آتش پارے.pdf

52
1 ﺁﺗﺶ ﭘﺎﺭے ﺍﺯ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﺣﺳﻥ ﻣﻧﮢﻭqalamurdu.com

Upload: irshad

Post on 21-Dec-2015

104 views

Category:

Documents


12 download

TRANSCRIPT

Page 1: آتش پارے.pdf

1

آتش پارے • از

سعادت حسن منڻو

qalamurdu.com

Page 2: آتش پارے.pdf

2

فہرست

3 انتساب • 4 ديباچہ • 5 خونی تهوک • 12 انقالب پسند • 19 جی آيا صاحب • 25 ماہی گير • 30 تماشا • 35 طاقت کا امتحان • 40 ديوانہ شاعر • 46 چوری •

qalamurdu.com

Page 3: آتش پارے.pdf

3

انتساب

والد مرحوم کے نام

qalamurdu.com

Page 4: آتش پارے.pdf

4

ديباچہ

يہ افسانے دبی ہوئی چنگارياں ہيں، ان کو شعلوں ميں تبديل کرنا پڑهنے والوں کا کام ہے۔

ء1936جنوری 5امرتسر

سعادت حسن منڻو

qalamurdu.com

Page 5: آتش پارے.pdf

5

خونی تهوک گاڑی آنے ميں ابهی کچه دير باقی تهی۔

مسافروں کے گروه کے گروه پليٹ فارم کے سنگين سينے کو روندتے ہوئے ادهر ادهر گهوم رہے تهے۔ پهل بيچنے والی گاڑياں ربڑ ڻائر پہيوں پر خاموشی سے تير رہی تهيں۔ بجلی کے سينکڑوں قمقمے اپنی نہ جهپکنے والی آنکهوں سے

د آہوں کی صورت ميں اپنی ہوا پليٹ فارم کی گدلی فضا ايک دوسرے کو ڻکڻکی لگائے ديکه رہے تهے۔ برقی پنکهے سرميں بکهير رہے تهے۔ دور ريل کی پڻری کے پہلو ميں ايک ليمپ اپنی سرخ نگاہوں سے مسافروں کی آمد و رفت کا بغور

مشاہده کر رہا تها۔۔۔۔۔پليٹ فارم کی فضا سگريٹ کے تند دهوئيں اور مسافروں کے شور ميں لپڻی ہوئی تهی۔

فارم پر ہر ايک شخص اپنی اپنی دهن ميں مست تها۔ تين چار بنچ پر بيڻهے اپنی ہونے والی سير کا تذکره کر رہے پليٹتهے۔ ايک گهڑی کے نيچے خدا معلوم کن خياالت ميں غرق زير لب گنگنا رہا تها۔ دور کونے ميں نيا بياہا ہوا جوڑا ہنس

کچه کهانے کيليے کہہ رہا تها۔ وه شرما کر مسکرا ديتی تهی، پليٹ فارم کے ہنس کر باتيں کر رہا تها۔ خاوند اپنی بيوی کو دوسرے سرے پر ايک نوجوان قليوں کے ساته لڑکهڑا کر چل رہا تها، جو اسکی بہن کا تابوت اڻهائے ہوئے تهے۔ پانچ

رہے تهے۔ بک چه فوجی گورے ہاته ميں چهڑياں لئے اور سيڻی بجاتے ہوئے ريفرشمنٹ روم سے شراب پی کر نکل سڻال پر چند مسافر اپنا وقت ڻالنے کی خاطر يونہی کتابوں کو الٹ پلٹ کر ديکهنے ميں مشغول تهے۔ بہت سے قلی سرخ وردياں پہنے گاڑی کی روشنی کا اميد بهری نگاہوں سے انتظار کر رہے تهے۔۔۔۔۔۔ريفرشمنٹ روم کے اندر ايک صاحب

اڑا کر وقت کاڻنے کی کوشش کر رہے تهے۔ انگريزی لباس زيب تن کئے سگار کا دهؤاں

"قليوں کی زندگی گدهوں سے بهی بدتر ہے۔"

"مگر مياں کيا کريں آخر پيٹ کہاں سے پاليں؟"

"ايک قلی دن بهر ميں کتنا کما ليتا ہوگا؟"

"يہی آڻه دس آنے۔۔۔۔۔۔۔۔"

کر ان کا منہ بهريں۔ جب ان لوگوں کی تاريک يعنی صرف جينے کا سہارا۔۔۔۔۔۔اور اگر بال بچے ہوں تو اپنا پيٹ کاٹ "زندگی کا خيال ايک دفعہ بهی ميرے دماغ ميں آجائے تو پہروں سوچتا رہتا ہوں کہ آيا ان کی مصيبت ہماری نام نہاد

"تہذيب پر بدنما داغ نہيں ہے؟

دو دوست پليٹ فارم پر ڻہلتے ہوئے آپس ميں باتيں کر رہے تهے۔

کيوں مياں يہ لينن کب سے بنے "گفتگو سن کر قدرے متعجب ہوا اور مسکرا کر کہنے لگا۔ خالد اپنے دوست کی تم؟۔۔۔۔۔۔تہذيب کس بال کا نام ہے۔۔۔۔۔۔انسانيت کے سرد لوہے پر جما ہؤا زنگ۔۔۔۔۔۔جانے دو ايسی باتوں کو، جانتے ہو ميں

"پہلے ہی سے اپنے حواس کهوئے بيڻها ہوں۔

باتيں واقعی دماغ کو درہم برہم کر ديتی ہيں۔ دو روز ہوئے اخبار ميں ايک خبر پڑهی کہ پندره خالد، سچ کہہ رہے ہو۔ يہ"مزدور کارخانے ميں آگ لگ جانے کی وجہ سے جلے ہوئے کاغذ کے مانند راکه ہوگئے۔ کارخانہ بيمہ شده تها، مالک

چے يتيم ہوگئے۔ کل تين نمبر پليٹ فارم پر ايک کو روپيہ مل گيا۔ مگر پندره عورتيں بيوه بن گئيں اور خدا معلوم کتنے بخاکروب کام کرتے کرتے گاڑی تلے آکر مرگيا۔ کسی نے آنسو تک نہ بہايا۔۔۔۔۔۔جب سے يہ واقع ديکها ہے، طبيعت سخت مغموم ہے۔ يقين جانو، حلق سے روڻی کا لقمہ نيچے نہيں اترتا، جب ديکهو اس خاکروب کی خون ميں لتهڑی ہوئی الش

ں باہر نکالے ميری طرف گهور رہی ہے۔۔۔۔۔۔مجهے اس کے گهر ضرور جانا چاہئے، شايد ميں اس کے بچوں کی آنکهي "کچه مدد کر سکوں۔

qalamurdu.com

Page 6: آتش پارے.pdf

6

جاؤ۔۔۔۔۔۔پندره مزدوروں کی بيکس بيويوں کی بهی مدد کرو، يہ "خالد مسکرايا اور اپنے دوست کا ہاته دبا کر کہنے لگا۔ کے ساته ہی شہر سے کچه فاصلے پر چند ايسے لوگ بهی آباد ہيں، جنهيں ايک ايک نيک اور مبارک جذبہ ہے مگر اس

وقت کيليے سوکهی روڻی کا نصف ڻکڑا بهی ميسر نہيں۔ گليوں ميں ايسے بچے بهی ہيں جن کے سروں پر کوئی پيار ۔۔۔۔بتاؤ تم کس کس دينے واال نہيں، ايسی سينکڑوں عورتيں موجود ہيں جن کا حسن غربت کے کيچڑ ميں گل سڑ رہا ہے۔۔۔۔

کی مدد کرو گے؟ ان پهيلے ہوئے ہاتهوں ميں سے کس کس کی مڻهی بهرو گے؟۔۔۔۔۔۔۔۔ہزاروں ننگے جسموں ميں سے "کتنوں کی ستر پوشی کرو گے؟

آه، درست کہتے ہو خالد۔۔۔۔درست کہتے ہو، مگر بتاؤ اس تاريک آندهی کو کس طرح روکا جا سکتا ہے؟ اپنے ہم جنس "ذلت کی زندگی بسر کرتے ديکهنا، ننگے سينوں پر چمکتے ہوئے بوڻوں کی ڻهوکريں کهاتے ديکهنا۔۔۔۔۔۔۔۔سخت افراد کو

"بهيانک خواب ہے۔

واقعات کی رفتار کا نتيجہ ديکهنے کا انتظار کرو، يہ لوگ اپنی طاقت کے باوجود اس طوفان کو نہيں روکتے۔ خود "ے۔۔۔۔۔چنگاريوں کو شعلوں ميں تبديل کرنا آسان ہے مگر چنگاری کا پيدا کرنا اعتمادی نے انہيں برداشت کرنا سکها ديا ہ

"بہت مشکل ہے۔۔۔۔۔بہرحال تمهيں اميد رکهنی چاہئے شايد تمهاری زندگی ميں ہی مصائب کے يہ بادل دور ہوجائيں۔

"ميں يہ سہانا وقت ديکهنے کيليے اپنی زندگی کے بقايا سال نذر کرنے کو تيار ہوں۔"

ش يہی خيال باقی لوگوں کے دلوں ميں بهی موجود ہوتا۔۔۔۔۔مگر يار گاڑی آج کچه دير سے آتی معلوم ہوتی ہے۔ ديکهو کا" "نا پڻڑی پر روشنی کا نام و نشان تک نظر نہيں آتا۔

خالد کا ساتهی کسی گہری فکر ميں غوطہ زن تها۔ اسليے اس نے اپنے دوست کے آخری الفاظ بالکل نہ سنے۔ اور اگر "واقعی يہ خيال پيدا کرنا چائيے اور اگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سنے تو کچه اور خيال کرکے کہنے لگا۔

خالد نے اپنے دوست کو بازو سے پکڑتے " چهوڑو مياں اب اس فلسفے کو۔۔۔۔۔کچه پتا بهی ہے، گاڑی کب آنے والی ہے؟" ہوئے کہا۔

نو بج کر پچيس منٹ، بس دس منٹ تک آجائے "اور پهر سامنے والی گهڑی کی طرف نگاه اڻها کر بوال۔ " گاڑی۔۔۔۔۔۔"گی۔۔۔۔۔يعنی دس منٹ کے بعد ہمارا دوست ہمارے پاس ہوگا۔۔۔۔۔۔ذرا خيال تو کرو، ميں وحيد کی آمد کو اس دردناک گفتگو

"کی وجہ سے بالکل بهول چکا تها۔

الد کے دوست نے جيب سے سگريٹ نکال کر سلگانا شروع کيا۔ يہ کہتے ہوئے خ

پليٹ فارم پر لوگوں کا ہجوم تيزی سے بڑه رہا تها۔ مسافر بڑی سرعت سے ادهر ادهر بهاگ رہے تهے۔ قلی اسباب کے ڈهيروں کے پاس خاموش کهڑے گاڑی کے منتظر تهے کہ جلد اپنے کام سے فارغ ہوکر ايک آنہ حاصل کرسکيں۔

والے دوسرے پليٹ فارموں سے جمع ہو کر اپنی اپنی اپنی مخصوص صدا بلند کررہے تهے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فضا، گاڑيوں خوانچہکی گڑگڑاہٹ، مختلف انجنوں کی پهپ پهپ، خوانچہ والوں کی صداؤں، مسافروں کی باہم گفتگو کے شور اور قليوں کی

بهر رہے تهے۔ بهدی آوازوں سے معمور تهی۔۔۔۔۔۔برقی پنکهے بدستور سرد آہيں

ريفرشمنٹ روم کے اندر بيڻهے ہوئے مسافر نے جو ابهی تک سگار کو دانتوں ميں دبائے کش کهينچ رہا تها، اپنی کالئی پر بندهی ہوئی گهڑی کی طرف بڑی بے پروائی کے انداز ميں ديکها، اور بازو کو جهڻکا دے کر مرمريں ميز پر سہارا

ديتے ہوئے بلند آواز ميں بوال۔

"بوائے۔"

ڻهوڑی دير خادم کا انتظار کرنے کے بعد وه پهر چيخا۔

qalamurdu.com

Page 7: آتش پارے.pdf

7

"نمک حرام"اور پهر آہستہ بڑبڑاتے ہوئے۔ " بوائے۔۔۔۔۔۔بوائے۔"

دوسرے کمرے ميں سے کسی کی آواز آئی، اور ساته ہی سپيد لباس پہنے ہوئے ايک خادم بهاگ کر اس " جی آيا حضور۔" مسافر کے قريب مودب کهڑا ہوگيا۔

"حضور۔"

"ہم نے تمهيں دو دفعہ آواز دی۔ سوئے رہتے ہو تم لوگ شايد۔"

"حضور ميں نے سنا نہيں، ورنہ کيا مجال ہے کہ غالم حاضر نہ ہوتا۔"

غالم کا لفظ سن کر مسافر کا غصہ فرو ہوگيا۔

ينچ سکتا ہے، ديکهو درجہ اول کے مسافروں سے يہ بے رخی اچهی نہيں، ہم تمهارے بڑے صاحب کے بهی کان که" "سمجهے؟

"جی ہاں۔"

ايجنٹ کے، وه ہمارا دوست ہے۔۔۔۔۔۔خير، ديکهو تم ويڻنگ روم ميں جاؤ اور ہمارے قلی سے کہو کہ وه صاحب کا تمام " "اسباب پليٹ فارم پر لے جائے۔ گاڑی آنے ميں صرف پانچ منٹ باقی ہيں۔

"بہت اچها حضور۔"

"اته بهجوا دو۔اور ہاں، ہمارا بل دوسرے آدمی کے ہ"

"بہت اچها صاحب"

ديکهو، بل ميں پانچسو پچپن نمبر سگريٹ کے ايک ڈبے کے دام بهی شامل کرلينا۔۔۔۔۔۔پانچسو پچپن نمبر کا ڈبہ خيال " "رہے۔

"بل اور ڈبہ گاڑی ميں لے کر حاضر ہو جاؤں گا، وقت تهوڑا ہے۔"

"ے قلی کو اسباب نکالنے کيليے کہہ دو۔جو مرضی ميں آئے کرنا، مگر اب تم جاؤ اور جلدی ہمار"

مسافر نے يہ کہہ کر ايک انگڑائی لی اور ميز پر پڑے ہوئے شراب کے گالس ميں سے آخری گهونٹ ايک ہی جرعے ميں ختم کرديئے۔ گيلے ہونٹ ايک بے داغ ريشمی رومال سے صاف کرنے کے بعد وه اڻها اور آہستہ آہستہ دورازے کی

طرف بڑها۔

دروازے کی طرف بڑهتے ديکه کر ايک خادم نے جلدی سے دروازه کهول ديا، مسافر بڑی رعونت سے ڻہلتا صاحب کو ڻہلتا پليٹ فارم کی بهيڑ ميں گم ہوگيا۔

دور ريل کی آہنی پڻڑيوں کے درميان خيره کن روشنی کا ايک دهبہ نظر آرہا تها جو آہستہ آہستہ آس پاس کی تاريکی کو ا۔ چيرتا ہوا بڑه رہا ته

ڻهوڑی دير کے بعد يہ دهبہ روشنی کی ايک النبی دهار ميں تبديل ہوگيا اور دفعتا انجن کی چوندهيا دينے والی روشنی ايک لمحے کيليے پليٹ فارم کے قمقموں کو اندها بناتے ہوئے گل ہو گئی۔ ساته ہی کچه عرصہ کيليے انجن کے آہنی

qalamurdu.com

Page 8: آتش پارے.pdf

8

ر دب کر ره گيا۔۔۔ايک چيخ کے ساته گاڑی سڻيشن کے سنگين چبوترے پہيوں کی بهاری گڑگڑاہٹ تلے پليٹ فارم کا شو کے پہلو ميں کهڑی ہوگئی۔

پليٹ فارم کا دبا ہوا شور انجن کی گڑگڑاہٹ سے آزاد ہو کر ايک نئی تازگی سے بلند ہوا۔ مسافروں کی دوڑ دهوپ، بچوں کی کهڑکهڑاہٹ، خوانچہ والوں کی بلند صدائيں، کے رونے کی آواز، قليوں کی بهاگ دوڑ، اسباب نکالنے کا شور، ڻهيلوں

شينٹ کرتے ہوئے انجن کی دلخراش چيخيں اور بهاپ نکلنے کی شاں شاں، پليٹ فارم کی آہنی چهت تلے فضا ميں ايک دوسرے سے ڻکراتے ہوئے تير رہی تهيں۔

"خالد۔۔۔۔۔۔وحيد کو تم نے ديکها کسی ڈبے ميں۔"

"نہيں تو"

"سے آيا بهی ہے يا نہيں۔خدا جانے اس گاڑی "

"تار ميں تو اسی گاڑی کا ذکر تها۔۔۔۔۔۔۔۔ارے، وه ڈبے ميں کون ہے۔۔۔۔وحيد۔"

"ہاں، ہاں، وحيد۔"

دونوں دوست بهاگتے ہوئے اس ڈبے کی طرف بڑهے جس ميں سے وحيد اپنا اسباب اتروا رہا تها۔

رف بڑها۔ باہر دروازے کے ساته لگے ہوئے کاغذ کو ريفرشمنٹ روم واال مسافر تيزی سے فرسٹ کالس کمپاڑمنٹ کی طايک نظر ديکهنے کے بعد دروازه کهول کر ڈبے کے اندر داخل ہوگيا اور پيتل کی سالخ تهام کر قلی اور اپنے اسباب کا

انتظار کرنے لگا۔

جهال کر بلند آواز ميں قلی اسباب سے لدا ہوا گاڑی کے ڈبوں کی طرف ديکه ديکه کر دوڑا چال آرہا تها۔ مسافر نے اسے پکارا۔

"ابے اندهے، ادهر آ"

قلی نے مسافر کی آواز پہچان کر ادهر ادهر نگاه دوڑائی مگر بهيڑ ميں خود مسافر کو نہ ديکه سکا، وه ابهی اسی پريشانی کی حالت ميں ہی تها کہ ايک اور آواز آئی۔

"سيده۔کيوں۔ نظر نہيں آرہا کيا؟ ادهر، ادهر۔۔۔۔۔ناک کی "

قلی نے مسافر کو ديکه ليا اور اسباب ليکر اسکے ڈبے کے پاس جا کر کهڑا ہوگيا۔

"صاحب، ايک طرف ہٹ جائيے ميں اسباب اندر رکهدوں"

مگر اتنا عرصہ سوئے رہے تهے کيا؟ "دروازے کے ساته ايک گدے دار نشست پر بيڻهتے ہوئے بوال۔ " ہاں رکهو" "تها کہ صاحب کا سامان اڻها کر گاڑی آتے ہی فورا ڈبے ميں رکه دينا؟ خانسامے نے تمهيں يہ نہيں کہا

قلی نے ايک بهاری ڻرنک اڻها کر باالئی نشست پر رکهتے " مجهے معلوم نہيں تها کہ آپ کس ڈبے ميں سوار ہونگے" ہوئے کہا۔

"يہ ڈبہ ہمارا ريزرو کرايا ہوا ہے، باہر چٹ پر نام بهی لکها ہوا ہے۔"

qalamurdu.com

Page 9: آتش پارے.pdf

9

۔۔۔۔۔ايک، دو، تين۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آڻه۔۔۔اور دس، قلی نے اسباب کی مختلف اشيا "ہلے يہ کہا ہوتا تو ہرگز يہ دير نہ ہوتیآپ نے پ" گننا شروع کرديں۔

سامان قرينے سے رکهنے کے بعد قلی نے اپنے اطمينان کيليے ايک بار رکهی ہوئی چيزوں پر نگاه ڈالی اور ڈبے سے نيچے پليٹ فارم پر اتر گيا۔

"صاحب، اپنا سامان پورا کر ليجئے"

مسافر نے بڑی بے پروائی سے اپنی جيب سے ايک نفيس بڻوه نکاال اور ابهی کهول کر مزدوری ادا کرنے واال ہی تها کہ اسے کچه ياد آيا۔

"ہماری چهڑی کہاں ہے؟"

"چهڑی؟۔۔۔۔۔۔۔ چهڑی تو آپ کے پاس ہی تهی۔"

"ہيں چهوڑ آيا ہوگا توميرے پاس، بکتا کيا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔و"

چهڑی آپ کے پاس تهی۔۔۔۔۔مگر صاحب اس سخت کالمی سے پيش آنا درست نہيں، جب ميں نے کوئی خطا ہی نہيں " "کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قلی کی زبان سے اس قسم کے الفاظ سن کر مسافر آگ بهبهوکا ہوگيا اور اپنی جگہ سے اڻهکر دروازے کے پاس کهڑا ہو کر چالنے لگا۔

کالمی سے پيش آنا درست نہيں۔۔۔۔۔۔۔کسی نواب کا صاحبزاده ہے۔۔۔۔۔جتنے کی چهڑی ہے اتنی تو تيری قيمت بهی سخت" "نہيں۔۔۔۔۔۔۔چهڑی ليکر آتا ہے يا نہيں؟۔۔۔۔۔۔چور کہيں کا۔

ے چور کے لفظ نے قلی کے دل ميں ايک طوفان برپا کرديا، اسکے جی ميں آئی کہ اس مسافر کو ڻانگ سے پکڑ کر نيچ کهينچ لے اور اسے اس اکڑفوں کا مزا چکها دے۔ مگر طبيعت پر قابو پا کر خاموش ہوگيا اور نرمی سے کہنے لگا۔

"آپ کو ضرور غلط فہمی ہوئی ہے، چهڑی آپ نے کہيں رکهدی ہوگی، مجهے بتائيے ميں وہاں سے پتا لے آؤں۔"

"ؤ ورنہ ساری شيخی کرکری کردوں گا۔گويا ميں بيوقوف ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ميں کہہ رہا ہوں، چهڑی ليکر آ"

قلی ابهی کچه جواب دينے ہی لگا تها کہ اسے چند قدم کے فاصلے پر خانساماں نظر آيا جو ہاته ميں سگريٹ کا ڈبہ اور چهڑی پکڑے چال آرہا تها۔

"چهڑی خانساماں ليکر آرہا ہے اور آپ خواه مخواه مجه پر برس رہے ہيں۔"

"اب۔۔۔۔۔۔۔کتے کی طرح چالئے جا رہا ہے۔بکو نہيں "

يہ سنکر قلی غصے سے بهرا ہوا مسافر کی طرف بڑها۔ مسافر نے پورے زور سے اسکے بڑهے ہوئے سينے ميں نوکيلے بوٹ سے ڻهوکر لگائی۔ ڻهوکر کهاتے ہی قلی چکراتا ہوا سنگين فرش پر گر کر بيہوش ہوگيا۔

اردگرد جمع ہوگئيے۔ قلی کو گرتے ديکه کر بہت سے لوگ اسکے

"بيچارے کو بہت سخت چوٹ آئی ہے۔"

qalamurdu.com

Page 10: آتش پارے.pdf

10

"يہ لوگ بہانہ بهی کيا کرتے ہيں۔"

"منہ سے شايد خون بهی نکل رہا ہے۔"

"معاملہ کيا ہے؟"

"اس آدمی نے اسے بوٹ سے ڻهوکر لگائی ہے۔"

"کہيں مر نہ جائے بيچاره۔"

"کوئی دوڑ کر پانی کا ايک گالس تو الئے۔"

"ايک طرف ہٹ کر کهڑے رہو، ہوا تو آنے دو۔بهئی "

قلی کے گرد جمع ہوتے ہوئے لوگ آپس ميں طرح طرح کی باتيں کر رہے تهے۔ تهوڑی دير کے بعد خالد اور اسکا دوست بهيڑ چير کر گرے ہوئے مزدور کے قريب پہنچے۔ خالد نے اسکے سر کو اپنے گهڻنوں پر اڻها ليا اور اخبار سے

ردی۔ پهر اپنے دوست سے مخاطب ہو کر بوال۔ ہوا دينا شروع ک

مسعود، وحيد سے کہہ دو کہ ہم اب اسے گهر پر ہی مل سکيں گے۔۔۔۔اور ہاں ذرا اس ظالم کو تو ديکهنا، کہاں " "ہے۔۔۔۔گاڑی چلنے والی ہے، کہيں وه چال نہ جائے۔

ا کانپتے ہوئے ہاتهوں سے اخبار يہ سنتے ہی لوگ اس مسافر کے ڈبے کے پاس جمع ہوگئے جو کهڑکی کے پاس بيڻه پڑهنے کی بے سود کوشش کررہا تها۔

مسعود اپنے دوست وحيد سے رخصت ليکر اس مسافر کی طرف بڑها اور کهڑکی کے قريب جا کر نہايت شائستگی سے کہا۔

"آپ يہاں اخبار بينی ميں مصروف ہيں اور وه بيچاره بيہوش پڑا ہے۔"

"پهر ميں کيا کروں؟"

"اور کم از کم اسکی حالت کو مالحظہ تو کيجيئے۔چلئے "

چلئے صاحب۔۔۔۔۔۔يہ "اور پهر دروازے سے باہر نکلتے ہوئے۔ " کمبخت نے ميرے سفر کا تمام لطف غارت کرديا ہے۔" "مصيبت بهی ديکهنا تهی۔

لی کے چہروں کی خالد بيہوش قلی کا سر تهامے اسے پانی پالنے کی کوشش کررہا تها۔ لوگ جهکے ہوئے خالد اور ق طرف بغور ديکه رہے تهے۔

مسعود نے مسافر کو آگے بڑهنے کو کہا۔ " خالد، آپ تشريف لے آئے ہيں۔"

مسعود نے مسافر سے کہا۔ " ہاں، جناب۔۔۔۔۔يہ ہے آپ کے ظلم کا شکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی ڈاکڻر کو ہی بلوا ليا ہوتا آپ نے؟"

يکه کر بہت خوفزده ہوا اور گهبراتے ہوئے جيب سے اپنا بڻوه نکاال۔ مسافر، قلی کے زرد چہره اور لوگوں کا گروه د

qalamurdu.com

Page 11: آتش پارے.pdf

11

مسافر ابهی بڻوه نکال رہا تها کہ قلی کا جسم متحرک ہوا اور اس نے اپنی آنکهيں کهول کر ہجوم کی طرف پريشان نگاہوں سے ديکهنا شروع کيا۔

