ہمالدار تھا اور اس س ب ۔ ہ ے ۔ ہ ےین ک بعد اچانک گھر آیا تو اس کی و گئی کندن الل چھ م وا ک اس کو دق ےکا ی ے ہ ۔ ہ ہ ہ ہ

و چکا تھا جب اس س ےبیوی بستر پر پڑی تھی کندن الل اب نوکری پر بحال ۔ ہ ۔ا تو و گول کر گیا اں ر ۔پوچھا گیا ک و اتنی دیر ک ہ ہ ہ ہ ہ

یں پوچھا اس کا پتی گھر ن ن اس س زیوروں ک بار میں ن ۔سمتری کی ب ہ ے ے ے ے ہت خوش تھی ک بھگوان ن اس کی سن لی اس کی صحت ۔واپس آ گیا تھا و ب ے ہ ہ ہ ۔

و گئی مگر “ ان ک آن س جو آ جاتی من پر رونق“ واال معامل تر ہکسی قدر ب ہ ہے ے ے ے ہ ہو گئی اس اثناء میں ین ک بعد اس کی حالت اور بھی زیاد خراب ۔تھا ایک م ہ ہ ے ے ہ ۔

نچ اور کندن الل کو مجبور کیا اں پ ےسمتری ک ماں باپ کو پت چل گیا و فورا و ہ ہ ہ ۔ ہ ےمارا ا، وں ن ک اڑ پر ل جائ خرچ وغیر کا ذم ان ہک و اپنی بیوی کو فورا کسی پ ہ ے ہ ہ ہ ے۔ ے ہ ہ ہی، سمتری کو دل بھالو ک لی ساتھ لیا اور ی س ا چلو سیر ے کندن الل ن ک ے ے ہ ہ ہ ے ہے۔

نچ گیا ۔بٹوت پ ہ

تا ر تاش کھیلتا ر یں کرتا تھا سارا دن با اں و اپنی بیوی کی قطعا دیکھ بھال ن ۔ی ہ ہ ۔ ہ ہ ہر وٹل س کھانا کھاتا یزی کھانا پکاتی تھی اس لی و صبح شام ہسمتری پر ۔ ے ہ ہ ے ۔ ہ

اں س رقم میں اضاف کر ا ، چنانچ و و ر ین سسرال لکھ دیتا ک خرچ زیاد ہم ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ ہ ے ہ۔دیا جاتا

ون لگی ر روز تا سمتری س میری مالقات اب یں کرنا چا ۔میں داستان لمبی ن ے ہ ہ ے ۔ ہ ہ

اں و کپڑ دھوتی تھی، بڑی ٹھنڈی تھی نال کا پانی بھی ٹھنڈا ےنال پر و جگ ج ۔ ے ہ ہ ہ ہ ےتا تھا ت پیاری تھی اور گول گول بٹیاں، جی چا ہتھا سیب کی درخت کی چھاؤں ب ہ ۔وں ی تھوڑی سی یں اٹھا اٹھا کر نال ک شفاف پانی میں پھینکتا ر ہک سارا دن ان ۔ ہ ے ے ہ ہو گئی تھی ہبھونڈی شاعری میں ن اس لی کی ک مجھ سمتری س محبت ے ے ہ ہے ے ےےاور مجھ ی بھی معلوم تھا ک اس اس قبول کر لیا چنانچ ایک دن جذبات س ہ ہے۔ ے ہ ہ ے

ونٹوں پر اپن و کر میں ن اس اپن سین ک ساتھ لگا لیا اس ک ےمغلوب ہ ے ۔ ے ے ے ے ے ہی تھیں ا ر چ ہونٹ رکھ دیئ اور آنکھیں بند کر لیں سیب ک درخت میں چڑیاں چ ہ ہ ے ۔ ے ہ

ا تھا وا ب ر ۔اور مگو نال کا پانی گنگناتا ہ ہہ ہ ے

ےو خوبصورت تھی گو دبلی تھی مگر اس طور پر ک غور کرن پر آدمی اس نتیج ے ہ ۔ ہوتی تو اتن نازک ی تھا اگر و ذرا موٹی ونا چا ی نچتا تھا ک اس دبلی ےپر پ ہ ہ ۔ ے ہ ہ ہ ے ہ ہ

وتی اس کی آنکھیں غزالی تھیں جن میں قدرتی سرم لگا ہطور پر خوبصورت ن ۔ ۔ ہ ہتا تھا ٹھمکا سا قد، گھن سیا بال جو اس کی کمر تک آت تھ چھوٹا سا کنوارا ے۔ر ے ہ ے ۔ ہ

و گیا ۔جوبن منٹو صاحب میں اس کی محبت میں سرتاپا غرق ہ ۔

ی تھی، میں ن و بات جو بڑ دنوں س ار کر ر ےایک دن جب و اپنی محبت کا اظ ے ہ ے ہ ہ ہی ک دیکھو سمتری، میں ی تھی، اس س ک ہمیر دل میں کانٹ کی طرح چبھ ر ہ ے ہ ے ےیں خراب یں ک تم و گا میں کوئی اوباش ن ندو، بتاؤ انجام کیا وں، تم ہمسلمان ہ ہ ۔ ہ ہ ہوں سمتری ن میر گل تا یں اپنا جیون ساتھی بنانا چا ےکر ک چلتا بنوں میں تم ے ے ۔ ہ ہ ہ ۔ ےو جاؤں گی ا، حنیف میں مسلمان ج میں ک یں ڈالیں اور بڑ مضبوط ل ۔میں بان ہ ہ ے ہ ے ہ

و گی، و میر ن اچھی ی اس کی ب وا ک جون ےمیر سین کا بوجھ اتر گیا ط ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے ۔ ے ےونا تھا کندن الل ن مجھ بتایا تھا ک اں اچھا ن کوک ہساتھ چل د گی اس کی ب ے ے ۔ ہ ہ ہ ۔ ے۔و اس کی موت کا منتظر ی بات ٹھیک بھی تھی گو اس طرح سوچنا اور اس ہ ہے۔ ہ

ی رحال حقیقت سامن تھی کم بخت مرض یں تھا، ب ہکا عالج کرنا کچھ مناسب ن ۔ ے ہ ہ۔ایسا تھا ک بچنا محال تھا ہ

یں تھی ن کی طبیعت دن بدن گرتی گئی کندن الل کو کوئی پروا ن ۔سمتری کی ب ہ ہ ۔ ہو گیا تھا یا خود کم ہچونک اب سسرال س روپ زیاد آن لگ تھ اور خرچ کم ے ے ے ہ ے ے ہےکر دیا گیا تھا، اس ن ڈاک بنگل جا کر شراب پینا شروع کر دی اور سمتری س ے ے

۔چھیڑ چھاڑ کرن لگا ے

یں ہمنٹو صاحب، جب میں ن ی سنا تو میری آنکھوں میں خون اتر آیا اتنی جرات ن ۔ ہ ےےتھی ورن میں بیچ سڑک ک اس کی مرمت جوتوں س کرتا میں ن سمتری کو ۔ ے ے ہےاپن سین س لگایا، اس ک آنسو پونچھ اور دوسری باتیں شروع کر دیں جو ے ے ے ے

۔پیار محبت کی تھیں

نچا تو میں ن ےایک دن میں صبح سویر سیر کو نکال جب ان کوارٹروں ک پاس پ ہ ے ۔ ےو چکی چنانچ میں ن درواز ن الل کو پیاری ےمحسوس کیا ک سمتری کی ب ے ہ ہے۔ ہ ہ ہ ہ

و کر کندن الل کو آواز دی میرا خیال درست تھا ب چاری ن رات ےک پاس کھڑ ے ۔ ۔ ہ ے ے۔گیار بج آخری سانس لیا تھا ے ہ

وں تاک و کریا کرم ک اں کھڑا ر ا ک میں تھوڑی دیر و ےکندن الل ن مجھ س ک ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے ے ےہلی بندوبست کر آئ و چال گیا تھوڑی دیر ک بعد مجھ سمتری کا خیال آیا و ۔ ے ے ۔ ہ ے۔ ے

ن کی الش تھی، بالکل خاموش تھا میں اں تھی جس کمر میں اس کی ب ۔ک ہ ے ۔ ہ۔ساتھ وال کوارٹر کی طرف بڑھا اندر جھانک کر دیکھا، سمتری چارپائی پر گٹھری ے

ا، سمتری، ال کر میں ن ک ہسی بنی لیٹی تھی میں اندر چال گیا اس کا کندھا ے ہ ۔ ۔ےسمتری اس ن کوئی جواب ن دیا میں ن دیکھا ک اس کی شلوار بڑ بڑ ے ہ ے ۔ ہ ے ۔

ی میں الیا مگر و خاموش ر وئی میں ن پھر اس کا کندھا ۔دھبوں س بھری ہ ہ ہ ے ہے۔ ہ ے۔ن بڑ پیار س پوچھا، کیا بات سمتری؟ سمتری ن رونا شروع کر دیا میں ے ہے ے ے ے

۔اس ک پاس بیٹھ گیا کیا بات سمتری سمتری سسکیوں بھری آواز میں بولی ۔ ہے ۔ ےو گیا، مگر ن کا انتقال اری ب ا کیوں افسوس ک تم ہجاؤ، حنیف جاؤ میں ن ک ہ ہ ہ ہے ۔ ہ ے ۔

یں نکلتی تھی، ا، اس کی آواز ن لکان ن کرو اس ن اٹک اٹک کر ک ہتم تو اپنی جان ہ ے ۔ ہ ہوں میں اس یں کر سکتی میں خود مر چکی ۔و مر گئی ، پر میں اس کا غم ن ہ ۔ ہ ہے ہیں تو میرا جیون ساتھی بننا ی سن کر و ہکا مطلب ن سمجھا تم کیوں مرو تم ہ ہے۔ ہ ۔ ۔ ہ

ی کل یں ر ۔دھاڑیں مار کر رون لگی جاؤ حنیف جاؤ میں اب کسی کام کی ن ہ ہ ۔ ۔ ےےرات، کل رات باجو جی ن میرا خاتم کر دیا میں چیخی، ادھر دوسر کوارٹر س ے ۔ ہ ےوتی و ائ ، کاش میں ن چیخی ہجیجی چیخی اور مر گئی و سمجھ گئی تھی ۔ ہ ہ ے ہ ۔ ہ ۔ہمجھ کیا بچا سکتی تھی جاؤ، حنیف جاؤ ی ک کر و اٹھی، دیوان وار میرا بازو ہ ہہ ہ ۔ ۔ ے

وئی اور درواز بند ر ل گئی پھر دوڑ کر کوارٹر میں داخل ہپکڑا اور گھسیٹتی با ہ ۔ ے ہےکر دیا تھوڑی دیر ک بعد و حرامزاد کندن الل آیا اس ک ساتھ چار پانچ آدمی ۔ ہ ہ ے ۔

نم واصل کر دیتا بس وتا تو میں پتھر مار مار کر اس ج ۔تھ خدا کی قسم اکیال ہ ے ہ ے۔ر وقت میر کانوں میں انی جس ک ی الفاظ انی سمتری کی ک ےی میری ک ہ ہ ے ہ ۔ ہ ہے ہ

یں جاؤ، حنیف جاؤ کس قدر دکھ ان تین لفظوں میں ت ۔گونجت ر ہے ۔ ۔ ہ ے ہ ے

ونا تھا و تو ہحنیف ک آنکھوں میں آنسو تیر ر تھ میں ن اس س پوچھا، “ جو ہ ے ے ے۔ ہے ےہو گیا تھا تم ن سمتری کو قبول کیوں ن کیا؟“ ے ۔ ہ

ا، “ ہحنیف ن آنکھیں جھکا لیں —— خود کو ایک موٹی گالی د کر اس ن ک ے ے ےوتا —— لعنت اس ہےکمزوری —— مرد عموما ایس معاملوں میں بڑا کمزور ہے ہ ے

پر ——“

مس ماالوا تو اس ہگان لکھن واال عظیم گوبند پوری جب ا بی سی پروڈکشنز میں مالزم ے ے ے

ٹ تھا اور ہن فورا اپن دوست میوزک ڈائریکٹر بھٹساو ک متعلق سوچا جو مر ہ ے ے ے ےلیتوں کو جانتا ہعظیم ک ساتھ کئی فلموں میں کام کر چکا تھا عظیم اس کی ا ۔ ے

ر کیا دکھا سکتا ، ب چار گمنامی ک ےتھا سٹنٹ فلموں میں آدمی اپن جو ہ ے ہے ہ ے ۔۔گوش میں پڑا تھا ے

ےعظیم ن چنانچ اپن سیٹھ س بات کی اور کچھ اس انداز میں کی ک اس ن ہ ے ے ہ ےزار روپوں میں کر لیا ۔بھٹساو کو بالیا اور اس ک ساتھ ایک فلم کا کنٹریکٹ تین ہ ے ے

ی اس پانچ سو روپ مل جو اس ن اپن قرض ےکنٹریکیٹ پر دستخط کرت ے ے ے ے ہ ےتا تھا ک اس وں کو ادا کر دیئ عظیم گوبندپوری کا و بڑا شکر گزار تھا چا ہخوا ہ ۔ ہ ے۔ ہےکی کوئی خدمت کر ، مگر اس ن سوچا آدمی ب حد شریف اور ب غرض ہے ے ے ے

ر ما اس پانچ سو روپ کنٹریکٹ ی کیونک ین س یں، آئند م ے—— کوئی بات ن ے ہ ہ ہ ۔ ہ ے ہ ہ ہا دونوں اپن اپن کام میں ےکی رو س ملن تھ اس ن عظیم س کچھ ن ک ے ۔ ہ ہ ے ے ے۔ ے ے

ے۔مشغول تھ

ےعظیم ن دس گان لکھ جن میں س سیٹھ ن چار پسند کی بھٹساو ن ے ے۔ ے ے ے ے ےےموسیقی ک لحاظ س صرف دو ان کی اس ن عظیم ک اشتراک س دھنیں ے ے ۔ ے ے

ت پسند کی گئیں ۔تیار کیں جو ب ہ

ال گانا کورس تھا اس ک لی کم از یں فلم کا پ وتی ر رسلیں ےپندر بیس روز ری ے ۔ ہ ۔ ہ ہ ہ ہا گیا مگر جب و انتظام ن ہکم دو گویا لڑکیاں درکار تھیں پروڈکشن منیجر س ک ہ ۔ ہ ے ۔

ہکر سکا تو بھٹساو ن مس ماال کو بالیا جس کی اچھی آواز تھی اس ک عالو و ہ ے ۔ ے ے ۔پانچ چھ اور لڑکیوں کو جانتی تھی جو سر میں گا لیتی تھیں مس ماال کھانڈیکر

ٹ تھی دوسروں ک مقابل میں اپور کی مر ر کول ےجیسا ک اس ک نام س ظا ے ۔ ہ ہ ہ ہے ہ ے ے ہہاس کا اردو تلفظ زیاد صاف تھا اس کو ی زبان بولن کا شوق تھا عمر کی زیاد ۔ ے ہ ۔ ہ، باتیں بھی اس ر خدوخال اپنی جگ پر پخت ر کا یں تھی لیکن اس ک چ ہبڑی ن ہ ہ ے ہ ے ۔ ہوتا اچھی خاصی عمر کی زندگی ک اتار چڑھاؤ س ےانداز میں کرتی ک معلوم ے ہے۔ ہ ہ

ت ر آن جان وال س ب تی اور ر کارکن کو بھائی جان ک ہباخبر اسٹودیو ک ے ے ے ے ہ ہ ہ ے ہے۔۔جلد گھل مل جاتی تھی

وئی اس ک ذم ی کام سپرد کیا ت خوش ہاس کو جب بھٹساو ن بالیا تو و ب ے ے ۔ ہ ہ ہ ے ےی یا کر د و دوسر روز ہگیا ک و فورا کورس ک لی دس گان والی لڑکیاں م ے ہ ے۔ ہ ے ے ے ہ ہ۔بار لڑکیاں ل آئی بھٹساو ن ان کا ٹسٹ لیا سات کام کی نکلیں باقی رخصت ۔ ے ے ۔ ے ہ

یں جگتاپ ساونڈ ی کافی ۔کر دی گئیں اس ن سوچا ک چلو ٹھیک ، سات ہ ہ ہے ہ ے ۔ا میں سب ٹھیک کر لوں گا ایسی ریکارڈنگ ۔ریکارڈسٹ س مشور کیا اس ن ک ہ ے ۔ ہ ے

یں ی و گا ک بیس لڑکیاں گا ر ۔کروں گا ک لوگوں کو ایسا معلوم ہ ہ ہ ہ ہ

ےجگتاب اپن فن کو سمجھتا تھا چنانچ اس ن ریکارڈنگ ک لئ ساونڈ پروف ے ے ہ ۔ ےےکمر ک بجائ سازندوں اور گان والیوں کو ایک ایس کمر میں بٹھایا جس کی ے ے ے ے ے

وا تھا ک آواز دب جائ یں چڑھا ے۔دیواریں سخت تھیں جن پر ایسا کوئی غالف ن ہ ہ ہ ۔وا سینکڑوں آدمی آئ ان میں بڑ ورت اسی کورس س ےفلم “ ب وفا “ کا م ے۔ ۔ ہ ے ہ ےےبڑ فلمی سیٹھ اور ڈسٹری بیوٹر تھ ا بی سی پروڈکشنز ک مالک ن بڑا ے ے ے۔ ے

وا تھا تمام کیا ۔ا ہ ہ

وئیں مس ماال کھانڈیکر ن بھٹساو ک ساتھ رسلیں ل گان کی دو چار ری ےپ ے ے ۔ ہ ہ ے ے ہ۔پورا تعاون کیا

ون دیں یں اور کوئی نقص پیدا ن ۔سات لڑکیوں کو فردا فردا آگا کیا ک خبردار ر ے ہ ہ ہ ہ ہرسل س مطمئن تھا لیکن اس ن مزید اطمینان کی خاطر ی ری لی ےبھٹساو پ ے ہ ہ ہ ے

ا ک و اپنا اطمینان کر ل رسلیں کرائیں اس ک بعد جگتاپ س ک ے۔چند اور ری ہ ہ ہ ے ے ۔ ہیڈفون لگا کر سنا تو اس ن لی مرتب ےاس ن جب ساؤنڈ ٹریک میں ی کورس پ ہ ہ ہ ہ ے

ر آواز اپن صحیح مقام پر ر ساز اور ت اونچا “ اوک “ ک دیا و ک ب ےخوش ہ ہ ۔ ہہ ے ہ ے ہ۔تھی

وئی تو اس مانوں ک لی مائکروفون کا انتظام کر دیا تھا ریکارڈنگ شروع ےم ہ ۔ ے ے ہےاون کر دیا گیا بھٹساو کی آواز بھونپو س نکلی “ سونگ نمبر ایک، ٹیک فرسٹ، ے ۔

و گیا “ اور کورس شروع ۔ریڈی ون ٹو ہ ۔

یں غلط ت اچھی کمپوزیشن تھی سات لڑکیوں میں س کسی ایک ن بھی ک ہب ے ے ۔ ہوتی اس س وئ سیٹھ، جو موسیقی کیا ت محظوظ مان ب ےسر ن لگایا م ہے ہ ے۔ ہ ہ ہ ۔ ہ

مان اس کورس کو تعریف وا اس لی ک سار م ت خوش ناآشنا تھا، ب ہبھی قطعا ے ہ ے ۔ ہ ہ۔کر ر تھ بھٹساو ن سازندوں اور گان والیوں کو شاباشیاں دیں خاص طور ے ے ے ے۔ ہے

م ہپر اس ن مس ماال کا شکری ادا کیا جس ن اس کو اتنی جلدی گان والیاں فرا ے ے ہ ےا تھا ک ا بی سی ےکر دیں اس ک بعد و جگتاپ ساؤنڈ ریکارڈسٹ ک گل مل ر ہ ۔ ہ ے ے ہ ے ۔

یں عظیم ۔پروڈکشنز ک مالک سیٹھ رنچھوڑ داس کا آدمی آیا ک و اس بال ر ہ ہے ے ہ ہ ے۔گوبندپوری کو بھی

اں محفل جمی تھی سیٹھ صاحب ۔دونوں بھاگ ، اسٹوڈیو ک اس سر پر گئ ج ہ ے ے ے ےل مانوں ک سامن ایک سو روپ کا سبز نوٹ انعام ک طور پر پ ےن سب م ہ ے ے ے ے ہ ے

ہبھٹساو کو دیا پھر دوسرا عظیم گوبندپوری کو و مختصر سا باغیچ جس میں ہ ۔ ۔ ےمان بیٹھ تھ ، تالیوں کی آواز س گونج اٹھا ۔م ے ے ے ہ

ا، “ مال وئی تو بھٹساو ن عظیم س ک ورت کی ی محفل برخواست ہجب م ے ے ے ہ ہ ہ“ ۔پانی ، چلو آؤٹ ڈور چلیں ہے

اں؟“ ہعظیم اس کا مطلب ن سمجھا، “ آؤٹ ڈور ک ہ

ےبھٹساو مسکرایا، “ ماز ملگ )میر لڑک ( موز شوک )موج شوق( کرن ے ے ے ے ے“ مار پاس —— چلو ار پاس ، سو ۔جائیں گ سو روپی تم ے ہ ہے ے ہ ہ ے۔

ےعظیم سمجھ گیا لیکن و اس ک موز شوک )موج شوق( س ڈرتا تھا، اس کی ے ہ ۔یں کی تھی مگر اس وقت ۔بیوی تھی، دو چھوٹ بچ بھی اس ن کبھی عیاشی ن ہ ے ۔ ے ے

“ وتا ا “ چلو ر —— دیکھیں گ کیا ہے۔و خوش تھا اس ن اپن دل س ک ہ ے ے ہ ے ے ے ۔ ہ

نچ ے۔بھٹساو ن فورا ٹیکسی منگوائی دونوں اس میں بیٹھ اور گرانٹ روڈ پ ہ ے ۔ ے ےیں، بھٹساو ؟“ و مسکرایا، “ اپنی موسی ک اں جا ر م ک ےعظیم ن پوچھا، “ ہ ے ہ ہے ہ ہ ے

“ ۔گھر

نچ تو مس ماال کھانڈیکر کا گھر تھا و ان ہاور جب و اپنی موسی ک گھر پ ۔ ے ہ ے ہوٹل س یں اندر اپن کمر میں ل گئی ےدونوں س بڑ تپاک ک ساتھ ملی ان ہ ۔ ے ے ے ہ ۔ ے ے ے

م موز شوک ا، “ ہچائ منگوا کر پالئی بھٹساو ن اس س چائ پین ک بعد ک ہ ے ے ے ے ے ے ۔ ے“ مارا کوئی بندوبست کرو ار پاس —— تم یں تم ۔ک لی نکل ہ ے ہ ۔ ہ ے ے ے

ٹی ہماال سمجھ گئی و بھٹساو کی احسان مند تھی اس لی اس ن فورا مر ے ے ۔ ے ہ ۔وں دراصل ر خدمت ک لی تیار ا جس کا ی مطلب تھا ک میں ۔زبان میں ک ہ ے ے ہ ہ ہ ہتا تھا اس لی ک اس ن اس کو مالزمت ےبھٹساو ، عظیم کو خوش کرنا چا ہ ے ۔ ہ ے

یا کر د ا ک و ایک لڑکی م ے۔دلوائی تھی چنانچ بھٹساو ن ماال س ک ہ ہ ہ ہ ے ے ے ہ ۔

و گئی سب ٹیکسی میں ۔مس ماال ن اپنا میک اپ جلدی جلدی ٹھیک کیا اور تیار ہ ےل مس ماال پل بیک سنگر شانتا کرنا کرن ک گھر گئی مگر و کسی اور ہبیٹھ پ ۔ ے ے ے ہ ے۔یں تھی ک اں گئی مگر و اس قابل ن ر جا چکی تھی پھر و انسویا ک ہک ساتھ با ہ ہ ہ ے ہ ۔ ہ ے

م پر جا سک ے۔ان ک ساتھ م ہ ے

وا ک اس دو جگ ناامیدی کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس ت افسوس ۔مس ماال کو ب ہ ے ہ ہ ہاں و جائ گا چنانچ ٹیکسی گول پیٹھا کی طرف لپکی و ہکو امید تھی ک معامل ۔ ہ ۔ ے ہ ہ ہ۔کرشنا تھی پندر سول برس کی گجراتی لڑکی بڑی نرم و نازک، سر میں گاتی ہ ہ ۔ر وئی اور چند لمحات ک بعد اس کو ساتھ لی با ہتھی ماال اس ک گھر داخل ے ے ہ ے ۔اتھ جوڑ ک نمسکار کیا اور عظیم کو تھی ماال ن ےنکل آئی بھٹساو کو اس ن ۔ ے ہ ے ے ۔ ےٹھیٹ داللوں ک انداز میں عظیم کو آنکھ ماری اور گویا خاموش زبان میں اس

“ ا، “ ی آپ ک لی ہے۔س ک ے ے ہ ہ ے

وں میں صاد کر دیا کرشنا عظیم گوبندپوری ک ی نگا وں ےبھٹساو ن اس پر نگا ۔ ہ ہ ہ ے ےےپاس بیٹھ گئی چونک اس کو ماال ن سب کچھ بتا دیا تھا، اس لی و اس س ہ ے ے ہ ۔

ا تھا بھٹساو کو لیں کرن لگی عظیم لڑکیوں کا سا حجاب محسوس کر ر ےچ ۔ ہ ۔ ے ہرائی ۔اس کی طبیعت کا علم تھا اس لی اس ن ٹیکسی ایک بار ک سامن ٹھ ہ ے ے ے ے ۔

۔صرف عظیم کو اپن ساتھ اندر ل گیا ے ے

ہنغم نگار ن صرف ایک دو مرتب پی تھی و بھی کاروباری سلسل میں ی بھی ۔ ے ہ ۔ ہ ے ہےکاروباری سلسل تھا چنانچ اس ن بھٹساو ک اصرار پر دو پیگ رم ک پیئ اور ے ے ے ے ہ ۔ ہو گیا بھٹساو ن ایک بوتل خرید کر اپن ساتھ رکھ لی اب و پھر ہاس کو نش ۔ ے ے ے ۔ ہ ہ

ے۔ٹیکسی میں تھ

یں تھا ک اس کا دوست بھٹساو دو گالس اور ےعظیم کو اس بات کا قطعا علم ن ہ ہہے۔سوڈ کی بوتلیں ساتھ ل آیا ے ے

وا ک بھٹساو پل بیک سنگر کرشنا کی ماں س ی ک ہہعظیم کو بعد میں معلوم ہ ے ے ے ہ ہےآیا تھا ک جو کورس دن میں لیا گیا تھا، اس ک جتن ٹیک تھ ، سب خراب نکل ے ے ے ہ

ر جان و گی اس کی ماں ویس کرشنا کو با ےیں اس لی رات کو پھر ریکارڈنگ ہ ے ۔ ہ ے ہا ک اس اور روپ ملیں گ تو ےکی اجازت کبھی ن دیتی مگر جب بھٹساو ن ک ے ے ہ ہ ے ے ہ

اں اں آؤ، و و کر سیدھی ی ا ک جلدی جاؤ اور فارغ ہاس ن اپنی بیٹی س ک ہ ہ ہ ہ ے ےنا ۔اسٹوڈیو میں ن بیٹھی ر ہ ہ

اں عیش پرست نچی یعنی ساحل سمندر ک پاس ی و جگ تھی ج ہٹیکسی ورلی پ ہ ہ ہ ۔ ے ہیں اڑی سی تھی، معلوم ن ہکسی ن کسی عورت کو بغل میں دبائ آیا کرت ایک پ ہ ے۔ ے ہ

ہمصنوعی یا قدرتی —— اس پر چڑھت —— کافی وسیع مرتفع قسم کی جگ ے۔تھی

وئی تھیں جن پر صرف ایک ایک جوڑا ہاس میں لمب فاصلوں پر بنچیں رکھی ےےبیٹھتا سب ک درمیان ان لکھا سمجھوت تھا ک و ایک دوسر ک معامل میں ے ے ہ ہ ہ ے ۔

اڑی پر تا تھا، ورلی کی پ وں بھٹساو ن جو عظیم کی دعوت کرنا چا ہمخل ن ہ ے ے ۔ ہ ہلتا ایک جانب چال گیا لتا ٹ ۔کرشنا کو اس ک سپرد کر دیا اور خود ماال ک ساتھ ٹ ہ ہ ے ے

و گا عظیم، جس ن غیر عورت ےعظیم اور بھٹساو میں ڈیڑھ سو گز کا فاصل ۔ ہ ہ ےزاروں میل کا فاصل محسوس کیا تھا، جب کرشنا کو اپن ساتھ لگ ےک درمیان ے ہ ہ ے

ٹی لڑکی تھی، سانولی و گیا کرشنا ٹھیٹ مر ہدیکھا تو اس کا ایمان متزلزل ۔ ہ ہسلونی، بڑی مضبوط، شدید طور پر جوان اور اس میں و تمام دعوتیں تھیں جو پر

یں عظیم چونک نش میں تھا اس لی و و سکتی ہکشش کھل کھیلن والی میں ے ے ہ ۔ ہ ہ ےوئی ک کرشنا کو تھوڑ ش پیدا ےاپنی بیوی کو بھول گیا اور اس ک دل میں خوا ہ ہ ہ ے

ے۔عرص ک لی بیوی بنا ل ے ے ے

ی تھیں کچھ رم ک باعث اور کچھ و ر ےاس ک دماغ میں مختلف شرارتیں پیدا ۔ ہ ہ ےتا تھا بڑا کم گو لیکن ت سنجید ر ۔کرشنا کی قربت کی وج س عام طور پر و ب ۔ ہ ہ ہ ہ ے۔ ہ

ےاس وقت اس ن کرشنا ک گدگدی کی اس کو کئی لطیف اپنی ٹوٹی پھوٹی ۔ ے ےےگجراتی میں سنائ پھر جان اس کیا خیال آیا ک زور س بھٹساو کو آواز دی ے ہ ے ے ے۔

“ ی ی پولیس آ ر ا، “ پولیس آ ر ہے۔اور ک ہ ہے۔ ہ ہ

نسن لگا و سمجھ ہبھٹساو ماال ک ساتھ آیا عظیم کو موٹی س گالی دی اور ۔ ے ہ ے ۔ ے ےوٹل ی کسی تر ی ہگیا تھا ک عظیم ن اس س مذاق کیا لیکن اس ن سوچا ب ہے ہ ہ ے ہے۔ ے ے ہو چاروں اٹھ ر تھ ک پیلی پگڑی واال نمودار اں پولیس کا خطر ن ہمیں چلیں ج ے ہے ۔ ہ ہ ہ ہ

اں کیا کر یان انداز میں پوچھا، “ تم لوگ رات ک گیار بج ی ہوا اس ن ٹھیٹ سپا ے ہ ے ہ ہ ے ۔ ہ“ یں ؟ کانون اں بیٹھنا ٹھیک ن یں دس بج ک پیچھو ی و؟ مالوم ن ہے۔ر ہے ہ ہ ے ے ہ ہ ہے

“ ا، “ جناب اپن فلم کا آدمی ہے۔عظیم ن سنتری س ک ہ ے ے

۔“ ی چھوکری؟“ اس ن کرشنا کی طرف دیکھا ے ہ

اں یں آئ ی اں ن م لوگ کسی بر خیال س ی ہ“ ی بھی فلم میں کام کرتی ے۔ ہ ہ ے ے ہ ہے۔ ہیں ک اں چل آت یں تو ی یں تھک جات ی اسٹوڈیو ، اس میں کام کرت ہپاس ہ ے ے ہ ہ ے ۔ ہ ے ہے ہ

“ ون والی ماری شوٹنگ پھر شروع و گی بار بج ہے۔تھوڑی سی تفریح ے ہ ہ ے ہ ۔ ہ

وا، “ تم ادھر کیوں و گیا پھر و بھٹساو س مخاطب ہپیلی پگڑی واال مطمئن ے ے ہ ۔ ہہےبیٹھا ؟“

اتھ میں لیا اور اتھ اپن ل گھبرایا لیکن سنمبھل کر اس ن ماال کا ہبھٹساو پ ے ہ ے ے ہ ے“ مار ٹیکسی نیچ کھڑی مارا وائف ا، “ ی ہے۔سنتری س ک ے ے ہ ہے۔ ہ ہ ہ ے

وں ن و گئی اس ک بعد ان وئی اور چاروں کی خالصی ےتھوڑی سی اور گفتگو ہ ے ۔ ہ ہوٹلوں ک وٹل میں چلیں عظیم کو ایس ےٹیکسی میں بیٹھ کر سوچا ک کسی ہ ے ۔ ہ ہ

اں آدمی چند گھنٹوں ک لی کسی غیر عورت ک یں تھا ج ےبار میں کوئی علم ن ے ے ہ ہ ےہساتھ خلوت اختیار کر سک بھٹساو ن بیکار اس س مشور کیا چنانچ اس کو ۔ ہ ے ے ے ے۔اں ا ک و وٹل“ یاد آیا اور اس ن ٹیکسی وال س ک ہفورا ڈیوک یارڈ کا “سی ویو ہ ہ ے ے ے ہوٹل میں بھٹساو ن دو کمر لی ایک میں عظیم اور کرشنا چل ےچلو سی ویو ے۔ ے ے ے ہ ۔۔گئ دوسر میں بھٹساو اور مس کھانڈیکر کرشنا بدستور مجسم دعوت تھی ۔ ے ے ے۔

۔لیکن عظیم جس ن دو پیگ اور پی لی تھ ، فلسفی رنگ اختیار کر چکا تھا اس ے ے ےہن کرشنا کو غور س دیکھا اور سوچا ک اتنی کم عمر لڑکی ن گنا کا ی بھیانک ہ ے ہ ے ے

ےرست کیوں اختیار کیا خون کی کمی ک باوجود اس میں جنس کی اتنی تپش ۔ ہیں کھاتی، کب تک اپنا گوشت ہکیوں ؟ کب تک ی نرم و نازک لڑکی جو گوشت ن ہ ہےےپوست بیچتی ر گی عظیم کو اس پر بڑا ترس آیا چنانچ اس ن واعظ بن کر ہ ۔ ۔ ہےو جاؤ خدا نا شروع کیا، “ کرشنا معصیت کی زندگی س کنار کش ۔اس س ک ہ ہ ے ہ ے

یب یں ایس م ٹا لو ی تم و، اپن قدم ہک لی اس راست س جس پر تم گامزن ے ہ ہ ۔ ہ ے ہ ے ے ے ےاں س تم نکل ن سکو گی عصمت فروشی انسان کا ۔غار میں ل جائ گا ج ہ ے ہ ے ےےبدترین فعل ی رات اپنی زندگی کی روشن رات سمجھو اس لی ک میں ن ہ ے ۔ ہ ہے۔“ کرشنا ن اس کا جو مطلب سمجھا و ی تھا ک یں نیک و بد سمجھا دیا ہتم ہ ہ ے ہے۔ ہ

ا چنانچ و اس ک ساتھ چمٹ گئی اور عظیم اپنا ۔عظیم اس س محبت کر ر ے ہ ہ ہے۔ ہ ے۔گنا و ثواب کا مسئل بھول گیا ہ ہ

ا تھا ل ر ر نکال تو بھٹساو برآمد میں ٹ وا کمر س با ۔بعد میں و بڑا نادم ہ ہ ے ے ہ ے ے ۔ ہ ہےکچھ اس انداز س جیس بھڑوں ک پور چھت ک ڈنک اس ک جسم میں کھب ے ے ے ے ے ے ے

یں عظیم کو دیکھ کر و رک گیا مطمئن کرشنا کی طرف نگا ڈالی اور پیچ ہوئ ۔ ہ ۔ ہ ے ہ“ ا، “ و سالی چلی گئی ۔و تاب کھا کر عظیم س ک ہ ہ ے

وا تھا، چونکا، “ کون؟“ ہعظیم جو اپنی ندامت میں ڈوبا

“ ی – ماال ۔“ و ہ

“ کیوں؟“

م اس کو اتنا وقت چومت ج میں عجیب و غریب احتجاج تھا، “ ےبھٹساو ک ل ہ ے ہ ے ےم ن کسی س شادی کر مارا بھائی ن لگی تم ےر جب بوال آؤ تو سالی ک ے ہ ہے۔ ہ ے ہ ہے۔

و گا ر نکل گئی ک و ساال گھر میں آ گیا “ اور با ۔لی ہ ہ ہ ۔ ہ ہے۔

بالؤز

ت ب قرار تھا اس کا وجود کچا پھوڑا سا بن گیا تھا کام ۔کچھ دنوں س مومن ب ۔ ے ہ ےو ہکرت وقت، باتیں کرت ے وۓے ہ، حتی ک سوچت ے ے بھی اس ایک عجیب قسم کا دردۓہ

تا تو ن کر سکتا وتا تھا ایسا درد جس کو اگر و بیان کرنا چا ۔محسوس ہ ہ ہ ۔ ہ

ےبعض اوقات بیٹھ بیٹھ و ایک دم چونک پڑتا دھندل دھندل خیاالت جو عام ے ۔ ہ ے ےیں مومن ک دماغ و کر مٹ جایا کرت ےحالتوں میں ب آواز بلبلوں کی طرح پیدا ہ ے ہ ےی ک ساتھ پھٹت اس ک دل و دماغ وت اور شور ےمیں بڑ شور ک ساتھ پیدا ے۔ ے ہ ے ہ ے ےر وقت جیس خار دار پاؤں والی چیونٹیاں سی رینگتی ےک نرم و نازک پردوں پر ہ ے

و گیا تھا جس ک تی تھیں ایک عجیب قسم کا کھنچاؤ اس ک اعضا میں پیدا ےر ہ ے ۔ ہوتی تھی اس تکلیف کی شدت جب بڑھ جاتی تو اس ک ت تکلیف ےباعث اس ب ۔ ہ ہ ے

اون میں ڈال د اور کسی س ک ک ہجی میں آتا ک اپن آپ کو ایک بڑ س ہے ے ے ہ ے ے ے ہ۔مجھ کوٹنا شروع کر دیں ے

ا ٹکراتا اور ہباورچی خان میں گرم مصالح جات کوٹت وقت جب لو س لو ے ہے ے ہ ےہدھمکوں س چھت میں ایک گونج سی دوڑ جاتی تو مومن ک ننگ پیروں کو ی ے ے ے

وئی پنڈلیوں وتی پیروں ک ذریع ی لرزش اس کی تنی ت بھلی معلوم ہلرزش ب ہ ے ے ۔ ہ ہو وا میں رکھ نچ جاتی جو تیز وئی اس ک دل تک پ ہاور رانوں میں دوڑتی ے ہ ہ ے ۓہ

۔دی کی لو کی طرح کانپنا شروع کر دیتا ے

و اس اپنی عمر ک واں بھی لگا ےمومن کی عمر پندر برس تھی شاید سول ے ۔ ہ ہ ۔ ہیں تھا و ایک صحت مند اور تندرست لڑکا تھا جس کا لڑکپن ہمتعلق صحیح انداز ن ۔ ہ ہا تھا اسی دوڑ ن جس س مومن ےتیزی س جوانی ک میدان کی طرف بھاگ ر ے ۔ ہ ے ے

ر قطر میں سنسنی پیدا کر دی و اس کا و ک ہبالکل غافل تھا اس ک ل ۔ ے ہ ے ہ ےتا ۔مطلب سمجھن کی کوشش کرتا مگر ناکام ر ہ ے

و ل پتلی تھی اب موٹی ی تھیں گردن جو پ و ر ہاس ک جسم میں کئی تبدیلیاں ے ہ ۔ ہ ہ ےا تھا و گئی تھی کنٹھ نکل ر وں ک پٹھوں میں اینٹھن سی پیدا ۔گئی تھی بان ہ ۔ ہ ے ہ ۔

و گئی تھی اور اب کچھ دنوں س پستانوں میں ےسین پر گوشت کی موٹی ت ہ ہہ ےےگولیاں سی پڑ گئی تھیں، جگ ابھر آئی تھی جیس کسی ن ایک بنٹا اندر داخل کر ے ہ

و تا تھا کبھی ت درد محسوس اتھ لگان س مومن کو ب ۔دیا ان ابھاروں کو ہ ہ ے ے ہ ہے۔اتھ ان گولیوں س چھو ےکبھی کام کرن ک دورا ن میں غیر ارادی طور پر جب کا ہ ے ےہجاتا تو و تڑپ اٹھتا قمیض ک موٹ اور کھردر کپڑ س بھی اس کی تکلیف د ے ے ے ے ے ۔ ہ

وتی تھی ٹ محسوس ۔سرسرا ہ ہ

وتا مومن ات وقت یا باورچی خان میں جب کوئی اور موجود ن ۔غسل خان میں ن ہ ہ ہ ے ہ ےاتھوں س مسلتا ۔اپن قمیض ک بٹن کھول کر ان گولیوں کو غور س دیکھتا ے ہ ۔ ے ے ے

و وتا، ٹیسیں اٹھتیں جیس جسم پھلوں س لد ہدرد ے ے ے الۓہ ہ پیڑ کی طرح زور س ےو کانپ کانپ جاتا مگر اس ک باوجود و اس درد پیدا کرن وال کھیل ےدیا گیا ے ہ ے ۔ ہتا کبھی کبھی زیاد دبان پر ی گولیاں پچک جاتیں اور ان ک من ہمیں مشغول ر ے ہ ے ہ ۔ ہر کان کی لوؤں تک ہس ایک لیس دار لعاب نکل آتا اس کو دیکھ کر اس کا چ ہ ۔ ے

و گیا گنا اور ثواب ک و جاتا و ی سمجھتا ک اس س کوئی گنا سر زد ےسرخ ہ ہے۔ ہ ہ ے ہ ہ ہ ۔ ہر و فعل جو ایک انسان دوسر انسان ک ت محدود تھا ےمتعلق مومن کا علم ب ے ہ ہ ۔ ہ

و، اس ک خیال ک مطابق گنا تھا چنانچ جب شرم ک مار ےسامن ن کر سکتا ے ہ ۔ ہ ے ے ہ ہ ےو جاتا تو و جھٹ س اپنی قمیض ک بٹن بند ر کان کی لوؤں تک سرخ ےاس کا چ ے ہ ہ ہ ہیں کر گا لیکن د کرتا ک آئند ایسی فضول حرکت کبھی ن ےکر لیتا اور دل میں ع ہ ہ ہ ہ

د ک باوجود دوسر یا تیسر روز تخلی میں و پھر اسی کھیل میں ہاس ع ے ے ے ے ہو جاتا ۔مشغول ہ

ی حال تھا و کچھ دنوں س موڑ مڑتا زندگی ک ایک ایس ےمومن کا بھی بالکل ی ے ے ہ ۔ ہیں تھا مگر ب حد پرخطر تھا اس راست پر ےراست پر آ نکال تھا جو زیاد لمبا تو ن ۔ ے ہ ہ ےیں تھا ک ول و در اصل جانتا ن ول ہاس ک قدم کبھی تیز تیز اٹھت تھ ، کبھی ہ ہ ے۔ ہ ے ہ ے ے ے

ہایس راستوں پر کس طرح چلنا چا یں جلدی ط کرنا چاۓے ہ ان ے ہ ے یا کچھ وقت لۓ۔ارا ل کر ط کرنا چا ست ادھر ادھر کی چیزوں کا س ست آ ہکر آ ے ے ہ ہ ہ ہ ے مومن ک ننگۓہ ے ۔

ی تھیں و اپنا ہپاؤں ک نیچ آن وال شباب کی گول گول چکنی بنٹیاں پھسل ر ۔ ہ ے ے ے ےیں رکھ سکتا تھا اس ل ۔توازن برقرار ن ے ب حد مضطرب تھا اسی اضطراب کۓہ ۔ ے

ہباعث کئی بار کام کرت کرت چونک کر و غیر ارادی طور پر کسی کھونٹی کو ے ےاتھوں س پکڑ لیتا اور اس ک ساتھ لٹک جاتا پھر اس ک د ل میں ےدونوں ۔ ے ے ہ

ین تار وتی ک ٹانگوں س پکڑ کر اس کوئی اتنا کھینچ ک و ایک م ش پیدا ہخوا ہ ہ ے ے ے ہ ہ ہوتی تھیں کۓبن جا ہ ی سب باتیں اس ک دماغ ک کسی ایس گوش میں پیدا ہ ے ے ے ے ہ ۔

یں سمجھ سکتا تھا ۔و ٹھیک طور پر ان کا مطلب ن ہ ہ

ر کام وقت پر کر ہمومن س سب گھر وال خوش تھ بڑا محنتی لڑکا تھا جب ۔ ے۔ ے ےاں اس کام کرت ےدیتا تو کسی کو شکایت کا موقع کیس ملتا ڈپٹی صاحب ک ی ے ہ ے ۔ ے

وۓہو ین ہ صرف تین م ے ر فردۓہ ہ تھ لیکن اس قلیل عرص میں اس ن گھر ک ے ے ے ےوا تھا ین پر نوکر ہکو اپنی محنت کش طبعیت س متاثر کر لیا تھا چھ روپ م ے ہ ے ۔ ے

ی اس کی تنخوا میں دو روپ بڑھا د ین ےمگر دوسر م ہ ہ ے ہ ہ تھ و اس گھرۓ گۓے ے۔ت خوش تھا اس ل اں قدر کی جاتی تھی مگر اب کچھ دنوںۓہمیں ب ہ ک اس کی ی ہ

و گئی ہس و ب قرار تھا ایک عجیب قسم کی آوارگی اس ک دماغ میں پیدا ے ۔ ے ہ ےتا تھا ک و سارا دن ب مطلب بازاروں میں گھومتا پھر یا ےتھی اس کا جی چا ے ہ ہ ہ ۔

ہے۔کسی سنسان مقام پر جا کر لیٹا ر

و وت یں لگتا تھا لیکن اس ب دلی ک ہاب کام میں اس کا جی ن ے ہ ے ے لیۓہ ہ بھی و کا ہی وج ک گھر میں کوئی بھی اس ک اندرونی انتشار س یں برتتا تھا چنانچ ی ےن ے ہ ہے ہ ہ ہ ۔ ہ

یں تھا رضی تھی سو و دن بھر باج بجان ، نئی نئی فلمی طرزیں سیکھن ےواقف ن ے ہ ہ ہ ۔ ہی ن تی تھی اس ن کبھی مومن کی نگرانی ہاور رسال پڑھن میں مصروف ر ہ ے ۔ ہ ے ےےکی تھی شکیل البت مومن س ادھر ادھر ک کام لیتی تھی اور کبھی کبھی اس ے ے ہ ہ ۔

ےڈانٹتی بھی تھی مگر اب کچھ دنوں س و بھی چند بالؤزوں ک نمون اتارن میں ے ے ہ ےیلی ک تھ جس نئی نئی تراشوں ےب طرح مشغول تھی ی بالؤز اس کی ایک س ے ے ہ ہ ۔ ےنن کا ب حد شوق تھا شکیل اس س آٹھ بالؤز مانگ کر الئی تھی اور ےک کپڑ پ ہ ۔ ے ے ہ ے ے

ی تھی چنانچ اس ن بھی کچھ دنوں س مومن ےکاغذوں پر ان ک نمون اتار ر ے ہ ہ ے ےیں دیا تھا ۔کی طرف دھیان ن ہ

یں تھی گھر میں دو نوکر تھ یعنی ےڈپٹی صاحب کی بیوی سخت گیر عورت ن ۔ ہ۔مومن ک عالو ایک بڑھیا بھی تھی جو زیاد تر باورچی خان کا کام کرتی تھی ے ہ ہ ےاتھ بٹا دیا کرتا تھا ڈپٹی صاحب کی بیوی ن ممکن ہےمومن کبھی کبھی اس کا ے ۔ ہ

و مگر اس ن مومن س اس کا ذکر ےمومن کی مستعدی میں کوئی کمی دیکھی ے ہا تھا، اس یں کیا تھا اور و انقالب جس میں مومن کا دل و دماغ اور جسم گزر ر ہن ہ ہ

یں تھا ہس تو ڈپٹی صاحب کی بیوی بالکل غافل تھی چونک اس کا کوئی لڑکا ن ہ ۔ ےیں سمجھ سکی اور پھرۓاس ل نی اور جسمانی تبدیلیوں کو ن ہ و مومن کی ذ ہ ہ

ےمومن نوکر تھا…. نوکروں ک متعلق کون غور و فکر کرتا بچپن س ل کر ے ہے۔ ےیں اور آس پاس ک آدمیوں کو خبر ےبڑھاپ تک و تمام منزلیں پیدل ط کر جات ہ ے ے ہ ے

وتی یں ۔تک ن ہ ہ

و میز پر و؟ …. بس کچھ و…. کیا تا تھا ک کچھ ۔غیر شعوری طور پر و چا ہ ہ ہ ہ ہ ہوا ڈھکا وئی پلیٹیں ایک دم اچھلنا شروع کریں کیتلی پر رکھا ہقرین س چنی ۔ ہ ے ے

ی ابال س اوپر کو اڑ جا ےپانی ایک ریۓہ ہ نل کی جستی نال پر دباؤ ڈال تو و دو ہ ے ۔ے اور اس میں س پانی کا ایک فوار سا پھوٹ نکل اس ایک ایسیۓہو جا ے۔ ہ ے

و جائیں اور اسۓزبردست انگڑائی آ ہ ک اس ک سار جوڑ جوڑ علیحد علیحد ہ ہ ے ے ہو جا ۔ۓہمیں ایک ڈھیال پن پیدا

و ل کبھی ن دیکھی و جو اس ن پ ۔ کوئی ایسی بات وقوع پذیر ہ ہ ے ہ ے ہ

ت ب قرار تھا رضی نئی طرز سیکھن میں مشغول تھی اور شکیل ہمومن ب ے ہ ۔ ے ہی تھی جب اس ن ی کام ختم کر لیا تو وۓےکاغذوں پر بالؤزوں ک ن ہ نمون اتار ر ہ ے ۔ ہ ے

ےنمون جو ان سب میں اچھا تھا، سامن رکھ کر اپن ل ے اودی ساٹن کا بالؤز بناناۓہہشروع کر دیا اب رضی کو بھی اپنا باج اور فلمی گانوں کی کاپی چھوڑ کر اس ہ ۔

ونا پڑا ۔طرف متوج ہ ہ

تمام اور چاؤ س کرتی تھی جب سین پرون بیٹھتی تو اس ر کام بڑ ا ےشکیل ے ۔ ے ہ ے ہ ہن رضی کی طرح و افرا وتی تھی اپنی چھوٹی ب ہکی نشست بڑی پر اطمینان ہ ہ ۔ ہ

یں کرتی تھی ایک ایک ٹانکا سوچ سمجھ کر بڑ اطمینان س لگاتی ےتفری پسند ن ے ۔ ہت صحیح تھی اس ل ۔تھی تاک غلطی کا امکان ن ر پیمائش بھی اس کی ب ہ ہے۔ ہ ہ کۓہ

وتا مگر چیز بالکل ل کاغذ کاٹ کر پھر کپڑا کاٹتی تھی یوں وقت زیاد صرف ہےپ ہ ہ ے ہوتی تھی ۔فٹ تیار ہ

ت گدگد تھ گوشت اتھ ب ے۔ شکیل بھر بھر جسم کی صحت مند لڑکی تھی، ے ہ ہ ے ے ہر جوڑ پر ایک ننھا گڑھا تھا جب مشین چالتی ہبھری مخروطی انگلیوں ک آخر میں ے

و جات تھ اتھ کی حرکت س کبھی کبھی غائب ے۔تھی تو ی ننھ گڑھ ے ہ ے ہ ے ے ہ

ست اس کی دو یا تین ست آ ہشکیل مشین بھی بڑ اطمینان س چالتی تھی آ ہ ہ ہ ۔ ے ے ہلکا سا تھی گھماتی تھیں کالئی میں ایک ہانگلیاں بڑی صفائی ک ساتھ مشین کی ۔ ہ ےو جاتا تھا گردن ذرا ایک طرف کو جھک جاتی تھی اور بالوں کی ایک لٹ ۔خم پیدا ہ

ےجس شاید اپن ل یں ملتی تھی نیچ پھسل آتی تھی شکیلۓے ہ کوئی مستقل جگ ن ۔ ے ہ ہیں ی ن ٹان یا جمان کی کوشش تی ک اس مک ر ہاپن کام میں اس قدر من ہ ے ے ہ ے ہ ہ ہ ے

۔کرتی تھی

ےجب شکیل اودی ساٹن سامن پھیال کر اپن ماپ کا بالؤز تراشن لگی تو اس ٹیپ ے ے ے ہوئی کیونک ان کا ٹیپ گھس گھسا کر اب بالکل ٹکڑ ےکی ضرورت محسوس ہ ۔ ہ

و گیا تھا لو کا گز موجود تھا مگر اس س کمر اور سین کی پیمائش ےٹکڑ ے ہے ۔ ہ ےل س و سکتی اس ک اپن کئی بالؤز موجود تھ مگر اب چونک و پ ےکیس ے ہ ہ ہ ے ے ے ہے۔ ہ ے

و گئی تھی اس ل تی تھیۓہکچھ موٹی ۔ ساری پیمائش دوبار کرنا چا ہ ہ

ا ”جاؤ مومن دوڑ ہقمیض اتار کر اس ن مومن کو آواز دی جب و آیا تو اس س ک ے ہ ۔ ےنا شکیل بی بی مانگتی “ ۔کر چھ نمبر س کپڑ کا گز ل آؤ ک ہے ہ ہ ۔ ے ے ے

یں شکیل کی سفید بنیان س ٹکرائیں و کئی بار شکیل بی بی کو ہمومن کی نگا ہ ۔ ے ہ ہ ےایسی بنیانوں میں دیکھ چکا تھا مگر آج اس ایک عجیب قسم کی جھجک

ٹ میں وں کا رخ دوسری طرف پھیر لیا اور گھبرا وئی اس ن اپنی نگا ہمحسوس ہ ے ۔ ہ“ ا ”کیسا گز بی بی جی ۔ک ۔ ہ

ار سامن پڑا ی لو کا ہے۔شکیل ن جواب دیا” کپڑ کا گز…. ایک گز تو ی تم ہے ہ ہے۔ ے ے ہ ہ ے ے ہوتا کپڑ کا جاؤ چھ نمبر میں جاؤ اور دوڑ ک ان س ی گز ہایک دوسرا گز بھی ے ے ۔ ے ہے ہ

“ نا شکیل بی بی مانگتی ہے۔ل آؤ ک ہ ہ ۔ ے

ی کپڑ کا گز ل کر آگیا شکیل ن ےچھ نمبر کا فلیٹ بالکل قریب تھا مومن فورا ہ ۔ ے ے ہ ۔“ پھر و ر جا اس ابھی واپس ل جانا اں ٹھ ا ”ی اتھ س ل لیا اور ک ہاس ک ۔ ے ے ۔ ہ ہ ہ ے ے ہ ے

وئی ان لوگوں کی کوئی چیز اپن پاس رکھ لی جا ن رضی س مخاطب ےاپنی ب ۔ ہ ے ہ ۓہاں س میرا ےتو و بڑھیا تقاض کر ک پریشان کر دیتی …. ادھر آؤ ی گز لو اور ی ہ ہ ہے ے ے ہ

۔ماپ لو

ےرضی ن شکیل کی کمر اور سین کا ماپ لینا شروع کیا تو ان ک درمیان کئی ے ہ ے ہلیز پر کھڑا تکلیف د خاموشی س ی باتیں سنتا وئیں مومن درواز کی د ہباتیں ے ہ ہ ے ۔ ہ

ا ۔ر ہ

وا جب تم ی یں لیتیں…. پچھلی دفع بھی ی ۔”رضی تم گز کو کھینچ کر ماپ کیوں ن ہ ہ ہ ہ ہو گیا…. اوپر ک حص پر اگر کپڑا فٹ ن ہن ماپ لیا اور میر بالؤز کا ستیا ناس ہ ے ہ ے ے

“ۓآ یں ۔ تو ادھر ادھر بغلوں میں جھول پڑ جات ہ ے

اں کا ماپ و ی اں کا ن لوں تم تو عجب مخمص میں ڈال دیتی اں کا لوں، ک ہ” ک ۔ ہ ے ۔ ہ ہ ہو گیا تو کون ا ذرا اور نیچ کا لو…. ذرا چھوٹا بڑا ہلینا شروع کیا تھا تو تم ن ک ے ہ ے

“ۓسی آفت آ جا ۔ گی

وتی ثریا کو دیکھو ی میں ساری خوبصورتی ون …. چیز ک فٹ ہے۔”بھئی وا ہ ہ ے ہ ے ہیں شکن پڑ ، کتن خوبصورت معلوم نتی مجال جو ک ےکیس فٹ کپڑ پ ے ہ ہے ہے۔ ہ ے ے

یں ایس کپڑ …. لو اب تم ماپ لو….“ ۔وت ے ے ہ ے ہ

۔ی ک کر شکیل ن سانس ک ذریع اپنا سین پھالنا شروع کیا جب اچھی طرح ہ ے ے ے ہ ہہ ہ“ ا ” لو اب جلدی کرو ۔پھول گیا تو سانس روک کر اس ن گھٹی گھٹی آواز میں ک ہ ے

وا ک اس ک وا خارج کی تو مومن کو ایسا محسوس ےجب شکیل ن سین کی ہ ہ ہ ے ے ہےاندر ربڑ ک کئی غبار پھٹ گ ا ”گز الئی بی بی جی….ۓے یں اس ن گھبرا کر ک ے ہ ے ۔ ہ

“ ۔د آؤں ےر جا“ ۔ شکیل ن اس جھڑ ک دیا ”ذرا ٹھ ہ ۔ ے ے ہ

و ت ہ ی ک ے ہ ے کپڑ کا گز اس ک ننگ بازو س لپٹ گیا جب شکیل ن اس اتارنۓہ ے ے ہ ۔ ے ے ے ےےکی کوشش کی تو مومن کو اس کی سفید بغل میں کال کال بالوں کا ایک گچھا ےی بال اگ ر تھ مگر ی گچھا اس ےنظر آیا مومن کی اپنی بغلوں میں بھی ایس ہ ے ہے ہ ے ۔

وا ایک سنسنی سی اس ک سار بدن میں دوڑ گئی ایک عجیب ت بھال معلوم ۔ب ے ے ۔ ہ ہوئی ک ی کال کال بال اس کی مونچھیں بن ش اس ک دل میں پیدا ےو غریب خوا ے ہ ہ ہ ے ہری بال نکال کر اپنی مونچھیں بنایا کرتا ہجائیں بچپن میں و بھٹوں ک کال اور سن ے ے ہ ۔

وتی ٹ اس محسوس ونٹ پر جمات وقت جو سرسرا ہتھا ان کو اپن باالئی ے ہ ے ہ ے ۔ونٹ اور ناک میں ش ن اس ک باالئی ٹ اس خوا ہتھی اسی قسم کی سرسرا ے ے ہ ہ ۔

۔پیدا کر دی

ےشکیل کا بازو اب نیچ جھک گیا تھا اور بغل چھپ گئی تھی مگر مومن بھی کال ے ہی ا تھا اس ک تصور میں شکیل کا بازو دیر تک ویس ہبالوں کا و گچھا دیکھ ر ے ہ ے ۔ ہ ہ

ا اور بغل میں اس ک سیا بال جھانکت ر ہے۔اٹھا ر ے ہ ے ہ

ت نا ب ا ”جاؤ، واپس د آؤ ک ہتھوڑی دیر بعد شکیل ن مومن کو گز د دیا اور ک ہ ۔ ے ہ ے ے ہت شکری ادا کیا “ ۔ب ہے ہ ہ

ر صحن میں بیٹھ گیا اس ک دل و دماغ میں دھندل ےمومن گز واپس د کر با ے ۔ ہ ےا و ر تھ دیر تک ان کا مطلب سمجھن کی کوشش کرتا ر ہدھندل خیال پیدا ے ے۔ ہے ہ ے

ےجب کچھ سمجھ میں ن آیا تو اس ن غیر ارادی طور پر اپنا چھوٹا سا ٹرنک کھوال، ہےجس میں اس ن عید ک ل ے۔ کپڑ بنوا رکھ تھۓ نۓے ے ے

نچی تو اس ک دلۓجب ٹرنک کا ڈھکنا کھوال اور ن ے لٹھ کی بو اس کی ناک تک پ ہ ےا دھو کر ی ن وئی ک ن ش پیدا ہمیں خوا ہ ہ ہ ن کر و سیدھا شکیل بی بی کۓہ ے کپڑ پ ہ ہ ہ ے

ے اور اس سالم کر اس کی لٹھ کی شلوار کس طرح کھڑ کھڑ کرۓپاس جا ے ے۔ ےگی اور اس کی رومی ٹوپی….

وں ک سامن اس کا پھندنا آگیا اور ی مومن کی نگا ےرومی ٹوپی کا خیال آت ے ہ ہ ےو گیا جو اس ن شکیل ی ان کال کال بالوں ک گچھ میں تبدیل ہپھندنا فورا ے ہ ے ے ے ے ہ

ےکی بغل میں دیکھا تھا اس ن کپڑوں ک نیچ س اپنی نئی رومی ٹوپی نکالی ے ے ے ۔ی کیا تھا ک اندر س اتھ پھیرنا شروع ےاور اس ک نرم اور لچکیل پھندن پر ہ ہ ہ ے ے ے

۔شکیل بی بی کی آواز آئی ”مومن“ ہ

اں شکیل نمون ےمومن ن ٹوپی ٹرنک میں رکھی، ڈھکنا بند کیا اور اندر چال گیا ج ہ ہ ےےک مطابق اودی ساٹن ک کئی ٹکڑ کاٹ چکی تھی ان چمکیل اور پھسل پھسل ۔ ے ے ے

وئی “میں ن ےجان وال ٹکڑوں کو ایک جگ رکھ کر و مومن کی طرف متوج ۔ ہ ہ ہ ہ ے ےیں اتنی آوازیں دیں سو گ ۔تم ے تھ کیا؟“ۓہ

یں بی بی جی“ و گئی ”ن ۔ مومن کی زبان میں لکنت پیدا ہ ۔ ہے ”تو پھر کیا کر ر تھ ؟“ ہےیں“ ۔ ”کچھ…. کچھ بھی ن ہ

“ شکیل ی سوال ک و گ ہ ”کچھ تو ضرور کرت ہ ے۔ ہ ی تھی مگر اس کا دھیانۓے ہ جا ر۔اصل میں بالؤز کی طرف تھا جس اب اس کچا کرنا تھا ے ے

نسی ک ساتھ جواب دیا ٹرنک کھول کر اپن ن ے مومن ن کھسیانی ۔ ے ہ ے کپڑ دیکھۓےا تھا ۔ر ہ

نسی رضی ن بھی اس کا ساتھ دیا ۔ شکیل کھل کھال کر ے ہ ۔ ہ ہوئی اور اس نست دیکھ کر مومن کو ایک عجیب تسکین محسوس ہ شکیل کو ے ہ ہ

ش پیدا کی ک و کوئی ایسی مضحک خیز طور ہتسکین ن اس ک دل میں ی خوا ہ ہ ہ ہ ے ےنسن کا موقع مل چنانچ ہپر احمقان حرکت کر جس س شکیل کو اور زیاد ے ے ہ ہ ہ ے ے ہ

ا ”بڑی ٹ پیدا کر ک اس ن ک ج میں شرما ۔لڑکیوں کی طرح جھینپ کر اور ل ہ ے ے ہ ے ہ“ ۔بی بی جی س پیس ل کر میں ریشمی رومال بھی لوں گا ے ے ے

و نست ہ شکیل ن ے ہ ے ے اس س پوچھا ”کیا کرو گ اس رومال کو ؟“ۓہ ۔ ےے مومن ن جھینپ کر جوا ب دیا ”گل میں باندھ لو ں گا بی بی جی…. بڑا اچھا ۔ ے

“ و گا ۔معلوم ہیں نستی ر ۔ ی سن کر شکیل اور رضی دونوں دیر تک ہ ہ ہ ہ ہ

ہ ”گل میں باندھو گ تو یاد رکھنا اسی س پھانسی د دوں گی“ ی ک کر شکیل ہہ ہ ے ے ے ےا ”کم بخت ن مجھ س کام نسی دبان کی کوشش کی اور رضی س ک ےن اپنی ے ۔ ہ ے ہ ے ہ ے

ےی بھال دیا رضی میں ن اس کیوں بالیا تھا؟“ ے ہ ۔ ہے رضی ن جواب ن دیا اور نئی فلمی طرز گنگنانا شروع کر دی جو و دو روز س ہ ہ ے ہی یاد آگیا ک اس ن مومن کو ی تھی اس دوران میں شکیل کو خود ےسیکھ ر ہ ہ ہ ۔ ہ

۔کیوں بال یاتھاوں دوائیوں ک پاس جو ایک دکان یں ی بنیان اتار کر دیتی ے ”دیکھو مومن میں تم ۔ ہ ہ ہ

اں تم اس دن میر ساتھ گ اں ج ےنئی کھلی نا، و ہ ہ اں جاؤ اور پوچھ کۓہے ے تھ و ہ ے۔م چھ لیں گ اس ل نا ے۔آؤ ک ایسی چھ بنیانوں ک و کیا ل گا…. ک ہ ہ ے ہ ے کچھ رعایتۓہ

ےضرور کر …. سمجھ لیا نا؟“اں“ ۔ ”مومن ن جواب دیا ”جی ہ ۔ ے

“ ٹ جاؤ ۔ ”اب تم پر ہ ےو گیا چند لمحات ک بعد بنیان اس ک ر نکل کر درواز کی اوٹ میں ے مومن با ے ۔ ہ ے ہی م اس قسم کی نا ہقدموں ک پاس آگرا اور اندر س شکیل کی آواز آئی ”ک ہ ہ ۔ ہ ے ے

ونا چا یں ی چیز لیں گ فرق ن ہڈیزائن کی بالکل ی ہ ہ ے۔ ۔“ۓہا تھا و ر ت اچھا ک کر بنیان اٹھا لیا جو پسین ک باعث کچھ کچھ گیال ہ مومن ن ب ہ ے ے ہہ ہ ےو بدن کی بو بھی اس میں بسی ی اٹھا لیا ۔جیس کسی ن بھاپ پر رکھ کر فورا ہ ہ ے ے

ت بھلی معلوم ہوئی تھی میٹھی میٹھی گرمی بھی تھی ی تمام چیزیں اس کو ب ہ ۔ ۔ ہ۔وئیں ہ

وا اتھوں میں مسلتا ہ و اس بنیان کو جو بلی ک بچ کی طرح مالئم تھا، اپن ہ ے ے ے ہر چال گیا جب بھاؤ دریافت کر ک بازار س واپس آیا تو شکیل بالؤز کی سالئی ہبا ے ے ۔ ہ

ےشروع کر چکی تھی اس اودی، اودی ساٹن ک بالؤز کی جو مومن کی رومی ۔یں زیاد چمکیلی اور لچک دار تھی ۔ٹوپی ک پھندن س ک ہ ہ ے ے ے

ےی بالؤز شاید عید ک ل ا تھا کیونک عید اب بالکل قریب آ گئی تھیۓہ ۔ تیار کیا جا ر ہ ہےمومن کو ایک دن میں کئی بار بال گیا دھاگ الن ک ل ے ہ ے، استری نکالن ک لۓ۔ ،ۓے

ےسوئی ٹوٹ گئی تو نئی سوئی الن ک ل ے، شام ک قریب جب شکیل ن دوسرۓے ے ہ ےےروز پر باقی کام اٹھا دیا تو دھاگ ک ٹکڑ اور اودی ساٹن کی بیکار کترنیں اٹھان ے ے ے

۔ بھی اس بالیا گیاۓےک ل ے

ر پھینک دیں ہمومن ن اچھی طرح جگ صاف کر دی باقی سب چیزیں اٹھا کر با ۔ ہ ےہمگر ساٹن کی چمکیلی کترنیں اپنی جیب میں رکھ لیں…. بالکل ب مطلب کیونک ے