مسافر نے مسعود کے ہاته " کا وقت ہوگيا ہے۔يہ نوٹ آپ اسے ميری طرف سے دے ديجيئے گا۔۔۔۔۔ميں چلتا ہوں گاڑی "ميں دس روپے کا ايک نوٹ پکڑاتے ہوئے انگريزی ميں کہا، اور پهر قلی کو ہوش ميں آتے ديکه کر اس سے مخاطب

"ہم نے اس غلطی کی قيمت ادا کردی ہے۔"ہوا۔

ند الفاظ اپنی زخمی چهاتی پر قلی يہ سنکر تڑپا، منہ سے خون کی ايک دهار بہہ نکلی، بڑی کوشش سے اس نے يہ چ زور دے کر نکالے۔

ميں بهی انگريزی زبان جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دس روپے۔۔۔۔۔۔۔ايک انسان کی جان کی قيمت۔۔۔۔۔۔ميرے پاس بهی کچه " "ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔

باقی الفاظ اسکے خون بهرے منہ ميں بلبلے بن کر ره گئے، مسافر قلی کی يہ حالت ديکه کر اسکے پاس گهڻنوں کے بل بيڻه گيا اور اسکا ہاته دبا کر کہنے لگا۔

"ميں زياده بهی دے سکتا ہوں۔"

۔ قلی نے بڑی تکليف سے مسافر کی طرف رخ پهيرا اور منہ سے خون کے بلبلے نکالتے ہوئے کہا

"ميرے پاس۔۔۔۔۔۔۔۔بهی۔۔۔۔۔۔۔۔کچه ہے۔۔۔۔۔۔۔۔يہ لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

يہ کہتے ہوئے اس نے مسافر کے منہ پر تهوک ديا، تڑپا اور پليٹ فارم کی آہنی چهت کی طرف مظلوم نگاہوں سے ديکهتا ہوا خالد کی گود ميں سرد ہوگيا۔۔۔۔۔۔مسافر کا منہ خونی تهوک سے رنگا ہوا تها۔

عود نے الش دوسرے آدميوں کے حوالہ کرکے مسافر کو پکڑ کر پوليس کے سپرد کرديا۔ خالد اور مس

مسافر کا مقدمہ دو مہينے تک متواتر عدالت ميں چلتا رہا۔

آخر فيصلہ سنا ديا گيا، فاضل جج نے ملزم کو معمولی جرمانہ کرنے کے بعد بری کرديا۔ فيصلے ميں يہ لکها تها کہ قلی پهٹ جانے سے واقع ہوئی ہے۔ کی موت اچانک تلی

فيصلہ سناتے وقت خالد اور مسعود بهی موجود تهے۔ ملزم انکی طرف ديکه کر مسکرايا اور کمرے سے باہر چال گيا۔

"قانون کا قفل صرف طالئی چابی سے کهل سکتا ہے۔"

"مگر ايسی چابی ڻوٹ بهی جايا کرتی ہے۔"

گفتگو کر رہے تهے۔ خالد اور اسکا دوست باہر برآمدے ميں باہم

"ساقی"اشاعت اوليں۔

qalamurdu.com

Page 12: آتش پارے.pdf

12

انقالب پسند ميری اور سليم کی دوستی کو پانچ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس زمانے ميں ہم نے ايک ہی سکول سے دسويں

جماعت کا امتحان پاس کيا، ايک ہی کالج ميں داخل ہوئے اور ايک ہی ساته ايف اے کے امتحان ميں شامل ہوکر فيل ئے۔ پهر پرانا کالج چهوڑ کر ايک نئے کالج ميں داخل ہوئے۔۔۔۔۔اس سال ميں تو پاس ہوگيا مگر سليم سوئے قسمت سے ہو

پهر فيل ہوگيا۔

سليم کی دوباره ناکاميابی سے لوگ يہ نتيجہ اخذ کرتے ہيں کہ وه آواره مزاج اور ناالئق ہے۔۔۔۔۔۔يہ بالکل افترا ہے۔ سليم کا يثيت سے ميں يہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ سليم کا دماغ بہت روشن ہے۔ اگر وه پڑهائی کی بغلی دوست ہونے کی ح

طرف ذرا بهی توجہ ديتا تو کوئی وجہ نہ تهی کہ وه صوبہ بهر ميں اول نہ رہتا۔ اب يہاں يہ سوال پيدا ہوتا ہے کہ اس نے پڑهائی کی طرف کيوں توجہ نہ دی؟

هے اسکی تمام تر وجہ وه خياالت معلوم ہوتے ہيں جو ايک عرصے سے اسکے دل و جہاں تک ميرا ذہن کام ديتا ہے مج دماغ پر آہستہ آہستہ چها رہے تهے۔

دسويں جماعت اور کالج ميں داخل ہوتے وقت سليم کا دماغ ان تمام الجهنوں سے آزاد تها جس نے اسے ان دنوں پاگل ميں وه ديگر طلبہ کی طرح ہر کهيل کود ميں حصہ ليا کرتا تها۔ خانے کی چارديواری ميں مقيد کر رکها ہے۔ ايام کالج

سب لڑکوں ميں ہردلعزيز تها مگر يکايک اسکے والد کی ناگہانی موت نے اس کے متبسم چہرے پر غم کی نقاب اوڑها دی۔۔۔۔۔۔اب کهيل کود کی جگہ غور و فکر نے لے لی۔

ہوئے؟ يہ مجهے معلوم نہيں۔ سليم کی نفسيات کا مطالعہ کرنا وه کيا خياالت تهے، جو سليم کے مضطرب دماغ ميں پيدابہت اہم کام ہے۔ اسکے عالوه وه خود اپنی دلی آواز سے ناآشنا تها۔ اسنے کئی مرتبہ گفتگو کرتے وقت يا يونہی سير

"عباس جی چاہتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کرتے ہوئے اچانک ميرا بازو پکڑ کر کہا ہے۔

ميں نے اسکی طرف تمام توجہ مبذول کرکے پوچها ہے۔ مگر ميرے اس استفسار پر اس " ا جی چاہتا ہےہاں، ہاں، کي"کے چہرے کی غير معمولی تبديلی اور گلے ميں سانس کے تصادم نے صاف طور پر ظاہر کيا ہے کہ وه اپنے دلی مدعا

کو خود نہ پہچانتے ہوئے الفاظ ميں ظاہر نہيں کرسکتا۔

احساسات کو کسی شکل ميں پيش کرکے دوسرے ذہن پر منتقل کرسکتا ہے وه دراصل اپنے دل کا وه شخص جو اپنے بوجه ہلکا کرنے کی قدرت کا مالک ہے۔ اور وه شخص جو محسوس کرتا ہے مگر اپنے احساس کو خود آپ اچهی طرح

ہے جو اپنے حلق ميں نہيں سمجهتا اور پهر اس اضطراب کو بيان کرنے کی قدرت نہيں رکهتا اس شخص کے مرادف ڻهنسی ہوئی چير کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہا ہے مگر وه گلے سے نيچے اترتی جارہی ہو۔۔۔۔۔۔يہ ايک ذہنی عذاب

ہے جسکی تفصيل لفظوں ميں نہيں آسکتی۔

جوم چهايا سليم شروع ہی سے اپنی آواز سے نا آشنا رہا ہے اور ہوتا بهی کيونکر جب اسکے سينے ميں خياالت کا ايک ہرہتا تها اور بعض اوقات ايسا بهی ہوا ہے کہ وه بيڻها بيڻها اڻه کهڑا ہوا ہے اور کمرے ميں چکر لگا کر لمبے لمبے سانس بهرنے شروع کرديے۔۔۔۔۔غالبا وه اپنے اندرونی انتشار سے تنگ آکر ان خياالت کو جو اسکے سينے ميں بهاپ کے مانند

ذريعے باہر نکالنے کا کوشاں ہوا کرتا تها۔ اضطراب کے انہی تکليف ده لمحات ميں چکر لگا رہے ہوتے، سانسوں کے عباس، يہ خاکی کشتی کسی روز تند موجوں کی تاب نہ ال کر چڻانوں "اسنے اکثر اوقات مجه سے مخاطب ہو کر کہا ہے۔

"سے ڻکرا کر پاش پاش ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔مجهے انديشہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

يشے کو پوری طرح بيان نہيں کرسکتا تها۔ وه اپنے اند

سليم کسی متوقع حادثے کا منتظر ضرور تها مگر اسے يہ معلوم نہ تها کہ وه حادثہ کس شکل ميں پردۀ ظہور پر نمودار ہوگا۔۔۔۔۔اسکی نگاہيں ايک عرصے سے دهندلے خياالت کی صورت ميں ايک موہوم سايہ ديکه رہی تهيں جو اسکی طرف

اس تاريک شکل کے پردے ميں کيا نہاں ہے۔ بڑهتا چال آرہا تها، مگر وه يہ نہيں بتا سکتا تها کہ

qalamurdu.com

Page 13: آتش پارے.pdf

13

ميں نے سليم کی نفسيات سمجهنے کی بہت کوشش کی ہے، مگر مجهے اسکی منقلب عادات کے ہوتے ہوئے کبهی معلوم نہيں ہوسکا کہ وه کن گہرائيوں ميں غوطہ زن ہے۔ اور اس دنيا ميں ره کر اپنے مستقبل کيليے کيا کرنا چاہتا ہے جبکہ

کے انتقال کے بعد وه ہر قسم کے سرمائے سے محروم کرديا گيا تها۔ اپنے والد

ميں ايک عرصے سے سليم کو منقلب ہوتے ديکه رہا تها اسکی عادات دن بدن بدل رہی تهيں۔۔۔۔۔کل کا کهلنڈرا لڑکا، ميرا ہم جماعت ايک مفکر ميں تبديل ہورہا تها۔۔۔۔۔۔۔۔يہ تبديلی ميرے لئے سخت باعث حيرت تهی۔

چه عرصے سے سليم کی طبعيت پر ايک غير معمولی سکون چها گيا تها۔ جب ديکهو اپنے گهر ميں خاموش بيڻها ہوا کہے اور اپنے بهاری سر کو گهڻنوں ميں تهامے کچه سوچ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔وه کيا سوچ رہا ہوتا، يہ ميری طرح خود اسے بهی

پنی گرم آنکهوں پر دوات کا آہنی ڈهکنا يا گالس کا بيرونی حصہ معلوم نہ تها۔ ان لمحات ميں ميں نے اسے اکثر اوقات ا پهيرتے ديکها ہے۔۔۔۔۔۔شايد وه اس عمل سے اپنی آنکهوں کی حرارت کم کرنا چاہتا تها۔

سليم نے کالج چهوڑتے ہی غير ملکی مصنفوں کی بهاری بهر کم تصانيف کا مطالعہ شروع کرديا تها۔ شروع شروع ميں ر ايک کتاب نظر آئی۔ پهر آہستہ آہستہ اس الماری ميں جس ميں شطرنج، تاش اور اسی قسم کی ديگر مجهے اسکی ميز پ

کهيليں رکها کرتا تها، کتابيں ہی کتابيں نظر آنے لگيں۔۔۔۔۔اسکے عالوه وه کئی کئی دنوں تک گهر سے کہيں باہر چال جايا کرتا تها۔

ولی سکون ان کتابوں کے انتهک مطالعہ کا نتيجہ تها جنہيں اسنے جہاں تک ميرا خيال ہے سليم کی طبيعت کا غير معم بڑے قرينے سے الماری ميں سجا رکها تها۔

سليم کا عزيز ترين دوست ہونے کی حيثيت ميں، ميں اس کی طبيعت کے غير معمولی سکون سے سخت پريشان تها۔ اسکے عالوه مجهے سليم کی صحت کا بهی مجهے انديشہ تها کہ يہ سکون کسی وحشت خيز طوفان کا پيش خيمہ ہے۔

بہت خيال تها۔ وه پہلے ہی بہت کمزور جثے کا واقع ہوا تها، اس پر اس نے خواه مخواه اپنے آپ کو خدا معلوم کن کن الجهنوں ميں پهنسا ليا تها۔ سليم کی عمر بمشکل بيس سال کی ہوگی مگر اسکی آنکهوں کے نيچے شب بيداری کی وجہ

پڑ گئے تهے۔ پيشانی جو اس سے قبل بالکل ہموار تهی اب اس پر کئی شکن پڑے رہتے تهے۔۔۔۔۔جو سے سياه حلقے اسکی ذہنی پريشانی کو ظاہر کرتے تهے۔ چہره جو کچه عرصہ پہلے بہت شگفتہ ہوا کرتا تها اب اس پر ناک اور لب کے

ديا تها۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس غير معمولی تبديلی کو ميں درميان گہری لکيريں پڑ گئی تهيں جنہوں نے سليم کو قبل از وقت معمر بنانے اپنی آنکهوں کے سامنے وقوع پذير ہوتے ديکها ہے۔ جو مجهے ايک شعبدے سے کم معلوم نہيں ہوتی۔۔۔۔۔۔يہ کيا کم

تعجب کی بات ہے کہ ميری عمر کا لڑکا ميری نظروں کے سامنے بوڑها ہو جائے۔

ک نہيں۔ مگر اسکے يہ معنی نہيں ہوسکتے کہ وه سڑی اور ديوانہ ہے۔ اسے سليم پاگل خانے ميں ہے۔ اس ميں کوئی شغالبا اس بنا پر پاگل خانے بهيجا گيا ہے کہ وه بازاروں ميں بلند بانگ تقريريں کرتا ہے۔ راه گزروں کو پکڑ پکڑ کر انہيں

باس اتار کر ننگے بچوں کو پہنا زندگی کے مشکل مسائل بتا کر جواب طلب کرتا ہے اور امراء کے حرير پوش بچوں کا لديتا ہے۔۔۔۔۔۔ممکن ہے يہ حرکات ڈاکڻروں کے نزديک ديوانگی کی عالمتيں ہوں مگر ميں تيقن کے ساته کہہ سکتا ہوں کہ

سليم پاگل نہيں ہے بلکہ وه لوگ جنہوں نے اسے امن عامہ ميں خلل ڈالنے واال تصور کرتے ہوئے آہنی سالخون کے يا ہے کسی ديوانے حيوان سے کم نہيں ہيں۔ پنجرے ميں قيد کرد

اگر وه اپنی غير مربوط تقرير کے ذريعے لوگوں تک اپنا پيغام پہنچانا چاہتا ہے تو کيا انکا فرض نہيں ہے کہ وه اسکے ہر لفظ کو غور سے سنيں؟

ی يہ لئے جائينگے کہ اسکا اگر وه راه گزاروں کے ساته فلسفۂ حيات پر تبادلۂ خياالت کرنا چاہتا ہے تو کيا اسکے معن وجود مجلسی دائره کيليے نقصان ده ہے؟ کيا زندگی کے حقيقی معانی سے باخبر ہونا ہر انسان کا فرض نہيں ہے؟

اگر وه متمول اشخاص کے بچوں کا لباس اتار کر غربا کے برہنہ بچوں کا تن ڈهانپتا ہے تو کيا يہ عمل ان افراد کو انکے رتا جو فلک بوس عمارتوں ميں دوسرے لوگوں کے بل بوتے پر آرام کی زندگی بسر کر رہے فرائض سے آگاه نہيں ک

ہيں؟ کيا ننگوں کی ستر پوشی کرنا ايسا فعل ہے کہ اسے ديوانگی پر محمول کيا جائے؟

qalamurdu.com

Page 14: آتش پارے.pdf

14

نيا کو سيلم ہرگز پاگل نہيں ہے مگر مجهے يہ تسليم ہے کہ اسکے افکار نے اسے بيخود ضرور بنا رکها ہے۔ دراصل وه دکچه پيغام دينا چاہتا ہے مگر دے نہيں سکتا۔ ايک کم سن بچے کی طرح وه تتال تتال کر اپنے قلبی احساسات بيان کرنا چاہتا

ہے مگر الفاظ اسکی زبان پر آتے ہی بکهر جاتے ہيں۔

سے اپنے افکار کی وه اس سے قبل ذہنی اذيت ميں مبتال تها مگر اب اسے اور اذيت ميں ڈال ديا گيا ہے۔ وه پہلے ہی الجهنوں ميں گرفتار ہے اور اب اسے زندان نما کوڻهڑی ميں قيد کر ديا گيا ہے۔ کيا يہ ظلم نہيں ہے؟

ميں نے آج تک سليم کی کوئی بهی ايسی حرکت نہيں ديکهی جس سے ميں يہ نتيجہ نکال سکوں کہ وه ديوانہ ہے ہاں البتہ مشاہده ضرور کرتا رہا ہوں۔ کچه عرصے سے ميں اسکے ذہنی انقالبات کا

شروع شروع ميں جب ميں نے اسکے کمرے کے تمام فرنيچر کو اپنی اپنی جگہ سے ہڻا ہوا پايا تو ميں نے اس تبديلی کی طرف خاص توجہ نہ دی، دراصل ميں نے اس وقت خيال کيا کہ شايد سليم نے فرنيچر کی موجوده جگہ کو زياده موزؤں

و يہ ہے کہ ميری نظروں کو جو کرسيوں اور ميزوں کو کئی سالوں سے ايک جگہ ديکهنے کی خيال کيا ہے اور حقيقت ت عادی تهيں وه غير متوقع تبديلی بہت بهلی معلم ہوئی۔

اس واقعے کے چند روز بعد جب ميں کالج سے فارغ ہو کر سليم کے کمرے ميں داخل ہوا تو کيا ديکهتا ہوں کہ فلمی يک عرصے سے کمرے کی ديواروں پر آويزاں تهيں اور جنہيں ميں نے اور سليم نے بہت ممثلوں کی دو تصاوير جو ا

مشکل کے بعد فراہم کيا تها باہر ڻوکری ميں پهڻی پڑی ہيں اور انکی جگہ انہی چوکهڻوں ميں مختلف مصنفوں کی ليم کا يہ انتخاب بہت پسند آيا تصويريں لڻک رہی ہيں۔۔۔۔۔۔چونکہ ميں خود ان تصاوير کا اتنا مشاق نہ تها اسلئے مجهے س

چنانچہ ہم اس روز دير تک ان تصويروں کے متعلق گفتگو بهی کرتے رہے۔

جہاں تک مجهے ياد ہے اس واقعہ کے بعد سليم کے کمرے ميں ايک ماه تک کوئی خاص قابل ذکر تبديلی واقع نہيں ہوئی تخت پڑا پايا جس پر سليم نے کپڑا بچها کر کتابيں مگر اس عرصے کے بعد ميں نے ايک روز اچانک کمرے ميں بڑا سا

چن رکهی تهيں اور آپ قريب ہی زمين پر ايک تکيہ کا سہارا ليے کچه لکهنے ميں مصروف تها۔ ميں يہ ديکه کر سخت متعجب ہوا اور کمرے ميں داخل ہوتے ہی سليم سے يہ سوال کيا۔ کيوں مياں، اس تخت کے کيا معانی؟

کرسيوں پر روزانہ بيڻهتے بيڻهتے طبيعت اکتا گئی ہے، اب يہ "عادت تهی، مسکرايا اور کہنے لگا۔ سليم،جيسا کہ اسکی "فرش واال سلسلہ ہی رہے گا۔

بات معقول تهی، ميں چپ رہا۔ واقعی روزانہ ايک ہی چيز کا استعمال کرتے کرتے طبيعت ضرور اچاٹ ہو جايا کرتی ہے وه تخت مع تکيئے کے غائب پايا تو ميرے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی اور مگر جب پندره بيس روز کے بعد ميں نے

مجهے شبہ سا ہوا کہ کہيں ميرا دوست واقعی خبطی تو نہيں ہوگيا ہے۔

سليم سخت گرم مزاج واقع ہوا ہے۔ اسکے عالوه اسکے وزنی افکار نے اسے معمول سے زياده چڑچڑا بنا رکها ہے۔ سے سواالت نہيں کيا کرتا جو اسکے دماغی توازن کو درہم برہم کرديں يا جس سے وه خواه اسلئے ميں عموما اس سے اي

مخواه کهج جائے۔

فرنيچر کی تبديلی، تصويروں کا انقالب، تخت کی آمد اور پهر اسکا غائب ہوجانا واقعی کسی حد تک تعجب خيز ضرور ر چونکہ مجهے سليم کو آزرده خاطر کرنا اور اسکے کام ہيں اور واجب تها کہ ميں نے ان امور کی وجہ دريافت کرتا مگ

ميں دخل دينا منظور نہ تها اسليے ميں خاموش رہا۔

ڻهوڑے عرصے کے بعد سليم کے کمرے ميں ہر دوسرے تيسرے دن کوئی نہ کوئی تبديلی ديکهنا ميرا معمول ہوگيا۔۔۔۔اگر يا گيا ہے۔ اسکے دو روز بعد وه ميز جو کچه عرصہ آج کمرے ميں تخت موجود ہے تو ہفتے کے بعد وہاں سے اڻها د

پہلے کمرے کے دائيں طرف پڑی تهی، رات رات ميں وہاں سے اڻها کر دوسری طرف رکه دی گئی ہے۔ انگهيڻی پر رکهی ہوئی تصاوير کے زاويے بدلے جارہے ہيں۔ کپڑے لڻکانے کی کهونڻياں ايک جگہ سے اکهيڑ کر دوسری جگہ پر

کرسيوں کے رخ تبديل کئے گئے ہيں، گويا کمرے کی ہر شے سے ايک قسم کی قواعد کرائی جاتی تهی۔ جڑ دی گئی ہيں۔

qalamurdu.com

Page 15: آتش پارے.pdf

15

ايک روز جب ميں نے کمرے کے تمام فرنيچر کو مخالف رخ ميں پايا تو مجه سے رہا نہ گيا اور ميں نے سليم سے لتے ديکه رہا ہوں، آخر بتاؤ تو سليم ميں ايک عرصے سے اس کمرے کو گرگٹ کی طرح رنگ بد"دريافت کر ہی ليا۔

"سہی يہ تمهارا کوئی نيا فلسفہ ہے؟

سليم نے جواب ديا۔ " تم جانتے نہيں ہو، ميں انقالب پسند ہوں۔"

يہ سن کر ميں اور بهی متعجب ہوا۔ اگر سليم نے يہ الفاظ اپنی حسب معمول مسکراہٹ کے ساته کہے ہوتے تو ميں يقينی وه صرف مذاق کررہا ہے مگر يہ جواب ديتے وقت اسکا چہره اس امر کا شاہد تها کہ وه سنجيده طور پر يہ خيال کرتا کہ

ہے اور ميرے سوال کا جواب وه انہی الفاظ ميں دينا چاہتا ہے۔ ليکن پهر بهی ميں تذبذب کی حالت ميں تها، چنانچہ ميں "مذاق کر رہے ہو يار؟"نے اس سے کہا۔

يہ کہتے ہوئے وه کهل کهال کر ہنس پڑا۔ " پسند۔ تمهاری قسم بہت بڑا انقالب"

مجهے ياد ہے کہ اسکے بعد اسنے ايسی گفتگو شروع کی تهی۔ مگر ہم دونوں کسی اور موضوع پر اظہار خياالت کرنے لگ گئے تهے۔۔۔۔۔يہ سليم کی عادت ہے کہ وه بہت سی باتوں کو دلچسپ گفتگو کے پردے ميں چهپا ليا کرتا ہے۔

ب کبهی ميں سليم کے جواب پر غور کرتا ہوں تو مجهے معلوم ہوتا ہے کہ سليم درحقيقت انقالب پسند واقع ہوا ان دنوں جہے۔ اسکے يہ معنی نہيں کہ وه کسی سلطنت کا تختہ الڻنے کے درپے ہے يا ديگر انقالب پسندوں کی طرح چوراہوں ميں

ی نظريں اپنے کمرے ميں پڑی ہوئی اشياء کو ايک ہی جگہ بمب پهينک کر دہشت پهيالنا چاہتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ اسکپر نہ ديکه سکتی تهيں۔ ممکن ہے ميرا يہ قيافہ کسی حد تک غلط ہو، مگر ميں يہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اسکی

جستجو کسی ايسے انقالب کی طرف رجوع کرتی ہے، جسکے آثار اسکے کمرے کی روزانہ تبديليوں سے ظاہر ہيں۔

بادی النظر ميں کمرے کی اشياء کو روز الٹ پلٹ کرتے رہنا نيم ديوانگی کے مرادف ہے۔ ليکن اگر سليم کی ان بے معنی حرکات کا عميق مطالعہ کيا جائے تو يہ امر روشن ہو جائيگا کہ ان کے پس پرده ايک ايسی قوت کام کر رہی تهی جس

ذہنی تعصب کا نام ديتا ہوں، سليم کے دماغ ميں تالطم بپا کرديا۔ اور سے وه خود ناآشنا تها۔۔۔۔۔۔اسی قوت نے جسے ميں اسکا نتيجہ يہ ہوا کہ وه اس طوفان کی تاب نہ ال کر از خود رفتہ ہوگيا، اور پاگل خانے کی چار ديواری ميں قيد کرديا گيا۔

ا ہوا مال۔ ميں اور وه دونوں پاگل خانے جانے سے کچه روز پہلے سليم مجهے اچانک شہر کے ايک ہوڻل ميں چائے پيتايک چهوڻے سے کمرے ميں بيڻه گئے۔ اسليے کہ ميں اس سے کچه گفتگو کرنا چاہتا تها۔ ميں نے اپنے بازار کے چند

دکانداروں سے سنا تها کہ اب سليم ہوڻلوں ميں پاگلوں کی طرح تقريريں کرتا ہے۔ ميں يہ چاہتا تها کہ اسے سے فورا مل حرکات کرنے سے منع کردوں۔ اسکے عالوه يہ انديشہ تها کہ شايد وه کہيں سچ مچ خبط الحواس ہی کر اسے اس قسم کی

نہ ہوگيا ہو۔ چونکہ ميں اس سے فورا ہی بات کرنا چاہتا تها، اسليے ميں نے ہوڻل ہی ميں گفتگو کرنا مناسب سمجها۔

ا۔ وه مجهے اسطرح گهورتے ديکه کر سخت کرسی پر بيڻهتے وقت ميں غور سے سليم کے چہرے کی طرف ديکه رہا ته "شايد ميں سليم نہيں ہوں۔"متعجب ہوا۔ وه کہنے لگا۔۔۔۔۔