یں تھا ک و ان کا کیا کر گا؟ ےاس معلوم ن ہ ہ ہ ے

ےدوسر روز اس ن جیب س کترنیں نکالیں اور الگ بیٹھ کر ان ک دھاگ الگ ے ے ے ےا حتی ک دھاگ ک چھوٹۓےکرن شروع کر د ے دیر تک و اس کھیل میں مشغول ر ے ے ہ ہ ہ ۔

ا ا، مسلتا ر اتھ میں ل کر و دباتا ر ہچھوٹ ٹکڑوں کا ایک گچھا سا بن گیا اس کو ہ ہ ے ہ ۔ ےی بغل تھی جس میں اس ن کال کال بالوں ےلیکن اس ک تصور میں شکیل کی و ے ے ہ ہ ے

۔کا ایک چھوٹا سا گچھا دیکھا تھا

ر شکل اس ہاس دن بھی اس شکیل ن کئی بار بالیا…. اودی ساٹن ک بالؤز کی ے ے ہ ےی وں ک سامن آتی ر ۔۔کی نگا ہ ے ے ہ

ل جب اس کچا کیا گیا تھا تو اس پر سفید دھاگ ک بڑ بڑ ٹانک جا بجا ے پ ے ے ے ے ے ے ہو ہپھیل و گئیںۓے ہ تھ پھر اس پر استری پھیری گئی جس س سب شکنیں دور ے ے۔

نا ی میں شکیل ن اس پ و گئی اس ک بعد کچی حالت ۔اور چمک بھی دوباال ہ ے ے ہ ہ ے ۔ ہر ہرضی کو دکھایا دوسر کمر میں سنگھار میز ک پاس آئین میں خود اس کو ے ے ے ے ۔ ہاں تنگ یا کھال اں ج و گیا تو اس اتارا ج لو س اچھی دیکھا جب پورا اطمینان ہپ ہ ۔ ے ہ ۔ ے ہ

اں نشان لگا ن کر دیکھا جبۓہتھا و ہ اس کی ساری خامیاں دور کیں ایک بار پھر پ ۔ ۔و گیا تو پکی سالئی شروع کی ۔بالکل فٹ ہ

ا تھا، ادھر مومن ک دماغ میں عجیب و غریب ے ادھر ساٹن کا ی بالؤز سیا جا ر ہ ہےخیالوں ک ٹانک ادھڑ ر تھ …. جب اس کمر میں بالیا جاتا اور اس کی ے ے ہے ے ے

اتھ س چھو کر تا ک و یں چمکیلی ساٹن ک بالؤز پر پڑتیں تو اس کا جی چا ےنگا ہ ہ ہ ہ ے ہیں…. بلک اس کی مالئم اور روئیں دار سطح پر ی ن ہاس دیکھ صرف چھو کر ہ ہ ے ے

اتھ اتھ پھیرتا ر اپن کھردر ۔دیر تک ہ ے ے ہے۔ ہے اس ن ان ساٹن ک ٹکڑوں س اس کی مالئمت کا انداز کر لیا تھا دھاگ جو ۔ ہ ے ے ے

و گ ہاس ن ان ٹکڑوں س نکال تھ اور بھی زیاد مالئم ہ ے ے ے ے تھ جب اس ن ان کاۓے ے۔

وا ک ان میں ربڑی کی سی لچک بھی …. ہےگچھا بنایا تو دبات وقت اس معلوم ہ ہ ے ے ہو جب بھی اندر آ کر بالؤز کو دیکھتا تو کا خیال فورا ان بالوں کی طرف دوڑ جاتا

ہجو اس ن شکیل کی بغل میں دیکھ تھ کال کال بال مومن سوچتا تھا ک و ہ ۔ ے ے ے۔ ے ہ ےوں گ ؟ ی کی طرح مالئم ےبھی ساٹن ہ ہ

ا تھا ک شکیل و گیا…. مومن کمر ک فرش پر گیال کپڑا پھیر ر ہبالؤز باآلخر تیار ہ ہ ے ے ہےاندر آئی قمیض اتار کر اس ن پلنگ پر رکھی اس ک نیچ اسی قسم کا سفید ے ۔ ے ۔

ےبنیان تھا جس کا نمون ل کر مومن بھاؤ دریافت کرن گیا تھا…. اس ک اوپر ے ے ہک لگا نا سامن ک وا بالؤز پ اتھ کا سال ہشکیل ن اپن ے ے ۔ ہ ہ ہ ے ے ے اور آئین ک سامنۓہ ے ے

و گئی ۔کھڑی ہو ہ مومن ن فرش صاف کرت ے ۔ آئین کی طرف دیکھا بالؤز میں اب جان سی پڑۓے ہ

وتا تھا ساٹن کا رنگ سفید ہگئی تھی ایک دو جگ پر و اس قدر چمکتا تھا ک معلوم ہ ہ ہ ۔ڈی کی لمبی ہو گیا …. شکیل کی پیٹھ مومن کی طرف تھی جس پر ریڑھ کی ہ ہے ہرائی ک ساتھ نمایاں تھی مومن س ون ک باعث اپنی پوری گ ےجھری بالؤز فٹ ۔ ے ہ ے ے ہ“ ا ”بی بی جی، آپ ن درزیوں کو بھی مات کر دیا ا ن گیا چنانچ اس ن ک ہے۔ر ے ہ ے ہ ۔ ہ ہ

و ئی مگر و رضی کی را ہ شکیل اپنی تعریف سن کر خوش ہ ہ ے طلب کرن ک لۓہ ۓے۔ب قرار تھی اس ل ر دوڑ گئی…. مومن آئین کیۓے ے و صرف ”اچھا نا“ ک کر با ہ ہہ ہے ہ

ا ۔طرف دیکھتا ر گیا جس میں بالؤز کا سیا اور چمکیال عکس دیر تک موجود ر ہ ہ ہ

ےرات کو جب و پھر اس کمر میں صراحی رکھن ک ل ے ے ے آیا تو اس ن کھونٹی پرۓہیں تھا چنانچ ینگر میں اس بالؤز کو دیکھا کمر میں کوئی موجود ن ہلکڑی ک ۔ ہ ے ۔ ہ ے

اتھ پھیرا ایسا کرت ل اس ن غورس دیکھا پھر ڈرت ڈرت اس پر ےآگ بڑھ کر پ ۔ ہ ے ے ے ے ے ہ ےوائی لمسۓہو ول بالکل ول ہ یوں لگا ک کوئی اس ک جسم ک مالئم روؤں پر ے ہ ے ہ ے ے ہ

ا اتھ پھیر ر ہے۔کی طرح ہ ہے رات کو جب و سویا تو اس ن کئی اوٹ پٹانگ خواب دیکھ …. ڈپٹی صاحب ن ے ے ہ

ا جب اس ن ایک کوئل اٹھایا اور ہپتھر ک کوئلوں کا ایک بڑا ڈھیر اس کوٹن کو ک ے ہ ے ے ےتھوڑ کی ضرب لگائی تو و نرم نرم بالوں کا ایک گچھا بن گیا…. ی کالی ہاس پر ہ ے ہ

وا تھا…. پھر ی گول کال رنگ ک ین تار تھ جن کا گوال بنا ین م ےکھانڈ ک م ے ے ہ ہ ے ہ ہ ےو گ وا میں اڑن شروع ہغبار بن کر ے ہ ت اوپر جا کر ی پھٹن لگ …. پھرۓے ے…. ب ے ہ ہ

و گیا…. پھندن کی یں غائب ےآندھی آ گئی اور مومن کی رومی ٹوپی کا پھندنا ک ہ ہا…. ن وں میں گھومتا ر ہتالش میں نکال…. دیکھی اور ان دیکھی جگ ے لٹھ کی بوۓہ

وا…. ایک کالی ساٹن کی و گئی پھر ن جان کیا یں س آنا شروع یں ک ہبھی ی ے ہ ۔ ہ ے ہ ہاتھ وئی چیز پر اپنا اتھ پڑا …. کچھ دیر تک و کسی دھڑکتی ہبالؤز پر اس کا ہ ہ ہ

و ڑبڑا کر اٹھ بیٹھا تھوڑی دیر تک و کچھ سمجھ ن سکا کیا ا پھر دفعت ہپھیرتا ر ہ ہ ۔ ہ ہہ ۔ ہوا اس ۔گیا اس ک بعد اس خوف، تعجب اور ایک انوکھی ٹھیس کا احساس ہ ے ے ہے۔ل اس تکلیف د حرارت محسوس ہکی حالت اس وقت عجیب و غریب تھی…. پ ے ے ہر اس ک جسم میں رینگن لگی ۔وئی مگر چند لمحات ک بعد ایک ٹھنڈی سی ل ے ے ہ ے ۔ ہ

حج اکبرر بھر میں دھوم مچ گئی، آتش بازیوں کا رواج وئی تو ش ہامتیاز صغیر کی شادی ہا تھا مگر دول ک باپ ن اس پرانی عیاشی پر ب دریغ روپی صرف یں ر ہباقی ن ے ے ے ہے ہ ہےکیا، جب صغیر زیوروں س لد پھند سفید براق گھوڑ پر سوار تھا تو اس ک ے ے ے ے

ی تھیں، تابیاں اپن رنگ برنگ شعل بکھیر ر ہچاروں طرف انار چھوٹ ر تھ ، م ے ے ہ ے ہے۔پٹاخ چھوٹ ر تھ ، صغیر خوش تھا ے ہے ے

ے صغیر ن امتیاز کو ایک شادی کی تقریب میں دیکھا تھا، اس کی جھلک اس ےد و گیا، اور اس ن دل میں ع ہدکھائی دی تھی، مگر و اس پر سو جان س فریض ے ہ ہ ے ہیں بنائ گا، چا دنیا ادھر کی ہےکر لیا ک و اس ک عالو کسی کو اپنی رفیق حیات ن ے ہ ہ ہ ے ہ ہ

وئی، صغیر ن امتیاز ک راست ڈھونڈ لئ و جائ ، دنیا ادھر کی ادھر ن ےادھر ن ے ے ے ہ ہ ے ہ ہےشروع شروع میں اس خوبرو لڑکی ک حجاب آڑ آیا، لیکن بعد میں صغیر کو اس ے

و گیا ۔کا التفات حاصل ہت مخلص دل کا نوجوان تھا، اس میں ریا کاری نام کو بھی تھی، اس کو ہ صغیر بو گئی تو اس ن ی سمجھا ک اس اپنی زندگی کا اصل مقصد ےامتیاز س محبت ہ ہ ے ہ ے

یں تھی ک امتیاز اس قبول کر و گیا، اس کو اس بات کی کوئی فکر ن ےحاصل ے ہ ہ ہار ساری ا اپنی محبت ک جذب ک س یں و اس قسم کا آدمی تھا ک ےگی یا ن ہ ے ے ے ہ ہ ہ

لی بار بات کرن کا موقع مال تو اس ےزندگی بسر کر دیتا، اس کو جب امتیاز س پ ہ ےوں، ی ان الفاظ س کی، دیکھو اللی، میں ایک نا محرم آدمی ہن گفتگو کی ابتدا ے ہ ے

ونا ہمیں ن مجبور کیا تم مجھ س ملو، اب اس مالپ کا انجام بھی نیک ے ہے ےئی ، ی میر ضمیر اور دل کی اکھٹی آواز ، تم بھی وعد کرو ک جب تک میں ہچا ہ ہے ے ہ ے ہ

نچاؤں گی اور میری موت ک بعد بھی مجھ یاد یں پ و مجھ کوئی آزا ن ےزند ے ہ ہ ے ہ ہار پیار کی بھوکی ڈیاں تم و گی، اس لئ ک قبر میں بھی میری سوکھی ےکرتی ر ہ ہ ہ ے ہ

۔وں گی ہد پر قائم ر گی، اس ک بعد وئ دل س وعد کیا ک و اس ع ے امتیاز ن دھڑکت ہے ہ ہ ہ ہ ے ے ہ ے ے

یں، صغیر مطمئن تھا ک امتیاز اس کی ہان دونوں میں چھپ چھپ ک مالقاتیں ر ہ ےےمحبت کی دعوت قبول کر چکی ، اس لئ اب اور زیاد گفتگو کرن کی ہ ے ہے

ہضرورت تھی، ویس و بھی اپنی محبوب س ملنا اس لئ ضروری سمجھتا تھا ک ے ے ہ ہ ےچان و جائ اور و بھی اس کو اچھی جان پ ہو اس ک عادات و خصائل س واقف ہ ے ہ ے ے ہےل تاک و اس خصلت کا انداز کر سک اور اس کو شکایت کا کوئی موقع ن مل ، ہ ے ہ ہ ہ ے

ا، نازی میں اب بھی تم ہاس ن ایک دن امتیاز س بڑ غیر عاشقان انداز میں ک ہ ے ے ےار معیار پر وں ک اگر تم ن مجھ میں کوئی خامی دیکھی اگر میں تم تا ےس ک ہ ہے ے ہ ہ ہ ےو، یں یں اترا تو مجھ س صاف صاف ک دو، تم کسی بندھن میں گرفتار ن ہپورا ن ہ ہہ ے ے ہو گی، میری محبت میر لئ کافی یں ےتم مجھ دھتکار تو مجھ کوئی شکایت ن ے ہ ہ ے ے

وں ار کافی دیر تک جی سکتا ۔ ، میں اس ک اور ان مالقاتوں ک س ہ ے ہ ے ے ہےا ک صغیر کو اپن گل س لگا کر وئی اس کا جی چا ت متاثر ے امتیاز اس س ب ے ے ہ ہ ہ ہ ےےرونا شروع کر د مگر و اس نا پسند کرتا تھا، اس لئ اس ن اپن جذبات اندر ے ے ے ہ ے

تی تھی ک صغیر اس س فلسفان باتیں ن کریں، لیکن کبھی ہی مسل ڈال ، و چا ہ ے ہ ہ ہ ے ہیرو اپنی ہکبھی اس طور رپ بھی اس س پیش آئ ، جس طرح فلموں میں ے ے

۔یروئن س پیش آتا ، مگر صغیر کو ایسی عامیان حرکت س نفرت تھی ے ہ ہے ے ہی وا تو امتیاز چھینک مار ر لی رات کو حجل عروسی میں جب صغیر داخل ہ پ ہ ہ ہ

تی تھی ک یں چا ا تھا لیکن و ن و ر وا امتیاز کو بال شب زکام ت متفکر ہتھی، و ب ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہو کر اس کی تمام ہاس کا خاوند اس معمولی س عارض کی طرف متوج ہ ے ے

ہامنگوں کو فراموش کر د و سرتاپا سپردگی تھی مگر صغیر کو اس بات کی ےستی علیل ، چنانچ اس ن ےتشویش تھی ک امتیاز اس کی جان س زیاد عزیز ہ ہے ہ ہ ے ہےفورا ڈاکٹر بلوایا، جو دوائیاں اس ن تجویز کیں بازار س خرید کر الیا، اور اپنی ے

ن کو جس کو ڈاکٹر کی آمد س کوئی دلچسپی تھی ن اپن خاوند کی تیمار ےنئی دل ہ ے ہےداری س مجبور کیا ک و انجکشن لگوائ اور چار چار گھنٹ ک بعد دار پئ ، ے ے ے ہ ہ ے

ن کی ہزکام کچھ شدید قسم کا تھا اس لئ چار دن اور چار راتین صغیر اپنی دل ےا، امتیاز چڑ گئی، و جان کیا سوچ کر عروسی جورا ےتیمار داری میں مصروف ر ہ ہن کر صغیر ک گھر آئی تھی، مگر و ب کار، اس ک زکام کو درست کرن ک ےپ ے ے ے ہ ے ہ

م باقی اور ی چیز ا ا دلن کیلئ بس ایک ی وا تھا، جیس دل ہےپیچھ ک پیچھ پڑا ہ ہ ے ہ ے ہ ے ے ےیں ۔باتیں سب فضول ہ

ا، آپ ر س ک ہ تنگ آ کر ایک دن اس ن اپن ضرورت س زیاد شریف شو ے ہ ہ ے ے ےوں وں، پھر اس ن دعوت بھری نگا ہچھوڑئی میر معالج کو، میں اچھی بھلی ے ہ ے ے ے

وں، اور آپ ن اس و آپ ک گھر آئی ن ےس اس کی طرف دیکھا میں دل ے ہ ے ہ ہ ےا، نازی اتھ دبایا اور مسکرا کر ک ن کا ہاسپتال بنا دیا ، صغیر ن بڑ پیار س دل ہ ہ ے ے ے ہےارا گھر ، اس ک بعد امتیاز یں تم و، ی میرا گھر ن ےخدا ن کر ک ی کوئی اسپتال ہے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ

ن لگ صغیر و کر ر و گئی، اور شیر و شکر ےکو جو فوری شکایت تھی و دور ے ہ ہ ہ ہمیش امتیاز کی صحت اس ک جسم کی ےاس س محبت کرتا تھا لیکن اس کو ہ ہ ےتا تھا، و اس کانچ ک نازک ےخوبصورتیوں اور اس کو ترو تاز دیکھن کا خیال ر ے ہ ہ ے ہو ک زرا سی ب ر وقت ی خدش ےپھولدان کی طرح سمجھتا تھا، جس ک متعلق ہ ہ ہ ہ ہ ے

را تھا دو بھائی اصغر ہاحتیاطی س ٹوٹ جائ گا، امتیاز اور صغیر کا رشت دو ہ ے ےےحسین اور امجد حسین تھ ، کھات پیت تاجر، صغیر بڑ بھائی اصغر حسین کا ے ے ے

ےلڑکا تھا اور امتیاز امجد حسین کی بیٹی تھی، اب ی دنوں میاں بیوی تھ ، شادی ہو گئ ل دونوں بھائیوں میں کچھ اختالفات تھ جو اب دور ے۔س پ ہ ے ے ہ ے

وا نیں اور تھیں اور جو اس پر جان چھڑکتی تھیں، امتیاز کا بیا تو ہ امتیاز کی دو ب ہ ہےان دونوں کی باری قدرتی طور پر آ گئی، و اپن گھروں میں آبا خوش تھیں، کبھی ہوتیں ان کی نظر میں و ہکبھی امتیاز س ملن آتیں، اور صغیر ک اخلق س متاثر ہ ے ے ے ے

ر ہے۔آئیڈیل شو ہتا تھا ک اتنی چھوٹی وا دراصل چا اں کوئی بچ ن ہ دو برس گزر گئ امتیاز ک ہ ہ ہ ہ ہ ے ے

ےعمر میں و اوالد ک بکھیڑوں میں ن پڑ ، ان دنوں ک دن ک ابھی کھیلن کودن ے ے ے ے ہ ے ہر ک کنار ر روز اس سینما ل جاتا باغوں کی سری کراتا، ن ےک تھ ، صغیر ے ہ ے ے ہ ے ےر آسائش کا خیال تھا، ل قدمی کرتا، اس کی ہکنار س اسک ساتھ ساتھ چ ہ ے ے ے

ترین کھان ، اچھ س اچھا باورچی اگر امتیاز کبھی باورچی خان کا رخ کرتی تو ےب ے ے ے ہوتی ت بری یں، ان کی بو ب تا تازی انگیٹھیوں میں پتھر ک کوئ جلت ہو اس ک ہ ہ ے ے ے ہ ے ہ

یں، کھان ے ، اور صحت کیلئ نا مفید، میری جان تم اندر ن جایا کرو، دو نوکر ہ ہ ے ہےہےپکان کا کام جب تم ن ان ک سپرد کر رکھا تو اس زحمت کی کیا ضرورت ، ہے ے ے ے

۔امتیاز مان جاتی ہ سردیون میں صغیر کا بڑا بھائی اکبر جو نیروبی میں ایک عرص مقیم تھا اور ڈاکٹرور صغیر وا تھا تو اس ن سوچا ک چلو ال ہتھا کسی کام ک سلسل میں کراچی آیا ہ ے ہ ے ے

را، و نچا اور اپن چھوٹ بھائی ک پاس ٹھ ور پ از ال وائی ج ہس مل آئیں بذریع ہ ے ے ے ہ ہ ہ ہ ہ ےان میں اس کی سیٹ پانچویں دن کی بک تھی، وائی ج ہصرف چار روز کیلئ آیا ک ہ ہ ے

وئی تھی، اصرار کیا تو ہمگر جب اس کی بھابی ن جو اس کی آمد پر خوش ےیں کچھ ا، بھائی جان آپ اتنی دیر ک بعد آئ ہچھوٹ بھائی صغیر ن اس س ک ے ے ہ ے ے ےریں وئ تھ جتن آپ فالتو ٹھ ر جائی ، میری شادی میں آپ شریک ہدن اور ٹھ ے ے ے ہ ے ہ

وئی، اس تو ہگ اتنا جرمان سمجھ لیج گا، امتیاز مسکرائی اور اکبر س مخاطب ے ے ہ ےیں دیا، ی پڑ گا اور پھر مجھ آپ ن شادی پر کوئی تحف بھی تو ن رنا ہآپ کو ٹھ ہ ے ے ے ہ ہیں اور آپ کو میں جان یں کر لوں گی آپ کیس جا سکت ےمیں جب تک وصول ن ہ ے ے ہ

۔بھی کب دوں گیار ل دیا، صغیر ے دوسر روز اکبر اس کو ساتھ ل گیا اور سچ موتیوں کا ایک ہ ے ے ےت قیمتی تھا کم از کم پانچ ار ب ہن اپن بڑ بھائی کا شکری ادا کیا، اس لئ ک ہ ہ ے ہ ے ے ے

ر کیا اور صغیر ی، اسی دن اکبر ن واپسی نیروبی جان کا اراد ظا و گا ہزار کا ہ ے ے ہ ہ ہاز میں اس ک ٹکٹ کا بندوبست کر د اس لئ ک اس کی وائی ج ا ک و ےس ک ے ے ے ہ ہ ہ ہ ہ ے

ر میں کافی واقفیت تھی اکبر ن اس کو روپ دئی مگر اس ن کو دران ور ش ہال ے ے ے ے ہ ہا، آپ ابھی اپن پاس رکھئ میں ل لوں گا، اور ٹکٹ کا بندوبست ےانداز میں ک ے ے ہ

از سروس کا ایک جنرل وائی ج وئی اس لئ ک ہکرن چال گیا، اس کوئی دقت ن ہ ہ ے ہ ہ ے ےےمینیجر اس کا دوست تھا اس ن فورا ٹکٹ ل دیا، صغیر کچھ دیر اس ک ساتھ ے ےا اس ک بعد گھر کا رخ کیا، موٹر گیراج میں بند کر ک و اندر ہبیٹھا گپ لڑا تا ر ے ے ہر نکل آیا، گراج س موٹر نکالی اور اس میں بیٹھ ک جان وا لیکن فورا با ےداخل ے ے ہ ہ

وں ن و گیا، اکبر اور امتیاز دیر تک اس کا انتظار کرت ر مگر و ن آیا ان ا روان ےک ہ ہ ہ ہے ے ہ ہ ہوں ن سوچا ک ون کی آواز سنی تھی، مگر ان ہموٹر ک آن اور گیراج میں بند ے ہ ے ہ ے ے

وا تھا، اس لئ ک صغیر موجود تھا ن اس کی موٹر و ہشاید ان ک کانوں کو دھوکا ہ ہ ے ہ ےفت انتظار کیا ادھر ادھر و گیا تھا؟ اکبر کو واپس جانا تھا، مگر اس ن ایک ہغائب ہ ے ہ ہکئی جگ پوچھ گچھ کی پولیس میں رپورٹ لکھوائی مگر صغیر کی کوئی سن گنا تھا پولیس اسٹیشن س اطالع ملی ک پی بی ہن ملی، آخری دن جب ک اکبر جا ر ے ہ ہ ہ

ے نمبر کی موٹر کار جس ک ایک خان میں صغیر اختر نام ک100591ایل ے ےر کئی دنوں س پڑی ، دریافت کرن پر معلوم وائی اڈ ک با ےالئسنس نکال ، ہے ے ہ ے ے ہ ہےاز میں نیروبی کا وائی ج ل ہوا ک اکبر امجد حسین نام ک ایک آدمی ن آٹھ روز پ ہ ے ہ ے ے ہ ہہسفر کیا ، اکبر کی سیٹ نیروبی کیلئ بک تھی امتیاز س رخصت ل کر جب و ے ے ے ہے

نچا تو اس بڑی مشکلوں ک بعد صرف اتنا پت ایک صاحب جن کا نام اکبر ہکنیا پ ے ے ہر وٹل میں دور روز ٹھ چن تھ ایک اں پ از ک ذریع س ی وائی ج ےامجد تھا ہ ہ ے ے ہ ہ ے ے ے ہ ہ

ے۔اس ک بعد چل گئ ے ےت تالش کی مگر کوئی پت ن چال اس دوران میں اس کو امتیاز ک کئی ے اکبر ن ب ہ ہ ہ ےل دو تین خطوں کی تو اس ن رسید بھیجی اس ک بعد جو بھی ےخطوط آئ ، پ ے ے ہ ے

ےخط آیا پھاڑ دیتا تاک اس کی بیوی ن پڑھ ل ، دس برس گزر گئ امجد حسین ے ہ ہت لوگوں کا خیال تھا ک صغیر مر کھپ چکا ت پریشان تھا، ب ہیعنی امتیاز کا باپ ب ہ ہ

یں مانتا تھا ۔ مگر امجد حسین کا دل ن ہ ہےو سکتی ؟ بڑا ی مل جاتی، خود کشی کرن کی کیا وج یں اس کی الش ہے ک ہ ہ ے ہ ہی ت محبت تھی، ایک ہنیک ، شریف اور برخوردار لڑکا تھا، امجد کو اس س ب ہ ے

یں اس جیس ذکی ےبات اس کی سمجھ میں آئی تھی ک اس کی بیٹی امتیاز ن ک ہ ہ ہو یں رو پوش و کر ک و ک و دل شکست نچائی ہالحس آدمی کو اسی ٹھیس ن پ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ےہگیا ، چنانچ اس ن امتیاز س کئی مرتب اس بار میں پوچھا مگر و صاف منکر ہ ے ے ہ ہےہو گئی، خدا اور رسول کی قسمیں کھا کر اس ن اپن باپ کی تشفی کر دی، ک ے ے ہ

وئی اکثر اوقات و روتی تھی، اس کو صغیر یں ہاس س اسی کوئی حرکت سرز ن ہ ہ ے ہیاد آتا تھا، اس کی نرم و نازک محبت یاد آتی تھی، اس کو و دھیما دھیما نیسم

سحری کا سلوک یاد آتا تھا، جو اس کی فطرت تھی، نیا پیرا امجد کا ایک دوستہےحج کو گیا، واپس آیا تو اس ن اس کو ی خوشخبری سنائی ک صغیر زند اور ہ ہ ہ ے

وا، اس کو اس ک وش ےایک عرص س مک میں مقیم امجد حسین کو ہ ہ ہے ے ے ےندی کا پتا دیا تھا، اس ن اپنی بیٹی کو تیار کیا ک و اس ک ےدوست ن صغیر ہ ہ ے ہ ے

از کا سفر کا انتظام کیا، امتیاز ساتھ جان کو تیار وائی ج ےساتھ حجاز چل ، فورا ہ ہ ےی تھی و ر ۔ن تھی، اس کو جھجھک سی محسوس ہ ہ ہ

ر مقدس مقام کی زیارت کی، نچ ، ر حال باپ بیٹی سرزمین حجاز میں پ ہ ب ے ہ ہےامجد حسین ن ایک ایک کون چھان مارا مگر صغیر کا پت ن چال، چند آدمیوں س ہ ہ ہ ے

ل ، وا ک و آپ کی آمد س دس روز پ ےجو اس کو جانت تھ ، صرف اتنا معلوم ہ ے ہ ہ ہ ے ےیں، و چکا تھا، ک آپ تشریف ال ر ہکیونک اس کسی ن کسی طریق معلوم ہے ہ ہ ہ ے ہ

ونتوں ل چند لمحات اس ک و گیا، مرن س پ الک ہکھڑکی د کود اور گر کر ے ے ہ ے ے ہ ہ ےا تھا غالبا امتیاز تھا ۔پر ایک لفظ کانپ ر ہ

وا اس ک متعلق صغیر ک جانن اں و کب اور کیس دفن ے اس کی قبر ک ے ے ہ ے ہ ہے ہو گیا ک اس ک یں تھا، امتیاز کو یقین ےوالوں ن کچھ ن بتایا، ی ان ک علم میں ن ہ ہ ہ ے ہ ہ ے

ہےخاوند ن خودکشی کر لی ، اس کو شادی اس کا سبب معلوم تھا، مگر اس کا ےا میرا دل ہباپ ی مانن س یکسر منکر تھا، چنانچ اس ن ایک بار اپنی بیٹی س ک ے ے ہ ے ے ہاری محبت کی خاطر اس وقت تک زند ر گا جب تک خدا تا و زند ، و تم ہےک ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہے ہ

ےاس کو موت ک فرشت ک حوال ن کر د ، میں اس کو اچھی طرح سمجھتا ہ ے ے ے ےوتا تو میں خود کو دنیا کا سب س خوش نصیب اری جگ اگر و میرا بیٹا ےتم ہ ہ ہ ہ

ی ۔انسان سمجھتا، ی سن کر امتیاز خاموش ر ہ ہے دونوں سرزمین حجاز س ب نیل و مرام واپس آ گئ ، ایک برس گزر گیا، اس ے ے

وا اور لک بیماری یعنی دل ک عارض میں گرفتار ہدوران میں امجد حسین بڑی م ے ے ہا مگر و شاید بڑی اذیت نا چا ہوفات پا گیا، مرت وقت اس ن اپنی بیٹی کو کچھ ک ہ ہ ے ے

وں س امتیاز کو دیکھت ا اور صرف سرزنس بھری نگا ےد تھی ک و خاموش ر ے ہ ہ ہ ہ ہن ممتاز ک پاس راولپنڈی چلی گئی، ان ےدیکھت مر گیا، اس ک بعد امتیاز اپنی ب ہ ے ےت ہکی کوٹھی ک سامن ایک اور کوٹھی تھی، جس میں ایک ادھیڑ عمر کا مرد ب ے ےر تا تھا، ممتاز اس کو ہتھکا تھکا سا دکھائی دیتا تھا، دھپو تاپتا اور کتابیں پڑھتا ر ہ

وتا ی صغیر ، ا، مجھ ایسا معلوم ہےروز دیکھتی، ایک دن اس ن امتیاز س ک ہ ہے ہ ے ہ ے ے

ی سنجدگی، امتیاز ن اس آدمی و، و ناک نقش متانت و چان سکتی یں پ ےکیا تم ن ہ ہ ہ ہ ہ ہی پھر فورا رک گئی، لیکن و اں و اں ہکی طرف غور س دیکھا ایک دم چالئی ہے ہ ہ ہ ے

یں یں و تو وفات پا چک و سکت ۔کیس ہ ے ہ ہ ے ہ ےناز بھی آ گئی ممتاز اور امتیاز ن ان کو قبل از ن ش یں دنوں ان کی چھوٹی ب ے ان ہ ہ ہ

ےوقت مرجھایا اور افسرد مرد دکھایا جس کی داڑھی کھچڑی تھی، اور اس س ہری ناز ن اس کو بڑی گ یں؟ ش ہپوچھا تم بتاؤ اس کی شکل صغیر س ملتی یا ن ے ہ ہ ہے ے

ا، شکل ملتی کی ی خود صغیر ج میں ک ہےنظروں س دیکھا اور فیصل کن ل ہ ہے ہ ے ہ ہ ےو گئی و شخص ہسونی صدی صغیر اور ی ک ک و سامن والی کوٹھی میں داخل ہ ے ہ ہ ہہ ہ

ناز جس ن شادی ک موقع پر اس کی ےکتاب پڑھن میں مشغول تھا چونکا، ش ے ہ ےیں گ ؟ ا، جناب آپ کب تک چھپ ر ےجوتی چرائی تھی، اسی پران انداز میں ک ہ ے ہ ے

وئ پوچھا ناز کی طرف دیکھا اور بڑی سنجیدگی اختیار کرت ے اس شخص ن ش ہ ے ہ ےیں؟ ہآپ کون

م کالمی و اس ناز طراز تھی اس ک عالو اس کو یقین تھا ک جس س و ہ ش ہے ہ ہ ے ہ ہ ے ہناز ا جناب میں آپ کی سالی ش ج میں ک نوئی چنانچ اس ن بڑ نوکیل ل ہکا ب ہ ے ہ ے ے ے ہ ہے ہ

ا، مجھ افسوس ک ناز کو سخت نا امید کی اس ن ک ہوں، اس شخص ن ش ہے ے ہ ے ہ ے ہت س باتیں کیں مگر اس ناز ن اور ب وئی ، اس ک بعد ش می ےآپ کو غلط ف ہ ے ہ ے ہے ہ ہا، اس کا ی مطلب تھا ک تم ناحق اپنا ہن بڑ مالئم انداز میں اس س جو کچھ ک ہ ہ ے ے ےن کو جس ک متعلق تم اری ب وں ن تم یں جانتا وں، میں تم ی ےوقت ضائع کر ر ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہی اس کا خاوند و ک میری بیوی ، میری بیوی اپنی زندگی میں ار میں تی ہک ہے ہے ہ ہ ہ

۔و ہو گیا تھا ک و امتیاز ک متعلق تمام معلومات حاصل ناز اور ممتاز کو معلوم ے ش ہ ہ ہ ہےکرتا ، ان کو ی بھی پت چل گیا تھا ک اس پر اسرار مرد ک نوکر ک ذریع س ے ے ے ہ ہ ہ ہے

تا ہےک و راتوں کو اکثر روتا نمازیں پڑھتا اور دعائیں مانگتا ک زند ر و چا ہ ہ ہے ہ ہ ہے ہے ہے ہ ہوتا ر ، نوکر حیران تھا نچی اس س دیر تک لطف اندوز ہےک اس کو جو اذیت پ ہ ے ہے ہ ہ

و سکتی ، جس س و حظ ہک انسان کی زندگی میں ایسی کون سی تکلیف ے ہے ہ ہوئی ش پیدا ہاٹھا سکتا تھا، سب باتیں امتیاز سنتی تھی اور اس ک دل میں ی خوا ہ ہ ےہتھی ک مر جائ ، چنانچ اس ن جب ی سنا ک و شخص جس کو امتیاز اچھی طرح ہ ہ ے ہ ے ہچانتی تھی، اس ک نام س قطعا نا آشنا تو اس ن ایک روز افیم کھا لی اور ی ہپ ے ہے ے ے ہ

تی ، و آرام کرن ر کیا ک اس ک سر میں درد اور اکیلی آرام کرنا چا ےظا ہ ہے ہ ہے ے ہ ہوا ناز ن جب اس کو غنودگی ک عالم میں دیکھا تو اس شب ہچلی گئی لیکن ش ہ ے ے ے ہ

ےاس ن ممتاز س بات کی، اس کا ماتھا بھی ٹھنڈا کمر میں جا کر دیکھا تو امتیاز ے ےناز دوڑی دوڑی سامن وش پڑی تھی، اس کو جھنجھوڑا مگر ن جاتی ش ےبالکل ب ہ ہ ہ ے

کوٹھی میں گئی اور اس شخص جس کا نام راولپنڈی میں کسی کو نا معلوم تھا،ر کھا لیا ، اور مرن ک ٹ میں ی اطالع دی ک اس کی بیوی ن ز ےسخت گھبرا ے ہے ہ ے ہ ہ ہیں ، می و میری بیوی ن ا آپ کو غلط ف ہےقریب ، ی سن کر اس ن اتنا ک ہ ہ ہے ہ ہ ے ہ ہے

وں وا ، آپ چلیئ میں اس بھیج دیتا اں اتفاق س ایک ڈاکٹر آیا ۔لیکن میر ہ ے ے ہے ہ ے ہ ےا، ی جو کوٹھی ناز گئی تو و اندر کوٹھی میں گیا اور اپن بھائی اکبر س ک ہ ش ہ ے ے ہ ہ

ر کھا لیا ، بھائی جان آپ جلدی س ےسامن اس میں کسی عورت ن ز ہے ہ ے ہے ےت بڑا ڈاکٹر ہجائی ، اور کوشش کیجئ ک بچ جائ ، اس کا بھائی جو نیروبی میں ب ے ہ ے ے

ت ہتھا امتیاز کو ن بچا سکا دونوں ن ایک دوسر کو دیکھا تو اس کا رد عمل ب ے ے ہےمختلف تھا، امتیاز فورا مر گئی اور اکبر اپنا بیگ ل کر واپس چال گیا، صغیر ن ے

ہاس س پوچھا کیا حال مریض کا؟ ہے ےج میں ونٹ بھینچ کر بڑ مضبوط ل ے اکبر ن جواب دیا مر گئی، صغیر ن اپن ہ ے ہ ے ے ے

وں گا، لیکن ایک دم سنگین فرش پر لڑکھڑان ک بعد گرا اور جب ا میں زند ر ےک ے ہ ہ ہ۔اکبر ن اس کی نبض دیکھی تو و ساکت تھی ہ ے

بابو گوپی ناتھوئی، ان دنوں میں بمبئی کا ایک ہبابوگوپی ناتھ س میری مالقات سن چالیس میں ے

ےفت وار چرچ ایڈٹ کیا کرتا تھا، دفتر میں عبدالرحیم سینڈو ایک ناٹ آدمی ک ے ہ ہ ہا تھا، سینڈو ن اپن مخصوص انداز میں با وا میں اس وقت لیڈ لکھ ر ےساتھ داخل ے ہ ہےآواز بلند مجھ آداب کیا اور اپن ساتھی س متعارف کرایا، منٹو صاحب بابو گوپی ے ے

ے۔ناتھ س ملئ ےاتھ مالیا، سینڈو ن حسب عادت میری تعریفوں ک پل ے میں ن اٹھ کر اس س ے ہ ے ےاتھ ندوستان ک نمبر ون رائٹر س ہباندھن شروع کر دئی ، بابو گوپی ناتھ، تم ے ے ہ ے ے

و جاتا لوگوں کا، ایسی ایسی کنٹی نیو ٹلی و، لکھتا تو دھڑن تخت ہےمال ر ہ ہ ہے ہ ہےو جاتی ، پچھل دنوں کیاچٹکل لکھا تھا، آپ ن منٹو ےمالتا ک طبعیت صاف ہ ے ہے ہ ہ ہے

ہصاحب، مس خورشید ن کار خریدی، الل بڑا کار ساز ، کیوں بابو گوپی ناتھ ن ہے ہے ہ ےاینٹی پینٹی پو؟

ہ عبدلرحیم سینڈو ک باتیں کرن کا انداز بالکل نراال تھا، کنٹی نیو ٹلی، دھڑن تخت ے ےےاور اینٹی پینٹی پو ایس الفاظ اس کی اپنی اختراع تھ ، جن کو و گفتگو میں ب ہ ے ےہتلکف استعمال کرتا تھا، میرا تعارف کران ک بعد و بابو گوپی ناتھ کی طرف ے ے

ور یں بابو گوپی ناتھ، بڑ خان خراب ال ت مرعوب نظر آتا تھا، آپ وا، جو ب ہمتوج ہ ے ہ ہ ہ ہیں ساتھ کشمیر کی ایک کبوتری ، ہےس جھک مارت مارت بمبئ تشریف الئ ہ ے ے ے ے ے

۔بابو گوپی ناتھ مسکرایاو سکتا ا ک نمبر ون ب وقوف ہ عبدلرحیم سینڈو ن تعارف کو ناکافی سمجھ کر ک ے ہ ہ ے

یں، میں صرف باتیں کر ک یں، لوگ ان ک مسکا لگا کر روپی بٹورت ے تو و آپ ہ ے ہ ے ہ ہ ہےوں، بس منٹو صاحب، ی ر روز پولسن بٹر ک دو پیکٹ وصول کرتا ہان س ہ ے ہ ے

یں، آپ آج شام کو انک ےسمجھ لیجئی ک بڑ انٹی فلو جیسٹس قسم ک آدمی ہ ے ے ہ ےے۔فلیٹ پر ضرور تشریف الئی

اں ضرور تشریف اں ا ا تھا چونک کر ک ہ بابو گوپی ناتھ خدا معلوم کیا سوچ ر ہ ہ ہےالئی منٹو صاحب، پھر سینڈو س پوچھا کیوں سینڈو کیا آپ کچھ اس کا شغل ے

یں ۔کرت ہ ےیں، تو منٹو ر قسم کا شغل کرت ق لگایا، اجی ہ تو عبدالرحیم ن زور س ق ے ہ ہہ ہ ے ے

ہصاحب آج شام کو ضرور آئی گا، میں ن بھی پینی شروع کر دی ، اس لئ ک ے ہے ے ےہے۔مفت ملتی

اں میں حسب وعد شام کو چھ ک ے سینڈو ن مجھ فلیٹ کا پت لکھ کر دیا، ج ہ ہ ہ ے ےنچ گیا، تین کمر کا صاف ستھرا فلیٹ تھا، جس میں بالکل نیا فرنیچر ےقریب پ ہ

وا تھا، سینڈو اور بابو گوپی ناتھ ک عالو بیٹھن وال کمر میں دو مرد اور ےسجا ے ے ہ ے ہ۔عورتیں موجود تھیں، جن س سینڈو ن مجھ متعارف کرایا ے ے ے

مد پوش، پنجاب کا ٹھیٹ سائیں، گل میں موٹ موٹ دانوں ے ایک تھا غفار سائیں، ت ے ے ہ، آپ بابو گوپی ناتھ ک لیگل ایڈوائزر ا ک ےکی ماال، سینڈو ن اس ک بار میں ک ہ ہ ے ے ےو جس ک من س تی ر آدمی جس کی ناک ب ےیں، میرا مطلب سمجھ جائی آپ، ہ ے ہ ہ ہ ے ہ

نچ وا درویش بن جاتا ، ی بھی بس پ نچا و، پنجاب میں خدا کو پ ےلعاب نکلتا ہ ہ ہے ہ ہ ہیں یں، کیونک ان ور س بابو گوپی ناتھ ک ساتھ آئ یں، ال نچن وال یں یا پ ہوئ ہ ہ ے ے ے ہ ہ ے ے ہ ہ ے ہ

اں آپ بابو گوپی ناتھ س کریون یں تھی، ی اں کوئی اور وقوف ملن کی امید ن ےو ہ ہ ے ہیں،ک انجام نیک ت ہا ک سگریٹ اور سکاچ وسکی ک پیگ پی کر دعا کرت ر ہ ے ہ ے ے ے ے

۔و ہے دوسر مرد کا نام تھا غالم علی، لمبا تڑنگا جوان،کسرتی بدن،من پر چیچک ک ہ ے

ا ی میرا شاگرد ، اپن استاد ک نقش قدم پر ےداغ، اس ک متعلق سینڈو ن ک ے ہے ہ ہ ے ےو گئی، بڑی ور کی ایک نامی طوائف کی کنواری بیٹی اس پر عاشق ا ، ال ہچل ر ہ ہے ہ

ا، ڈو اور ڈائی، میں ہکنٹی وٹیاں مالئی گئیں اس کو پھانسن کیلئ مگر اس ن ک ے ے ےوئ بابو گوپی ناتھ س وں گا، ایک تکئی میں بات چیت پیٹ ےلنگوٹ کا پکا ر ے ہ ے ے ہ

ر روز کریون ا کا ڈب وا ، و گئی، بس اس دن س ان ک ساتھ چمٹا ہمالقات ے ہ ہے ہ ے ے ہہے۔اور کھانا پینا مقرر

ی میں وت ر والی ایک سرخ و سفید عورت تھی، کمر میں داخل ہ گول چ ے ہ ے ے ہی کشمیری کبوتری ، جس ک متعلق سینڈو ن دفتر میں ےسمجھ گیا تھا،ک ی و ے ہے ہ ہ ہوئ ت صاف ستھری عورت تھی، بال چھوٹ تھ ،ایسا لگتا تھا کٹ ےذکر کیا تھا ، ب ہ ے ے ے ہ

ر ک خطوط س یں تھا، آنکھیں شفاف اور چمکیلی تھیں، چ ےیں،مگر ایسا ن ے ے ہ ہ ہڑ اور نا تجرب کار ، سینڈو ن اس س تعارف وتا تھا ک ب حد ال ر ےصاف ظا ے ہے ہ ہ ے ہ ہ ہ

یں، ایک بڑی خرانٹ ت ا زینت بیگم بابو گوپی ناتھ پیار س زینو ک وئ ک ہکرات ے ہ ے ہ ے ہ ےور ل آئی بابو گوپی ناتھ کو اپنی سی آئی ڈی ےنائک کشمیر س ی سیب توڑ کر ال ہ ہ ے ہین تک پولیس وئی تقریبا دو م ےس پت چال ک اور ایک رات ل اڑ ، مقدم بازی ہ ہ ے ے ے ہ ہ ے

اں ل آئ ی، آخر بابو گوپی ناتھ ن مقدم جیت لیا اور اس ی ے۔۔۔۔۔عیش کرتی ر ے ہ ے ہ ے ہہ۔دھڑن تخت

ر سانول رنگ کی عورت باقی ر گئی تھی جو خاموش بیٹھی سگریٹ پی ہ اب گ ے ے ہی تھی، آنکھیں سرخ تھیں جن س کافی ب حیائی مترشح تھی، بابو گوپی ناتھ ےر ے ہ

و جائ ے۔ن اس کی طرف اشار کیا، اس ک متعلق بھی کچھ ہ ے ہ ےا جناب ی ، ٹین پٹونی فل اتھ د مارا اور ک ہے سینڈو ن اس عورت کی ران پر ہ ہ ے ہ ے

ور کی پیداوار آپ بھی ال ہفل فونی، مسز عبد الرحیم سینڈو عرف سردار بیگم ۔۔۔۔۔ی میں میرا دھڑن تخت وا تھا، دو برسوں ہیں، سن چھتیس میں مجھ س عشق ہ ہ ے ہاں بلوا لیا ، ور چھوڑ کر بھاگا، بابو گوپی ناتھ ن اس ی ہےکر ک رکھ دیا، میں ال ہ ے ے ہ ے

ر روز شام ہتاک میرا دل لگا ر ، اس کو بھی ایک ڈب کریون ا کا راشن ملتا ، ہے ے ہ ہے ہےکو ڈھائی روپ کا مورفیا کا انجکشن لیتی ، رنگ کاال ، مگر ویس بڑی ٹیٹ ہے ہے ے

ہے۔فور ٹیٹ قسم کی عورت

ا، بکواس ن کر، اس ادا میں پیش ور عورت ہ سردار ن ایک ادا س صرف اتنا ک ہ ہ ے ے۔کی بناوٹ تھی

ے سب س متعارف کران ک بعد سینڈو ن حسب عادت میری تعریف ک پل ے ے ے ےا چھوڑو یار، آؤ کچھ باتیں کریں ۔باندھن شروع کر دئی ، میں ن ک ہ ے ے ے

بابو گوپی ناتھ لگاؤ ایک سبز کو نوٹ ۔ سینڈو چالیا بوائ وسکی اینڈ سوڈا ے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ےےسینڈو ک حوال کر دیا، سینڈو نوٹ ل کر اس کی طرف غور س دیکھا اور کھڑا ے ے ےو دن کب آئ گا جب میں بھئ لب او میر رب العالمین ا اور گوڈ ےکھڑا کر ک ہ ۔۔۔۔ ے ۔۔۔ ہجاؤ بھی غالم علی و دو بوتلیں جانی وا کر سٹل ہلگا کر یوں نوٹ نکاال کروں گا ۔۔۔۔

۔گوتنگ سٹرانگ کی لئ آؤ ےا، اس ہ بوتلیں آئیں تو سب ن پینا شروع کیں، ی شغل دو تین گھنٹ تک جاری ر ے ہ ےی ال گالس ایک ہدوران میں س زیاد باتیں حسب معمول عبدالرحیم ن کیں، پ ہ ے ہ ے

و تو ایسی حلق ہسانس میں ختم کر ک و چالیا، دھڑن تخت منٹو صاحب وسکی ہ ہ ےہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔س اتر کر پیٹ میں انقالب زند باد لکھتی چلی گئی بابو گوپی ناتھ ہ ے

۔جیواں مال دیتا تھا، ا، کبھی کبھی البت و سینڈو کی ہ بابو گوپی ناتھ ب چار خاموش ر ہ ہ ہ ہ ےیں ، دوسرا جو ک مان لیتا ، ہےمیں ن سوچا اس شخص کی اپنی کوئی رائ ن ہے ہے ہ ے ےہضعیف االعتقادی کا ثبوت غفار سائیں جس و بقول سینڈو اپنا لیگل ایڈوائزر بنا ے

ےکر الیا تھا، سینڈو کا اس س دراصل ی مطلب تھا ک بابو گوپی ناتھ کو اس س ہ ہ ےور میں اس کا اکثر وا ک ال ہعقیدت تھی، یوں بھی مجھ دوران گفتگو میں معلوم ہ ہ ے ہوقت فقیروں اور درویشوں کی صحبت میں گزرتا تھا، ی چیزیں میں خاص طور پر

ا ، میں ن چنانچ اس ہنوٹ کی ک و کھویا کھویا سا تھا، جیس و کچھ سوچ ر ے ہے ہ ہ ے ہ ہو آپ ا بابو گوپی ناتھ کیا سوچ ر ۔س ایک بار ک ہ ہے ہ ے

یں، ی ک کر و مسکرایا اور زینت کی کچھ ن میں جی میں ہ و چونک پڑا ہہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔ ہمیں کیا اور ا تھا ہطرف ایک عاشقان نگا ڈالی، ان حسینوں ک متعلق سوچ ر ۔۔۔۔۔ ہ ے ہ ہ

و گی ۔سوچ ہور کی ال یں یں ی منٹو صاحب ، بڑ خان خراب ا بڑ خان خراب ہ سینڈو ن ک ۔۔۔۔۔۔۔ ہ ہ ے ہ ہ ہ ے ہ ہو، بابو یں جس ک ساتھ بابو گوپی ناتھ کی کنٹی نیو ٹی ن ر چکی ہکوئی طوائف ن ہ ہ ے ہ

ا اب کمر میں و دم ہےگوپی ناتھ ن ی سن کر بڑ بھونڈ انکسار ک ساتھ ک ہ ے ہ ے ے ے ہ ےیں منٹو صاحب ۔ن ہ

ور کی طوائفوں ک سب گھران گن وئی، ال یات گفتگو شروع ے اس ک بعد وا ے ے ہ ہ ہ ےےگئ ، کون ڈیر دار تھی؟ کون نئی تھی، کون کس کی نوچی تھی؟ نتھنی اتارن کا ہ ے، ی گفتگو سردار،سینڈو، غفار سائیں اور ہگوپی ناتھ جی ن کیا دیا تھا، وغیر وغیر ہ ہ ےور ک کوٹھوں کی زبان میں ، مطلب تو ی، ٹھیٹ ال وتی ر ےغالم علی ک درمیان ہ ہ ہ ے

ا بعض اصطالحیں سمجھ میں ن آئ ے۔میں سمجھتا ر ہ ہی، کبھی کبھی کسی بات پر مسکرا دیتی، مگر ہ زینت بالکل خاموش بیٹھی ر

وا ک اس اس گفتگو س کوئی دلچسپی ک سگریٹ بھی ےمجھ ایسا محسوس ے ے ہ ہ ےیں وتا تھا، اس تمباکو اور اس ک دھوئیں س کوئی رغبت ن ہپیتی تھی، تو معلوم ے ے ہ

ےلیکن لطف ی ک سب س زیاد سگریٹ اسی ن پی، بابو گوپی ناتھ س اس ے ے ہ ے ہ ہے ہر تھا ک بابو ہمحبت تھی، اس کا پت مجھ کسی بات س پت ن چال، اتنا البت ظا ہ ہ ہ ہ ے ے ہ

یا ر سامان م ہگوپی ناتھ کو اسکا کافی خیال تھا، کیونک زینت کی آسائش کیلئ ہ ے ہوئی ک ان دونوں میں کچھ عجیب سا کھنچاؤ ہتھا، لیکن ایک بات مجھ محسوس ہ ے

ٹ س ون ک بجائ کچھ ےتھا، میرا مطلب و دونوں ایک دوسر ک قریب ے ہ ے ے ے ہ ے ے ہ ہےوت تھ ے۔وئ معلوم ے ہ ے ہ

اں چلی گئ کیونک اس مورفیا کا ے آٹھ بج ک قریب سردار، ڈاکٹر مجید ک ہ ہ ے ے ےےانجکشن لینا تھا، غفار سائیں تین پیگ پین ک بعد اپنی تسبیح اٹھا کر قالین پر ےوٹل س کھانا لین کیلئ بھیج دیا گیا تھا، سینڈو ن اپنی ےسوگیا، غالم علی کو ے ے ے ہ

ےدلچسپ بکواس جب کچھ عرص ک لئ بند کی تو بابو گوپی ناتھ ن جو اب نش ے ے ے ےا، منٹو صاحب میری زینت ی عاشقان نگا ڈالی اور ک ہمیں تھا، زینت کی طرف و ہ ہ ہ ہ

ہے۔ک متعلق آپ کا کیا خیال ےی وں، زینت کی طرف دیکھا تو و جھینپ گئی، میں ن اس ہ میں ن سوچا کیو ک ے ے ہ ہ ے

ہے۔ک دیا، بڑا نیک خیال ہہو گیا، منٹو صاحب بھی بڑی نیک لوگ، خدا کی قسم ن ہ بابو گوپی ناتھ خوش ہے ہا، جان من مکان بنوا دوں؟ ہزیور کا شوق ن کسی چیز کا، میں ن کئی بار ک ے ہ ہے

؟ کیا کروں گی مکان ل کر، میرا کون ہے۔۔۔۔۔۔جواب کیا دیا، معلوم آپ کو ے ۔۔۔۔۔۔ ہے۔منٹو صاحب موٹر کتن میں آ جائ گی ے ے

یں ا مجھ معلوم ن ۔ میں ک ہ ے ہآپ کو اور و منٹو صاحب ا کیا بات کرت ۔۔۔۔۔۔۔ بابو گوپی ناتھ ن تعجب س ک ہ ے ہ ے ے

و، کل چلئی گا میر ساتھ، زینو کیلئ ایک موٹر لیں ےکاروں کی قیمت معلوم ن ے ے ہ ہئی ونی چا ے۔گ ، میں ن اب دیکھا ک بمبئ میں موٹر ہ ہ ے ہ ہے ے ے

ر رد عمل س خالی تھا ۔ زینت کا چ ے ہ ہو کر اس م تن جذبات و گیا، ت تیز ہ بابو گوپی ناتھ کا نش تھوڑی دیر ک بعد ب ہ ہ ہ ہ ے ہ

وں، یں، میں تو بالکل گدھا ا، منٹو صاحب آپ بڑ الئق آدمی ہن مجھ س ک ہ ے ہ ے ےوں، کل باتوں باتوں میں ہلیکن آپ مجھ بتائی ، میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ے ے

ا ہسینڈو ن آپ کا ذکر کیا ، میں ن اسی وقت ٹیکسی منگوائی اور اس س ک ے ے ےو تو معاف کر ہمجھ ل چل منٹو صاحب ک پاس، مجھ س کوئی گستاخی ے ے ے ےوں وسکی منگواؤں کیا آپ ک لئ اور ت گنا گار آدمی ب ۔دیجئ گا ے ے ۔۔۔۔۔۔۔ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔ ے

یں ت پی چک ب یں یں ن ا ن ۔ میں ن ک ہ ے ہ ۔۔۔۔۔۔ ہ ہ ہ ےو گیا، اور پیجئی منٹو صاحب ی ک کر جیب س سوسو ک ے و اور زیاد جذباتی ے ہہ ہ ے ہ ہ ہ

اتھ ہنوٹوں کا پلند نکاال اور ایک نوٹ جدا کرن لگا لیکن میں ن سب نوٹ اس ک ے ے ے ہےس لئ اور واپس اس کی جیب میں ٹھونس دئی ، سو روپ کا ایک نوٹ آپ ن ے ے ے ے

وا؟ ہغالم علی کو دیا اس کا کیا و گئی تھی،بابو گوپی ناتھ س ، کتن آدمی اس مدردی سی ے مجھ دراصل کچھ ے ہ ہ ے

وئ تھ ،میرا خیال تھا بابو گوپی ناتھ ےغریب ک ساتھ جونک کی طرح چمٹ ے ہ ے ےن لگا، منٹو صاحب ےبالکل گدھا ، لیکن و میرا اشار سمجھ گیا اور مسکرا کر ک ہ ہ ہ ہے

ےاس نوٹ میں س جو کچھ باقی بچا وھ یا تو غالم علی کی جیب س گر پڑ ے ہے ے۔۔۔۔یا

یں کیا تھا ک غالم علی ن کمر میں داخل ے بابو گوپی ناتھ ن پورا جمل بھی ادا ن ے ہ ہ ہ ےےو کر بڑ دکھ ک ساتھ ی اطالع دی ک کسی حرامزاد ن اس کی جیب میں س ے ے ہ ہ ے ے ہ

ےساری روپ نکال لئی ، بابو گوپی ناتھ میری طرف دیکھ کر مسکرایا، پھر سو ےل آؤ ا جلدی کھانا ۔روپ کا ایک نوٹ جیب س نکاال اور غالم علی کو د کر ک ے ۔۔۔۔ ہ ے ے ے

یں ہ انچ چھ مالقاتوں ک بعد مجھ پت چال ک پوری طرح خیر انسان کسی کو بھی ن ہ ہ ے ےوئ جو ب حد دلچسپ ت س حاالت معلوم ےجان سکتا، لیکن مجھ اس ک ب ے ہ ے ہ ے ے

ے۔تھوں ک میرا ی خیال ک و پرل درج کا چغد غلط ثابت تا نا چا ل تو میں ی ک ہے پ ے ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ

ہوا، اس کو اس کا پوا حساس تھا ک سینڈو، غالم علی اور سردار وغیر جو اس ہ ہیں، و ان جھڑکیاں گالیاں سب سنتا تھا وئ تھ مطلبی انسان ہک مصاحب بن ہ ے ے ہ ے ے

ا، منٹو صاحب میں ن آج تک یں کیا،اس ن مجھ س ک ار ن ےلیکن غص کا اظ ہ ے ے ہ ہ ےوں، تا یں کیا، جب بھی مجھ کوئی رائ دیتا ، میں ک ہکسی کا مشور رد ن ہ ہے ے ے ہ ہ

وں، یں عقلمند سمجھتا یں لیکن میں ان ہسبحان الل و مجھ ب وقوف سمجھت ہ ہ ے ے ے ہ ہےاس لئ ک ان میں کم از کم اتنی عقل تو تھی ک جو مجھ س ایسی ب وقوفی ے ہ ہ ےو سکتا بات دراصل ی ک میں ہکو شناخت کر لیا، جن س ان کا الو سیدھا ہے ہ ہے ہ ے

وں، مجھ ان س کچھ ا ےشروع س فقیروں اور کنجروں کی صحبت میں ر ے ہ ہ ےا سکتا ، میں ن سوچ رکھا جب یں ر و گئی ، میں ان ک بغیر ن ہےمحبت سی ے ہ ہ ے ہے ہ

و جائ گی، تو کسی تکئی میں جا بیٹھوں گا، رنڈی کا ےمیری دولت بالکل ختم ے ہاں میر دل کوسکون ملتا ، رنڈی یں ج یں ہےکوٹھا اور پیر کا مزار، بس ی دو جگ ے ہ ہ ہ ہندوستان میں ون والی لیکن ہکا کوٹھا تو چھوٹ جائ گا، اس لئ جیب خالی ہے ے ہ ے ے

یں، کسی ایک ک مزار پر چال جاؤں گا ۔زاروں پیر ے ہ ہیں، کچھ دیر ہ میں ن اس س پوچھا، رنڈی ک کوٹھ اور تکئ آپ کو کیوں پسند ے ے ے ے ے

وں پر فرش س ل کر ےبعد سوچ کر اس ن جواب دیا اس لئ ک ان دونوں جگ ے ہ ہ ے ےوتا جو آدمی خود کو دھوک دین چا ، اس ک لئ ان ی دھوکا ےچھت تک دھوکا ے ہے ے ہ ہے ہ ہ

و سکتا ہے۔س اچھا مقام اور کیا ہ ےہے میں ن ایک اور سوال کیا آپ کو طوائفوں کا گانا سنن کا شوق کیا آپ ے ے

یں ۔موسیقی کی سمجھ رکھت ہ ےیں اور ی اچھا کیونک میں کن سری س کن سری ے اس ن جواب دیا بالکل ن ہ ہے ہ ہ ےمنٹو صاحب مجھ گان س وں ال سکتا اں جا کر بھی اپنا سر ےطوائف ک ے ے ۔۔۔۔۔ ہ ہ ہ ے

یں لیکن جیب میں س دس یا سو کا نوٹ نکال کر گان والی کو ےکوئی دلچسپی ن ے ہت مزا آتا ، نوٹ نکاال اور اس کو دکھایا، و اس لین کیلئ ایک ادا ےدکھان میں ب ے ے ہ ہے ہ ےر نکاال تو ہس اٹھی، پاس آئی تو نوٹ جراب میں اڑس لیا، اس ن جھک کر اس با ے ے ے

م ایس تماش یں جو ت فضول فضول سی باتیں و گئ ، ایسی ب ےم خوش ہ ہ ہ ے ہ ہیں جانتا ک رنڈی ک کوٹھ پر ماں باپ اپنی اوالد یں ورن کون ن ےبینوں کو پسند ے ہ ہ ہ ہ

یں اور مقبروں اور تکیوں میں انسان اپن خدا س ے۔س پیش کروات ے ہ ے ہ ےوا ک ک و ایک یں جانتا لیکن اتنا معلوم ہ بابو گوپی ناتھ کا شجر نسب تو میں ن ہ ہ ہ ہ ہت بڑ کنجوس بنی کا بیٹا باپ ک مرن ک بعد اس دس الکھ کی جائداد ےب ے ے ے ہے ے ے ہ

ش ک مطابق اڑانا شروع کر دی، بمبئ آت وقت و اپن ےملی جو اس ن اپنی خوا ہ ے ے ے ہ ے

زار ساتھ الیا تھا، اس زمان میں سب چیزیں سستی تھیں، لیکن پھر ےساتھ پچاس ہو جات تھ ر روز تقریبا سو سوا سو روپ خرچ ے۔بھی ے ہ ے ہ

زار روپ ا، لیکن شاید تین یں ر ے زینوں کیلئ اس ن فیسٹ موٹر خریدی، یاد ن ہ ہ ہ ے ےےمیں آئی تھی،ایک ڈرائیور رکھا لیکن و بھی لفنگ ٹائپ کا، بابو گوپی ناتھ کو کچھ ہ

ی آدمی پسند تھ ے۔ایس ہ ےماری مالقاتوں کا سلسل بڑھ گیا، بابو گوپی ناتھ س مجھ صرف دلچسپی تھی ے ے ہ ہی وج ک و دوسروں کی ب و گئی تھی، ی ہلیکن اس مجھ س کچھ یوں عقیدت ہ ہ ہے ہ ہ ہ ے ے

ت زیاد احترام کرتا تھا ۔نسبت میرا ب ہ ہاں شفیق کو دیکھ کر ہ ایک روز شام ک قریب جب میں فلیٹ پر گیا تو مجھ و ے ےوں تو شاید آپ سمجھ لیں ک میری وئی، محمد شفیق طوسی ک ہسخت حیرانی ہ ہور آدمی تھ ، کچھ اپنی جدت ےمراد کس آدمی س ، یوں تو شفیق کافی مش ہ ہے ےہطراز گائیکی ک باعث اور کچھ اپنی بذل سنج طبعیت کی بدولت، لیکن اس کی ےیں ک تین سگی ت کم آدمی جانت ہزندگی کا ایک حص اکثریت س پوشید ، ب ہ ے ہ ہے ہ ے ہ

نوں کو یک بعد دیگر تین تین چار چار سال ک وقف ک بعد داشت بنان س ےب ے ہ ے ے ے ے ے ہور ک ت کم مش ل اسکا تعلق ان کی ماں س بھی تھا، ی بھی تھا، ی بھی ب ہپ ہے ہ ہ ہ ہ ے ے ہ

لی بیوی اس لئ پسند ن تھی ک اس میں طوائفوں وال غمز اور ےاس کو اپنی پ ے ہ ہ ے ہت ر آدمی جو شفیق طوسی س تھوڑی ب یں تھ ،لیکن ی تو خیر ہعشو ن ے ہ ہ ے ہ ے

ہےواقفیت بھی رکھتا جانتا ک چالیس برس ی اس زمان کی عمر کی عمر میں ے ہ ہ ہے ہےنا، عمد س عمد کھانا ہسیکنٹروں طوائفوں ن اس رکھا، اچھ س اچھا کپڑا پ ے ہ ہ ے ے ے ے

۔کھایاے نفیس س نفیس موٹر رکھی مگر اس ن اپنی گر س کسی طوائف پر ایک ہ ے ے

۔دمڑی بھی خرچ ن کی ہوں، اس ک بذل سبخ طبعیت میں ہ عورتوں کیلئ خاص طور پر جو ک پیش ور ے ہ ہ ہ ے

ت جاذب نظر تھی، و کوشش کئ ےجس میں میراثنوں ک مزاج کی جھلک تھی، ب ہ ہ ے۔بغیر ان کو اپنی طرف کھینچ لیتا تھا

نس کر زینت س باتیں کرت دیکھا تو مجھ اس لئ نس ے میں ن جب اس ے ے ے ہ ہ ے ےاں ا ، میں ن صرف اتنا سوچا ک و دفعت ی وئی ک و ایسا کیوں کر ر ہحیرت ن ہہ ہ ہ ے ہے ہ ہ ہ ہ ہ

نچا کیس ، سینڈو اس جانتا تھا، مگر ان کی بول چال تو ایک عرص س بند ےپ ے ے ے ہی اس ساتھ الیا تھا، ان دونوں میں وا ک سینڈو ےتھی لیکن بعد میں مجھ معلوم ہ ہ ہ ے

و گئی تھی ۔صلح صفائی ہیں ل ذکر ن ا تھا، میں ن شاید اس س پ ہ بابو گوپی ناتھ ایک طرف بیٹھا حق پی ر ے ہ ے ے ہ ہ

یں پیتا تھا، محمد شفیق طوسی میراثنوں ک لطیف سنا ےکیا، و سگریٹ بالکل ن ے ہ ہی تھی، ت زیاد دلچسپی ل ر ا تھا، جس میں زینت کسی قدر کم اور سردار ب ہر ے ہ ہ ہا بسم الل بسم الل کیا آپ کا گزر بھی اس وادی میں ہشفیق ن مجھ دیکھا اور ک ہ ہ ے ے

ہے۔وتا ہاں دھڑن تخت ا تشریف ل آئی عزرائیل صاحب ی ہ۔ سینڈو ن ک ہ ے ے ہ ے

۔ میں اس کا مطلب سمجھ گیای، میں ن نوٹ کیا ک زینت اور محمد شفیق طوسی وتی ر ہ تھوڑی دیر گپ بازی ے ہ ہ

یں زینت اس فن میں بالکل ی یں آپس میں ٹکرا کر کچھ اور بھی ک ر ہکی نگا ہ ہہ ہ

ی، سردار ارت زینت کی خامیوں کو چھپاتی ر ہکوری تھی، لیکن شفیق کی م ہی تھی جسی خلیف اکھاڑ ےدونوں کی ناگا بازی کو کچھ اس انداز س دیکھ ر ے ے ہ ے ہ

یں ر بیٹھ کر اپن پھٹوں ک داؤں پیچ کو دیکھت ۔ک با ہ ے ے ے ہ ےو گیا تھا، و مجھ بھائی ے اس دوران میں میں بھی زینت س کافی ب حد تکلف ہ ہ ے ےیں تھا، اچھی ملنسار طبعیت کی عورت تھی، ت تھی، جس پر مجھ اعتراض ن ہک ے ے ہ

۔کم گو، سادھ لوح، صاف ستھرییں آئی تھی، اول تو اس میں بھونڈا ہ شفیق س مجھ اس کی ناگا بازی پسند ن ہ ے ےئی ک اس بات کا بھی اس میں دخل تھا ک و کچھ یوں ک ہپن تھا اس ک عالو ہ ہ ے ہ ہ۔۔۔۔ ے