آواز ميں کس قدر درد تها۔ گو يہ جملہ آپ کی نظروں ميں بالکل ساده معلوم ہو مگر خدا گواه ہے ميری آنکهيں بے اختيار وقت اس بات کا متوقع تها کہ کسی روز اسکا بہترين دوست بهی ۔۔۔۔۔۔گويا وه ہر"شايد ميں سليم نہيں ہوں۔"نمناک ہوگئيں۔

اسے نہ پہچان سکے گا۔ شايد اسے معلوم تها کہ وه بہت حد تک تبديل ہو چکا ہے۔

ميں نے ضبط سے کام ليا، اور اپنے آنسوؤں کو رومال ميں چهپا کر اسکے کاندهے پر ہاته رکهتے ہوئے کہا۔

ميرے الہور جانے کے بعد يہاں بازاروں ميں تقريريں کرنی شروع کردی ہيں، جانتے سليم ميں نے سنا ہے کہ تم نے" "بهی ہو، اب تمهيں شہر کا بچہ بچہ پاگل کے نام سے پکارتا ہے۔

qalamurdu.com

Page 16: آتش پارے.pdf

16

پاگل، شہر کا بچہ بچہ مجهے پاگل کے نام سے پکارتا ہے۔۔۔۔۔۔پاگل۔۔۔۔۔۔۔ہاں عباس، ميں پاگل ہوں۔۔۔۔۔۔۔پاگل۔۔۔۔۔ديوانہ " "رد باختہ۔۔۔۔۔۔۔۔لوگ مجهے ديوانہ کہتے ہيں۔۔۔۔۔۔۔معلوم ہے کيوں؟۔۔۔۔۔۔۔خ

يہاں تک کہہ کر وه ميری طرف سر تا پا استفہام بن کر ديکهنے لگا۔ مگر ميری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر وه دوباره گويا ہوا۔

بڑهتی ہوئی غربت کا کيا عالج اس لئے کہ ميں انہيں غريبوں کے ننگے بچے دکهال دکهال کر يہ پوچهتا ہوں کہ اس"ہوسکتا ہے؟ وه مجهے کوئی جواب نہيں دے سکتے، اسلئے وه مجهے پاگل تصور کرتے ہيں۔۔۔۔۔آه اگر مجهے صرف يہ

معلوم ہو کہ ظلمت کے اس زمانے ميں روشنی کی ايک شعاع کيونکر فراہم کی جاسکتی ہے۔ ہزاروں غريب بچوں کا "جا سکتا ہے۔ تاريک مستقبل کيونکر منور بنايا

وه مجهے پاگل کہتے ہيں۔۔۔۔۔۔وه جن کی نبض حيات دوسروں کے خون کی مرہون منت ہے۔ وه جن کا فردوس غرباء کے "جہنم کی مستعار اينڻوں سے استوار کيا گيا ہے، وه جن کے ساز عشرت کے ہر تار کے ساته بيواؤں کی آہيں، يتيموں کی

يہ لپڻی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کہيں، مگر ايک زمانہ آنے واال ہے جب يہی پروردۀ غربت عريانی، الوارث بچوں کی صدائے گراپنے دلوں کے مشترکہ لہو ميں انگلياں ڈبو ڈبو کر ان لوگوں کی پيشانيوں پر اپنی لعنتيں لکهيں گے۔۔۔۔وه وقت نزديک ہے

"جب ارضی جنت کے دروازے ہر شخص کيليے وا ہونگے۔

ميں آرام ميں ہوں تو کيا وجہ ہے کہ تم تکليف کی زندگی بسر کرو؟۔۔۔۔۔۔کيا يہی انسانيت ہے کہ ميں پوچهتا ہوں کہ اگر "ميں کارخانے کا مالک ہوتے ہوئے ہر شب ايک نئی رقاصہ کا ناچ ديکهتا ہوں، ہر روز کلب ميں سينکڑوں روپے قمار

پيہ بہا کر اپنا دل خوش کرتا ہوں، اور ميرے بازی کی نذر کر ديتا ہوں، اور اپنی نکمی سے نکمی خواہش پر بے دريغ رومزدورں کو ايک وقت کی روڻی نصيب نہيں ہوتی۔ انکے بچے مڻی کے ايک کهلونے کيليے ترستے ہيں۔۔۔۔۔پهر لطف يہ

ہے کہ ميں مہذب ہوں، ميری ہر جگہ عزت کی جاتی ہے اور وه لوگ جنکا پسينہ ميرے لئے گوہر تيار کرتا ہے، مجلسی قارت کی نظر سے ديکهے جاتے ہيں۔ ميں خود انسے نفرت کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔تم ہی بتاؤ، کيا يہ دونوں ظالم و دائرے ميں ح

"مظلوم اپنے فرائض سے ناآشنا ہيں؟

"ميں ان دونوں کو انکے فرائض سے آگاه کرنا چاہتا ہوں، مگر کسطرح کروں؟۔۔۔۔۔۔يہ مجهے معلوم نہيں۔"

ئے ڻهنڈی چائے کا ايک گهونٹ بهرا اور ميری طرف ديکهے بغير پهر بولنا شروع سليم نے اس قدر کہہ کر ہانپتے ہو کرديا۔

ميں پاگل نہيں ہوں۔۔۔۔۔۔۔مجهے ايک وکيل سمجهو، بغير کسی اميد کے، جو اس چيز کی وکالت کر رہا ہے، جو بالکل گم "ايک چيخ۔ ميں اپنی آواز دوسروں تک ہو چکی ہے۔۔۔۔۔۔ميں ايک دبی ہوئی آواز ہوں۔۔۔۔۔انسانيت ايک منہ ہے اور ميں

پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں مگر وه ميرے خياالت کے بوجه تلے دبی ہوئی ہے۔۔۔۔۔ميں بہت کچه کہنا چاہتا ہوں مگر اسی لئے کچه کہہ نہيں سکتا کہ مجهے بہت کچه کہنا ہے، ميں اپنا پيغام کہاں سے شروع کروں، يہ مجهے معلوم نہيں۔

کے بکهرے ہوئے ڻکڑے فراہم کرتا ہوں۔ ذہنی اذيت کے دهندلے غبار ميں سے چند خياالت تمہيد کے طور ميں اپنی آواز پر پيش کرنے کی سعی کرتا ہوں۔ اپنے احساسات کی عميق گہرائيوں سے چند احساس سطح پر التا ہوں کہ دوسرے اذہان

ياالت پهر تاريکی ميں روپوش ہو جاتے ہيں۔ پر منتقل کرسکوں مگر ميری آواز کے ڻکڑے پهر منتشر ہو جاتے ہيں، خ "احساسات پهر غوطہ لگا جاتے ہيں، ميں کچه نہيں کہہ سکتا۔

جب ميں يہ ديکهتا ہوں کہ ميرے خياالت منتشر ہونے کے بعد پهر جمع ہو رہے ہيں تو جہاں کہيں ميری قوت گويائی کام " ۔ :تا ہوںديتی ہے ميں شہر کے رؤسا سے مخاطب ہو کر يہ کہنے لگ جا

مرمريں محالت کے مکينو، تم اس وسيع کائنات ميں صرف سورج کی روشنی ديکهتے ہو، مگر يقين جانو اسکے سائے "بهی ہوتے ہيں۔۔۔۔۔۔۔تم مجهے سليم کے نام سے جانتے ہو، يہ غلطی ہے۔۔۔۔۔۔ميں وه کپکپی ہوں جو ايک کنواری لڑکی کے

ر پہلی دفعہ ايوان گناه کی طرف قدم بڑهانے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔آؤ ہم سب جسم پر طاری ہوتی ہے جب وه غربت سے تنگ آک "کانپيں۔

qalamurdu.com

Page 17: آتش پارے.pdf

17

تم ہنستے ہو، مگر تمهيں مجهے ضرور سننا ہوگا، ميں ايک غوطہ خور ہوں۔ قدرت نے مجهے تاريک سمندر کی "ی ہے، اس تالش ميں ميں گہرائيوں ميں ڈبو ديا کہ ميں کچه ڈهونڈ کر الؤں۔۔۔۔۔۔ميں ايک بے بہا موتی اليا ہوں، وه سچائ

نے غربت ديکهی ہے، گرسنگی برداشت کی ہے۔ لوگوں کی نفرت سے دوچار ہوا ہوں۔ جاڑے ميں غريبوں کی رگوں ميں خون کو منجمد ہوتے ديکها ہے، نوجوان لڑکيوں کو عشرت کدوں کی زينت بڑهاتے ديکها ہے۔ اسليے کہ وه مجبور

"قے کردينا چاہتا ہوں کہ تمهيں تصوير زندگی کا تاريک پہلو نظر آجائے۔ تهيں۔۔۔۔۔اب ميں يہی کچه تمهارے منہ پر

انسانيت ايک دل ہے، ہر شخص کے پہلو ميں ايک ہی قسم کا دل موجود ہے۔ اگر تمهارے بوٹ غريب مزدورں کے "ار لڑکی کی ننگے سينوں پر ڻهوکريں لگاتے ہيں، اگر تم اپنے شہوانی جذبات کی بهڑکتی ہوئی آگ کسی ہمسايہ ناد

عصمت دری سے ڻهنڈی کرتے ہو، اگر تمهاری غفلت سے ہزار ہا يتيم بچے گہوارۀ جہالت ميں پل کر جيلوں کو آباد کرتے ہيں، اگر تمهارا دل کاجل کے مانند سياه ہے، تو يہ تمهارا قصور نہيں۔ ايوان معاشرت ہی کچه ايسے ڈهب پر

"ايہ چهت کو دبائے ہوئے ہے، ہر اينٹ دوسری اينٹ کو۔استوار کيا گيا ہے کہ اسکی ہر چهت اپنی ہمس

جانتے ہو موجوده نظام کے کيا معنی ہيں؟ ۔۔۔۔۔۔۔ يہ کہ لوگوں کے سينوں کو جہالت کده بنائے، انسانی تعزز کی کشتی ہوا "فروشی پر و ہوس کی موجوں ميں بہا دے۔ جوان لڑکيوں کی عصمت چهين کر انہيں ايوان تجارت ميں کهلے بندوں حسن

مجبور کردے۔ غريبوں کا خون چوس چوس کر انہيں جلی ہوئی راکه کے مانند قبر کی مڻی ميں يکساں کردے۔۔۔۔۔۔کيا اسی "کو تم تہذيب کا نام ديتے ہو۔۔۔۔۔۔۔بهيانک قصابی، تاريک شيطنيت۔

بر نما جهونپڑوں ميں زندگی آه، اگر تم صرف وه ديکه سکو جسکا ميں نے مشاہده کيا ہے۔ ايسے بہت سے لوگ ہيں جو ق"کے سانس پورے کر رہے ہيں۔ تمهاری نظروں کے سامنے ايسے افراد موجود ہيں جو موت کے منہ ميں جی رہے ہيں۔ ايسی لڑکياں ہيں جو باره سال کی عمر ميں عصمت فروشی شروع کرتی ہيں اور بيس سال کی عمر ميں قبر کی سردی

۔ہاں تم، جو اپنے لباس کی تراش کے متعلق گهنڻوں غور کرتے رہتے ہيں، يہ نہيں سے لپٹ جاتی ہيں۔۔۔۔۔۔مگر تم۔۔۔۔۔۔ديکهتے بلکہ الڻا غريبوں سے چهين کر امراء کی دولتوں ميں اضافہ کرتے ہو، مزدور سے ليکر کاہل کے حوالے

"کرديتے ہو۔ گوڈری پہنے انسان کا لباس اتار کر حرير پوش کے سپرد کرديتے ہو۔

ے غير مختتم مصائب پر ہنستے ہو۔ مگر تمهيں يہ معلوم نہيں کہ اگر درخت کا نچال حصہ الغر و مرده ہو رہا تم غرباء ک" "ہے تو کسی روز وه باالئی حصے کے بوجه کو برداشت نہ کرتے ہوئے گر پڑے گا۔

يہاں تک بول کر سليم خاموش ہوگيا اور ڻهنڈی چائے کو آہستہ آہستہ پينے لگا۔

ن ميں سحرزده آدمی کی طرح چپ چاپ بيڻها اس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ جو بارش کی طرح برس تقرير کے دورارہے تهے، بغور سنتا رہا۔ ميں سخت حيران تها کہ وه سليم جو آج سے کچه عرصہ پہلے بالکل خاموش ہوا کرتا تها، اتنی

ی ہيں اور آواز ميں کتنا اثر تها۔ ميں اسکی طويل تقرير کيونکر جاری رکه سکا ہے، اسکے خياالت کس قدر حق پر مبن تقرير کے متعلق سوچ رہا تها کہ وه پهر بوال۔

خاندان کے خاندان شہر کے يہ نہنگ نگل جاتے ہيں، عوام کے اخالق قوانين سے مسخ کئے جاتے ہيں۔ لوگوں کے زخم "تباه شده ذہنيت جہالت کی تاريکی سياه بنا جرمانوں سے کريدے جاتے ہيں۔ ڻيکسوں کے ذريعے دامن غربت کترا جاتا ہے۔

ديتی ہے۔ ہر طرف حالت نزع کے سانس کی لرزاں آوازيں، عريانی، گناه اور فريب ہے۔ مگر دعوی يہ ہے کہ عوام امن کی زندگی بسر کررہے ہيں۔۔۔۔۔کيا اس کے معنی يہ نہيں ہيں کہ ہماری آنکهوں پر سياه پڻی باندهی جارہی ہے۔ ہمارے

سے پگهال ہوا سيسہ اتارا جا رہا ہے۔ ہمارے جسم مصائب کے کوڑے سے بے حس بنائے جا رہے ہيں، کہ ہم نہ کانوں ديکه سکيں، نہ سن سکيں اور نہ محسوس کرسکيں۔۔۔۔۔۔۔۔۔انسان جنہيں بلنديوں پر پرواز کرنا تها کيا اسکے بال و پر نوچ

۔۔۔۔کيا امراء کی نظر فريب عمارتيں مزدورں کے گوشت پوست کر اسے زمين پر رينگنے کيليے مجبور نہيں کيا جارہا؟۔۔سے تيار نہيں کی جاتيں؟۔۔۔۔۔۔کيا عوام کے مکتوب حيات پر جرائم کی مہر ثبت نہيں کی جاتی؟ کيا مجلسی بدن کی رگوں

رکب نہيں ميں بدی کا خون موجزن نہيں ہے؟ کيا جمہور کی زندگی کشمکش پيہم، ان تهک محنت اور قوت برداشت کا م "ہے؟ بتاؤ، بتاؤ، بتاتے کيوں نہيں؟

ميرے منہ سے بے اختيار نکل گيا۔ " درست ہے۔"

qalamurdu.com

Page 18: آتش پارے.pdf

18

تو پهر اسکا عالج کرنا تمهارا فرض ہے۔۔۔۔۔۔کيا تم کوئی طريقہ نہيں بتا سکتے کہ اس انسانی تذليل کو کيونکر روکا " "جاسکتا ہے۔۔۔۔۔۔مگر آه، تمهيں معلوم نہيں، مجهے خود معلوم نہيں۔

عباس، عوام سخت تکليف برداشت کررہے "ڻهوڑی دير کے بعد وه ميرا ہاته پکڑ کر رازدانہ لہجے ميں يوں کہنے لگا۔ ہيں، بعض اوقات جب کبهی ميں کسی سوختہ حال انسان کے سينے سے آه بلند ہوتے ديکهتا ہوں تو مجهے انديشہ ہوتا ہے

"ہوں، تم الہور واپس کب جارہے ہو؟ کہ کہيں شہر نہ جل جائے۔۔۔۔۔۔۔اچها اب ميں جاتا

يہ کہہ کر وه اڻها اور ڻوپی سنبهال کر باہر چلنے لگا۔

اسے يک لخت کہيں جانے کيليے تيار ديکه کر ميں نے " ڻهہرو ميں بهی تمهارے ساته چلتا ہوں، کہاں جاؤ گے اب؟" اسے فورا ہی کہا۔

"جاؤں گا۔مگر ميں اکيال ہی جانا چاہتا ہوں، کسی باغ ميں "

ميں خاموش ہوگيا اور وه ہوڻل سے نکل کر بازار کے ہجوم ميں گم ہوگيا۔ اس گفتگو کے چوتهے روز مجهے الہور ميں اطالع ملی کہ سليم نے ميرے جانے کے بعد بازاروں ميں ديوانہ وار شور برپا کرنا شروع کرديا تها۔ اسليے اسے پاگل

خانے ميں داخل کر ديا گيا ہے۔

( ء1935مارچ 24 )

"عليگڑه ميگزيں"۔ :اشاعت اوليں

qalamurdu.com

Page 19: آتش پارے.pdf

19

جی آيا صاحب باروچی خانے کی دهندلی فضا ميں بجلی کا ايک اندها قمقمہ چراغ گور کی مانند اپنی سرخ روشنی پهيال رہا تها۔ دهوئيں

ے پر بنی ہوئی انگيڻهيوں سے اڻی ہوئی ديواريں ہيبتناک ديووں کی طرح انگڑائياں ليتی ہوئی معلوم ہو رہی تهيں۔ چبوترميں آگ کی آخری چنگارياں ابهر ابهر کر اپنی موت کا ماتم کر رہی تهيں۔ ايک برقی چولهے پر رکهی ہوئی کيتلی کا پانی

نہ معلوم کس چيز پر خاموش ہنسی ہنس رہا تها۔ دور کونے ميں، پانی کے نل کے پاس ايک چهوڻی عمر کا لڑکا بيڻها غول تها ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يہ انسپکڻر صاحب کا نوکر تها۔ برتن صاف کرنے ميں مش

برتن صاف کرتے وقت يہ لڑکا کچه گنگنا رہا تها، يہ الفاظ ايسے تهے جو اسکی زباں سے بغير کوشش کے نکل رہے تهے۔

"جی آيا صاحب، جی آيا صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس ابهی صاف ہوجاتے ہيں صاحب۔"

بعد انہيں پانی سے دهو کر قرينے سے رکهنا بهی تها، اور يہ کام جلدی سے ابهی برتنوں کو راکه سے صاف کرنے کے نہ ہو سکتا تها۔ لڑکے کی آنکهيں نيند سے بند ہوئی جا رہی تهيں۔ سر سخت بهاری ہو رہا تها مگر کام کئے بغير آرام، يہ

کيونکر ممکن تها۔

اگل رہا تها۔ کيتلی کا پانی اسی انداز ميں کهل کهال برقی چولها بدستور ايک شور کے ساته نيلے شعلوں کو اپنے حلق سے کر ہنس رہا تها۔

جی آيا صاحب، "دفعتا لڑکے نے نيند کے ناقابل مغلوب حملے کو محسوس کرتے ہوئے اپنے جسم کو ايک جنبش دی اور گنگناتا ہوا پهر کام ميں مشغول ہوگيا۔ " جی آيا صاحب

کے کو ايک غير مختتم ڻکڻکی لگائے ديکه رہے تهے۔ پانی کے نل سے روزانہ ديوار گيروں پر چنے ہوئے برتن اس لڑايک ہی واقعہ ديکه قطروں کی صورت ميں آنسو ڻپ ڻپ گر رہے تهے۔ بجلی کا قمقمہ حيرت سے اس لڑکے کی طرف

ديکه رہا تها۔ کمرے کی فضا سسکياں بهرتی ہوئی معلوم ہو رہی تهی۔

"قاسم ۔۔۔۔۔۔۔ قاسم"

لڑکا جو انہی الفاظ کی گردان کر رہا تها۔ بهاگا ہوا اپنے آقا کے پاس گيا۔ " احبجی آيا ص"

بيوقوف کے بچے، آج پهر يہاں صراحی "انسپکڻر صاحب نے کمبل سے منہ نکاال، اور لڑکے پر خفا ہوتے ہوئے کہا۔ "اور گالس رکهنا بهول گيا ہے۔

"ابهی اليا صاحب ۔۔۔۔۔۔ ابهی اليا صاحب۔"

کمرے ميں صراحی اور گالس رکهنے کے بعد وه ابهی برتن صاف کرنے کيليے بيڻها ہی تها کہ پهر اسے کمرے سے آواز آئی۔

"قاسم ۔۔۔۔۔۔۔ قاسم"

قاسم بهاگتا ہوا اپنے آقا کے پاس گيا۔ " جی آيا صاحب"

ہوئے جاؤ، سخت پياس لگ رہی بمبئی کا پانی کس قدر خراب ہے۔ جاؤ پارسی کے ہوڻل سے سوڈا ليکر آؤ۔ بس بهاگے " "ہے۔

qalamurdu.com

Page 20: آتش پارے.pdf

20

قاسم بهاگا ہوا گيا اور پارسی کے ہوڻل سے جو گهر سے قريبا نصف ميل کے فاصلے پر واقع تها، سوڈے کی بوتل لے آيا اور اپنے آقا کو گالس ميں ڈال کر دی۔

"اب تم جاؤ، مگر اس وقت تک کيا کر رہے ہو، برتن صاف نہيں ہوئے کيا؟"

"جاتے ہيں صاحب۔ابهی صاف ہو "

اور ہاں، برتن صاف کرنے کے بعد ميرے سياه بوٹ کو پالش کر دينا مگر ديکهنا احتياط رہے، چمڑے پر کوئی خراش " "نہ آئے، ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔

کہتے ہوئے وه باورچی خانہ ميں واپس چال گيا، "بہت اچها صاحب"کے بعد کا جملہ بخوبی معلوم تها۔ " ورنہ"قاسم کو اور برتن صاف کرنا شروع کر ديے۔

اب نيند اسکی آنکهوں ميں سمڻی چلی آرہی تهی۔ پلکيں آپس ميں ملی جا رہی تهيں، سر ميں سيسہ اتر رہا تها۔۔۔۔۔۔۔۔۔يہ خيال سے جنبش دی، اور وہی راگ االپنا کرتے ہوئے کہ صاحب کے بوٹ ابهی پالش کرنے ہيں۔ قاسم نے اپنے سر کو زور

شروع کرديا۔

"جی آيا صاحب، جی آيا صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بوٹ ابهی صاف ہوجاتے ہيں صاحب۔"

مگر نيند کا طوفان ہزار بند باندهنے پر بهی نہ رکا۔ اب اسے محسوس ہونے لگا کہ نيند ضرور غلبہ پا کر رہے گی۔ ليکن بهاڑ ميں "پنی جگہ پر رکهنا باقی تها۔ اس وقت ايک عجيب خيال اسکے دماغ ميں آيا۔ ابهی برتنوں کو دهو کر انہيں اپنی ا

جائيں برتن، اور چولهے ميں جائيں بوٹ۔۔۔۔کيوں نہ تهوڑی دير اسی جگہ پر سو جاؤں، اور پهر چند لمحات آرام کرنے "کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برتنوں پر جلدی جلدی راکه ملنا شروع کردی۔ اس خيال کو باغيانہ تصور کرتے ہوئے قاسم نے ترک کرديا اور

تهوڑی دير کے بعد جب نيند پهر غالب آئی تو اسکے جی ميں آيا کہ ابلتا ہوا پانی اپنے سر پر انڈيل لے اور اسطرح اس غير مرئی طاقت سے جو اسکے کام ميں حارج ہو رہی تهی، نجات پائے، مگر اتنا حوصلہ نہ پڑا۔

کے چهينڻے مار مار کر اسنے برتنوں کو باآلخر صاف کر ہی ليا۔ يہ کام کرنے کے بعد اسنے بصد مشکل منہ پر پانیاطمينان کا سانس ليا۔ اب وه آرام سے سو سکتا تها۔ اور نيند۔۔۔۔۔۔۔۔وه نيند، جس کيليے اسکی آنکهيں اور دماغ شدت سے

انتظار کر رہے تهے، اب بالکل نزديک تهی۔

کرنے کے بعد قاسم نے باہر برآمدے ميں اپنا بستر بچهايا اور ليٹ گيا۔ اور اس سے پہلے باروچی خانے کی روشنی گل کی آوازوں سے گونج اڻهے۔ " بوٹ، بوٹ"کہ نيند اسے اپنے آرام ده بازوؤں ميں تهام لے، اسکے کان

ابهی بوٹ روغن کرنے بڑبڑاتا ہوا قاسم بستر سے اڻها۔ جيسے اسکے آقا نے " بہت اچها صاحب، ابهی پالش کرتا ہوں" کيليے حکم ديا ہے۔

ابهی قاسم بوٹ کا ايک پير بهی اچهی طرح پالش کرنے نہ پايا تها کہ نيند کے غلبے نے اسے وہيں پر سال ديا۔

سورج کی خونيں کرنيں اس مکان کے شيشوں سے نمودار ہوئيں۔۔۔۔۔۔۔۔قاسم کی کتاب حيات ميں ايک اور پر از مشقت باب وگيا۔ کا اضافہ ہ

qalamurdu.com

Page 21: آتش پارے.pdf

21

صبح جب انسپکڻر صاحب نے اپنا نوکر باہر برآمدے ميں بوڻوں کے پاس سويا ہوا ديکها تو اسے ڻهوکر مار کر جگاتے يہ سور کی طرح يہاں بيہوش پڑا ہے اور مجهے خيال تها کہ اس نے بوٹ صاف کر لئے ہونگے۔۔۔۔۔۔۔نمک "ہوئے کہا۔

"حرام۔۔۔۔۔۔۔ابے قاسم۔

"جی آيا صاحب۔"

ے منہ سے اتنا ہی نکال تها کہ اسنے اپنے ہاته ميں بوٹ صاف کرنے کا برش ديکها۔ فورا ہی اس معاملے کو قاسم ک سمجهتے ہوئے اسنے لرزتی ہوئی آواز ميں کہا۔

"ميں سو گيا تها صاحب، مگر۔۔۔۔۔مگر بوٹ ابهی پالش ہو جاتے ہيں صاحب۔۔۔۔۔۔۔"

رگڑنا شروع کرديا۔ يہ کہتے ہوئے اس نے جلدی جلدی بوٹ کو برش سے

بوٹ پالش کرنے کے بعد اسنے اپنا بستر تہہ کيا اور اسے اوپر کے کمرے ميں رکهنے چال گيا۔

"قاسم"

"جی آيا صاحب"