ر چل گئ تو میں ن شاید بڑی تی تھی، شفیق اور سینڈو اٹھ کر با ےمیر بھائی ک ے ے ہ ہ ےہب رحمی ک ساتھ اس س نگا بازی ک متعلق استفار کیا کیونک فورا اس کی ے ہ ے ے ے

ےآنکھوں میں ی موٹ موٹ آنسو آ گئ اور روتی روتی دوسر کمر میں چلی ے ے ے ے ہا تھا، اٹھ کر تیزی س اسک ےگئی، بابو گوپی ناتھ جو ایک کون میں بیٹھا حق پی ر ے ہ ہ ے

ا لیکن مطلب ن ی آنکھوں میں اس س ک ہپیچھ چال گیا سردار ن آنکھوں ہ ے ہ ے ےر نکال اور آئی منٹو صاحب ےسمجھا، تھوڑی دیر ک بعد بابو گوپی ناتھ کمر س با ہ ے ے ے

۔ک کر مجھ اپن ساتھ اندر ل گیا ے ے ے ہہاتھوں س من ڈھانپ کر وا تو دونوں ہ زینت پلنگ پر بیٹھی تھی، میں اندر داخل ے ہ ہ

ےلیٹ گئی، میں اور بابو گوپی ناتھ دونوں پلنگ ک پاس کرسیوں پر بیٹھ گئ ، بابو ےنا شروع کیا منٹو صاحب مجھ اس ےگوپی ناتھ ن بڑی سنجیدگی ک ساتھ ک ہ ے ے

ت محبت ، دو برس س ی میر ساتھ میں حضرت غوث اعظم ہےعورت س ب ے ہ ے ہے ہ ےیں وں ک اس ن مجھ کبھی کسی شکایت کا موقع ن تا ہجیالنی کی قسم کھا کر ک ے ے ہ ہ ہ

نیں، میرا مطلب اس پیش کی دوسری عورتیں دونوں ےدیا، اس کی دوسری ب ہے ہیں ی مگر اس ن کبھی ایک زائد پیس مجھ س ن ہاتھوں س مجھ لوٹ کھاتی ر ے ہ ے ہ ے ے ہا تو اس غریب ن اپنا کوئی فتوں پڑا ر ےلیا میں اگر کسی دوسری عورت ک پاس ہ ہ ےت جلد وں ب ہزیور گروی رکھ کر گزار کیا، میں جیسا ک آپ س ایک دفع ک چکا ہ ہہ ہ ے ہ ہ

مان ، میں وں، میری دولت اب کچھ دن کی م ون واال ہےاس دنیا س کنار کش ہ ہ ے ہ ہ ےت سمجھایا ک تم ور میں اس کو ب و میں ن ال تا اس کی زندگی خراب یں چا ہن ہ ہ ے ہ ہ ہیں سیکھو، میں آج دولت ہدوسری طوائفوں کی طرف دیکھوں جو کچھ و کرتی ہ

ونا ، تم لوگوں کی زندگی میں صرف ایک امیر کافی وں کل مجھ بھکاری ہےمند ہ ے ہیں چل گا، لیکن منٹو یں پھانسو گی تو کام ن یں ، میر بعد تم کسی اور کو ن ےن ہ ہ ے ہے ہ

ہصاحب اس ن میری ایک ن سنی، سارادن شریف زادیوں کی طرح گھر میں بیٹھی ےا بمبئی ل جاؤ اس تی ، میں ن غفار سائیں س مشور کیا ، اس ن ک ےر ے ہ ے ہ ے ے ہے ہ

ا بمبئی میں اس کی دو جانن والی طوائفیں ےمعلوم تھا اس ن ایسا کیوں ک ہ ےیں اس و گئ یں لیکن میں ن سوچا بمبئی ٹھیک دو پمین وئی ےایکڑیس بنی ہ ے ہ ے ہے ے ہ ہ

ور س بالیا ک اس کو سب گر سکھائ ، غفار وئ ، سردار کو ال اں الئ ےی ہ ہے ے ہ ے ہ ے ہیں جانتا ، اس کو ی اں مجھ کوئی ن ت کچھ سیکھ سکتی ی ہسائیں س بھی ی ب ہ ے ہ ہے ہ ہ ےا تم چھوڑ اس کو بمبئی و گی، میں ن ک ہخیال تھا ک بابو گوپی ناتھ کی ب عزتی ے ہ ے ہ

یں ر الکھوں رئیس ت بڑا ش ۔ب ہ ہے ہ ہ

منٹو صاحب میں یں موٹر ل دی کوئی اچھا آدمی تالش کر اور ۔۔۔۔۔۔۔ میں ن تم ہے ے ہ ےو جائ ش ک ی اپن پیروں پر کھڑی و میری دلی خوا تا ےخدا کی قسم کھا کر ک ہ ے ہ ہ ہے ہ ہ ہ

زار روپ جمع ی بنک میں دس و جائ ، میں اس ک نام آج وشیار ے، اچھی طرح ہ ہ ے ے ہ ہوئی ر بیٹھی و، مگر مجھ معلوم دس دن ک اندر اندر ی با ہکران کو تیار ہ ہ ے ہے ے ہ ے

آپ بھی اس ےسردار اس کی ایک ایک پائی اپنی جیب میں ڈال ل گی ۔۔۔۔۔ ےےسمجھائی ک چاالک بنن کی کوشش کر جب س موٹر خریدی ، سردار اس ہے ے ے ے ہ ے

وئی ، سینڈو آج یں یں ابھی بھی کامیابی ن ہےر روز شام کو اپو لو بندر ل جات ہ ہ ہ ے ے ہاں الیا ، آپ کا کیا خیال اس ک متعلق ۔بڑی مشکل س محد شفیق کو ی ے ہے ہے ہ ے

ا اچھا کھاتا پیتا ی ک یں کیا،لیکن بابو گوپی ناتھ ن خود ر ن ہ میں ن اپنا خیال ظا ہ ے ہ ہ ےیں؟ پسند تم کیوں زینو جانی وتا اور خوبصورت بھی ہآدمی معلوم ہے ۔۔۔۔۔ ہے۔۔۔۔۔ ہے ہ

ی ۔ زینو خاموش ر ہوئی ہ بابو گوپی ناتھ س جب مجھ زینت کو بمبئی الن کی غرض و غایت معلوم ے ے ے

و سکتا لیکن بعد میں ہےتو میرا دماغ چکرا گیا، مجھ یقین ن آیا ک ایسا بھی ہ ہ ہ ےد ن میری حیرت دور کر دی، بابو گوپی ناتھ کی دلی آرزو تھی ک زینت ہمشا ے ے ہ

ےبمبئی میں کسی اچھ مالدار آدمی کی داشت بن جائ یا ایس طریق سیکھ ل ، ے ے ے ہ ےو سک ن میں کامیاب ے۔جس س و مختلف آدمیوں س روپی وصول کر ت ر ہ ے ہ ے ہ ے ہ ے

یں تھی، و تو ی کوئی اتنی مشکل چیز ن ی حاصل کرنا ہ زینت س صرف چھٹکارا ہ ہ ہ ےی دن میں ی کام کر سکتا تھا چونک اس کی نیت صاف تھی ہبابو گوپی ناتھ ایک ہ ہ

ر ممکن کوشش کی، اس کو ایکٹریس ہاس لئ اس ن زینت ک مستقبل کیلئ ے ے ے ےےبنان کیلئ اس ن کئی جعلی ڈائریکٹروں کی دعوتیں کیں، گھر میں ٹیلیفون لگوا ے ے

۔دیا اونٹ کسی کروٹ ن بیٹھا ہا کئی راتیں بھی اس ن زینت ک ساتھ ے محمد شفیق طوسی تقریبا ڈیڑھ ما آتا ر ے ہ ہارا بن سک ، بابو گوپی ےبستر کیں لیکن و ایسا آدمی ن تھا جو کسی عورت کا س ہ ہ ہا شفیق صاحب تو خالی خولی جنٹل ہناتھ ن ایک روز افسوس اور رنج ک ساتھ ک ے ے

ی نکل ے۔مین ہے ھس دیکھئی ،لیکن ب چاری زینت س چار چادریں چھ تکئی ک غالف اور دو ے ے ے ے ہتیا کر ل گئ ، سنا آج کل ایک لڑکی الماس س عشق لڑا ر ہےسو روپ نقد ے ہے ے ے ہ ے

۔یں ہے ی درست الماس نذیر جان پٹیال والی کی سب س چھوٹی اور آخری لڑکی ے ہے ہ

یں، دو سو روپ جو اس ن نیں شفیق کی داشت ر چکی ل تین ب ےتھی، اس س پ ے ہ ہ ہ ہ ے ہ ےنوں ک ساتھ لڑ وئ تھ ، ب ےزینت س لئ تھ مجھ معلوم الماس پر خرچ ہ ے ے ہ ہے ے ے ے ے

ر کھا لیا تھا ۔جھگڑ کر الماس ن ز ہ ےے محمد شفیق ن جب آنا جانا بند کر دیا تو زینت ن مجھ کئی ٹیلی فون کئی اور ے ے ےا اس ڈھونڈ کر میر پاس الئی ، میں ن اس تالش کیا لیکن کسی کو اس کا ےک ے ے ے ے ہوئی، میں تا ، ایک روز اتفاقی ریڈیو اسٹیشن پر مالقات اں ر یں تھا ک و ک ہپت ن ہ ہے ہ ہ ہ ہ ہ ہ

یں زینت بالتی تو اس ن جواب دیا، مجھ ی پیغام اور ا ک تم ہن اس س ک ے ے ہے ہ ہ ہ ے ےیں ، زینت ہےذریعوں س بھی مل چکا افسوس آج کل مجھ بالکل فرصت ن ہ ے ہے ہے ے

ایسی عورتوں س جو ت اچھی عورت لیکن افسوس ک ب حد شریف ےب ہے۔۔۔۔۔ ے ہ ہے ہے ہیں ۔بیویوں جسی لگیں مجھ کوئی دلچسپی ن ہ ے

وئی تو زینت ن سردار ک ساتھ پھر اپولو بندر جانا ے شفیق س جب مایوسی ے ہ ےےشروع کیا، پندر دنوں میں بڑی مشکلوں س کئی گیلن پیٹرول پھونکن ک بعد ے ے ہ

ےسردار ن دو آدمی پھانس ، ان س زینت کو چار سو روپ مل ، بابو گوپی ناتھ ے ے ے ےیں، کیونک ان میں س ایک ن جو ریشمی کپڑوں ےن سمجھا ک حاالت امید افزا ے ہ ہ ہ ے

ین گزر گیا ا تھا میں تم س شادی کروں گا، ایک م ہکی مل کا مالک تھا زینت س ک ہ ے ہ ے۔لیکن ی آدمی پھر زینت ک پاس ن آیا ہ ے ہ

ا تھا ک مجھ فٹ پاتھ ک ار بنی روڈ پر جا ر ے ایک روز میں جان کس کام س ے ہ ہ ہ ے ےوٹل کا مالک، ہپاس زینت کی موٹر نظر آئی پچھلی نشست پر یاسین بیٹھا تھا، نگین ہ

اں س لی؟ ےمیں ن اس س پوچھا، ی موٹر تم ن ک ہ ے ہ ے ےو موٹر والی کو ۔ یاسین مسکرایا تم جانت ہ ے

وں ا جانتا ۔ میں ن ک ہ ہ ےاچھی لڑکی یار ۔ تو بس سمجھ لو میری پاس کیس آئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ے

۔ یاسین ن مجھ آنکھ ماری میں مسکرایا ۔ ے ےے اس ک عین چوتھ روز بابو گوپی ناتھ ٹیکسی پر میر دفتر میں آیا اس س ے ے ے

وئی، ایک شام اپولو بندر وا ک زینت س یاسین کی مالقات کیس ہمجھ معلوم ے ے ہ ہ ےوٹل میں گئیں، و آدمی کسی بات پر ہس ایک آدمی ل کر سردار اور زینت نگین ہ ہ ے ے

و گی وٹل ک مالک س زینت کی دوستی ۔جھگڑا کر ک چال گیا، لیکن ہ ے ے ہ ےے بابو گوپی ناتھ مطمئن تھا کیونک دس پندر روز کی دوستی ک دوران میں یاسین ہ ہی عمد اور قیمتی ساڑیاں ل دی تھیں، بابو گوپی ناتھ اب ی ت ہن زینت کو چھ ب ے ہ ہ ہ ےو ا تھا ک کچھ دن اور گزر جائیں زینت اور یاسین کی دوستی اور مضبوط ہسوچ ر ہ ہ

وا مگر ایسا ن ور واپس چال جائ ۔جائ تو ال ہ ہ ے۔۔۔۔۔ ہ ےوٹل میں ایک کرسچن عورت ن کمر کرائ پر لیا، اس کی جوان لڑکی ے نگین ہ ے ہ ہ

تی وٹل میں بیٹھی ر ہمیوریل س یاسین کی آنکھ لڑ گئی، چنانچ زینت ب چاری ہ ے ہ ےتا، بابو گوپی ناتھ کو ہاور یاسین اس کی موٹر میں صبح شام اس لڑکی کو گھماتا ر

ا منٹو صاحب ی کیس لوگ وا،اس ن مجھ س ک ت دکھ ون پر ب ےاس کا علم ہ ہ ے ے ہ ہ ے ہو گیا تو صاف ک دو، لیکن زینت بھی عجیب ، اچھی طرح ہےیں، بھئی دل اچاٹ ہہ ہے ہ ہ

تی میاں اگر تم اس کرسٹان یں ک ا ، مگر من س اتنا بھی ن و ر ہمعلوم کیا ہ ے ہ ہے ہ ہ ہےہےچھوکری س عشق لڑانا تو اپنی موٹر کا بندوبست کرو، میری موٹر کیوں ےمیں کیا کروں منٹو صاحب شریف اور نیک بخت عورت و ہے۔۔۔۔۔۔استعمال کرت ۔۔۔۔ ہ ے

ئی یں آتا ، تھوڑی سی چاالک تو بننا چا ے۔کچھ سمجھ میں ن ہ ہے ہون پر زینت ن کوئی صدم محسوس ن کیا ۔ یاسین س تعلق قطع ہ ہ ے ے ہ ے

وا وئی، ایک دن ٹیلی فون کیا تو معلوم ت دنوں تک کوئی نئی بات وقوع پذیر ن ہ ب ہ ہ ہور چال گیا ، روپ کا ےبابو گوپی ناتھ غالم علی اور سائیں غفار ک ساتھ ال ہے ہ ے

یں، جات وقت و زینت س ک گیا و چک زار ختم ہہبندوبست کرن کیونک پچاس ے ہ ے ہ ے ہ ہ ہ ےور میں زیاد دن لگیں گ کیونک اس چند مکان فروخت کرن پڑیں ےتھا ک اگر ال ے ہ ے ہ ہ ہ

ے۔گہ سردار کو موفیا ک ٹیکو کی ضرورت تھی، سینڈو کو پولس مکھن کی، چنانچ ےےدونوں ن متحد کوشش کی اور روز دو تین آدمی پھانس کر ل آت ، زینت س ے ے ہ ے

ئی ، سو سوا یں آت اس لئ اپنی فکر کرنی چا ا گیا، ک بابو گوپی ناتھ واپس ن ےک ہ ے ے ہ ہ ہ

یں باقی سینڈو یں جس میں س آدھ زینت کو ملت و جات ہسو روپ روز ک ے ے ے ہ ے ہ ے ےیں ۔اور سردار دبا لیت ہ ے

و ی ا ی تم کیا کر ر ۔ میں ن ایک دن زینت س ک ہ ہ ہ ہ ے ےیں بھائی جان، ی لوگ جو کچھ کرن ا مجھ معلوم ن ڑ پن س ک ے اس ن بڑ ال ہ ہ ے ہ ے ہ ے ے

وں یں مان لیتی ت ۔کیلئ ک ہ ہ ے ہ ےیں و ٹھیک ن ی تا تھا ک دیر تک پاس بیٹھ کر سمجھاؤں ک جو کچھ تم کر ر ہ جی چا ہ ہ ہ ہ ہ

ہے۔یں بیچ بھی ڈال لیں گ ، مگر میں ے سینڈو اور سردار پنا الو سیدھا کرن کیلئ تم ہ ے ے

ا، زینت اکتا دین والی حد تک ب سمجھ، ب امنگ اور جان عورت ےن کچھ ن ک ے ے ہ ہ ےیں تھی، ہتھی، اس کم بخت کو اپنی زندگی کی کچھ قدر و قمیت و قیمت معلوم ن

ت وتا، والل مجھ ب ہجسم بیچتی مگر اس میں بیچن والوں کا کوئی انداز تو ے ہ ہ ےوئی اس دیکھ کر، سگریٹ س ، شراب س کھان س ، گھر میں ےکوفت ے ے ے ے ہ

تی تھی، اس ےٹیلیفون س ، حتی ک اس صوف س بھی جس پر و اکثر لیٹی ر ہ ہ ے ے ہ ےیں تھی ۔کوئی دلچسپی ن ہ

ی اں فلیٹ میں کوئی اور م گیا تو و ین بعد لوٹا، تا ہ بابو گوپی ناتھ پور ایک م ہ ہ ے ہ ےےتھا، سینڈو اور سردار ک مشور س زینت ن باندر میں ایک بنگل کا باالئی ہ ے ے ے ے

ہحص کرائ پر ل لیا تھا، بابو گوپی ناتھ میر پاس آئ تو میں ن پورا پت بتا دیا، ے ے ے ے ے ہہہاس ن مجھ س زینت ک متعلق پوچھا، جو کچھ مجھ معلوم تھا میں ن ک دیا ے ے ے ے ے

یں ا ک سینڈو اور سردار اس س پیش کرا ر ۔لیکن ی ن ک ہ ہے ہ ے ہ ہ ہ ہزار اپن ساتھ الیا تھا،جو اس ن بڑی مشکلوں س ے بابو گوپی ناتھ اب کی دس ے ے ہ

ور میں چھوڑ آیا تھا، ٹیکسی نیچ ےحاصل کیا تھا، غالم علی اور غفار سائیں کو و ال ہ ہ۔کھڑی بابو گوپی ناتھ ن اصرار کیا ک میں ابھی اس ک ساتھ چلو ے ہ ے ہے

ی تھی ک ل پر ٹیکسی چڑھ ر نچ گئ ، پالی م باندر پ ہ قریبا ایک گھنٹ میں ہ ہ ے ہ ہ ہ ے۔سامن تنگ سڑک پر سینڈو دکھائی دیا، بابو گوپی ناتھ ن زور س پکارا سینڈو ے ے ےے سینڈو ن جب بابو گوپی ناتھ کو دیکھا تو اس ک من س صرف اس قدر نکال ہ ے ے

ہ۔دھڑن تختا آؤ ٹیکسی میں بیٹھ جاؤ اور ساتھ چلو لیکن سینڈو ہ بابو گوپی ناتھ ن اس س ک ے ےا ٹیکسی ایک طرف کھڑی کیجئی ، مجھ آپ س کچھ پرائیوٹ باتیں کرنی ےن ک ے ے ہ ے

۔یں ہر نکال تو سینڈو اس کچھ دور ے ٹیکسی ایک طرف کھڑی کی گئی، بابو گوپی ناتھ با ہ

وئیں تو بابو گوپی ناتھ اکیال یں، جب ختم وتی ر ہل گیا، دیر تک ان میں باتیں ہ ہ ےا واپس چلو، بابو گوپی ناتھ خوش تھا، ہٹیکسی کی طرف آیا، ڈرائیور س اس ن ک ے ے

ون والی ، ا منٹو صاحب زینو کی شادی نچ تو اس ن ک ہےم داور ک پاس پ ے ہ ہ ے ے ہ ے ہا کس س ؟ ےمیں ن حیرت س ک ہ ے ے

ے بابو گوپی ناتھ ن جواب دیا حیدرآباد سندھ کا ایک دولت مند زمیندار ، خدا کر ہے ےنچا، جو روپ میر یں، ی بھی اچھا جو میں عین وقت پر آ ن پ ےدونوں خوش ر ے ہ ہے ہ ہ

کیوں کیا خیال آپ کا ز بن جائ گا یں ان س زینو کا ج ۔پاس ہے ۔۔۔۔۔۔ ے ہ ے ہا تھا، ک ی حیدرآباد یں تھا، میں سوچ ر ہ میر دماغ میں اس وقت کوئی خیال ن ہ ہ ہ ے

ہےسندھ کا دولت مند زمیندار کون ؟ سینڈو اور سردار کی کوئی جعل سازی تو ہے

و گئی ک و حقیقتا حیدرآباد کا متمول زمیندار یں لیکن بعد میں اس کی تصدیق ہن ہ ہ ہی ک ایک میوزک ٹیچر کی معرفت زینت س متعارف ےتھا، جو حیدر آباد سندھی ے ہ

ےوا، ی میوزک ٹیچر زینت کا گانا سکھان کی ب سود کوشش کیا کرتا تھا، ایک روز ے ہ ہےی اپن مربی غالم حسین ی حیدر آباد سندھ ک رئیس کا نام تھا، کو ساتھ ل کر ے ہ ے ہ

ےآیا، زینت ن خوب خاطرمدارات کی غالم حسین کی پر زور فرمائش پر اس ن ےغالب کی غزل

ے نکت چیں غم دل اس کو سنائ ن بنن ہ ے ہے ہو گیا، اس کو ذکر میوزک ہ گا کر سنائی، غالم حسین سو جان س اس پر فریفت ہ ے

ہٹیچر ن زینت س کیا، سردار اور سینڈو ن مل کر معامل پکا کر دیا اور شادی ے ے ےو گئی ۔ط ہ ے

ے بابو گوپی ناتھ خوش تھا ایک دفع سینڈو ک دوست کی حیثیت س و زینت ک ہ ے ے ہوئی اس س مل کر بابو گوپی ناتھ کی ےاں گیا، غالم حسین س اس کی مالقات ہ ے ہ

ا منٹو صاحب خوبصورت جوان اور و گئی، مجھ اس ن مجھ س ک ہخوشی دوگنی ے ے ہداتا گنج بخش ک حضور جا کر دعا ی اں آت میں ن ی ےبڑا الئق آدمی ۔۔۔۔۔۔۔ ہ ے ہ ے ہے۔۔۔۔

یں بھگوان کر دنوں خوش ر وئی ۔مانگی تھی جو قبول ہ ے ۔۔۔۔۔۔ ہے بابو گوپی ناتھ ن بڑ خلوص اور بڑی توج س زینت کی شادی کا انتظام کیا، دو ہ ے ے

زار نقد دئی زار ک کپڑ دئی اور پانچ ے۔زار ک زیور اور دو ہ ے ے ے ہ ے ہوٹل، سینڈو، میوزک ٹیچر اور ہ محمد شفیق طوسی، محمد یاسین پروپرائیٹر نگین ہ

ن کی طرف س سینڈو وکیل تھا ۔بابو گوپی ناتھ شادی میں شامل تھ ، دول ے ہ ےا دھڑن تخت ست س ک وا تو سینڈو ن آ ہ۔ ایجاب و قبول ہ ے ہ ہ ے ہ

ن تھا، سب ن اس کو مبارک باد دی جو اس ن ے غالم حسین سرج کا نیال سوٹ پ ے ے ہےخند پیشانی س قبول کی، کافی وجی آدمی تھا، بابو گوپی ناتھ اس ک مقابل ے ہہ ے ہ

وتا تھا ۔میں چھوٹی سی بٹیر معلوم ہیا ہ شادی کی دعوتوں پر خوردو نوش کا جو سامان بھی تھا، بابو گوپی ناتھ ن م ے

اتھ وئ تو بابو گوپی ناتھ ن سب ک ہکیا تھا، دعوت س جب لوگ فارغ ے ے ے ہ ےبچوں ک س انداز اتھ دھون گیا تو اس ن مجھ س ےدھلوائ ، میں جب ے ے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ے ے ہ ے

ن ک لباس میں کیس ا، منٹو صاحب ذرا اندر جائی اور دیکھئ زینو دول ےمیں ک ہ ے ے ہہے۔لگتی

ن تھی وا، زینت سرخ زر بفت کا شلوار کرت پ ٹا کر اندر داخل ۔۔۔۔۔ میں پردھ ے ہ ہ ہ ہلکا میک اپ تھا، لکا ر پر ہدوپٹ بھی اس رنگ کا تھا، جس پر گوٹ لگی تھی، چ ہ ے ہ ہ

وتی تھی، مگر ت بری معلوم ونٹوں پر لپ اسٹک کی سرخی ب ہحاالنک مجھ ہ ہ ے ہت پیاری وئ تھ ، اس ن شرما کر مجھ آداب کیا تو ب ونٹ سج ہزینت ک ے ے ے ے ہ ے ہ ے

ری دیکھی جس پر پھول پھول ہلگی، لیکن جب میں ن دوسر کون میں ایک مس ے ے ےا ی کیا مسخر پن نسی آ گئی، میں زینت س ک ہے۔تھ تو مجھ ب اختیار ہ ہ ہ ے ہ ے ے ے

یں بھائی ہ زینت ن میری طرف بالکل کبوتری کی طرح دیکھا ، آپ مذاق کرت ے ےا اور آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئ ے۔جان،اس ن ی ک ہ ہ ے

وا، بڑ وا تھا ک بابو گوپی ناتھ اندر داخل ے مجھ اس غلطی کا احساس بھی ن ہ ہ ہ ہ ےےپیار س اس ن اپن رومال ک ساتھ زینت ک آنسو پونچھ اور بڑ دکھ ک ے ے ے ے ے ے ے

ا منٹو صاحب میں سمجھتا تھا آپ بڑ سمجھ دار اور الئق آدمی ےساتھ مجھ س ک ہ ےوتا ل آپ ن کچھ سوچ لیا ۔یں زینو کا مذاق اڑان س پ ہ ے ے ہ ے ے ۔۔۔۔۔ ہ

ج میں و عقیدت جو اس مجھ س تھی، زخمی نظر آئی ے بابو گوپی ناتھ ک ل ے ہ ے ہ ےاتھ ہلیکن پیشتر اس ک ک میں اس س معافی مانگوں، اس ن زینت ک سر پر ے ے ے ہ ہ

یں خوش رکھ ، خدا تم ے۔پھیرا اور بڑ خلوص ک ساتھ ک ہ ہ ے ےوئی آنکھوں س میری طرف دیکھا ان میں ے ی ک کر بابو گوپی ناتھ ن بھیگی ہ ے ہہ ہ

اور چال گیا ی دکھ بھری مالمت ت ۔مالمت تھی ب ۔۔۔۔۔۔ ہ ہ ۔۔۔۔۔

مزدوریو گیا جب چاروں طرف آگ ہلوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا اس گرمی میں اضاف ہ ۔ا تھا “جب ارمونیم کی پیٹی اٹھائ خوش خوش گاتا جا ر ۔بھڑکن لگی ایک آدمی ہ ے ہ ۔ ے

” ایک چھوٹی مارا ی گئ پردیس لگا ک ٹھیس، او پیتم پیارا، دنیا میں کون ۔تم ہ ے ے ہا تھا، ٹھوکر لگی تو پاپڑوں ہعمر کا لڑکا جھولی میں پاپڑوں کا انبار ڈال بھاگا جا ر ےےکی ایک گڈی اس کی جھولی میں س گر پڑی، لڑکا اس اٹھان ک لیئ جھکا تو ے ے ے ے

ن ا ر وئی تھی، اس س ک ےایک آدمی ن جس ن سر پر سالئی مشین اٹھائی ہ ۔ ہ ے ہ ے ےی بھن جائیں گ ن د اپن آپ ے۔دی بیٹا!ر ہ ے ے۔ ے ہ ے

وئی بوری گری ایک شخص ن جلدی س بڑھ کر ے بازار میں دھب س ایک بھری ے ۔ ہ ےےاپن چھر س اس کا پیٹ چاک کیا آنتوں ک بجائ شکر، سفید دانوں والی شکر ے ۔ ے ے ے

و گئ اور اپنی جھولیاں بھرن لگ ایک آدمی ر نکل آئی لوگ جمع ے۔ابل کر با ے ے ہ ۔ ہبند کھوال وار مٹھیاں بھر بھر کر اس میں ہکرت ک بغیر تھا، اس ن جلدی س اپنا ت ے ے ے ے

وا ٹ جاؤ” ایک تانگ تاز تاز روغن شد الماریوں س لدا ٹ جاؤ، ہڈالن لگا “ ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔ ے۔گزر گیا

ر نکال، شعل کی وا با ے اونچ مکان کی کھڑکی میں س مل مل کا تھان پھڑپھڑاتا ہ ہ ے ےنچا تو راکھ کا ڈھیر تھا “پوں پوں، پوں ول اس چاٹا سڑک تک پ ول ۔زبان ن ہ ۔ ے ے ہ ے ہ ے

ارن کی آواز ک ساتھ دو عورتوں کی چیخیں بھی تھیں ۔پوں” موٹر ک ے ہ ےر نکاال اور الٹھیوں کی مدی ہ لو کا ایک سیف دس پندر آدمیوں ن کھینچ کر با ے ہ ہے

۔س اس کو کھولنا شروع کیا ے

اتھوں پر اٹھائ اپنی تھوڑی س ان کو ے کاؤ اینڈ کیٹ، دودھ ک کئی ٹیں دونوں ے ہ ےست بازار میں چلن لگا ست آ ر نکال اور آ ارا دی ایک آدمی دوکان س با ۔س ے ہ ہ ہ ہ ہ ے ے ہ

ے بلند آواز آئی، “آؤ وؤ لیمونیڈ کی بوتلیں پیو، گرمی کا موسم ” گل میں موٹر کا ہےوئ آدمی ن دو بوتلیں لیں اور شکری ادا کی بغیر چل دیا ۔ٹائر ڈال ے ہ ے ے ہ ے

ے ایک آواز آئی” کوئی آگ بجھان والوں کو تو اطالع کر د ، سارا مال جل جائ ے ے” کسی ن اس مشور کی طرف توج ن دی، لوٹ کھسوٹ کا بازار اسی طرح ہگا ہ ے ے ۔

ا اور اس گرمی میں چاروں طرف بھڑکن والی آگ بدستور اضاف کرتی ہگرم ر ے ہت دیر ک بعد تڑ تڑ کی آواز آئی گولیاں چلن لگیں پولیس کو بازار خالی ی ب ۔ر ے ۔ ے ہ ۔ ہ۔نظر آیا، لیکن دور دھوئیں میں ملفوف موڈ ک پاس ایک آدمی کا سای دکھائی دیا ہ ے

ی سیٹیاں بجات اس کی طرف لپک سای تیزی س دھوئیں ک ےپولیس ک سپا ے ہ ے۔ ے ہ ےی بھی اس ک تعاقب میں گئ دھوئیں کا عالق ہاندر گھس گیا تو پولیس ک سپا ے۔ ے ہ ے

یوں ن دیکھا ک ایک کشمیری مزدور پیٹھ پر وزنی بوری وا تو پولیس ک سپا ہختم ے ہ ے ہا ہے۔اٹھائ بھاگا چال جا ر ہ ے

و گئ مگر و مزدور ن رکا اس کی پیٹھ پر وزن تھا وزن ۔ سیٹیوں ک گل خشک ۔ ہ ہ ے ہ ے ےا تھا جیس پیٹھ پر وئی بوری تھی مگر و یوں دوڑ ر یں ، ایک بھری ےمعمولی ن ہ ہ ہ ہ

یں ی ن ۔کچھ ہ ہ ہےانپن لگ ایک ن تنگ آ کر پستول نکاال اور داغ دیا گولی کشمیری ی ۔ سپا ے ے۔ ے ہ ہ

ےمزدور کی پنڈلی میں لگی بوری اس کی پیٹھ س گر پڑی، گھبرا کی اس ن اپن ے ے ۔وئ خون کی طرف بھی اس ن غور کیا ت یوں کو دیکھا پنڈلی س ب ےپیچھ سپا ے ہ ے ہ ے ۔ ہ ےیوں ی جھٹک س بوری اٹھائی اور پیٹھ پر ڈال کر پھر بھاگن لگا سپا ہلیکن ایک ۔ ے ے ے ہ

وں ن اس پکڑ لیا نم میں جائ ” مگر پھر ان ۔ن سوچا، “جان دو، ج ے ے ہ ے ہ ے ےا ا ک ہ راست میں کشمیری مزدور ن بار ہ ے ہے “حضرت ! آپ مجھ کیوں پکڑتی ،ـے ے

وتی، چاول کی ایک بوری لیتی، گھر میں کھاتی آپ ناحق ۔میں تو غریب آدمی ہ” لیکن اس کی ایک ن سنی گئی ۔مجھ گولی مارتی ہ ۔ ے

ا حضرت! دوسرا ت کچھ ک ۔ تھان میں کشمیری مزدور ن اپنی صفائی میں ب ہ ہ ے ےت غریب ہلوگ بڑا بڑا مال اٹھاتی، میں تو ایک چاول کی بوری لیتی حضرت! میں ب ۔

ر روز بھات کھاتی ۔وتی ہ ۔ ہہ جب و تھک گیا تو اس ن اپنی میلی ٹوپی س ماتھ کا پسین پونچھا اور چاولوں ے ے ے ہ

اتھ پھیال وں س دیکھ کر تھان دار ک آگ ہکی بوری کی طرف حسرت بھری نگا ے ے ے ے ہا اچھا حضرت! تم بوری اپن پاس رکھ میں اپنی مزدوری مانگتی، چار آن ے۔کر ک ۔ ے ۔ ہ

کالی شلوارک اں کئی گور اس ک گا ل و انبال چھاؤنی میں تھی، ج لی س آن س پ ہد ے ے ہ ہ ہ ے ہ ے ے ے ہےتھ ان گوروں س ملن جلن ک باعث و انگریزی ک دس پندر جمل سیکھ ہ ے ہ ے ے ے ے ے۔

اں آئی یں کرتی تھی لیکن جب و ی ہگئی تھی ان کو و عام گفتگو میں استعمال ن ہ ہ ہ ۔

ا ” ۔اور اس کا کاروبار ن چال تو ایک روزاس ن اپنی پڑوسن طمنچ جان س ک ہ ے ہ ے ہیں ملتا ی کو ن ، جبک کھان ت بری “ یعنی ی زندگی ب ۔دس لیف…. ویری بیڈ ہ ہ ے ہ ہے ہ ہ ۔