قاسم بهاگا ہوا نيچے آيا اور اپنے آقا کے پاس کهڑا ہو گيا۔

ی طرح صاف کر رکهنا۔۔۔۔۔۔فرش بهی ديکهو، آج ہمارے يہاں مہمان آئينگے۔ اسلئے باورچی خانے کے تمام برتن اچه"دهال ہوا ہونا چاہيئے، اسکے عالوه تمهيں مالقاتی کمرے کی تصويروں، ميزوں اور کرسيوں کو بهی صاف کرنا

ہوگا۔۔۔۔۔۔۔سمجهے، مگر خيال رہے ميری ميز پر ايک تيز دهار چاقو پڑا ہوا ہے، اسے مت چهيڑنا۔ ميں اب دفتر جا رہا "نڻے سے پہلے ہو جانا چاہيئے۔ہوں مگر يہ کام دو گه

"بہت بہتر صاحب"

انسپکڻر صاحب دفتر چلے گئے۔ قاسم باورچی خانہ صاف کرنے ميں مشغول ہوگيا۔

ڈيڑه گهنڻے کی انتهک محنت کے بعد اسنے باورچی خانے کے تمام کام کو ختم کرديا۔ اور ہاته پاؤں صاف کرنے کے يا۔ بعد جهاڑن ليکر مالقاتی کمرے ميں چال گ

وه ابهی کرسيوں کو جهاڑن سے صاف کر رہا تها کہ اسکے تهکے ہوئے دماغ ميں ايک تصوير سی کهچ گئی۔ کيا ديکهتا ہے کہ اسکے گرد و پيش برتن ہی برتن پڑے ہيں اور پاس ہی راکه کا ايک ڈهير لگ رہا ہے۔ ہوا زوروں پر چل رہی ہے

ہے۔ يکا يک اس ظلمت ميں ايک سرخ آفتاب نمودار ہوا جسکی جس سے وه راکه اڑ اڑ کر فضا کو خاکستری بنا رہیکرنيں خون آشام برچهيوں کی طرح ہر برتن کے سينے ميں گهس گئيں۔ زمين خون سے شرابور ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔فضا خوشی

کے قہقہوں سے معمور ہوگئی۔

کہتا ہوا پهر " احب، جی آيا صاحبجی آيا ص"قاسم يہ منظر ديکه کر گهبرا گيا اور اس وحشتناک خواب سے بيدار ہو کر اپنے کام ميں مشغول ہوگيا۔

تهوڑی دير کے بعد اسکی آنکهوں کے سامنے ايک اور منظر رقص کرنے لگا۔ اب اسکے سامنے چهوڻے چهوڻے لڑکے دار آپس ميں کوئی کهيل کهيل رہے تهے۔ دفعتا آندهی چلنا شروع ہوئی، جسکے ساته ہی ايک بدنما اور بهيانک ديو نمو

ہوا، جو ان سب لڑکوں کو نگل گيا۔۔۔۔۔۔۔۔قاسم نے خيال کيا کہ وه ديو اسکے آقا کے ہم شکل تها۔ گو قد و قامت کے لحاظ سے وه اس سے کہيں بڑا تها۔ اب اس ديو نے زور زور سے ڈکارنا شروع کيا۔۔۔۔۔قاسم سر سے پير تک لرز گيا۔

qalamurdu.com

Page 22: آتش پارے.pdf

22

ره گيا تها۔ چنانچہ قاسم نے جلدی جلدی کرسيوں پر جهاڑن مارنا شروع ابهی تمام کمره صاف کرنا تها اور وقت بہت کم آج مہمان آ رہے "کرديا۔ ابهی وه کرسيوں کا کام ختم کرنے کے بعد ميز صاف کرنے جا رہا تها کہ اسے يکا يک خيال آيا۔

تو کچه بهی نہ ہو سکے ہيں۔ خدا معلوم کتنے برتن صاف کرنے پڑيں گے اور يہ نيند کمبخت ستا رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔مجه سے "گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

يہ سوچتے وقت وه ميز پر رکهی ہوئی چيزوں کو پونچه رہا تها کہ اچانک اسے قلمدان کے پاس ايک کهال ہوا چاقو نظر آيا۔۔۔۔۔وہی چاقو جسکے متعلق اسکے آقا نے کہا تها کہ بہت تيز ہے۔

چاقو۔۔۔۔۔۔تيز دهار چاقو۔۔۔۔۔۔يہی تمهاری مصيبت کو "جاری ہوگئے۔ چاقو کا ديکهنا تها کہ اسکی زبان پر يہ لفظ خود بخود "ختم کرسکتا ہے۔

کچه اور سوچے بغير قاسم نے تيز دهار چاقو اڻها اپنی انگلی پر پهير ليا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب وه شام کے وقت برتن صاف کرنے کی نی نصيب ہوسکتی تهی۔ زحمت سے بہت دور تها۔ اور نيند۔۔۔۔۔۔۔پياری، پياری نيند اب اسے بآسا

انگلی سے خون کی سرخ دهار بہہ رہی تهی۔۔۔۔۔سامنے والی دوات کی سرخ روشنائی سے کہيں چمکيلی۔ قاسم اس خون "نيند، نيند۔۔۔۔۔۔پياری نيند۔"کی دهار کو مسرت بهری آنکهوں سے ديکه رہا تها اور منہ ميں يہ گنگنا رہا تها۔

اپنے آقا کی بيوی کے پاس گيا جو زنان خانے ميں بيڻهی سالئی کر رہی تهی۔ اور اپنی تهوڑی دير کے بعد وه بهاگا ہوا "ديکهئے بی بی جی۔۔۔۔۔۔"زخمی انگلی دکها کر کہنے لگا۔

"ارے قاسم يہ تو نے کيا کيا؟۔۔۔۔۔۔۔کمبخت صاحب کے چاقو کو چهيڑا ہوگا تو نے۔"

قاسم ہنس پڑا۔ " ٹ کهايا۔بی بی جی۔۔۔۔۔بس ميز صاف کر رہا تها اور اس نے کا"

"ابے سور اب ہنستا ہے، ادهر آ، ميں اس پر کپڑا بانده دوں۔ مگر اب بتا تو سہی، آج يہ برتن تيرا باپ صاف کرے گا؟"

قاسم اپنی فتح پر زير لب مسکرا رہا تها۔

انگلی پر پڻی بندهوا کر قاسم پهر کمرے ميں آ گيا اور ميز پر پڑے ہوئے خون کے دهبے صاف کرنے کے بعد خوشی خوشی اپنا کام ختم کرديا۔

قاسم نے " اب اس نمک حرام باورچی کو برتن صاف کرنے ہونگے۔۔۔۔۔۔ضرور صاف کرنے ہونگے۔۔۔۔۔کيوں مياں مڻهو۔" ے ہوئے طوطے سے دريافت کيا۔ انتہائی مسرت ميں کهڑکی ميں لڻک

شام کے وقت مہمان آئے اور چلے گئے۔ باورچی خانے ميں صاف کرنے والے برتنوں کا ايک طومار سا لگ گيا۔ انسپکڻر صاحب قاسم کی زخمی انگلی ديکه کر بہت برسے۔ اور جی کهول کر گالياں ديں، مگر اسے مجبور نہ کر سکے،

ی انگلی ميں قلم تراش کی نوک چبه جانے سے بہت درد محسوس ہوا تها۔ شايد اسليئے کہ ايک بار انکی اپن

آقا کی خفگی آنے والی مسرت نے بهال دی اور قاسم کودتا پهاندتا ہوا اپنے بستر ميں جا ليڻا۔ تين چار روز تک وه برتن بت نمودار ہوگئی۔ صاف کرنے کی زحمت سے بچا رہا، مگر اسکے بعد انگلی کا زخم بهر آيا۔۔۔۔۔۔اب پهر وہی مصي

"قاسم، صاحب کی جرابيں اور قميص دهو ڈالو۔"

"بہت اچها بی بی جی۔"

"قاسم اس کمرے کا فرش کتنا بدنما ہو رہا ہے۔ پانی ال کر ابهی صاف کرو، ديکهنا کوئی داغ دهبہ باقی نہ رہے۔"

qalamurdu.com

Page 23: آتش پارے.pdf

23

"بہت اچها صاحب"

"سے صاف کردو۔قاسم شيشيے کے گالس کتنے چکنے ہو رہے ہيں۔ انہيں نمک "

"جی اچها صاحب"

"قاسم طوطے کا پنجره کس قدر غليظ ہو رہا ہے، اسے صاف کيوں نہيں کرتے۔"

"ابهی کرتا ہوں بی بی جی"

"قاسم ابهی خاکروب آتا ہے، تم پانی ڈالتے جانا، وه سيڑهيوں کو دهو ڈالے گا۔"

"بہت اچها صاحب"

"آنا۔ قاسم ذرا بهاگ کر ايک آنے کا دہی تو لے"

"ابهی چال بی بی جی۔"

پانچ چه روز اسی قسم کے احکام سننے ميں گزر گئے۔ قاسم کام کی زيادتی اور آرام کے قحط سے تنگ آگيا۔ ہر روز اسے نصف شب تک کام کرنا پڑتا اور پهر علی الصباح چار بجے کے قريب بيدار ہو کر ناشتے کيليے چائے تيار کرنی

مر کے لڑکے کيليے بہت زياده تها۔ پڑتی۔ يہ کام قاسم کی ع

ايک روز انسپکڻر صاحب کی ميز صاف کرتے وقت اسکے ہاته خود بخود چاقو کی طرف بڑهے، اور ايک لمحے کے بعد اسکی انگلی سے خون بہہ رہا تها۔۔۔۔۔۔۔انسپکڻر صاحب اور انکی بيوی قاسم کی يہ حرکت ديکه کر بہت خفا ہوئے۔

سے شام کا کهانا نہ ديا گيا، مگر وه اپنی ايجاده ترکيب کی خوشی ميں مگن تها۔۔۔۔۔۔۔ايک وقت چنانچہ سزا کی صورت ميں اروڻی نہ ملی۔ انگلی پر معمولی سا زخم آگيا مگر برتنوں کا انبار صاف کرنے سے نجات مل گئی۔۔۔۔۔۔يہ سودا کچه برا نہ

تها۔

چند دنوں کے بعد اسکی انگلی کا زخم ڻهيک ہوگيا، اب پهر کام کی وہی بهر مار شروع تهی۔ پندره بيس روز گدهوں کی سی مشقت ميں گزر گئے۔ اس عرصے ميں قاسم نے بارہا اراده کيا کہ چاقو سے پهر اپنی انگلی زخمی کرلے۔ مگر اب

ی چهری کند تهی۔ ميز پر سے وه چاقو اڻها ليا گيا اور باورچی خانے وال

ايک روز باورچی بيمار پڑ گيا اب اسے ہر وقت باورچی خانے ميں موجود رہنا پڑتا، کبهی مرچيں پيستا، کبهی آڻا ابے قاسم يہ کر، ابے قاسم "گوندهتا، کبهی کوئلوں کو جال ديتا۔ غرض صبح سے ليکر آدهی رات تک اسکے کانوں ميں

کی صدا گونجتی رہتی۔ " وه کر

دو روز تک نہ آيا۔۔۔۔۔۔قاسم کی ننهی جان اور ہمت جواب دے گئی، مگر سوائے کام کے اور چاره ہی کيا تها۔ باورچی

ايک روز اسکے آقا نے اسے الماری صاف کرنے کو کہا۔ جس ميں ادويات کی شيشياں اور مختلف چيزيں پڑی ہوئی آيا۔ بليڈ کو پکڑتے ہی اس نے اپنی انگلی پر پهير تهيں۔ الماری صاف کرتے وقت اسے ڈاڑهی مونڈنے کا ايک بليڈ نظر

ليا۔ دهار تهی بہت تيز اور باريک، انگلی ميں دور تک چلی گئی، جس سے بہت بڑا زخم بن گيا۔

قاسم نے بہت کوشش کی کہ خون نکلنا بند ہو جائے مگر زخم کا منہ بڑا تها، وه نہ تهما۔۔۔۔۔۔۔سيروں خون پانی کی طرح ه کر قاسم کا رنگ کاغذ کی مانند سپيد ہو گيا۔ بهاگا ہوا اپنے آقا کی بيوی کے پاس گيا۔ بہہ گيا۔ يہ ديک

"بی بی جی ميری انگلی ميں صاحب کا استرا لگ گيا ہے۔"

qalamurdu.com

Page 24: آتش پارے.pdf

24

جب انسپکڻر صاحب کی بيوی نے قاسم کی انگلی کو تيسری مرتبہ زخمی ديکها، فورا معاملے کو سمجه گئی۔ چپ چاپ "قاسم، اب تم ہمارے گهر ميں نہيں ره سکتے۔"کر اسکی انگلی پر بانده ديا اور کہا۔ اڻهی اور کپڑا نکال

"وه کيوں بی بی جی"

"يہ صاحب سے دريافت کرنا"

صاحب کا نام سنتے ہی قاسم کا رنگ اور بهی سپيد ہوگيا۔

سنکر اسے فورا اپنے چار بجے کے قريب انسپکڻر صاحب دفتر سے گهر آئے اور اپنی بيوی سے قاسم کی نئی حرکت پاس باليا۔

"کيوں مياں، يہ انگلی کو ہر روز زخمی کرنے کے کيا معنی ہيں؟"

قاسم خاموش کهڑا رہا۔

تم نوکر يہ سمجهتے ہو کہ ہم لوگ اندهے ہيں اور ہميں بار بار دهوکہ ديا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔اپنا بستر بوريا دبا کر ناک کی " "، ہميں تمهارے جيسے نوکروں کی ضرورت نہيں۔۔۔۔۔۔۔سمجهے۔سيده ميں يہاں سے بهاگ جاؤ

"مگر۔۔۔۔۔۔۔مگر صاحب"

صاحب کا بچہ۔۔۔۔۔۔۔۔بهاگ جا يہاں سے، تيری بقايا تنخواه کا ايک پيسہ بهی نہيں ديا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔اب ميں اور کچه نہيں " "سننا چاہتا۔

رت بهری نگاہوں سے ديکها۔ طوطے نے بهی خاموشی ميں قاسم روتا ہوا کمرے سے باہر چال گيا۔ طوطے کی طرف حساس سے کچه کہا اور اپنا بستر ليکر وه سيڑهيوں سے نيچے اتر گيا۔ مگر دفعتا کچه خيال آيا اور بهاگا ہوا اپنے آقا کی

" و رہا ہوںسالم بی بی جی۔۔۔۔۔۔ميں ہميشہ کيليے آپ سے رخصت ہ"بيوی کے پاس گيا اور درد انگيز آواز ميں اتنا کہکر وہاں سے رخصت ہوگيا۔

خيراتی ہسپتال ميں ايک نوخيز لڑکا درد کی شدت سے لوہے کے پلنگ پر کروڻيں بدل رہا ہے۔ پاس ہی دو ڈاکڻر بيڻهے ہيں۔

"زخم خطرناک صورت اختيار کر گيا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاته کاڻنا پڑے گا۔"ان ميں سے ايک ڈاکڻر اپنے ساتهی سے مخاطب ہوا۔

"بہتر۔بہت "

يہ کہتے ہوئے دوسرے ڈاکڻر نے اپنی نوٹ بک ميں اس مريض کا نام درج کيا۔۔۔۔۔۔۔۔ايک چوبی تختے پر جو چارپائی کے سرہانے لڻکا ہوا تها، مندرجہ ذيل الفاظ لکهے تهے۔

(مرحوم(محمد قاسم ولد عبدالرحمن : نام

دس سال : عمر

qalamurdu.com

Page 25: آتش پارے.pdf

25

ماہی گير (ايک نظم کے تاثراتفرانسيسی شاعر وکڻر ہيوگو کی )

سمندر رو رہا تها۔

مقيد لہريں پتهريلے ساحل کے ساته ڻکرا ڻکرا کر آه و زاری کر رہی تهيں۔ دور۔۔۔۔۔۔پانی کی رقصاں سطح پر چند کشتياں اپنے دهندلے اور کمزور بادبانوں کے سہارے بے پناه سردی سے ڻهڻهری ہوئی کانپ رہی تهيں۔ آسمان کی نيلی قبا ميں

ند کهل کهال کر ہنس رہا تها۔ ستاروں کا کهيت اپنے پورے جوبن ميں لہلہا رہا تها۔۔۔۔۔۔فضا سمندر کے نمکين پانی کی چا تيز بو ميں بسی ہوئی تهی۔

ساحل سے کچه فاصلے پر چند شکستہ جهونپڑياں خاموش زبان ميں ايک دوسرے سے اپنی خستہ حالی کا تذکره کر رہی وں کے سر چهپانے کی جگہ تهی۔ تهيں۔۔۔۔۔۔۔يہ ماہی گير

ايک جهونپڑی کا دروازه کهال تها جس ميں چاند کی آواره شعاعيں زمين پر رينگ رينگ کر اسکی کاجل ايسی فضا کو نيم روشن کر رہی تهيں۔ اس اندهی روشنی ميں ديوار پر ماہی گير کا جال نظر آرہا تها اور ايک چوبی تختے پر چند

تهالياں جهلمال رہی تهيں۔

ڻوڻی ہوئی چارپائی، تاريک چادروں ميں ملبوس اندهيرے ميں سر نکالے ہوئے تهی۔ اس جهونپڑی کے کونے ميں ايک کے پہلو ميں پهڻے ہوئے ڻاٹ پر پانچ بچے محو خواب تهے۔۔۔۔۔۔۔ننهی روحوں کا ايک گهونسال جو خوابوں سے تهر تهرا

گنگنا رہی تهی۔ رہا تها۔ پاس ہی انکی ماں نہ معلوم کن خياالت ميں مستغرق گهڻنوں کے بل بيڻهی

يکايک وه لہروں کا شور سنکر چونکی۔۔۔۔بوڑها سمندر کسی آنيوالے خطرے سے آگاه، سياه چڻانوں، تند ہواؤں اور نصف شب کی تاريکی کو مخاطب کرکے گال پهاڑ پهاڑ کر چال رہا تها۔ وه اڻهی اور بچوں کے پاس جا کر ہر ايک کی پيشانی پر

ر وہيں ڻاٹ کے ايک کونے ميں بيڻه کر دعا مانگنے لگی۔ لہروں کے شور ميں يہ الفاظ اپنے سرد لبوں سے بوسہ ديا او بخوبی سنائی دے رہے تهے۔

اے خدا۔۔۔۔۔اے بيکسوں اور غريبوں کے خدا، ان بچوں کا واحد سہارا، رات کا کفن اوڑهے سمندر کی لہروں کے ساته "ہے۔۔۔۔۔۔صرف انکی خاطر وه ہر روز اس ديو کے ساته کشتی کهيل رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔موت کے عميق گڑهے پر پاؤں لڻکائے

لڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔اے خدا تو اسکی جان حفاظت ميں رکهيو۔۔۔۔۔۔۔آه، اگر يہ صرف نوجوان ہوتے، اگر يہ صرف اپنے والد کی "مدد کر سکتے۔

کر تهرتهراتی ہوئی آواز ميں يہ کہکر خدا معلوم اسے کيا خيال آيا کہ وه سر سے پير تک کانپ گئی۔ اور ڻهنڈی آه بهربڑے ہو کر انکا بهی يہی شغل ہوگا، پهر مجهے چه جانوں کا خدشہ الحق رہے گا۔۔۔۔۔۔۔آه کچه سمجه ميں نہيں "کہنے لگی۔

"آتا۔ غربت، غربت۔

ہوئی يہ کہتے ہوئے وه اپنی غربت اور تنگ دامانی کے خياالت ميں غرق ہوگئی۔ دفعتا وه اس اندهيرے خواب سے بيداراور اسکے دماغ ميں ہوڻلوں کی ديو قامت عمارتيں اور امراء کے راحت کدوں کی تصويريں کهچ گئيں۔ ان عمارتوں کی دلفريب راحتوں اور امراء کی تعيش پرستيوں کا خيال آتے ہی اسکے دل پر ايک دهند سی چها گئی۔ کليجے پر کسی غير

ی اور دروازے سے تاريکی ميں آواره نظروں سے ديکهنا شروع مرئی ہاته کی گرفت محسوس کرکے وه جلدی سے اڻه کيا۔

اسکی يہ حرکت خياالت کی آمد کو نہ روک سکی۔ وه سخت حيران تهی کہ لوگ امير اور غريب کيوں ہوتے ہيں جبکہ ہر ا مگر انسان ايک ہی طرح ماں کے پيٹ سے پيدا ہوتا ہے۔ اس سوال کے حل کيليے اس نے اپنے دماغ پر بہت زور دي

کوئی خاطر خواه جواب نہ مل سکا۔ ايک اور چيز جو اسے پريشان کر رہی تهی وه يہ تهی کہ جب اسکا خاوند اپنی جان

qalamurdu.com

Page 26: آتش پارے.pdf

26

پر کهيل کر سمندر کی گود سے مچهلياں چهين کر التا ہے تو کيا وجہ ہے کہ مارکيٹ کا مالک بغير محنت کئے ہر روز اص طور پر عجيب سی معلوم ہوئی کہ محنت تو کريں ماہی گير اور نفع سينکڑوں روپے پيدا کر ليتا ہے۔ اسے يہ بات خ

ہو مارکيٹ کے مالک کو۔ رات بهر اسکا خاوند اپنا خون پسينہ ايک کردے اور صبح کے وقت آدهی کمائی اسکی بڑی ے لگی۔ توند ميں چلی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان تمام سوالوں کا کچه جواب نہ پا کر وه ہنس پڑی اور بلند آواز ميں کہن

"مجه کم عقل کو بهال کيا معلوم۔ يہ سب کچه خدا جانتا ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔۔"

اے خدا ميں گنہگار ہوں، تو جو کرتا ہے، بہتر کرتا ہے۔۔۔۔۔ايسا خيال "اسکے بعد وه کچه کہنے والی تهی کہ کانپ اڻهی۔ "کرنا کفر ہے۔

اور انکے معصوم چہروں کی طرف ديکهکر بے اختيار يہ کہتی ہوئی وه خاموشی سے اپنے بچوں کے پاس آکر بيڻه گئی رونا شروع کرديا۔

باہر آسمان پر کالے بادل مہيب ڈائنوں کی صورت ميں اپنے سياه بال پريشان کئے چکر کاٹ رہے تهے۔ کبهی کبهی اگر جاتی۔ سمندر کی سيميں کوئی بادل کا ڻکڑا چاند کے درخشاں رخسار پر اپنی سياہی مل ديتا تو فضا پر قبر کی تاريکی چها

لہريں گہرے رنگ کی چادر اوڑه ليتيں اور کشتيوں کے مستولوں پر ڻمڻماتی ہوئی روشنياں اس اچانک تبديلی کو ديکه کر آنکهيں جهپکنا شروع کر ديتيں۔

دن ماہی گير کی بيوی نے اپنے ميلے آنچل سے آنسو خشک کئے اور دروازے کے پاس کهڑی ہو کر ديکهنے لگی کہ آياطلوع ہوا ہے يا نہيں۔ کيونکہ اس کا خاوند طلوع کی پہلی کرن کے ساته ہی گهر واپس آ جايا کرتا تها مگر صبح کا ايک سانس بهی بيدار نہ ہوا تها۔ سمندر کی تاريک سطح پر روشنی کی ايک دهاری بهی نظر نہ آ رہی تهی۔ بارش کاجل کی

طرح تمام فضا پر برس رہی تهی۔

تک دروازے کے پاس کهڑی اپنے خاوند کے خيال ميں مستغرق رہی۔ جو اس بارش ميں سمندر کی تند وه بہت دير موجوں کے مقابلے ميں لکڑی کے ايک معمولی تختے اور کمزور بادبان سے مسلح تها۔ وه ابهی اسکی عافيت کيليے دعا

طرف اڻهيں، جو تاروں سے محروم مانگ رہی تهی کہ يکايک اس کی نگاہيں اندهيرے ميں ايک شکستہ جهونپڑی کی آسمان کی طرف ہاته پهيالئے لرز رہی تهی۔

اس جهونپڑی ميں روشنی کا نام تک نہ تها۔ کمزور دروازه کسی نا معلوم خوف کی وجہ سے کانپ رہا تها۔ تنکوں کی چهت ہوا کے دباؤ تلے دوہری ہو رہی تهی۔

ماہی گير کی بيوی زير لب " اسے کئی روز سے بخار آ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔آه، خدا معلوم بيچاری بيوه کا کيا حال ہے۔۔۔۔۔۔" بڑبڑائی اور يہ خيال کرتے ہوئے کہ شايد کسی روز وه بهی اپنے خاوند سے محروم ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔کانپ اڻهی۔

رہی وه شکستہ جهونپڑی ايک بيوه کی تهی جو اپنے دو کم سن بچوں سميت روڻی کے قحط ميں موت کی گهڑياں کاٹتهی۔ مصيبت کی چچلتی ہوئی دهوپ ميں اس پر کوئی سايہ کرنے واال نہ تها۔ رہا سہا سہارا دو ننهے بچے تهے جو ابهی

مشکل سے چل پهر سکتے تهے۔

ماہی گير کی بيوی کے دل ميں ہمدردی کا جذبہ امڈا۔ بارش کے بچاؤ کيليے سر پر ڻاٹ کا ايک ڻکڑا رکه کر اور ايک شن کرنے کے بعد وه جهونپڑی کے پاس پہنچی اور دهڑکتے ہوئے دل سے دروازے پر دستک اندهی اللڻين رو

دی۔۔۔۔۔۔لہروں کا شور اور تيز ہواؤں کی چيخ پکار اس دستک کا جواب تهے، وه کانپی اور خيال کيا کہ شايد اسکی اچهی ہمسائی گہری نيند سو رہی ہے۔

مگر جواب پهر خاموشی تها۔۔۔۔۔۔کوئی صدا، کوئی جواب اس جهونپڑی اس نے ايک بار پهر آواز دی، دروازه کهڻکهڻاياکے بوسيده لبوں سے نمودار نہ ہوا۔ يکايک دروازه، جيسے اس بے جان چيز نے رحم کی لہر محسوس کی، متحرک ہوا

اور کهل گيا۔

qalamurdu.com

Page 27: آتش پارے.pdf

27

سے روشن کر ديا، جس ميں ماہی گير کی بيوی جهونپڑی کے اندر داخل ہوئی اور اس خاموش قبر کو اپنی اندهی اللڻين لہروں کے شور کے سوا مکمل سکوت طاری تها۔ پتلی چهت سے بارش کے قطرے بڑے بڑے آنسوؤں کی صورت ميں

سياه زمين کو تر کر رہے تهے۔۔۔۔۔۔۔۔۔فضا ميں ايک مہيب خوف سانس لے رہا تها۔

تها سر تا پا ارتعاش بن کر ره گئی۔ آنکهوں ماہی گير کی بيوی اس خوفناک سماں کو ديکه کر جو جهونپڑی ميں سمڻا ہوا ميں گرم گرم آنسو چهلکے اور بے اختيار اچهل کر بارش کے ڻپکے ہوئے قطروں کے ساته ہم آغوش ہو گئے۔ اس نے

ايک سرد آه بهری اور دردناک آواز ميں کہنے لگی۔

سم، ہنسی اور ناچ کا ايک ہی انجام آه۔۔۔۔۔تو ان بوسوں کا جو جسم کو راحت بخشتے ہيں، ماں کی محبت، گيت، تب" "ہے۔۔۔۔۔۔۔يعنی قبر۔۔۔۔۔۔۔آه ميرے خدا۔

اسکے سامنے پهوس کے بستر پر بيوه کی سرد الش اکڑی ہوئی تهی اور اسکے پہلو ميں دو بچے محو خواب تهے۔ الش کے سينے ميں ايک آه کچه کہنے کو رکی ہوئی تهی۔ اسکی پتهرائی ہوئی آنکهيں جهونپڑی کی خستہ چهت کو چير کر

کچه پيغام دينا ہے۔ تاريک آسمان کی طرف ڻکڻکی لگائے ديکه رہی تهيں، جيسے انہيں

ماہی گير کی بيوی اس وحشت خيز منظر کو ديکه کر چال اڻهی۔ تهوڑی دير ديوانہ وار ادهر ادهر گهومی۔ يکايک اسکی نمناک آنکهوں ميں ايک چمک پيدا ہوئی، اور اسنے لپک کر الش کے پہلو سے کچه چيز اڻها کر اپنی چادر ميں لپيٹ لی

تی ہوئی اپنی جهونپڑی ميں چلی آئی۔ اور اس دار الخطر سے لڑکهڑا

چہرے کے بدلے ہوئے رنگ اور لرزاں ہاتهوں سے اسنے اپنی جهولی کو ميلے بستر پر خالی کر ديا اور اس پر پهڻی ہوئی چادر ڈال دی۔ تهوڑی دير بيوه سے چهينی ہوئی چيز کی طرف ديکه کر وه اپنے بچوں کے پاس زمين پر بيڻه گئی۔

فق پر سپيد ہو رہا تها۔ سورج کی دهندلی شعاعيں تاريکی کا تعاقب کر رہی تهيں۔ ماہی گير کی بيوی مطلع سمندر کے ابيڻهی اپنے احساس جرم کے شکستہ تار چهيڑ رہی تهی۔ ان غير مربوط الفاظ کے ساته کن سری لہريں اپنی مغموم تانيں

چهيڑ رہی تهيں۔

ے تو مجهے کوئی شکايت نہ ہوگی۔۔۔۔۔يہ بهی عجيب ہے کہ ميں اس سے آه ميں نے بہت برا کيا۔ اب اگر وه مجهے مار" "خائف ہوں جس سے محبت کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔کيا واپس چهوڑ آؤں۔۔۔۔۔۔نہيں۔۔۔۔۔۔شايد وه مجهے معاف کردے۔

دهک وه اسی قسم کے خياالت ميں غلطاں و پيچاں بيڻهی ہوئی تهی کہ ہوا کے زور سے دروازه ہال۔ يہ ديکهر اسکا کليجہ سے ره گيا، وه اڻهی اور کسی کو نہ پا کر وہيں متفکر بيڻه گئی۔

ابهی نہيں۔۔۔۔۔۔۔بيچاره۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے ان بچوں کيليے کتنی تکليف اڻهانی پڑتی ہے۔ اکيلے آدمی کو سات پيٹ پالنے پڑتے " "ہيں۔۔۔۔۔۔۔۔مگر يہ شور کيا ہے؟

رگڑ کر گزر رہی تهی۔ يہ آواز چيختی ہوئی ہوا کی تهی جو جهونپڑی کے ساته

يہ کہہ کر وه پهر اپنے اندرونی غم ميں ڈوب گئی۔ اب اسکے کانوں ميں " اسکے قدموں کی چاپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آه نہيں ہوا ہے۔" ہواؤں اور لہروں کا شور مفقود ہوگيا۔۔۔۔۔۔۔۔۔سينے ميں خياالت کے تصادم کا کيا کم شور تها۔

پانی ميں گهسے ہوئے سنگريزے ايک دوسرے سے ڻکرا کر کهنکهنا رہے آبی جانور ساحل کے آس پاس چال رہے تهے۔تهے۔ کشتی کے چپوؤں کی آواز صبح کی خاموش فضا کو مرتعش کر رہی تهی۔۔۔۔۔۔۔ماہی گير کی بيوی کشتی کی آمد سے

بے خبر اپنے خياالت ميں کهوئی ہوئی تهی۔

شعاعيں جهونپڑی ميں تيرتی ہوئی داخل ہوئيں، ساته ہی ماہی دفعتا دروازه ايک شور کے ساته کهال۔۔۔۔۔۔صبح کی دهندلی گير کاندهوں پر ايک بڑا سا جال ڈالے دہليز پر نمودار ہوا۔

qalamurdu.com

Page 28: آتش پارے.pdf

28

اسکے کپڑے رات کی بارش اور سمندر کے نمکين پانی سے شرابور ہو رہے تهے۔ آنکهيں شب بيداری کی وجہ سے ی مشقت سے اکڑا ہوا تها۔ اندهر کو دهنسی ہوئی تهيں۔ جسم سردی اور غير معمول

ماہی گير کی بيوی چونک اڻهی اور عاشقانہ بيتابی سے اپنے خاوند کو چهاتی سے لگا ليا۔ " نسيم کے ابا، تم ہو۔"

"ہاں ميں ہوں پياری"

يہ کہتے ہوئے ماہی گير کے کشاده مگر مغموم چہرے پر مسرت کی ايک دهندلی روشنی چها گئی۔ وه مسکرايا۔۔۔۔۔۔۔بيوی ی محبت نے اسکے دل سے رات کی کلفت کا خيال محو کر ديا۔ ک

بيوی نے محبت بهرے لہجے ميں دريافت کيا۔ " موسم کيسا تها؟"

"تند"

"مچهلياں ہاته آئيں؟"

"بہت کم۔۔۔۔۔آج رات تو سمندر قزاقوں کے گروه کی مانند تها۔"

اسے مغموم ديکها اور مسکرا کر بوال۔ يہ سنکر اسکی بيوی کے چہرے پر مردنی چها گئی۔ ماہی گير نے

"تو ميرے پہلو ميں ہے۔۔۔۔۔۔ميرا دل خوش ہے۔"

"ہوا تو بہت تيز ہوگی؟"

بہت تيز، معلوم ہو رہا تها کہ دنيا کہ تمام شيطان مل کر اپنے منحوس پر پهڑ پهڑا رہے ہيں۔ جال ڻوٹ گيا۔ رسياں کٹ "مگر تم شب بهر کيا کرتی رہی ہو "پهر اس گفتگو کا رخ بدلتے ہوئے بوال۔ " گئيں اور کشتی کا منہ بهی ڻوڻتے ڻوڻتے بچا۔

"پياری؟

ميں۔۔۔۔۔۔آه کچه بهی نہيں۔۔۔۔۔۔۔سيتی پروتی رہی، "بيوی کسی چيز کا خيال کرکے کانپی اور لرزاں آواز ميں جواب ديا۔ "گ رہا تها۔تمهاری راه تکتی رہی۔۔۔۔۔۔۔لہريں بجلی کی طرح کڑک رہی تهيں، مجهے سخت ڈر ل

"ڈر۔۔۔۔۔۔ہم لوگوں کو ڈر کس بات کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

بيوی نے اپنے خاوند کی بات کاڻتے ہوئے کہا۔ " اور ہاں، ہماری ہمسايہ بيوه مر گئی ہے۔"

ماہی گير نے يہ دردناک خبر سنی مگر اسے کچه تعجب نہ ہوا۔ شايد اسليے کہ وه ہر گهڑی اس عورت کی موت کی خبر "بيچاری سدهار گئی ہے۔"متوقع تها۔ اسنے آه بهری اور صرف اتنا کہا۔ سننے کا

"ہاں اور دو بچے چهوڑ گئی ہے جو الش کے پہلو ميں ليڻے ہوئے ہيں۔"

يہ سنکر ماہی گير کا جسم زور سے کانپا اور اسکی صورت سنجيده و متفکر ہوگئی۔ ايک کونے ميں اپنی اونی ڻوپی، جو پانی سے بهيگ رہی تهی، پهينک کر سر کهجاليا اور کچه دير خاموش رہنے کے بعد اپنے آپ سے بوال۔

وسم ميں ہميں دو وقت کا کهانا نصيب نہيں ہوتا تها۔ پانچ بچے تهے، اب سات ہوگئے ہيں۔۔۔۔۔۔اس سے پيشتر ہی اس تند م" "اب مگر خير۔۔۔۔يہ ميرا قصور نہيں۔ اس قسم کے حوادث بہت گہرے معانی رکهتے ہيں۔

qalamurdu.com

Page 29: آتش پارے.pdf

29

وه کچه عرصے تک اسی طرح اپنا سر گهڻنوں ميں دبائے سوچتا رہا۔ اسے يہ سمجه نہ آتا تها کہ خدا نے ان بچوں سے ہيں ہيں، ماں کيوں چهين لی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان بچوں سے جو نہ کام کر سکتے ہيں اور نہ ہی جو اسکی مڻهی کے برابر بهی ن

کسی چيز کی خواہش ہی کر سکتے ہيں۔۔۔۔۔۔اسکا دماغ ان سوالوں کا کوئی حل نہ پيش کر سکا۔ وه بڑبڑاتا ہوا اڻها۔

پياری جاؤ انہيں "سے مخاطب ہو کر بوال۔ اور پهر اپنی بيوی" شايد ايسی چيزوں کو ايک پڑها لکها ہی سمجه سکتا ہے۔"يہاں لے آؤ۔ وه کس قدر وحشت زده ہونگے اگر وه صبح اپنی ماں کی الش کے پاس بيدار ہوئے۔۔۔۔۔۔۔انکی ماں کی روح

"سخت بے قرار ہوگی، جاؤ انهيں ابهی ليکر آؤ۔

بڑے ہو کر اسکے گهڻنوں پر چڑهنا سيکه يہ کہہ کر وه سوچنے لگا کہ وه ان بچوں کو اپنی اوالد کی طرح پالے گا۔ وه جائينگے۔ خدا ان اجنبيوں کو جهونپڑی ميں ديکه کر بہت خوش ہوگا اور انهيں زياده کهانے کو عطا کرے گا۔

اور پهر اپنی بيوی کو چارپائی کی طرف " تمهيں فکر نہيں کرنی چاہيئے پياری۔۔۔۔۔۔۔ميں زياده محنت سے کام کروں گا۔" "مگر تم سوچ کيا رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔اس دهيمی چال سے نہيں چلنا چاہئے تمهيں۔"که کر بلند آواز ميں کہنے لگا۔ روانہ ہوتے دي

ماہی گير کی بيوی نے چارپائی کے پاس پہنچ کر چادر کو الٹ ديا۔

"وه تو يہ ہيں۔"

دو بچے صبح کی طرح مسکرا رہے تهے۔

(ء1935يکم فروری )

qalamurdu.com

Page 30: آتش پارے.pdf

30

تماشا يارے سياه عقابوں کی طرح پر پهيالئے خاموش فضا ميں منڈال رہے تهے جيسے وه کسی شکار کی دو تين روز سے ط

جستجو ميں ہوں۔ سرخ آندهياں وقتا فوقتا کسی آنيوالے خونی حادثہ کا پيغام ال رہی تهيں۔ سنسان بازاروں ميں مسلح پوليس سے کچه عرصہ پہلے لوگوں کے ہجوم سے پر کی گشت ايک عجيب ہولناک سماں پيش کر رہی تهی۔ وه بازار جو صبح

ہوا کرتے تهے اب کسی نہ معلوم خوف کی وجہ سے سونے پڑے تهے۔۔۔۔۔۔۔شہر کی فضا پر ايک پر اسرار خاموشی مسلط تهی۔ بهيانک خوف راج کر رہا تها۔

ا۔ خالد گهر کی خاموش و پر سکون فضا سے سہما ہوا اپنے والد کے قريب بيڻها باتيں کر رہا ته

"ابا، آپ مجهے سکول کيوں نہيں جانے ديتے؟"

"بيڻا، آج سکول ميں چهڻی ہے۔"

ماسڻر صاحب نے تو ہميں بتايا ہی نہيں۔ وه تو کل کہہ رہے تهے کہ جو لڑکا آج سکول کا کام ختم کر کے اپنی کاپی نہ " "دکهائے گا، اسے سخت سزا دی جائيگی۔

"وه اطالع دينی بهول گئے ہونگے۔"

"کے دفتر ميں بهی چهڻی ہے۔ آپ"

"ہاں ہمارا دفتر بهی آج بند ہے۔"

"چلو اچها ہوا۔۔۔۔۔۔۔آج ميں آپ سے کوئی اچهی سی کہانی سنوں گا۔"

يہ باتيں ہو رہی تهيں کہ تين چار طيارے چيختے ہوئے انکے سر پر سے گزر گئے۔ خالد انکو ديکه کر بہت خوفزده ہوا، ں کی پرواز کو بغور ديکه رہا تها مگر کسی نتيجے پر نہ پہنچ سکا تها۔ وه حيران تها کہ وه تين چار روز سے ان طيارو

يہ جہاز سارا دن دهوپ ميں کيوں چکر لگاتے رہتے ہيں۔ وه انکی روزانہ نقل و حرکت سے تنگ آ کر بوال۔

ہ وه ہمارے گهر پر سے ابا، مجهے ان جہازوں سے سخت خوف معلوم ہو رہا ہے۔ آپ انکے چالنے والوں سے کہديں ک" "نہ گزرا کريں۔

"خوف۔۔۔۔۔کہيں پاگل تو نہيں ہو گئے خالد۔"

ابا، يہ جہاز بہت خوفناک ہيں۔ آپ نہيں جانتے يہ کسی نہ کسی روز ہمارے گهر پر گولہ پهينک ديں گے۔۔۔۔۔۔۔۔کل صبح "گر انہوں نے اس قسم کی کوئی شرارت ماما امی جان سے کہہ رہی تهی کہ ان جہاز والوں کے پاس بہت سے گولے ہيں۔ ا

"کی تو ياد رکهيں ميرے پاس بهی ايک بندوق ہے۔۔۔۔۔۔۔وہی جو آپ نے پچهلی عيد پر مجهے دی تهی۔

ماما تو پاگل ہے، ميں اس سے دريافت کرونگا کہ وه گهر ميں "خالد کا باپ اپنے لڑکے کی غير معمولی جسارت پر ہنسا۔ "ہے۔۔۔۔۔۔۔اطمينان رکهو، وه ايسی بات ہر گز نہيں کرينگے۔ايسی باتيں کيوں کيا کرتی

اپنے والد سے رخصت ہو کر خالد اپنے کمرے ميں چال گيا اور ہوائی بندوق نکال کر نشانہ لگانے کی مشق کرنے لگا تا کہ اس روز جب ہوائی جہاز والے گولے پهينکيں تو اسکا نشانہ خطا نہ جائے اور وه پوری طرح انتقام لے

سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش انتقام کا يہی ننها جذبہ ہر شخص ميں تقسيم ہو جائے۔

qalamurdu.com

Page 31: آتش پارے.pdf

31

اسی عرصہ ميں جبکہ ايک ننها سا بچہ اپنے انتقام لينے کی فکر ميں ڈوبا ہوا طرح طرح کے منصوبے بانده رہا تها، کہ وه آئنده گهر ميں اس گهر کے دوسرے حصے ميں خالد کا باپ اپنی بيوی کے پاس بيڻها ہوا ماما کو ہدايت کر رہا تها

قسم کی کوئی بات نہ کرے جس سے خالد کو دہشت ہو۔

ماما اور بيوی کو اسی قسم کی مزيد ہدايات ديکر وه ابهی بڑے دروازے سے باہر جا رہا تها کہ خادم ايک دہشتناک خبر ے ہيں اور يہ توقع کی جاتی اليا کہ شہر کے لوگ بادشاه کے منع کرنے پر بهی شام کے قريب ايک عام جلسہ کرنے وال

ہے کہ کوئی نہ کوئی واقع ضرور پيش آ کر رہے گا۔

خالد کا باپ يہ خبر سنکر بہت خوفزده ہوا، اب اسے يقين ہو گيا کہ فضا کا غير معمولی سکون، طياروں کی پرواز، ں کی آمد کسی خوفناک بازاروں ميں مسلح پوليس کی گشت، لوگوں کے چہروں پر اداسی کا عالم اور خوفناک آندهيو

حادثہ کی پيش خيمہ تهے۔

وه حادثہ کس نوعيت کا ہوگا؟۔۔۔۔۔۔۔۔يہ خالد کے باپ کی طرح کسی کو بهی معلوم نہ تها مگر پهر بهی سارا شہر کسی نامعلوم خوف ميں لپڻا ہوا تها۔

ا تها کہ طياروں کا شور بلند ہوا وه باہر جانے کے خيال کو ملتوی کر کے خالد کا باپ ابهی کپڑے تبديل کرنے بهی نہ پاي سہم گيا۔ اسے ايسا معلوم ہوا جيسے سينکڑوں انسان ہم آہنگ آواز ميں درد کی شدت سے کراه رہے ہيں۔

خالد طياروں کا شور و غل سنکر اپنی ہوائی بندوق سنبهالتا ہوا کمرے سے باہر دوڑا آيا اور انہيں غور سے ديکهنے لگا ہ پهينکنے لگيں تو وه اپنی بندوق کی مدد سے انہيں نيچے گرا دے۔ اس وقت چه سال کے بچے کے تا کہ وه جس وقت گول

چہرے پر آہنی اراده و استقالل کے آثار نماياں تهے جو کم حقيقت بندوق کا کهلونا ہاته ميں تهامے ايک جری سپاہی کو سے خوفزده کر رہی تهی، مڻانے پر تال ہوا ہے۔ شرمنده کر رہا تها۔ معلوم ہوتا ته کہ وه آج اس چيز کو جو اسے عرصے

خالد کے ديکهتے ديکهتے ايک جہاز سے کچه چيز گری جو کاغذ کے چهوڻے چهوڻے ڻکڑوں کے مشابہ تهی۔ گرتے ہی يہ ڻکڑے ہوا ميں پتنگوں کی طرح اڑنے لگے، ان ميں سے چند خالد کے مکان کی باالئی چهت پر بهی گرے۔

گيا اور وه کاغذ اڻها اليا۔ خالد بهاگا ہوا اوپر

"ابا جی، ماما سچ مچ جهوٹ بک رہی تهی۔ جہاز والوں نے تو گولوں کی بجائے يہ کاغذ پهينکے ہيں۔"

خالد کے باپ نے وه کاغذ ليکر پڑهنا شروع کيا تو رنگ زرد ہو گيا، ہونيوالے حادثے کی تصوير اب اسے عياں طور پر کها تها کہ بادشاه کسی جلسہ کرنے کی اجازت نہيں ديتا اور اگر اسکی مرضی کے نظر آنے لگی۔ اس اشتہار ميں صاف ل

خالف کوئی جلسہ کيا گيا تو نتائج کی ذمہ دار خود رعايا ہوگی۔

اس کاغذ ميں يہ تو "اپنے والد کو اشتہار پڑهنے کے بعد اس قدر حيران و پريشان ديکه کر خالد نے گهبراتے ہوئے کہا۔ "ہمارے گهر پر گولے پهينکيں گے؟نہيں لکها کہ وه

"خالد اس وقت تم جاؤ، جاؤ اپنی بندوق کے ساته کهيلو۔"

"مگر اس پر لکها کيا ہے۔"

خالد کے باپ نے گفتگو کو مزيد طول دينے کے خوف سے جهوٹ بولتے " لکها ہے کہ آج شام کو ايک تماشا ہوگا۔" ہوئے کہا۔

"ا۔تماشا ہوگا، پهر تو ہم بهی چليں گے ن"

qalamurdu.com

Page 32: آتش پارے.pdf

32

"کيا کہا۔"

"کيا اس تماشے ميں آپ مجهے نہ لے چليں گے؟"

"لے چليں گے، اب جاؤ جا کر کهيلو۔"

کہاں کهيلوں؟ بازار ميں آپ جانے نہيں ديتے، ماما مجه سے کهيلتی نہيں، ميرا ہم جماعت طفيل بهی تو آج کل يہاں نہيں " "ت تماشا ديکهنے تو ضرور چليں گے نا؟آتا، اب ميں کهيلوں تو کس سے کهيلوں؟۔۔۔۔۔۔۔شام کے وق

کسی جواب کا انتظار کئے بغير خالد کمرے سے باہر چال گيا اور مختلف کمروں ميں آواره پهرتا ہوا اپنے والد کی نشستگاه ميں پہنچا، جس کی کهڑکياں بازار کی طرف کهلتی تهيں۔ کهڑکی کے قريب بيڻه کر وه بازار کی طرف جهانکنے

لگا۔

کيا ديکهتا ہے کہ بازار ميں دکانيں تو بند ہيں مگر آمد و رفت جاری ہے۔ لوگ جلسے ميں شريک ہونے کے لئے جا رہے تهے۔ وه سخت حيران تها کہ دو تين روز سے دکانيں کيوں بند رہتی ہيں، اس مسئلہ کے حل کے لئے اس نے اپنے ننهے

و سکا۔ دماغ پر بہتيرا زور ديا مگر کوئی نتيجہ برآمد نہ ہ

بہت غور و فکر کرنے کے بعد اس نے يہ سوچا کہ لوگوں نے اس تماشا ديکهنے کی خاطر، جس کے اشتہار جہاز بانٹ رہے تهے، دکانيں بند کر رکهی ہيں۔ اب اس نے خيال کيا کہ وه کوئی نہايت ہی دلچسپ تماشا ہوگا جس کيليئے تمام بازار

کر ديا اور وه اس وقت کا نہايت بيقراری سے انتظار کرنے لگا جب اس کا بند ہيں۔ اس خيال نے خالد کو سخت بے چين ابا اسے تماشا دکهالنے کو لے چلے۔

وقت گزرتا گيا، وه خونی گهڑی قريب تر آتی گئی۔

سہ پہر کا وقت تها، خالد اسکا باپ اور والده صحن ميں خاموش بيڻهے ايک دوسرے کی طرف خاموش نگاہوں سے تک ا سسکياں بهرتی ہوئی چل رہی تهی۔ رہے تهے، ہو

تڑ۔ تڑ۔ تڑ۔ تڑ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

يہ آواز سنتے ہی خالد کے باپ کے چہرے کا رنگ کاغذ کی طرح سفيد ہو گيا، زبان سے بمشکل اسقدر کہہ سکا۔ "۔۔۔۔۔۔گولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

خالد کی ماں فرط خوف سے ايک لفظ بهی منہ سے نہ نکال سکی، گولی کا نام سنتے ہی اسے ايسا معلوم ہوا جيسے خود اسکی چهاتی سے گولی اتر رہی ہے۔

"ابا جی چليں، تماشا تو شروع ہو گيا ہے۔"خالد اس آواز کو سنتے ہی اپنے والد کی انگلی پکڑ کر کہنے لگا۔

کے باپ نے اپنے خوف کو چهپاتے ہوئے کہا۔ خالد" کونسا تماشا؟"

وہی تماشا جس کے اشتہار آج صبح بانٹ رہے تهے، کهيل شروع ہو گيا ہے، تبهی تو اتنے پڻاخوں کی آواز سنائی دے " "رہی ہے۔

"ابهی بہت وقت باقی ہے، تم شور مت کرو، خدا کيليئے اب جاؤ، ماما کے پاس جا کر کهيلو۔"

ورچی خانے کی طرف گيا مگر وہاں ماما کو نہ پا کر اپنے والد کی نشستگاه ميں چال گيا اور کهڑکی خالد يہ سنتے ہی با سے بازار کی طرف ديکهنے لگا۔

qalamurdu.com

Page 33: آتش پارے.pdf

33

بازار آمد و رفت بند ہو جانے کی وجہ سے سائيں سائيں کر رہا تها، دور فاصلے سے کتوں کی دردناک چيخيں سنائی دے خوں ميں انسان کی دردناک آواز بهی شامل ہو گئی۔ رہی تهيں، چند لمحات کے بعد ان چي

خالد کسی کو کراہتے سنکر بہت حيران ہوا، ابهی وه اس آواز کی جستجو کيليئے کوشش ہی کر رہا تها کہ چوک ميں اسے ايک لڑکا دکهائی ديا، جو چيختا چالتا بهاگتا چال آ رہا تها۔

ا اور گرتے ہی بيہوش ہو گيا، اسکی پنڈلی پر ايک گہرا زخم تها جس خالد کے گهر کے عين مقابل وه لڑکا لڑکهڑا کر گر سے فواروں خون نکل رہا تها۔

ابا، ابا، بازار ميں ايک لڑکا گر "يہ سماں ديکه کر خالد بہت خوفزده ہوا، بهاگ کر اپنے والد کے پاس آيا اور کہنے لگا۔ "پڑا ہے، اسکی ڻانگ سے بہت خون نکل رہا ہے۔

خالد کا باپ کهڑکی کی طرف گيا اور ديکها کہ واقعی ايک نوجوان لڑکا بازار ميں اوندهے منہ پڑا ہے۔ يہ سنتے ہی

بادشاه کے خوف سے اسے جرأت نہ ہوئی کہ وه اس لڑکے کو سڑک پر سے اڻها کر سامنے والی دکان کے پڻڑے پر لڻا عقد نے آہنی گاڑياں مہيا کر رکهی ہيں۔ مگر اس دے۔ بے ساز و برگ افراد کو اڻهانے کيليئے حکومت کے ارباب حل و