ت اچھا چلتا تھا چھاؤنی ک گور شراب پی کر ے انبال چھاؤنی میں اس کا دھندا ب ے ۔ ہ ہی آٹھ دس گوروں کو نپٹا کر ہاس ک پاس آجات تھ اور و تین چار گھنٹوں میں ہ ے ے ےم وطنوں ک مقابل میں اچھ ، اس ک ےبیس تیس روپ پیدا کرتی تھی ی گور ے ے ہ ے ے ہ ۔ ےیں ک و ایسی زبان بولت تھ جس کا مطلب سلطان ہتھ اس میں کوئی شک ن ے ے ہ ہ ہ ے۔

ت یں آتا تھا مگر ان کی زبان س ی العلمی اس ک حق میں ب ہکی سمجھ میں ن ے ہ ے ہت تو و ک دیا کرتی تھی وتی تھی اگر و اس س کچھ رعایت چا ۔اچھی ثابت ہہ ہ ے ہ ے ہ ۔ ہ“ اور اگر و اس س ضرورت یں آتی اری بات ن ماری سمجھ میں تم ے”صاحب ہ ۔ ہ ہ ہ

ہس زیاد چھیڑ چھاڑ کرت تو و اپنی زبان میں گالیاں دینی شروع کردیتی تھی و ۔ ہ ے ہ ےتی ”صاحب ! تم ایک دم الو کا ۔حیرت میں اس ک من کی طرف دیکھت تو و ک ہ ہ ے ہ ےج میں سختی پیدا ن کرتی بلک بڑ ت وقت و ل “ ی ک ، سمجھا ، حرامزاد ےپٹھا ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ۔ ہے ہےنست وقت و سلطان کو نس دیت اور ہپیار ک ساتھ ان س باتیں کرتی گور ہ ے ہ ے ہ ے ۔ ے ےلی میں و جب س آئی تھی ایک بھی اں د مگر ی ےبالکل الو ک پٹھ دکھائی دیت ہ ہ ہ ے۔ ے ے

و ت ر میں ر ندوستان ک اس ش ین اس کو یں آیا تھا تین م اں ن ہگورا اس ک ی ے ہ ہ ے ہ ے ہ ۔ ہ ہ ےیں مگر صرف چھ آدمیۓگ ت اں اس ن ی سنا تھا ک بڑ الٹ صاحب ر ہ تھ ج ے ہ ے ہ ہ ے ہ ے

گوں س خداۓےاس ک پاس آ ین میں دو اور ان چھ گا ے تھ صرف چھ، یعنی م ہ ے ہ ے۔ے ساڑھ اٹھار روپ وصول کۓہجھوٹ ن بلوا ہ ہ تھ تین روپ س زیاد پر کوئی نۓے ہ ے ے ے۔

ےمانتا تھا سلطان ن ان میں س پانچ آدمیوں کو اپنا ریٹ دس روپ بتالیا تھا مگر ے ے ہ ۔م تین روپ س ایک ا ”بھئی ی ک ر ایک ن ی ےتعجب کی بات ک ان میں س ے ہ ہ ہ ے ہ ے ہ ہےر ایک ن اس تین “ جان کیا بات تھی ک ان میں س یں دیں گ ےکوڑی زیاد ن ے ہ ے ہ ے ے۔ ہ ہ

” دیکھو میں تین ا ۔روپ ک قابل سمجھا چنانچ جب چھٹا آیا تو اس ن خود اس ک ہ ے ہ ۔ ے ےو تو میں ن لوں گی اب ۔روپ ایک ٹیم ک لوں گی؛ اس س ایک دھیال تم کم ک ہ ہ ے ے ے

و ورن جاؤ“ چٹھ آدمی ن ی سن کر تکرار ن کی اور اس و تو ر اری مرضی ہتم ہ ے ے ۔ ہ ہ ہ ہر گیا جب دوسر کمر میں ….درواز بند کرک اپنا کوٹ اتارن لگا تو اں ٹھ ےک ے ہ ے ے ۔ ہ ہ ے

ا ”الی ہسلطان ن ک ے “ اس ن ایک روپی تو ن دیا لیکن نۓہ ہ ایک روپ دودھ کا ہ ے ۔ ہ بادشاۓےوئی چونی جیب میں س نکال کر اس کو د دی اور سلطان ن بھی ےکی چمکتی ہ ے ے ہ

ہے۔چپک س ل لی ک چلو جو آیا مال غنیمت ہ ے ے ےوار تو اس کوٹھ کا ینوں میں…. بیس روپ ما وار تین م ے ساڑھ اٹھار روپ ما ہ ے ہ ہ ے ہ ے

تا تھا اس فلیٹ میں ایسا پاخان ہکرای تھا جس کو مالک انگریزی زبان میں فلیٹ ک ۔ ہ ہےتھا جس میں زنجیر کھینچن س ساری گندگی پانی ک زور س ایک دم نل میں ے ے ے

وتا تھا شروع شروع میں تو اس شور ن اس و جاتی تھی اور بڑا شور ےغائب ے ۔ ہ ہل دن جب و رفع حاجت ک ل ت ڈرایا تھا پ ےب ہ ے ہ ۔ ہ اس پاخان میں گئی تو اس کیۓہ

وئی و کر جب اٹھن لگی تو اس ن لٹکتی ا تھا فارغ و ر ہکمر میں شدت کا درد ے ے ہ ہ ہارا ل لیا اس زنجیر کو دیکھ کر اس ن ی خیال کیا چونک ی مکان ہزنجیر کا س ہ ہ ے ۔ ے ہ

ائش ک ل م لوگوں کی ر ےخاص طور س ہ ہ یں، ی زنجیر اس لۓ گۓکۓ تیار کۓے ہ ۓہی زنجیر ارا مل جایا کر مگر جون و اور س ہلٹکائی گئی ک اٹھت وقت تکلیف ن ے۔ ہ ہ ہ ے ہ ہےوئی اور پھر ایک دم پانی اس شور ا اوپر کھٹ کھٹ سی ہپکڑ کر اس ن اٹھنا چا ہ ےخدا بخش دوسر ر نکال ک ڈر ک مار اس ک من س چیخ نکل گئی ےک ساتھ با ۔ ے ہ ے ے ے ہ ہ ے

ا تھا اور ایک صاف بوتل میں ہکمر میں اپنا فوٹو گرافی کاسامان درست کر ر ےر نکال اور ا تھا ک اس ن سلطان کی چیخ سنی دوڑ کر با ہائیڈرو کونین ڈال ر ۔ ہ ے ہ ہ ہ

ا تھا ”ی “سلطان کا دل دھڑک ر اری تھی وا…. چیخ تم ن لگا ” کیا ہسلطان س ک ۔ ہ ہ ۔ ہ ہ ے ہ ے ہہے۔موا پیخان کیا…. بیچ میں ی ریل گاڑیوں کی طرح زنجیر کیا لٹکا رکھی میری ہ ہے ہ

ارا ل لوں گی پر اس موئی زنجیر کو ا چلو اس کا س ۔کمر میں درد تھا میں ن ک ے ہ ہ ے ۔نسا ت “اس پر خدا بخش ب وں وا ک میں تم س کیا ک ہچھیڑنا تھا ک ایسا دھماکا ہ ۔ ہ ے ہ ہ ہ

ہتھا اور اس ن سلطان کو اس پیخان کی بابت سب کچھ بتا دیا تھا ک ی ن ہ ہ ہ فیشن کاۓےالن س سب گندگی نیچ زمین میں دھنس جاتی ہے۔ جس میں زنجیر ے ے ے ہ ہے

انی خدا وا ی ایک لمبی ک ہے۔ خدابخش اور سلطان کا آپس میں کیس سمبندھ ہ ہ ہ ے ہہبخش راولپنڈی کا تھا انٹرنس پاس کرن ک بعد اس ن الری چالنا سیکھا چنانچ ۔ ے ے ے ۔ا اس ۔چار برس تک و راولپنڈی اور کشمیر ک درمیان الری چالن کا کام کرتا ر ہ ے ے ہ

و گئی اس کو بھگاکر و ہک بعد کشمیر میں اس کی دوستی ایک عورت س ۔ ہ ے ےور میں چونک اس کو کوئی کام ن مال اس ل ور ل آیا ال ہال ہ ہ ۔ ے ے اس ن اس عورت کوۓہ

ا اور و عورت کسی اور ک ےپیش پر بٹھا دیا دو تین برس تک ی سلسل چلتا ر ہ ہ ہ ہ ۔ ےوا ک و انبال میں و اس کی تالش میں ہساتھ بھاگ گئی خدا بخش کو معلوم ہے ہ ہ ہ ہ ۔

ہانبال آیا اس کو سلطان مل گئی سلطان ن اس کو پسند کیا چنانچ دونوں کا ے ہ ۔ ہ ۔ ہو گیا ۔سمبندھ ہ

ہ خدابخش ک آن س ایک دم سلطان کا کاروبار چمک اٹھا عورت چونک ضعیف ۔ ہ ے ے ےے اس ن سمجھا ک خدا بخش بڑا بھاگوان جس ک آن سۓاالعتقاد تھی اس ل ے ے ہے ہ ے

وگئی چنانچ اس خوش اعتقادی ن خدا بخش کی وقعت اس کی ےاتنی ترقی ہ ہ۔نظروں میں اور بھی بڑھا دی

یں کرتا اتھ دھر کر بیٹھنا پسند ن اتھ پر ہ خدا بخش آدمی محنتی تھا و سارا دن ہ ہ ہ ۔ر ہتھا چنانچ اس ن ایک فوٹو گرافر س دوستی پیداکی جو ریلو اسٹیشن ک با ے ے ے ے ہ

۔منٹ کیمر س فوٹو کھینچا کرتا تھا اس س اس ن فوٹو کھینچنا سیکھ لیا پھر ے ے ۔ ے ےست ایک پرد بھی بنوایا ست آ ۔سلطان س ساٹھ روپ ل کر کیمر بھی خرید لیا آ ہ ہ ہ ہ ہ ۔ ہ ے ے ے ہہدو کرسیاں خریدیں اور فوٹو دھون کا سب سامان ل کر اس ن علیحد اپنا کام ے ے ے

۔شروع کردیای عرص بعد اپنا اڈا انبال چھاؤنی میں قائم ہ کام چل نکال چنانچ اس ن تھوڑ ہ ہ ے ے ہ

ین ک اندر اندر اس کی چھاؤنی تا ایک م اں و گوروں ک فوٹو کھینچتا ر ےکردیا ی ے ہ ۔ ہ ے ہ ہ ۔اں چھاؤنی یں ل گیا ی وگئی چنانچ و سلطان کو و ہک متعدد لوگوں س واقفیت ۔ ے ہ ہ ہ ہ ہ ے ے

ک بن گ ہمیں خدا بخش ک ذریع س کئی گور سلطان ک مستقل گا ے ہ ے ے ے اور اسۓےو گئی ل س دو گنی ۔کی آمدنی پ ہ ے ے ہ

ے سلطان ن کانوں ک ل ے ، ساڑھ پانچ تول کی آٹھ کنگنیاں بھیۓہ ہ بند خرید ے ے ےہبنوالیں، دس پندر اچھی اچھی ساڑھیاں بھی جمع کرلیں گھر میں فرنیچر وغیر ۔ ہ

۔بھی آگیا قص مختصر ی ک انبال چھاؤنی میں و بڑی خوش حال تھی مگر ایکا ہ ہ ہ ہ ہ ۔لی جان کی ٹھان لی ۔ایکی ن جان خدا بخش ک دل میں کیا سمائی ک اس ن د ے ہ ے ہ ے ے ہ

ےسلطان انکار کیس کرتی جبک و خدا بخش کو اپن ل ہ ہ ے ت مبارک خیال کرتیۓہ ہ بلی جانا قبول کرلیا بلک اس ن ی بھی سوچا ک اتن ےتھی اس ن خوشی خوشی د ہ ہ ے ہ ہ ے ۔یں اس کا دھندا اور بھی اچھا چل گا اپنی ت اں الٹ صاحب ر ر میں ج ۔بڑ ش ے ہ ے ہ ہ ہ ے

اں حضرت نظام الدین ر کی تعریف سن چکی تھی پھر و لی ش یلیوں س و د ہس ۔ ہ ہ ہ ے ہہاولیاءکی خانقا تھی جس س اس ب حد عقیدت تھی چنانچ جلدی جلدی گھر کا ے ے ے ہنچ کر خدا بخش ن اں پ لی آگئی ی ےبھاری سامان بیچ باچ کر خدا بخش ک ساتھ د ہ ہ ۔ ہ ےایک ن لگ وار پر ایک چھوٹا سا فلیٹ ل لیا جس میں و دونوں ر ے۔بیس روپ ما ے ہ ہ ے ہ ے

ےی قسم ک ن ۔ مکانوں کی لمبی سی قطار سڑک ک ساتھ ساتھ چلی گئی تھیۓہ ےر کا ی حص خاص کسبیوں ک ل ےمیونسپل کمیٹی ن ش ہ ہ ہ رۓے ہ مقرر کردیا تھا تاک و ش ہ ہ

ائشی فلیٹ ہمیں جگ جگ اپن اڈ ن بنائیں نیچ دکانیں تھیں اور اوپر دو منزل ر ہ ے ۔ ہ ے ے ہ ہی ڈیزائن کی تھیں اس ل ہتھ چونک سب عمارتیں ایک ہ شروع شروع میںۓے۔

وتی تھی، پر جب نیچ ت دقت محسوس ےسلطان کو اپنا فلیٹ تالش کرن میں ب ہ ہ ے ہےالنڈری وال ن اپنا بورڈ گھر کی پیشانی پر لگا دیا تو اس کو ایک پکی نشانی مل ے

ی و اپنا فلیٹ “ ی بورڈ پڑھت اں میل کپڑوں کی دھالئی کی جاتی ہگئی ” ی ہ ے ہ ۔ ہے ے ہ ۔ت سی نشانیاں قائم کرلی تھیں اسی طرح اس ن اور ب ہتالش کرلیا کرتی تھی ے ۔

یرا یلی اں اس کی س اں کوئلوں کی دکان لکھا تھا و ہمثال بڑ بڑ حروف میں ج ہ ہ ہ ے ےاں ” شرفاءک تی تھی جو کبھی کبھی ریڈیو میں گان جایا کرتی تھی ج ےبالی ر ہ ۔ ے ہ

تی تھی یلی مختار ر اں اس کی دوسری س “ لکھا تھا و ۔کھان کا اعلی انتظام ہ ہ ہ ہے ےتی تھی جو اس کارخان ک سیٹھ ک پاس ےنواڑ ک کارخان ک اوپر انوری ر ے ے ہ ے ے ے

وتی ہمالزم تھی چونک سیٹھ صاحب کو رات ک وقت کارخان کی دیکھ بھال کرنا ے ے ہت تھۓتھی اس ل ی ر ے۔ و رات کو انوری ک پاس ے ہ ہ ے ہ

ین تک سلطان بیکار یں چنانچ جب ایک م ی آت ک تھوڑ ی گا ہ دکان کھولت ے ہ ہ ۔ ہ ے ہ ے ہ ہ ےین گزر گ ی سوچ کر اپن دل کو تسلی دی پر جب دو م ی تو اس ن ی ےر ہ ے ہ ے اورۓہ

وئی اس ن خدا بخش س ت تشویش ےکوئی اس ک کوٹھ پر ن آیا تو اس ب ے ۔ ہ ہ ے ہ ے ےو گ ین آج پور ا ” کیابات خدا بخش! دو م ہک ے ے ہ ہے ۔ اں آۓہ میں ی یں ہ ہ وۓہ ، کسیۓہ

یں ت مندا پر اتنا بھی تو ن وں آج کل بازار ب یں کیا…. مانتی ی ن ہن ادھر کا رخ ہے ہ ہ ہ ہ ےی دیکھن ن آ ین بھر میں کوئی شکل ہک م ے ہ ے ہ تۓہ ہ“ خدا بخش کو بھی ی بات ب ہ ۔

ی تھی، مگر و خاموش تھا پر جب سلطان ن خود بات چھیڑی ےعرص س کھٹک ر ہ ہ ہ ے ےوں ایک بات میری ا ا ” میں کئی دن س اس کی بابت سوچ ر ۔تو اس ن ک ہ ہ ے ہ ے

ےسمجھ میں آئی و ی ک لوگ باگ جنگ دھندوں میں پڑن کی وج س بھاگ کر ہ ے ہ ہ ہ ہےہدوسر دھندوں میں ادھر کا راست بھول گ و سکتا ک ….“و اسۓے ہ…. یا پھر ی ہ ہے ہ ہ

ی واالتھا ک سیڑھیوں پر کسی ک چڑھن کی آواز آئی خدا ن ۔س آگ کچھ ک ے ے ہ ہ ے ہ ے ےو ہبخش اور سلطان دونوں اس آواز کی طرف متوج ہ ے تھوڑی دیر ک بعد دستکۓہ ۔

ک تھا ال گا وا ی پ ہوئی خدا بخش ن لپک کر درواز کھوال ایک آدمی اندر داخل ہ ہ ۔ ہ ۔ ہ ے ۔ ہوا اس ک بعد پانچ اور آ ےجس س تین روپ میں سودا ط ۔ ہ ے ے ین میںۓے ے یعنی تین م ہےچھ، جن س سلطان ن صرف ساڑھ اٹھار روپ وصول ک ہ ے ے ہ ۔ۓے

وار تو فلیٹ ک کرای میں چل جات تھ پانی کا ٹیکس اور بجلی ے۔ بیس روپ ما ے ے ہ ے ہ ےے۔کا بل جدا تھا اس ک عالو گھر ک دوسر خرچ تھ کھانا پینا کپڑ لت دوا اور ے ے ے ے ہ ے ۔

ینوں میں آئیں تو اس یں ساڑھ اٹھار روپ تین م ےدارو اور آمدن کچھ بھی ن ہ ے ہ ے ۔ ہو گئی ساڑھ پانچ تول کی آٹھ کنگنیاں یں ک سکت سلطان پریشان ےآمدن تو ن ے ۔ ہ ہ ے۔ ہہ ہست بک گئیں آخری کنگنی کی جب باری ست آ ۔جو اس ن انبال میں بنوائیں تھیں آ ہ ہ ہ ہ ہ ے

اں کیا ، ی ا ” تم میری سنو اور چلو واپس انبال ہآئی تو اس ن خدا بخش س ک ہ ۔ ہ ے ے

اں خوب چلتا تھا، چلو اراکام و یں تم ر راس ن میں تو ی ش و گا، پر ہدھرا بھئی ہ ۔ ہ ہ ہ ہ ہ ہے۔وا اس کو اپنا سر صدق سمجھو ی آخری کنگنی بیچ یں، جو نقصان یں چلت ہو ۔ ہ ہے ہ ہ ے ہاں س وں آج را ت کی گاڑی س ی ےکر آؤ میں اسباب وغیر باندھ کر تیار رکھتی ہ ے ۔ ہ ہ

یں جان ا ”ن اتھ س ل لی اور ک “خدابخش ن کنگنی سلطان ک ہچل دیں گ ہ ے ے ہ ے ہ ے ے۔اری چوڑیاں لی میں ر کر کمائیں گ ی تم یں د یں جائیں گ ی ہمن! انبال اب ن ہ ے۔ ہ ہ ہ ے ہ ہ

اں پر یں واپس آئیں گی الل پر بھروس رکھو، و بڑا کارساز ی ہسب کی سب ی ہے۔ ہ ہ ہ ۔ ہی چنانچ آخری کنگنی و ر “سلطان چپ ی د گا ہبھی کوئی ن کوئی اسباب بنا ہ ہ ہ ۔ ے ہ ہ

وتا تھا پر کیا کرتی پیٹ ت رنج اتھ دیکھ کر اس کو ب اتھ س اتر گئی بچ ہبھی ہ ہ ے ۔ ے ہ۔کو بھی آخر کسی حیل بھرنا تھا ے

ین گزر گ ے جب پانچ م ے اور آمدن خرچ ک مقابل میں چوتھائی س بھی کچھ کمۓہ ے ےی تو سلطان کی پریشانی اور زیاد بڑھ گئی خدا بخش بھی سارا دن اب گھر ۔ر ہ ہ ہیں ک ن لگا سلطان کو اس کا بھی دکھ تھا اس میں کوئی شک ن ہس غائب ر ہ ۔ ہ ۔ ے ہ ےہپڑوس میں اس کی دو تین ملن والیاں موجود تھیں جن ک ساتھ و وقت کاٹ ے ے

ت برا لگتا نا اس کو ب اں جانا اور گھنٹوں بیٹھ ر ر روز ان ک ی ہسکتی تھی پر ہ ے ہ ے ہ ۔یلیوں س ملنا جلنا بالکل ترک کردیا سارا دن و ہتھا چنانچ رفت رفت اس ن ان س ۔ ے ہ ے ہ ہ ہتی، کبھی اپن پران اور تی، کبھی چھالی کاٹتی ر ےاپن سنسان مکان میں بیٹھی ر ے ہ ہ ہ ے

تی اور کبھی بالکونی میں آکر جنگل ک پاس کھڑی ےپھٹ پران کپڑوں کو سیتی ر ے ہ ے ےےو جاتی تھی اور سامن ریلو شیڈ میں ساکت اور متحرک انجنوں کی طرف ے ہ

تی ۔گھنٹوں ب مطلب دیکھتی ر ہ ےوا ہ سڑک کی دوسری طرف مال گودام تھا جو اس کون س اس کون تک پھیال ے ے ےر تی تھیں اور اتھ کو لو کی چھت ک نیچ بڑی بڑی گانٹھیں پڑی ر ن ہتھا دا ہ ے ے ہے ہ ے ہ ۔

اتھ کو کھال میدان تھا جس ت تھ بائیں ہقسم ک مال اسباب ک ڈھیر لگ ر ے۔ ے ہ ے ے ےوئی تھیں دھوپ میں لو کی ی پٹڑیاں ہمیں ب شمار ریل کی پٹڑیاں بچھی ہے ۔ ہ ے

اتھوں کی طرف دیکھتی جن پر نیلی نیلی رگیں بالکل ان ہچمکتیں تو سلطان اپن ے ہر وقت انجن تی تھیں اس لمب اور کھل میدان میں ہپٹڑیوں کی طرح ابھری ر ے ے ۔ ہ

تی تھیں کبھی ادھر کبھی ادھر ان انجنوں اور گاڑیوں کی ۔اور گاڑیاں چلتی ر ۔ ہتی تھیں صبح سویر جب و اٹھ ہچھک چھک اور پھک پھک کی صدائیں گونجتی ر ے ۔ ہ

ےکر بالکونی میں آتی تو ایک عجیب سماں اس نظر آتا دھندلک میں انجنوں ک ے ۔ ےےمن س گاڑھا گاڑھا دھواں نکلتا اور گدل آسمان کی جانب موٹ اور بھاری ے ے ہ

ےآدمیوں کی طرح اٹھتا دکھائی دیتا تھا بھاپ ک بڑ بڑ بال بھی ایک عجیب شور ے ے ۔وا ک اندر گھل مل جات تھ پھر ول ول ےک ساتھ پٹڑیوں س اٹھت تھ اور ے ے ہ ے ہ ے ہ ے ے ے ےےکبھی کبھی جب و گاڑی ک کسی ڈب کو جس انجن ن دھکا د کر چھوڑ دیا ے ے ے ے ہےوں اکیل پٹڑیوں پر چلتا دیکھتی تو اس اپنا خیال آتا و سوچتی ک اس بھی ہ ہ ۔ ے ے ہ

ی دوسر لوگ ےکسی ن پٹڑی پر دھکا د کر چھوڑ دیا اور خود بخود جار ہے۔ ہ ہے ے ےاں پھر ایک روز ایسا آ …. ن جان ک ی یں اور و چلی جا ر ۔کانٹ بدل ر ہ ے ہ ہے ہ ہ ہ ہے ہ گا کۓے

وجا ست ختم ست آ ہجب اس دھک کا زور آ ہ ہ ہ ہ یں رک جاۓے ہ گا اور و ک گی کسیۓہیوں تو ب مطلب گھنٹوں ریل کی ان و ےایس مقام پر جو اس کا دیکھا بھاال ن ۔ ہ ہ ے

و ر اور چلت ہٹیڑھی پٹڑیوں اور ٹھ ے ے تی تھی پر طرحۓہ ہ انجنوں کی طرف دیکھتی رتی ت تھ انبال چھاؤنی میں جب و ر ہطرح ک خیات اس ک دماغ میں آت ر ہ ہ ے۔ ے ہ ے ے ے

اں اس ن کبھی ان چیزوں کو ی اس کا مکان تھا مگر و ےتھی تو اسٹیشن ک پاس ہ ہ ےیں دیکھا تھا اب توکبھی کبھی اس ک دماغ میں ی بھی خیال ہایسی نظروں س ن ے ۔ ہ ےوا اور جگ جگ س بھاپ اور ےآتا ک جو سامن ریل کی پٹڑیوں کا جال سا بچھا ہ ہ ہے ہ ے ہ

یں جن کو چند موٹ موٹ ت سی گاڑیاں ت بڑا چکل ب ا ایک ب ےدھواں اٹھ ر ے ہ ہ ہے۔ ہ ہ ہے ہیں سلطان کو بعض اوقات ی انجن سیٹھ معلوم ت ہانجن ادھر ادھر دھکیلت ر ہ ۔ ہ ے ہ ےاں آیا کرت تھ پھر کبھی کبھی جب و ہوت جو کبھی کبھی انبال میں اس ک ے ے ہ ے ہ ے ہ

ست گاڑیوں کی قطار ک پاس گزرتا دیکھتی تو اس ایسا ست آ ےکسی انجن کو آ ے ہ ہ ہ ہوتا ک کوئی آدمی چکل ک کسی بازار میں س اوپر کوٹھوں کی طرف ےمحسوس ے ے ہ ہ

سلطان سمجھتی تھی ک ایسی باتیں سوچنا دماغ کی خرابی کا ا ہدیکھتا جا ر ہ ہے۔ ہ، چنانچ جب اس قسم ک خیاالت اس کو آن لگ تو اس ن بالکونی میں ےباعث ے ے ے ہ ہےاں ا دیکھو، میر حال پر رحم کرو ی ا ک ہجانا چھوڑ دیا خدا بخش س اس ن بار ۔ ے ہ ہ ے ے ۔وں مگر اس ن تی اں بیماروں کی طرح پڑی ر ا کرو میں سارا دن ی ےگھر میں ر ہ ہ ہ ۔ ہر کمان کی ےر بار سلطان س ی ک کر اس کی تشفی کردی ”جان من…. میں با ہ ہہ ہ ے ہ ہ

و جا ا تو چند دنوں میں بیڑا پار وں الل ن چا ا ہفکر کر ر ہ ے ہ ۔ ہ ینۓہ “پور پانچ م ے گا ہ ے ۔محرم کاۓہوگ وا تھا اور ن خدا بخش کا ۔ تھ مگر ابھی تک ن سلطان کا بیڑا پار ہ ہ ہ ہ ے

ا تھا مگر سلطان ک پاس کال کپڑ بنوان ک ل ین آر ےم ے ے ے ے ہ ہ ہ ۔ کچھ بھی ن تھا مختارۓہ ہیملٹن کی ایک نئی وضع کی قمیض بنوائی تھی جس کی آستینیں کالی ہن لیڈی ے

ےجارجٹ کی تھیں اس ک ساتھ میچ کرن ک ل ے ے ے اس ک پاس کالی ساٹن کیۓ۔ےشلوار تھی جو کاجل کی طرح چمکتی تھی انور ی ن ریشمی جارجٹ کی ایک ۔

ا تھا و اس ساڑھی ک ےبڑی نفیس ساڑھی خریدی تھی اس ن سلطان س ک ہ ہ ے ہ ے ۔ن گی کیونک ی نیا فیشن اس ساڑھی ک ساتھ ےنیچ سفید بوسکی کا کوٹ پ ہے۔ ہ ہ ے ہ ے

نن کو انوری کالی مخمل کا ایک جوتا الئی تھی جو بڑا نازک تھا سلطان ن جب ےپ ہ ۔ ے ہت دکھ دیا ک و محرم منان ک ےی تمام چیزیں دیکھیں تو اس کو اس احساس ن ب ے ہ ہ ہ ے ہ

انوری اور مختار ک پاس ی لباسۓل یں رکھتی ہ ایسا لباس خریدن کی استطاعت ن ے ۔ ہ ےوتا تھا ک ت مغموم تھا اس ایسا معلوم ہدیکھ کر جب و گھر آئی تو اس کا دل ب ہ ے ۔ ہ ہ

و گیا گھر بالکل خالی تھا خدا بخش بھی حسب ۔ایک پھوڑا سا اس ک اندر پیدا ہے۔ ہ ےی پر جب ر تھا دیر تک و دری پر گاؤ تکی کو سر ک نیچ رکھ لیٹی ر ہمعمول با ے ے ے ہ ہ ۔ ہہاس کی گردن اونچائی ک باعث اکڑ سی گئی تو و اٹھ کر بالکونی میں چلی گئی ے

سامن پٹڑیوں پر گاڑیوں ک ڈب ےتاک غم افزا خیاالت کو اپن دماغ س نکال د ے ے ے۔ ے ے ہوچکا تھا اس ل یں تھا شام کا وقت تھا چھڑکاؤ ۔کھڑ تھ پر انجن کوئی بھی ن ہ ۔ ہ ے۔ ۓے

و گ ہگرد و غبار دب گیا تھا بازار میں ایس آدمی چلن شروع ے ے ے تھ جو تانکۓ۔ی ایک آدمی ن یں ایس ےجھانک کرن ک بعد چپ چاپ گھروں کا رخ کرت ہ ے ۔ ہ ے ے ے

سلطان مسکرا دی اور اس کو بھول ہگردن اونچی کر ک سلطان کی طرف دیکھا ۔ ہ ےو گیا تھا سلطان ن غور س اس ےگئی کیونک سامن پٹڑیوں پر ایک انجن نمودار ے ہ ۔ ہ ے ہ

ست ی خیال دماغ س نکالن کی خاطر جب ست آ ےکی طرف دیکھنا شروع کیا اور آ ے ہ ہ ہ ہ ہی آدمی بیل گاڑیوں ک پاس کھڑا نظر آیا ۔اس ن پھر سڑک کی طرف دیکھا تو و ے ہ ے

اتھ س ی جس ن اس کی طرف للچائی نظروں س دیکھا تھا سلطان ن ےو ہ ے ہ ۔ ے ے ہاتھ ک اشار س پوچھا ”کدھر ےاس اشار کیا اس آدمی ن ادھر ادھر دیکھ کر ے ے ہ ے ۔ ہ ے

ا مگر بڑی ہس آؤں؟“ سلطان ن اس راست بتا دیا و آدمی تھوڑی دیر کھڑا ر ہ ۔ ہ ے ے ہ ے

سلطان ن اس دری پر بٹھایا جب و بیٹھ گیا تو اس ن ےپھرتی س اوپر چال آیا ہ ے ے ہ ۔ ےےسلسل گفتگو شروع کرن ک ل ے وۓہ ا ” آپ اوپر آت ہ ک ے “ و آدمی یۓہ ہ ڈر ر تھ ہ ے۔ ہے

ی کیا تھی؟“ اس پر وا…. ڈرن کی بات یں کیس معلوم ہسن کر مسکرایا ”تم ے ہ ے ہ ۔ا ک ”ی میں ن اس ل ےسلطان ن ک ہ ہ ہ ے یں کھڑ ر اور پھر کچھۓہ ا ک آپ دیر تک و ہے ک ے ہ ہ ہ

ارۓسوچ کر ادھر آ وئی میں تم می یں غلط ف ے“ و ی سن کر مسکرا دیا ” تم ہ ۔ ہ ہ ہ ہ ہ ۔اں کوئی عورت کھڑی ایک مرد کو ٹھینگا ا تھا و ہاوپر وال فلیٹ کی طرف دیکھ ر ۔ ہ ے

وا تو میں ی تھی مجھ ی منظر پسند آیا پھر بالکونی میں سبز بلب روشن ہدکھا ر ہ ے ۔ ہت پسند آنکھوں کو اچھیۓےکچھ دیر ک ل ر گیا سبز روشنی مجھ ب ہے۔ اور ٹھ ہ ے ۔ ہ

وا ۔لگتی “ ی ک کر اس ن کمر کا جائز لینا شروع کردیا پھر و اٹھ کھڑا ہ ہ ۔ ہ ے ے ہہ ہ ہے۔ار اس یں میں تم یں“ آدمی ن جواب دیا ” ن ےسلطان ن پوچھا ” آپ جا ر ہ ہ ۔ ے ۔ ہ ہے ے ہ

سلطان ن اس کو تینوں وں…. چلو مجھ تمام کمر دکھا“ تا ےمکان کو دیکھنا چا ہ ۔ ے ے ہ ہےکمر ایک ایک کر ک دکھا د ے اس آدمی ن بالکل خاموشی س ان کمروں کاۓے ے ۔

ہجائز لیا جب و دنوں پھر اسی کمر میں آگ ہ ۔ ل بیٹھ تھ تو اس آدمیۓہ اں پ ے ج ے ے ہ ہلی بار غور س شنکر کی طرف دیکھا و سلطان ن پ “ ا ” میرا نام شنکر ہن ک ۔ ے ہ ے ہ ۔ ہے ہ ے

۔متوسط قد کا معمولی شکل و صورت کا انسان تھا مگر اس کی آنکھیں غیر ۔معمولی طور پر صاف و شفاف تھیں کبھی کبھی ان میں ایک عجیب قسم کی

و وتی تھی گھٹا اور کسرتی بدن تھا کنپٹیوں پر اس ک بال سفید ہچمک بھی پیدا ے ۔ ۔ ہن تھا سفید قمیض تھی جس کا کالر گردن پر س اوپر کو ےر تھ گرم پتلون پ ۔ ے ہ ے۔ ہےوتا تھا شنکر کی وا تھا ک معلوم شنکر کچھ اسی طرح دری پر بیٹھا وا تھا ہاٹھا ہ ہ ۔ ہ

ک اس احساس ن سلطان کو قدر پریشان کردیا چنانچ اسۓبجا ہ سلطان گا ے ہ ے ہے۔ ہ ہا ”فرمای ہن شنکر س ک ے ۔….“شنکر بیٹھا تھا، ی سن کر لیٹ گیا ” میں کیاۓے ہ

“ جب سلطان کچھ ن بولی تو اٹھ ی فرماؤ، بالیا تم ن مجھ ہفرماؤں، کچھ تم ہ ے۔ ہے ے ہ، میں ہےبیٹھا ” میں سمجھا، لو اب مجھ س سنو جو کچھ تم ن سمجھا غلط ہے ے ے ۔یں ڈاکٹروں کی طرح میری وں جو کچھ د جایاکرت یں ۔ان لوگوں میں س ن ہ ے ے ہ ہ ے

ےبھی فیس مجھ جب بالیا جا “سلطان ی سن کرۓہے۔ ی پڑتی ہ تو فیس دینی ہ ہے۔ ہ”آپ کیا کام کرت نسی آگئی ےچکرا گئی مگر اس ک باوجود اس ب اختیار ۔ ہ ے ے ے ۔

“”کیا؟“”میں….میں…. کچھ و ی جو تم لوگ کرت ۔یں؟“شنکر ن جواب دیا ”ی ہ ے ہ ے ہا ” ی کوئی بات ن “سلطان ن بھنا کر ک یں کرتا “”میں بھی کچھ ن یں کرتی ہبھی ن ہ ہ ے ہ ۔ ہ ۔ ہ

“شنکر ن بڑ اطمینان س وں گ ےوئی…. آپ کچھ ن کچھ تو ضرور کرت ے ے ے۔ ہ ے ہ ہ“”تو آؤ وں “”جھک مارتی وگی ۔جواب دیا ” تم بھی کچھ ن کچھ ضرورر کرتی ہ ۔ ہ ہ

یں دیا وں مگر میں جھک مارن ک دام کبھی ن ”میں حاضر ہدونوں جھک ماریں“ ے ے ۔ ہ ۔یں “”اور میں بھی والنٹیئر ن یں وش کی دوا کرو….ی لنگر خان ن ”“ ہکرتا ۔ ہ ہ ہ ہ ۔

یں؟“شنکر ن وت اں رک گئی اس ن پوچھا ” ی والنٹیئر کون ےو!“سلطان ی ہ ے ہ ہ ے ۔ ہ ہ ہار “”مگر و آدمی جو تم یں “”میں بھی الو کی پٹھی ن ےجواب دیا ”الو ک پٹھ ہ ہ ۔ ہ ے۔ ے ۔

“”کیوں؟“اس ل تا ضرور الو کا پٹھا ہے۔ساتھ ر ہے ے ک و کئی دنوں س ایک ایسۓہ ے ہ ہا جس کی اپنی ہےخدا رسید فقیر ک پاس اپنی قسمت کھلوان کی خاطر جا ر ہ ے ے ہ

ا اس پر سلطان ن ک نسا “ ی ک کر شنکر ۔قسمت زنگ لگ تال کی طرح بند ہ ے ہ ۔ ہ ہہ ہ ہے۔ ے ےو اس ل ندو ہ” تم “شنکر مسکرا دیا ”ایسیۓہ و مار ان بزرگوں کا مذاق اڑات ۔ ۔ ہ ے ے ہ

اں وا کرت بڑ بڑ پنڈت مولوی اگر ی یں ندو مسلم کا سوال پیدا ن وں پر ہجگ ے ے ے۔ ہ ہ ہ ہ

و…. “” جان تم کیا اوٹ پٹانگ باتیں کر ر ہآئیں تو و شریف آدمی بن جائیں ہے ے ۔ ہوئی ” تو “سلطان اٹھ کھڑی وں ل بتا چکا و گ اسی شرط پر جو میں پ ۔بولو، ر ہ ہ ۔ ہ ے ہ ے ہاتھ “شنکر آرام س اٹھا پتلون کی جیبوں میں اس ن اپن دونوں ہجاؤ رست پکڑو ے ے ۔ ے ۔ ہ

و ہٹھونس اور جات ے وں جب بھیۓے ا ” میں کبھی کبھی اس بازار س گزرتا ۔ ک ہ ے ۔ ہ“شنکر چال گیا اور وں ت کام کا آدمی و، بال لینا…. میں ب یں میری ضرورت ۔تم ہ ہ ہ ہ

ی اس آدمی کی ۔سلطان کال لباس کو بھول کر دیر تک اس ک متعلق سوچتی ر ہ ے ے ہاں و خوش وتا ج لکا کردیا تھا اگر و انبال میں آیا ت ہباتوں ن اس ک دکھ کو ب ہ ہ ہ ہ ۔ ہ ہ ے ےت ممکن وتا اور ب ی رنگ میں ا س آدمی کو دیکھا ہحال تھی تو اس ن کسی اور ہ ہ ے

تی تھی اس ل اں چونک و اداس ر وتا ی ر نکال دیا ہ ک اس دھک د کر با ہ ہ ہ ہ ہ ے ے ے ہ ۓہے۔شنکر کی باتیں پسند آئیں

ے شام کو جب خدا بخش آیا تو سلطان ن اس س پوچھا ”تم آج سارا دن کدھر ے ہا ن لگا ” پران قلع س آر ا تھا ک و ر و؟“خدا بخش تھک کر چور چور ہغائب ر ے ے ے ے ہ ہ ہ ہ ہے

و ر اں ایک بزرگ کچھ دنوں س ٹھ ہوں و ے ہ ے ہ ۔ وںۓہ ر روز جاتا ی ک پاس یں ان ہ ہ ے ہ ۔ ہیں ربان ن یں ابھی و م “”ن ا وں ن تم س ک “”کچھ ان مار دن پھرجائیں ہک ہ ہ ہ ۔ ہ ے ے ہ ۔ ے ہ ہ

یں جاۓہو وں و اکارت کبھی ن ا ، میں جو ان کی خدمت کر ر ہ…. پر سلطان ہ ہ ہ ۔ گیۓہ“سلطان ک دماغ میں وجائیں گ ا تو ضرور وار نیار ےالل کا فضل شامل حال ر ہ ے۔ ہ ے ے ہ ہ

ن لگی سارا وا تھا خدا بخش س رونی آواز میں ک ۔محرم بنان کا خیال سمایا ے ہ ے ۔ ہ ےیں جا سکتی وں ن ک تی اں پنجر میں قید ر و میں ی ت ر غائب ر ہسارا دن با ہ ۔ ہ ہ ے ہ ۔ ہ ے ہ ہ

ےوں محرم سر پر آگیا کچھ تم ن اس کی بھی فکر کی ک مجھ کال کپڑ ے ے ہ ے ہے۔ ۔ ہیں کنگنیاں تھیں سو و ایک ایک کرک بک گئیں گھر میں پھوٹی کوڑی تک ن ئیں ۔چا ے ہ ۔ ہ ۔ ہ

وگا؟…. یوں فقیروں ک پیچھ کب تک مار مار پھرا ی بتاؤ ک کیا ےاب تم ے ے ے ہ ہ ہم س من موڑ لی میں خدا ن بھی اں د ہکروگ مجھ تو ایسا دکھائی دیتا ک ی ے ہ ے ہ ہ ہ ہے ے ے۔

ی جا و ارا ہلیا میری سنو تو اپنا کام شروع کر دو، کچھ تو س ہ ہ “خدابخشۓہے۔ ۔ گان لگا ”پر ی کام شروع کرن ک ل ےدری پر لیٹ گیا اورک ے ہ ۔ ے تۓہ ہ بھی تو تھوڑا ب

ہسرمای چا ے اب ایسی دکھ بھری باتیں ن کرو مجھ س برداشتۓے…. خدا ک لۓہ ۔ ہو سکتیں میں ن سچ مچ انبال چھوڑن میں سخت غلطی کی تھی پر جو یں ۔ن ے ہ ے ۔ ہ ہ

ل ی ک تری ماری ب ی کرتا اور ےکرتا الل ہ ہ ہ ہے ہ ہ ہے کرتا کیا پت کچھ دیر اور تکلیفۓہے ہ ہے۔”تم خدا ک ل ا م….“سلطان ن بات کاٹ کر ک ےبرداشت کرن ک بعد ۔ ہ ے ہ ہ ے ۔ کچھ کروۓے

ےچوری کرو یا ڈاک ڈالو پرمجھ شلوار کا کپڑا ال دو میر پاس سفید بوسکی کی ۔ ے ہوئی اس کو میں کاال رنگوا لوں گی سفید شفون کا ایک دوپٹا ۔ایک قمیض پڑی ہے ہ

ی جو تم ن دیوالی پر مجھ ال کر دیا تھا ی بھی ہبھی میر پاس موجود و ۔ ے ے ہ ہے۔ ےی رنگوا لیا جا ہقمیض ک ساتھ ہ گا ایک صرف شلوار کی کسر سو و تمۓے ہے ۔

یں میری جان کی قسم، کسی ن کسی ہکسی ن کسی طرح پیدا کردو…. دیکھو تم ہ ہ“خدابخش اٹھ بیٹھا ” اب تم خوا ہطرح ضرور ال دو…. میری بھتی ن کھاؤ اگر ن ال ۔ ۔ ہ ہ

اں س الؤں گا…. افیم کھان ک لۓہمخوا زور د و…. میں ک ی ے چلی جا ر ے ے ہ ہ توۓہ“”کچھ بھی کرو مگر ساڑھ چار گز کالی شلوار کا کپڑا ال یں ےمیر پاس پیس ن ۔ ہ ے ے

یں کرو “”لیکن تم کچھ ن ی الل دو تین بند بھیج د “”دعا کرو ک آج رات ہدو ے۔ ے ہ ہ ہ ۔ل ساٹن بار و جنگ س پ و تو ضرور اتن پیس پیدا کر سکت …. تم اگر چا ہگ ے ہ ے ۔ ہ ے ے ے ہ ےےچود آن گز مل جاتی تھی اب سوا روپ گز ک حساب س ملتی ساڑھ چار ہے ے ے ے ۔ ے ہ

و تو میں کوئی حیل کروں تی ؟“”اب تم ک و جائیں گ ہگزوں پر کتن روپ خرچ ہ ہ ے ہ ے ےوٹل س کھانا “ ی ک کر خدا بخش اٹھا ” لو اب ان باتوں کو بھول جاؤ میں ےگا ہ ۔ ۔ ہہ ہ ۔

“ وں ۔التا ہر مار کیا اور سوگ وٹل س کھانا آیا دونوں ن مل کر ز ہ ے ۔ ے وئی خدابخشۓہ ۔ صبح ہ ۔

ی ۔پران قلع وال فقیر ک پاس چال گیا سلطان اکیلی ر گئی کچھ دیر لیٹی ر ہ ۔ ہ ہ ۔ ے ے ہ ےر کا کھانا کھان ک بعد ی دوپ لتی ر ی ادھر ادھر کمروں میں ٹ ےکچھ دیر سوئی ر ے ہ ۔ ہ ہ ۔ ہ

ےاس ن اپنا شفون کا دوپٹ اور سفید بوسکی کی قمیض نکالی اور نیچ النڈری ہ ےےوال کو رنگن ک ل ے وتاۓے اں رنگن کا کام بھی ہ د آئی کپڑ دھون ک عالو و ے ہ ہ ے ے ے ۔ ے

۔تھاے ی کام کرن ک بعد اس ن واپس آکر فلموں کی کتابیں پڑھیں جن میں اس کی ے ے ہ

و انی اور گیت چھپ وئی فلموں کی ک ہدیکھی ے ہ ہ تھ ی کتابیں پڑھت پڑھت وۓہ ے ے ہ ے۔نچ ہسو گئی جب اٹھی تو چار بج چک تھ کیونک دھوپ آنگن میں موری ک پاس پ ے ہ ے ے ۔

وئی وئی تو گرم چادر اڑھ کر بالکونی میں آکھڑی ا دھو کر فارغ ۔چکی تھی ن ہ ہ ہ ۔و گئی تھی بتیاں روشن ی اب شام ۔قریبا ایک گھنٹ سلطان بالکونی میں کھڑی ر ہ ۔ ہ ہ ہی تھیں نیچ سڑک میں رونق ک آثار نظر آر تھ سردی میں تھوڑی سی ے۔و ر ہے ے ے ۔ ہ ہ

وا و سڑک پر آت جات و گئی تھی مگر سلطان کو ی ناگوار معلوم ن ےشدت ے ہ ۔ ہ ہ ہ ہ ہی تھی دفعتا اس شنکر ےٹانگوں اور موٹروں کی طرف ایک عرص س دیکھ ر ۔ ہ ے ےنچ کر اس ن گردن اونچی کی اور سلطان کی طرف ہنظر آیا مکان ک نیچ پ ے ہ ے ے ۔

اتھ کا اشار کیا اور اس اوپر بال ےدیکھ کر مسکرایا سلطان ن غیر ارادی طور پر ہ ہ ے ہ ۔وئی ک اس کیا ک در اصل اس ت پریشان جب شنکر اوپر آگیا تو سلطان ب ہے۔لیا ے ہ ہ ہ ہ ۔ی بنا سوچ سمجھ اس اشار کر دیا تھا شنکر ب حد مطمئن تھا ےن ایس ۔ ہ ے ے ے ہ ے ے

ل روز کی طرح گاؤ تکی کو ہجیس اس کا اپنا گھر چنانچ بڑی ب تکلفی س پ ے ہ ے ے ہ ہے۔ ےہسر ک نیچ رکھ کر لیٹ گیا جب سلطان ن دیر تک اس س کوئی بات ن کی تو ے ے ہ ۔ ے ے

و ک چل ی ک سکتی و اور سو دفع ا ” تم سو دفع مجھ بال سکتی ےاس ن ک ہ ہ ہہ ہ ہ ہ ے ہ ہ ے“سلطان شش و پنج میں وا کرتا یں ہجاؤ…. میں ایسی باتوں پر کبھی ناراض ن ۔ ہ ہ

شنکر اس پر تا یں جان کو کون ک یں بیٹھو تم ن لگی ”ن و گئی ک ہے۔گرفتار ہ ے ہ ہ ۔ ے ہ ہ“”کیسی شرطیں؟“ سلطان ن یں یں منظور ےمسکر ادیا ”تو میری شرطیں تم ہ ۔ ہ ہ ۔

و مجھ س ؟“”نکاح اور شادی کیسی؟….ن تم عمر ا ”کیا نکاح کر ر ہنس کر ک ے ہ ہے ہ ہم لوگوں ک ل ےبھر میں کسی س نکاح کروگی، ن میں…. ی رسمیں ہ ہ ہ ۓے

“”بولو کیا کروں؟“”تم یں….چھوڑو ان فضولیات کو، کوئی کام کی بات کرو ۔ن ہل جا و….کوئی ایسی بات کرو جس س دو گھڑی دل ب ہعورت ے …. اس دل میںۓہ

نی طور پر اب “سلطان ذ یں، کچھ اور بھی ی دکانداری ن ہصرف دکانداری ہ ہے۔ ہ ہو؟“”جو ت و تم مجھ س کیا چا ہشنکر کو قبول کر چکی تھی، صاف صاف ک ے ہ ے ہ

ی ”تم میں اور دوسروں میں پھر فرق یں“ شنکر اٹھ کر بیٹھ گیا ت ہدوسر چا ۔ ۔ ہ ے ہ ےیں ان میں اور مجھ میں زمین “” تم میں اور مجھ میں کوئی فرق ن ا ۔کیا ر ہ ۔ ہئیں خود یں چا یں جو پوچھنا ن وتی ت سی باتیں ہآسمان کا فرق ایسی ب ہ ہ ہ ہ ہے۔

“سلطان ن تھوڑی دیر تک شنکر کی اس بات کو سمجھن کی ئیں ےسمجھنا چا ے ہ ۔ ہ، میں ؟“”تم جیت و کیا اراد وں!“”تو ک ا ” میں سمجھ گئی ےکوشش کی، پھر ک ہے ہ ہ ہ ہ“”تم غلط و گی وں، آج تک کسی ن ایسی بات قبول ن کی تی ۔اری، پر میں ک ہ ہ ے ہ ہ ہ

یں ایسی ساد لوح عورتیں بھی مل جائیں گی جو و…. اسی محل میں تم تی ہک ہ ے ہ ہیں کریں گی ک کیا عورت ایسی ذلت قبول کر سکتی جو تم بغیر کسی ہےیقین ن ہ ہزاروں کی و لیکن ان ک یقین کرن ک باوجود تم ی ہاحساس ک قبول کرتی ر ے ے ے ہ ہ ےوا شنکر اٹھ کھڑا “ ی ”سلطان ارا نام سلطان نا“ و…. تم ہتعداد میں موجود ۔ ہے ہ ہ ۔ ہے ہ ہ ہ

یں چلو اندر وت …. ی نام بھی عجب اوٹ پنانگ نسن لگا ”میرا نام شنکر ۔اور ہ ے ہ ہ ہے ۔ ے ہ“شنکر اور سلطان دری وال کمر میں واپس آ ےچلیں ے ہ نس ر تھۓ۔ ے تو دونوں ہے ہ

ا شنکر تم میری ایک بات ۔جان کس بات پر جب شنکر جان لگا تو سلطان ن ک ہ ے ہ ے ۔ ےل بات تو بتاؤ؟“سلطان کچھ جھنیپ سی گئی ا ” پ ؟“شنکر ن جوابا ک ۔مانو گ ہ ے ہ ۔ ہ ے ےو، ….رک کیوں گئی و ک وں، مگر….“”ک تی وگ میں دام وصول کرنا چا ہ”تم ک ہ ہ ہ ے ہ

ا اور میر پاس ا ”بات ی ک محرم آر ےو؟“سلطان ن جرأت س کام ل کر ک ہے ہ ہ ہے ہ ۔ ہ ے ے ے ہ ہاں ک سار دکھڑ تو تم یں ک میں کالی شلوار بنوا سکوں ی یں ےاتن پیس ن ے ے ہ ۔ ہ ہ ہ ے ےو قمیض اور دوپٹ میر پاس موجود تھا جو میں ن آج رنگوان ک ی چک ےسن ے ے ے ہ ۔ ہ ے ہ

یں کچھ روپ دوں جوۓل وک میں تم تی ا”تم چا !“شنکر ن ی سن کر ک ے د دیا ہ ہ ہ ہ ہ ہ ے ہے ےو یں میرا مطلب ی ک اگر ا ” ن ی ک “سلطان ن فورا ہتم کالی شلوار بنا سکو ہ ہے ہ ہ ۔ ہ ہ ے ہ ۔“شنکر مسکرایا ” میری جیب میں تو ۔سک تو تم مجھ ایک کالی شلوار بنوا دو ۔ ے ے

لی ر حال میں کوشش کروں گا محرم کی پ وتا ب ی س کبھی کچھ ہاتفاق ۔ ہ ہے۔ ہ ے ہیں ی شلوار مل جا ہتاریخ کو تم و گئیں پھر سلطان کۓہ ے گی لو بس اب تو خوش ہ ۔ ہ ۔

ےبندوں کی طرف دیکھ کر شنکر ن پوچھا ” کیا ی بند تم مجھ د سکتی ے ے ہ ےیں یں کیا کرو گ چاندی ک معمولی بند ا ” تم ان نس کر ک ۔و؟“سلطان ن ہ ے ے ے۔ ہ ہ ہ ے ہ ہ

ا ”میں ن تم س نس کر ک “اس پر شنکر ن و نگ ےزیاد س زیاد پانچ روپ ک ے ہ ہ ے ے۔ ہ ے ے ہ ے ہو؟“”ل لو“ ی ک کر سلطان یں پوچھی بولو دیتی یں ان کی قیمت ن ہبند مانگ ہہ ہ ے ہ ۔ ہ ہ ے ے

ےن بند اتار کر شنکر کو د د ے وا، لیکن شنکر جا چکاۓے ہ اس کو بعد میں افسوس ۔۔تھا

یں تھا ک شنکر اپنا وعد پوراکر گا مگر آٹھ روز ک بعد ے سلطان کو قطعا یقین ن ۔ ے ہ ہ ہ ہوئی سلطان ن درواز لی تاریخ کو صبح نو بج درواز پر دستک ہمحرم کی پ ے ہ ۔ ہ ے ے ہ

ا ” وئی چیز اس ن سلطان کو دی اور ک ہکھوال تو شنکر کھڑا تھا اخبارمیں لپٹی ہ ے ہ ۔“ وں و…. اب میں چلتا ۔ساٹن کی کالی شلوار دیکھ لینا شاید لمبی ہ ہ ہے۔

۔ شنکر شلوار د کر چال گیا اور کوئی بات اس ن سلطان س ن کی اس کی ہ ے ہ ے ےو وئی تھیں، بال بکھر ہپتلون میں شکنیں پڑی ے وتا تھا ک ابھیۓہ ہ تھ ایسا معلوم ہ ے۔

سلطان ن کاغذ کھوال ساٹن کی ی چال آیا ۔ابھی سو کر اٹھا اور سیدھا ادھر ے ہ ہے۔ ہ ہےی جیسی ک و مختار ک پاس دیکھ کر آئی تھی سلطان ہکالی شلوار تھی ایسی ۔ ے ہ ہ ہ ۔وا تھا، اس شلوار ن وئی بندوں اور اس سود کا جو افسوس اس ت خوش ےب ہ ے ے ۔ ہ ہ

۔اور شنکر کی وعد ایفائی ن دور کردیا ے ہر کو و نیچ النڈری وال س اپنی رنگین قمیض اور دوپٹ ل آئی تینوں کال ے دوپ ۔ ے ہ ے ے ے ہ ہ

ن ل ہکپڑ جب اس ن پ ے وئی سلطان ن درواز کھوال توۓے ہ تو درواز پر دستک ے ہ ۔ ہ ےا وئی اس ن سلطان ک تینوں کپڑوں کی طرف دیکھا اور ک ۔مختار اندر داخل ہ ے ہ ے ۔ ہ

، کب بنوائی؟“سلطان وتا پر ی شلوار نئی وا معلوم ہ”قمیض اور دوپٹ تو رنگا ہے ہ ہے۔ ہ ہ ہو ت “ ی ک ی درزی الیا ہن جواب دیا”آج ے ہ ہ ہے۔ ہ ے اس کی نظریں مختار ک کانوں پرۓے

اں س ل ےپڑیں ” ی بند تم ن ک ہ ے ے ہ ی منگواۓ۔ ہ؟“مختار ن جواب دیا ” آج “اسۓے یں ۔ ہنا پڑا ۔ک بعد دونوں کو تھوڑی دیر خاموش ر ہ ے

شادیےجمیل کو اپنا شیفر الئف ٹائم قلم مرمت ک لی دینا تھا اس ن ٹیلی فون ۔ ے ے

وا ک ان ک ےڈائریکٹری میں شیفر کمپنی کا نمبر تالش کیا فون کرن س معلوم ہ ہ ے ے ۔وٹل ک پاس واقع یں جن کا دفتر گرین ہے۔ایجنٹ میسرز ڈی ج سمتوئر ہ ے ہ ۔ ہ ے

نچ کر اس میسرز وٹل پ ےجمیل ن ٹیکسی ل اور فورٹ کی طرف چل دیا گرین ہ ہ ۔ ے ےوئی بالکل پاس تھا مگر تیسری ۔ڈی ج سمتوئر کا دفتر تالش کرن میں دقت ن ہ ہ ے ے

۔منزل پری چوبی دیوار کی چھوٹی وت نچا کمر میں داخل اں پ ہلفٹ ک ذریع جمیل و ے ہ ے ۔ ہ ہ ے ےےسی کھڑکی ک پیچھ اس ایک خوش شکل اینگلوانڈین لڑکی نظر آئی جس کی ے ے

ےچھاتیاں غیر معمولی طور پر نمایاں تھیں جمیل ن قلم اس کھڑکی ک اندر داخل ے ۔کھول کر ایک اتھ س ل لیا ۔کر دیا اور من س کچھ ن بوال لڑکی ن قلم اس ک ے ے ہ ے ے ۔ ہ ے ہ

ہنظر دیکھا اور ایک چٹ پر کچھ لکھ کر جمیل ک حوال کر دی من س و بھی ے ہ ۔ ے ےی واال تھا ک پلٹ کر جمیل ن چٹ دیکھی قلم کی رسید تھی چلن ہکچھ ن بولی ہ ے ۔ ۔ ے ۔ ہ

“ و جائ گا میرا خیال ہے۔اس ن لڑکی س پوچھا “ دس بار روز تک تیار ۔ ے ہ ہ ۔ ے ےنسی و گیا “ میں آپ کی اس نسی جمیل کچھ کھسیانا سا ہلڑکی بڑ زور س ۔ ہ ۔ ہ ے ے

“ یں سمجھا ۔کا مطلب ن ہا، “ مسٹر —— آج کل وار وار —— ی ہلڑکی ن کھڑکی ک ساتھ من لگا کر ک ہے ہ ہ ے ے

“ ین ک بعد پت کرنا ۔قلم امریک جائ گا —— تم نو م ہ ے ے ہ ے ہ“ ین ے۔جمیل بوکھال گیا، “ نو م ہ

الیا —— جمیل ن لفٹ کا رخ کیا ۔لڑکی ن اپن برید بالوں واال سر ے ہ ہ ے ےین —— اتنی مدت بعد تو عورت گل ین کا سلسل خوب تھا —— نو م ےی نو م ہ ہ ے ہ ہ

ین تک اس ین —— نو م ےگوتھنا بچ پیدا کر ک ایک طرف رکھ دیتی —— نو م ہ ے ہ ہے۔ ے ہہچھوٹی سی چٹ کو سنبھال رکھو اور ی بھی کون وثوق س ک سکتا ک نو ہے ہہ ے ہ ۔ ے

و سکتا ین تک آدمی یاد رکھ سکتا ک اس ن ایک قلم مرمت ک لی دیا تھا ہم ۔ ے ے ے ہ ہے ے ہی جائ ے۔ اس دوران میں و کم بخت مر کھپ ہ ہ ہے

۔جمیل ن سوچا، ی سب ڈھکوسال قلم میں معمولی سی خرابی تھی اس کا ہے۔ ہ ےےفیڈر ضرورت س زیاد روشنائی سپالئی کرتا تھا اس ک لی اس امریک ک ہ ے ے ے ۔ ہ ے

ےسپتال میں بھیجنا صریحا چالبازی تھی مگر پھر اس ن سوچا، لعنت بھیجو جی ۔ ہیں ک اس ن ی بلیک مارکیٹ ہاس قلم پر امریک جائ یا افریق اس میں شک ن ے ہ ہ ہ۔ ے ہ ۔

ےس ایک سو پچھتر روپ میں خریدا تھا مگر اس ن ایک برس اس خوب ے ۔ ے ےزاروں صفح کال کر ڈال تھ چنانچ و قنوطی س ےاستعمال بھی تو کیا تھا ہ ہ ے۔ ے ے ے ہ ۔ی اس خیال آیا ک و فورٹ میں اور ہےایک دم رجائی بن گیا اور رجائی بنت ہ ہ ے ہ ے ۔یں مل گی لیکن ر ن ےفورٹ میں شراب کی ب شمار دکانیں وسکی تو ظا ہ ہے ہ ۔ ے

ترین کونک برانڈی تو مل جائ گی، چنانچ اس ن قریب والی دکان ےفرانس کی ب ہ ے ہ۔کا رخ کیا

وٹل ک پاس آ ک رک گیا ا تھا ک گرین ۔برانڈی کی ایک بوتل خرید کر و لوٹ ر ے ے ہ ہ ہ ہوا قالینوں کا شو روم تھا ی جمیل ک ےوٹل ک نیچ قد آدم شیشوں کا بنا ہ ۔ ہ ے ے ہ

۔دوست پیر صاحب کا تھای و شو روم میں تھا اور ہاس ن سوچا چلو اندر چلیں چنانچ چند لمحات ک بعد ہ ے ہ ۔ ے

نسی مذاق کی گفتگو ہاپن دوست پیر س ، جو عمر میں اس س کافی بڑا تھا، ے ے ےا تھا ۔کر ر ہ

وئی تھی پیر ۔برانڈی کی بوتل باریک کاغذ میں لپٹی دبیر ایرانی قالین پر لیٹی ہن کا ا، “ یار اس دل وئ جمیل س ک ہصاحب ن اس کر طرف اشار کرت ہ ے ے ہ ے ہ ے

“ ۔گھونگٹ تو کھولو ذرا اس س چھیڑ خانی تو کرو ے ۔ےجمیل مطلب سمجھ گیا، “ تو پیر صاحب، گالس اور سوڈ منگوائی پھر دیکھئی ے۔ ے

“ ہے۔کیا رنگ جمتا ی واال ون وا دوسرا دور شروع ال دور ہفورا گالس اور یخ بست سوڈ آ گئ پ ے ہ ۔ ہ ہ ے۔ ے ہ

ےتھا ک پیر صاحب ک ایک گجراتی دوست اندر چل ائ اور بڑی ب تکلفی س ے ے ے ے ہوٹل کا چھوکرا دو ک بجائ تین گالس اٹھا الیا تھا ۔قالین پر بیٹھ گئ اتفاق س ے ے ہ ے ے۔ےپیر صاحب ک گجراتی دوست ن بڑی صاف اردو میں چند ادھر ادھر کی باتیں ے

۔کیں اور گالس میں ی بڑا پیگ ڈال کر اس کو سوڈ س لبا لب بھر دیا تین چار ے ے ہوں ن رومال س اپنا من صاف کیا “ سگریٹ نکالو ۔لمب لمب گھونٹ ل کر ان ہ ے ے ہ ے ے ے

“ ۔یاریں پیت تھ جمیل ن ےپیر صاحب میں ساتوں عیب شرعی تھ مگر و سگریٹ ن ے۔ ے ہ ہ ے۔

ی الئٹر —— ہجیب س اپنا سگریٹ کیس نکاال اور قالین پر رکھ دیا ساتھ ۔ ے۔اس پر پیر صاحب ن جمیل س اس گجراتی کا تعارف کرایا “ مسٹر نٹور الل ے ے

“ یں ۔—— آپ موتیوں کی داللی کرت ہ ےوتا ہجمیل ن ایک لحظ ک لی سوچا، کوئلوں کی داللی میں تو انسان کا من کاال ہ ے ے ے ے

ہے۔ موتیوں کی داللی میں —— “ور سونگ ا، “ مسٹر جمیل، مش وئ ک ہپیر صاحب ن جمیل کی طرف دیکھت ہ ے ہ ے ے

“ ۔رائٹر

وا ک بوتل وا اور ایسا شروع اتھ مالیا اور برانڈی کا نیا دور شروع ہدونوں ن ہ ۔ ہ ہ ےو گئی ۔خالی ہ

ہے۔جمیل ن دل میں سوچا ک کم بخت موتیوں کا دالل بال کا پین واال میری پیاس ے ہ ےو ۔اور سرور کی ساری برانڈی چڑھا گیا خدا کر اس موتیا بند ہ ے ے ۔

ی آخری دور ک پیگ ن جمیل ک پیٹ میں اپن قدم جمائ ، اس ن ےمگر جون ے ے ے ے ے ہا “ مسٹر نٹور، اٹھئ ایک بوتل ےنٹور الل کو معاف کر دیا اور آخر میں اس س ک ہ ے ۔

“ و جائ ے۔اور ہ۔نٹور الل فورا اٹھا اپن سفید دگل کی شکنیں درست کیں دھوتی کی النگ ٹھیک ے ے ۔

“ ا، چلئ ے۔کی اور ک ہ“ یں وت م ابھی حاضر وا، “ ۔جمیل پیر صاحب س مخاطب ہ ے ہ ہ ہ ے

نچ جمیل ن ر نکل کر ٹیکسی لی اور شراب کی دکان پر پ ےجمیل اور نٹور ن با ے۔ ہ ہ ےیں ساری ا، “ مسٹر جمیل —— ی دکان ٹھیک ن ۔ٹیکسی روکی مگر نٹور ن ک ہ ہ ہ ے

وا، “ دیکھو کوالب “ ی ک کر و ٹیکسی ڈرائیور س مخاطب نگی بیچتا ہچیزیں م ہ ے ہ ہہ ہ ہے۔ ہ“ ۔چلو

نچ کر نٹور، جمیل کو شراب کی ایک چھوٹی سی دکان میں ل گیا جو ۔کوالب پ ے ہ ہہبرانڈ جمیل ن فورٹ س لیا تھا، و تو ن مل سکا، ایک دوسرا مل گیا جس کی ہ ے ے

ت تعریف کی ک نمبر ون ہے۔نٹور ن ب ہ ہ ےی بار تھی نٹور رک گیا، “ مسٹر ر نکل ، ساتھ ۔ی نمبر ون چیز خرید کر دونوں با ہ ے ہ ہ

“ یں یں پی کر چلت ۔جمیل، کیا خیال آپ کا، ایک دو پیگ ی ہ ے ہ ہے

یں تھا اس لی ک اس کا نش حالت نزاع میں تھا چنانچ ہجمیل کو کوئی اعتراض ن ۔ ہ ہ ے ۔ ہر کی وئ معا جمیل کو خیال آیا ک بار وال تو کبھی با ہدونوں بار ک اندر داخل ے ہ ے۔ ہ ے

یں ی اں کیس پی سکت یں دیا کرت “ مسٹر نٹور آپ ی ہشراب پین کی اجازت ن ۔ ہ ے ے ہ ے۔ ہ ےیں دیں گ ے۔لوگ اجازت ن ہ

“ ہے۔نٹور ن زور س آنکھ ماری “ سب چلتا ۔ ے ےو لیا نٹور ن ےاور ی ک کر ایک کیبن ک اندر گھس گیا جمیل بھی اس ک پیچھ ۔ ہ ے ے ۔ ے ہہ ہہبوتل سنگین تپائی پر رکھی اور بیر کو آواز دی جب و آیا تو اس کو بھی آنکھ ۔ ے

“ ۔ماری، “ دیکھو دو سوڈ روجرز —— ٹھنڈ —— اور دو گالس، ایک دم صاف ے ےے۔بیرا ی حکم سن کر چال گیا اور فورا سوڈ اور گالس حاضر کر دیئ اس پر نٹور ے ہےن اس دوسرا حکم دیا، “ فسٹ کالس چپس اور ٹومیٹو سوس —— اور فسٹ ے