معصوم بچے کی نعش جو انہی کے تيغ ستم کا شکار تهی، وه ننها پودا جو انہی کے ہاتهوں مسال گيا تها، وه کونپل جو کهلنے سے پہلے انہی کی عطا کرده باد سموم سے جهلس گئی تهی، کسی کے دل کی راحت جو انہی کے جور و استبداد

هين لی تهی، اب انہی کی تيار کرده سڑک پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔آه۔ موت بهيانک ہے مگر ظلم اس سے کہيں زياده خوفناک اور نے چ بهيانک ہے۔

"ابا اس لڑکے کو کسی نے پيڻا ہے؟"

خالد کا باپ اثبات ميں سر ہالتا ہوا کمرے سے باہر چال گيا۔

ڑکے کو اتنے بڑے زخم سے کتنی تکليف ہوئی ہوگی جبکہ ايک جب خالد اکيال کمرے ميں ره گيا تو سوچنے لگا کہ اس لدفعہ اسے قلم تراش کی نوک چبهنے سے تمام رات نيند نہ آئی تهی اور اسکا باپ اور ماں تمام رات اسکے سرہانے

ت بيڻهے رہے تهے۔ اس خيال کے آتے ہی اسے ايسا معلوم ہونے لگا کہ وه زخم خود اسکی پنڈلی ميں ہے اور اس ميں شد کا درد ہے۔۔۔۔۔۔يکلخت وه رونے لگا۔

ميرے بچے رو "اسکے رونے کی آواز سنکر اسکی والده دوڑی دوڑی آئی اور اسے گود ميں لے کر پوچهنے لگی۔ "کيوں رہے ہو؟

"امی اس لڑکے کو کسی نے مارا ہے؟"

"شرارت کی ہوگی اس نے۔"

ان سن چکی تهی۔ خالد کی والده اپنے خاوند کی زبانی زخمی لڑکے کی داست

خالد نے روتے ہوئے اپنی والده " مگر سکول ميں تو شرارت کرنے پر چهڑی سے سزا ديتے ہيں، لہو تو نہيں نکالتے۔" سے کہا۔

"چهڑی زور سے لگ گئی ہوگی۔"

qalamurdu.com

Page 34: آتش پارے.pdf

34

۔ ايک تو پهر کيا اس لڑکے کا والد سکول ميں جا کر اس استاد پر خفا نہ ہوگا جس نے اسکے لڑکے کو اس قدر مارا ہے"روز ماسڻر صاحب نے ميرے کان کهينچ کر سرخ کر ديئے تهے تو ابا جی نے ہيڈ ماسڻر کے پاس جا کر شکايت کی تهی

"نا۔

"اس لڑکے کا ماسڻر بہت بڑا آدمی ہے۔"

"هللا مياں سے بهی بڑا؟"

"نہيں ان سے چهوڻا ہے۔"

"تو پهر وه هللا مياں کے پاس شکايت کرے گا۔"

"ہو گئی ہے، چلو سوئيں۔خالد اب دير "

هللا مياں ميں دعا کرتا ہوں کہ تو اس ماسڻر کو جس نے اس لڑکے کو پيڻا ہے اچهی طرح سزا دے اور اس چهڑی کو "چهين لے جسکے استعمال سے خون نکل آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ميں نے پہاڑے ياد نہيں کئے، اسلئے مجهے بهی ڈر ہے کہ کہيں

"ه نہ آ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر تم نے ميری باتيں نہ مانيں تو پهر ميں بهی تم سے نہ بولوں گا۔وہی چهڑی ميرے استاد کے ہات

سوتے وقت خالد دل ميں دعا مانگ رہا تها۔

qalamurdu.com

Page 35: آتش پارے.pdf

35

طاقت کا امتحان "کهيل خوب تها، کاش تم بهی وہاں موجود ہوتے۔"

"تهی جسکی تم اتنی تعريف کر رہے ہو؟ مجهے کل کچه ضروری کام تها مگر اس کهيل ميں کونسی چيز ايسی قابل ديد"

"ايک صاحب نے چند جسمانی ورزشوں کے کرتب دکهالئے کہ ہوش گم ہو گيا۔"

"مثال۔"

"مثال کالئی پر ايک انچ موڻی آہنی سالخ کو خم دينا۔"

"يہ آجکل بچے بهی کر سکتے ہيں۔"

"انا۔چهاتی پر چکی کا پتهر رکهوا کر آہنی ہتهوڑوں سے پاش پاش کر"

"ميں نے ايسے بيسيوں شخص ديکهے ہيں۔"

مگر وه وزن جو اس نے دو ہاتهوں سے اڻها کر ايک تنکے کی طرح پرے پهينک ديا کسی اور شخص کی بات نہيں، يہ " "تمهيں بهی ماننا پڑے گا۔

"بهلے آدمی يہ کونسا اہم کام ہے، وزن کتنا تها آخر۔"

"کوئی چار من کے قريب ہوگا، کيوں؟"

"اتنا وزن تو شہر کا فاقہ زده مزدور گهنڻوں پشت پر اڻهائے رہتا ہے۔"

"بالکل غلط۔"

"وه کيوں؟"

غليظ ڻکڑوں پر پلے ہوئے مزدور ميں اتنی قوت نہيں ہو سکتی۔ طاقت کے لئے اچهی غذا کا ہونا الزم ہے۔ شہر کا " "مزدور۔۔۔۔۔۔۔کسيی باتيں کر رہے ہو۔

ق ميں تم سے متفق ہوں مگر يہ حقيقت ہے۔ يہاں ايسے بہتيرے مزدور ہيں جو دو پيسے کی غذا والے معاملے کے متعل"خاطر چار من بلکہ اس سے کچه زياده وزن اڻها کر تمهارے گهر کی دوسری منزل پر چهوڑ آ سکتے ہيں۔۔۔۔۔۔۔کہو تو

"اسے ثابت کر دوں؟

رے کی گدی دار کرسيوں پر بيڻهے سگريٹ کا دهواں اڑا يہ گفتگو دو نوجوان طلبہ ميں ہو رہی تهی جو ايک پر تکلف کم رہے تهے۔

ميں اسے ہر گز نہيں مان سکتا اور باور آئے بهی کس طرح۔۔۔۔۔۔قاسم چوب فروش کے مزدور ہی کو لو۔ کمبخت سے " "ايک من لکڑياں بهی تو اڻهائی نہيں جاتيں۔ ہزاروں ميں ايک ايسا طاقتور ہو تو اچنبها نہيں ہے۔

يار اس قصے کو، بهاڑ ميں جائيں يہ سب مزدور اور چولهے ميں جائے انکی طاقت۔ سناؤ آج تاش کی بازی لگ چهوڑو" "رہی ہے؟

qalamurdu.com

Page 36: آتش پارے.pdf

36

"تاش کی بازياں تو لگتی ہيں رہيں گی، پہلے اس بحث کا فيصلہ ہونا چاہيئے۔"

برابر اپنی ڻک ڻک کئے جا رہا سامنے والی ديوار پر آويزاں کالک ہر روز اسی قسم کی ال يعنی گفتگوؤں سے تنگ آ کر تها۔ سگريٹ کا دهواں انکے منہ سے آزاد ہو کر بڑی بے پروائی سے چکر لگاتا ہوا کهڑکی کے راستے باہر نکل رہا تها۔

ديواروں پر لڻکی ہوئی تصاوير کے چہروں پر بے فکری و بے اعتنائی کی جهلکياں نظر آتی تهيں۔ کمرے کا فرنيچر جگہ پر جما ہوا کسی تغير سے نا اميد ہو کر بے حس پڑا سوتا تها۔ آتشدان کے طاق پر رکها ہوا سالہا سال سے ايک ہی

کسی يونانی مفکر کا مجسمہ اپنی سنگين نگاہوں سے آدم کے ان دو فرزندوں کی بے معنی گفتگو سنکر تعجب سے اپنا و رہی تهی۔ سر کهجال رہا تها۔۔۔۔۔۔۔کمرے کی فضا ان بهدی اور فضول باتوں سے کثيف ہ

تهوڑی دير تک دونوں دوست تاش کی مختلف کهيلوں، برج کے اصولوں اور روپيہ جيتنے کے طريقوں پر اظہار خياالت کرتے رہے۔ دفعتا ان ميں وه جسے مزدور کی طاقت کے متعلق پورا يقين تها اپنے دوست سے مخاطب ہوا۔

"خيال ميں کتنا وزن رکهتا ہوگا۔ باہر بازار ميں لوہے کا جو گارڈر پڑا ہے وه تمهارے"

"پهر وہی بحث۔"

"تم بتاؤ تو سہی"

"پانچ چه من کے قريب ہوگا۔"

"يہ وزن تو تمهاری نظر ميں کافی ہے نا؟"

يعنی تمهارا يہ مطلب ہے کہ لوہے کی يہ بهاری بهر کم الڻه تمهارا مزدور پہلوان اڻهائے گا۔۔۔۔۔۔گدهے والی گاڑی " "ساته۔ضرور ہوگی اسکے

يہاں کے مزدور بهی گدهوں سے کيا کم ہيں۔ گيہوں کی دو تين بورياں اڻهانا تو انکے نزديک معمولی کام ہے۔۔۔۔۔۔۔مگر "تمهيں کيا پتہ ہو سکتا ہے۔ کہو تو، تمهارے کل والے کهيل سے کہيں حيرت انگيز اور بہت سستے داموں ايک نيا تماشا

"دکهاؤں۔

"ا وه وزنی ڻکڑا اڻهائے گا تو ميں تيار ہوں۔اگر تمهارا مزدور لوہے ک"

"تمهاری آنکهوں کے سامنے اور بغير کسی چاالکی کے۔"

دونوں دوست اپنے اپنے سگريٹ کی خاکدان ميں گردن دبا کر اڻهے اور باہر بازار کی طرف مزدور کی طاقت کا امتحان ئيں، جيسے انہيں کسی غير معمولی حادثے کا کرنے چل ديئے۔ کمرے کی تمام اشياء کسی گہری فکر ميں غرق ہو گ

خوف ہو، کالک اپنی انگليوں پر کسی متعينہ وقت کی گهڑياں شمار کرنے لگا۔ ديواروں پر آويزاں تصويريں حيرت ميں ايک دوسرے کا منہ تکنے لگيں۔۔۔۔۔۔۔کمرے کی فضا خاموش آہيں بهرنے لگ گئی۔

د اور کسی وحشتناک خواب کی طرح تاريک، بازار کے ايک کونے ميں لوہے کا وه بهاری بهر کم ڻکڑا الش کا سا سربهيانک ديو کی مانند اکڑا ہوا تها۔ دونوں دوست لوہے کے اس ڻکڑے کے پاس آ کر کهڑے ہو گئے اور کسی مزدور کا

انتظار کرنے لگے۔

هل کر انکا مضحکہ اڑا بازار بارش کی وجہ سے کيچڑ ميں لت پت تها، جو راہگزروں کے جوتوں کے ساته اچهل اچرہی تهی۔ يوں معلوم ہوتا گويا وه اپنے روندنے والوں سے کہہ رہی ہے کہ وه اسی آب و گل کی تخليق ہيں جسے وه اس وقت پاؤں سے گونده رہے ہيں۔ مگر وه اس حقيقت سے غافل اپنے دنياوی کام دهندوں کی دهن ميں مصروف کيچڑ کے

لد جلد قدم اڻهاتے ہوئے جا رہے تهے۔ سينے کو مسلتے ہوئے ادهر ادهر ج

qalamurdu.com

Page 37: آتش پارے.pdf

37

کچه دکاندار اپنے گاہکوں کے ساته سودا کرنے طے کرنے ميں مصروف تهے اور کچه سجی ہوئی دکانوں ميں تکيہ لگائے اپنے حريف ہم پيشہ دکانداروں کی طرف حاسدانہ نگاہوں سے ديکه رہے تهے اور اس وقت کے منتظر تهے کہ

ر وه اسے کم قيمت کا جهانسا ديکر گهڻيا مال فروخت کر ديں۔ کوئی گاہک وہاں سے ہڻے او

ان منياری کی دکانوں کے ساته ہی ايک دوا فروش اپنے مريض گاہکوں کا انتظار کر رہا تها۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بازار ميں سب لوگ يکه رہے اپنے اپنے خيال ميں مست تهے اور يہ دو دوست کسی دنياوی فکر سے بے پروا ايک ايسے مزدور کی راه د

تهے جو انکی دلچسپی کا سامان مہيا کر سکے۔

دور بازار کے آخری سرے پر ايک مزدور کمر کے گرد رسی لپيڻے اور پشت پر ڻاٹ کا ايک موڻا سا ڻکڑا لڻکائے کيچڑ کی طرف معنی خيز نگاہوں سے ديکهتا ہوا چال آ رہا تها۔

سالن کی ديگچيوں اور تنور سے تازه نکلی ہوئی روڻيوں نے اسکے نانبائی کی دکان کے قريب پہنچ کر وه دفعتا ڻهڻکا، پيٹ ميں نوکدار خنجروں کا کام کيا۔

مزدور نے اپنی پهڻی ہوئی جيب کی طرف نگاه کی اور گرسنہ دانتوں سے اپنے خشک لبوں کو کاٹ کر خاموش ره گيا، ان بڑی بے صبری سے کسی کی دل خوش کن سرد آه بهری اور اسی رفتار سے چلنا شروع کر ديا۔ چلتے وقت اسکے ک

کا انتظار کر رہے تهے مگر اس کے دل ميں نہ معلوم کيا کيا خياالت چکر لگا رہے تهے۔ " مزدور"آواز

دو تين دن سے روڻی بمشکل نصيب ہوئی ہے اب چار بجنے کو آئے ہيں مگر ايک کوڑی تک نہيں ملی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش آج " "نصيب ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔بهيک؟۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔نہيں خدا کارساز ہے۔صرف ايک روڻی کے لئے ہی کچه

اسنے بهوک سے تنگ آ کر بهيک مانگنے کا خيال کيا مگر اسے ايک مزدور کی شان کے خالف سمجهتے ہوئے خدا کا دامن تهام ليا اور اس خيال سے مطمئن ہو کر جلدی جلدی اس بازار کو طے کرنے لگا، اس خيال سے کہ شايد دوسرے

بازار ميں اسے کچه نصيب ہو جائے۔

دونوں دوستوں نے بيک وقت ايک مزدور کو تيزی سے اپنی طرف قدم بڑهاتے ديکها، مزدور دبال پتال نہ تها چنانچہ انہوں نے فورا آواز دی۔

"مزدور۔"

پوچهنے لگا۔ يہ سنتے ہی گويا مزدور کے سوکهے دهانوں ميں پانی مل گيا، بهاگا ہوا آيا اور نہايت ادب سے

"جی حضور۔"

"ديکهو، لوہے کا يہ ڻکڑا اڻها کر ہمارے ساته چلو، کتنے پيسے لو گے؟"

مزدور نے جهک کر لوہے کے بهاری بهر کم ڻکڑے کی طرف ديکها اور ديکهتے ہی اسکی آنکهوں کی وه چمک جو کا لفظ سنکر پيدا ہوئی تهی، غائب ہو گئی۔ " مزدور"

ده تها مگر روڻی کے قحط اور پيٹ پوجا کے لئے سامان پيدا کرنے کا سوال اس سے کہيں وزنی وزن بال شک و شبہ زيا تها۔

مزدور نے ايک بار پهر اس آہنی الڻه کی طرف ديکها اور دل ميں عزم کرنے کے بعد کہ وه اسے ضرور اڻهائے گا، ان سے بوال۔

"جو حضور فرمائيں۔"

qalamurdu.com

Page 38: آتش پارے.pdf

38

ان دو لڑکوں ميں سے اسنے مزدور کی طرف حيرت سے ديکهتے ہوئے کہا جو " يعنی تم يہ وزن اکيلے اڻها لو گے؟" کل شب جسمانی کرتب ديکه کر آيا تها۔

دوسرے نے بات کا رخ پلٹ ديا۔ " بولو کيا لو گے؟ يہ وزن بهال کہاں سے زياده ہوا؟"

"کہاں تک جانا ہوگا حضور۔"

"بازار کے نکڑ تک۔بہت قريب، دوسرے "

"وزن زياده ہے، آپ تين آنے ديديجئے۔"

"تين آنے۔"

"جی ہاں، تين آنے کچه زياده تو نہيں ہيں۔"

"دو آنے مناسب ہے بهئی۔"

دو آنے۔۔۔۔۔۔۔آڻه پيسے، يعنی دو وقت کے لئے سامان خورد و نوش، يہ سوچتے ہی مزدور راضی ہو گيا۔ اسنے اپنی کمر سے رسی اتاری اور اسے لوہے کے ڻکڑے کے ساته مضبوطی سے بانده ديا، دو تين جهڻکوں کے بعد وه آہنی سالخ

اسکی کمر پر تهی۔

تهوڑے عرصے کے بعد ملنے والی روڻی نے مزدور کے جسم ميں عارضی طور گو وزن واقعی ناقابل برداشت تها مگرپر ايک غير معمولی طاقت پيدا کر دی تهی، اب ان کاندهوں ميں جو بهوک کی وجہ سے مرده ہو رہے تهے، روڻی کا نام

سنکر طاقت عود کر آئی۔

لئے کچه سامان نظر آتا ہے۔ گرسنہ انسان بڑی سے بڑی مشقت فراموش کر ديتا ہے، جب اسے اپنے پيٹ کے

مزدور نے بڑی ہمت سے کام ليتے ہوئے کہا۔ " آئيے۔"

دونوں دوستوں نے ايک دوسرے کی طرف نگاہيں اڻهائيں اور زير لب مسکرا ديئے، وه بہت مسرور تهے۔

"چلو، مگر ذرا جلدی قدم بڑهاؤ، ہميں کچه اور بهی کام کرنا ہے۔"

ہو ليا، وه اس حقيقت سے بے خبر تها کہ موت اسکے کاندهوں پر سوار ہے۔ مزدور ان دو لڑکوں کے پيچهے

"کيوں مياں، کہاں ہے وه تمهارا کل واال سينڈو؟"

"کمال کرديا ہے اس مزدور نے، واقعی سخت تعجب ہے۔"

"تعجب؟ اگر کہو تو اس لوہے کے ڻکڑے کو تمهارے گهر کی باالئی چهت پر رکهوا دوں۔"

"ہم لوگ اچهی غذا ملنے پر بهی اتنے طاقتور نہيں ہيں۔ مگر سوال ہے کہ"

ہماری غذا تو کتابوں اور ديگر علمی چيزوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ انهيں اس قسم کی سر دردی سے کيا تعلق؟ بے " "فکری، کهانا اور سو جانا۔

qalamurdu.com

Page 39: آتش پارے.pdf

39

"واقعی درست ہے۔"

ميں اپنے خياالت کا اظہار کر رہے تهے۔ لڑکے مزدور پر لدے ہوئے بوجه اور اسکی خميده کمر سے غافل آپس

وہاں سے سو قدم کے فاصلے پر مزدور کی قضا کيلے کے چهلکے ميں چهپی ہوئی اپنے شکار کا انتظار کر رہی تهی۔ گو مزدور کيچڑ ميں پهونک پهونک کر قدم رکه رہا تها مگر تقدير کے آگے تدبير کی ايک بهی پيش نہ چلی۔ اسکا قدم

پهسال اور چشم زدن ميں لوہے کی اس بهاری الڻه نے اسے کيچڑ ميں پيوست کر ديا۔ چهلکے پر پڑا،

مزدور نے مترحم نگاہوں سے کيچڑ اور لوہے کے سرد ڻکڑے کی طرف ديکها، تڑپا اور ہميشہ کيليئے بهوک کی گرفت سے آزاد ہو گيا۔

سر آہنی سالخ کے نيچے کچال ہوا تها، آنکهيں دهماکے کی آواز سنکر دونوں لڑکوں نے پيچهے مڑ کر ديکها، مزدور کا باہر نکلی ہوئی نہ معلوم کس سمت ڻکڻکی لگائے ديکه رہی تهيں۔ خون کی ايک موڻی سی تہہ کيچڑ کے ساته ہم آغوش ہو

رہی تهی۔

"چلو آؤ چليں، ہميں خواه مخواه اس حادثے کا گواه بننا پڑے گا۔"

"سے نہيں اڻهايا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔اللچ۔ ميں پہلے ہی کہہ رہا تها کہ يہ وزن اس"

يہ کہتے ہوئے دونوں لڑکے مزدور کی الش کے گرد جمع ہوتی ہوئی بهيڑ کو کاڻتے ہوئے اپنے گهر روانہ ہو گئے۔

سامنے والی دکان پر ايک بڑی توند واال شخص ڻيليفون کا چونگا ہاته ميں لئے غالبا گندم کا بهاؤ طے کرنيواال تها کہ اس نے مزدور کو موت کا شکار ہوتے ديکها اور اس حادثے کو منحوس خيال کرتے ہوئے بڑبڑا کر ڻيليفون کا سلسلۂ گفتگو

منقطع کر ليا۔

"و ميری دکان کے سامنے۔۔۔۔۔۔۔۔بهال ان لوگوں کو اس قدر وزن اڻهانے پر کون مجبور کرتا ہے۔کمبخت کو مرنا بهی تها ت"

تهوڑی دير کے بعد اسپتال کی آہنی گاڑی آئی اور مزدور کی الش اڻها کر عمل جراحی کيليئے ڈاکڻروں کے سپرد کر دی۔

لتے ہوئے ديکها، اسکی آنکهوں ميں آنسو دهندلے آسمان پر ابر کے ايک ڻکڑے نے مزدور کے خون کو کيچڑ ميں م چهلک پڑے۔۔۔۔۔۔۔ان آنسوؤں نے سڑک کے سينے پر اس خون کے دهبوں کو دهو ديا۔

آہنی الڻه ابهی تک بازار کے ايک کنارے پڑی ہوئی ہے، مزدور کے خون کا صرف ايک قطره باقی ہے جو ديوار کے وں سے انتظار کر رہا ہے۔ ساته چمڻا ہوا نہ معلوم کس چيز کا اپنی خونيں آنکه

(ء1935جنوری 5)

"خلق"اشاعت اول۔ ہفتہ وار

"عالمگير"اشاعت ثانی۔

qalamurdu.com

Page 40: آتش پارے.pdf

40

ديوانہ شاعر

اگر مقدس حق دنيا کی متجسس نگاہوں سے اوجهل کر ديا جائے تو رحمت ہو اس ديوانے پر جو انسانی دماغ پر سنہرا ) (خواب طاری کر دے۔ حکيم گورکی

بيوپاری ہوں ميں آہوں کا

لہو کی شاعری ميرا کام ہے

چمن کی مانده ہواؤ

اپنے دامن سميٹ لو کہ

ميرے آتشيں گيت

دبے ہوئے سينوں ميں ايک تالطم برپا کرنے والے ہيں

يہ بيباک نغمہ درد کی طرح اڻها اور باغ کی فضا ميں چند لمحے تهرتهرا کر ڈوب گيا۔ آواز ميں ايک قسم کی ديوانگی

۔۔۔۔۔ناقابل بيان۔ ميرے جسم پر کپکپی طاری ہو گئی، ميں نے آواز کی جستجو ميں ادهر ادهر نگاہيں اڻهائيں۔ سامنے تهی۔چبوترے کے قريب گهاس کے تختے پر چند بچے اپنی ماماؤں کے ساته کهيل کود ميں محو تهے، پاس ہی دو تين گنوار

زمين کهودنے ميں مصروف تها۔ ميں ابهی اسی جستجو ميں ہی بيڻهے تهے۔ بائيں طرف نيم کے درختوں کے نيچے مالی تها کہ وہی درد ميں ڈوبی ہوئی آواز پهر بلند ہوئی۔

ميں ان الشوں کا گيت گاتا ہوں

جن کی سردی دسمبر مستعار ليتا ہے

ميرے سينے سے نکلی ہوئی آه

وه لو ہے جو جون کے مہينے ميں چلتی ہے

ميں آہوں کا بيوپاری ہوں

لہو کی شاعری ميرا کام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آواز کنوئيں کے عقب سے آ رہی تهی، مجه پر ايک رقت سے طاری ہو گئی، ميں ايسا محسوس کرنے لگا کہ سرد اور

گرم لہريں بيک وقت ميرے جسم سے لپٹ رہی ہيں۔ اس خيال نے مجهے کسی قدر خوفزده کر ديا کہ آواز اس کنوئيں کے بلند ہو رہی ہے جس ميں آج سے کچه سال پہلے الشوں کا ايک انبار لگا ہوا تها۔ اس خيال کے ساته ہی ميرے قريب سے

دماغ ميں جليانوالہ باغ کے خونی حادثے کی ايک تصوير کهچ گئی۔ تهوڑی دير کے لئے مجهے ايسا محسوس ہوا کہ باغ ار سے گونج رہی ہے۔ ميں لرز گيا، اپنے کاندهوں کو کی فضا گوليوں کی سنسناہٹ اور بهاگتے ہوئے لوگوں کی چيخ پک

زور سے جهڻکا ديکر اور اس عمل سے اپنے خوف کو دور کرتے ہوئے ميں اڻها اور کنوئيں کا رخ کيا۔

qalamurdu.com

Page 41: آتش پارے.pdf

41

سارے باغ پر ايک پراسرا خاموشی چهائی ہوئی تهی، ميرے قدموں کے نيچے خشک پتوں کی سر سراہٹ سوکهی ہوئی ہڈيوں کے ڻوڻنے کی آواز پيدا کر رہی تهی۔ کوشش کے باوجود ميں اپنے دل سے وه نا معلوم خوف دور نہ کر سکا جو

ها کہ گهاس کے سبز بستر پر بے شمار الشيں پڑی ہوئی ہيں اس آواز نے پيدا کر ديا تها۔ ہر قدم مجهے يہی معلوم ہوتا تجنکی بوسيده ہڈياں ميرے پاؤں کے نيچے ڻوٹ رہی ہيں۔ يکايک ميں نے اپنے قدم تيز کئے اور دهڑکتے ہوئے دل سے

اس چبوترے پر بيڻه گيا جو کنوئيں کے ارد گرد بنا ہوا تها۔

تها۔ ميرے دماغ ميں بار بار يہ عجيب سا شعر گونج رہا

ميں آہوں کا بيوپاری ہوں

لہو کی شاعری ميرا کام ہے

کنوئيں کے قريب کوئی متنفس موجود نہ تها۔ ميرے سامنے چهوڻے پهاڻک کی ساته والی ديوار پر گوليوں کے نشان تهے

جن پر چوکور جالی منڈهی ہوئی تهی۔ ميں ان نشانوں کو بيسيوں مرتبہ ديکه چکا تها مگر اب وه دو نشان جو ميری و رہے تهے، جو دور۔۔۔۔۔۔۔بہت دور کسی غير مرئی چيز کو ڻکڻکی نگاہوں کے عين بالمقابل تهے دو خونيں آنکهيں معلوم ہ

لگائے ديکه رہی ہوں۔ بال اراده ميری نگاہيں ان دو چشم نما سوراخوں پر جم کر ره گئيں۔ ميں انکی طرف مختلف خياالت وں کی چاپ نے ميں کهويا ہوا خدا معلوم کتنے عرصے تک ديکهتا رہا کہ دفعتا پاس والی روش پر کسی کے بهاری قدم

مجهے اس خواب سے بيدار کر ديا۔ ميں نے مڑ کر ديکها، گالب کی جهاڑيوں سے ايک دراز قد آدمی سر جهکائے ميری طرف بڑه رہا تها، اسکے دونوں ہاته اسکے بڑے کوٹ کی جيبوں ميں ڻهنسے ہوئے تهے، چلتے ہوئے وه زير لب کچه

کايک ڻهڻکا اور گردن اڻها کر ميری طرف ديکهتے ہوئے کہا۔ گنگنا رہا تها۔ کنوئيں کے قريب پہنچ کر وه ي

"ميں پانی پيؤنگا۔"

ميں فورا چبوترے پر سے اڻها اور پمپ کا ہينڈل ہالتے ہوئے اس اجنبی سے کہا۔

"آئيے۔"

ميں اچهی طرح پانی پی چکنے کے بعد اس نے اپنے کوٹ کی ميلی آستين سے منہ پونچها اور واپس چلنے کو ہی تها کہ نے دهڑکتے ہوئے دل سے دريافت کيا۔

"کيا ابهی ابهی آپ ہی گا رہے تهے؟"

يہ کہتے ہوئے اس نے اپنا سر پهر اڻهايا، اسکی آنکهيں جن ميں سرخ " ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔مگر آپ کيوں دريافت کر رہے ہيں؟" ہو رہی تهيں۔ ميں گهبرا گيا۔ ڈورے غير معمولی طور پر نماياں تهے، ميری قلبی واردات کا جائزه ليتی ہوئی معلوم

"آپ ايسے گيت نہ گايا کريں۔۔۔۔۔۔۔يہ سخت خوفناک ہيں۔"

خوفناک۔۔۔۔۔۔۔نہيں، انہيں ہيبت ناک ہونا چاہيئے جبکہ ميرے راگ کے ہر سر ميں رستے ہوئے زخموں کی جلن اور رکی "کی برفائی ہوئی روح کو اچهی طرح چاٹ ہوئی آہوں کی تپش معمور ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ميرے شعلوں کی زبانيں آپ

اس نے اپنی نوکيلی ڻهوڑی کو انگليوں سے کهجالتے ہوئے کہا۔ يہ الفاظ اس شور کے مشابہ تهے جو برف " نہيں سکيں۔ کے ڈهيلے ميں تپتی ہوئی سالخ گزارنے سے پيدا ہوتا ہے۔

"آپ مجهے ڈرا رہے ہيں۔"

qalamurdu.com

Page 42: آتش پارے.pdf

42

ہا، ہا، ہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ ڈر رہے ہيں۔ کيا آپ "ايک قہقہہ نما شور بلند ہوا۔ ميرے يہ کہنے سے اس مرد عجيب کے حلق سے کو يہ معلوم نہيں کہ آپ اس وقت اس منڈير پر کهڑے ہيں جو آج سے کچه عرصہ پہلے بے گناه انسانوں کے خون سے

"لتهڑی ہوئی تهی، يہ حقيقت ميری گفتگو سے زياده وحشت خيز ہے۔

ئے، ميں واقعی خونيں منڈير پر کهڑا تها۔ مجهے خوفزده ديکه کر وه پهر بوال۔ يہ سنکر ميرے قدم ڈگمگا گ

تهرائی ہوئی رگوں سے بہا ہوا لہو کبهی فنا نہيں ہوتا۔ اس خاک کے ذرے ذرے ميں مجهے سرخ بونديں تڑپتی نظر آ " "رہی ہيں، آؤ تم بهی ديکهو۔

نوئيں پر سے نيچے اتر آيا اور اسکے پاس کهڑا ہو گيا۔ ميرا يہ کہتے ہوئے اس نے اپنی نظريں زمين پر گاڑ ديں۔ ميں کمگر تم اسے "دل دهک دهک کر رہا تها، دفعتا اس نے اپنا ہاته ميرے کاندهے پر رکها اور بڑے دهيمے لہجے ميں کہا۔

"نہيں سمجه سکو گے۔۔۔۔۔۔يہ بہت مشکل ہے۔

نی حادثے کی ياد دال رہا تها جو آج سے سولہ سال قبل اس ميں اسکا مطلب بخوبی سمجه رہا تها، وه غالبا مجهے اس خوباغ ميں واقع ہوا تها۔ اس حادثے کے وقت ميری عمر قريبا پانچ سال کی تهی اس لئے ميرے دماغ ميں اسکے بہت

دهندلے نقوش باقی تهے ليکن مجهے اتنا ضرور معلوم تها کہ اس باغ ميں عوام کے ايک جلسے پر گولياں برسائی گئی تهيں جسکا نتيجہ قريبا دو ہزار اموات تهيں۔ ميرے دل ميں ان لوگوں کا بہت احترام تها جنہوں نے اپنی مادر وطن اور

جذبۂ آزادی کی خاطر اپنی جانيں قربان کر دی تهيں بس اس احترام کے عالوه ميرے دل ميں اس حادثے کے متعلق اور گفتگو نے ميرے سينے ميں ايک ہيجان سا برپا کر ديا، ميں ايسا کوئی خاص جذبہ نہ تها مگر آج اس مرد عجيب کی

محسوس کرنے لگا کہ گولياں تڑ تڑ برس رہی ہيں اور بہت سے لوگ وحشت کے مارے ادهر ادهر بهاگتے ہوئے ايک دوسرے پر گر کر مر رہے ہيں۔ اس اثر کے تحت ميں چال اڻها۔

"بهيانک ہے مگر ظلم اس سے کہيں خوفناک اور بهيانک ہے۔ميں سمجهتا ہوں، ميں سب کچه سمجهتا ہوں۔ موت "

يہ کہتے ہوئے مجهے ايسا محسوس ہوا کہ ميں نے سب کچه کہہ ڈاال ہے اور ميرا سينہ بالکل خالی ره گيا ہے، مجه پر ا۔ ايک مردنی سی چها گئی۔ غير ارادی طور پر ميں نے اس شخص کے کوٹ کو پکڑ ليا اور تهرائی ہوئی آواز ميں کہ

"آپ کون ہيں؟۔۔۔۔۔۔۔آپ کون ہيں؟"

"آہوں کا بيوپاری۔۔۔۔۔۔۔ايک ديوانہ شاعر۔"

اس کے الفاظ زير لب گنگناتے ہوئے ميں کنوئيں کے چبوترے پر بيڻه گيا۔ اس " آہوں کا بيوپاری۔۔۔۔۔۔۔ايک ديوانہ شاعر۔"بعد ميں نے اپنا جهکا ہوا سر اڻهايا، سامنے وقت ميرے دماغ ميں اس ديوانے شاعر کا گيت گونج رہا تها۔ تهوڑی دير کے

سپيدے کے دو درخت ہيبت ناک ديووں کی طرح انگڑائياں لے رہے تهے، پاس ہی چنبيلی اور گالب کی خار دار جهاڑيوں ميں ہوا آہيں بکهير رہی تهی۔ ديوانہ شاعر خاموش کهڑا سامنے والی ديوار کی ايک کهڑکی پر نگاہيں جمائے

کے خاکستری دهندلکے ميں وه ايک سايہ سا معلوم ہو رہا تها۔ کچه دير خاموش رہنے کے بعد وه اپنے ہوئے تها۔ شام خشک بالوں کو انگليوں سے کنگهی کرتے ہوئے گنگنايا۔

"آه يہ سب کچه خوفناک حقيقت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کسی صحرا ميں جنگلی انسان کے پيروں کے نشانات کی طرح خوفناک۔"

"کيا کہا۔"

ن الفاظ کو اچهی طرح سن نہ سکا تها جو اس نے منہ ہی منہ ميں ادا کئے تهے۔ ميں ا

يہ کہتے ہوئے وه ميرے پاس آ کر چبوترے پر بيڻه گيا۔ " کچه بهی نہيں۔"

qalamurdu.com

Page 43: آتش پارے.pdf

43

"آپ گنگنا رہے تهے۔"

سينے "کہا۔ اس پر اس نے اپنی آنکهيں ايک عجيب انداز ميں سکيڑيں اور ہاتهوں کو آپس ميں زور زور سے ملتے ہوئے ميں قيد کئے ہوئے الفاظ باہر نکلنے کے لئے مضطرب ہوتے ہيں۔ اپنے آپ سے بولنا اس الوہيت سے گفتگو کرنا ہے جو

کيا آپ نے اس کهڑکی کو "پهر ساته ہی گفتگو کا رخ بدلتے ہوئے کہا۔ " ہمارے دل کی پہنائيوں ميں مستور ہوتی ہے۔ "ديکها ہے؟

کی طرف اڻهائی جسے وه چند لمحہ پہلے ڻکڻکی باندهے ديکه رہا تها۔ ميں نے اس جانب اس نے اپنی انگلی اس کهڑکی ديکها، چهوڻی سی کهڑکی تهی جو سامنے ديوار کی خستہ اينڻوں ميں سوئی ہوئی معلوم ہوتی تهی۔

ميں نے اس سے کہا۔ " يہ کهڑکی جسکا ايک ڈنڈا نيچے لڻک رہا ہے؟"

ڻک رہا ہے۔ کيا تم اس پر اس معصوم لڑکی کے خون کے چهينڻے نہيں ديکه رہے ہو ہاں، يہی جسکا ايک ڈنڈا نيچے ل"جس کو صرف اسلئے ہالک کيا گيا تها کہ ترکش استبداد کو اپنے تيروں کی قوت پرواز کا امتحان لينا تها۔۔۔۔۔۔۔ميرے

کم سن روح کی پهڑپهڑاہٹ اور عزيز، تمهاری اس بہن کا خون ضرور رنگ الئيگا۔ ميرے گيتوں کے زير و بم ميں اس اسکی دلدوز چيخيں ہيں، يہ سکون کے دامن کو تار تار کر ديں گے۔ ايک ہنگامہ ہوگا، سينۂ گيتی شق ہو جائے گا۔ ميری

و بے لگام آواز بلند سے بلند تر ہوتی جائے گی۔۔۔۔۔۔پهر کيا ہوگا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پهر کيا ہوگا؟۔۔۔۔۔۔۔۔يہ مجهے معلوم نہيں۔۔۔۔۔۔آؤ ديکه "اس سينے ميں کتنی زبردست آگ سلگ رہی ہے۔

يہ کہتے ہوئے اس نے ميرا ہاته پکڑا اور اسے کوٹ کے اندر لے جا کر اپنے سينے پر رکه ديا۔ اسکے ہاتهوں کی طرح اسکا سينہ بهی غير معمولی طور پر گرم تها۔ اس وقت اسکی آنکهوں کے ڈورے بہت ابهرے ہوئے تهے۔ ميں نے اپنا ہاته

ليا اور کانپتی ہوئی آواز ميں کہا۔ ہڻا

"آپ عليل ہيں، کيا ميں آپ کو گهر چهوڑ آؤں؟"

يہ انتقام ہے جو ميرے اندر گرم سانس لے "اس نے زور سے اپنے سر کو ہاليا۔ " نہيں ميرے عزيز ميں عليل نہيں ہوں۔" "ہ شعلوں ميں تبديل ہو جائے۔رہا ہے۔ ميں اس دبی ہوئی آگ کو اپنے گيتوں کے دامن سے ہوا دے رہا ہوں کہ ي

يہ درست ہے مگر آپ کی طبيعت واقعتہ خراب ہے، آپ کے ہاته بہت گرم ہيں، اس سردی ميں آپ کو زياده بخار ہو " "جانے کا انديشہ ہے۔

اسکے ہاتهوں کی غير معمولی گرمی اور آنکهوں ميں ابهرے ہوئے سرخ ڈورے صاف طور پر ظاہر کر رہے تهے کہ بخار ہے۔ اسے کافی

اس نے ميرے کہنے کی کوئی پروا نہ کی اور جيبوں ميں ہاته ڻهونس کر ميری طرف بڑے غور سے ديکهتے ہوئے کہا۔

يہ کيونکر ہو سکتا ہے کہ لکڑی جلے اور دهواں نہ دے۔ ميرے عزيز ان آنکهوں نے ايسا سماں ديکها ہے کہ انہيں ابل "تهے کہ ميں عليل ہوں۔۔۔۔۔۔ہا، ہا، ہا۔۔۔۔۔۔۔عاللت، کاش کہ سب لوگ ميری طرح کر باہر نکل آنا چاہيئے تها۔ کيا کہہ رہے

"عليل ہوتے، جايئے آپ ايسے نازک مزاج ميری آہوں کے خريدار نہيں ہو سکتے۔

"مگر۔۔۔۔۔۔۔۔"

جو انسانيت کے بازار ميں صرف تم لوگ باقی ره گئے ہو "وه دفعتہ جوش ميں چالنے لگا۔ " مگر وگر کچه نہيں۔"کهوکهلے قہقہوں اور پهيکے تبسموں کے خريدار ہو۔ ايک زمانے سے تمهارے مظلوم بهائيوں اور بہنوں کی فلک شگاف چيخيں تمهارے کانوں سے ڻکرا رہی ہيں مگر تمهاری خوابيده سماعت ميں ارتعاش پيدا نہيں ہوا۔ آؤ اپنی روحوں کو ميری

"آہوں کی آنچ دو، يہ انہيں حساس بنا دے گی۔

qalamurdu.com

Page 44: آتش پارے.pdf

44

ميں اسکی گفتگو کو غور سے سن رہا تها، ميں حيران تها کہ وه چاہتا کيا ہے اور اسکے خياالت اس قدر پريشان و مضطرب کيوں ہيں۔ بيشتر اوقات ميں نے خيال کيا کہ شايد وه پاگل ہے۔ اسکی گفتگو با معنی ضرور تهی مگر لہجے ميں

يس تيس برس کے قريب ہوگی، ڈاڑهی کے بال جو ايک ايک عجيب قسم کی ديوانگی تهی۔ اسکی عمر يہی کوئی پچعرصے سے مونڈے نہ گئے تهے کچه اس انداز ميں اس کے چہرے پر اگے ہوئے تهے کہ معلوم ہوتا تها کسی خشک روڻی پر بہت سی چيونڻياں چمڻی ہوئی ہيں۔ گال اندر کو پچکے ہوئے تهے، ماتها باہر کی طرف ابهرا ہوا، ناک نوکيلی،

ی جن سے وحشت ڻپکتی تهی، سر پر خشک اور خاک آلود بالوں کا ايک ہجوم۔ بڑے سے بهورے کوٹ ميں وه آنکهيں بڑ واقعی شاعر معلوم ہو رہا تها، ايک ديوانہ شاعر، جيسا کہ اس نے خود اس نام سے اپنے آپ کو متعارف کرايا تها۔

اعت کے خياالت ديوانے شاعر کے خياالت سے ميں نے اکثر اوقات اخباروں ميں ايک جماعت کا حال پڑها تها، اس جم بہت حد تک ملتے جلتے تهے، ميں نے خيال کيا کہ شايد وه بهی اسی جماعت کا رکن ہے۔

"آپ انقالبی معلوم ہوتے ہيں۔"

آپ نے يہ بہت بڑا انکشاف کيا ہے، مياں ميں تو کوڻهوں کی چهتوں پر چڑه چڑه کر "اس پر وه کهل کهال کر ہنس پڑا۔ تا ہوں، ميں انقالبی ہوں، ميں انقالبی ہوں، مجهے روک لے جس سے بن پڑتا ہے، آپ نے واقعی بہت بڑا انکشاف پکار

"کيا ہے۔

يہ کہہ کر ہنستے ہوئے وه اچانک سنجيده ہوگيا۔

اور سکول کے ايک طالب علم کی طرح انقالب کے حقيقی معانی سے تم بهی نا آشنا ہو۔ انقالبی وه ہے جو ہر نا انصافی"ہر غلطی پر چال اڻهے، انقالبی وه ہے جب سب زمينوں سب آسمانوں سب زبانوں اور سب وقتوں کا ايک مجسم گيت ہو۔

انقالبی، سماج کے قصاب خانے کی ايک بيمار اور فاقوں مری بهيڑ نہيں، وه ايک مزدور ہے تنو مند جو اپنے آہنی ر سکتا ہے۔ ميرے عزيز، يہ منطق، خوابوں اور نظريوں ہتهوڑے کی ايک ضرب سے ہی ارضی جنت کے دروازے وا ک

کا زمانہ نہيں، انقالب ايک ڻهوس حقيقت ہے۔ يہ يہاں پر موجود ہے، اسکی لہريں بڑه رہی ہيں، کون ہے جو اب اس کو "روک سکتا ہے يہ بند باندهنے پر نہ رک سکيں گی۔

ر پڑ کر اسکی شکل تبديل کر رہا ہو۔ ميں نے محسوس اسکا ہر لفظ ہتهوڑے کی اس ضرب کی مانند تها جو سرخ لوہے پ کيا کہ ميری روح کسی غير مرئی چيز کو سجده کر رہی ہے۔

شام کی تاريکی بتدريج بڑه رہی تهی، نيم کے درخت کپکپا رہے تهے، ميرے سينے ميں ايک نيا جہان آباد ہو رہا تها۔ ل گئے۔ اچانک ميرے دل سے کچه الفاظ اڻهے اور لبوں سے باہر نک

"اگر انقالب يہی ہے تو ميں بهی انقالبی ہوں۔"

شاعر نے اپنا سر اڻهايا اور ميرے کاندهے پر ہاته رکهتے ہوئے کہا۔

تو پهر اپنے خون کو کسی طشتری ميں نکال کر رکه چهوڑو کہ ہميں آزادی کے کهيت کے ليے اس سرخ کهاد کی بہت " "خوشگوار ہوگا جب ميری آہوں کی زردی تبسم کا رنگ اختيار کر لے گی۔ضرورت محسوس ہوگی، آه وه وقت کس قدر

اس دنيا ميں ايسے لوگ موجود "يہ کہہ کر وه کنوئيں کی منڈير سے اڻها اور ميرے ہاته کو اپنے ہاته ميں ليکر کہنے لگا۔ ہميشہ دور رہنے کی سعی ہيں جو حال سے مطمئن ہيں اگر تمهيں اپنی روح کی باليدگی منظور ہے تو ايسے لوگوں سے

کرنا، انکا احساس پتهرا گيا ہے۔ مستقبل کے جاں بخش مناظر انکی نگاہوں سے ہميشہ اوجهل رہيں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچها اب "ميں چلتا ہوں۔

اس نے بڑے پيار سے ميرا ہاته دبايا اور پيشتر اسکے کہ ميں اس سے کوئی اور بات کرتا وه لمبے قدم اڻهاتا ہوا کے جهنڈ ميں غائب ہو گيا۔ جهاڑيوں

qalamurdu.com

Page 45: آتش پارے.pdf

45

باغ کی فضا پر خاموشی طاری تهی، ميں سر جهکائے ہوئے خدا معلوم کتنا عرصہ اپنے خياالت ميں غرق رہا کہ اچانک کی دلنواز خوشبو ميں گهلی ہوئی ميرے کانوں تک پہنچی۔ وه باغ کے دوسرے گوشے ' رات کی رانی'اس شاعر کی آواز

ميں گا رہا تها۔

زمين ستاروں کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے ديکه رہی ہے

اڻهو اور ان نگينوں کو اسکے ننگے سينے پر جڑ دو

ڈهاؤ، کهودو، چيرو، مارو

نئی دنيا کے معمارو، کيا تمهارے بازؤں ميں قوت نہيں ہے؟

ميں آہوں کا بيوپاری ہوں

لہو کی شاعری ميرا کام ہے

ميں کتنے عرصے تک بيڻها رہا يہ مجهے قطعا ياد نہيں۔ والده کا بيان ہے کہ ميں اس روز گيت ختم ہونے پر ميں باغ گهر بہت دير سے آيا تها۔

qalamurdu.com

Page 46: آتش پارے.pdf

46

چوری

سکول کے تين چار لڑکے االؤ کے گرد حلقہ بنا کر بيڻه گئے اور اس بوڑهے آدمی سے " بابا جی کوئی کہانی سنائيے۔" تاپنے کی خاطر االؤ کی طرف بڑهائے ہوئے تها، کہنے لگے۔ جو ڻاٹ پر بيڻها اپنے استخوانی ہاته آگ

مرد معمر نے جو غالبا کسی گہری سوچ ميں غرق تها، اپنا بهاری سر اڻهايا جو گردن کی الغری کی وجہ سے نيچے کو جهکا ہوا تها۔

"کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ميں خود ايک کہانی ہوں، مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

پنے پوپلے منہ ميں ہی بڑبڑائے، شايد وه اس جملہ کو لڑکوں کے سامنے ادا کرنا نہيں اس کے بعد کے الفاظ اس نے ا چاہتا تها جنکی سمجه اس قابل نہ تهی کہ وه اس قسم کے فلسفيانہ نکات حل کر سکيں۔

لکڑی کے ڻکڑے ايک شور کے ساته جل جل کر االؤ کے آتشيں شکم کو پر کر رہے تهے۔ شعلوں کی عنابی روشنی کے معصوم چہروں پر ايک عجيب انداز ميں رقص کر رہی تهی۔ ننهی ننهی چنگارياں سپيد راکه کی نقاب الٹ الٹ لڑکوں

کر حيرت ميں سر بلند شعلوں کا منہ تک رہی تهيں۔ درختوں کے خشک پتے بڑی دليری سے آگ کا مقابلہ کرتے ہوئے ے جهونکے کوڻهڑی کی گرم فضا کا استقبال کرتے اس شعلہ افشاں قبر ميں ہميشہ کے لئے کود رہے تهے۔ سرد ہوا ک

ہوئے اسکے ساته بڑی گرمجوشی سے بغلگير ہو رہے تهے، کونے ميں مڻی کا ايک ديا اپنی کمزور روشنی پر آنسو بہا رہا تها۔

ر کہا۔ بوڑهے آدمی نے االؤ کی روشنی ميں سے لڑکوں کی طرف نگاہيں اڻها ک" کہانی۔۔۔۔۔۔ہر روز کہانی، کل سناؤں گا۔"

لڑکوں کے تمتمائے ہوئے چہروں پر افسردگی چها گئی، نا اميدی کے عالم ميں وه ايک دوسرے کا منہ تکنے لگے گويا وه آنکهوں ہی آنکهوں ميں کہہ رہے تهے، آج رات کہانی سنے بغير سونا ہوگا۔

تها، االؤ کے قريب تر سرک کر بلند يکايک ان ميں سے ايک لڑکا جو دوسروں کی نسبت بہت ہوشيار اور ذہين معلوم ہوتا آواز ميں بوال۔

مگر کل آپ نے وعده کيا تها اور وعده خالفی کرنا درست نہيں ہے، کيا آپ کو کل والے حامد کا انجام ياد نہيں جو ہميشہ " "اپنا کہا بهول جاتا تها۔

يا جيسے وه اپنی بهول پر نادم ہے۔ تهوڑی بوڑهے آدمی نے يہ کہتے ہوئے اپنا سر جهکا ل" درست۔۔۔۔۔ميں بهول گيا تها۔"ميرے بچے مجه سے غلطی ہو گئی ہے معاف کر دو، "دير بعد وه اس دلير لڑکے کی جرأت کا خيال کر کے مسکرايا۔

يہ کہتے ہوئے وه سر جهکا کر گہری سوچ ميں غرق ہو " مگر ميں کونسی کہانی سناؤں، ڻهہرو مجهے ياد کر لينے دو۔ گيا۔

پريوں کی ال يعنی داستانوں سے سخت نفرت تهی، وه بچوں کی وہی کہانياں سنايا کرتا تها جو انکے دل و اسے جن اوردماغ کی اصالح کر سکيں۔ اسے بہت سے فضول قصے ياد تهے جو اس نے اپنے ايام طفلی ميں سنے تهے يا کتابوں

ا تها کہ شايد ان ميں کوئی خوابيده راگ جاگ سے پڑهے تهے مگر اس وقت وه اپنے بربط پيری کے بوسيده تار چهيڑ رہ اڻهے۔

لڑکے بابا جی کو خاموش ديکه کر آپس ميں آہستہ آہستہ گفتگو کر رہے تهے، غالبا وه کسی لڑکے کا ذکر کر رہے تهے جسے کتاب چرانے پر بيد کی سزا ملی تهی۔ باتوں باتوں ميں ان ميں سے کسی نے بلند آواز ميں کہا۔

"ے لڑکے نے بهی تو ميری کتاب چرا لی تهی مگر اسے سزا وزا نہ ملی تهی۔ماسڻر جی ک"

qalamurdu.com

Page 47: آتش پارے.pdf

47

ان چار لفظوں نے جو پوری آواز ميں ادا کئے گئے تهے، بوڑهے کی خفتہ ياد ميں ايک واقعے کو " کتاب چرا لی تهی۔"انگڑائياں ليتے ہوئے پايا۔ جگا ديا۔ اس نے اپنا سپيد سر اڻهايا اور اپنی آنکهوں کے سامنے اس فراموش کرده داستان کو