“ ۔کالس کٹلسی مسکرایا بوتل کا کارک نکاال ۔بیرا چال گیا نٹور جمیل کی طرف دیکھ کر ایس ہ ے ۔

ےاور جمیل ک گالس میں اس س پوچھ بغیر ایک ڈبل ڈال دیا خود اس س کچھ ۔ ے ے ےو گیا تو دونوں ن اپن گالس ٹکرائ ے۔زیاد سوڈا حل ے ے ہ ہ۔

ی جرع میں اس ن آدھا گالس ختم کر دیا سوڈا چونک ہجمیل پیاسا تھا ایک ۔ ے ے ہ ۔ت ٹھنڈا اور تیز تھا اس لی پھوں پھوں کرن لگا ۔ب ے ے ہ

ےدس پندر منٹ ک بعد چپس اور کٹلس آ گئ جمیل صبح گھر س ناشت کر ک ہ ے ے۔ ے ہہنکال تھا لیکن برانڈی ن اس بھوک لگا دی چپس گرم گرم تھ ، کٹلس بھی و ۔ ے ۔ ے ے

۔پل پڑا نٹور ن اس کا ساتھ دیا چنانچ دو منٹ میں دونوں پلیٹیں صاف ہ ۔ ے ۔

ےدو پلیٹیں اور منگوائی گئیں جمیل ن اپن لی چپس بھی منگوائ دو گھنٹ اسی ے۔ ے ے ے ۔و چکی تھی جمیل ن سوچا ک اب ہطرح گزر گئ بوتل کی تین چوتھائی غائب ے ۔ ہ ے۔

ہے۔پیر صاحب ک پاس جانا بیکار ےوا ک ےنش خوب جم ر تھ ، سرور خوب گھٹ ر تھ نٹور اور جمیل دونوں ہ ے۔ ہے ے ہے ے

ےگھوڑوں پر سوار تھ ایس سواروں کو عام طور پر ایسی وادیوں میں جان کی ے ے۔یں عریاں بدن حسین عورتیں ملیں و ان کی کمر اں ان وتی ج ش ہبڑی خوا ۔ ہ ہ ہے ہ ہ

اتھ ڈال کر گھوڑ پر بٹھا لیں اور ی جا و جا ۔میں ہ ہ ے ہ

اں ا تھا ج ی وادی ک متعلق سوچ ر ہجمیل کا دل و دماغ اس وقت کسی ایسی ہ ے ہو جائ جس کو و اپن تپت ےاس کی کسی ایسی خوبصورت عورت س مڈبھیڑ ے ہ ے ہ ے

ڈیاں تک چٹخ جائیں ۔وئ سین ک ساتھ بھینچ ل اس زور س ک اس کی ہ ہ ے ے ے ے ے ہ

ہےجمیل کو اتنا تو معلوم تھا ک و ایسی جگ پر —— مطلب ایس عالق میں ے ے ہے ہے ہ ہ ہیں ور جن ہجو اپن بروتھلز )قحب خان ( کی وج س ساری بمبئی میں مش ہے۔ ہ ے ہ ے ہ ے

ر س بھی جس لڑکی کو لک یں ش وتی و ادھر کا رخ کرت ےعیاشی کرنا ہ ۔ ہ ے ہ ہے ہا، یں آتی ان معلومات کی بنا پر اس ن نٹور س ک وتا ، ی ہچھپ کر پیش کرنا ے ے ہے۔ ہ ہے ہ ہ

ا —— و —— و —— میرا مطلب ، ادھر کوئی چھوکری ووکری ہے“ میں ن ک ہ ہ ہ ےیں ملتی؟“ ہن

یں نسا، “ مسٹر جمیل، ایک ن ہنٹور ن اپن گالس میں ایک بڑا پیگ انڈیال اور ہ ے ےزاروں ——“ زاروں —— ہزاروں —— ہ ہ

وتی، “ ان تی اگر جمیل ن اس کی بات کاٹی ن زاروں کی گردان جاری ر ہی ہ ے ہ ہ ہم سمجھیں گ ک نٹور بھائی ن کمال کر ی مل جائ تو ےزاروں میں س آج ایک ہ ے ہ ے ہ ے ہ

“ ۔دیا

زاروں —— یں ا، “ جمیل بھائی —— ایک ن ہنٹور بھائی مز میں تھ جھوم کر ک ہ ہ ے۔ ے“ ۔چلو اس کو ختم کرو

۔دونوں ن بوتل میں جو کچھ بچا تھا آدھ گھنٹ ک اندر اندر ختم کر دیا بل ادا ے ے ےر ر نکل اندر اندھیرا تھا با ہکرن اور بیر کو تکٹری ٹپ دین ک بعد دونوں با ۔ ے۔ ہ ے ے ے ے

ی تھی جمیل کی آنکھیں چندھیا گئیں ایک لحظ ک لی اس کچھ ےدھوپ چمک ر ے ے ے ۔ ۔ ہوئیں تو اس ن نٹور ست اس کی آنکھیں تیز روشنی کی عادی ست آ ےنظر ن آیا آ ہ ہ ہ ہ ہ ۔ ہ

“ ا، “ چلو بھئی ۔س ک ہ ےوں س جمیل کی طرف دیکھا، “ مال پانی نا؟“ ہےنٹور ن تالشی لین والی نگا ے ہ ے ے

نی س وئی نٹور کی پسلیوں میں ک ٹ نمودار ونٹوں پر نشیلی مسکرا ےجمیل ک ہ ۔ ہ ہ ہ ے“ اور اس ن جیب س پانچ نوٹ ت ت نٹور بھائی ب ا، “ ب ےٹھوکا د کر اس ن ک ے ۔ ہ ۔ ہ ہ ے ے

یں؟“ ہسو سو ک نکال ، “ کیا اتن کافی ن ے ے ےل ایک یں —— چلو آؤ، پ ت زیاد ےنٹور کی باچھیں کھل گئیں “ کافی ——؟ ب ہ ہ ہ ہ ۔

“ اں ضرورت پڑ گی ۔بوتل خرید لیں، و ے ہ

یں پڑ گی تو کیا کسی اں ضرورت ن ےجمیل ن سوچا بات بالکل ٹھیک ، و ہ ہ ہے ے۔مسجد میں پڑ گی چنانچ فورا ایک بوتل خرید لی گئی ٹیکسی کھڑی تھی ۔ ہ ۔ ے

ے۔دونوں اس میں بیٹھ گئ اور اس وادی کی سیاحی کرن لگ ے ےہسینکڑوں بروتھلز تھ ان میں س بیس پچیس کا جائز لیا گیا، مگر جمیل کو ے ے۔

وں ک اندر چھپی ےکوئی عورت پسند ن آئی سب میک اپ کی موٹی اور شوخ ت ہ ۔ ہو تا تھا ک ایسی لڑکی مل جو مرمت شد مکان معلوم ن ۔وئی تھیں جمیل چا ہ ہ ہ ے ہ ہ ۔ ہ

و ک جگ جگ اکھڑ پلستر ک ٹکڑوں پر بڑ اناڑی ےجس کو دیکھ کر ی احساس ن ے ے ہ ہ ہ ہ ہ ہہے۔پن س سرخی اور چونا لگایا گیا ے

ہنٹور تنگ آ گیا اس ک سامن جو بھی عورت آتی تھی، و جمیل کا کندھا پکڑ کر ے ے ۔“ تا، “ جمیل بھائی ی چل گی ۔ک ے ہ ہ

“ م بھی چلیں گ اں چل گی —— اور وتا، “ ے۔مگر جمیل اٹھ کھڑا ہ ے ہ ہیں اور دیکھی گئیں مگر جمیل کو مایوسی کا من دیکھنا پڑا و سوچتا تھا ک ہدو جگ ہ ۔ ہ ہےان عورتوں ک پاس کون آتا جو سؤر ک سوکھ گوشت ک ٹکڑوں کی طرح ے ے ہے ےیں اٹھن بیٹھن کا انداز کتنا فحش یں ان کی ادائیں کتنی مکرو ےدکھائی دیتی ے ۔ ہ ہ ۔ ہیں یں، یعنی ایسی عورتیں جو درپرد پیش کراتی ن کو ی پرائیویٹ ۔ ، اور ک ہ ہ ہ ہ ہ ے ہ ہے

اں جس ک پیچھ ی دھندا کرتی یں آتا تھا ک و پرد ک ہجمیل کی سمجھ میں ن ے ے ہ ہے ہ ہ ہ ہ۔یں ہ

ی ، ک نٹور ن ٹیکسی رکوائی اور ونا چا ا تھا ک اب پروگرام کیا ی ر ےجمیل سوچ ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ۔اتر کر چال گیا ک ایک دم اس ایک ضروری کام یاد آ گیا تھا ے ہ

ی تھی اس ۔اب جمیل اکیال تھا ٹیکسی تیس میل فی گھنٹ کی رفتار س چل ر ہ ے ہ ۔اں کوئی بھڑوا مل ےوقت ساڑھ چار بج چک تھ اس ن ڈرائیور س پوچھا، “ ی ہ ے ے ے۔ ے ے

گا؟““ ۔ڈرائیور ن جواب دیا، “ مل گا جناب ے ے

“ ۔ تو چلو اس ک پاس ےاڑی نما بلڈنگ ک پاس گاڑی کھڑی کر ےڈرائیور ن دو تین موڑ گھوم اور ایک پ ہ ے ے

ارن بجایا ۔دی دو تین مرتب ہ ہ ۔ا تھا آنکھوں ک سامن دھند سی و ر ےجمیل کا سر نش ک باعث سخت بوجھل ے ۔ ہ ہ ے ے

یں کیس اور کس طرح، مگر جب اس ن ذرا وئی تھی اس معلوم ن ےچھائی ے ہ ے ۔ ہی ایک ہدماغ کو جھٹکا تو اس ن دیکھا ک و ایک پلنگ پر بیٹھا اور اس ک پاس ے ہے ہ ہ ے

ہجوان لڑکی، جس کی ناک پر پھننگ چھوٹی سی پھنسی تھی، اپن برید بالوں میں ےی ہے۔کنگھی کر ر ہ

نچا مگر اس ک اں کیس پ ی واال تھا ک و ی ےجمیل ن غور س دیکھا سوچن ہ ے ہ ہ ہ ہ ے ۔ ے ےہےشعور ن اس کو مشور دیا ک دیکھو ی سب عبث جمیل ن سوچا ی ٹھیک ہ ے ہے۔ ہ ہ ہ ے

ی اندر نوٹ گن کر اور پاس اتھ ڈال کر اندر ہلیکن پھر بھی اس ن اپنی جیب میں ہ ےوئی تپائی پر برانڈی کی سالم بوتل دیکھ کر اپنی تشفی کر لی ک سب ہپڑی ہ

۔خیریت اس کا نش کسی قدر نیچ اتر گیا ے ہ ہے۔ہاٹھ کر و اس گیسو برید لڑکی ک پاس گیا اور، اور کچھ سمجھ میں ن آیا، ے ہ ہ

ی مزاج کیسا ؟‘ ا، “ ک ہےمسکرا کر اس س ک ے ہ ہ ےی آپ کا کیسا ؟“ ا، ک ہےاس لڑکی ن کنگھی میز پر رکھی اور ک ے ہ ہ ے

اتھ ڈاال —— “ آپ کا نام؟“ “ ی ک کر اس ن لڑکی کی کمر میں وں ہ“ ٹھیک ے ہہ ہ ۔ ہ

و گا ک آپ وں ایک دفع —— آپ کو میرا خیال ی بھی یاد ن ہ“ بتا تو چکی ہ ہ ہ ہے ہ ہوں گ ک بل اڑتیس روپ اں گھومت ر اں ک اں آئ —— جان ک ےٹیکسی میں ی ہ ے ہ ہے ے ہ ہ ے ے ہےبنا جو آپ ن ادا کیا اور ایک شخص جس کا نام شاید نٹور تھا، آپ ن اس کو ب ے ے

“ ۔شمار گالیاں دیں

ی واال نچن کی کوشش کرن ہجمیل اپن اندر ڈوب کر سار معامل کی ت تک پ ے ے ہ ہہ ے ے ےوں یں میں بھول جایا کرتا ہتھا ک اس ن سوچا ک فی الحال اس کی ضرورت ن ۔ ہ ہ ے ہہ—— یا یوں سمجھئ ک مجھ بار بار پوچھن میں مز آتا و صرف اتنا یاد کر ہے۔ ہ ے ے ہ ے

۔سکا ک اس ن ٹیکسی وال کا بل جو ک اڑتیس روپ بنتا تھا ادا کیا تھا لڑکی پلنگ ے ہ ے ے ہ“ ہے۔پر بیٹھ گئی “ میرا نام تارا ۔

۔جمیل ن اس کو لٹا دیا اور اس س مصنوعی قسم کا پیار کرن لگا ے ے ےا، “ دو یخ وئی تو اس ن تار س ک ہتھوڑی دیر ک بعد اس کو پیاس محسوس ے ہ ے ہ ے

۔بست سوڈ اور گالس ے ہےتار ن ی دونوں چیزیں فورا حاضر کر دیں جمیل ن بوتل کھولی اپن لی ایک ے ۔ ے ۔ ہ ے ہ

ے۔پیگ ڈال کر اس ن دوسرا تار ک لی ڈاال —— پھر دونوں پین لگ ے ے ے ہ ےو گئی تار تر ہتین پیگ پین ک بعد جمیل ن محسوس کیا ک اس کی حالت ب ہے۔ ہ ہ ہ ے ے ے

ی “ کپڑ و جانا چا ےکو چومن چاٹن ک بعد اس ن سوچا ک اب قص مختصر ے۔ ہ ہ ہ ہ ے ے ے ے“ ۔اتار دو

ے“ سار ““ اں سار ے۔“ ہ

ےتار ن کپڑ اتار دیئ اور لیٹ گئی جمیل ن اس ک ننگ جسم کو ایک نظر ے ے ۔ ے ے ے ہی خیاالت کا ایک تانتا بندھ گیا ۔دیکھا اور ی رائ قائم کی ک اچھا اس ک ساتھ ہ ے ہے۔ ہ ے ہ

و چکا تھا اس ن اپنی بیوی کو دو تین مرتب دیکھا تھا ۔جمیل کا نکاح ہ ے ۔ ہ

ن پر اپن و گا —— کیا و تار کی طرح اس ک ایک مرتب ک ےاس کا بدن کیسا ے ہ ہ ے ہ ہ ہےسار کپڑ اتار کر اس ک ساتھ لیٹ جائ گی؟ ے ے ے

ےکیا و اس ک ساتھ برانڈی پیئ گی؟“ ے ہیں؟“ وئ ہکیا اس ک بال کٹ ے ہ ے ے

ہپھر فورا اس کا ضمیر جاگا جس ن اس کو لعنت مالمت شروع کر دی نکاح کا ی ۔ ےو چکی تھی صرف ایک مرحل باقی تھا ک و اپنی ہمطلب تھا ک اس کی شادی ہ ہ ۔ ہ ہ

اتھ پکڑ کر ل ائ کیا اسک لی ی واجب تھا ک ایک ہسسرال جائ اور لڑکی کا ہ ے ے ے۔ ے ہ ےے۔بازاری عورت کو اپنی آغوش کی زینت بنائ خم ک خم لنڈھاتا پھر ے ے۔

و گئیں اور وا اور اسی خفت میں اس کی آنکھیں مندنا شروع ت خفیف ہجمیل ب ہ ہ۔و سو گیا تار بھی تھوڑی دیر ک بعد خواب غفلت ک مز لین لگی ے ے ے ے ہ ۔ ہ

ہجمیل ن کئی ب ربط، اوٹ پٹانگ خواب دیکھ کوئی دو گھنٹ ک بعد جب ک ے ے ے۔ ے ےڑبڑا ک اٹھا جب اچھی طرح آنکھیں ا تھا، و ی ڈراؤنا خواب دیکھ ر ت ۔ایک ب ے ہ ہ ہ ہ ہ

ےکھلیں تو اس ن دیکھا ک و ایک اجنبی کمر میں اور اس ک ساتھ الف ننگی ہے ے ہ ہ ےست اس ک دماغ ست آ ی دیر ک بعد واقعات آ وئی لیکن تھوڑی ےلڑکی لیٹی ہ ہ ہ ہ ے ہ ہے۔ ہ

ون لگ ے۔کی دھند چیر کر نمودار ے ہ

ن لیا، مگر اس کو ٹ میں اس ن الٹا پاجام پ ہو خود بھی الف ننگا تھا بوکھال ہ ے ہ ۔ ہن کر اس ن اپنی جیبیں ٹٹولیں نوٹ سب ک سب موجود وا کرتا پ ےاحساس ن ۔ ے ہ ۔ ہ ہ

ول س ےتھ اس ن سوڈا کھوال اور ایک پیگ بنا کر پیا پھر اس ن تار کو ے ہ ہ ے ۔ ے ے۔“ ۔جھنجوڑا “ اٹھو ۔

“ ن لو ا “ کپڑ پ ۔تار آنکھیں ملتی اٹھی جمیل ن اس س ک ہ ے ہ ے ے ۔ ہ

ی تھی جمیل ن ری شام رات بنن کی تیاریاں کر ر ر گ ن لی با ےتار ن کپڑ پ ۔ ہ ے ہ ہ ے۔ ہ ے ے ہت سی تا تھا، کیونک ب ی لیکن و تار س کچھ پوچھنا چا ہسوچا، اب کوچ کرنا چا ہ ہ ے ہ ہ ے۔ ہ

م لیٹ ، میرا مطلب ن س نکل گئی تھیں، “ کیوں تار جب ہےباتیں اس ک ذ ے ہ ہ ے ہ ےوا؟“ ا تو اس ک بعد کیا ہجب میں ن تم س کپڑ اتارن کو ک ے ہ ے ے ے ے

اتھ یں —— آپ ن اپن کپڑ اتار اور میر بازو پر ہتار ن جواب دیا، “ کچھ ن ے ے ے ے ے ہ ے ہ“ ے۔پھیرت پھیرت سو گئ ے ے

“ بس؟“

وں گار ا ‘ میں گن ل آپ دو تین مرتب بڑبڑائ اور ک اں —— لیکن سون س پ ہ“ ہ ہ ے ہ ے ہ ے ے ہ“ ی ک کر تار اٹھی اور اپن بال سنوارن لگی وں گار ۔—— میں گن ے ے ہ ہہ ہ ۔ ہ ہ

ےجمیل بھی اٹھا گنا کا احساس دبان ک لی اس ن ڈبل پیگ اپن حلق میں جلدی ے ے ے ے ہ ۔۔جلدی انڈیال بوتل کو کاغذ میں لپیٹا اور درواز کی طرف بڑھا ے ۔

“ ے۔تار ن پوچھا، “ چل ے ہ

“ ی ک کر و لو کی پیچ دار سیڑھیوں س نیچ اتر گیا اں، پھر کبھی آؤں گا ۔“ ے ے ہے ہ ہہ ہ ۔ ہارن بجا، اس ن مڑ کر ی وال تھ ک ےبڑ بازار کی طرف اس ک قدم اٹھن ہ ہ ے ے ہ ے ے ے

یں مل گئی پیدل چلن وا، ی ا چلو اچھا ےدیکھا تو ایک ٹیکسی کھڑی تھی اس ن ک ۔ ہ ہ ہ ے ۔ے۔کی زحمت س بچ گئ ے

ےاس ن ڈرائیور س پوچھا، “ کیوں بھائی خالی ؟“ ڈرائیور ن جواب دیا، “ خالی ہے ے ے“ وئی ہے۔ کا کیا مطلب —— لگی ہ ہے

“ ی ک کر جمیل مڑا، لیکن ڈرائیور ن اس کو پکارا، “ کدھر جاتا ہےتو پھر ے ہہ ہ ۔۔۔۔۔۔سیٹھ؟“

“ وں ۔جمیل ن جواب دیا، “ کوئی اور ٹیکسی دیکھتا ہ ےیں ن تو ل رکھی یں پھر ال —— ی ٹیکسی تم ر نکل آیا، “ مستک تو ن ےڈرائیور با ے ہ ہ ے ہ ہ

ہے۔“ےجمیل بوکھال گیا، “ میں ن ؟“

اں تو ن —— ساال دارو پی کر ا، “ ج میں اس س ک ےڈرائیور ن بڑ گنوار ل ہ ہ ے ے ہ ے ے“ ۔سب کچھ بھول گیا

و گئ جمیل ن و گئی ادھر ادھر س لوگ اکٹھ ےاس پر تو تو میں میں شروع ے۔ ہ ے ے ۔ ہہٹیکسی کا درواز کھوال اور اندر بیٹھ گیا، “ چلو “

ےڈرائیور ن ٹیکسی چالئی، “ کدھر؟““ ا، “ پولیس سٹیشن ۔جمیل ن ک ہ ے

ی بکی —— جمیل سوچ میں پڑ گیا جو ی تبا ۔ڈرائیور ن اس پر جان کیا وا ہ ہ ے ے۔ٹیکسی اس ن لی تھی، اس کا بل جو اڑتیس روپ کا تھا، اس ن ادا کر دیا تھا ے ے ے

اں س آن ٹپکی گو و نش کی حالت میں تھا مگر و یقینی ہاب ی نئی ٹیکسی ک ے ہ ۔ ے ہ ہاں الیا تھا یں تھی اور ن و ڈرائیور جو اس ی ۔طور پر ک سکتا تھا ک ی و ٹیکسی ن ہ ے ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہہنچ جمیل ک قدم بری طرح لڑکھڑا ر تھ سب انسپکٹر جو ے۔پولیس سٹیشن پ ہے ے ے۔ ہےاس وقت ڈیوٹی پر تھا، فورا بھانپ گیا ک معامل کیا اس ن جمیل کو کرسی پر ہے۔ ہ ہ

ا ۔بیٹھن ک لی ک ہ ے ے ے

۔ڈرائیور ن اپنی داستان شروع کر دی جو سرتاپا غلط تھی جمیل یقینا اس کی ےیں تھی سب انسپکٹر س مخاطب مت ن ےتردید کرتا مگر اس میں زیاد بولن کی ۔ ہ ہ ے ہ

یں آتا ی کیا قص جو ٹیکسی میں ا، “ جناب میر سمجھ میں ن ہےو کر اس ن ک ہ ہ ہ ے ہ ے ہیں ی کون ہن لی تھی، اس کا کرای میں ن اڑتیس روپ ادا کر دیا تھا اب معلوم ن ہ ۔ ے ے ہ ے

“ ہے۔ اور مجھ س کیسا کرای مانگتا ہ ے ہے

“ اور ثبوت ک طور پر اس ن ادر، ی دارو پئ ا، “ حضور انسپکٹر ب ےڈرائیور ن ک ے ہے۔ ے ہ ہ ہ ے۔جمیل کی برانڈی کی بوتل میز پر رکھ دی

یں پی —— سوال تو تا ک اس ن ن ہجمیل جھنجھال گیا، “ ار بھئی کون سؤر ک ے ہ ہے ہ ے“ اں س تشریف ل آئ ے۔ی ک آپ ک ے ے ہ ہ ہے ہ

۔سب انسپکٹر شریف آدمی تھا کرای ڈرائیور ک حساب س بیالیس روپ بنتا تھا ے ے ے ہ ۔ت چیخا چالیا مگر سب انسپکٹر ن ےاس ن بار روپ میں فیصل کر دیا ڈرائیور ب ہ ۔ ہ ے ہ ے

ا ک و ی س ک ہاس کو ڈانٹ ڈپٹ کر تھان س نکلوا دیا پھر اس ن ایک سپا ہ ہ ے ہ ے ۔ ے ےی جمیل ک ساتھ کر دیا ک ہدوسری ٹیکسی الئ ٹیکسی آئی تو اس ن ایک سپا ے ہ ے ے۔

ت شکری ادا ت ب ج میں اس کا ب ہو اس گھر چھوڑ آئ جمیل ن لکنت بھر ل ہ ہ ے ہ ے ے ے۔ ے ہہےکیا اور پوچھا، “ جناب کیا ی گرانٹ روڈ پولیس سٹیشن ؟“ ہ

ا، “ مسٹر اب وئ ک اتھ رکھت ق لگایا اور پیٹ پر ہسب انسپکٹر ن زور س ق ے ہ ے ہ ہہ ہ ے ےو گیا ک تم ن خوب پی رکھی —— ی کوالب پولیس سٹیشن جاؤ اب ہے۔ثابت ہ ہ ہے ے ہ ہ

“ ۔گھر جا کر سو جاؤ

ےجمیل گھر جا ک کھانا کھائ اور کپڑ اتار بغیر سو گیا —— برانڈی کی بوتل ے ے ےی ۔بھی اس ک ساتھ سوتی ر ہ ے

سر میں جیس بڑ ےدوسر روز و دس بج ک قریب اٹھا جوڑ جوڑ میں درد تھا ے ۔ ۔ ے ے ہ ےےبڑ وزنی پتھر تھ من کا ذائق خراب اس ن اٹھ کر دو تین گالس فروٹ سالٹ ۔ ہ ہ ے۔ ے

یں شام کو جا کر طبیعت کسی قدر بحال ہک پیئ چار پانچ پیال چائ ک ، ک ے ے ے ے۔ ے۔وئی اور اس ن خود کو گزشت واقعات ک متعلق سوچن ک قابل محسوس کیا ے ے ے ہ ے ہ

ت لمبی زنجیر تھی ان میں س بعض کڑیاں تو سالمت تھیں، مگر بعض غائب ۔ب ے ۔ ہاں س ل کر کوالب تک بالکل وٹل اور و ہواقعات کا تسلسل شروع س لیکر گرین ے ے ہ ہ ےوتی تھی، ہصاف تھا اس ک بعد جب نٹور ک ساتھ خاص وادی کی سیاحی شروع ے ے ۔م و جاتا تھا چند جھلکیاں دکھائی دیتی تھیں بڑی واضح، مگر فورا مب ہمعامل گڈمڈ ۔ ۔ ہ ہ

و جاتا تھا ۔پرچھائیوں کا سلسل شروع ہ ہ

نچا —— اس کا نام جمیل ک حافظ س پھسل کر ےو کیس اس لڑکی ک گھر پ ے ے ہ ے ے ہہجان کس کھڈ میں جا گرا تھا اس کی شکل و صورت اس البت بڑی اچھی طرح ے ۔ ے

م تھا اگر جمیل کا حافظ ت ا نچا تھا ی جاننا ب ہیاد تھی و اس ک گھر کیس پ ۔ ہ ہ ہ ۔ ہ ے ے ہ ۔و جاتیں مگر بصد کوشش و کسی ت سی چیزیں صاف ہاس کی مدد کرتا تو ب ۔ ہ ہ

لی کو تو چھوڑ دیا نچ سکا اور ی ٹیکسیوں کا کیا سلسل تھا اس ن پ ہنتیج پر ن پ ے ۔ ہ ہ ۔ ہ ہ ےاں س ٹپک پڑی تھی؟ ےتھا، مگر دوسری ک ہ

و گیا اس ن محسوس کیا ک جتن وزنی ےسوچ سوچ ک جمیل کا دماغ پاش پاش ہ ے ۔ ہ ےیں و گئ ۔پتھر تھ سب آپس میں ٹکرا ٹکرا کر چور چور ہ ے ہ ے

لکا کھانا کھایا اور گزشت ہرات کو اس ن برانڈی ک تین پیگ پئ ، تھوڑا سا ہ ے ے ے۔واقعات ک متعلق سوچتا شوچتا سو گیا ے

تا و گیا تھا و چا و گئ تھ ، ان کو تالش کرنا اب جمیل کا شغل ہو ٹکڑ جو گم ہ ۔ ہ ے ے ہ ے ہوا، من و عن اس کی آنکھوں ک سامن آ جائ اور ی روز ہتھا ک جو کچھ اس روز ے ے ے ہ ہو اس ک عالو اس بات کا بھی بڑا قلق تھا ک اس کا گنا ہروز کی مغز پاشی دور ہ ہ ے ۔ ہ

تا تھا ک ہنامکمل ر گیا و سوچتا تھا ک ی ادھورا گنا جائ گا کس کھات میں و چا ہ ہ ۔ ے ے ہ ہ ہ ہ ۔ ہاڑی و جائ مگر تالش بسیار ک باوجود و پ ہبس ایک دفع اس کی بھی تکمیل ہ ے ے۔ ہ ہار گیا تو اس ن ا جب تھک ےبنگلوں جیسا مکان جمیل کی آنکھوں س اوجھل ر ہ ۔ ہ ے

یں تھا ی تو ن ۔ایک دن سوچا کیا ی سب خواب ہ ہ ہ

یں کرتا اس و سکتا تھا خواب میں آدمی اتن روپ تو خرچ ن ۔مگر خواب کیس ہ ے ے ۔ ہ ےوئ تھ ے۔دن اس ک کم از کم ڈھائی سو روپ خرچ ے ہ ے ے

وں ن بتایا ک و اس روز ک ےپیر صاحب س اس ن نٹور ک متعلق پوچھا تو ان ہ ہ ے ہ ے ے ےیں چال گیا غالبا موتیوں ک سلسل میں جمیل ن ی سمندر پار ک ےدوسر دن ۔ ے ے ہے۔ ہ ہ ے

زار لعنتیں بھیجیں اور اپنی تالش شروع کر دی ۔اس پر ہ

ت زور دیا تو اس بنگل کی دیوار ک ساتھ پیتل کی ےاس ن جب اپن حافظ پر ب ے ے ہ ے ے ے۔ایک پلیٹ نظر آئی اس پر کچھ لکھا تھا غالبا —— ڈاکٹر —— ڈاکٹر بیرام جی ۔

۔—— آگ جان کیا ے ے

نچا جو اس ہایک دن کوالب کی گلیوں میں چلت چلت آخر و ایک ایسی گلی میں پ ہ ے ے ہر وئی دو روی اسی قسم کی بنگل نما عمارتیں تھیں چانی محسوس ہکو جانی پ ۔ ہ ہ ۔ ہ ہوئ تھ کسی پر چار کسی پر ر چھوٹ چھوٹ پیتل ک بورڈ لگ ے۔عمارت ک با ے ہ ے ے ے ے ہ ے

۔پانچ —— کسی پر تین

ا ا تھا، مگر اس ک دماغ میں و خط گھوم ر ہو ادھر ادھر غور س دیکھتا چال جا ر ہ ے ہ ے ہو وا تھا ک اب انتظار کی حد ہتھا جو صبح اس کی ساس کی طرف س موصول ہ ہ ے

ن کو ل جاؤ ۔گئی میں ن تاریخ مقرر کر دی آؤ اور اپنی دل ے ہ ہے۔ ے ہے۔

ا تھا ۔اور و ادھر ایک نامکمل گنا کو مکمل بنان کی کوشش میں مارا مارا پھر ر ہ ے ہ ہٹاؤ اس وقت —— پھرن دو مارا مارا —— ایک دم اس ن اپن ا، ےجمیل ن ک ے ے ہ ہ ے

اتھ پیتل کا ایک چھوٹا س بورڈ دیکھا اس پر لکھا تھا —— ڈاکٹر ایم بیرام ن ۔دا ے ہ ے ہ۔جی – ایم ڈی

وئی ی بل کھاتی ی رنگ، و ی، و ی بلڈنگ، بالکل و ہجمیل کانپن لگا ی و ہ ہ ہ ہ ہ ۔ ےچانی تھی ر چیز جانی پ ۔سیڑھیاں، جمیل ب دھڑک اوپر چال گیا اس ک لی اب ہ ہ ے ے ۔ ے

۔کوریڈور س نکل کر اس ن سامن وال درواز پر دستک دی ے ے ے ے ے۔ایک لڑک ن درواز کھوال اسی لڑک ن جو اس روز سوڈا اور برف الیا تھا جمیل ے ے ۔ ہ ے ے

وئ اس س پوچھا، “ بیٹا، بائی جی ٹ پیدا کرت ونٹوں پر مصنوعی مسکرا ےن ے ہ ے ہ ہ ےہیں؟“

اں“ الیا، “ جی ہلڑک ن اثبات میں سر ہ ے ے

ج میں ب تکلفی تھی “ جمیل ک ل یں و، صاحب ملن آئ ۔“ جاؤ، ان س ک ے ے ہ ے ۔ ہ ے ے ہ ے

۔لڑکا درواز بھیڑ کر اندر چال گیا ہ

ی جمیل ن وئی اس کو دیکھت ےتھوڑی دیر ک بعد درواز کھال اور تار نمودار ہ ے ۔ ہ ہ ہ ے“ یں تھی “ نمست ی لڑکی مگر اب اس ک ناک پر پھنسی ن چان لیا ک و ے۔پ ۔ ہ ے ہے ہ ہ ہوئ بالوں کو ایک یں؟“ ی ک کر اس ن اپن کٹ ی مزاج کیس ے“ نمست ، ک ہ ے ے ے ہہ ہ ہ ے ے ہ ے

۔خفیف سا جھٹکا دیاا اس لی آ ن ت مصروف ر یں میں پچھل دنوں ب ہجمیل ن جواب دیا “ اچھ ے ۔ ہ ہ ے ۔ ہ ے ۔ ے

و پھر کیا اراد ؟“ ک ہےسکا ہ ہ ۔“ و چکی ا، “ معاف کیجیئ ، میری شادی ہے۔تار ن بڑی سنجیدگی س ک ہ ے ہ ے ے ہ

۔جمیل بوکھال گیا “ شادی —— کب؟“ےتار ن بڑی سنجیدگی س جواب دیا “ جی، آج صبح —— آئی ، میں آپ کو اپن ے ۔ ے ے ہ

“ ۔پتی س مالؤں ےےجمیل چکرا گیا اور کچھ ک سن بغیر کھٹا کھٹ نیچ اتر گیا سامن ٹیکسی ۔ ے ے ہے

و گیا تیز قدم اٹھاتا و بڑ ےکھڑی تھی جمیل کا دل ایک لحظ ک لی ساکت سا ہ ۔ ہ ے ے ہ ۔۔بازار کی طرف نکل گیا

“ ا، “ سیٹھ صاحب ٹیکسی ۔معا جمیل کو جات دیکھ کر ڈرائیور ن زور س ک ہ ے ے ے“ یں کم بخت شادی ا —— “ ن ۔جمیل ن جھنجھال کر ک ہ ہ ے