ايک لمحے کيليئے اسکی آنکهوں ميں چمک پيدا ہوئی مگر ساته ہی وہيں غرق ہو گئی۔۔۔۔۔۔اضطراب کی حالت ميں اس نے اپنے نحيف جسم کو جنبش دے کر االؤ کے قريب کيا۔ اسکے چہرے کے تغير و تبدل سے صاف طور پر عياں تها کہ وه

ر کے بہت تکليف محسوس کر رہا ہے۔ کسی واقعے کو دوباره ياد ک

االؤ کی روشنی بدستور لڑکوں کے چہروں پر ناچ رہی تهی۔۔۔۔۔ديا اسی طرح اپنے جلے نصيبوں کو رو رہا تها۔ کوڻهڑی کے باہر رات سياه زلفيں بکهيرے روشنی کی طرف اپنی تاريک آنکهيں پهاڑ پهاڑ کر ديکه رہی تهی۔ لڑکے آپس ميں

ے ميں مشغول تهے، چهت جهک کر انکی معصوم باتوں کو کان لگا کر سن رہی تهی۔ سکول کی باتيں کرن

"بچو، آج ميں اپنی کہانی سناؤں گا۔"دفعتا بوڑهے نے آخر اراده کرتے ہوئے کہا۔

لڑکے فورا اپنی گفتگو چهوڑ کر ہمہ تن گوش ہو گئے۔ االؤ کی چيختی ہوئی لکڑياں ايک شور کے ساته اپنی جگہ پر ابهر کر خاموش ہو گئيں۔۔۔۔۔۔ايک لمحے کيليئے فضا پر مکمل سکوت طاری رہا۔

ے بيڻه گئے۔ ايک لڑکے نے خوش ہو کر کہا۔ باقی سرک کر آگ کے قريب خاموشی س" اپنی کہانی سنائيں گے؟"

يہ کہہ کر بوڑهے آدمی نے اپنی جهکی ہوئی گهنی بهوؤں ميں سے کوڻهڑی کے باہر تاريکی ميں " ہاں، اپنی کہانی۔"ميں آج تمهيں اپنی پہلی چوری کی داستان سناؤں "ديکهنا شروع کيا۔ تهوڑی دير کے بعد وه پهر لڑکوں سے مخاطب ہوا۔

"گا۔

ديکهنے لگے، انہيں در اصل يہ وہم و گمان بهی نہ تها کہ بابا جی کسی زمانے لڑکے حيرت سے ايک دوسرے کا منہ ميں چوری بهی کرتے رہے ہيں۔ بابا جی جو ہر وقت انہيں برے کاموں سے بچنے کيليئے نصيحت کيا کرتے ہيں۔

"کيا تها؟ مگر کيا آپ نے واقعی چوری کا ارتکاب"لڑکا جو ان سب ميں دلير تها اپنی حيرانی نہ چهپا سکا۔

"واقعی"

"آپ اس وقت کونسی جماعت ميں پڑها کرتے تهے؟"

"نويں ميں"

يہ سنکر لڑکے کی حيرت اور بهی بڑه گئی، اسے اپنے بهائی کا خيال آيا جو نويں جماعت ميں تعليم پا رہا تها، وه اس کتابيں پڑها ہوا تها اور اسے ہر وقت سے عمر ميں دوگنا تها۔ اسکی تعليم اس سے کہيں زياده تهی، وه انگريزی کی کئی

نصيحتيں کيا کرتا تها۔ پهر يہ کيونکر ممکن تها کہ اس عمر کا لڑکا اور اچها پڑها لکها لڑکا چوری کرے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسکی عقل اس معمے کو نہ حل کر سکی، چنانچہ اس نے پهر سوال کيا۔

"آپ نے چوری کيوں کی؟"

ڑی دير کيليئے بہت گهبرايا، آخر وه اسکا کيا جواب دے سکتا تها کہ فالں کام اس نے يہ مشکل سوال ديکه کر بوڑها تهو "اس ليئے کہ اس وقت دماغ ميں يہی خيال آيا۔"کيوں کيا؟ بظاہر اسکا جواب يہی ہو سکتا تها

عن بيان کر بوڑهے نے دل ميں يہی جواب سوچا مگر اس سے مطمئن نہ ہو کر يہی بہتر خيال کيا کہ تمام داستان من و دی جائے، اس ليئے کہ وه بذات خود اس سوال کا سب سے آسان جواب ہے۔

"اسکا جواب ميری کہانی ہے جو تمهيں سنانے واال ہوں۔"

qalamurdu.com

Page 48: آتش پارے.pdf

48

"سنائيے۔"

لڑکے اس بوڑهے آدمی کی چوری کا حال سننے کيليئے اپنی اپنی جگہ پر جم کر بيڻه گئے، جو االؤ کے سامنے اپنے نگليوں سے کنگهی کر رہا تها اور جسے وه ايک بہت بڑا آدمی خيال کرتے تهے۔ سپيد بالوں کو ا

مرد معمر کچه عرصے تک خاموش اپنے بالوں ميں انگلياں پهيرتا رہا پهر اس بهولے ہوئے واقعے کے تمام منتشر ڻکڑے فراہم کر کے بوال۔

ايسی حرکت ضرور کرتا ہے جس پر وه تمام عمر ہر شخص خواه وه بڑا ہو يا چهوڻا، اپنی زندگی ميں کوئی نہ کوئی " "نادم رہتا ہے۔ ميری زندگی ميں سب سے برا فعل ايک کتاب کی چوری ہے۔

يہاں تک پہنچ کر وه رک گيا، اسکی آنکهيں جو ہميشہ ايک ناقابل انداز ميں چمکتی رہتی تهيں، دهندلی پڑ گئيں۔ اسکے اقعے کو بيان کرتے ہوئے زبردست ذہنی تکليف کا سامنا کر رہا ہے۔ چہرے کی تبديلی سے صاف ظاہر تها کہ وه اس و

چند لمحات کے توقف کے بعد وه پهر گويا ہوا۔

سب سے مکروه فعل کتاب کی چوری ہے جو ميں نے ايک کتب فروش کی دکان سے چرائی۔ يہ اس زمانے کا ذکر ہے "ا کہ اب تمهيں کہانی سننے کا شوق ہے، مجهے افسانے يا جب ميں نويں جماعت ميں تعليم پا رہا تها۔ قدرتی طور پر جيس

ناول پڑهنے کا شوق تها۔۔۔۔۔۔۔۔نہيں خبط تها۔ دوستوں سے مانگ کر يا خود خريد کر ميں ہر ہفتے ايک نہ ايک کتاب ضرور مطالعہ کيا کرتا تها۔ وه کتابيں عموما عشق و محبت کی بے معنی داستانيں يا فضول جاسوسی قصے ہوا کرتے

تهے۔

يہ کتابيں ميں ہميشہ چهپ چهپ کر پڑها کرتا تها، ميرے والدين کو ميری اس حرکت کی کوئی خبر نہ تهی، اگر انہيں معلوم ہوتا تو وه مجهے ہر گز ايسا نہ کرنے ديتے، اس ليئے کہ اس قسم کی کتابيں سکول کے لڑکے کيليئے بہت نقصان

تها، چنانچہ مجهے اسکا نتيجہ بهگتنا پڑا۔۔۔۔۔۔۔ميں نے چوری کی اور پکڑا ده ہوتی ہيں۔ ميں انکے مہلک نقصان سے غافل "گيا۔

ايک لڑکے نے حيرت زده ہو کر کہا۔ " آپ پکڑے گئے؟"

ہاں پکڑا گيا۔۔۔۔۔۔چونکہ ميرے والدين اس واقعے سے بالکل بے خبر تهے۔ يہ عادت پکتے پکتے ميری طبيعت بن گئی۔ "ی ناول کی ضرورت الحق ہونے لگی۔ گهر سے جتنے پيسے ملتے ميں انہيں جوڑ جوڑ اب مجهے ہر روز ايک کتاب يعن

کر بازار سے افسانوں کی کتابيں خريدنے ميں صرف کر ديتا۔ سکول کی پڑهائی سے رفتہ رفتہ مجهے نفرت ہونے لگی۔ ئی ہے ضرور پڑهنی پس ہر وقت ميرے دل ميں يہی خيال سمايا رہتا کہ فالں کتاب جو فالں ناول نويس کی لکهی ہو

چاہيئے، يا فالں کتب فروش کے پاس نئی ناولوں کا ايک ذخيره موجود ہے وه ايک نظر ضرور ديکهنا چاہيئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔شوق کی يہ انتہا دوسرے معنوں ميں ديوانگی ہے۔ اس حالت ميں انسان کو معلوم نہيں ہوتا کہ وه کيا کرنيواال ہے يا کيا کر رہا

ے عقل بچے کی مانند ہوتا ہے جو اپنی طبيعت خوش کرنے يا شوق پورا کرنے کيليئے جلتی ہوئی ہے۔ اس وقت وه ايک بآگ ميں ہاته ڈال ديتا ہے۔ اسے يہ پتا نہيں ہوتا کہ وه چمکنے والی شے جسے وه پکڑ رہا ہے اسکا ہاته جال دے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وتا ہے اسليئے وه بغير سمجهے بوجهے بری سے ڻهيک يہی حالت ميری تهی۔ فرق اتنا ہے کہ بچہ شعور سے محروم ہبری حرکت کر بيڻهتا ہے مگر ميں نے عقل کا مالک ہوتے ہوئے چوری ايسے مکروه جرم کا ارتکاب کيا۔ يہ آنکهوں کی

موجودگی ميں ميرے اندهے ہونے کی دليل ہے۔ ميں ہر گز ايسا کام نہ کرتا اگر ميری عادت مجهے مجبور نہ کرتی۔

ے دماغ ميں شيطان موجود ہوتا ہے جو وقتا فوقتا اسے برے سے برے کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ يہ ہر انسان ک "شيطان مجه پر اس وقت غالب آيا جب کہ سوچنے کيليئے بہت کم وقت تها۔۔۔۔۔۔۔۔۔خير۔

استان کا لڑکے خاموشی سے بوڑهے کے ہلتے ہوئے لبوں کی طرف نگاہيں گاڑے اسکی داستان کو سن رہے تهے۔ دتسلسل اس وقت ڻوڻتے ديکه کر جب کہ اصل مقصد بيان کيا جانے واال تها وه بڑی بيقراری سے بقايا تفصيل کا انتظار

کرنے لگے۔

qalamurdu.com

Page 49: آتش پارے.pdf

49

بوڑهے نے اپنا کمبل گهڻنوں پر ڈالتے ہوئے کہا۔ " مسعود بيڻا، يہ سامنے واال دروازه تو بند کر دينا، سرد ہوا آ رہی ہے۔"

کہہ کر اڻها اور کوڻهڑی کا دروازه بند کرنے کے بعد اپنی جگہ پر بيڻه گيا۔ " جی اچها بابا"مسعود

مجهے بهی کوئی خاص "بوڑهے نے اپنی داستان سنانا شروع کر دی۔ " ہاں تو ايک دن جب کہ والد گهر سے باہر تهے۔"يرے جی ميں آئی کہ چلو فالں کتب کام نہ تها اور وه کتاب جو ميں ان دنوں پڑه رہا تها قريب االختتام تهی، اسليئے م

فروش تک ہو آئيں جسکے پاس بہت سی جاسوسی ناوليں پڑی ہوئی تهيں۔

ميری جيب ميں اس وقت کچه پيسے موجود تهے جو ايک معمولی ناول کے دام ادا کرنے کيليئے کافی تهے چنانچہ ميں وقت بہت اچهی اچهی ناوليں موجود رہتی تهيں گهر سے سيدها اس کتب فروش کی دکان پر گيا۔ يوں تو اس دکان پر ہر

مگر اس دن خاص طور پر بالکل نئی کتابوں کا ايک ڈهير باہر تختے پر رکها ہوا تها۔ ان کتابوں کے رنگ برنگے سر ورق ديکه کر ميری طبيعت ميں ايک ہيجان سا برپا ہو گيا۔ دل ميں يہ خواہش گدگدانے لگی کہ وه تمام ميری ملکيت بن

جائيں۔

ميں دکاندار سے اجازت ليکر ان کتابوں کو ايک نظر ديکهنے ميں مشغول ہو گيا۔ ہر کتاب کے شوخ سر ورق پر اس قسم کی کوئی نہ کوئی عبارت لکهی ہوئی تهی۔

"يہ نا ممکن ہے کہ اس کا مطالعہ آپ پر سنسنی نہ طاری کر دے۔"

"مصور اسرار کا الثانی شاہکار۔"

"رومان۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب يکجاتمثيل، ہيجان، "

اس قسم کی عبارتيں اشتياق بڑهانے کيليئے کافی تهيں مگر ميں نے کوئی خاص توجہ نہ دی اسليئے کہ ميری نظروں سے اکثر ايسے الفاظ گزر چکے تهے۔ گو اسکے ساته ہی مجهے يہ خواہش ضرور تهی کہ ميں ان کتابوں کا مالک بن

کو الٹ پلٹ کر ديکهتا رہا۔ اس وقت ميرے دل ميں چوری کرنے کا خيال مطلقا نہ جاؤں۔ خير ميں تهوڑا عرصہ کتابوں تها بلکہ ميں نے خريدنے کيليئے ايک کم قيمت کی ناول چن کر عليحده کر رکهی تهی۔

تهوڑی دير کے بعد دل ميں يہ اراده کر کے کہ ميں دوسرے ہفتے ان ناولوں کو دوباره ديکهنے آؤنگا، ميں نے اپنی خاب کرده کتاب اڻهائی، کتاب کا اڻهانا تها کہ ميری نگاہيں ايک مجلد ناول پر گڑ گئيں۔ سر ورق کے ايک کونے پر انت

ميرے محبوب ناولسٹ کا نام سرخ لفظوں ميں چهپا ہوا تها، اسکے ذرا اوپر کتاب کا نام تها۔

"اراده کيا۔منتقم شعاعيں۔۔۔۔۔۔۔کسطرح ايک ديوانے ڈاکڻر نے لندن کو تباه کرنے کا "

يہ سطور پڑهتے ہی ميرے اشتياق ميں ايک قسم کی طغيانی آ گئی۔ کتاب کا وہی مصنف، جس نے اس سے پيشتر مجه پر راتوں کی نيند حرام کر رکهی تهی۔ ناول کو ديکهتے ہی ميرے دماغ ميں خياالت کا ايک گروه داخل ہو گيا۔

۔۔۔۔کيسا دلچسپ افسانہ ہوگا۔ منتقم شعاعيں۔۔۔۔۔۔۔ديوانے ڈاکڻر کی ايجاد۔۔۔۔"

لندن تباه کرنے کا اراده۔۔۔۔۔۔۔يہ کسطرح ہو سکتا ہے؟

اس مصنف نے فالں فالں کتابيں کتنی سنسنی خيز لکهی ہيں۔

"يہ کتاب ضرور ان سے بہتر ہوگی۔

qalamurdu.com

Page 50: آتش پارے.pdf

50

کر رہے تهے۔ ميں خاموش اس کتاب کی طرف ديکه رہا تها اور يہ خياالت يکے بعد ديگرے ميرے کانوں ميں شور برپا ميں نے اس کتاب کو اڻهايا اور کهول کر ديکها تو پہلے ورق پر يہ عبارت نطر آئی۔

"مصنف اس کتاب کو اپنی بہترين تصنيف قرار ديتا ہے۔"

ان الفاظ نے ميرے اشتياق کی آگ ميں ايندهن کا کام ديا۔ دفعتا ميرے دماغ کے خدا معلوم کس گوشے سے ايک خيال کود ہ کہ ميں اس کتاب کو اپنے کوٹ ميں چهپا کر لے جاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ميری آنکهيں بے اختيار کتب فروش کی طرف پڑا وه ي

مڑيں جو ايک کاغذ پر کچه لکهنے ميں مشغول تها۔ دکان کی دوسری طرف دو نوجوان کهڑے ميری طرح کتابيں ديکه "رہے تهے۔۔۔۔۔۔۔ميں سر سے پير تک لرز گيا۔

ا نحيف جسم اس واقعے کی ياد سے کانپا، تهوڑی دير خاموش ره کر اس نے پهر اپنی داستان يہ کہتے ہوئے بوڑهے ک شروع کر دی۔

ايک لحظے کے لئے ميرے دل ميں يہ خيال پيدا ہوا کہ چوری کرنا بہت برا کام ہے مگر ضمير کی يہ آواز سر ورق پر "کی گردان کر رہا تها۔ ميں نے ' منتقم شعاعيں' 'قم شعاعيںمنت'بنی ہوئی النبی النبی شعاعوں ميں غرق ہو گئی۔ ميرا دماغ

ادهر ادهر جهانکا اور جهٹ سے وه کتاب کوٹ کے اندر بغل ميں دبا لی۔۔۔۔۔۔يہ کرتے ہوئے ميرے دونوں ہاته اور ڻانگيں بڑے زور سے کانپ رہے تهے۔

ا کر ديئے جو ميں نے پہلے منتخب کی اس حالت پر قابو پا کر ميں کتب فروش کے قريب گيا اور اس کتاب کے دام ادتهی۔ قيمت ليتے وقت اور روپے ميں سے باقی پيسے واپس کرنے ميں اس نے غير معمولی تاخير لگا دی۔ اسکے عالوه

وه ميری طرف اس وقت عجيب نگاہوں سے ديکه رہا تها جس سے ميری طبيعت سخت پريشان ہو رہی تهی۔ جی يہی چاہتا وہاں سے بهاگ نکلوں۔ تها کہ سب کچه چهوڑ کر

اس دوران ميں ميں نے کئی بار اس جگہ پر جو کتاب کی وجہ سے ابهری ہوئی تهی، نگاه ڈالی۔۔۔۔۔۔اور شايد اسے چهپانے کی بے سود کوشش بهی کی۔ ميری ان عجيب حرکتوں کو ديکه کر اسے شک ضرور ہوا اسليئے کہ وه بار بار کچه کہنے

جاتا تها۔ کی کوشش کر کے پهر خاموش ہو

ميں نے باقی پيسے جلدی سے پکڑے اور وہاں سے چل ديا۔ دو سو قدم کے فاصلے پر ميں نے کسی کی آواز سنی، مڑ کر ديکها تو کتب فروش ننگے پاؤں چال آ رہا تها اور مجهے ڻهہرنے کيليئے کہہ رہا تها، يہ ديکهتے ہی ميں نے اندها

دهند بهاگنا شروع کر ديا۔

تها کہ ميں کدهر بهاگ رہا ہوں، اسکے عالوه ميں اپنے گهر کی جانب رخ کئے ہوئے نہ تها بلکہ ميں مجهے معلوم نہشروع ہی سے اس طرف بهاگ رہا تها جدهر بازار کا اختتام تها، اس غلطی کا مجهے اس وقت احساس ہوا جب دو تين

"آدميوں نے مجهے پکڑ ليا۔

نی خشک زبان لبوں پر پهيرنے لگا، کچه توقف کے بعد وه ايک لڑکے سے بوڑها اتنا کہہ کر اضطراب کی حالت ميں اپ "مسعود، پانی کا ايک گهونٹ تو پلوانا۔"مخاطب ہوا۔

مسعود خاموشی سے اڻها اور کوڻهڑی کے ايک کونے ميں پڑے ہوئے گهڑے سے گالس ميں پانی انڈيل کر لے آيا۔ "ہاں ميں کيا بيان کر رہا تها؟"ک ہی گهونٹ ميں سارا پانی پی ليا۔ بوڑهے نے گالس کو پکڑتے ہی منہ سے لگا ليا اور اي بوڑهے نے خالی گالس کو زمين پر رکهتے ہوئے کہا۔

ايک لڑکے نے جواب ديا۔ " آپ بهاگے جا رہے تهے۔"

اپنے ميرے پيچهے کتب فروش چور، چور کی آواز بلند کرتا ہوا بهاگا چال آ رہا تها، جب ميں نے دو تين آدميوں کو"قريب پہنچتے ہوئے ديکها تو ميرے ہوش ڻهکانے نہ رہے۔ جيل کی آہنی سالخيں، پوليس اور عدالت کی تصويريں ايک

qalamurdu.com

Page 51: آتش پارے.pdf

51

ايک کر کے ميری آنکهوں کے سامنے رقص کرنے لگيں۔ بے عزتی کا خيال آتے ہی ميری پيشانی عرق آلود ہو گئی، اب دے ديا۔ اس وقت ميرے دماغ کی عجيب حالت تهی، ايک تند ميں لڑکهڑايا اور گر پڑا، اڻهنا چاہا تو ڻانگوں نے جو

دهواں سا ميرے سينے ميں کروڻيں لے رہا تها۔ آنکهيں فرط خوف سے ابل رہی تهيں اور کانوں ميں ايک زبردست شور ی برپا تها جيسے بہت سے لوگ آہنی چادروں کو ہتهوڑوں سے کوٹ رہے ہيں، ميں ابهی اڻه کر بهاگنے کی کوشش کر ہ

رہا تها کہ کتب فروش اور اسکے ہمراه دو تين آدميوں نے مجهے پکڑ ليا، اس وقت ميری کيا حالت تهی، اسکا بيان کرنا بہت دشوار ہے، سينکڑوں خياالت پتهروں کی طرح ميرے دماغ کے ساته ڻکرا ڻکرا کر مختلف قسم کی آوازيں پيدا کر

ہوا کہ آہنی پنجرے نے ميرے دل کو پکڑ کر مسل ڈاال ہے، ميں رہے تهے۔ جب انہوں نے مجهے پکڑا تو ايسا معلوم بالکل خاموش تها اور وه مجهے دکان کی طرف کشاں کشاں لے جا رہے تهے۔

جيل خانے کی کوڻهڑی يا عدالت کا دروازه ديکهنا يقينی تها، يہ خيال کرتے ہوئے ميرے ضمير نے مجه پر لعنت مالمت ہونا تها، ہو چکا تها اور ميرے پاس اپنے ضمير کو جواب دينے کيليئے کوئی الفاظ کرنا شروع کر دی۔ چونکہ اب جو

"موجود نہ تهے، ميری گرم آنکهوں ميں آنسو اتر آئے اور ميں نے بے اختيار رونا شروع کر ديا۔

يہ کہتے ہوئے بوڑهے کی دهندلی آنکهيں نمناک ہو گئيں۔

" اپنی کتاب لے لی اور ڻهوڑی دير نصيحت کرنے کے بعد چهوڑ ديا۔کتب فروش نے مجهے پوليس کے حوالے نہ کيا، "خدا اس کو جزائے خير دے، ميں عدالت کے دروازے سے تو "بوڑهے نے اپنے آنسو کمبل سے خشک کرتے ہوئے کہا۔

قے بچ گيا مگر اس واقعے کی والد اور سکول کے لڑکوں کو خبر ہوگئی، والد مجه پر سخت خفا ہوئے اور ہر ممکن طري سے مجهے اس مکروه فعل پر شرم دالنے کے بعد معاف کر ديا۔

دو تين روز مجهے اس ندامت ميں بخار آتا رہا، اسکے بعد جب ميں نے ديکها کہ ميرا دل کسی کروٹ آرام نہيں ليتا اور مجه ميں اتنی قوت نہيں کہ ميں لوگوں کے سامنے اپنی نگاہيں اڻها سکوں تو ميں شہر چهوڑ کر وہاں سے ہميشہ کيليئے

ختلف شہروں کی خاک چهانی ہے، ہزاروں مصائب برداشت کئے روپوش ہو گيا۔ اس وقت سے ليکر اب تک ميں نے م ہيں۔۔۔۔۔۔۔۔صرف اس کتاب کی چوری کی وجہ سے، جو مجهے تا دم مرگ نادم و شرمسار رکهے گی۔

اس آواره گردی کے دوران ميں ميں نے اور بهی بہت سی چورياں کيں، ڈاکے ڈالے اور ہميشہ پکڑا گيا، مگر ميں ان پر "مجهے فخر ہے۔ نادم نہيں ہوں،

يہ کہتے ہوئے بوڑهے کی دهندلی آنکهوں ميں پهر پہلی سی چمک نمودار ہو گئی اور اس نے االؤ کے شعلوں کو ڻکڻکی لگا کر ديکهنا شروع کر ديا۔

يہ الفاظ اسنے ڻهوڑے توقف کے بعد دوباره کہے۔ " ہاں، مجهے فخر ہے۔"

ک لمحہ فضا ميں تهر تهرا کر پهر االؤ کی آغوش ميں سو گيا۔ بوڑهے نے آگ کا ايک شعلہ نہ معلوم کيوں بلند ہوا اور اي شعلے کی جرأت ديکهی اور مسکرا ديا، پهر لڑکوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔

"کہانی ختم ہو گئی ہے، اب تم جاؤ، تمهارے والدين انتظار کرتے ہونگے۔"

ے سوال کيا۔ مسعود ن" مگر آپ کو اپنی دوسری چوريوں پر فخر کيوں ہے؟"

اسلئے کہ وه چورياں نہيں تهيں، اپنی سرقہ شده چيزوں کو دوباره حاصل کرنا "بوڑها مسکرايا۔ " آه، فخر کيوں ہے؟" "چوری نہيں ميرے عزيز، بڑے ہو کر تمهيں اچهی طرح معلوم ہو جائے گا۔

"ميں سمجها نہيں۔"

qalamurdu.com

Page 52: آتش پارے.pdf

52

ہ اسے ہر ممکن طريقے سے اپنے قبضے ميں لے آؤ، ہر وه چيز جو تم سے چرا لی گئی ہو، تمهيں حق حاصل ہے ک" "مگر ياد رہے تمهاری يہ کوشش کامياب ہونی چاہيئے ورنہ ايسا کرتے ہوئے پکڑے جانا اور اذيتيں اڻهانا عبث ہے۔

لڑکے اڻهے اور بابا جی کو شب بخير کہتے ہوئے کوڻهڑی کے دروازے سے باہر چلے گئے، بوڑهے کی نگاہيں انکو تاريکی ميں گم ہوتے ديکه رہی تهيں، تهوڑی دير اسی طرح ديکهنے کے بعد وه اڻها اور کوڻهڑی کا دروازه بند کرتے

ہوئے بوال۔

"واپس لے سکيں۔ آه، اگر بڑے ہو کر وه صرف کهوئی ہوئی چيزيں"

بوڑهے کو خدا معلوم ان لڑکوں سے کيا اميد تهی۔

("ساقی"اشاعت اوليں )

qalamurdu.com